صلح حدیبیہ کا ایک پہلو سورہ فتح کی تفسیر میں صلح حدیبیہ کا واقعہ مفصل بیان ہو چکا ہے ، اس صلح کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار قریش کے درمیان جو شرائط ہوئی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ جو کافر مسلمان ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلا جائے آپ اسے اہل مکہ کو واپس کر دیں ، لیکن قرآن کریم نے ان میں سے ان عورتوں کو مخصوص کر دیا کہ جو عورت ایمان قبول کر کے آئے اور فی الواقع ہو بھی وہ سچی ایمان دار تو مسلمان اسے کافروں کو واپس نہ دیں ، حدیث شریف کی تخصیص قرآن کریم سے ہونے کی یہ ایک بہترین مثال ہے اور بعض سلف کے نزدیک یہ آیت اس حدیث کی ناسخ ہے ۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ حضرت ام کلثوم بنت عقبہ بن ابو میط رضی اللہ تعالیٰ عنہا مسلمان ہو کر ہجرت کر کے مدینہ چلی آئیں ، ان کے دونوں بھائی عمارہ اور ولید ان کے واپس لینے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے کہا سنا پس یہ آیت امتحان نازل ہوئی اور مومنہ عورتوں کو واپس لوٹانے سے ممانعت کر دی گئی ، حضرت ابن عباس سے سوال ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان عورتوں کا امتحان کس طرح لیتے تھے؟ فرمایا اس طرح کہ اللہ کی قسم کھا کر سچ سچ کہے کہ وہ اپنے خاوند کی ناچاقی کی وجہ سے نہیں چلی آئی صرف آب و ہوا اور زمین کی تبدیلی کرنے کے لئے بطور سیرو سیاحت نہیں آئی کسی دنیا طلبی کے لئے نہیں آئی بلکہ صرف اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اسلام کی خاطر ترک وطن کیا ہے اور کوئی غرض نہیں ، قسم دے کر ان سوالات کا کرنا اور خوب آزما لینا یہ کام حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد تھا اور روایت میں ہے کہ امتحان اس طرح ہوتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے معبود برحق اور لاشریک ہونے کی گواہی دیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کے بندے اور اس کے بھیجے ہوئے رسول ہونے کی شہادت دیں ، اگر آزمائش میں کسی غرض دنیوی کا پتہ چل جاتا تو انہیں واپس لوٹا دینے کا حکم تھا ۔ مثلاً یہ معلوم ہو جائے کہ میاں بیوی کی ان بن کی وجہ سے یا کسی اور شخص کی محبت میں چلی آئی ہے وغیرہ ، اس آیت کے اس جملہ سے کہ اگر تمہیں معلم ہو جائے کہ یہ با ایمان عورت ہے تو پھر اسے کافروں کی طرف مت لوٹاؤ ثابت ہوتا ہے کہ ایمان پر بھی یقینی طور پر مطلع ہو جانا ممکن امر ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ مسلمان عورتیں کافروں پر اور کافر مرد مسلمان عورتوں کے لئے حلال نہیں ، اس آیت نے اس رشتہ کو حرام کر دیا ورنہ اس سے پہلے مومنہ عورتوں کا نکاح کافر مردوں سے جائز تھا ، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح ابو العاص بن ربیع سے ہوا تھا حالانکہ یہ اس وقت کافر تھے اور بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسلمہ تھیں ، بدر کی لڑائی میں یہ بھی کافروں کے ساتھ تھے اور جو کافر زندہ پکڑے گئے تھے ان میں یہ بھی گرفتار ہو کر آئے تھے حضرت زینب نے اپنی والدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہار ان کے فدیئے میں بھیجا تھا کہ یہ آزاد ہو کر آئیں جسے دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑی رقت طاری ہوئی اور آپ نے مسلمانوں سے فرمایا اگر میری بیٹی کے قیدی کو چھوڑ دینا تم پسند کرتے ہو تو اسے رہا کر دو مسلمانوں نے بہ خوشی بغیر فدیہ کے انہیں چھوڑ دینا منظور کیا چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر دیا اور فرما دیا کہ آپ کی صاحبزادی کو آپ کے پاس مدینہ میں بھیج دیں انہوں نے اسے منظور کر لیا اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بھیج بھی دیا ، یہ واقعہ سنہ 2 ہجری کا ہے ، حضرت زینب نے مدینہ میں ہی اقامت فرمائی اور یونہی بیٹھی رہیں یہاں تک کہ سنہ 8 ہجری میں ان کے خاوند حضرت ابو العاص کو اللہ تعالیٰ نے توفیق اسلام دی اور وہ مسلمان ہوگئے تو حضور نے پھر اسی اگلے نکاح بغیر نئے مہر کے اپنی صاحبزادی کو ان کے پاس رخصت کر دیا اور روایت میں ہے کہ دو سال کے بعد حضرت ابو العاص مسلمان ہوگئے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پہلے نکاح پر حضرت زینب کو لوٹادیا تھا یہی صحیح ہے اس لئے کہ مسلمان عورتوں کے مشرک مردوں پر حرام ہونے کے دو سال بعد یہ مسلمان ہوگئے تھے ، ایک اور روایت میں ہے کہ ان کے اسلام کے بعد نئے سرے سے نکاح ہوا اور نیا مہر بندھا ، امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت یزید نے فرمایا ہے پہلی روایت کے راوی حضرت ابن عباس ہیں اور وہ روایت ازروئے اسناد کے بہت اعلیٰ اور دوسری روایت کے راوی حضرت عمرو بن شعیب ہیں اور عمل اسی پر ہے ، لیکن یہ یاد رہے کہ عمرو بن شعیب والی روایت کے ایک راوی حجاج بن ارطاۃ کو حضرت امام احمد رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ ضعیف بتاتے ہیں ، حضرت ابن عباس والی حدیث کا جواب جمہوریہ دیتے ہیں کہ یہ شخصی واقعہ ہے ممکن ہے ان کی عدت ختم ہی نہ ہوئی ہو ، اکثر حضرات کا مذہب یہ ہے کہ اس صورت میں جب عورت نے عدت کے دن پورے کر لئے اور اب تک اس کا کافر خاوند مسلمان نہیں ہوا تو وہ نکاح فسخ ہو جاتا ہے ، ہاں بعض حضرات کا مذہب یہ بھی ہے کہ عدت پوری کر لینے کے بعد عورت کو اختیار ہے اگر چاہے اپنے اس نکاح کو باقی رکھے گار چاہے فسخ کر کے دوسرا نکاح کر لے اور اسی پر ابن عباس والی روایت کو محمول کرتے ہیں ۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ ان مہاجر عورتوں کے کافر خاوندوں کو ان کے خرچ اخراجات جو ہوئے ہیں وہ ادا کر دو جیسے کہ مہر ۔ پھر فرمان ہے کہ اب انہیں ان کے مہر دے کر ان سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی حرج نہیں ، عدت کا گذر جانا ولی کا مقرر کرنا وغیرہ جو امور نکاح میں ضروری ہیں ان شرائط کو پورا کر کے ان مہاجرہ عورتوں سے جو مسلمان نکاح کرنا چاہے کر سکتا ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تم پر بھی اے مسلمانو ان عورتوں کا اپنے نکاح میں باقی رکھنا حرام ہے جو کافرہ ہیں ، اسی طرح کافر عورتوں سے نکاح کرنا بھی حرام ہے اس کے حکم نازل ہوتے ہی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی دو کافر بیویوں کو فوراً طلاق دے دی جن میں سے ایک نے تو معاویہ بن سفیان سے نکاح کر لیا اور دوسری نے صفوان بن امیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں سے صلح کی اور ابھی تو آپ حدیبیہ کے نیچے کے حصے میں ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں سے کہہ دیا گیا کہ جو عورت مہاجرہ آئے اس کا با ایمان ہونا اور خلوص نیت سے ہجرت کرنا بھی معلوم ہو جائے تو اس کے کافر خاوندوں کو ان کے دیئے ہوئے مہر واپس کر دو اسی طرح کافروں کو بھی یہ حکم سنا دیا گیا ، اس حکم کی وجہ وہ عہد نامہ تھا جو ابھی ابھی مرتب ہوا تھا ۔ حضرت الفاروق نے اپنی جن دو کافرہ بیویوں کو طلاق دی ان میں سے پہلی کا نام قریبہ تھا یہ ابو امیہ بن مغیرہ کی لڑکی تھی اور دوسری کا نام ام کلثوم تھا جو عمرو بن حرول خزاعی کی لڑکی تھی حضرت عبید اللہ کی والدہ یہ ہی تھی ، اس سے ابو جہم بن حذیفہ بن غانم خزاعی نے نکاح کر لیا یہ بھی مشرک تھا ، اسی طرح اس حکم کے ماتحت حضرت طلحہ بن عبید اللہ نے اپنی کافرہ بیوی ارویٰ بنت ربیعہ بن حارث بن عبدامطلب کو طلاق دے دی اس سے خالد بن سعید بن عاص نے نکاح کر لیا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے تمہاری بیویوں پر جو تم نے خرچ کیا ہے اسے کافروں سے لے لو جبکہ وہ ان میں چلی جائیں اور کافروں کی عورتیں جو مسلمان ہو کر تم میں آ جائیں انہیں تم ان کا کیا ہوا خرچ دے دو ۔ صلح کے بارے میں اور عورتوں کے بارے میں اللہ کا فیصلہ بیان ہو چکا جو اس نے اپنی مخلوق میں کر دیا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی تمام تر مصلحتوں سے باخبر ہے اور اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا اس لئے کہ علی الاطلاق حکیم وہی ہے ۔ اس کے بعد کی آیت وان فاتکم الخ کا مطلب حضرت فتادہ رحمتہ اللہ علیہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ جن کفار سے تمہارا عہد و پیمان صلح و صفائی نہیں ، اگر کوئی عورت کسی مسلمان کے گھر سے جا کر ان میں جا ملے تو ظاہر ہے کہ وہ اس کے خاوند کا کیا ہوا خرچ نہیں دیں گے تو اس کے بدلے تمہیں بھی اجازت دی جاتی ہے کہ اگر ان میں سے کوئی عورت مسلمان ہو کر تم میں چلی آئے تو تم بھی اس کے خاوند کو کچھ نہ دو جب تک وہ نہ دیں ۔ حضرت زہری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مسلمانوں نے تو اللہ کے اس حکم کی تعمیل کی اور کافروں کی جو عورتیں مسلمان ہو کر ہجرت کر کے آئیں ان کے لئے ہوئے مہر ان کے خاوندوں کو واپس کئے لیکن مشرکوں نے اس حکم کے ماننے سے انکار کر دیا اس پر یہ آیت اتری اور مسلمانوں کو اجازت دی گئی کہ اگر تم میں سے کوئی عورت ان کے ہاں چلی گئی ہے اور انہوں نے تمہاری خرچ کی ہوئی رقم ادا نہیں کی تو جب ان میں سے کوئی عورت تمہارے ہاں آ جائے تو تم اپناوہ خرچ نکال کر باقی اگر کچھ بچے تو دے دو ورنہ معاملہ ختم ہوا ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کا یہ مطلب مروی ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ جو مسلمان عورت کافروں میں جا ملے اور کافر اس کے خاوند کو اس کا کیا ہوا خرچ ادا نہ کریں تو مال غنیمت میں سے آپ اس مسلمان کو بقدر اس کے خرچ کے دے دیں ، پس فعاقبم کے معنی یہ ہوئے کہ پھر تمہیں قریش یا کسی اور جماعت کفار سے مال غنیمت ہاتھ لگے تو ان مردوں کو جن کی عورتیں کافروں میں چلی گئی ہیں ان کا کیا ہوا خرچ ادا کر دو ، یعنی مہر مثل ، ان اقوال میں کوئی تضاد نہیں مطلب یہ ہے کہ پہلی صورت اگر ناممکن ہو تو وہ سہی ورنہ مال غنیمت میں سے اسے اس کا حق دے دیا جائے دونوں باتوں میں اختیار ہے اور حکم میں وسعت ہے حضرت امام ابن جریر اس تطبیق کو پسند فرماتے ہیں فالحمد اللہ ۔
10۔ 1 معاہدہ حدیبیہ میں ایک شق یہ تھی کہ مکہ سے کوئی مسلمانوں کے پاس چلا جائے گا تو اس کو واپس کرنا پڑے گا لیکن اس میں مرد و عورت کی صراحت نہیں تھی بظاہر کوئی احد میں دونوں ہی شامل تھے چناچہ بعد میں بعض عورتیں مکہ سے ہجرت کرکے مسلمانوں کے پاس چلی گئیں تو کفار نے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا جس پر اللہ نے اس آیت میں مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی اور یہ حکم دیا امتحان لینے کا مطلب ہے اس امر کی تحقیق کرو کہ ہجرت کر کے آنے والی عورت جو ایمان کا اظہار کر رہی ہے اپنے کافر خاوند سے ناراض ہو کر یا کسی مسلمان کے عشق میں یا کسی اور غرض سے تو نہیں آئی ہے اور صرف یہاں پناہ لینے کی خاطر ایمان کا دعوی کر رہی ہے۔ 10۔ 2 یعنی تم اپنی تحقیق سے اس نتیجے پر پہنچو اور تمہیں گمان غالب حاصل ہوجائے کہ یہ واقعی مومنہ ہیں۔ 10۔ 3 یہ انہیں ان کے کافر خاوندوں کے پاس واپس نہ کرنے کی علت ہے کہ اب کوئی مومن عورت کسی کافر کے لیے حلال نہیں جیسا کہ ابتدائے اسلام میں یہ جائز تھا چناچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صاحبزادی حضرت زینب (رض) کا نکاح ابو العاص ابن ربیع کے ساتھ ہوا تھا جب کہ وہ مسلمان نہیں تھے لیکن اس آیت نے آئندہ کے لیے ایسا کرنے سے منع کردیا اسی لیے یہاں فرمایا گیا کہ وہ ایک دوسرے کے لیے حلال نہیں اس لیے انہیں کافروں کے پاس مت لوٹاؤ ہاں اگر شوہر بھی مسلمان ہوجائے تو پھر ان کا نکاح برقرار رہ سکتا ہے چاہے خاوند عورت کے بعد ہجرت کر کے آئے۔ 10۔ 4 یعنی ان کے کافر خاوندوں نے ان کو جو مہر ادا کیا ہے، وہ تم انہیں ادا کردو۔ 10۔ 5 یہ مسلمانوں کو کہا جا رہا ہے کہ یہ عورتیں جو ایمان کی خاطر اپنے کافر خاوندوں کو چھوڑ کر تمہارے پاس آگئی ہیں تم ان سے نکاح کرسکتے ہو بشرطیکہ ان کا حق مہر تم ادا کرو تاہم یہ نکاح مسنون طریقے سے ہی ہوگا یعنی ایک تو انقضائے عدت (استبراء رحم) کے بعد ہوگا دوسرے اس میں ولی کی اجازت اور دو عادل گواہوں کی موجودگی بھی ضروری ہے البتہ عورت مدخول بہا نہیں ہے تو پھر بلا عدت فوری نکاح جائز ہے 10۔ 6 عصم عصمۃ کی جمع ہے یہاں اس سے مراد عصمت عقد نکاح ہے مطلب یہ ہے کہ اگر خاوند مسلمان ہوجائے اور بیوی بدستور کافر اور مشرک رہے تو ایسی مشرک عورت کو اپنے نکاح میں رکھنا جائز نہیں ہے اسے فورا طلاق دے کر اپنے سے علیحدہ کردیا جائے چناچہ اس حکم کے بعد حضرت عمر (رض) نے اپنی دو مشرک بیویوں کو اور حضرت طلحہ ابن عبید اللہ (رض) نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ابن کثیر۔ البتہ اگر بیوی کتابیہ ہو تو اسے طلاق دینا ضروری نہیں ہے کیونکہ ان سے نکاح جائز ہے اس لیے اگر وہ پہلے سے ہی بیوی کی حثییت سے تمہارے پاس موجود ہے تو قبول اسلام کے بعد اسے علیحدہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 10۔ 7 یعنی ان عورتوں پر جو کفر پر برقرا رہنے کی وجہ سے کافروں کے پاس چلی گئی ہیں 10۔ 8 یعنی ان عورتوں پر جو مسلمان ہو کر ہجرت کرکے مدینے آگئی ہیں۔ 10۔ 9 یعنی یہ حکم مذکور کہ دونوں ایک دوسرے کو حق مہر ادا کریں بلکہ مانگ کرلیں اللہ کا حکم ہے امام قرطبی فرماتے ہیں کہ یہ حکم اس دور کے ساتھ ہی خاص تھا اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے فتح القدیر۔ اس کی وجہ وہ معاہدہ ہے جو اس وقت فریقین کے درمیان تھا اس قسم کے معاہدے کی صورت میں آئندہ بھی اس پر عمل کرنا ضروری ہوگا بصورت دیگر نہیں۔
[٢٠] ہجرت کرنے والوں کی تین قسمیں :۔ آیت نمبر دس اور گیارہ میں ایک نہایت اہم معاشرتی مسئلہ کا حل پیش کیا گیا ہے جو آغاز ہجرت سے ہی کئی طرح کی الجھنوں کا باعث بنا ہوا تھا۔ مکہ میں بہت سے ایسے لوگ تھے جو خود تو مسلمان ہوچکے تھے مگر ان کی بیویاں کافر تھیں یا بیویاں مسلمان ہوچکی تھیں تو شوہر کافر تھے۔ ہجرت کرنے سے یہ مسئلہ مزید سنگین بن گیا تھا۔ ہجرت کرنے والوں کی تین قسمیں تھیں۔- (١) میاں بیوی دونوں مسلمان اور ہجرت کرکے مدینہ آگئے :۔ ایک وہ جو دونوں میاں بیوی مسلمان ہوں اور دونوں نے ہجرت کی ہو۔ جیسے سیدنا عثمان (رض) اور ان کی اہلیہ یعنی رسول اللہ کی صاحبزادی۔ ایسے لوگوں کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ اور عموماً ایسے جوڑے آگے پیچھے یا ایک ساتھ مدینہ پہنچ ہی جاتے تھے۔ - (٢) میاں مسلمان مدینہ میں بیوی کافر مکہ میں :۔ دوسرے وہ جو خاوند مسلمان تھے مگر بیوی یا بیویاں کافر جیسے سیدنا عمر خود تو ہجرت کرکے مدینہ آگئے لیکن ان کی دو کافر بیویاں مکہ ہی میں رہ گئیں۔ - (٣) بیوی مسلمان مدینہ میں میاں کافر مکہ میں :۔ تیسرے وہ جو بیوی مسلمان ہوچکی ہو اور خاوند کافر مکہ میں رہ جائے۔ جیسے رسول اللہ کی بڑی صاحبزادی سیدہ زینب تو مدینہ میں پہنچ گئیں مگر ان کا کافر خاوند عمرو بن عاص مکہ میں ہی رہ گیا۔ مردوں کے لیے یہ مسئلہ اس لحاظ سے زیادہ سنگین نہ تھا کہ وہ دوسرا نکاح کرسکتے تھے اور کرلیتے تھے۔ مگر عورتوں کے لیے اتنی مدت تک رشتہ ازدواج میں منسلک رہنا بڑا سنگین مسئلہ تھا۔ پھر جب صلح حدیبیہ ہوئی تو اس کا ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو مسلمان مکہ سے مدینہ آئے گا۔ مسلمان اسے واپس مکہ کافروں کے ہاں لوٹانے کے پابند ہوں گے۔ اور اس شرط کے تحت مسلمانوں نے کافروں کے مطالبہ پر کچھ لوگ لوٹا بھی دیئے۔ اسی دوران جب ام کلثوم بنت عقبہ ہجرت کرکے مدینہ آگئیں تو کافروں نے ان کی واپسی کا بھی مطالبہ کردیا۔ لیکن آپ نے کافروں کے اس مطالبہ کو درست تسلیم نہیں کیا۔ وجہ یہ تھی کہ یہ شرط کافروں کے تیسرے اور آخری سفیر سہیل بن عمرو نے ان الفاظ میں لکھوائی تھی (علی ان لا یاتیک منا رجل فان کان علٰی دینک الا رددتہ الینا) (بخاری۔ کتاب الشروط۔ باب الشروط فی الجھاد والمصالحۃ اھل الحرب) ترجمہ : (ور یہ کہ اگر ہم میں سے کوئی مرد، خواہ وہ تمہارے دین پر ہی کیوں نہ ہو، تمہارے پاس آئے تو تمہیں اسے ہمارے طرف واپس کرنا ہوگا) چناچہ آپ نے صاف کہہ دیا کہ اس شرط کے الفاظ کی رو سے عورتیں از خود مستثنیٰ ہیں۔ اس وقت جاکر قریشیوں کی یہ غلط فہمی دور ہوئی۔ ورنہ وہ یہی سمجھے بیٹھے تھے کہ ہم عورتیں بھی واپس لاسکتے ہیں۔ ان آیات میں ایسی ہی مہاجر عورتوں کے ازدواجی مسائل کا حل بتایا گیا ہے۔- [٢١] ہجرت کرکے آنے والی عورتوں کے امتحان :۔ یعنی ان ہجرت کرنے والی عورتوں کے ایمان یا دلوں کا حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن تم ظاہری طور پر ان کا امتحان لے لیا کرو کہ آیا وہ واقعی مسلمان ہیں اور محض اسلام کی خاطر وطن چھوڑ کر آئی ہیں ؟ کوئی دنیوی یا نفسانی غرض تو اس ہجرت کا سبب نہیں تھی ؟ یا کہیں خاوندوں سے لڑ کر یا خانگی جھگڑوں سے بیزار ہو کر یا محض سیر و سیاحت یا کسی دوسری غرض سے تو یہاں نہیں آئیں ؟ اس حکم کے مخاطب چونکہ مومن ہیں، نبی نہیں۔ لہذا آپ نے اس غرض کے لیے سیدنا عمر کا انتخاب کیا تھا اور وہی مدینہ پہنچنے والی عورتوں کا امتحان لیتے تھے۔- [٢٢] ایسی عورتوں کے متعلق جو امتحان میں کامیاب ثابت ہوں پہلا حکم یہ ہوا کہ انہیں کسی صورت کافروں کی طرف واپس نہیں کیا جائے گا اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ اس حکم کے بعد وہ اپنے کافر خاوندوں کے لیے حلال نہیں رہیں۔ اس سے دو مسئلے مستنبط کئے گئے ہیں ایک یہ کہ اختلاف دین سے نکاح از خود ختم ہوجاتا ہے۔ کافر اور مومنہ عورت کا یا مومن مرد اور کافر عورت کا رشتہ نکاح از خود ٹوٹ جاتا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اختلاف دارین سے بھی نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ مثلاً ایک زوج دارالاسلام میں ہو اور دوسرا دارالحرب میں تو نکاح ازخود ختم ہوجائے گا کیونکہ ان کے درمیان یہ رشتہ قائم رکھنا محال ہے۔ اس حکم کے بعد تمام مہاجر عورتوں کو نکاح کرنے کی اجازت مل گئی۔- [٢٣] کافر عورتوں کے نکاح کی تنسیخ اور حق مہر کی ادائیگی کے طریقے :۔ اب رہا حق مہر کا مسئلہ، جو مسلمان عورتیں ہجرت کرکے مدینہ آگئی تھیں ان کے متعلق یہ حکم ہوا کہ جو مسلمان ان سے نکاح کرے۔ وہ اس عورت کا سابقہ حق مہر اس کافر کو بھی ادا کرے گا۔ جس کے نکاح میں وہ پہلے تھی۔ اور اس نئے نکاح میں جو حق مہر طے ہو وہ بھی ادا کرے گا اور مسلمانوں کی جو عورتیں کافر تھیں اور کافروں کے پاس مکہ میں ہی رہ گئی تھیں ان کے متعلق یہ حکم ہوا کہ جن کافروں کے قبضہ میں یا نکاح میں وہ ہیں۔ وہ مسلمانوں کو یا اس خاص مسلمان کو حق مہر ادا کردیں یا لوٹا دیں جس کے نکاح میں وہ پہلے تھی۔ اور مسلمانوں کو اس رقم کا کافروں سے مطالبہ کرنا چاہیے۔ یعنی اس سلسلہ میں کافر مسلمانوں سے اور مسلمان کافروں سے اپنی سابقہ بیویوں کے حق مہر کی رقم کا مطالبہ کرسکتے ہیں اور یہ حکم اس لیے نازل ہوا کہ ان دنوں معاہدہ حدیبیہ کی رو سے صلح تھی۔ کافروں اور مسلمانوں میں ایسے لین دین کا معاملہ یا تبادلہ ہوسکتا تھا۔
١۔ یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا جَآئَ کُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُہٰجِرٰتٍ ۔۔۔۔۔: ان آیات میں مشرکین سے قطع تعلق کی وجہ سے پیش آنے والے کئی معاملات کا حکم بیان فرمایا ، مثلاً کفار کی بیویاں جو مسلمان ہو کر ہجرت کر کے مسلمانوں کے پاس آجائیں ، انہیں واپس کیا جائے گا یا نہیں اور میاں بیوی میں سے کسی ایک کے مسلمان ہوجانے سے ان کا باہمی نکاح باقی رہتا ہے یا نہیں وغیرہ۔- ٢۔ حدیبیہ کے موقع پر کفا ر کے نمائدے سہیل بن عمرو نے صلح کی جو شرائط طے کی تھیں ان میں سے ایک شرط جو مسلمانوں کو منظور نہ تھی مگر سہیل نے اس کے بغیر صلح کرنے سے انکار کردیا ، یہ تھی ( لا یاتیک منا احد وان کان علی دینک الا رددتہ الینا وخلیت بیننک وبینا) (بخاری ، المغازی ، باب غزوۃ الحدیبیۃ : ٤١٨٠، ٤١٨١)” اور ہم میں سے جو بھی آپ کے پاس آئے گا خواہ وہ آپ کے دین پر ہو ، آپ اسے ہماری طرف واپس کریں گے اور ہمارے اور اس کے درمیان کوئی دخل نہیں دیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا عجیب تصرف دیکھئے کہ سہیل اس میں یہ صراحت نہ لکھوا سکا کہ اس میں عورتیں بھی شامل ہیں ۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے :(فقال سھیل و علی انہ لا یاتیک منا رجل وان کان علی دینک الا وددتہ بالینا ) (بخاری ، الشروط ، باب الشروط فی الجھاد وا لمصاحۃ۔۔۔۔۔۔: ٢٧٣١، ٢٧٣٢)” سہیل نے کہا ، یہ شرط بھی کہ ہماری طرف سے جو آدمی بھی آپ کے پاس جائے گا ، چاہے وہ آپ کے دین ہی پر کیوں نہ ہو ، آپ اسے ہمیں واپس کردیں گے ۔ “ اب اس کے بعد کفار یہ کہہ ہی نہیں سکتے تھے کہ آپ مسلمان ہونے والی عورتوں کو واپس کیوں نہیں کرتے۔ جب معاہدہ طے ہوگیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام صحابہ کو قربانی کرنے اور سر منڈوانے کے ساتھ احرام کھولنے کا حکم دے دیا ۔ اس موقع پر سہیل کا بیٹا ابو جندل (رض) مسلمان ہو کر آیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے باپ کے مطالبے پر اسے واپس کردیا ، اس کے علاوہ بھی صلح کی اس مدت میں آپ کے پاس مکہ سے جو مرد آیا آپ نے اسے واپس کردیا خواہ وہ مسلمان ہی تھا۔ اب کئی عورتیں جو ایمان لے آئی تھیں ہجرت کر کے مدینہ پہنچیں ، ان میں ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط بھی تھیں۔ اس وقت وہ جان تھیں ، ان کے گھر والے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور انہیں واپس کردینے کا مطالبہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ہدایات نازل فرمائیں۔ ( بخاری ، المغازی م، باب غزوۃ الحدیبیۃ : ٤١٨٠، ٤١٨١)- ٣۔ فَامْتَحِنُوْہُنَّ اَﷲُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِہِن۔۔۔۔: ایمان والوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ جب مومن عورتیں ہجرت کر کے تمہارے پاس آئیں تو ان کی جانچ پڑتال کرو کہ وہ ایمان ہی کی وجہ سے ہجرت کر کے آئی ہیں یا کوئی اور وجہ ہے۔ اس جانچ پڑتا میں تم اس بات کی مکلف نہیں کہ ان کے دل میں چھپی ہوئی بات معلوم کرو ، یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے ، تمہارا کام یہ ہے کہ اگر وہ ان باتوں کا عہد کریں جو اگلی آیت (١٢) میں آرہی ہیں تو انہیں کفار کی طرف واپس مت کرو ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کر کے آنے والے کسی مرد کے امتحان کا حکم نہیں دیا ، کیونکہ ان کے امتحان کے لیے ہجرت اور جہاد کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام مہاجرین کے صادق الایمان ہونے کی شہادت دی ہے۔ ( دیکھئے حشر : ٨) جب کہ عورتوں پر جہاد فرض نہیں جس سے کھرے کھوٹے کی تمیز ہوتی ہے۔ ( شنقیطی)- ٤۔ لَاہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ یَحِلُّوْنَ لَہُنَّ : اس میں انہیں واپس نہ کرنے کی علت بیان فرمائی ہے کہ نہ مومن عورتیں کفار کے لیے حلال ہیں اور نہ ہی کافر مرد مومن عورتوں کے لیے حلال ہیں ، اس لیے اگر کوئی عورت مسلمان ہوجائے تو اسے اس کے کافر خاوند سے جدا کرلیا جائے گا۔ پھر اگر وہ اپنے خاوند کے مسلمان ہونے کا انتظار کرے اور خاوند مسلمان ہوجائے تو نکاح برقرار رہے گا ، خواہ عورت پہلے ہجرت کر کے آئی ہو اور خاوند بعد میں ہجرت کرے ، جیسا کہ ابن عباس (رض) سے مروی ہے ، انہوں نے فرمایا :( رد النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابنتہ زینب علی ابی العاص بن الربیع ، بعد ست سین بالنکاح الاولی ولم یحدث نکاحا) (ترمذی ، النکاح ، باب ما جاء فی الروجین الشمرکین یسلم احدھما : ١٤٣) وقال الالبانی صحیح)” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیٹی زینب (رض) کو ابو العاص بن ربیع (رض) کے ساتھ چھ سال کے بعد پہلے نکاح ہی میں واپس بھیج دیا اور نیا نکاح نہیں کیا “۔ اور اگر عورت اپنے خاوند کے مسلمان ہونے کا انتظار نہ کرے تو اسے اجازت ہے کہ کسی مسلمان کے ساتھ نکاح کرلے ، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔- ٥۔ وَاٰتُوْہُمْ مَّآ اَنْفَقُوْا : یعنی ہجرت کر کے آنے والی مسلم عورتوں کے مشرک خاوند نے ان کے نکاح پر جو خرچ کیا ہے وہ انہیں واپس کر دو ۔ یاد رہے کہ یہ احکام ان مشرکین کی عورتوں کے بارے میں ہیں جن کی مسلمانوں کے ساتھ صلح ہو۔- ٦۔ وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اَنْ تَنْکِحُوْہُنَّ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ : یعنی اگر وہ اپنے خاوندوں کے مسلمان ہو کر آنے کا انتظار نہ کریں اور نکاح کرنا چاہیں تو مسلمانوں کو ان سے نکاح کرنے کی اجازت ہے ، جب ان شرطوں کو ملحوظ رکھا جائے جو نکاح کے لیے ضروری ہیں ، مثلاً ولی کی اجازت ، عدت پوری ہونا ، مہر کی ادائیگی وغیرہ۔- ٧۔ وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ :” عصم “ ” عصمۃ “ کی جمع ہے ، مراد نکاح ہے اور ” الکوافر “ ” کافرۃ ‘ ‘ کی جمع ہے ، جیسے ” ضاربۃ “ کی جمع ” ضوارب “ ہے ، کافر عورتیں ۔ یعنی جو مرد مسلمان ہوجائیں اور ان کی بیویاں کفر پر قائم رہیں ان کے لیے انہیں اپنے نکاح میں باقی رکھنا جائز نہیں ، بلکہ طلاق دے دینا لازم ہے ، چناچہ مسور اور مروان بن حکم سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیبیہ کے دن کفار قریش سے معاہدہ کیا تو آپ کے پاس کچھ مومن عورتیں آئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ (یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا جَآئَ کُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُہٰجِرٰتٍ ۔۔۔۔ وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ ) ( الممتحنۃ : ١٠) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کرکے آئیں۔۔۔ اور کافر عوتوں کی عصمتیں روک کر نہ رکھو۔ “ تو عمر بن خطاب (رض) نے اس دن اپنی دو ( مشرک) عورتوں کو طلاق دے دی ، جن میں سے ایک کے ساتھ معاویہ بن ابو سفیان نے اور دوسری کے ساتھ صفوان بن امیہ نے نکاح کرلیا ( جو اس وقت شرک پر تھے) ۔ ( بخاری الشروط ، باب الشروط فی الجھاد۔۔۔۔۔۔ ٢٧٣١، ٢٧٣٢) ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ قریبہ بنت ابی امیہ عمر بن خطاب (رض) کے نکاح میں تھی ، انہوں نے اسے طلاق دے دی تو اس سے معاویہ بن ابو سفیان نے نکاح کرلیا اور ام حکم بنت ابو سفیان عیاض بن غنم فہری کے نکاح میں تھی ، انہوں نے اسے طلاق دے دی تو اس سے عبد اللہ بن عثمان ثقفی نے نکاح کرلیا ۔ ( بخاری الطلاق ، باب نکاح من اسلم من المشرکات وعدتھن : ٥٢٨٧)- ٨۔ وَسْئَلُوْا مَآ اَنْفَقْتُمْ وَلْیَسْئَلُوْا مَآ اَنْفَقُوْا۔۔۔۔۔: اس کا عطف ” واتوھم ما نفقوا “ پر ہے۔ ہجرت کر کے آنے والی عورتیں یا ان مشرکین میں سے ہوتی تھیں جن کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جنگ تھی ، ان کے متعلق عبد اللہ بن عباس (رض) نے فرمایا : ” مشرکین کا تعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنوں سے دو طرح کا تھا، ایک اہل حرب ( لڑائی والے) مشرک ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے لڑتے اور وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لڑتے تھے اور ایک اہل عہد ( معاہدے والے) مشرک ۔ اہل حرب مشرکین میں سے کوئی عورت جب ہجرت کر کے آتی تو اسے اس وقت تک نکاح کا پیغام نہیں دیا جاتا تھا جب تک وہ حیض آنے کے بعد پاک نہیں ہوتی تھیں ۔ جب پاک ہوجاتی تو اس کے لیے نکاح حلال ہوجاتا ، پھر اگر اس کا خاوند اس کے نکاح کرنے سے پہلے ہجرت کر کے آجاتات و وہ اسے واپس کردی جاتی اور اگر ان کا کوئی غلام یا لونڈی ہجرت کر کے آتے تو دونوں آزاد ہوجاتے اور انہیں وہ حقوق حاصل ہوجاتے جو دوسرے مہاجرین کو حاصل تھے۔ ( پھر معاہدے والوں کے متعلق مجاہد کی حدیث کی طرح ذکر کیا) اور اگر معاہدے والے مشرکین کا کوئی غلام یا لونڈی ہجرت کر کے آتے تو انہیں واپس نہیں کیا جاتا تھا اور ان کی قیمتیں دے دی جاتی تھیں “۔ ( بخاری ، الطلاق ، باب نکاح من اسلم من المشرکات و دتھن : ٥٢٨٦)- ہجرت کر کے آنے والی مسلمان عورتوں کی دوسری قسم ان مشرکین کی بیویاں تھیں جن کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاہدہ ٔ صلح تھا ۔ اس آیت میں ان کا حکم بیان ہوا ہے کہ انہیں مشرکین کی طرف واپس مت کرو، بلکہ انہوں نے ان کے نکاح پر جو کچھ خرچ کیا ہے وہ انہیں دے دو اور کافر عورتوں کو بھی روک کر مت رکھو ، بلکہ انہیں طلاق دے دو اور چونکہ تمہاری آپس میں صلح ہے اس لیے جن مشرک عورتوں کو تم نے چھوڑا ہے ان پر کیا ہوا خرچ تم مشرکین سے مانگ لو اور وہ ان عورتوں پر کیا ہوا خرچ تم سے مانگ لیں جو ہجرت کر کے تمہارے پاس آئی ہیں۔
خلاصہ تفسیر - سبب نزول کا واقعہ :- (یہ آیتیں بھی ایک خاص موقع کے متعلق ہیں اور وہ موقع صلح حدیبیہ کا ہے، جس کا بیان آغاز سورة فتح میں ہوا ہے، منجملہ ان شرطوں کے جو صلح نامہ میں لکھی گئی تھیں ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو شخص مسلمانوں میں سے کافروں کی طرف چلا جاوے وہ واپس نہ دیا جاوے اور جو شخص کافروں میں سے مسلمانوں کی طرف چلا جاوے وہ واپس دے دیاجاوے، چناچہ بعض مسلمان مرد آئے اور واپس کردیئے گئے پھر بعضی عورتیں مسلمان ہو کر آئیں، ان کے اقارب نے ان کی واپسی کی درخواست کی، اس پر یہ آیتیں حدیبیہ میں نازل ہوئیں، جس میں عورتوں کے واپس کرنے کی ممانعت کی گئی، پس عموم مضمون صلح نامہ کا اس مخصوص اور منسوخ ہوگیا اور ایسی عورتوں کے باب میں کچھ خاص احکام مقرر کئے گئے اور ان کے ساتھ کچھ احکام ایسی عورتوں کے باب میں مقرر ہوئے جو پہلے مسلمان کے نکاح میں تھیں مگر اسلام نہ لائیں اور مکہ ہی میں رہ گئیں اور چونکہ مدار ان احکام کا ان عورتوں کا مسلمان ہونا ہے، اس لئے طریق امتحان بھی بتلایا گیا، پس بخطاب عام ارشاد فرماتے ہیں کہ) اے ایمان والو جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں (دارالحرب سے) ہجرت کر کے آویں ، (خواہ مدینہ میں کہ دارالاسلام ہے خواہ حدیبیہ میں کہ معسکر اسلام حکم دارالا سلام میں ہے کذافی کتاب الحدودمن الہدایة) تو تم ان (کے مسلمان ہونے) کا امتحان کرلیا کرو ( جس کا طریقہ آگے خطاب خاص آیا یھا النبی میں آتا ہے اور اس امتحان میں ظاہری امتحان پر کتفا کیا کرو کیونکہ) ان کے (حقیقی) ایمان کو (تو) اللہ ہی خوب جانتا ہے ( تم کو تحقیق ہو ہی نہیں سکتا) پس اگر ان کو ( اس امتحان کی رو سے) مسلمان سمجھو تو ان کو کفار کی طرف واپس مت کرو (کیونکہ) نہ تو وہ عورتیں ان کافروں کے لئے حلال ہیں اور نہ وہ کافر ان عورتوں کے لئے حلال ہیں اور نہ وہ کافر ان عورتوں کے لئے حلال ہیں (کیونکہ مسلمان عورت کا نکاح کافر مرد سے مطلقاً نہیں رہتا) اور ( اس صورت میں) ان کافروں نے جو کچھ (مہر کے بابت ان عورتوں پر) خرچ کیا ہو وہ ان کو ادا کرو اور تم کو ان عورتوں سے نکاح کرنے میں کچھ گناہ نہ ہوگا جبکہ تم ان کے مہران کو دے دو اور (اے مسلمانوں) تم کافر عورتوں کے تعلقات کو باقی مٹ رکھو (یعنی جو تمہاری بیبیاں دارالحرب میں کفر کی حالت میں رہ گئیں ان کا نکاح تم سے زائل ہوگیا، ان کے تعلقات کا کوئی اثر باقی مت سمجھو) اور (اس صورت میں) جو کچھ تم نے (ان عورتوں کے مہر میں) خرچ کیا ہو ( ان کافروں سے) مانگ لو اور (اسی طرح) جو کچھ ان کافروں نے (مہر کے بابت) خرچ کیا ہو وہ (تم سے) مانگ لیں (جیسا اوپر ارشاد ہوا ہے وَاٰتُوْهُمْ مَّآ اَنْفَقُوْا، شاید یہ تکریر معنون باختلاف عنوان اس لئے ہو کہ تمہارے ذمہ دوسروں کا حق ہو اس کو زیادہ موکد سمجھو) یہ ( جو کچھ کہا گیا) اللہ کا حکم ہے ( اس کا اتباع کرو) وہ تمہارے درمیان ( ایسا ہی مناسب) فیصلہ کرتا ہے اور اللہ بڑا علم اور حکمت والا ہے (علم و حکمت کے مناسب احکام مقرر فرماتا ہے) اور اگر تمہاری بیبیوں میں سے کوئی بی بی کافروں میں رہ جانے سے (بالکل ہی) تمہارے ہاتھ نہ آئے (یعنی وہ نہ ملے اور نہ اس کا بدل مہر ملے اور) پھر (کافروں کو مہر دینے کی) تمہاری نوبت آوے (یعنی تمہارے ذمہ کسی کافر کا حق مہر واجب الادا ہو) تو (تم وہ مہران کافروں کو نہ دو ، بلکہ) جن (مسلمانوں) کی بیبیاں ہاتھ سے نکل گئیں ( جن کا ابھی ذکر ہوا فاتکم میں) جتنا (مہر) انہوں نے ( ان بیبیوں پر) خرچ کیا تھا اس کے برابر ( اس رقم واجب الادا میں سے) تم ان کو دے دو اور اللہ سے کہ جس پر تم ایمان رکھتے ہو ڈرتے رہو اور (احکام واجبہ میں خلل مت ڈالو، آگے خطاب خاص میں طریق امتحان ایمان کا فرماتے ہیں کہ) اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مسلمان عورتیں آپ کے پاس ( اس غرض سے) آویں کہ آپ سے ان باتوں پر بیعت کریں کہ اللہ کے ساتھ کسی شے کو شریک نہ کریں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ بدکاری کریں گی اور نہ اپنے بچوں کو قتل کریں گی اور نہ کوئی بہتان کی اولاد لاویں گی جس کو اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان (نطفہ شوہر سے جنی ہوئی اولاد ہونے کا دعویٰ کر کے) بنالیویں ( جیسا جاہلیت میں بعض عورتوں کا دستور تھا کہ کسی غیر کا بچہ اٹھا لائیں اور کہہ دیا کہ میرے خاوند کا ہے اور یا کسی سے بدکاری کی اور اس نطفہ حرام کو اپنے خاوند کا بتلا دیا کہ اس میں علاوہ گناہ زنا کے اپنے شوہر کے ساتھ غیر کے بچے کا الحاق بھی ہے، جس پر حدیث میں بھی وعید آئی، رواہ ابوداؤد والنسائی) اور مشروع باتوں میں وہ آپ کے خلاف نہ کریں گی ( اس میں سب احکام شرعیہ آگئے، پس وہ عورتیں اگر ان شرطوں کو قبول کرلیں جن کا اعتقاد شرط ایمان ہے اور التزام عمل شرط کمال ایمان ہے) تو آپ ان کو بیعت کرلیا کیجئے اور ان کے لئے اللہ سے (پچھلے گناہوں کی) مغفرت طلب کیا کیجئے، بیشک اللہ غفور رحیم ہے (مطلب یہ کہ جب ان احکام کے حق اور واجب العمل سمجھنے کا اظہار کریں تو ان کو مسلمان سمجھئے اور ہرچند کو خود اسلام ہی سے پچھلے گناہوں کی مغفرت ہوجاتی ہے، مگر یہاں استغفار کا حکم یا تو مکمل طور پر آثار مغفرت حاصل کرنے کے لئے ہے اور یا حاصل اس کا دعا ہی قبول ایمان کی جس پر مغفرت مرتب ہوتی ہے) اے ایمان والو ان لوگوں سے (بھی) دوستی مت کرو جن پر اللہ تعالیٰ نے غضب فرمایا ہے (مراد اس سے یہود ہیں، لقولہ تعالیٰ فی المائدة، (آیت) من لعنہ اللہ و غضب علیہ آلآیة) کہ وہ آخرت کے (خیر وثواب) سے ایسے ناامید ہوگئے ہیں جیسا کفار جو قبروں میں (مدفون) ہیں (خیر وثواب آخرت سے) ناامید ہیں ( جو کافر مر جاتا ہے بوجہ اس کے کہ اس کو معاینہ آخرت کا ہوجاتا ہے، حقیقت امر پر یقین کے ساتھ مطلع ہوجاتا ہے کہ اب میری بخشش ہرگز نہ ہوگی، چونکہ حسب (آیت) یعرفونہ کمایعر فون ابنآء ہم آپ کی نبوت کو اور اسی طرح مخالف نبی کے کافر اور غیر ناجی ہونے کو خوب جانتے ہیں، گو عار و حسد کی وجہ سے اتباع نہ کرتے تھے، اس لئے ان کو دل سے یقین تھا کہ ہم ناجی نہیں ہیں، گوشیخی کے مارے ظاہراً اس کے خلاف کرتے ہوں، پس حاصل یہ ہوا کہ جن کی گمراہی ایسی مسلم ہے کہ وہ خود بھی دل سے اس کو تسلیم کرتے ہیں ایسے گمراہوں سے تعلق رکھنا کیا ضرور اور یہ نہ سمجھا جاوے کہ جو گمراہ اشد درجہ کا نہ ہو اس سے دوستی جائز ہے، جو از دوستی سے تو مطلق کفر مانع ہے، مگر اس صفت سے وہ عدم جواز اور شدید ہوجاوے گا اور شاید تخصیص یہود کی اس جگہ اس لئے ہو کہ مدینہ میں یہود زیادہ تھے اور دوسرے وہ لوگ شریر و مفسد بھی بہت تھے ) ۔- معارف و مسائل - معاہدہ صلح حدیبیہ کی بعض شرائط کی تحقیق :- سورة فتح میں حدیبیہ کا واقعہ تفصیل سے آ چکا ہے، جس میں بالآخر قریش مکہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان ایک معاہدہ صلح دس سال کے لئے لکھا گیا اس معاہدہ کی بعض شرائط ایسی تھیں جن میں دب کر صلح کرنے اور مسلمانوں کی بظاہر مغلوبیت محسوس ہوتی تھی، اسی لئے صحابہ کرام میں اس پر غم و غصہ کا اظہار ہوا، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باشارات ربانی یہ محسوس فرما رہے تھے کہ اس وقت کی چند روزہ مغلوبیت بالآخر ہمیشہ کے لئے فتح مبین کا پیش خیمہ بننے والی ہے، اس لئے قبول فرما لیا اور پھر سب صحابہ کرام بھی مطمئن ہوگئے۔- اس صلح نامہ کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر مکہ مکرمہ سے کوئی آدمی مدینہ جائے گا تو آپ اس کو واپس کردیں گے، اگرچہ وہ مسلمان ہی ہو اور اگر مدینہ طیبہ سے کوئی مکہ مکرمہ چلا جائے گا تو قریش مکہ اس کو واپس نہ کریں گے، اس معاہدہ کے الفاظ عام تھے جس میں بظاہر مرد و عورت دونوں داخل تھے، یعنی کوئی مسلمان مرد یا عورت جو بھی مکہ مکرمہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جائے اس کو آپ واپس کریں گے۔- جس وقت یہ معاہدہ مکمل ہوچکا اور ابھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام حدیبیہ میں تشریف فرما تھے کئی ایسے واقعات پیش آئے جو مسلمانوں کے لئے بہت صبر آزما تھے، جن میں ایک واقعہ ابوجندل کا ہے، جن کو قریش مکہ نے قید میں ڈالا ہوا تھا، وہ کسی طرح ان کی قید سے چھوٹ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچ گئے، صحابہ کرام میں ان کو دیکھ کر سخت تشویش پھیلی کہ معاہدہ کی رو سے ان کو واپس کیا جانا چاہئے اور ہم اپنے مظلوم بھائی کو پھر ظالموں کے ہاتھ میں دیدیں، یہ کیسے ہوگا ؟- مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معاہدہ تحریر فرما چکے تھے اور اصول شریعت کی حفاظت اور ان پر پختگی کو ایک فرد کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتے تھے اور اس کے ساتھ آپ کی چشم بصیرت عنقریب ان سب مظلوموں کی فاتحانہ نجات کا بھی گویا مشاہدہ کر رہی تھی، طبعی رنج و تکلیف تو ابوجندل کی واپسی میں آپ کو بھی یقینا ہوگی، مگر آپ نے معاہدہ کی پابندی کی بنا پر ان کو سمجھا بجھا کر رخصت کردیا۔- اسی کے ساتھ ایک دوسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ سعیدہ بنت الحارث الاسلمیہ جو مسلمان تھیں مگر صیفی بن انصب کے نکاح میں تھیں جو کافر تھا، بعض روایات میں اس کا نام مسافر المخزومی بتلایا گیا ہے ( اس وقت تک مسلمانوں اور کفار میں رشتہ مناکحت طرفین سے حرام نہیں ہوا تھا) یہ مسلمان عورت مکہ سے بھاگ کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوگئیں، ساتھ ہی ان کا شوہر حاضر ہوا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کیا کہ میری عورت مجھے واپس کی جائے، کیونکہ آپ نے یہ شرط قبول کرلی ہے اور ابھی تک اس معاہدہ کی مہر بھی خشک نہیں ہوئی۔- اس واقعہ پر یہ آیات مذکورہ نازل ہوئیں جن میں دراصل مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان عقد مناکحت کو حرام قرار دیا گیا ہے اور اس کے نتیجہ میں یہ بھی کہ جو عورت مسلمان خواہ اس کا مسلمان ہونا پہلے سے معلوم ہو جیسے سعیدہ مذکورہ تھیں، یا بوقت ہجرت اس کا مسلمان ہونا صحیح طور سے ثابت ہوجائے، وہ اگر ہجرت کر کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچ جائے اس کو کفار کے قبضہ میں واپس نہ دیا جائے، کیونکہ وہ اپنے کافر شوہر کے لئے حلال نہیں رہی (تفسیر قرطبی میں یہ واقعہ حضرت ابن عباس کی روایت سے نقل کیا) - غرض ان آیات کے نزول نے یہ واضح کردیا کہ صلح نامہ کی یہ شرط کہ جو بھی مسلمان آپ کے پاس پہنچے آپ واپس کریں گے اپنے لفظی عموم کے ساتھ جس میں مرد و عورت دونوں داخل ہیں صحیح نہیں، یہ شرط صرف مردوں کے حق میں قبول کی جاسکتی ہے، عورتوں کے معاملہ میں یہ شرط قابل قبول نہیں، ان کے بارے میں صرف اتنا کیا جاسکتا ہے کہ جو عورت مسلمان ہو کر ہجرت کرے اس کے کافر شوہر نے جو کچھ اس پر مہر کی صورت میں خرچ کیا وہ خرچ اس کو واپس کیا جائے گا، ان آیات کی بنا پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شرط کے مفہوم کو واضح فرما دیا اور اس کے مطابق سعیدہ مذکورہ کو واپس نہیں کیا۔- بعض روایات میں ہے کہ ام کلثوم بنت عتبہ ابن ابی معیط مکہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچ گئیں، ان کے خاندان کے لوگوں نے واپسی کا مطالبہ عموم شرط کی وجہ سے کیا اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور بعض روایات میں ہے کہ ام کلثوم عمر و بن عاص کے نکاح میں تھیں جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، یہ اور ان کے ساتھ ان کے دو بھائی مکہ سے بھاگ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچ گئے اور ساتھ ہی عمر و بن عاص شوہر ام کلثوم وغیرہ نے آ کر ان کی واپسی کا مطالبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا آپ نے شرط کے مطابق ان کے دونوں بھائی عمارہ اور ولید کو تو واپس کردیا مگر ام کلثوم کو واپس نہیں فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ یہ شرط مردوں کے لئے تھی عورتیں اس میں شامل نہیں، اس پر یہ آیات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کے لئے نازل ہوئیں۔- اس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچنے والی دوسری عورتوں کے بھی کچھ واقعات روایات میں مذکور ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ ان میں کوئی تضاد نہیں، ہوسکتا ہے کہ یہ متعدد واقعات سب ہی پیش آئے ہوں۔- شرط مذکور سے عورتوں کا استثناء نقض عہد نہیں بلکہ ایک شرط کی وضاحت بقبول فریقین ہے :- مذکور الصدر روایت قرطبی سے تو معلوم ہوا کہ معاہدہ کی شرط کے الفاظ اگرچہ عام تھے، مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک وہ عورتوں کے لئے عام اور شامل نہیں تھے، اس لئے آپ نے اس کی وضاحت وہیں حدیبیہ کے مقام پر فرما دی اور اسی کی تصدیق یہ آیات نازل ہوئیں۔ - اور بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے تو اس شرط کو عموم کے ساتھ قبول فرمالیا تھا جس میں عورتیں بھی شامل تھیں، ان آیات کے نزول نے اس، کے عموم کو منسوخ قرار دیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش مکہ پر اسی وقت یہ واضح کردیا کہ عورتیں اس شرط میں داخل نہ ہوں گی، چناچہ عورتوں کو آپ نے واپس نہیں فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ یہ صورت نہ نقض عہد کی تھی جس کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی امکان ہی نہ تھا اور نہ یہ نبذ عہد کی صورت تھی یعنی معاہدہ کو ختم کردینے کی، بلکہ ایک شرط کی وضاحت کا معاملہ تھا، خواہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد پہلے ہی سے یہ ہو یا نزول آیت کے بعد آپ نے اس عموم کو صرف مردوں تک محدود کرنے کے لئے فرما دیا ہو، بہرحال ہوا یہ ہے کہ اس توضیح کے بعد بھی معاہدہ صلح کو طرفین نے قبول کیا اور اس پر ایک مدت تک طرفین سے عمل ہوتا رہا، اس صلح کے نتیجہ میں راستے مامون ہوئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ملوک دنیا کے نام خطوط بھیجے اور اسی کے نتیجہ میں ابو سفیان کا قافلہ بےفکری کے ساتھ ملک شام تک پہنچا، جہاں ہر قل نے ان کو اپنے دربار میں بلا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات و واقعات کی تحقیق کی۔- خلاصہ یہ ہے کہ اس شرط صلح کے عام الفاظ میں، عورتوں کا شامل نہ ہونا خواہ پہلے ہی سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظر میں تھا یا نزول آیت کے بعد آپ نے عورتوں کو اس عموم سے خارج کیا، بہردو صورت کفار قریش اور مسلمانوں کے درمیان یہ معاہدہ اس وضاحت کے بعد بھی مکمل ہی سمجھا گیا اور ایک عرصہ تک اس پر عمل ہوتا رہا، اس لئے اس شرط کی وضاحت کو نقض عہد یا نبذ عہد میں داخل نہیں کیا جاسکتا، واللہ اعلم، آگے آیات کا مفہوم ان کے الفاظ کے تحت دیکھئے۔- يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا جَاۗءَكُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُهٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْهُنَّ ۭ اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِـاِيْمَانِهِنّ ، مراد آیت کی یہ ہے کہ عورتوں کو شرط صلح سے مستثنیٰ ہونے کی وجہ ان کا مسلمان اور مومن ہونا ہے مکہ سے مدینہ آنے والی عورتوں میں احتمال اس کا بھی تھا کہ ان میں سے کوئی اسلام و ایمان کی خاطر نہیں، بلکہ اپنے شوہر سے ناراضی کے سبب یا مدینہ کے کسی شخص سے محبت کے سبب یا کسی دوسری دنیوی غرض سے ہجرت کر کے آگئی ہو وہ عنداللہ اس شرط سے مستثنیٰ نہیں، بلکہ اس کو واپس کرنا شرط صلح کے تحت ضروری ہے، اس لئے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ ہجرت کر کے آنے والی عورتوں کے ایمان کا امتحان لو، اس کے ساتھ ہی یہ جملہ فرمایا کہ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِـاِيْمَانِهِن، اس میں اشارہ کردیا کہ حقیقی اور اصل ایمان کا تعلق تو انسان کے دل سے ہے، جس پر اللہ کے سوا کسی کو اطلاع نہیں، البتہ آدمی کے زبانی اقرار اور قرائن سے ایمان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، بس مسلمان اسی کے مامور و مکلف ہیں۔- حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ ان کے امتحان کا طریقہ یہ تھا کہ مہاجر عورت سے حلف لیا جاتا تھا کہ وہ اپنے شوہر سے بغض و نفرت کی وجہ سے نہیں آئی اور نہ مدینہ کے کسی آدمی کی محبت کی وجہ سے اور نہ کسی دوسری دنیوی غرض سے بلکہ اس کا آنا خالص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت ورضا جوئی کے لئے ہے، جب وہ یہ حلف کرلیتی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو مدینہ میں رہنے کی اجازت دیتے اور اس کا مہر وغیرہ جو اس نے اپنے کافر شوہر سے وصول کیا تھا وہ اس کے شوہر کو واپس دے دیتے تھے (قرطبی) - اور حضرت صدیقہ عائشہ سے ترمذی میں روایت ہے جس کو ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے، آپ نے فرمایا کہ ان کے امتحان کی صورت وہ بیعت تھی جس کا ذکر اگلی آیات میں تفصیل سے آیا ہے اِذَا جَاۗءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ يُبَايِعْنَك الآیة، گویا آنے والی مہاجر عورتوں کے امتحان ایمان کا طریقہ ہی یہ تھا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دست مبارک پر ان چیزوں کا عہد کریں جو اس بیعت کے بیان میں آگے آئی ہیں اور یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ ابتدائی طور پر پہلے وہ کلمات ان سے کہلوائے جاتے ہوں جو بروایت ابن عباس اوپر ذکر کئے گئے ہیں اور اس کی تکمیل اس بیعت سے ہوتی ہو جس کا آگے ذکر ہے۔ واللہ اعلم - (آیت) فَاِنْ عَلِمْتُمُوْهُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلَا تَرْجِعُوْهُنَّ اِلَى الْكُفَّار، یعنی جب بطرز مذکور ان مہاجرات کے ایمان کا امتحان لے کر تم کو مومن قرار دے دو تو پھر ان کو کفار کی طرف واپس کرنا جائز نہیں۔- لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّوْنَ لَهُن، یعنی نہ یہ عورتیں کافر مردوں پر حلال ہیں اور نہ کافر مرد ان کے لئے حلال ہو سکتے ہیں کہ ان سے دوبارہ نکاح کرسکیں۔- مسئلہ : اس آیت نے یہ واضح کردیا کہ جو عورت کسی کافر کے نکاح میں تھی اور پھر وہ مسلمان ہوگئی تو کافر سے اس کا نکاح خود بخود فسخ ہوگیا، یہ اس کے لئے اور وہ اس کے لئے حرام ہوگئے اور یہی وجہ عورتوں کو شرط صلح میں واپسی سے مستثنیٰ کرنے کی ہے کہ اب وہ اس کے شوہر کافر کیلئے حلال نہیں رہی۔- وَاٰتُوْهُمْ مَّآ اَنْفَقُوْا، یعنی مہاجر مؤ منہ کے کافر شوہر نے اس کے نکاح میں جو مہروغیرہ اس کو دیا ہے وہ سب اس کے شوہر کو واپس دیا جائے کیونکہ شرط صلح سے مستثنیٰ صرف عورتوں کی واپسی تھی، جو بوجہ ان کے حرام ہوجانے کے نہیں ہو سکتی، مگر جو مال انہوں نے ان کو دیا ہے وہ حسب شرط واپس کردینا چاہئے اس مال کی واپسی کا خطاب مہاجر عورتوں کو نہیں کیا گیا کہ تم واپس کرو بلکہ عام مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ واپس کریں، کیونکہ بہت ممکن بلکہ غالب یہ ہے کہ جو مال ان کے شوہر نے ان کو دیا تھا وہ ختم ہوچکا ہو، اب ان سے واپس دلانے کی صورت ہی نہیں ہو سکتی، اس لئے یہ فریضہ عام مسلمانوں پر ڈال دیا گیا کہ معاہدہ صلح کو پورا کرنے کے لئے اس کی طرف سے کافر شوہروں کا مال واپس کردیں، اگر بیت المال سے دیا جاسکتا ہے تو وہاں سے ورنہ عام مسلمانوں کے چندے سے (من القرطبی) - وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ اِذَآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ ، پچھلی آیت میں یہ واضح ہوچکا ہے کہ ہجرت کر کے آنے والی مسلمان عورت کا نکاح اس کے کافر شوہر سے فسخ ہوچکا ہے اور یہ اس پر حرام ہوچکی ہے، اس آیت میں اسی حکم کا تکملہ یہ ہے کہ اب مسلمان مرد سے اس کا نکاح ہوسکتا ہے، اگرچہ سابق شوہر کافر زندہ بھی ہے اور اس نے طلاق بھی نہیں دی مگر شرعی حکم سے نکاح فسخ ہوچکا ہے، اس لئے دوسریے مرد سے اس کا نکاح حلال ہوگیا۔- کافر مرد کی بیوی مسلمان ہوجائے تو نکاح فسخ ہوجانا آیت مذکورہ سے معلوم ہوچکا، لیکن دوسرے کسی مسلمان مرد سے اس کا نکاح کس وقت جائز ہوگا، اس کے متعلق امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک اصل ضابطہ تو یہ ہے کہ جس کافر مرد کی عورت مسلمان ہوجائے تو حاکم اسلام اس کے شوہر کو بلا کر کہے کہ اگر تم بھی مسلمان ہوجاؤ تو نکاح برقرار رہے گا، ورنہ نکاح فسخ ہوجائے گا، اگر وہ اس پر بھی اسلام لانے سے انکار کرے تو اب ان دونوں میں فرقت کی تکمیل ہوگئی، اس وقت وہ کسی مسلمان مرد سے نکاح کرسکتی ہے، مگر یہ ظاہر ہے کہ حاکم اسلام کا شوہر کو حاضر کرنا وہیں ہوسکتا ہے جہاں حکومت اسلام کی ہو، دارالکفر یا دارالحرب میں ایسا واقعہ پیش آوے تو شوہر سے اسلام لئے کہنے اور اس کے انکار کی صورت نہیں ہوگی جس سے دونوں میں تفریق کا فیصلہ کیا جاسکے، اس لئے اس صورت میں زوجین کے درمیان تفریق کی تکمیل اس وقت ہوگی جب یہ عورت ہجرت کر کے دارالاسلام میں آجائے یا مسلمانوں کے لشکر میں آجائے، دارالاسلام میں آنے کی صورت مذکورہ واقعات میں مدینہ طیبہ پہنچنے کے بعد ہو سکتی ہے اور لشکر اسلام حدیبیہ میں بھی موجود تھا، اس میں پہنچنے سے بھی اس کا تحقق ہوجاتا ہے، جس کو فقہاء کی اصطلاح میں اختلاف دارین سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی جب کافر مرد اور اس کی بیوی مسلمان کے درمیان دارین کا فاصلہ ہوجائے، یعنی ایک دارالکفر میں ہے دوسرا دارالاسلام میں تو یہ تفریق مکمل ہو کر عورت دوسرے سے نکاح کیلئے آزاد ہوجاتی ہے (ہدایہ وغیرہ) - اور اس آیت میں جو اِذَآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ کو بطور شرط کے فرمایا کہ تم ان سے نکاح کرسکتے ہو۔- بشرطیکہ ان کے مہر دیدو، یہ درحقیقت نکاح کی شرط نہیں، کیونکہ باتفاق امت نکاح کا انعقاد ادائے مہر پر موقوف اور مشروط نہیں ہے، البتہ نکاح پر مہر کی ادائیگی واجب و لازم ضرور ہے، یہاں اس کو بطور شرط کے شاید اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ ابھی ایک مہر تو اس کے کافر شوہر کو واپس کرایا جا چکا ہے، ایسا نہ ہو کہ اب اس سے نکاح کرنے والے مسلمان یہ سمجھ بیٹھیں کہ مہر تو دیا جا چکا اور جدید مہر کی ضرورت نہیں، اس لئے فرما دیا کہ اس مہر کا تعلق پچھلے نکاح سے تھا، یہ دوسرا نکاح ہوگا تو اس کا جدید مہر لازم ہے۔ ۭ وَلَا تُمْسِكُوْا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ ، عصم، عصمت کی جمع ہے، جس کی اصلی معنی حفاظت اور استحکام کے ہیں، مراد اس سے وہ عقد نکاح وغیرہ ہیں جن کی حفاظت کی جاتی ہے۔- کوافر جمع کافرہ کی ہے اور مراد اس سے مشرکہ عورت ہے، کیونکہ کافر کتابیہ سے نکاح کی اجازت قرآن کریم میں منصوص ہے، مراد آیت کی یہ ہے کہ اب تک جو مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان مناکحت کی اجازت تھی وہ ختم کردی گئی، اب کسی مسلمان کا نکاح مشرک عورت سے جائز نہیں اور جو نکاح پہلے ہوچکے ہیں وہ بھی ختم ہوچکے، اب کسی مشرک عورت کو اپنے نکاح میں روکنا حلال نہیں۔- جس وقت یہ آیت نازل ہوئی تو جن صحابہ کرام کے نکاح میں کوئی مشرک عورت تھی اس کو چھوڑ دیا، حضرت فاروق اعظم کے نکاح میں دو مشرک عورتیں اس وقت تک تھیں جو بوقت ہجرت مکہ مکرمہ میں رہ گئی تھی، حضرت فاروق اعظم نے یہ آیت نازل ہونے کے بعد دونوں کو طلاق دے دی (رواہ البغوی بسند الزہری کذا فی المظہری) اور طلاق سے مراد اس جگہ چھوڑ دینا اور قطع تعلق کرلینا ہے، اصطلاحی طلاق کی یہاں ضرورت ہی نہیں، کیونکہ اس آیت کے ذریعہ نکاح ٹوٹ چکا ہے۔- وَاسْـَٔــلُوْا مَآ اَنْفَقْتُمْ وَلْيَسْـَٔــلُوْا مَآ اَنْفَقُوْا، یعنی جب معاملہ یہ ٹھہرا کہ جو عورت مسلمان ہو کر ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آجائے تو وہ واپس مکہ نہ بھیجی جائے گی، البتہ اس کے شوہر نے جو مہر وغیرہ اس کو دیا ہے وہ اس کے شوہر کو واپس دیا جائے گا، اسی طرح اگر کوئی مسلمان عورت خدانخواستہ مرتد ہو کر مکہ معظمہ چلی جائے یا پہلے ہی سے کافر ہو مگر مسلمان شوہر کے قبضہ سے نکل جائے (خلاصہ تفسیر میں اسی صورت کو شاید اس لئے اختیار کیا گیا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ پیش ہی نہیں آیا کہ کوئی مسلمان عورت مرتد ہو کر مکہ چلی گئی ہو، اور پھر وہیں کافر ہو کر رہ گئی ہو، ہاں ایسے واقعات پیش آئے کہ جو پہلے ہی سے کافر تھیں وہ اپنے مسلمان شوہر کے قبضہ سے نکل کر مکہ ہی میں رہیں) کفار مکہ اس کو واپس نہیں کریں گے، مگر اس کے مسلمان شوہر نے جو مہر وغیرہ اس کو دیا ہے اس کی واپسی کفار مکہ کے ذمہ ہوگی، اس لئے ان معاملات کا تصفیہ باہمی حساب فہمی سے کرلیا جائے، طرفین سے جو کچھ مہر وغیرہ میں خرچ کیا گیا وہ دریافت کر کے اس کے مطابق لین دین کرلیا جاوے۔- اس حکم پر مسلمانوں نے بطیب خاطر عمل کیا کہ احکام قرآن کی پابندی ان کے نزدیک فرض ہے اس لئے جتنی عورتیں ہجرت کر کے آئیں سب کے مہروغیرہ ان کے کافر شوہروں کو واپس بھیج دیئے، مگر کفار مکہ کا قرآن پر ایمان نہیں تھا، انہوں نے عمل نہ کیا، اس پر اگلی آیت نززل ہوئی (ذکرہ البغوی عن الزہری مظہری)
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا جَاۗءَكُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُہٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْہُنَّ ٠ ۭ اَللہُ اَعْلَمُ بِـاِيْمَانِہِنَّ ٠ ۚ فَاِنْ عَلِمْتُمُوْہُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلَا تَرْجِعُوْہُنَّ اِلَى الْكُفَّارِ ٠ ۭ لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ يَحِلُّوْنَ لَہُنَّ ٠ ۭ وَاٰتُوْہُمْ مَّآ اَنْفَقُوْا ٠ ۭ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اَنْ تَنْكِحُوْہُنَّ اِذَآ اٰتَيْتُمُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ ٠ ۭ وَلَا تُمْسِكُوْا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَاسْـَٔــلُوْا مَآ اَنْفَقْتُمْ وَلْيَسْـَٔــلُوْا مَآ اَنْفَقُوْا ٠ ۭ ذٰلِكُمْ حُكْمُ اللہِ ٠ ۭ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ ٠ ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ ١٠- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- هجر - الهَجْرُ والهِجْرَان : مفارقة الإنسان غيره، إمّا بالبدن، أو باللّسان، أو بالقلب . قال تعالی:- وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء 34] كناية عن عدم قربهنّ ، وقوله تعالی: إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان 30] فهذا هَجْر بالقلب، أو بالقلب واللّسان . وقوله :- وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل 10] يحتمل الثلاثة، ومدعوّ إلى أن يتحرّى أيّ الثلاثة إن أمكنه مع تحرّي المجاملة، وکذا قوله تعالی: وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم 46] ، وقوله تعالی:- وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر 5] ، فحثّ علی المفارقة بالوجوه كلّها . والمُهاجرَةُ في الأصل :- مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] ، وقوله :- وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . وقوله : أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء 97] ، وکذا المجاهدة تقتضي مع العدی مجاهدة النّفس کما روي في الخبر : «رجعتم من الجهاد الأصغر إلى الجهاد الأكبر» وهو مجاهدة النّفس . وروي :- (هاجروا ولا تهجّروا) أي : کونوا من المهاجرین، ولا تتشبّهوا بهم في القول دون الفعل، والهُجْرُ : الکلام القبیح المهجور لقبحه .- وفي الحدیث : «ولا تقولوا هُجْراً» وأَهْجَرَ فلان : إذا أتى بهجر من الکلام عن قصد،- ( ھ ج ر ) الھجر - والھجران کے معنی ایک انسان کے دوسرے سے جدا ہونے کے ہیں عام اس سے کہ یہ جدائی بدنی ہو یا زبان سے ہو یا دل سے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء 34] پھر ان کے ساتھ سونا ترک کر دو ۔ میں مفا رقت بدنی مراد ہے اور کنایتا ان سے مجامعت ترک کردینے کا حکم دیا ہے اور آیت : ۔ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان 30] کہ میری قوم نے اس قران کو چھوڑ رکھا تھا ۔ میں دل یا دل اور زبان دونوں کے ذریعہ جدا ہونا مراد ہے یعنی نہ تو انہوں نے اس کی تلاوت کی اور نہ ہی اس کی تعلیمات کی طرف دھیان دیا اور آیت : ۔ وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل 10] اور وضع داری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہو ۔ میں تینوں طرح الگ رہنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی جملا کی قید لگا کر اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ حسن سلوک اور مجاملت کیس صورت میں بھی ترک نہ ہونے پائے ۔ اس طرح آیت وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم 46] اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا ۔ میں بھی ترک بوجوہ ثلا ثہ مراد ہے اور آیت : ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر 5] اور ناپاکی سے دور رہو ۔ میں بھی ہر لحاظ سے رجز کو ترک کردینے کی ترغیب ہے ۔ المھاجر رۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے ) اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ اور فرمایا : ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء 97] کیا اللہ تعالیٰ کی ( اتنی لمبی چوڑی ) زمین اس قدر گنجائش نہیں رکھتی تھی کہ تم اس میں کسی طرف کو ہجرت کر کے چلے جاتے ۔ ہاں جس طرح ظاہری ہجرت کا قتضا یہ ہے کہ انسان خواہشات نفسانی کو خیر باد کہہ دے اسی طرح دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے میں بھی مجاہدۃ بالنفس کے معنی پائے جاتے ہیں چناچہ ایک حدیث میں مروی ہے آنحضرت نے ایک جہاد سے واپسی کے موقع پر صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ۔ کہ تم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کیطرف لوٹ رہے ہو یعنی دشمن کے ساتھ جہاد کے بعد اب نفس کے ساتھ جہاد کرنا ہے، وفي الحدیث : «ولا تقولوا هُجْراً»- محن - المَحْن والامتحان نحو الابتلاء، نحو قوله تعالی: فَامْتَحِنُوهُنَ [ الممتحنة 10] وقد تقدّم الکلام في الابتلاء . قال تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوى- [ الحجرات 3] ، وذلک نحو : وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً [ الأنفال 17] وذلک نحو قوله : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ الآية [ الأحزاب 33] .- ( م ح ن ) المحن ۔ والامتحان کے معنی آزمانے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : فَامْتَحِنُوهُنَ [ الممتحنة 10] تو انکی آزمائش کرو۔ اور امتحان اور ابتلاء کے تقریبا ایک ہی معنی ہیں چناچہ قرآن نے ایک مقام پر ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوى[ الحجرات 3] خدا نے ان کے دل تقویٰ کے لئے آزمالئے ہیں ۔ کہا ہے اور دوسرے مقام پر وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً [ الأنفال 17] اس سے یہ غرض تھی کہ مومنوں کو ۔۔ اچھی طرح آز مالے ۔ فرمایا ہے اور یہاں بلاء اور امتحان کا وہی مفہوم ہے جو کہ آیت :إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ الآية [ الأحزاب 33] اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل دور کردے۔ میں جس کے دور کرنے کا ہے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- (بقیہ حصہ کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)
اے ایمان والو جب تمہارے پاس اللہ کا اقرار کرنے والی عورتیں مکہ سے حدیبیہ یا مدینہ منورہ آجائیں تو تم ان سے دریافت کرو اور قسم لو کہ کیوں آئیں ان کے حقیقی ایمان کو تو اللہ ہی خوب جانتا ہے سو اگر ان کو امتحان کی رو سی مسلمان سمجھو تو پھر ان کو ان کے کافر خاوندوں کی طرف واپس مت کرو نہ تو وہ مسلمان عورتیں ان کافروں کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ کافر ان عورتوں کے لیے حلال ہیں یا یہ کہ نہ کوئی مسلمان عورت کسی کافر کے لیے اور نہ کافر وہ عورت کسی مومن کے لیے حلال ہے اور ان کے خاوندوں نے جو مہر کی نسبت ان پر خرچ کیا ہے وہ ان کو ادا کردو۔- یہ آیت حضرت سبیعہ بنت حارث اسلمیہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے وہ حدیبیہ کے سال اسلام قبول کر کے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئیں ان کے پیچھے ان کے خاوند ان کی تلاش میں آئے حضور نے ان کے خاوند کو ان کا مہر دے دیا کیونکہ حدیبیہ کے سال اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے رسول اکرم نے مکہ والوں سے اس چیز پر صلح کرلی تھی کہ جو ہم میں سے تمہارے دین میں داخل ہوجائے وہ تمہارا ہے اور جو تم میں سے ہمارا دین قبول کرلے گا وہ تمہیں واپس کردیا جائے گا اور ہماری جو عورت تمہارا دین اختیار کرے وہ تمہاری ہے تم اس کا مہر ادا کردو اور تمہاری جو عورت ہمارے دین میں آجائے ہم اس کا مہر اس کے خاوند کو دے دیں گے اسی وجہ سے حضور نے حضرت سبیعہ کا مہر ان کے خاوند کو دے دیا۔- اور اگر کافروں میں سے جو عورتیں تمہارا دین اختیار کرلیں تمہیں ان سے نکاح کرنے میں کچھ گناہ نہیں ہوگا جبکہ تم ان کو ان کا مہر ادا کردو جو بھی عورت مشرف بااسلام ہوجائے اور اس کا خاوند کافر ہو تو اس کا نکاح فورا ٹوٹ گیا اور اس کے اور اس کے خاوند کے درمیان عصمت کا تعلق باقی نہیں رہا اور نہ اس عورت پر عدت ہے اور اس عورت سے جبکہ اس کا رحم پاک ہوجائے نکاح کرنا جائز ہے۔- اور تم کافر عورتوں کے تعلقات کو باقی مت رکھو یعنی جو مسلمان عورتیں کافر ہوگئیں ان کا ان کے مسلمان خاوندوں سے عصمت کا کوئی تعلق نہیں رہا اور نہ ان پر ان کے خاوندوں کی عدت ہے۔- اور تم مکہ والوں سے جو کچھ تم نے ان عورتوں پر خرچ کیا ہے اگر یہ عورتیں ان کے دین میں داخل ہوجائیں تو وہ مانگ لو اور جو کچھ ان کافروں نے ان عورتوں پر جو مسلمان ہوگئی ہیں خرچ کیا ہے تو وہ مانگ لیں اسی چیز پر رسول اکرم نے کفار مکہ سے صلح کی تھی کہ بعض کو اپنی عورتوں کو مہر ادا کردیں وہ عورتیں مسلمان ہوجائیں یا کافر یہ اللہ کا فریضہ ہے وہ تمہارے اور مکہ والوں کے درمیان فیصلہ فرماتا ہے اور وہ تمہارے اعمال سے وقف ہے یہ آیت بالاجماع منسوخ ہے۔- شان نزول : يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا جَاۗءَكُمُ (الخ)- امام بخاری و مسلم نے مسور اور مروان بن حکم سے روایت کیا ہے کہ حدیبیہ کے سال جب رسول اکرم نے کفار قریش سے معاہدہ کیا تو مسلمان عورتیں حاضر خدمت ہوئیں اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اور طبرانی نے سند ضعیف کے ساتھ عبداللہ بن ابی احمد سے روایت کیا ہے کہ ام کلثوم بنت عقبہ بن ای معیط نے ہندہ میں ہجرت کی تو ان کے بھائی عمارہ اور ولید روانہ ہوئے۔ حضور کی خدمت میں آئے اور ام کلثوم کے بارے میں بات کی کہ ان کو واپس کردیا جائے تو للہ تعالیٰ نے خاص طور پر عورتوں کے بارے میں جو مشرکین سے معاہدہ تھا تو وہ توڑ دیا اور آیت امتحان نازل فرمائی۔- اور ابن ابی حاتم نے یزید بن ابی حبیب سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت امیمہ بنت بشر زوجہ ابو حسان کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔- اور مقاتل سے روایت کیا ہے کہ سعیدہ نامی عورت جو مشرکین مکہ میں سے صفی بن الواہب کے نکاح میں تھی ہدنہ کے زمانہ میں آئی۔ اس کے وارثوں نے آکر واپسی کی درخواست کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- اور ابن جریر نے زہری سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت آپ پر نازل ہوئی اور آپ حدیبیہ کے نشیبی حصہ میں تھے اور آپ نے کفار سے اس بات پر صلح کی تھی کہ جو ان میں سے آئے گا اس کو واپس کردیا جائے گا۔ چناچہ جب عورتیں آئیں تو پھر یہ آیت نازل ہوئی۔- اور ابن منیع نے کلبی عن ابی صالح کے طریق سے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر فارق مشرف بااسلام ہوگئے اور ان کی بیوی کافروں میں رہ گئیں تب یہ آیت نازل ہوئی۔
آیت ١٠ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا جَآئَ کُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُہٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْہُنَّ ” اے اہل ِایمان جب تمہارے پاس آئیں مومن خواتین ہجرت کر کے تو ان کا امتحان لے لیا کرو۔ “- یعنی ہر خاتون سے ضروری حد تک جانچ پڑتال اور تحقیق و تفتیش کرلیا کرو کہ آیا واقعی وہ سچی اور مخلص مومنہ ہے۔ - اَللّٰہُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِہِنَّ ” اللہ تو ان کے ایمان کے بارے میں بہت اچھی طرح جانتا ہے۔ “- کسی کے دل میں ایمان ہے یا نہیں ‘ اور اگر ہے تو کتنا ایمان ہے ‘ اس کا صحیح علم تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ تم لوگ اپنے طور پر کسی کے ایمان کے بارے میں کچھ نہیں جان سکتے ۔ لیکن محض ایک احتیاطی تدبیر کے طور پر مناسب طریقے سے کسی نہ کسی درجے میں ایک اندازہ لگانے کی کوشش ضرور کیا کرو کہ ہجرت کرنے والی خواتین کیا واقعی مومنات ہیں اور کیا واقعی وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہجرت کر کے مدینہ آئی ہیں۔ - فَاِنْ عَلِمْتُمُوْہُنَّ مُؤْمِنٰتٍ ” پھر اگر تم جان لو کہ وہ واقعی مومنات ہیں “- فَلَا تَرْجِعُوْہُنَّ اِلَی الْکُفَّارِ ” تو انہیں کفار کی طرف مت لوٹائو۔ “- لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ یَحِلُّوْنَ لَہُنَّ ” نہ اب یہ ان (کافروں) کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ ان کے لیے حلال ہیں۔ “- وَاٰتُوْہُمْ مَّآ اَنْفَقُوْا ” اور ان (کافروں) کو ادا کر دو جو کچھ انہوں نے خرچ کیا تھا۔ “- یعنی ان کے کافر شوہروں نے ان کو جو مہر دیے تھے وہ انہیں بھجوا دو ۔ اگر کسی مشرک کی بیوی مسلمان ہو کر مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آگئی ہے تو اب وہ اس کی بیوی نہیں رہی ‘ ان کے درمیان تعلق زوجیت ختم ہوچکا ہے ‘ لیکن عدل و انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ مہر کی وہ رقم جو وہ شخص اس خاتون کو اپنی بیوی کی حیثیت سے ادا کرچکا ہے وہ اسے لوٹا دی جائے۔ اس حکم سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام بلاتفریق مذہب و ملت کسی حق دار کا حق اس تک پہنچانے کے معاملے کو کس قدر سنجیدگی سے لیتا ہے۔ اور یہ سنجیدگی یا تاکید صرف قانون سازی کی حد تک ہی نہیں بلکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآنی قوانین و احکام کے عین مطابق ایسا نظام عدل و قسط بالفعل قائم کر کے بھی دکھا دیاجس میں حق دار کو تلاش کر کے اس کا حق اس تک پہنچایا جاتا تھا۔ حضرت عمر (رض) کے دور خلافت میں شام کے محاذ پر حضرت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) سپہ سالار تھے ۔ انہوں نے رومیوں کے خلاف یرموک کے میدان میں صدی کی سب سے بڑی جنگ لڑی۔ جنگ یرموک کی تیاری کے دوران ایک ایسا مرحلہ بھی آیا جب مسلمانوں کو جنگی حکمت عملی کے تحت کچھ مفتوحہ علاقوں کو خالی کر کے پیچھے ہٹنا پڑا۔ ان علاقوں کی عیسائی رعایا سے مسلمان جزیہ وصول کرچکے تھے ۔ جزیہ ایک ایسا ٹیکس ہے جو اسلامی حکومت اپنے غیر مسلم شہریوں سے ان کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری کے عوض وصول کرتی ہے۔ اسی لیے یہ ٹیکس ادا کرنے والے شہری ذِمّی کہلاتے ہیں۔ بہرحال مذکورہ علاقوں سے مسلمان وقتی طور پر چونکہ واپس جا رہے تھے اور اپنی غیر مسلم رعایا کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری نبھانے سے قاصر تھے ‘ اس لیے حضرت ابوعبیدہ (رض) کے حکم پر جزیہ کی تمام رقم متعلقہ افراد کو واپس کردی گئی۔ مسلمانوں کے اس عمل نے عیسائیوں کو اس قدر متاثر کیا کہ ان کے واپس جانے پر وہ لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے رہے ۔ یہ ہے اس دین کے نظام عدل و قسط کے تحت حق دار کو اس کا حق پہنچانے کی ایک مثال ‘ جس کے ماننے والوں کو ہدایت کی جا رہی ہے کہ وہ مسلمان عورتوں کے مہر کی رقوم ان کے مشرک شوہروں کو لوٹا دیں۔- وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اَنْ تَنْکِحُوْہُنَّ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ ” اور (اے مسلمانو ) تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم ان خواتین سے نکاح کرلو جبکہ تم انہیں ان کے مہر ادا کر دو ۔ “- وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ ” اور تم کافر خواتین کی ناموس کو اپنے قبضے میں نہ رکھو “- یعنی اگر تم میں سے کچھ لوگوں کی بیویاں ایمان نہیں لائیں اور ابھی تک مکہ ہی میں ہیں تو تم ان کو اپنے نکاح میں روکے نہ رکھو ‘ بلکہ انہیں طلاق دے دو اور انہیں بتادو کہ اب تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں۔- وَاسْئَلُوْا مَآ اَنْفَقْتُمْ وَلْیَسْئَلُوْا مَآ اَنْفَقُوْا ” اور تم مانگ لو وہ مال جو تم نے (بطورِ مہر) خرچ کیا ہے ‘ اور وہ (کافر) بھی مانگ لیں جو کچھ انہوں نے خرچ کیا ہے۔ “- یعنی جو مہر تم نے اپنی کافر بیویوں کو دیے تھے وہ تم واپس مانگ لو ‘ اور جو مہر کافروں نے اپنی مسلمان بیویوں کو دیے تھے انہیں وہ واپس مانگ لیں۔- ذٰلِکُمْ حُکْمُ اللّٰہِط یَحْکُمُ بَیْنَـکُمْ ” یہ اللہ کا حکم ہے ‘ وہ تمہارے مابین فیصلہ کر رہا ہے۔ “- وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ۔ ” اور اللہ سب کچھ جاننے والا ‘ کمال حکمت والا ہے۔ “
سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :14 اس حکم کا پس منظر یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد اول اول تو مسلمان مرد مکہ سے بھاگ بھاگ کر مدینہ آتے رہے اور انہیں معاہدے کی شرائط کے مطابق واپس کیا جاتا رہا ۔ پھر مسلمان عورتوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا اور سب سے پہلے ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ہجرت کر کے مدینے پہنچیں ۔ کفار نے معاہدے کا حوالہ دے کر ان کی واپسی کا بھی مطالبہ کیا اور ام کلثوم کے دو بھائی ولید بن عقبہ اور عمارہ بن عقبہ انہیں واپس لے جانے کے لیے مدینے پہنچ گئے ۔ اس وقت یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر وہ مسلمان ہوں اور یہ اطمینان کر لیا جائے کہ واقعی وہ ایمان ہی کی خاطر ہجرت کر کے آئی ہیں ، کوئی اور چیز انہیں نہیں لائی ہے ، تو انہیں واپس نہ کیا جائے ۔ اس مقام پر احادیث کی روایت بالمعنیٰ سے ایک بڑی پیچیدگی پیدا ہو گئی ہے جسے حل کرنا ضروری ہے ۔ صلح حدیبیہ کی شرائط کے متعلق احادیث میں جو روایتیں ہمیں ملتی ہیں وہ اکثر و بیشتر بالمعنیٰ روایات ہیں ۔ زیر بحث شرط کے متعلق ان میں سے کسی روایت کے الفاظ یہ ہیں : من جاء منکم لم نردہ علیکم ومن جاء کم منا رددتموہ علینا ۔ تم میں سے جو شخص ہمارے پاس آئے گا اسے ہم واپس نہ کریں گے اور ہم میں سے جو تمہارے پاس جائے گا اسے تم واپس کرو گے ۔ کسی میں یہ الفاظ ہیں ، من اتٰی رسول اللہ من اصحابہ بغیر اذن ولیہ ردہ علیہ ۔ رسول اللہ کے پاس ان کے اصحاب میں سے جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر آئے گا اسے وہ واپس کر دیں گے ۔ اور کسی میں ہے من اتٰی محمداً من قریش بغیر اذن ولیہ ردہ علیہم ۔ قریش میں سے جو شخص محمد کے پاس اپنے ولی کی اجازت کے بغیر جائے گا اسے وہ قریش کو واپس کر دیں گے ۔ ان روایات کا طرز بیان خود یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ان میں معاہدے کی اس شرط کو ان الفاظ میں نقل نہیں کیا گیا ہے جو اصل معاہدے میں لکھے گئے تھے ، بلکہ راویوں نے ان کا مفہوم خود اپنے الفاظ میں بیان کر دیا ہے ۔ لیکن چونکہ بکثرت روایات اسی نوعیت کی ہیں اس لیے عام طور پر مفسرین و محدثین نے اس سے یہی سمجھا کہ معاہدہ عام تھا جس میں عورت مرد سب داخل تھے اور عورتوں کو بھی اس کی رو سے واپس ہونا چاہیے تھا ۔ اس کے بعد جب ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم آیا کہ مومن عورتیں واپس نہ جائیں تو ان حضرات نے اس کی یہ تاویل کی کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مومن عورتوں کی حد تک معاہدہ توڑ دینے کا فیصلہ فرما دیا ۔ مگر یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے جس کو اس آسانی کے ساتھ قبول کر لیا جائے ۔ اگر معاہدہ فی الواقع بلا تخصیص مرد و زن سب کے لیے عام تھا تو آخر یہ کیسے جائز ہو سکتا تھا کہ ایک فریق اس میں یک طرفہ ترمیم کر دے یا اس کے کسی جز کو بطور خود بدل ڈالے؟ اور بالفرض ایسا کیا بھی گیا تھا تو یہ کیسی عجیب بات ہے کہ قریش کے لوگوں نے اس پر کوئی احتجاج نہیں کیا ۔ قریش والے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی ایک ایک بات پر گرفت کرنے کے لیے خار کھائے بیٹھے تھے ۔ انہیں اگر یہ بات ہاتھ آ جاتی کہ آپ شرائط معاہدہ کی صریح خلاف ورزی کر گزرے ہیں تو وہ زمین و آسمان سر پر اٹھا لیتے ۔ لیکن ہمیں کسی روایت میں اس کا شائبہ تک نہیں ملتا کہ انہوں نے قرآن کے اس فیصلے پر ذرہ برابر بھی چون و چرا کی ہو ۔ یہ ایسا سوال تھا جس پر غور کیا جاتا تو معاہدے کے اصل الفاظ کی جستجو کر کے اس پیچیدگی کا حل تلاش کیا جاتا ، مگر بہت سے لوگوں نے تو اس کی طرف توجہ نہ کی ، اور بعض حضرات ( مثلاً قاضی ابو بکر ابن عربی ) نے توجہ کی بھی تو انہوں نے قریش کے اعتراض نہ کرنے کی یہ توجیہ تک کرنے میں تامل نہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے بطور معجزہ اس معاملہ میں قریش کی زبان بند کر دی تھی ۔ تعجب ہے کہ اس توجیہ پر ان حضرات کا ذہن کیسے مطمئن ہوا ۔ اصل بات یہ ہے کہ معاہدہ صلح کی یہ شرط مسلمانوں کی طرف سے نہیں بلکہ کفار قریش کی طرف سے تھی ، اور ان کی جانب سے ان کے نمائندے سہیل بن عمرو نے جو الفاظ معاہدے میں لکھوائے تھے وہ یہ تھے : علیٰ ان لا یاتیک منا رجل و ان کان علی دینک الا رددتہ الینا ۔ اور یہ کہ تمہارے پاس ہم میں سے کوئی مرد بھی آئے ، اگرچہ وہ تمہارے دین ہی پر ہو ، تم اسے ہماری طرف واپس کرو گے ۔ معاہدے کے یہ الفاظ بخاری ، کتاب الشروط ، باب الشروط فی الجہاد و المصالحہ میں قوی سند کے ساتھ نقل ہوئے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ سہیل نے رجل کا لفظ شخص کے معنی میں استعمال کیا ہو ، لیکن یہ اس کی ذہنی مراد ہوگی ۔ معاہدے میں جو لفظ لکھا گیا تھا وہ رجل ہی تھا جو عربی زبان میں مرد کے لیے بولا جاتا ہے ۔ اسی بنا پر جب ام کلثوم بنت عقبہ کی واپسی کا مطالبہ لے کر ان کے بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ( امام زہری کی روایت کے مطابق ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو واپس کرنے سے یہ کہہ کر انکار فرمایا کہ کان الشرط فی الرجال دون النساء ۔ شرط مردوں کے بارے میں تھی نہ کہ عورتوں کے بارے میں ۔ ( احکام القرآن ، ابن عربی ۔ تفسیر کبیر ، امام رازی ) ۔ اس وقت تک خود قریش کے لوگ بھی اس غلط فہمی میں تھے کہ معاہدے کا اطلاق ہر طرح کے مہاجرین پر ہوتا ہے ، خواہ وہ مرد ہوں یا عورت ۔ مگر جب حضور نے ان کو معاہدے کے ان الفاظ کی طرف توجہ دلائی تو وہ دم بخود رہ گئے اور انہیں ناچار اس فیصلے کو ماننا پڑا ۔ معاہدے کی اس شرط کے لحاظ سے مسلمانوں کو حق تھا کہ جو عورت بھی مکہ چھوڑ کر مدینے آتی ، خواہ وہ کسی غرض سے آتی ، اسے واپس دینے سے انکار کر دیتے ۔ لیکن اسلام کی صرف مومن عورتوں کی حفاظت سے دلچسپی تھی ، ہر طرح کی بھاگنے والی عورتوں کے لیے مدینہ طیبہ کو پناہ گاہ بنانا مقصود نہ تھا ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جو عورتیں ہجرت کر کے آئیں اور اپنے مومن ہونے کا اظہار کریں ، ان سے پوچھ گچھ کر کے اطمینان کر لو کہ وہ واقعی ایمان لے کر آئی ہیں ، اور جب اس کا اطمینان ہو جائے تو انکو واپس نہ کرو ۔ چنانچہ اس ارشاد الٰہی پر عمل درآمد کرنے کے لیے جو قاعدہ بنایا گیا وہ یہ تھا کہ جو عورتیں ہجرت کر کے آتی تھیں ان سے پوچھا جاتا تھا کہ کیا وہ اللہ کی توحید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتی ہیں اور صرف اللہ اور اس کے رسول کی خاطر نکل کر آئی ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ وہ شوہر سے بگڑ کر گھر سے نکل کھڑی ہوئی ہوں؟ یا ہمارے ہاں کے کسی مرد کی محبت ان کو لے آئی ہو؟ یا کوئی اور دنیوی غرض ان کے اس فعل کی محرک ہوئی ہو؟ ان سوالات کا اطمینان بخش جواب جو عورتیں دے دیتی تھیں صرف ان کو روک لیا جاتا تھا ، باقی سب کو واپس کر دیا جاتا تھا ( ابن جریر بحوالہ ابن عباس ، قتادہ ، مجاہد ، عکرمہ ، ابن زید ) ۔ اس آیت میں قانون شہادت کا بھی ایک اصولی ضابطہ بیان کر دیا گیا ہے اور اس کی مزید توضیح اس طریق کار سے ہو گئی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل درآمد کے لیے مقرر فرمایا تھا ۔ آیت میں تین باتیں فرمائی گئی ہیں ۔ ایک یہ کہ ہجرت کرنے والی جو عورتیں اپنے آپ کو مومن ہونے کی حیثیت سے پیش کریں ان کے ایمان کی جانچ کرو ۔ دوسرے یہ کہ ان کے ایمان کی حقیقت کو تو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ، تمہارے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ وہ حقیقت میں ایمان لائی ہیں ۔ تیسرے یہ کہ جانچ پڑتال سے جب تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ مومن ہیں تو انہیں واپس نہ کرو ۔ پھر اس حکم کے مطابق ان عورتوں کے ایمان کی جانچ کرنے کے لیے جو طریقہ حضور نے مقرر فرمایا وہ یہ تھا کہ ان عورتوں کے حلفیہ بیان پر اعتماد کیا جائے اور ضروری جرح کر کے یہ اطمینان کر لیا جائے کہ ان کی ہجرت کا محرک ایمان کے سوا کچھ اور نہیں ہے ۔ اس سے اول تو یہ قاعدہ معلوم ہوا کہ معاملات کا فیصلہ کرنے کے لیے عدالت کو حقیقت کا علم حاصل ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ صرف وہ علم کافی ہے جو شہادتوں سے حاصل ہوتا ہے ۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ہم ایک شخص کے حلفیہ بیان پر اعتماد کریں گے ۔ تاوقتیکہ کوئی صریح قرینہ اس کے کاذب ہونے پر دلالت نہ کر رہا ہو ۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آدمی اپنے عقیدے اور ایمان کے متعلق خود جو خبر دے رہا ہو ہم اسے قبول کریں گے اور اس بات کی کھوج میں نہ پڑیں گے کہ فی الواقع اس کا وہی عقیدہ ہے جو وہ بیان کر رہا ہے ، الا یہ کہ کوئی صریح علامت ہمارے سامنے ایسی ظاہر ہو جائے جو اس کی تردید کر رہی ہو ۔ اور چوتھی بات یہ کہ ایک شخص کے جن ذاتی حالات کو دوسرا کوئی نہیں جان سکتا ان میں اسی کے بیان پر بھروسہ کیا جائے گا ، مثلاً طلاق اور عدت کے معاملات میں عورت کے حیض اور طہر کے متعلق اس کا اپنا بیان ہی معتبر ہوگا ، خواہ وہ جھوٹ بولے یا سچ ۔ انہی قواعد کے مطابق علم حدیث میں بھی ان روایات کو قبول کیا جائے گا جن کے راویوں کا ظاہر حال ان کے راستباز ہونے کی شہادت دے رہا ہو ، الا یہ کہ کچھ دوسرے قرائن ایسے موجود ہوں جو کسی روایت کے قبول میں مانع ہوں ۔ سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :15 مطلب یہ ہے کہ ان کے کافر شوہروں کو ان کے جو مہر واپس کیے جائیں گے وہی ان عورتوں کے مہر شمار نہ ہوں گے ، بلکہ جو مسلمان بھی ان میں سے کسی عورت سے نکاح کرنا چاہے وہ اس کا مہر ادا کرے اور اس سے نکاح کر لے ۔ سورة الْمُمْتَحِنَة حاشیہ نمبر :16 ان آیات میں چار بڑے اہم حکم بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق اسلام کے عائلی قانون سے بھی ہے اور بین الا قوامی قانون سے بھی : اول یہ کہ جو عورت مسلمان ہو جائے وہ اپنے کافر شوہر کے لیے حلال نہیں رہتی اور نہ کافر شوہر اس کے لیے حلال رہتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ جو منکوحہ عورت مسلمان ہو کر دار الکفر سے دار الاسلام میں ہجرت کر آئے اس کا نکاح آپ سے آپ ٹوٹ جاتا ہے اور جو مسلمان بھی چاہے اس کا مہر دے کر اس سے نکاح کر سکتا ہے ۔ تیسرے یہ کہ جو مرد مسلمان ہو جائے اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اس کی بیوی اگر کافر رہے تو وہ اسے اپنے نکاح میں روکے رکھے ۔ چوتھے یہ کہ اگر دار الکفر اور دار الاسلام کے درمیان صلح کے تعلقات موجود ہوں تو اسلامی حکومت کو دار الکفر کی حکومت سے یہ معاملہ طے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کفار کی جو منکوحہ عورتیں مسلمان ہو کر دار الاسلام میں ہجرت کر آئی ہوں ان کے مہر مسلمانوں کی طرف سے واپس دے دیے جائیں ، اور مسلمانوں کی منکوحہ کافر عورتیں جو دار الکفر میں رہ گئی ہوں ان کے مہر کفار کی طرف سے واپس مل جائیں ۔ ان احکام کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ آغاز اسلام میں بکثرت مرد ایسے تھے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا مگر ان کی بیویاں مسلمان نہ ہوئیں ۔ اور بہت سی عورتیں ایسی تھیں جو مسلمان ہو گئیں مگر ان کے شوہروں نے اسلام قبول نہ کیا ۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی حضرت زینب کے شوہر ابو العاص غیر مسلم تھے اور کئی سال تک غیر مسلم رہے ۔ ابتدائی دور میں ایسا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ مسلمان عورت کے لیے اس کا کافر شوہر اور مسلمان مرد کے لیے اس کی مشرک بیوی حلال نہیں ہے ۔ اس لیے ان کے درمیان ازدواجی رشتے برقرار رہے ۔ ہجرت کے بعد بھی کئی سال تک یہ صورت حال رہی کہ بہت سی عورتیں مسلمان ہو کر ہجرت کر آئیں اور ان کے کافر شوہر دار الکفر میں رہے ۔ اور بہت سے مسلمان مرد ہجرت کر کے آ گئے اور ان کی کافر بیویاں دار الکفر میں رہ گئیں ۔ مگر اس کے باوجود ان کے درمیان رشتہ ازدواج قائم رہا ۔ اس سے خاص طور پر عورتوں کے لیے بڑی پیچیدگی پیدا ہو رہی تھی ، کیونکہ مرد تو دوسرے نکاح بھی کر سکتے تھے ، مگر عورتوں کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ جب تک سابق شوہروں سے ان کا نکاح فسخ نہ ہو جائے وہ کسی اور شخص سے نکاح کر سکیں ۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب یہ آیات نازل ہوئیں تو انہوں نے مسلمانوں اور کفار و مشرکین کے درمیان سابق کے ازدواجی رشتوں کو ختم کر دیا اور آئندہ کے لیے ان کے بارے میں ایک قطعی اور واضح قانون بنا دیا ۔ فقہائے اسلام نے اس قانون کو چار بڑے بڑے عنوانات کے تحت مرتب کیا ہے : ایک: وہ حالت جس میں زوجین دار الاسلام میں ہوں اور ان میں سے ایک مسلمان ہو جائے اور دوسرا کافر رہے ۔ دوسرے: وہ حالت جس میں زوجین دار الکفر میں ہوں اور ان میں سے ایک مسلمان ہو جائے اور دوسرا کافر رہے ۔ تیسرے: وہ حالت جس میں زوجین میں سے کوئی ایک مسلمان ہو کر دار الاسلام میں ہجرت کر کے آجائے اور دوسرا دار الکفر میں کافر رہے ۔ چوتھے: وہ حالت جس میں مسلم زوجین میں سے کوئی ایک مرتد ہو جائے ۔ ذیل میں ہم ان چاروں حالتوں کے متعلق فقہاء کے مسالک الگ الگ بیان کرتے ہیں : پہلی صورت میں اگر اسلام شوہر نے قبول کیا ہو اور اس کی بیوی عیسائی یا یہودی ہو اور وہ اپنے دین پر قائم رہے تو دونوں کے درمیان نکاح باقی رہے گا ، کیونکہ مسلمان مرد کے لیے اہل کتاب بیوی جائز ہے ۔ یہ امر تمام فقہاء کے درمیان متفق علیہ ہے ۔ اور اگر اسلام قبول کرنے والے مرد کی بیوی غیر اہل کتاب میں سے ہو اور وہ اپنے دین پر قائم رہے ، تو حنفیہ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ عورت کے سامنے اسلام پیش کیا جائے گا ، قبول کر لے تو نکاح باقی رہے گا ، نہ قبول کرے تو ان کے درمیان تفریق کر دی جائے گی ۔ اس صورت میں اگر زوجین کے درمیان خلوت ہو چکی ہو تو عورت مہر کی مستحق ہوگی ، اور خلوت نہ ہوئی ہو تو اس کو مہر پانے کا حق نہ ہوگا ، کیونکہ فرقت اس کے انکار کی وجہ سے واقع ہوئی ہے ( المبسوط ، ہدایہ ، فتح القدیر ) ۔ امام شافعی اور احمد کہتے ہیں کہ اگر زوجین کے درمیان خلوت نہ ہوئی ہو تو مرد کے اسلام قبول کرتے ہی عورت اس کے نکاح سے باہر ہو جائے گی ، اور اگر خلوت ہو چکی ہو تو عورت تین مرتبہ ایام ماہواری آنے تک اس کے نکاح میں رہے گی ، اس دوران میں وہ خود اپنی مرضی سے اسلام قبول کر لے تو نکاح باقی رہے گا ، ورنہ تیسری بار ایام سے فارغ ہوتے ہی آپ سے آپ فسخ ہو جائے گا ۔ امام شافعی یہ بھی فرماتے ہیں کہ ذمیوں کو ان کے مذہب سے تعرض نہ کرنے کی جو ضمانت ہماری طرف سے دی گئی ہے اس کی بنا پر یہ درست نہیں ہے کہ عورت کے سامنے اسلام پیش کیا جائے ۔ لیکن در حقیقت یہ ایک کمزور بات ہے ، کیونکہ ایک ذمی عورت کے مذہب سے تعرض تو اس صورت میں ہوگا جبکہ اس کو اسلام قبول کرنے پر مجور کیا جائے ۔ اس سے صرف یہ کہنا کوئی بے جا تعرض نہیں ہے کہ تو اسلام قبول کر لے تو اپنے شوہر کے ساتھ رہ سکے گی ورنہ تجھے اس سے الگ کر دیا جائے گا ۔ حضرت علی کے زمانے میں اس کی نظیر پیش بھی آ چکی ہے ۔ عراق کے ایک مجوسی زمیندار نے اسلام قبول کیا اور اس کی بیوی کافر رہی ۔ حضرت علی نے اس کے سامنے اسلام پیش فرمایا ۔ اور جب اس نے انکار کیا تب آپ نے دونوں کے درمیان تفریق کرا دی ( المبسوط ) ۔ امام مالک کہتے ہیں کہ اگر خلوت نہ ہو چکی ہو تو مرد کے اسلام لاتے ہی اس کی کافر بیوی اس سے فوراً جدا ہو جائے گی اور اگر خلوت ہو چکی ہو تو عورت کے سامنے اسلام پیش کیا جائے گا اور اس کے انکار کی صورت میں جدائی واقع ہو جائے گی ( المغنی لابن قدامہ ) ۔ اور اگر اسلام عورت نے قبول کیا ہو اور مرد کافر رہے ، خواہ وہ اہل کتاب میں سے ہو یا غیر اہل کتاب میں سے ، تو حنفیہ کہتے ہیں کہ دونوں میں خلوت ہو چکی ہو یا نہ ہوئی ہو ، ہر صورت میں شوہر کے سامنے اسلام پیش کیا جائے گا ، قبول کر لے تو عورت اس کے نکاح میں رہے گی ، انکار کر دے تو قاضی دونوں میں تفریق کرا دے گا ۔ اس دوران میں جب تک مرد اسلام سے انکار نہ کرے ، عورت اس کی بیوی تو رہے گی مگر اس کو مقاربت کا حق نہ ہوگا ۔ شوہر کے انکار کی صورت میں تفریق طلاق بائن کے حکم میں ہوگی ۔ اگر اس سے پہلے خلوت نہ ہوئی ہو تو عورت نصف مہر پانے کی حق دار ہوگی ، اور خلوت ہو چکی ہو تو عورت پورا مہر بھی پائے گی اور عدت کا نفقہ بھی ( المبسوط ۔ ہدایہ ۔ فتح القدیر ) ۔ امام شافعی کے نزدیک خلوت نہ ہونے کی صورت میں عورت کے اسلام قبول کرتے ہی نکاح فسخ ہو جائے گا ، اور خلوت ہونے کی صورت میں عدت ختم ہونے تک عورت اس مرد کے نکاح میں رہے گی ۔ اس مدت کے اندر وہ اسلام قبول کر لے تو نکاح باقی رہے گا ورنہ عدت گزرتے ہی جدائی واقع ہو جائے گی ۔ لیکن مرد کے معاملہ میں بھی امام شافعی نے وہی رائے ظاہر کی ہے جو عورت کے معاملہ میں اوپر منقول ہوئی کہ اس کے سامنے اسلام پیش کرنا جائز نہیں ہے ، اور یہ مسلک بہت کمزور ہے ۔ حضرت عمر کے زمانے میں متعدد واقعات ایسے پیش آئے ہیں کہ عورت نے اسلام قبول کر لیا اور مرد سے اسلام لانے کے لیے کہا گیا اور جب اس نے انکار کر دیا تو دونوں کے درمیان تفریق کرا دی گئی ۔ مثلاً بنی تغلِب کے ایک عیسائی کی بیوی کا معاملہ ان کے سامنے پیش ہوا ۔ انہوں نے مرد سے کہا یا تو تو اسلام قبول کر لے ورنہ میں تم دونوں کے درمیان تفریق کر دوں گا ۔ اس نے انکار کیا اور آپ نے تفریق کی ڈگری دے دی ۔ بہزُ المَلِک کی ایک نو مسلم زمیندارنی کا مقدمہ ان کے پاس بھیجا گیا ۔ اس کے معاملہ میں بھی انہوں نے حکم دیا کہ اس کے شوہر کے سامنے اسلام پیش کیا جائے ، اگر وہ قبول کر لے تو بہتر ، ورنہ دونوں میں تفریق کرا دی جائے ۔ یہ واقعات صحابہ کرام کے سامنے پیش آئے تھے اور کسی کا اختلاف منقول نہیں ہے ( احکام القرآن للجصاص ۔ المبسوط ۔ فتح القدیر ) امام مالک کی رائے اس معاملے میں یہ ہے کہ اگر خلوت سے پہلے عورت مسلمان ہو جائے تو شوہر کے سامنے اسلام پیش کیا جائے ، وہ قبول کر لے تو بہتر ورنہ فوراً تفریق کرا دی جائے ۔ اور اگر خلوت ہو چکی ہو اور اس کے بعد عورت اسلام لائی ہو تو زمانہ عدت ختم ہونے تک انتظار کیا جائے ، اس مدت میں شوہر اسلام قبول کر لے تو نکاح باقی رہے گا ، ورنہ عدت گزرتے ہی فرقت واقع ہو جائے گی ۔ امام احمد کا ایک قول امام شافعی کی تائید میں ہے ، اور دوسرا قول یہ ہے کہ زوجین کے درمیان اختلاف دین واقع ہو جانا بہرحال فوری تفریق کا موجب ہے خواہ خلوت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو ( المغنی ) ۔ ( 2 ) دار الکفر میں اگر عورت مسلمان ہو جائے اور مرد کافر رہے ، یا مرد مسلمان ہو جائے اور اس کی بیوی ( جو عیسائی یا یہودی نہ ہو بلکہ کسی غیر کتابی مذہب کی ہو ) اپنے مذہب پر قائم رہے ، تو حنفیہ کے نزدیک خواہ ان کے درمیان خلوت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو ، تفریق واقع نہ ہو گی جب تک عورت کو تین مرتبہ ایام ماہواری نہ آ جائیں ، یا اس کے غیر حائضہ ہونے کو صورت میں تین مہینے نہ گزر جائیں ۔ اس دوران میں اگر دوسرا فریق بھی مسلمان ہو جائے تو نکاح باقی رہے گا ، ورنہ یہ مدت گزرتے ہی فرقت واقع ہو جائے گی ۔ امام شافعی اس معاملہ میں بھی خلوت اور عدم خلوت کے درمیان فرق کرتے ہیں ۔ ان کی رائے یہ ہے کہ اگر خلوت نہ ہوئی ہو تو زوجین کے درمیان دین کا اختلاف واقع ہوتے ہی فرقت ہو جائے گی ، اگر خلوت ہو جانے کے بعد دین کا اختلاف رونما ہوا ہو تو عدت کی مدت ختم ہونے تک ان کا نکاح باقی رہے گا ۔ اس دوران میں اگر دوسرا فریق اسلام قبول نہ کرے تو عدت ختم ہونے کے ساتھ ہی نکاح بھی ختم ہو جائے گا ( المبسوط ، فتح القدیر ، احکام القرآن للجصاص ) ۔ ( 3 ) ۔ جس صورت میں زوجین کے درمیان اختلاف دین کے ساتھ اختلاف دار بھی واقع ہو جائے ، یعنی ان میں سے کوئی ایک دار الکفر میں کافر رہے اور دوسرا دار الاسلام کی طرف ہجرت کر جائے ، اس کے متعلق حنفیہ کہتے ہیں کہ دونوں کے درمیان نکاح کا تعلق آپ سے آپ ختم ہو جائے گا ۔ اگر ہجرت کرنے والی عورت ہو تو اسے فوراً دوسرا نکاح کر لینے کا حق حاصل ہے ، اس پر کوئی عدت نہیں ہے ، البتہ مقاربت کے لیے اس کے شوہر کو استبراء رحم کی خاطر ایک مرتبہ ایام ماہواری آ جانے تک انتظار کرنا ہوگا ، اور اگر وہ حاملہ ہو تب بھی نکاح ہو سکتا ہے مگر مقاربت کے لیے وضع حمل تک انتظار کرنا ہوگا ۔ امام ابو یوسف اور امام محمد نے اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ سے صرف اتنا اختلاف کیا ہے کہ ان کے نزدیک عورت پر عدت لازم ہے ، اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل سے پہلے اس کا نکاح نہیں ہو سکتا ( المبسوط ۔ ہدایہ ۔ احکام القرآن للجصاص ) ۔ امام شافعی ، امام احمد اور امام مالک کہتے ہیں کہ اختلاف دار کا اس معاملہ میں کوئی دخل نہیں ہے ، بلکہ اصل چیز صرف اختلاف دین ہے ۔ یہ اختلاف اگر زوجین میں واقع ہو جائے تو احکام وہی ہیں جو دار الاسلام میں زوجین کے درمیان یہ اختلاف واقع ہونے کے احکام ہیں ( المغنی ) ۔ امام شافعی اپنی مذکورہ بالا رائے کے ساتھ ساتھ ہجرت کر کے آنے والی مسلمان عورت کے معاملہ میں یہ رائے بھی ظاہر کرتے ہیں کہ اگر وہ اپنے کافر شوہر سے لڑ کر اس کے حق زوجیت کو ساقط کرنے کے ارادے سے آئی ہو تو اختلاف دار کی بنا پر نہیں بلکہ اس کے اس قصد کی بنا پر فوراً فرقت واقع ہو جائے گی ( المبسوط و ہدایہ ) ۔ لیکن قرآن مجید کی زیر بحث آیت پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں صحیح ترین رائے وہی ہے جو امام ابو حنیفہ نے ظاہر فرمائی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ہجرت کر کے آنے والی مومن عورتوں ہی کے بارے میں نازل فرمائی ہے ، اور انہی کے حق میں یہ فرمایا ہے کہ وہ اپنے ان کافر شوہروں کے لیے حلال نہیں رہیں جنہیں وہ دار الکفر میں چھوڑ آئی ہیں ، اور دار الاسلام کے مسلمانوں کو اجازت دی ہے کہ وہ ان کے مہر ادا کر کے ان سے نکاح کرلیں ۔ دوسری طرف مہاجر مسلمانوں سے خطاب کر کے یہ فرمایا ہے کہ اپنی ان کافر بیویوں کو اپنے نکاح میں نہ روکے رکھو جو دار الکفر میں رہ گئی ہیں اور کفار سے اپنے وہ مہر واپس مانگ لو جو تم نے ان عورتوں کو دیے تھے ۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف اختلاف دین ہی کے احکام نہیں ہیں بلکہ ان احکام کو جس چیز نے یہ خاص شکل دے دی ہے وہ اختلاف دار ہے ۔ اگر ہجرت کی بنا پر مسلمان عورتوں کے نکاح ان کے کافر شوہروں سے ٹوٹ نہ گئے ہوتے تو مسلمانوں کو ان سے نکاح کر لینے کی اجازت کیسے دی جا سکتی تھی ، اور وہ بھی اس طرح کہ اس اجازت میں عدت کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں ہے ۔ اسی طرح اگر لَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ کا حکم آ جانے کے بعد بھی مسلمان مہاجرین کی کافر بیویاں ان کے نکاح میں باقی رہ گئی ہوتیں تو ساتھ ساتھ یہ حکم بھی دیا جاتا کہ انہیں طلاق دے دو ۔ مگر یہاں اس کی طرف بھی کوئی اشارہ نہیں ۔ بلاشبہ یہ صحیح ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد حضرت عمر اور حضرت طلحہ اور بعض دوسرے مہاجرین نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی تھی ۔ مگر یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ ان کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا ، اور ان بیویوں کے ساتھ تعلق زوجیت کا انقطاع ان کے طلاق دینے پر موقوف تھا ، اور اگر وہ طلاق نہ دیتے تو وہ بیویاں ان کے نکاح میں باقی رہ جاتیں ۔ اس کے جواب میں عہد نبوی کے تین واقعات کی نظیریں پیش کی جاتی ہیں جن کو اس امر کا ثبوت قرار دیا جاتا ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختلاف دار کے باوجود مومن اور کافر زوجین کے درمیان نکاح کا تعلق برقرار رکھا ۔ پہلا واقعہ یہ ہے کہ فتح مکہ سے ذرا پہلے ابوسفیان مرالظَّہْران ( موجودہ وادی فاطمہ ) کے مقام پر لشکر اسلام میں آئے اور یہاں انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور ان کی بیوی ہند مکہ میں کافر رہیں ۔ پھر فتح مکہ کے بعد ہند نے اسلام قبول کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تجدید نکاح کے بغیر ہی ان کو سابق نکاح پر برقرار رکھا ۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد عِکرِمہ بن ابی جہل اور حکیم بن حزَام مکہ سے فرار ہو گئے اور ان کے پیچھے دونوں کی بیویاں مسلمان ہو گئیں ۔ پھر انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے شوہروں کے لیے امان لے لی اور جا کر ان کو لے آئیں ۔ دونوں اصحاب نے حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بھی سابق نکاحوں کو بر قرار رکھا ۔ تیسرا واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی صاحبزادی حضرت زینب کا ہے جو ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے آئیں تھیں اور ان کے شوہر ابو العاص بحالت کفر مکہ ہی میں مقیم رہ گئے تھے ۔ ان کے متعلق مسند احمد ، ابو داؤد ، ترمذی اور ابن ماجہ میں ابن عباس کی روایت یہ ہے کہ وہ 8 ھ میں مدینہ آ کر مسلمان ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تجدید نکاح کے بغیر سابق نکاح ہی پر صاحبزادی کو ان کی زوجیت میں رہنے دیا ۔ لیکن ان میں سے پہلے دو واقعے تو درحقیقت اختلاف دار کی تعریف ہی میں نہیں آتے ، کیونکہ اختلاف دار اس چیز کا نام نہیں ہے ایک شخص عارضی طور پر ایک دار سے دوسرے دار کی طرف چلا گیا یا فرار ہو گیا ، بلکہ یہ اختلاف صرف اس صورت میں واقع ہوتا ہے جب کوئی آدمی ایک دار سے منتقل ہو کر دوسرے دار میں آباد ہو جائے اور اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان موجودہ زمانے کی اصلاح کے مطابق قومیت ( ) کا فرق واقع ہو جائے ۔ رہا سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا معاملہ تو اس کے بارے میں دو روایتیں ہیں ۔ ایک روایت ابن عباس کی ہے جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے ، اور دوسری روایت حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص کی ہے جس کو امام احمد ، ترمذی ، اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے ۔ اس دوسری روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحبزادی کو جدید نکاح اور جدید مہر کے ساتھ پھر ابو العاص ہی کی زوجیت میں دے دیا ۔ اس اختلاف روایت کی صورت میں اول تو یہ نظیر ان حضرات کے لیے قطعی دلیل نہیں رہتی جو اختلاف دار کی قانونی تاثیر کا انکار کرتے ہیں ۔ دوسرے ، اگر وہ ابن عباس ہی کی روایت کے صحیح ہونے پر اصرار کریں تو یہ ان کے مسلک کے خلاف پڑتی ہے ۔ کیونکہ ان کے مسلک کی رو سے تو جن میاں بیوی کے درمیان اختلاف دین واقع ہو گیا ہو اور وہ باہم خلوت کر چکے ہوں ان کا نکاح عورت کو صرف تین ایام ماہواری آنے تک باقی رہتا ہے ، اس دوران میں دوسرا فریق اسلام قبول کر لے تو زوجیت قائم رہتی ہے ، ورنہ تیسری بار ایام آتے ہی نکاح آپ سے آپ فسخ ہو جاتا ہے ۔ لیکن حضرت زینب کے جس واقعہ سے وہ استدلال کرتے ہیں اس میں زوجین کے درمیان اختلاف دین واقع ہوئے کئی سال گزر چکے تھے ، حضرت زینب کی ہجرت کے چھ سال بعد ابو العاص ایمان لائے تھے ، اور ان کے ایمان لانے سے کم از کم دو سال پہلے قرآن میں وہ حکم نازل ہو چکا تھا جس کی رو سے مسلمان عورت مشرکین پر حرام کر دی گئی تھی ۔ ( 4 ) ۔ چوتھا مسئلہ ارتداد کا ہے ۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ زوجین ایک ساتھ مرتد ہو جائیں ، اور دوسری صورت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک مرتد ہو اور دوسرا مسلمان رہے ۔ اگر زوجین ایک ساتھ مرتد ہو جائیں تو شافعیہ اور حنابلہ کہتے ہیں کہ خلوت سے پہلے ایسا ہو تو فوراً ، اور خلوت کے بعد ہو تو عدت کی مدت ختم ہوتے ہی دونوں کا وہ نکاح ختم ہو جائے گا جو حالت اسلام میں ہوا تھا ۔ اس کے برعکس حنفیہ کہتے ہیں کہ اگرچہ قیاس یہی کہتا ہے کہ ان کا نکاح فسخ ہو جائے ، لیکن حضرت ابوبکر کے زمانہ میں جو فتنہ ارتداد برپا ہوا تھا اس میں ہزارہا آدمی مرتد ہوئے ، پھر مسلمان ہو گئے ، اور صحابہ کرام نے کسی کو بھی تجدید نکاح کا حکم نہیں دیا ، اس لیے ہم صحابہ کے متفقہ فیصلے کو قبول کرتے ہوئے خلاف قیاس یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ زوجین کے ایک ساتھ مرتد ہونے کی صورت میں ان کے نکاح نہیں ٹوٹتے ( المبسوط ، ہدایہ ، فتح القدیر ، الفقہ علی المذاہب الاربعہ ) ۔ اگر شوہر مرتد ہو جائے اور عورت مسلمان رہے تو حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک فوراً نکاح ٹوٹ جائے گا ، خواہ ان کے درمیان پہلے خلوت ہو چکی ہو یا نہ ہوئی ہو ۔ لیکن شافعیہ اور حنابلہ اس میں خلوت سے پہلے اور خلوت کے بعد کی حالت کے درمیان فرق کرتے ہیں ۔ اگر خلوت سے پہلے ایسا ہوا ہو تو فوراً نکاح ہو جائے گا ، اور خلوت کے بعد ہوا ہو تو زمانہ عدت تک باقی رہے گا ، اس دوران میں وہ شخص مسلمان ہو جائے تو زوجیت بر قرار رہے گی ، ورنہ عدت ختم ہوتے ہی اس کے ارتداد کے وقت سے نکاح فسخ شدہ شمار کیا جائے گا ، یعنی عورت کو پھر کوئی نئی عدت گزارنی نہ ہوگی ۔ چاروں فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ خلوت سے پہلے یہ معاملہ پیش آیا ہو تو عورت کو نصف مہر ، اور خلوت کے بعد پیش آیا تو پورا مہر پانے کا حق ہو گا ۔ اور اگر عورت مرتد ہو گئی ہو تو حنفیہ کا قدیم فتویٰ یہ تھا کہ اس صورت میں بھی نکاح فوراً فسخ ہو جائے گا ، لیکن بعد کے دور میں علمائے بلخ و سمرقند نے یہ فتویٰ دیا کہ عورت کے مرتد ہونے سے فوراً فرقت واقع نہیں ہوتی ، اور اس سے ان کا مقصد اس امر کی روک تھام کرنا تھا کہ شوہروں سے پیچھا چھڑانے کے لیے عورتیں کہیں ارتداد کا راستہ اختیار نہ کرنے لگیں ۔ مالکیہ کا فتویٰ بھی اس سے ملتا جلتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر قرائن یہ بتا رہے ہوں کہ عورت نے محض شوہر سے علیحدگی حاصل کرنے کے لیے بطور حیلہ ارتداد اختیار کیا ہے تو فرقت واقع نہ ہو گی ۔ شافعیہ اور حنابلہ کہتے ہیں کہ عورت کے ارتداد کی صورت میں بھی قانون وہی ہے جو مرد کے ارتداد کی صورت میں ہے ، یعنی خلوت سے پہلے مرتد ہو تو فوراً نکاح فسخ ہو جائے گا ، اور خلوت کے بعد ہو تو زمانہ عدت گزرنے تک نکاح باقی رہے گا ، اس دوران میں وہ مسلمان ہو جائے تو زوجیت کا رشتہ برقرار رہے گا ۔ ورنہ عدت گزرتے ہی نکاح وقت ارتداد سے فسخ شمار ہو گا ۔ مہر کے بارے میں یہ امر متفق علیہ ہے کہ خلوت سے پہلے اگر عورت مرتد ہوئی ہے تو اسے کوئی مہر نہ ملے گا ، اور اگر خلوت کے بعد اس نے ارتداد اختیار کیا ہو تو وہ پورا مہر پائے گی ( المبسوط ۔ ہدایہ ۔ فتح القدیر ۔ المغنی ۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ ) ۔
5: اس آیت نے یہ واضح حکم عطا فرما دیا کہ کوئی مسلمان عورت کسی بھی غیر مسلم کے نکاح میں نہیں رہ سکتی۔ چنانچہ اگر کسی غیر مسلم کی بیوی مسلمان ہوجائے تو اُس کے شوہر کو بھی اسلام لانے کی پیشکش کی جائے گی، اگر وہ بھی عورت کی عدت کے دوران اسلام قبول کرلے تو ان کا نکاح باقی رہے گا، لیکن اگر وہ مسلمان نہ ہو، تو اُس کی مسلمان بیوی اُس کے نکاح سے نکل جائے گی، اور عدت کے بعد کسی مسلمان سے نکاح کرسکے گی۔ 6: جو شادی شدہ عورتیں مسلمان ہو کر مدینہ منوَّرہ آتیں، اُن کے شوہروں سے ان کا نکاح ختم ہوجاتا تھا، لیکن چونکہ مکہ مکرَّمہ کے کافروں سے اُس وقت صلح کا معاہدہ تھا، اس لئے اُن کو یہ سہولت دی گئی تھی کہ انہوں اپنی بیویوں کو جو مہر دیا تھا، وہ ان کو اس طرح واپس کرنے کا حکم دیا گیا کہ جو مسلمان اُن عورتوں سے نکاح کرے، وہ اُس کا مہر اس کے پہلے کافر شوہر کو اَدا کردے۔ 7: اس آیت کے نزول سے پہلے بہت سے صحابہ ایسے تھے کہ وہ خود تو مسلمان ہوگئے تھے، لیکن اُن کی بیویاں مسلمان نہیں ہوئی تھیں، اور وہ ابھی تک اُن کے نکاح میں چلی آرہی تھیں۔ اس آیت نے حکم دے دیا کہ اب کوئی بت پرست عورت کسی مسلمان کے نکاح میں باقی نہیں رہ سکتی اور جیسا کہ مشرکین کے بارے میں یہ حکم دیاگیا تھا کہ انہوں نے اپنی مسلمان ہونے والی بیویوں کو جو مہر اَدا کیا تھا، وہ انہیں واپس کیا جائے، اسی طرح مسلمانوں کی جن کافر بیویوں کا نکاح مسلمانوں سے ختم ہوا، مسلمان اُن کا مہر ان کے مسلمان شوہروں نے دیا تھا، اُسکے بارے میں بھی انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ ان عورتوں کے نئے شوہر وہ مہر پُرانے مسلمان شوہروں کو واپس کریں، اس لئے مسلمان شوہروں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ اپنی ان مطلقہ بیویوں کے نئے شوہروں سے مہر کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ چنانچہ اس آیت کے بعد ایسے صحابہؓ نے اپنی مشرک بیویوں کو طلاق دے کر الگ کردیا، لیکن اس کے بعد اُن سے جن مشرک مردوں نے نکاح کیا، انہوں نے مسلمانوں کو ان کا مہر واپس نہیں کیا۔ اس لئے اگلے فقرے میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جن مسلمانوں کی بیویاں کافر ہونے کی وجہ سے کافروں کے نکاح میں چلی گئیں، اور اُن کے نئے شوہروں نے مسلمانوں کو اُن کا دیا ہوا مہر نہیں لوٹایا، وہ اپنا حق وصول کرنے کے لئے یہ کرسکتے ہیں کہ اگر کوئی عورت مسلمان ہو کر آئی ہو، اور اس سے کسی مسلمان نے نکاح کیا ہو، تو اُس پر جو یہ واجب کیا گیا تھا کہ وہ اُن کے پُرانے شوہروں کو اُن کا دیا ہوا مہر لوٹائے، اب وہ اُس کافر شوہر کو دینے کے بجائے اُس مسلمان کو دیدے جس کی بیوی کافر ہونے کی بنا پر کسی کافر کے نکاح میں آگئی ہو، اور اُس کے نئے شوہر نے اُس مسلمان کو مذکورہ قاعدے کے مطابق مہر واپس نہ کیا ہو۔ اس طرح مسلمان کو اُس کا حق مل جائے گا، اور کافر لوگ آپس میں ایک دوسرے سے تصفیہ کرلیں گے۔