Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 یعنی جب تم اس کی راہ میں لڑو گے اور اس کے دین کی مدد کروگے، تو وہ بھی تمہیں فتح و نصرت سے نوازے گا۔ " ان تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم " ( سورة محمد) " ولینصرن اللہ من ینصرہ ان اللہ لقوی عزیز " (الحج) آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں اسے فتح قریب قرار دیا اور اس سے مراد فتح مکہ ہے اور بعض نے فارس و روم کی عظیم الشان سلطنتوں پر مسلمانوں کے غلبے کو اس کا مصداق قرار دیا ہے۔ جو خلافت راشدہ میں مسلمانوں کو حاصل ہوا۔ 13۔ 2 جنت کی بھی، مرنے کے بعد اور فتح و نصرت کی بھی، دنیا میں، بشرطیکہ اہل ایمان ایمان کے تقاضے پورے کرتے رہیں۔ " وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ " 3 ۔ آل عمران :139) آگے اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو اپنے دین کی نصرت کی مزید ترغیب دے رہا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤] اللہ تعالیٰ نے پہلے اخروی نعمتوں کا ذکر فرمایا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل اور پائیدار نعمتیں وہی ہیں ان کے علاوہ ایک اور تیسری نعمت جو اس دنیا سے متعلق ہے۔ اس کا بعد میں ذکر فرمایا۔ اور یہ پسندیدہ اس لحاظ سے ہے کہ انسان طبعاً نقد چیز کو زیادہ پسند کرتا ہے۔ اور وہ نعمت ہے اللہ کی مدد سے مکہ کی فتح جو عنقریب حاصل ہوگی۔ گویا اللہ سے ایمانداروں کا یہ سودا ہر لحاظ سے منفعت بخش اور بارآور ہے۔ دنیا میں فتح حاصل ہوتی ہے اور اموال غنیمت وغیرہ بھی ملتے ہیں۔ عزت حاصل ہوتی ہے اسلام کی فتح سے روحانی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ اور آخرت میں جو فائدے حاصل ہوں گے وہ ان سب سے بڑھ کر ہیں۔- [١٥] یعنی اس مدد اور قریبی فتح کی بشارت بذات خود ایک مستقل انعام ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا۔۔۔۔:” اخری “ محذوف موصوف ” نعمۃ “ کی صفت ہے جو مبتداء ہے ، خبر اس کی ” لکم “ محذوف ہے :” الی ولکم نعمۃ اخری “ یعنی اور تمہارے لیے مغفرت ذنوب اور دخول جنت کے علاوہ ایک اور نعمت ” نصر من اللہ فتح قریب “ بھی ہے جو تمہیں پسند ہے۔ آخرت کی نعمتوں کے ساتھ دنیوی نعمتوں کا ذکر کر کے جہاد کی ترغیب دلائی ہے ، دنیا میں فتح و کامرانی بھی اگرچہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ، مگر یہ مومن کے لیے اصل مقصود نہیں ۔ اس لیے پہلے حاصل ہونے کے باوجود اس کا ذکر بعد میں فرمایا اور آخرت میں حاصل ہونے والی نعمتوں کا ذکر پہلے فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے ساتھ اپنی نصرت اور فتح قریب کا یہ وعدہ پورا فرمایا، چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی ہی میں مکہ فتح ہوگیا ، پھر پورا جزیرۂ عرب مشرکین سے پاک ہوگیا ۔ اس کے بعد اتنی تھوڑی مدت میں اسلام کا جھنڈا پورا دنیا پر لہرانے لگا جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ، چناچہ مسلمان قصر و کسریٰ کی سلطنتوں کے مالک بن گئے اور انہوں نے ایسے عمدہ طریقے سے کاروبار سلطنت چلایا جس کی خوبی دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَّاُخْرٰى تُحِبُّوْنَهَا ۭ نَصْرٌ مِّنَ اللّٰهِ وَفَتْحٌ قَرِيْبٌ، لفظ اخرٰی نعمت کی صفت ہے معنی یہ ہیں کہ آخرت کی نعمتیں اور جنت کے مکانات تو ملیں گے ہی جیسا کہ وعدہ کیا گیا ہے، ایک نعمت نقد دنیا میں بھی ملنے والی ہے وہ ہے اللہ کی مدد اور اس کے ذریعہ فتح قریب یعنی دشمنوں کے مالک کا فتح ہونا، یہاں قریب اگر بمقابلہ آخرت کے لیا جائے تو بعد میں آنے والی اسلامی فتوحات عرب و عجم کی سب اس میں داخل ہیں اور قریب عرفی مراد لیا جائے تو اس کا پہلا مصداق فتح خیبر ہے اور اس کے بعد فتح مکہ مکرمہ ہے اور اس فتح قریب کے متعلق تحبو نہا فرمایا یعنی یہ نقد نعمت تمہاری پسندیدہ اور محبوب ہے کیونکہ انسان فطری طور پر عجلت پسند واقع ہوا ہے، قرآن کریم میں ہے (آیت) وکان الانسان عجولا، یعنی ” ہے انسان جلد باز “ اس کا یہ مفہوم نہیں کہ آخرت کی نعمتیں ان کو محبوب نہ تھیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ آخرت کی نعمتوں کی طلب و محبت تو ظاہری ہے، مگر طبعی طور پر کچھ نقد نعمت دنیا میں بھی تمہیں مطلوب و محبوب ہے، وہ بھی عطا کی جائے گی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاُخْرٰى تُحِبُّوْنَہَا۝ ٠ ۭ نَصْرٌ مِّنَ اللہِ وَفَتْحٌ قَرِيْبٌ۝ ٠ ۭ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ ١٣- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ- [ التوبة 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً- [ النساء 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة 116]- ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - فتح - الفَتْحُ : إزالة الإغلاق والإشكال، وذلک ضربان :- أحدهما : يدرک بالبصر کفتح الباب ونحوه، وکفتح القفل والغلق والمتاع، نحو قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] ، وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر 14] .- والثاني : يدرک بالبصیرة کفتح الهمّ ، وهو إزالة الغمّ ، وذلک ضروب : أحدها : في الأمور الدّنيويّة كغمّ يفرج، وفقر يزال بإعطاء المال ونحوه، نحو : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] ، أي : وسعنا، وقال : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] ، أي : أقبل عليهم الخیرات . والثاني : فتح المستغلق من العلوم، نحو قولک : فلان فَتَحَ من العلم بابا مغلقا، وقوله : إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح 1] ، قيل : عنی فتح مكّةوقیل : بل عنی ما فتح علی النّبيّ من العلوم والهدایات التي هي ذریعة إلى الثّواب، والمقامات المحمودة التي صارت سببا لغفران ذنوبه وفَاتِحَةُ كلّ شيء : مبدؤه الذي يفتح به ما بعده، وبه سمّي فاتحة الکتاب، وقیل : افْتَتَحَ فلان کذا : إذا ابتدأ به، وفَتَحَ عليه كذا : إذا أعلمه ووقّفه عليه، قال : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة 76] ، ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر 2] ، وفَتَحَ الْقَضِيَّةَ فِتَاحاً : فصل الأمر فيها، وأزال الإغلاق عنها . قال تعالی: رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ- [ الأعراف 89] ، ومنه الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ 26] ، قال الشاعر : بأني عن فَتَاحَتِكُمْ غنيّ- وقیل : الفتَاحةُ بالضمّ والفتح، وقوله : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر 1] ، فإنّه يحتمل النّصرة والظّفر والحکم، وما يفتح اللہ تعالیٰ من المعارف، وعلی ذلک قوله : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] ، فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة 52] ، وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة 28] ، قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة 29] ، أي : يوم الحکم . وقیل : يوم إزالة الشّبهة بإقامة القیامة، وقیل : ما کانوا يَسْتَفْتِحُونَ من العذاب ويطلبونه،- ( ف ت ح ) الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ازالہ دوقسم پر ہے ایک وہ جس کا آنکھ سے ادراک ہو سکے جیسے ۔ فتح الباب ( دروازہ کھولنا ) اور فتح القفل ( قفل کھولنا ) اور فتح المتاع ( اسباب کھولنا قرآن میں ہے ؛وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر 14] اور اگر ہم آسمان کا کوئی دروازہ ان پر کھولتے ۔ دوم جس کا ادراک بصیرت سے ہو جیسے : فتح الھم ( یعنی ازالہ غم ) اس کی چند قسمیں ہیں (1) وہ جس کا تعلق دنیوی زندگی کے ساتھ ہوتا ہے جیسے مال وغیرہ دے کر غم وانددہ اور فقر و احتیاج کو زائل کردینا ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] پھر جب انہوں ن اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی ۔ فراموش کردیا تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے ۔ یعنی ہر چیز کی فرادانی کردی ۔ نیز فرمایا : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے ۔ یعنی انہیں ہر طرح سے آسودگی اور قارغ البالی کی نعمت سے نوازتے ۔ (2) علوم ومعارف کے دروازے کھولنا جیسے محاورہ ہے ۔ فلان فتح من العلم بابامغلقا فلاں نے طلم کا بندو دروازہ کھول دیا ۔ یعنی شہادت کو زائل کرکے ان کی وضاحت کردی ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح 1] ( اے محمد ) ہم نے تم کو فتح دی اور فتح صریح وصاف ۔ میں بعض نے کہا ہے یہ فتح کی طرف اشارہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ اس سے علوم ومعارف ار ان ہدایات کے دروازے کھولنا مراد ہے جو کہ ثواب اور مقامات محمودہ تک پہچنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور آنحضرت کیلئے غفران ذنوب کا سبب ہے ۔ الفاتحۃ ہر چیز کے مبدء کو کہاجاتا ہے جس کے ذریعہ اس کے مابعد کو شروع کیا جائے اسی وجہ سے سورة فاتحہ کو فاتحۃ الکتاب کہاجاتا ہے ۔ افتح فلان کذ افلاں نے یہ کام شروع کیا فتح علیہ کذا کسی کو کوئی بات بتانا اور اس پر اسے ظاہر کردینا قرآن میں ہے : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة 76] جو بات خدا نے تم پر ظاہر فرمائی ہے وہ تم ان کو ۔۔۔ بتائے دیتے ہو ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر 2] جو لوگوں کیلئے ۔۔ کھولدے فتح القضیۃ فتاحا یعنی اس نے معاملے کا فیصلہ کردیا اور اس سے مشکل اور پیچیدگی کو دور کردیا ۔ قرآن میں ہے ؛ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف 89] اے ہمارے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔ اسی سے الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ 26] ہے یعن خوب فیصلہ کرنے والا اور جاننے والا یہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ سے ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (335) وانی من فتاحتکم غنی اور میں تمہارے فیصلہ سے بےنیاز ہوں ۔ بعض نے نزدیک فتاحۃ فا کے ضمہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ صحیح ہے اور آیت کریمہ : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچیں اور فتح حاصل ہوگئی ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الفتح سے نصرت ، کامیابی اور حکم مراد ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ علوم ومعارف کے دروازے کھول دینا مراد ہو ۔ اسی معنی ہیں میں فرمایا : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] ( یعنی تمہیں ) خدا کی طرف سے مدد ( نصیب ہوگی ) اور فتح عنقریب ( ہوگی ) فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة 52] تو قریب ہے خدا فتح بھیجے وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة 28] اور کہتے ہیں ۔۔۔ یہ فیصلہ کب ہوگا ۔ قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة 29] کہدو کہ فیصلے کے دن ۔۔۔ یعنی حکم اور فیصلے کے دن بعض نے کہا ہے کہ الفتح سے قیامت بپا کرکے ان کے شک وشبہ کو زائل کرے کا دن مراد ہے اور بعض نے یوم عذاب مراد لیا ہے ۔ جسے وہ طلب کیا کرتے تھے - قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] ، وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] ، وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] .- وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] ، - ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔- بشر - واستبشر :- إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] .- ( ب ش ر ) البشر - التبشیر - کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔- وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ایک اور کامیابی یہ ہے کہ جس کو تم بھی پسند کرتے ہو کہ کفار قریش کے مقابلہ میں اپنے نبی کی اللہ ہی کی طرف سے اور جلدی فتح یابی ہے یعنی مکہ مکرمہ کی اور مومنین کو اگر وہ ان صفات پر ہوں جنت کی خوشخبری دے دیجیے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

اب اگلی آیت میں اس ” بونس “ کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کبھی کبھی اس دنیا میں بھی عطا کردیتا ہے ‘ چناچہ فرمایا :- آیت ١٣ وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَہَا ” اور ایک اور چیز جو تمہیں بہت پسند ہے۔ “- یعنی اس جہاد میں تمہیں دنیا کی کامیابی بھی مل سکتی ہے۔ اگرچہ تمہاری یہ کامیابی اللہ تعالیٰ کے ہاں اس قدر اہم نہیں جس قدر تم اسے اہم سمجھتے ہو ۔ وہ غلبہ دین کے لیے تمہاری کوششوں کا محتاج نہیں۔ وہ چاہے تو آنِ واحد میں دین کو غالب کر دے ۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جو چیز اہم ہے وہ تمہاری جدوجہد اور اس جدوجہد میں تمہارا جذبہ ایثار و خلوص ہے ‘ اور یہی تمہارا اصل امتحان ہے۔ اگر تم اس امتحان میں کامیاب ہوجاتے ہو تو اللہ کے ہاں کامیاب ہو ‘ چاہے دنیوی لحاظ سے تم ناکام ہی رہو۔ لیکن اللہ کو معلوم ہے کہ بربنائے طبع بشری تم لوگ اپنی اس جدوجہد کے مثبت نتائج اس دنیا میں بھی دیکھنا چاہتے ہو اور دنیوی فتح حاصل ہونے پر تم لوگ بہت خوش ہوتے ہو ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ تمہاری خوشی کے لیے وہ بھی تمہیں عطا فرمائے گا۔- نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌط ” اللہ کی طرف سے مدد اور قریبی فتح۔ “- بس اب اللہ تعالیٰ کی مدد آیا ہی چاہتی ہے اور دنیوی فتح بھی تمہارے قدم چومنے ہی والی ہے۔ یہ کس مدد اور کونسی فتح کی بشارت ہے ؟ یہ سمجھنے کے لیے غزوئہ احزاب کے حالات و واقعات کو ایک دفعہ پھر سے ذہن میں تازہ کر لیجیے ۔ اس اعتبار سے یوں سمجھئے کہ سورة الصف کی حیثیت سورة الاحزاب کے ضمیمے کی سی ہے۔- وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مومنین کو خوشخبری سنا دیجیے۔ “- غزوئہ احزاب کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) کو یہ خوشخبری ان الفاظ میں سنائی تھی : (لَنْ تَغْزُوْکُمْ قُرَیْشٌ بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا وَلٰٰـکِنَّـکُمْ تَغْزُوْنَھُمْ ) (تفسیر ابن کثیر : ٦ ٣٩٦) کہ اب اس سال کے بعد قریش تم پر کبھی چڑھائی نہیں کرسکیں گے ‘ بلکہ آئندہ تم لوگ ان پر چڑھائی کرو گے۔ یہ ان کی طرف سے آخری حملہ تھا ‘ کفر کی کمر ٹوٹ چکی اور کفار حوصلہ ہار گئے ‘ اب اقدام تمہاری طرف سے ہوگا۔ چناچہ اس کے بعد اگلے سال ٦ ہجری میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چودہ سو صحابہ کے ساتھ عمرے کی نیت سے مکہ کا سفر اختیار فرمایا ‘ جس کے نتیجے میں مسلمانوں اور قریش کے مابین حدیبیہ کے مقام پر صلح کا معاہدہ طے پایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس معاہدے کو فتح مبین قرار دیا : اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا ۔ (الفتح) ” یقینا ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک بڑی روشن فتح عطا فرمائی ہے۔ “- دوسری طرف اس بشارت کا تعلق آخرت سے بھی ہے کہ اپنے مال و جان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کے نتیجے میں مومنین صادقین کو جنت کی نعمتیں بھی ملیں گی اور اللہ کے ہاں انہیں ایک خاص مقام بھی عطا ہوگا۔ اور وہ ہوگا اللہ کے مددگار ہونے کا مقام - یہاں یہ بات خصوصی طور پر لائق توجہ ہے کہ ان آیات میں عذاب الیم سے چھٹکارے کو ایمانِ حقیقی اور جہاد فی سبیل اللہ کے ساتھ مشروط کردیا گیا ہے۔ آیت ١٠ میں یہ بات جس دو ٹوک انداز میں واضح کی گئی ہے اسے فزیالوجی کی زبان میں ” “ کہتے ہیں۔ یعنی ایسی صورت حال جس میں کوئی چیز واقع ہوتی ہے تو پوری ہوتی ہے اور اگر نہیں واقع ہوتی تو بالکل نہیں ہوتی۔ اس میں کوئی درمیانی راستہ یا تناسب ممکن نہیں ہوتا۔ ہمارے ارادی عضلات ( ) کے سکڑنے کا معاملہ ایسا ہی ہے ‘ اگر محرک ( ) پورا مل جاتا ہے تو متعلقہ کی پوری ہوتی ہے اور اگر کم ہوتا ہے تو بالکل نہیں ہوتی۔ اس مفہوم میں آیت ١٠ تا ١٣ کے مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ یہ راستہ اختیار کریں گے ان کے سب گناہ بھی معاف ہوجائیں گے (بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے ایمان و عمل کو درجہ قبولیت مل جائے) ‘ انہیں عذاب الیم سے چھٹکارا بھی ملے گا اور جنت عدن میں ٹھکانہ بھی نصیب ہوگا۔ صرف یہی نہیں ‘ بلکہ دنیا میں انہیں اللہ کی مدد سے فتح بھی ملے گی اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مددگار قرار پائیں گے ۔۔۔ اس کے برعکس اگر ہم لوگ ایمان کے دعوے تو بہت کریں اور اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کے نعرے بھی لگائیں ‘ لیکن مذکورہ دو شرائط (ایمانِ حقیقی اور جہاد فی سبیل اللہ) پوری کرنے میں سنجیدہ نہ ہوں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا رویہ اللہ تعالیٰ کی بیزاری کو دعوت دینے کے مترادف ہے : کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ۔ (الصف) ” بڑی شدید بیزاری کی بات ہے اللہ کے نزدیک کہ تم وہ کہو جو کرتے نہیں “۔ چناچہ جو لوگ مذکورہ شرائط کا حق ادا کیے بغیر ہی سمجھتے ہیں کہ وہ آخرت میں نجات پاجائیں گے وہ ایک خود ساختہ خیال کے سہارے زندگی بسر کر رہے ہیں اور اپنی سوچ سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان آیات کے الفاظ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یعنی یہ ‘ معاذ اللہ ‘ کلامِ مہمل ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصَّف حاشیہ نمبر :18 دنیا میں فتح و کامرانی بھی اگرچہ اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے ، لیکن مومن کے لیے اصلی اہمیت کی چیز یہ نہیں ہے بلکہ آخرت کی کامیابی ہے ۔ اسی لیے جو نتیجہ دنیا کی اس زندگی میں حاصل ہونے والا ہے اس کا ذکر بعد میں کیا گیا ، اور جو نتیجہ آخرت میں رونما ہونے والا ہے اس کے ذکر کو مقدم رکھا گیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani