عیسیٰ علیہ السلام کے 12صحابہ کی روداد: ۔ اللہ سحبانہ و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ہر آن اور ہر لحظہ جان مال عزت آبرو قول فعل نقل و حرکت سے دل اور زبان سے اللہ کی اور اس کے رسول کی تمام تر باتوں کی تعمیل میں رہیں ، پھر مثال دیتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کے تابعداروں کو دیکھو کہ حضرت عیسیٰ کی آواز پر فوراً لبیک پکار اٹھے اور ان کے اس کہنے پر کہ کوئی ہے جو اللہ کی باتوں میں میری امداد کرے انہوں نے بلا غور علی الفور کہہ دیا کہ ہم سب آپ کے ساتھی ہیں اور دین اللہ کی امداد میں آپ کے تابع ہیں ، چنانچہ روح اللہ علیہ صوالت اللہ نے اسرائیلیوں اور یونانیوں میں انہیں مبلغ بنا کر شام کے شہروں میں بھیجا ، حج کے دنوں میں سرور رسل صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرمایا کرتے تھے کہ کوئی ہے جو مجھے جگہ دے تاکہ میں اللہ کی رسالت کو پہنچا دوں قریش تو مجھے رب کا پیغام پہنچانے سے روک رہے ہیں ، چنانچہ اہل مدینہ کے قبیلے اوس و خزرج کو اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت ابدی بخشی انہوں نے آپ سے بیعت کی آپ کی باتیں قبول کیں ، اور مضبوط عہد و پیمان کئے کہ اگر آپ ہمارے ہاں آ جائیں تو پھر کسی سرخ و سیاہ کی طاقت نہیں جو آپ کو دکھ پہنچائے ہم آپ کی طرف سے جانیں لڑا دیں گے اور آپ پر کوئی آنچ نہ آنے دیں گے ، پھر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو لے کر ہجرت کر کے ان کے ہاں گئے تو فی الواقع انہوں نے اپنے کہے کو پورا کر دکھایا اور اپنی زبان کی پاسداری کی اسی لئے انصار کے معزز لقب سے ممتاز ہوئے اور یہ لقب گویا ان کا امتیازی نام بن گیا اللہ ان سے خوش ہو اور انہیں بھی راضی کرے آمین جبکہ حواریوں کو لے کر آپ دین اللہ کی تبلیغ کے لئے کھڑے ہوئے تو بنی اسرائیل کے کچھ لوگ تو راہ راست پر آ گئے اور کچھ لوگ نہ آئے بلکہ آپ کو اور آپ کی والدہ ماجدہ طاہرہ کو بدترین برائی کی طرف منسوب کیا ان یہودیوں پر اللہ کی پھٹکار پڑی اور ہمیشہ کے لئے راندہ درگاہ بن گئے ، پھر ماننے والوں میں سے بھی ایک جماعت ماننے میں ہی حد سے گذر گئی اور انہیں ان کے درجہ سے بہت بڑھا دیا ، پھر اس گروہ میں بھی کئی گروہ ہوگئے ، بعض تو کہنے لگے کہ سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں بعض نے کہا تین میں کے تیسرے ہیں یعنی باپ بیٹا اور روح القدس اور بعض نے تو آپ کو اللہ ہی مان لیا ، ان سب کا ذکر سورہ نساء میں مفصل ملاحظہ ہو ، سچے ایمان والوں کی جناب باری نے اپنے آخر الزماں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے تائید کی ان کے دشمن نصرانیوں پر انہیں غالب کر دیا ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جب اللہ کا ارادہ ہوا کہ حضرت عیسیٰ کو آسمان پر چڑھا لے آپ نہا دھو کر اپنے اصحاب کے پاس آئے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے یہ بارہ صحابہ تھے جو ایک گھر میں بیٹھے ہوئے تھے آتے ہی فرمایا تم میں وہ بھی ہیں جو مجھ پر ایمان لا چکے ہیں لیکن پھر میرے ساتھ کفر کریں گے اور ایک دو دفعہ نہیں بلکہ بارہ بارہ مرتبہ ، پھر فرمایا تم میں سے کون اس بات پر آمادہ ہے کہ اس پر میری مشابہت ڈالی جائے اور وہ میرے بدلے قتل کیا جائے اور جنت میں میرے درجے میں میرا ساتھی بنے ، ایک نوجوان جو ان سب میں کم عمر تھا ، اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے آپ کو پیش کیا ، آپ نے فرمایا تم بیٹھ جاؤ ، پھر وہی بات کہی اب کی مرتبہ بھی کم عمر نوجوان صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے ، حضرت عیسیٰ نے اب کی مرتبہ بھی انہیں بٹھا دیا ، پھر تیسری مرتبہ یہی سوال کیا ، اب کی مرتبہ بھی یہی نوجوان کھڑے ہوئے آپ نے فرمایا بہت بہتر ، اسی وقت ان کی شکل و صورت بالکل حضرت عیسیٰ جیسی ہو گئی اور خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس گھر کے ایک روزن سے آسمان کی طرف اٹھا لئے گئے ۔ اب یہودیوں کی فوج آئی اور انہوں نے اس نوجوان کو حضرت عیسیٰ سمجھ کر گرفتار کر لیا اور قتل کر دیا اور سولی پر چڑھا دیا اور حضرت عیسیٰ کی پیشین گوئی کے مطابق ان باقی کے گیارہ لوگوں میں سے بعض نے بارہ بارہ مرتبہ کفر کیا ، حالانکہ وہ اس سے پہلے ایماندار تھے ، پھر بنی اسرائیل کے ماننے والے گروہ کے تین فرقے ہوگئے ، ایک فرقے نے تو کہا کہ خود اللہ ہمارے درمیان بصورت مسیح تھا ، جب تک چاہا رہا پھر آسمان پر چڑھ گیا ، انہیں یعقوبیہ کہا جاتا ہے ، ایک فرقے نے کہا ہم میں اللہ کا بیٹا تھا جب تک اللہ نے چاہا اسے ہم میں رکھا اور جب چاہا اپنی طرف چڑھا لیا ، انہیں سطوریہ کہا جاتا ہے ، تیسری جماعت حق پر قائم رہی ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول حضرت عیسیٰ ہم میں تھے ، جب تک اللہ کا ارادہ رہا آپ ہم میں موجود رہے پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھا لیا ، یہ جماعت مسلمانوں کی ہے ۔ پھر ان دونوں کافر جماعتوں کی طاقت بڑھ گئی اور انہوں نے ان مسلمانوں کو مار پیٹ کر قتل و غارت کرنا شروع کیا اور یہ دبے بھی ہوئے اور مغلوب ہی رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ، پس بنی اسرائیل کی وہ مسلمان جماعت آپ پر بھی ایمان لائی اور ان کافر جماعتوں نے آپ سے بھی کفر کیا ، ان ایمان والوں کی اللہ تعالیٰ نے مدد کی اور انہیں ان کے دشمنوں پر غالب کر دیا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غالب آ جانا اور دین اسلام کا تمام ادیان کو مغلوب کر دینا ہی ان کا غالب آنا اور اپنے دشمنوں پر فتح پانا ہے ۔ ملاحظہ ہو تفسیر ابن جریر اور سنن نسائی ۔ پس یہ امت حق پر قائم رہ کر ہمیشہ تک غالب رہے گی یہاں تک کہ امر اللہ یعنی قیامت آ جائے اور یہاں تک کہ اس امت کے آخری لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہو کر مسیح دجال سے لڑائی کریں گے جیسے کہ صحیح احادیث میں موجود ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورہ صف کی تفسیر ختم ہوئی ، فالحمد للہ ۔
14۔ 1 تمام حالتوں میں، اپنے اقوال و افعال کے ذریعے سے بھی اور جان ومال کے ذریعے سے بھی۔ جب بھی جس وقت بھی اور جس حالت میں بھی تمہیں اللہ اور اس کا رسول اپنے دین کے لیے پکارے تم فورا ان کی پکار پر لبیک کہو، جس طرح حواریین نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی پکار پر لبیک کہا۔ 14۔ 2 یعنی ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس دین کی دعوت و تبلیغ میں مددگار ہیں جس کی نشرو اشاعت کا حکم اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا ہے۔ اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایام حج میں فرماتے کون ہے جو مجھے پناہ دے تاکہ میں لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچا سکوں، اس لئے کہ قریش مجھے فریضہ رسالت ادا نہیں کرنے دیتے حتٰی کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پکار پر مدینے کے اوس اور خزرج نے لبیک کہا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر انہوں نے بیعت کی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کا وعدہ کیا۔ نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ پیشکش کی کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو وعدے کے مطابق انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اور آپ کے تمام ساتھیوں کی مدد کی حتی کہ اللہ اور اس کے رسول نے ان کا نام ہی انصار رکھ دیا اور اب یہ ان کا علم بن گیا۔ (رض) وارضاھم۔ 14۔ 3 یہ یہود تھے جنہوں نے نبوت عیسیٰ (علیہ السلام) ہی کا انکار بلکہ ان پر اور ان کی ماں پر بہتان تراشی کی بعض کہتے ہیں کہ یہ اختلاف و تفرق اس وقت ہوا جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ ایک نے کہا عیسیٰ (علیہ السلام) کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہی زمین پر ظہور فرمایا تھا، اب وہ پھر آسمان پر چلا گیا، یہ فرقہ یعقوبیہ کہلاتا ہے نسطوریہ فرقے نے کہا وہ اب اللہ کے بیٹے تھے، باپ نے بیٹے کو آسمان پر بلا لیا ہے، تیسرے فرقے نے کہا وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے، یہی فرقہ صحیح تھا۔ 14۔ 4 یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرما کر ہم نے اسی آخری جماعت کی دوسرے باطل گروہوں کے مقابلے میں مدد کی چناچہ یہ صحیح عقیدے کی حامل جماعت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئی اور یوں ہم نے ان کو دلائل کے لحاظ سے بھی سب کافروں پر غلبہ عطا فرمایا اور قوت و سلطنت کے اعتبار سے بھی۔ اس غلبے کا آخری ظہور اس وقت پھر ہوگا۔ جب قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا دوبارہ نزول ہوگا جیسا کہ اس نزول اور غلبے کی صراحت احادیث صحیحہ میں تواتر کے ساتھ منقول ہے۔
١٦] بعضبعض مفسرین کے نزدیک یہ دھوبی تھے۔ گو تعداد میں کم تھے مگر انتہائی مخلص ایماندار تھے۔ انجیل کی تعلیم کی اشاعت میں ان لوگوں نے سردھڑ کی بازی لگا دی تھی۔ (مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورة آل عمران کی آیت نمبر ٥٢ اور سورة المائدہ کی آیت نمبر ١١١، ١١٢ کے حواشی) - [١٧] سیدنا عیسیٰ کا انکار کرنے والے تو یہود ہیں۔ اور ان پر ایمان لانے والے عیسائی ہیں جو سیدنا عیسیٰ کے بعد آپس میں دست و گریبان رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس بحث و مناظرہ اور خانہ جنگیوں میں ایمان لانے والوں کو یہودیوں پر غالب کیا پھر ان نصاریٰ میں شرک کی عام گمراہی پھیل گئی۔ ان میں سے جو بچے کھچے افراد توحید پر قائم رہ گئے تھے انہیں اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان کے ذریعہ غلبہ عنایت فرمایا۔ حجت وبرہان کے لحاظ سے بھی وہی غالب رہے اور سیاسی طور پر بھی انہیں ہی غلبہ حاصل ہوا۔
١۔ یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللہ ِ ۔۔۔۔:” الحواری “ ” حار یحور حورا “ (ن)” الثوب “ کپڑے کو دھونا اور خوب سفید کرنا ۔ دھوبی کو اسی لیے حواری کہتے ہیں کہ وہ کپڑے کو دھو کر سفید کردیتا ہے۔ ” حواری “ صاف سفید میدے کو کہتے ہیں جس سے چھان نکال دیا گیا ہو ۔ خالص دوست اور بےغرض مدد گار کو اسی لیے حواری کہتے ہیں کہ اس کا دل ہر قسم کے کھوٹ سے پاک صاف اور خیر خواہی اور محبت میں خالص ہوتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( ان لکل نبی حواربا وان حواری الزبیر بن العوام) (بخاری ، فضائل الصحابۃ ، باب مناقب الزبیر بن العوام (رض) : ٣٧١٩)- ” ہر نبی کا کوئی حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر بن عوام (رض) ہے “۔- ٢۔ کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللہ :” الی اللہ “ کی ترکیب دو طرح سے ہے ، ایک یہ کہ ” من انصاری فی الدعو الی اللہ “ اللہ کی طرف دعوت میں میرے مدد گار کون ہیں ؟ “ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ (قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللہ ِ ) (یوسف : ١٠٨)” کہہ دے یہی میرا راستہ ہے ، میں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ “ اور دوسری ترکیب یہ ہے :” من انصاری ذاھباً الی اللہ “ ” اللہ کی طرف جاتے ہوئے میرے مدد گار کون ہیں ؟ “ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا :(وَقَالَ اِنِّیْ ذَاہِبٌ اِلٰی رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِ ) (الصافات : ٩٩)” اور اس نے کہا میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں ، وہ مجھے ضرور راستہ دکھائے گا “۔ مزید دیکھئے سورة ٔ آل عمران (٥٢) کی تفسیر۔- ٣۔ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللہ ِ ۔۔۔۔: جہاد فی سبیل اللہ کے دوران کئی مرحلے آتے ہیں جن میں سب سے آخری مرحلہ اللہ کے دشمنوں سے قتال اور جنگ کا ہوتا ہے ، جس کی ترغیب اور اس کی فضیلت کا بیان سورت کے شروع سے آرہا ہے ۔ اس سے بھی مشکل مرحلہ وہ ہوتا ہے جب حق کی طرف دعوت دینے والا اکیلا ہوتا ہے یا اس کے ساتھ چند آدمی ہوتے ہیں ۔ دوسرے تمام لوگ اس کے دشمن ہوتے ہیں جو گالی گلوچ ، استہزاء ، مار پیٹ ، غرض ہر طرح کی تکلیف دے کر اس دعوت حق سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ، حتیٰ کہ بعض اوقات اس کے ساتھیوں کو یا ان کے ساتھ اسے بھی قتل کردیا جاتا ہے۔ ایسے وقت میں حق کی طرف دعوت دینے والے کے ساتھ کھڑا ہونا ، اپنی جان و مال کی پروانہ کرتے ہوئے تمام تکلیفیں برداشت کرنا اور حق پر ثابت قدم رہنا بڑے عزم و ہمت والے لوگوں کا کام ہے ، جیسا کہ فرمایا :(لَتُبْلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْقف وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَذًی کَثِیْرًاط وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ) ( آل عمران : ١٨٦) ’ ’ یقینا تم اپنے مالوں اور اپنی جانوں میں ضرور آزمائے جاؤ گے اور یقینا تم ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا ، ضرور بہت سی ایذاء سنو گے اور اگر تم صبر کرو اور متقی بنو تو بلاشبہ یہ ہمت کے کاموں سے ہے “۔ پھر یہ سب کچھ سہتے ہوئے کئی لوگ قید کردیئے جاتے ہیں ، کئی معذور ہوجاتے ہیں ، کئی شہید ہوجاتے ہیں اور آخر میں وہ مرحلہ آتا ہے جب اللہ کے دشمنوں سے جنگ ہوتی ہے اور اس وقت جو لوگ دشمنوں کے مقابلے میں قلیل اور ضعیف ہونے کے باوجود میدان میں ڈٹ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی خاص مدد فرماتا ہے اور انہیں فتح و نصرت سے ہم کنار کر کے دشمن پر غلبہ عطاء فرما دیتا ہے۔ اس آیت میں مسلمانوں کے سامنے عیسیٰ (علیہ السلام) کے مخلص ساتھیوں کا نمونہ پیش کر کے انہیں حکم دیا ہے کہ وہ بھی ان کی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت (من انصاری الی اللہ) پر لبیک کہیں اور ہر تکلیف پر صبر کرتے ہوئے جان و مال کی قربانی کے ذریعے سے ان کا ساتھ دیں۔- یہ بات معلوم ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو دشمنوں سے قتال کا مرحلہ پیش نہیں آیا ، اس وقت کے یہود نے انہیں پہچان لینے کے باوجود اتنا ستایا اور تنگ کیا کہ ان کے لیے دعوت دینا بھی مشکل ہوگیا ۔ اس وقت انہوں نے یہ کہا کہ اللہ کی طرف دعوت دینے میں اور اس کے راستے پر چلنے میں میرے مدد گار کون ہیں ؟ حواریوں نے کہا ، ہم اللہ کے مدد گار ہیں ۔ اس وقت بنی اسرائیل کے دو گروہ ہوگئے ، ایک وہ جو ان پر ایمان لے آئے اور ان کے فرمان ” من انصاری الی اللہ “ پر ” نحن انصار اللہ “ کہہ کر لبیک کہا ، پھر جان و مال کے ساتھ ہر طرح سے ان کی مدد کی اور اس راستے میں دشمنوں کی طرف سے دی جانے والی تکلیفوں پر صبر کیا ۔ دوسرے وہ جنہوں نے انہیں رسول ماننے سے انکار کردیا ، انہیں جھوٹا کہا اور ان کی ماں پر تہمتیں لگائیں ، حکومت وقت سے مل کر انہیں گرفتار کروایا اور اپنے گمان کے مطابق انہیں سولی پر چڑھا کر دم لیا ، اگرچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس گمان کی تردید فرمائی ہے۔ دیکھئے سورة ٔ آل عمران (٥٢ تا ٥٥) اور سورة ٔ نسائ (٥٧، ٥٨)- ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی سب سے پہلے یہی مرحلہ پیش آیا ، چناچہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا اور آپ نے اسلام کی دعوت کا آغاز کیا تو کفار مکہ کی طرف سے شدید مزاحمت کی گئی اور آپ کو اور آپ کے ساتھ مسلمان ہونے والے مردوں اور عورتوں کو سخت تکلیفیں دی گئیں ، جس کی وجہ سے بہت تھوڑے لوگ ایمان لانے کی جرأت کرسکے ، پھر کئی حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے اور کئی مکہ میں ظلم و ستم سہتے رہے۔ آزمائشوں اور تکلیفوں کا یہ سلسلہ کئی سال جاری رہا ، حتیٰ کہ کفار قریش نے آپ کو دعوت سے مطلق روک دیا ۔ آپ ہر سال حج کے لیے آنے والے قبائل کے پاس جا کر ایک ایک قبیلہ کو کہتے کہ کون ہے جو مجھے اپنے ساتھ لے جا کر اللہ کا پیغام پہنچانے میں میری مدد کرے ۔ کئی سال کے بعد وہ موقع آیا کہ اللہ تعالیٰ نہ مدینہ کے کچھ لوگوں کو آپ کی دعوت پر انصا ر اللہ بننے کی توفیق عطاء فرمائی۔ جابر بن عبد اللہ اللہ عنہما فرماتے ہیں :(کان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعرض نفسہ علی الناس باموقف فیقول ھل من رجل یحملنی الی قومہ ، فان قریش قد منعونی ان ابلغ کلام ربی عزوجل ، فاتاہ رجل من ھمدان فقال ممن انت ؟ فقال الرجل من ھمدان ، قال فھل عند قومک من منعۃ ؟ قال نعم ، ثم ان الرجل خشی ان یخفرہٗ قومہ ٗ ، فاتی رسو ل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقال آتیھم ، فا خبر ھم ، ثم آتیک من عام قابل ، قال نعم ، فانطلق و جاء وقد الانصار فی رجب) (مسند احمد : ٣، ٣٩٠، ح : ١٥١٩٢، قال المحقق ، اسنادہ صحیح علی شرط البخاری)- ” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے آپ کو حج کے موقع پر موقف میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے اور کہتے تھے :” کیا کوئی آدمی ہے جو مجھے اپنے ساتھ اپنی قوم کے پاس لے جائے ؟ کیونکہ قریش نے مجھے رب کا کلام پہنچانے سے منع کردیا ہے۔ “ تو ہمدان کا ایک آدمی آپ کے پاس آیا ، آپ نے فرمایا :” تم کن لوگوں سے ہو ؟ “ اس آدمی نے کہا :” ہمدان سے “۔ آپ نے فرمایا :” تو کیا تیری قوم کے پاس کچھ حفاظت اور دفاع مل سکتا ہے ؟ “ اس نے کہا :” ہاں “ پھر وہ آدمی ڈر گیا کہ کہیں اس کی قوم اس کا کیا ہوا ، عہد پورا نہ کرے ، چناچہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا :” میں ان کے پاس جاؤں گا اور انہیں بتاؤں گا ، پھر آئندہ سال آپ کے پاس آؤں گا “۔ آپ نے فرمایا :” ٹھیک ہے “۔ چناچہ وہ چلا گیا اور انصار کا وفد رجب میں آگیا “۔- ٤۔ فَاَیَّدْنَاج الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰی عَدُوِّھِمْ فَاَصْبَحُوْا ظٰھِرِیْنَ : یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت پر بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لے آیا اور ایک گروہ نے انہیں رسول ماننے سے انکار کردیا ۔ انکار کرنے والے یہودی تھی اور ایمان لانے والے نصرانی ۔ ایمان لانے والے قلیل تھے اور کفر کرنے والے بہت زیادہ تھے۔ ان یہودیوں نے مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا پیغام پہنچانے سے روکنے کی ہر کوشش کی اور مسیح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں پر بد ترین مظالم کیے ، مگر نہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کی طرف دعوت کو ترک کیا اور نہ ہی ان کے ساتھیوں نے ان کا ساتھ دینے سے کوئی کوتاہی کی ، حتیٰ کہ جب اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی طرف اٹھا لیا ت اس وقت بھی ایمان والوں کی استقامت میں کمی نہیں آئی ، وہ بدستور ڈٹے رہے اور اسلام کی طرف دعوت دیتے رہے ، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کفار کے ساتھ قتال کی توفیق عطاء فرمائی ۔ پھر جب وہ قلت تعداد کے باوجود میدان میں ڈٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں قوت بخشی اور ان کی مد د فرمائی ، تو وہ اپنے دشمن پر غالب آگئے اور ان کے دشمن یہودی مغلوب ہوگئے جو آج تک مغلوب چلے آرہے ہیں ۔ پھر جب عیسیٰ (علیہ السلام) کے نام لیوا شر ک میں مبتلا ہوگئے اور انہیں رب تعالیٰ یا رب کا بیٹا کہنے لگے تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے امت ِ مسلمہ کو ، جو عیسیٰ (علیہ السلام) پر صحیح ایمان لانے والی تھی ، ان پر غالب کردیا ۔- ٥۔ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھ بھی کفار کے ظلم و ستم سہتے رہے اور سہ رہے تھے ، اس میں ان کے لیے بشارت ہے کہ اگر تم عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کی طرح اللہ تعالیٰ کے انصار ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے تمہیں بھی تمہارے دشمنوں پر غالب کرے گا ۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کفار پر غلبہ عطاء فرما دیا ، اس فرق کے ساتھ کہ مسیح (علیہ السلام) اپنے ساتھیوں کا غلبہ دینے سے پہلے اٹھا لیے گئے ، جب کہ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے وہ نظارہ آنکھوں سے دکھادیا جس کا ذکر سورة ٔ نصر میں ہے، فرمایا :(اِذَآ جَآئَ نَصْرُ اللہ ِ وَالْفَتْحُ وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللہ ِ اَفْوَاجًا ) (النصر : ١، ٢)” جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے ۔ اور لوگوں کو دیکھے کہ وہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں۔ “ ہاں ، عیسیٰ (علیہ السلام) جب دوبارہ تشریف لائیں گے تو وہ بنفس نفیس اس فتح اور غلبے میں شریک ہوں گے جو اللہ تعالیٰ ان کے ساتھی مسلمانوں کو ان کے دشمنوں اور دجال پر عطاء فرمائے گا۔
كَمَا قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيّٖنَ مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ، حواریین، حواری کی جمع ہے جس کے معنی مخلص دوست کے ہیں جو ہر عیب سے پاک و صاف ہو (روح ازازہری) اسی لئے جو لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے ان کو حواری کہا جاتا ہے اور وہ بارہ آدمی تھے جیسا کہ سورة آل عمران میں گزر چکا ہے۔- اس آیت میں زمانہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے ایک واقعہ کا ذکر کر کے مسلمانوں کو اس کی ترغیب دی گئی ہے کہا اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کے لئے تیار ہوجائیں، جیسا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) جب دشمنوں سے تنگ آئے تو لوگوں سے کہا من انصاری الی اللہ، یعنی اللہ کے دین کی اشاعت میں کون میرا مددگار ہوتا ہے جس پر بارہ آدمیوں نے وفا داری کا عہد کیا اور پھر دین عیسوی کی اشاعت میں خدمات انجام دیں، تو مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ اللہ کے دین کے انصار و مددگار بنیں۔- صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس حکم کی تعمیل ایسی کی کہ پچھلی امتوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد اور دین کی خاطر سب عرب و عجم سے دشمنی خریدی، ان کی ایذائیں سہیں، اپنی جان و مال اور اولاد کو اس پر قربان کیا اور بالآخر اللہ تعالیٰ نے اپنی فتح و نصرت سے نوازا اور سب دشمنوں پر ان کو غالب فرمایا ان کے ممالک ان کے ہاتھ آئے اور دنیا کی فرمانروائی بھی ان کو نصیب ہوئی۔- فَاٰمَنَتْ طَّاۗىِٕفَةٌ مِّنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ وَكَفَرَتْ طَّاۗىِٕفَةٌ ۚ فَاَيَّدْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلٰي عَدُوِّهِمْ فَاَصْبَحُوْا ظٰهِرِيْنَ عیسائیوں کے تین فرقے :- بغوی نے اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت کیا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان میں اٹھا لیا تو عیسائیوں میں تین فرقے ہوگئے، ایک فرقہ نے کہا کہ وہ خود خدا ہی تھے آسمان میں چلے گئے، دوسرے فرقہ نے کہا کہ وہ خدا تو نہیں بلکہ خدا کے بیٹے تھے اللہ نے ان کو اٹھا لیا اور دشمنوں پر فوقیت دیدی، تیسرے فرقہ نے وہ بات کہی جو صحیح اور حق ہے کہ وہ نہ خدا تھے نہ خدا کے بیٹے بلکہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو دشمنوں سے حفاظت اور رفعت درجہ کے لئے اٹھا لیا، یہ لوگ صحیح مومن تھے، تینوں فرقوں کے ساتھ کچھ عوام لگ گئے اور باہمی نزاع بڑھتے بڑھتے باہم قتال کی نوبت آگئی، اتفاق سے دونوں کا فرفرقے مومنین پر غالب آگئے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا جنہوں نے اس مومن فرقہ کی تائید کی اس طرح انجام کار وہ مومن فرقہ بحیثیت حجت و دلیل کے غالب آ گیا (مظہری) - اس تفسیر کے مطابق الذین آمنوا سے .... مومنین امت عیسیٰ (علیہ السلام) ہی مراد ہوں گے جو حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تائید و حمایت سے مظفر و منصور ہوں گے (مظہری) اور بعض حضرات نے فرمایا کہ رفع عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد عیسائیوں میں دو فرقے ہوگئے، ایک عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا یا خدا کا بیٹا قرار دے کر مشرک ہوگیا، دوسرا صحیح دین پر قائم رہا جو ان کو اللہ کا بندہ اور رسول کہنے کا قائل تھا، پھر ان مشرکین و مومنین میں باہم جنگ ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے مومنین امت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اس امت کے کافروں پر غالب کردیا، مگر مشہور یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مذہب میں جہاد دو قتال کا حکم نہیں تھا، اس لئے مومنین کا قتال کرنا بعید معلوم ہوتا ہے (روح المعانی) مگر اوپر خلاصہ تفسیر میں اس کے جواب میں اشارہ کردیا گیا ہے کہ اس کا امکان ہے کہ جنگ کی ابتداء کفار نصاریٰ کی طرف سے ہوئی ہو اور مومنین مدافعت پر مجبور ہوگئے ہوں، تو یہ جہاد دوقتال کے حکم میں نہیں آتا، واللہ اعلم - تمت - سورة الصف بحمد اللہ وعونہ - للحادی والعشرین من جمادی الاولے ٰ- س 1391 ھ یوم الخمیس و یتلوھا انشآء اللہ
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللہِ كَـمَا قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيّٖنَ مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللہِ ٠ ۭ قَالَ الْحَــوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللہِ فَاٰمَنَتْ طَّاۗىِٕفَۃٌ مِّنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ وَكَفَرَتْ طَّاۗىِٕفَۃٌ ٠ ۚ فَاَيَّدْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلٰي عَدُوِّہِمْ فَاَصْبَحُوْا ظٰہِرِيْنَ ١٤ ۧ- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - نَّصَارَى- وَالنَّصَارَى قيل : سُمُّوا بذلک لقوله : كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ- [ الصف 14] ، وقیل : سُمُّوا بذلک انتسابا إلى قرية يقال لها : نَصْرَانَةُ ، فيقال : نَصْرَانِيٌّ ، وجمْعُه نَصَارَى، قال : وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاری - الآية [ البقرة 113] ، ونُصِرَ أرضُ بني فلان . أي : مُطِرَ «1» ، وذلک أنَّ المطَرَ هو نصرةُ الأرضِ ، ونَصَرْتُ فلاناً : أعطیتُه، إمّا مُسْتعارٌ من نَصْرِ الأرض، أو من العَوْن .- اور بعض کے نزدیک عیسائیوں کو بھی نصاری اس لئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے نحن انصار اللہ کا نعرہ لگا دیا تھا ۔ چناچہ قران میں ہے : ۔ كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف 14] جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) بن مر یم نے حواریوں سے کہا بھلا کون ہے جو خدا کی طرف بلانے میں میرے مددگار ہوں تو حوراریوں نے کہا ہم خدا کے مددگار ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ نصرانی کی جمع ہے جو نصران ( قریہ کا نام ) کی طرف منسوب ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاریالآية [ البقرة 113] یہود کہتے ہیں کہ عیسائی رستے پر نہیں ۔ نصر ارض بنی فلان کے معنی بارش بر سنے کے ہیں کیونکہ بارش سے بھی زمین کی مدد ہوتی ہے اور نصرت فلانا جس کے معنی کسی کو کچھ دینے کے ہیں یہ یا تو نصر الارض سے مشتق ہے اور یا نصر بمعنی عون سے ۔- عيسی - عِيسَى اسم علم، وإذا جعل عربيّا أمكن أن يكون من قولهم : بعیر أَعْيَسُ ، وناقة عَيْسَاءُ ، وجمعها عِيسٌ ، وهي إبل بيض يعتري بياضها ظلمة، أو من الْعَيْسِ وهو ماء الفحل يقال : عَاسَهَا يَعِيسُهَا - ( ع ی س ) یہ ایک پیغمبر کا نام اور اسم علم ہے اگر یہ لفظ عربی الاصل مان لیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ یہ اس عیس سے ماخوذ ہو جو کہ اعیس کی جمع ہے اور اس کی مؤنث عیساء ہے اور عیس کے معنی ہیں سفید اونٹ جن کی سفیدی میں قدرے سیاہی کی آمیزش ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے عیس سے مشتق ہو جس کے معنی سانڈ کے مادہ منو یہ کے ہیں اور بعیر اعیس وناقۃ عیساء جمع عیس اور عاسھا یعسھا کے معنی ہیں نر کا مادہ سے جفتی کھانا ۔- حور - الحَوْرُ : التّردّد إمّا بالذّات، وإمّا بالفکر، وقوله عزّ وجلّ : إِنَّهُ ظَنَّ أَنْ لَنْ يَحُورَ [ الانشقاق 14] ، أي : لن يبعث، وذلک نحو قوله : زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا، قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 17] ، وحَارَ الماء في الغدیر : تردّد فيه، وحَارَ في أمره : تحيّر، ومنه :- المِحْوَر للعود الذي تجري عليه البکرة لتردّده، وبهذا النّظر قيل : سير السّواني أبدا لا ينقطع «1» ، والسواني جمع سانية، وهي ما يستقی عليه من بعیر أو ثور، ومَحَارَة الأذن لظاهره المنقعر، تشبيها بمحارة الماء لتردّد الهواء بالصّوت فيه کتردّد الماء في المحارة، والقوم في حَوْرٍ أي : في تردّد إلى نقصان، وقوله : «نعوذ بالله من الحور بعد الکور» أي : من التّردّد في الأمر بعد المضيّ فيه، أو من نقصان وتردّد في الحال بعد الزّيادة فيها، وقیل : حار بعد ما کار . والمُحاوَرَةُ والحِوَار : المرادّة في الکلام، ومنه التَّحَاوُر، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحاوُرَكُما [ المجادلة 1] ، وكلّمته فما رجع إليّ حَوَاراً ، أو حَوِيراً أو مَحُورَةً أي : جوابا، وما يعيش بأحور، أي بعقل يحور إليه، وقوله تعالی: حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن 72] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] ، جمع أَحْوَرَ وحَوْرَاء، والحَوَر قيل : ظهور قلیل من البیاض في العین من بين السّواد، وأَحْوَرَتْ عينه، وذلک نهاية الحسن من العین، وقیل : حَوَّرْتُ الشّيء : بيّضته ودوّرته، ومنه : الخبز - الحُوَّارَى، والحَوَارِيُّونَ أنصار عيسى صلّى اللہ عليه وسلم، قيل :- کانوا قصّارین وقیل : کانوا صيّادین، وقال بعض العلماء : إنّما سمّوا حواريّين لأنهم کانوا يطهّرون نفوس النّاس بإفادتهم الدّين والعلم المشار إليه بقوله تعالی: إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب 33] ، قال : وإنّما قيل : کانوا قصّارین علی التّمثیل والتشبيه، وتصوّر منه من لم يتخصّص بمعرفته الحقائق المهنة المتداولة بين العامّة، قال : وإنّما کانوا صيّادین لاصطیادهم نفوس النّاس من الحیرة، وقودهم إلى الحقّ ، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «الزّبير ابن عمّتي وحواريّ» وقوله صلّى اللہ عليه وسلم : «لكلّ نبيّ حَوَارِيٌّ وحواريّ الزّبير» فتشبيه بهم في النّصرة حيث قال : مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ : نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف 14] .- ( ح و ر ) الحور - ( ن ) کے اصل معنی پلٹنے کے ہیں خواہ وہ پلٹنا بلحاظ ذات کے ہو یا بلحاظ فکر کے اور آیت کریمہ ؛إِنَّهُ ظَنَّ أَنْ لَنْ يَحُورَ [ الانشقاق 14] اور خیال کر تھا کہ ( خدا کی طرف ) پھر کر نہیں آئے گا ۔ لن یحور ( سے دوبارہ زندہ ہوکر اٹھنا مرا د ہے جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا، قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 17] جو لوگ کافر ہیں ان کا اعتقاد یہ ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہر گز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردگار کی قسم تم ضرور اٹھائے جاو گے ۔ حار الماء فی الغدید پانی کا خوض میں گھومنا ۔ حارفی امرہ کسی معاملہ میں متحری ہونا ۔ اسی سے محور ہے ۔ یعنی وہ لکڑی جس پر چرخی گھومتی ہے اور گھومنے کے معنی کے لحاظ سے کہاجاتا ہے ۔ سیر السوانی ابدا لا ینقطع کہ پانی کھیننچے والے اونٹ ہمیشہ چلتے رہتے ہیں ۔ محارۃ الاذن کان کا گڑھا ۔ یہ محارۃ الماء کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس میں آواز سے ہو اس طرح چکر کاٹتی ہے ۔ جیسے گڑھے میں پانی گھومتا ہے ۔ القوم فی حوار یعنی زیادتی کے بعد نقصان کیطرف لوٹ رہے ہیں حدیث میں ہے :۔ (101) نعوذ باللہ من الحور بعد الکور ہم زیادتی کے بعد کمی سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔ یا کسی کام کا عزم کرلینے کے بعد اس میں تردد سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں اسہ طرح کہا جاتا ہے ( مثل) حار بعد ماکار زیادہ ہونے کے بعد کم ہوگیا ۔ المحاورۃ رالحوار ایک دوسرے کی طرف کلام لوٹانا اسی سے تحاور ( تبادلہ گفتگو ) ہے قرآن میں ہے ۔ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحاوُرَكُما [ المجادلة 1] اور خدا تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا ۔ کلمتہ فما رجع الی حوار احویرا ومحورۃ میں نے اس سے بات کی لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا ۔ مایعیش باحور وہ عقلمند سے زندگی بسر نہیں کر رہا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن 72] وہ حوریں ہیں جو خیموں میں مستور ہیں ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] اور بڑی آنکھوں والی حوریں ۔ میں حور ، احور اور حواراء کی جمع ہے ۔ اور حور سے ماخوذ ہے جس کے معنی بقول بعض آنکھ کی ساہی میں تھوڑی سی سفیدی ظاہر ہونے کے ہیں ۔ کہا جتا ہے ۔ احورث عینہ یعنی اس کی آنکھ بہت سیاہی اور سفیدی والی ہے ۔ اور یہ آنکھ کا انتہائی حسن سمجھاجاتا ہے جو اس سے مقصود ہوسکتا ہے حورت الشئی کسی چیز کو گھمانا ۔ سفید کرنا ( کپڑے کا ) اسی سے الخبز الحوار ہے جس کے معنی امید سے کی روٹی کے ہیں عیسیٰ (علیہ السلام) کے انصار واصحاب کو حواریین کہاجاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ قصار یعنی دھوبی تھے ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ ان کو حواری اسلئے کہاجاتا ہے کہ وہ لوگوں کو علمی اور دینی فائدہ پہنچا کر گناہوں کی میل سے اپنے آپ کو پا کرتے تھے ۔ جس پاکیزگی کی طرف کہ آیت :۔ إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب 33] میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اس بنا پر انہیں تمثیل اور تشبیہ کے طور پر قصار کہہ دیا گیا ہے ورنہ اصل میں وہ ہوبی پن کا کام نہیں کرتے تھے اور اس سے شخص مراد لیا جاتا ہے جو معرفت حقائق کی بنا پر عوام میں متداول پیشوں میں سے کوئی پیشہ اختیار نہ کرے اسی طرح ان کو صیاد اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو حیرت سے نکال کر حق کیطرف لاکر گویا ان کا شتکار کرتے تھے ۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زبیر کے متعلق فرمایا (102) الزبیر ابن عمتی وحوادی ۔ کہ زبیر میرا پھوپھی زاد بھائی اور حواری ہے نیز فرمایا (103) لکل بنی حواری الزبیر ۔ کہ ہر نبی کا کوئی نہ کوئی حواری رہا ہے اور میرا حواری زبیر ہے ۔ اس روایت میں حضرت زبیر کا حواری کہنا محض نصرت اور مدد کے لحاظ سے ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تھا ۔ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ : نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف 14] بھلاکون ہیں جو خدا کی طرف ( بلانے میں ) میرے مددگار ہوں ۔ حواریوں نے کہا ہم خدا کے مددگا ہیں ۔- طَّائِفَةُ- وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی:- فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك .- الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو )- كفر ( ناشکري)- الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152]- ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ معنی کفران کے متعلق فرمایا : ۔- لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔ - ايد ( قوة)- قال اللہ عزّ وجل : أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ المائدة 110] فعّلت من الأيد، أي : القوة الشدیدة . وقال تعالی: وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران 13] أي : يكثر تأييده، ويقال : إِدْتُهُ أَئِيدُهُ أَيْداً نحو : بعته أبيعه بيعا، وأيّدته علی التکثير . قال عزّ وجلّ : وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات 47] ، ويقال : له أيد، ومنه قيل للأمر العظیم مؤيد . وإِيَاد الشیء : ما يقيه، وقرئ : (أَأْيَدْتُكَ ) وهو أفعلت من ذلك . قال الزجاج رحمه اللہ : يجوز أن يكون فاعلت، نحو : عاونت، وقوله عزّ وجل : وَلا يَؤُدُهُ حِفْظُهُما[ البقرة 255] أي : لا يثقله، وأصله من الأود، آد يؤود أودا وإيادا : إذا أثقله، نحو : قال يقول قولا، وفي الحکاية عن نفسک : أدت مثل : قلت، فتحقیق آده : عوّجه من ثقله في ممرِّه .- ( ای د ) الاید ( اسم ) سخت قوت اس سے اید ( تفعیل ) ہے جس کے معنی تقویت دنیا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ المائدة 110] ہم نے تمہیں روح قدس سے تقویت دی وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران 13] یعنی جسے چاہتا ہے اپنی نصرت سے بہت زیادہ تقویت بخشتا ہے ادتہ ( ض) ائیدہ ایدا جیسے بعتہ ابیعہ بیعا ( تقویت دینا) اور اس سے ایدتہ ( تفعیل) تکثیر کے لئے آتا ہے قرآن میں ہے وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات 47] اور ہم نے آسمان کو بڑی قوت سے بنایا اور اید میں ایک لغت آد بھی ہے اور ۔ اسی سے امر عظیم کو مؤید کہا جاتا ہے اور جو چیز دوسری کو سہارا دے اور بچائے اسے ایاد الشئی کہا جاتا ہے ایک قرات میں ایدتک ہے جو افعلت ( افعال ) سے ہے اور ایاد الشئ کے محاورہ سے ماخوذ ہے زجاج (رح) فرماتے ہیں کہ یہ فاعلت ( صفاعلہ ) مثل عادنت سے بھی ہوسکتا ہے ۔- عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ «3» ، أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - صبح - الصُّبْحُ والصَّبَاحُ ، أوّل النهار، وهو وقت ما احمرّ الأفق بحاجب الشمس . قال تعالی: أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود 81] ، وقال : فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات 177] ، والتَّصَبُّحُ : النّوم بالغداة، والصَّبُوحُ : شرب الصّباح، يقال : صَبَحْتُهُ : سقیته صبوحا، والصَّبْحَانُ : الْمُصْطَبَحُ ، والْمِصْبَاحُ : ما يسقی منه، ومن الإبل ما يبرک فلا ينهض حتی يُصْبَحَ ، وما يجعل فيه الْمِصْبَاحُ ، قال : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور 35] ، ويقال للسّراج : مِصْبَاحٌ ، والْمِصْبَاحُ : مقرّ السّراج، والْمَصَابِيحُ : أعلام الکواكب . قال تعالی: وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک 5] ، وصَبِحْتُهُمْ ماء کذا : أتيتهم به صَبَاحاً ، والصُّبْحُ : شدّة حمرة في الشّعر، تشبيها بالصّبح والصّباح، وقیل : صَبُحَ فلان أي : وَضُؤَ - ( ص ب ح) الصبح والصباح دن کا ابتدائی حصہ جبکہ افق طلوع آفتاب کی وجہ سے سرخ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود 81] کیا صبح کچھ دور ہے ۔ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات 177] تو جن کو ڈرسنا یا گیا ہے ۔ ان کے لئے برادن ہوگا ۔ التصبح صبح کے وقت سونا ۔ الصبوح صبح کی شراب کو کہتے ہیں اور صبحتہ کے معنی صبح کی شراب پلانے کے ہیں ۔ الصبحان صبح کے وقت شراب پینے والا ( مونث صبحیٰ ) المصباح (1) پیالہ جس میں صبوحی پی جائے (2) وہ اونٹ جو صبح تک بیٹھا رہے (3) قندیل جس میں چراغ رکھا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور 35] اس کے نور کی مثال ایسی ہے گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ اور چراغ ایک قندیل میں ہے ۔ اور چراغ کو بھی مصباح کہاجاتا ہے اور صباح کے معنی بتی کی لو کے ہیں ۔ المصا بیح چمکدار ستارے جیسے فرمایا : وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک 5] اور ہم نے قریب کے آسمان کو تاروں کے چراغوں سے زینت دی ۔ صبحتم ماء کذا میں صبح کے وقت انکے پاس فلاں پانی پر جاپہنچا اور کبھی صبیح یا صباح کی مناسبت سے بالوں کی سخت سرخی کو بھی صبح کہا جاتا ہے ۔ صبح فلان خوبصورت اور حسین ہونا ۔- ظَاهَرَ ( مدد)- وَظَهَرَ عليه : غلبه، وقال : إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ [ الكهف 20] ، وظاهَرْتُهُ :- عاونته . قال تعالی: وَظاهَرُوا عَلى إِخْراجِكُمْ [ الممتحنة 9] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ- [ التحریم 4] ، أي : تعاونا، تَظاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ البقرة 85] ، وقرئ : ( تَظَّاهَرَا) الَّذِينَ ظاهَرُوهُمْ- ظھر علیہ کے معنی ہیں وہ اس پر غالب آگیا قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ [ الكهف 20] اگر وہ تم پر دسترس پالیں ۔ ظاھرتہ : میں نے اس کی مدد کی ( اور ظاھر علیہ کے معنی ہیں اس کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کی ) قرآن پاک میں ہے : ۔ وَظاهَرُوا عَلى إِخْراجِكُمْ [ الممتحنة 9] اور انہوں نے تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ [ التحریم 4] اور اگر پیغمبر کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کروگی ۔ ایک قرات میں تظاھر ا ہے ( یعنی تار کو ظاء میں ادغام کیسا تھ ) الَّذِينَ ظاهَرُوهُمْ [ الأحزاب 26] اور اہل کتاب میں سے جنہوں نے ان کی مدد کی ۔ تَظاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ البقرة 85] تم ان کے خلاف گناہ اور زیادتی سے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہو ۔
اے ایمان والو دشمنوں کے خلاف تم رسول اکرم کے مددگار ہوجاؤ جیسا کہ حضرت عیسیٰ کے فرمانے پر ان کے حواری کہنے لگے ہم اللہ کے دین میں اس کے دشمنوں کے خلاف آپ کے مددگار ہیں اور یہ بارہ حواری تھے جو سب سے پہلے حضرت عیسیٰ پر ایمان لائے اور ان کی مدد کی۔- اور بنی اسرائیل میں سے حضرت عیسیٰ پر کچھ لوگ ایمان لائے اور کچھ منکر رہے جن کو بولس نے گمراہ کردیا تھا اس کے نتیجہ میں ہم نے ان لوگوں کی جنہوں نے دین عیسوی کی مخالفت نہیں کی تھی ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں مدد اور حمایت کی سو حضرت عیسیٰ پر ایمان لانے والے غالب ہوگئے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار تھے یا یہ کہ وہ تسبیح و تقدیس کرنے والوں میں سے تھے۔
اس سورة مبارکہ کی آخری آیت ایک طویل آیت ہے اور منطقی اعتبار سے یہ اس سلسلہ مضمون کا ایک انتہائی اہم اور بلند ترین مقام ہے جو گزشتہ آیات میں چلا آ رہا ہے۔ فرمایا :- آیت ١٤ یٰٓـــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰہِ ” اے اہل ایمان تم اللہ کے مددگار بن جائو “- اللہ کے مددگار بننے کا طریقہ یہ ہے کہ تم اللہ کے دین کا جھنڈا سربلند کرنے پر کمربستہ ہو جائو۔ اور اگر تم اس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے جدوجہد کرو گے تو تم محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مددگار بھی بن جائو گے ‘ کیونکہ غلبہ دین کا یہ مشن اصل میں تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مشن ہے۔ تو اے اہل ایمان آئو آگے بڑھو اللہ کے دین کا جھنڈا اٹھائو جان و مال کا سرمایہ لگائو اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مددگاروں میں اپنانام لکھوا لو۔- کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ ” جیسے کہا تھا عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم نے اپنے حواریوں سے “- مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِط ” کون ہے میرا مددگار اللہ کی طرف ؟ “- یعنی کون ہے جو میری مدد کرے اللہ کی راہ میں ؟ مدد مجھے درکار ہے ‘ لیکن مشن اللہ کا ہے۔ اس فقرے میں وہی دو نسبتیں نظر آرہی ہیں جن کا ذکر سورة الفتح کی اس آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیعت کے حوالے سے آیا ہے : اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ ط یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْج (آیت ١٠) ۔ یعنی بیعت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر ہو رہی ہے لیکن سودا اللہ تعالیٰ سے ہے۔ گویا عملی طور پر اس بیعت میں دو کے بجائے تین ہاتھ ہیں : بیعت کرنے والے کا ہاتھ ‘ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ اور اللہ کا ہاتھ۔ چناچہ اللہ کی مدد کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ آپ اس ” بندے “ کی مدد کریں جو اللہ کے مشن کو لے کر اس کے راستے پر نکلا ہو ۔ اسی فلسفے کے تحت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں نے اللہ کی مدد کے لیے آپ (علیہ السلام) کی آواز پر لبیک کہا تھا اور اسی جذبے کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) نے اپنا سب کچھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں میں نچھاور کر کے وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ (الفتح : ٢٩) کی فہرست میں اپنے نام لکھوائے تھے۔ چناچہ آج بھی اس مشن کو آگے بڑھانے کا یہی طریقہ ہے کہ اللہ کی توفیق سے اللہ کا کوئی بندہ خود کو اس مشن کے لیے وقف کر کے مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِط کی صدا بلند کرے کہ اے اللہ کے بندو میں نے تو یکسو ہو کر اللہ کی طرف رجوع کرلیا ہے۔ مجھے تو اب اس راستے پر چلنا ہی چلنا ہے۔ کوئی ساتھی ملے گا تب بھی چلوں گا اور اگر کوئی ساتھی نہیں ملے گا تب بھی چلوں گا۔ تو آئو آگے بڑھو اور میرے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اللہ کے مددگار بن جائو - قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ ” حواریوں نے کہا کہ ہم ہیں اللہ کے مددگار “- یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے مددگار بن گئے ۔ بنیادی طور پر اس آیت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کے خلوص و ایثار کا ذکر ہے کہ انہوں نے مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ کی دعوت پر بلاتامل خود کو پیش کردیا۔- فَاٰمَنَتْ طَّآئِفَۃٌ مِّنْم بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ وَکَفَرَتْ طَّآئِفَۃٌج ” تو بنی اسرائیل کا ایک گروہ (حضرت مسیح (علیہ السلام) پر) ایمان لے آیا اور دوسرا گروہ کفر پر اڑا رہا۔ “- فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰی عَدُوِّہِمْ ” تو ہم نے مدد کی ان کی جو ایمان لائے تھے ان کے دشمنوں کے خلاف “- فَاَصْبَحُوْا ظٰہِرِیْنَ ۔ ” تو (بالآخر) وہی غالب ہوئے۔ “- اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نام لیوا دنیا میں غالب ہوئے اور اللہ کے رسول (علیہ السلام) کا انکار کرنے والے یہودی مغلوب ہوئے۔۔۔۔ لیکن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکاروں کو یہ کامیابی آسانی سے نہیں ملی تھی ‘ اس کے لیے ان لوگوں کو تین سو سال تک جاں گداز جدوجہد کرنی پڑی اور بڑی بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ (اس کے مقابل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) کی ابتلاء و آزمائش کا دورانیہ چند سال کے عرصے میں سمٹ گیا تھا۔ ) بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جتنے طویل عرصے تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکاروں نے مخالفین کی طرف سے تکلیفیں اور سختیاں برداشت کی ہیں اس کی کوئی مثال کسی اور نبی (علیہ السلام) یا رسول (علیہ السلام) کے پیروکاروں میں نہیں ملتی۔ قرآن مجید میں ان کی آزمائشوں اور قربانیوں کا ذکر متعدد مقامات پر آیا ہے۔ مثلاً سورة یٰسین کے آغاز میں جن تین رسولوں کا ذکر آیا ہے ان کے بارے میں زیادہ تر مفسرین کی رائے یہی ہے کہ وہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے حواریوں میں سے تھے ۔ یعنی وہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے فرستادہ (رسول (علیہ السلام) کے رسول) تھے ۔ اسی طرح سورة البروج میں جن اہل ایمان کا واقعہ بیان ہوا ہے وہ بھی عیسائی تھے اور انہیں بادشاہِ وقت ’ ابونواس ‘ نے خندقوں میں ڈال کر زندہ جلا دیا تھا۔ پھر اصحاب الکہف جو رومی بادشاہ کے تشدد کے خوف سے غار میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے وہ بھی عیسائی تھے۔ بہرحال حضرت مسیح (علیہ السلام) کے پیروکاروں کی تین صدیوں پر محیط لازوال قربانیوں کے بعد بالآخر ٣٠٠ عیسوی میں رومی سلطنت نے عیسائیت قبول کرلی ۔ آیت میں اسی غلبے کا ذکر ہے۔- اس کے بعد حضرت مسیح (علیہ السلام) کے پیروکار جب گمراہ ہونے پر آئے تو انہوں نے شرک بھی بدترین ایجاد کیا۔ یعنی انہوں نے اپنے پیغمبر کو بربنائے عقیدت اللہ کا صلبی بیٹا بنا ڈالا (نعوذ باللہ) ۔ اس ضمن میں آج ہمیں بھی اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں بھی بعض نعت خواں حضرات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عقیدت اور عشق و محبت کے نام پر اتنا غلو کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کے برابر بٹھانے سے کم پر ان کی تسلی ہی نہیں ہوتی۔ حتیٰ کہ ایسے لوگوں نے ہندوئوں کی دیکھا دیکھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ” اوتار “ کا عقیدہ بھی گھڑ لیا ہے۔ عبرت کے لیے ملاحظہ ہوں یہ اشعار : ؎- وہی جو مستویٔ عرش تھا خدا ہو کر - اُتر پڑا وہ مدینے میں مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہو کر - اور : ؎- مدینے کی مسجد میں منبر کے اوپر - بغیر عین کا اِک عرب ہم نے دیکھا - اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : یٰٓـاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ (النساء : ١٧١) کہ اے اہل کتاب اپنے دین میں غلو نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم صرف یہود و نصاریٰ کے لیے ہی نہیں تھا ‘ ہمارے لیے بھی ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے احکام کو بھی درخورِ اعتناء نہیں سمجھا اور ہر اس گناہ اور جرم میں بےدھڑک اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کی جس کا ارتکاب کر کے پچھلی امتیں راندئہ درگاہ ہوئی تھیں۔ سوائے اس کے کہ قرآن کے متن میں ہم تحریف نہیں کرسکے اور وہ بھی اس لیے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی تحفظ حاصل ہے۔ ورنہ اگر ممکن ہوتا تو اس میدان میں بھی ہم کسی سے پیچھے نہ رہتے۔
سورة الصَّف حاشیہ نمبر :19 حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کے لیے بائیبل میں عموماً لفظ شاگرد استعمال کیا گیا ہے ، لیکن بعد میں ان کے لیے رسول ( ) کی اصطلاح عیسائیوں میں رائج ہو گئی ، اس معنی میں نہیں کہ وہ خدا کے رسول تھے ، بلکہ اس معنی میں کہ حضرت عیسیٰ ان کو اپنی طرف سے مبلغ بنا کر اطراف فلسطین میں بھیجا کرتے تھے ۔ یہودیوں کے ہاں یہ لفظ پہلے سے ان لوگوں کے لیے بولا جاتا تھا جو ہیکل کے لیے چندہ جمع کرنے بھیجے جاتے تھے ۔ اس کے مقابلہ میں قرآن کی اصطلاح حواری ان دونوں مسیحی اصطلاحوں سے بہتر ہے ۔ اس لفظ کی اصل حور ہے جس کے معنی سفیدی کے ہیں ۔ دھوبی کو حواری کہتے ہیں کیونکہ وہ کپڑے دھو کر سفید کر دیتا ہے ۔ خالص اور بے آمیز چیز کو بھی حواری کہا جاتا ہے ۔ جس آٹے کو چھان کر بھوسی نکال دی گئی ہو اسے حُوّاریٰ کہتے ہیں ۔ اسی معنی میں خالص دوست اور بے غرض حامی کے لیے یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ ابن سیدہ کہتا ہے ہر وہ شخص جو کسی کی مدد کرنے میں مبالغہ کرے وہ اس کا حواری ہے ( لسان العرب ) ۔ سورة الصَّف حاشیہ نمبر :20 یہ آخری مقام ہے جہاں قرآن مجید میں ان لوگوں کو اللہ کا مددگار کہا گیا ہے جو خلق خدا کو دین کی طرف بلانے اور اللہ کے دین کو کفر کے مقابلے میں غالب کرنے کی جدوجہد کریں ۔ اس سے پہلے یہی مضمون سورہ آل عمران ، آیت 52 سورہ حج ، آیت 40 ، سورہ محمد ، آیت 7 ، سورہ حدید ، آیت 25 اور سورہ حشر آیت 8 میں گزر چکا ہے ، اور ان آیات کی تشریح ہم تفہیم القرآن ، جلد اول ، آل عمران ، حاشیہ 50 ، جلد سوم ، الحج ، حاشیہ 84 ، جلد پنجم ، سورہ محمد ، حاشیہ 12 ، اور سورہ حدید ، حاشیہ 47 میں کر چکے ہیں ، نیز سورہ محمد ، حاشیہ 9 میں بھی اس مسئلے کے ایک گوشے پر واضح روشنی ڈالی جاچکی ہے ۔ اس کے باوجود بعض لوگوں کے ذہن میں یہ الجھن پائی جاتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے ، تمام خلق سے بے نیاز ہے ، کسی کا محتاج نہیں ہے اور سب اس کے محتاج ہیں تو کوئی بندہ آخر اللہ کا مددگار کیسے ہو سکتا ہے ۔ اس الجھن کو رفع کرنے کے لیے ہم یہاں اس مسئلے کی مزید وضاحت کیے دیتے ہیں ۔ دراصل ایسے لوگوں کو اللہ کا مددگار اس لیے نہیں کہا گیا ہے کہ اللہ رب العالمین معاذاللہ کسی کام کے لیے اپنی کسی مخلوق کی مدد کا محتاج ہے ، بلکہ یہ اس لیے فرمایا گیا ہے کہ زندگی کے جس دائرے میں اللہ تعالیٰ نے خود انسان کو کفر و ایمان اور طاعت و معصیت کی آزادی بخشی ہے اس میں وہ لوگوں کو اپنی قوت قاہرہ سے کام لے کر بجز مومن و مطیع نہیں بناتا بلکہ اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے ان کو راہ راست دکھانے کے لیے تذکیر و تعلیم اور تفہیم و تلقین کا طریقہ اختیار فرماتا ہے ۔ اس تذکیر و تعلیم کو جو شخص بہ رضا و رغبت قبول کر لے وہ مومن ہے ، جو عملاً مطیع فرمان بن جائے وہ مسلم و قانت اور عابد ہے ، جو خدا ترس کا رویہ اختیار کر لے وہ متقی ہے ، جو نیکیوں کی طرف سبقت کرنے لگے وہ محسن ہے ، اور اس سے مزید ایک قدم آگے بڑھ کر جو اسی تذکیر و تعلیم کے ذریعہ سے بندگان خدا کی اصلاح کے لیے اور کفر و فسق کی جگہ اللہ کی اطاعت کا نظام قائم کرنے کے لیے کام کرنے لگے اسے اللہ تعالیٰ خود اپنا مددگار قرار دیتا ہے ، جیسا کہ آیات مذکورہ بالا میں کئی جگہ بالفاظ صریح ارشاد ہوا ہے ۔ اگر اصل مقصود اللہ کا نہیں بلکہ اللہ کے دین کا مددگار کہنا ہوتا تو اَنْصَارُ اللہ کے بجائے اَنْصَارُ دِیْنِ اللہِ فرمایا جاتا ، یَنْصُرُوْنَ اللہ کے بجائے یَنْصُرُوْنَ دِیْنِ اللہِ فرمایا جاتا ، اِنْ تَنْصُرُوْ اللہَ کے بجائے اِنْتَنْصُرُوْا دِیْنَ اللہِ فرمایا جاتا ۔ جب ایک مضمون کو ادا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پے در پے کئی مقامات پر ایک ہی طرز بیان اختیار فرمایا ہے تو یہ اس بات پر صریح دلالت کرتا ہے کہ اصل مقصود ایسے لوگوں کو اللہ کا مددگار ہی کہنا ہے ۔ مگر یہ مدد گاری نعوذ بااللہ اس معنی میں نہیں ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی کوئی ضرورت پوری کرتے ہیں جس کے لیے وہ ان کی مدد کا محتاج ہے ، بلکہ یہ اس معنی میں ہے کہ یہ لوگ اسی کام میں حصہ لیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ اپنی قوت قاہرہ کے ذریعہ سے کرنے کے بجائے اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے کرنا چاہتا ہے ۔ سورة الصَّف حاشیہ نمبر :21 مسیح پر ایمان نہ لانے والوں سے مراد یہودی ، اور ایمان لانے والوں سے مراد عیسائی اور مسلمان ، دونوں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو مسیح کے منکرین پر غلبہ عطا فرمایا ۔ اس بات کو یہاں بیان کرنے سے مقصود مسلمانوں کو یہ یقین دلانا ہے کہ جس طرح پہلے حضرت عیسیٰ کے ماننے والے ان کا انکار کرنے والوں پر غالب آ چکے ہیں ، اسی طرح اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے آپ کا انکار کرنے والوں پر غالب آئیں گے ۔
9: ’’حواری‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ان ساتھیوں کو کہتے ہیں جو آپ پر ایمان لائے تھے، جیسے حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو ’’صحابہ‘‘ کہا جاتا ہے۔