3۔ 1 یہ امیین پر عطف ہے یعنی بَعَثَ فِیْ اَ خِرِ یْنَ مِنْھُمْ اَخَرِ یْنَ سے فارس اور دیگر غیر عرب لوگ ہیں جو قیامت تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والے ہونگے، بعض کہتے ہیں کہ عرب و عجم کے وہ تمام لوگ ہیں جو عہد صحابہ کرام کے بعد قیامت تک ہوں گے چناچہ اس میں فارس، روم، بربر، سوڈان، ترک، مغول، کرد، چینی اور اہل ہند وغیرہ سب آجاتے ہیں۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہم کی نبوت سب کے لیے ہے چناچہ یہ سب ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے۔ اور اسلام لانے کے بعد یہ بھی منہم کا مصداق یعنی اولین اسلام لانے والے امیین میں سے ہوگئے کیونکہ تمام مسلمان امت واحدہ ہیں۔ اسی ضمیر کی وجہ سے بعض کہتے ہیں کہ آخرین سے مراد بعد میں ہونے والے عرب ہیں کیونکہ منہم کی ضمیر کا مرجع امیین ہیں۔
[٦] آپ تمام لوگوں کے لئے تاقیام قیامت رسول ہیں :۔ نبی آخرالزمان صرف ان امی اہل عرب ہی کی طرف مبعوث نہیں کیے گئے تھے بلکہ بعد میں قیامت تک آنے والے لوگوں کے بھی نبی ہیں گویا آپ کی نبوت اور رسالت صرف اہل عرب کے لیے اور صرف اس دور کے لیے ہی نہیں تھی بلکہ اس دور کے اور بعد میں تاقیامت آنے والے سب انسانوں کے لیے یکساں ہے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل حدیث بھی ملاحظہ فرمائیے۔- سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ : جب سورة جمعہ نازل ہوئی تو ہم آپ کے پاس بیٹھے تھے۔ میں نے آپ سے پوچھا کہ ( وَّاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ) 62 ۔ الجمعة :3) سے کون لوگ مراد ہیں ؟ آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے تین بار یہی سوال کیا۔ اس وقت ہم لوگوں میں سلمان فارسی بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے ان پر اپنا ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ : اگر ایمان ثریا پر بھی ہوتا تو ان لوگوں (فارس والوں) سے کئی لوگ وہاں تک پہنچ جاتے (بخاری۔ کتاب التفسیر) - اہل فارس کی خدمت اسلام :۔ آپ نے پہلے دو بار اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس لیے کہ اس سے مراد کوئی خاص لوگ نہیں تھے۔ بلکہ اس سے مراد عامۃ الناس تھے۔ پھر جب سیدنا ابوہریرہ (رض) نے تیسری بار بھی یہی سوال کیا تو آپ نے اہل فارس کا نام لیا کہ یہ لوگ دوسروں سے بڑھ چڑھ کر دین اسلام کی خدمت کریں گے۔ چناچہ عملاً ہوا بھی ایسا ہی، صحابہ کرام کے دور کے بعد اسلام کی نشرواشاعت کا جتنا کام اہل فارس نے سرانجام دیا۔ دوسروں کے حصہ میں یہ سعادت نہ آسکی۔ بڑے بڑے محدثین اور فقہاء کی اکثریت اسی علاقہ سے تعلق رکھتی ہے۔- [٧] اللہ تعالیٰ کے زبردست اور حکمت والا ہونے کی اس سے بڑھ کر کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ اس نے اپنا رسول بھیج کر بائیس تئیس سال کی مختصر مدت میں عرب بھر کی کایا پلٹ کے رکھ دی۔ شرک کی جڑ کٹ گئی۔ اور خالصتاً اللہ کے پرستار پیدا ہوگئے۔ پہلے سب ایک دوسرے کے دشمن تھے اب بھائی بھائی بن کر شیروشکر ہوگئے۔ پہلے بہت سے گناہوں اور اخلاقی امراض میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اب اخلاق فاضلہ کے بلند مقام پر فائز ہوگئے۔
وَاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ ۔۔۔:” اخرین “ کا عطف ” فی الامین “ پر ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ نے اس رسول کو عرب امیوں میں بھیجا جن کی وہ نسل میں سے ہے اور اسے غیر عرب امیوں میں بھی بھیجا جو ابھی مسلمان ہو کر عربوں کے ساتھ ملے ، مگر آئندہ مسلمان ہو کر ان کے ساتھ ملنے والے ہیں ۔ تفصیل کے لیے اسی سورت کی آیت (٢) کی تفسیر کا پہلا فائدہ ملاحظہ فرمائیں ۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں : ” یعنی یہی رسول دوسرے ان پڑھوں کے واسطے بھی ہے ، وہ فارس کے لوگ ( ہیں) وہ بھی نبی کی کتاب نہ رکھتے تھے ۔ حق تعالیٰ نے اول عرب پیدا کیے اس دین کو تھامنے والے ، پیچھے عجم میں ایسے کامل لوگ اٹھے “۔ ( موضح)
(آیت) وَّاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيم، آخرین کے لفظی معنی ” دوسرے لوگ “ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ کے معنی جو ابھی تک ان لوگوں یعنی امیین کے ساتھ نہیں ملے، مراد ان سے وہ تمام مسلمان ہیں جو قیامت تک اسلام میں داخل ہوتے رہیں گے (کماروی عن ابن زید و مجاہد و غیر ہما) اس میں اشارہ ہے کہ قیامت تک آنے والے مسلمان سب کے سب مومنین اولین یعنی صحابہ کرام ہی کے ساتھ ملحق سمجھے جائیں گے، یہ بعد کے مسلمانوں کیلئے بڑی بشارت ہے (روح) - لفظ آخرین کے عطف میں دو قول ہیں، بعض حضرات نے اس کو امیین پر عطف قرار دیا ہے، جس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ بھیجا اللہ نے اپنا رسول امیین میں اور ان لوگوں میں جو ابھی ان سے نہیں ملے، اس پر جو یہ شبہ ہوتا ہے کہ امیین یعنی موجودین میں رسول بھیجنا تو ظاہر ہے، جو لوگ ابھی آئے ہی نہیں ان میں بھیجنے کا کیا مطلب ہوگا، اس کا جواب بیان القرآن میں یہ دیا ہے کہ ان میں بھیجنے سے مراد ان کیلئے بھیجنا ہے کیونکہ لفظ فی عربی زبان میں اس معنے کے لئے بھی آتا ہے۔- اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اخرین کا عطف یعلمہم کی ضمیر منصوب پر ہے، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تعلیم دیتے ہیں امیین کو بھی اور ان لوگوں کو بھی جو ابھی ان کے ساتھ ملے نہیں (اختارہ فی المظہری) - صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ سورة جمعہ آپ پر نازل ہوئی (اور آپ نے ہمیں سنائی) جب آپ نے یہ آیت پڑھی وّاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ، تو ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کون لوگ ہیں جن کا ذکر آخرین کے لفظ سے کیا گیا ہے، آپ نے اس وقت سکوت فرمایا، مکرر سکرر سوال کیا گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک حضرت سلمان فارسی پر رکھ دیا (جو اس وقت مجلس میں موجود تھے) اور فرمایا کہ اگر ایمان ثریا ستارہ کی بلندی پر بھی ہوگا تو ان کی قوم کے کچھ لوگ وہاں سے بھی ایمان کو لے آئیں گے (مظہری) - اس روایت میں بھی اہل فارس کی تخصیص کا کوئی ثبوت نہیں بلکہ اتنا ثابت ہوا کہ یہ بھی آخرین کے مجموعہ میں داخل ہیں، اس حدیث میں اہل عجم کی بڑی فضیلت ہے (مظہری)
وَّاٰخَرِيْنَ مِنْہُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِہِمْ ٠ ۭ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ٣- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- لحق - لَحِقْتُهُ ولَحِقْتُ به : أدركته . قال تعالی: بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ [ الجمعة 3] - ( ل ح ق )- لحقتہ ولحقت بہ کے معنی کیس کو پالینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ۔ ( اور شہید ہو کر ) ان میں شامل نہ ہو سکے ۔ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ [ الجمعة 3] اور ان میں سے دوسرے لوگوں کی طرف بھی ( ان کو بھیجا ہے جو ابھی ان مسلمان سے نہیں ملے ۔- عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) - حكيم - والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی:- معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] - ( ح ک م ) الحکمتہ - کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لهذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟
اور دوسروں کے لیے بھی ان ہی میں سے یا یہ کہ آس پاس کے لوگوں کے لیے آپ کو مبعوث فرمایا ہے جو ابھی تک ان میں شامل نہیں ہوئے ہیں یا یہ کہ تمام اولین و آخرین کی طرف رسول اکرم کو رسول بنا کر بھیجا ہے خواہ عرب میں سے ہوں یا عجم میں سے ہوں۔- اور جو اللہ تعالیٰ اور اس کی کتاب اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے وہ اس کو سزا دینے میں زبردست ہے اور اپنے حکم و فیصلہ میں حکمت والا ہے۔
آیت ٣ وَّاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ ” اور ان ہی میں سے ان دوسرے لوگوں میں بھی جو ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے۔ “- وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ۔ ” اور وہ بہت زبردست ہے ‘ کمال حکمت والا ہے۔ “- وَّاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ کا عطف اُمّیّٖنَ پر ہے۔ یعنی دوسرے کچھ اور بھی ہیں جن کی طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا گیا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تو قیامت تک لیے ہے۔ ظاہر ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں ہر نسل ‘ ہر ملک اور ہر قوم کے لوگ شامل ہوں گے۔ متفق علیہ احادیث کے مطابق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب اٰخَرِیْنَ مِنْہُمْکے بارے میں پوچھا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک حضرت سلمان فارسی (رض) کے کندھے پر رکھ کر فرمایا کہ ” یہ اور اس کی قوم کے لوگ “۔ مزید فرمایا کہ دین اگر ثریا پر بھی ہوگا تو اس کی قوم کا ایک شخص اس تک پہنچ جائے گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان کے بارے میں تمام حنفی علماء متفق ہیں کہ اس کے مصداق حضرت امام ابوحنیفہ - ہیں ‘ جو ایرانی النسل ہیں۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ ایرانی قوم بحیثیت مجموعی بہت ذہین ہے۔ اس قوم نے ایک سے بڑھ کر ایک فلاسفر پیدا کیا ہے ‘ بلکہ ہمارے علمائے کلام تو سب کے سب ایرانی ہیں۔ اس حوالے سے ایرانی قوم کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یوں لگتا ہے جیسے فلسفہ اور منطق ان کی گھٹی میں شامل ہے۔ ماضی میں یونان اور ہندوستان کے ساتھ ساتھ ایران بھی فلسفہ و منطق کے ایک اہم مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا۔ بعد میں جرمن قوم نے بھی اس میدان میں نام پیدا کیا۔ یہ سب اقوام حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے حضرت حام کی نسل سے ہیں۔ اس ضمن میں میری تحقیق یہ ہے کہ حضرت سام کی نسل کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کے لیے چن لیا تھا ‘ جبکہ حضرت حام کی نسل کو حکمت میں برگزیدہ کیا تھا۔- میں نے آیت زیر مطالعہ کو ایٹم ( ) اور اس کے مرکزہ ( ) کے گرد مختلف دائروں میں گھومنے والے الیکٹرانز کی مثال سے سمجھا ہے۔ اس مثال کے مطابق امت مسلمہ کا مرکزہ ( ) ” اُمیین “ پر مشتمل ہے۔ یعنی بنواسماعیل اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے تمام اہل عرب جو اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے براہ راست مخاطب تھے۔ اس کے بعد نیوکلیس کے گرد پہلا دائرہ ایرانیوں کے الیکٹرانز سے بنا۔ پھر رومی ‘ قبطی ‘ سندھی ‘ ہندی وغیرہ اقوام کے الیکٹرانز کے دائرے بنے اور پھیلتے گئے۔ یہ دائرے ظاہر ہے قیامت تک مزید بھی پھیلیں گے لیکن امیین (نیوکلیس) کے علاوہ باقی تمام اقوام کا شمار ” آخرین “ میں ہوگا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے حوالے سے ” اُمیین “ اور ” آخرین “ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ امیین پر وہی قانون لاگو ہوا جو سابقہ رسولوں (علیہ السلام) کی اقوام پر ہوا تھا ۔ یعنی اتمامِ حجت کے بعد بھی جو لوگ ایمان نہ لائیں انہیں نیست و نابود کردیا جائے ۔ چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اتمامِ حجت ہوجانے کے بعد ” اُمیین “ کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی گئی ۔ ٩ ہجری میں ان کو ایک اعلانِ عام (سورۃ التوبہ ‘ رکوع اول) کے ذریعے متنبہ کردیا گیا کہ چار ماہ کے اندر اندر ایمان لے آئو ورنہ قتل کردیے جائو گے۔ اس کے برعکس ” آخرین “ پر مذکورہ قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ان میں سے کوئی اسلام کی دعوت کو مانے یا نہ مانے ‘ ایمان لائے یا نہ لائے اسے اختیار ہے۔ حتیٰ کہ اسلام کے مکمل غلبے کی صورت میں بھی کسی سے اس کے مذہب کے بارے میں تعرض نہیں ہوگا۔ البتہ ملک کا نظام اللہ کے قانون کے مطابق چلایا جائے گا ‘ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔
سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :5 یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت صرف عرب قوم تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا بھر کی ان دوسری قوموں اور نسلوں کے لیے بھی ہے جو ابھی آ کر اہل ایمان میں شامل نہیں ہوئی ہیں مگر آگے قیامت تک آنے والی ہیں ۔ اصل الفاظ ہیں وَاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ ۔ دوسرے لوگ ان میں سے جو ابھی ان سے نہیں ملے ہیں اس میں لفظ منہم ( ان میں سے ) کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ دوسرے لوگ امیوں میں سے ، یعنی دنیا کی غیر اسرائیلی قوموں میں سے ہوں گے ۔ دوسرے یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والے ہونگے جو ابھی اہل ایمان میں شامل نہیں ہوئے ہیں مگر بعد میں آ کر شامل ہو جائیں گے ۔ اس طرح یہ آیت منجملہ ان آیات کے ہے جن میں تصریح کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تمام نوع انسانی کی طرف ہے اور ابد تک کے لیے ہے ۔ قرآن مجید کے دوسرے مقامات جہاں اس مضمون کی صراحت کی گئی ہے ، حسب ذیل ہیں: الانعام ، آیت 19 ۔ الاعراف ، 158 ۔ الانبیاء ، 107 ۔ الفرقان ، 1 ۔ سبا ، 28 ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، تفسیر سورہ سبا ، حاشیہ 47 ) ۔ سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :6 یعنی یہ اسی کی قدرت و حکمت کا کرشمہ ہے کہ ایسی ناتراشیدہ امی قوم میں اس نے ایسا عظیم نبی بیدا کیا جس کی تعلیم و ہدایت اس درجہ انقلاب انگیز ہے ، اور پھر ایسے عالمگیر ابدی اصولوں کی حامل ہے جن پر تمام نوع انسانی مل کر ایک امت بن سکتی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ ان اصولوں سے رہنمائی حاصل کر سکتی ہے ۔ کوئی بناؤٹی انسان خواہ کتنی ہی کوشش کر لیتا ، یہ مقام و مرتبہ کبھی حاصل نہیں کر سکتا تھا ۔ عرب جیسی پسماندہ قوم تو درکنار ، دنیا کی کسی بڑی سے بڑی قوم کا کوئی ذہین سے ذہین آدمی بھی اس پر قادر نہیں ہو سکتا کہ ایک قوم کی اس طرح مکمل طور پر کایا پلٹ دے ، اور پھر ایسے جامع اصول دنیا کو دے دے جن پر ساری نوع انسانی ایک امت بن کر ایک دین اور ایک تہذیب کا عالمگیر و ہمہ گیر نظام ابد تک چلانے کے قابل ہو جائے ۔ یہ ایک معجزہ ہے جو اللہ کی قدرت سے رونما ہوا ہے ، اور اللہ ہی نے اپنی حکمت کی بنا پر جس شخص ، جس ملک ، اور جس قوم کو چاہا ہے اس کے لیے انتخاب کیا ہے ۔ اس پر اگر کسی بے وقوف کا دل دکھتا ہے تو دکھتا رہے ۔
2: اس کا مقصد یہ ہے کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم صرف ان عربوں کے لئے رسول بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے جو آپ کے زمانے میں موجود تھے، بلکہ آپ قیامت تک آنے والے تمام اِنسانوں کے لئے پیغمبر بنا کر بھیجے گئے ہیں، چاہے وہ کسی نسل سے تعلق رکھتے ہوں۔