2۔ 1 اُ مِّیِّینَ سے مراد عرب ہیں جن کی اکثریت ان پڑھ تھی۔ ان کے خصوصی ذکر کا یہ مطلب نہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت دوسروں کے کے لئے نہیں تھی، لیکن چونکہ اولین مخاطب وہ تھے اس لئے اللہ کا ان پر زیادہ احسان تھا۔
[٣] یہود امی کا لفظ حقارت اور طنز کے طور پر بولتے تھے :۔ لفظ اُمِّیْ کی تشریح سورة اعراف کی آیت نمبر ١٥٥ (حاشیہ ١٥٤) کے تحت گزر چکی ہے۔ لیکن اس سورة میں آگے چونکہ یہود کو خطاب ہو رہا ہے۔ لہذا یہاں وہی مفہوم مراد ہوگا جو یہودی اس لفظ سے لیا کرتے تھے۔ یہودی خود تو اپنے آپ کو بہت پڑھے لکھے اور عالم فاضل سمجھتے تھے اور اپنے سوا سب غیر یہودیوں کو حقیر سمجھ کر امی کہتے تھے۔ یعنی ان کے سوا سب لوگ ان پڑھ اور بدھو ہیں اور رسول اللہ پر ایمان نہ لانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ نبی آخرالزمان ہم جیسے عالم فاضل لوگوں میں سے ہوگا۔ گویا انہوں نے اس بات میں اپنی توہین سمجھی کہ وہ ایک ان پڑھ یا غیر یہود قوم میں مبعوث ہونے والے نبی پر ایمان لائیں۔- [٤] اس نبی امی یا نبی آخرالزمان کی چار ذمہ داریاں تھیں۔ ان ذمہ داریوں کی تفصیل پہلے سورة بقرہ کی آیت نمبر ١٢٩ کے حواشی میں گزر چکی ہے۔ وہ ملاحظہ کرلی جائے۔- [٥] دور جاہلیت میں عرب معاشرہ کی حالت :۔ کَانُوْا سے مراد یہود قوم بھی ہوسکتی ہے۔ مشرکین عرب بھی اور پورا عرب معاشرہ بھی۔ قوم یہود جن اخلاقی بیماریوں میں مبتلا تھی اور ان میں جس قدر اخلاقی انحطاط رونما ہوچکا تھا اس کی داستان بڑی طویل ہے اور قرآن میں جا بجا مذکور ہے۔ رہا عرب معاشرہ جس میں یہود بھی شامل تھے۔ ایسی نہ ختم ہونے والی قبائلی لڑائیوں میں مبتلا ہوچکا تھا۔ جس سے گھروں کے گھر برباد ہوگئے تھے۔ لیکن اس بیماری کا کوئی علاج انہیں نظر نہیں آتا تھا۔ شرک عام تھا ہر قبیلے کے الگ الگ بت بھی ہوتے تھے اور کچھ بڑے بت مشترکہ بھی ہوتے تھے۔ لوٹ مار قتل و غارت فحاشی زنا کاری اور شراب نوشی یہ سب باتیں ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ اگرچہ سودی لین دین کا بھی رواج تھا تاہم اس کام میں یہودی قوم سب سے پیش پیش تھی۔ اور اس بات کے باوجود کہ سود ان کی شریعت میں حرام تھا۔ انہوں نے غیر یہود سے سود وصول کرلینا صرف جائز ہی نہیں بنا رکھا تھا۔ بلکہ اسے ایک مستحسن فعل سمجھتے تھے۔ انہی بیماریوں کی وجہ سے اہل عرب کی زندگی انتہائی تلخ صورت اختیار کرچکی تھی۔
١۔ ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ : اس آیت کی دلیل بنا کر بعض اہل کتاب کہتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف عربوں کے لیے رسول تھے ، کیونکہ ” الامین “ عرب قوم کو کہتے ہیں ، لہٰذا آپ غیر عرب لوگوں اور یہود و نصاریٰ کے لیے رسول نہیں تھے۔ لیکن ان کی یہ بات درست نہیں ، کیونکہ قرآن مجید میں ” الامین “ کا لفظ ایک معنی میں نہیں بلکہ مختلف مواقع پر مختلف معانی کے لیے آیا ہے۔ کہیں وہ اہل کتاب کے مقابلے میں ان لوگوں کے لیے استعمال کیا گیا جن کے پاس کوئی آسمانی کتاب نہیں ہے ، جیسا کہ فرمایا :(وَقُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَالْاُمِّیّٖنَ ئَ اَسْلَمْتُمْ ) ( آل عمران : ٢٠)” اور ان لوگوں سے جنہیں کتاب دی گئی ہے اور امیوں ( ان پڑھ لوگوں) سے کہہ د ے کیا تم تابع ہوگئے ؟ “ یہاں امیوں سے مراد مشرکین عرب ہیں ، انہیں اہل کتاب (یہود و نصاریٰ ) سے الگ گروہ قرار دیا گیا ہے ۔ کہیں یہ لفظ خود اہل کتاب کے ان پڑھ لوگوں کے لیے استعمال ہوا ہے، جیسے فرمایا :( وَمِنْہُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْکِتٰبَ الِآَّ اَمََانِیَّ )” اور ان میں سے کچھ امی ( ان پڑھ ) ہیں ، جو کتاب کا علم نہیں رکھتے سوائے چند آرزوؤں کے “۔ اور کسی جگہ پر لفظ خالص یہودی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے ، جس کے مطابق اس سے مراد وہ سب لوگ ہیں جو یہودی نہیں ہیں ، جیسا کہ فرمایا :(ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ) ( آل عمران : ٧٥)” یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا ہم پر ان پڑھوں کے بارے میں ( گرفت کا) کوئی راستہ نہیں ۔ “ یعنی ان کے اندر غیر یہود کا مال مار کھانے کی بددیانتی پیدا ہونے کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے کہا کہ امیوں کے بارے میں ہم پر گرفت کوئی راستہ نہیں ۔ یہود کی اس اصطلاح کا پس منظر یہ ہے کہ وہ اپنے سوا کسی کے متعلق تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہ تھے کہ ان میں کوئی نبی مبعوث ہوسکتا ہے ، یا انہیں آسمانی کتاب مل سکتی ہے۔ ( دیکھئے آل عمران : ٧٣) وہ اپنے سوا تمام اقوام کو نا شائستہ ، بد مذہب اور حقیر و ذلیل سمجھتے تھے۔- زیر تفسیر آیات میں ” الامین “ سے مراد صرف عرب نہیں ، یہودی اصطلاح کے مطابق وہ سب لوگ ہیں جو یہودی نہیں ، کیونکہ یہاں ” الامین “ کے تحت دو قسم کے لوگوں کا ذکر ہے ، یعنی ” ھو الذی بعث فی الامین رسولا منھم “ میں عرب ” امیین “ کا ذکر ہے ، جنہیں یہ شرف حاصل ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نسبا ً ان میں سے تھے اور اس سے اگلی آیت میں غیر عرب امیین کا ذکر ہے جو بعد میں اسلام لانے والے تھے ، اس میں فرمایا :(وآخرین منھم لما یلحقوا بھم وھو العزیز الحیکم)” اور ان ( امیین) میں سے کچھ اور لوگوں میں بھی ( اس رسول کو بھیجا) جو ابھی تک ان سے نہیں ملے اور وہی سب پر غالب ، کمال حکمت والا ہے “۔ اس کی دلیل کہ ان امیین سے مراد غیر عرب ہیں ، ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے ، وہ فرماتے ہیں :( کنا جلو سا عند النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فانزلت علیہ سورة الجمعۃ :(واخرین منھم لمایلحقوا بھم) قال قلت من ھم یا رسول اللہ ؟ فلم یراجعہ حتی سال ثلاثا ، و فینا سلمان الفارسی ، وضع رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یدہ علی سلمان ثم قال لو کان الایمان عند الثریا لنالہ رجال اور جل من ھولا) بخاری ، التفسیر ، سورة الجمعۃ : ٤٨٩٧)” ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے تھے تو آپ پر سورة ٔ جمعہ نازل ہوئی :( وآخرین منھم لما یلحقوا ابھم) میں نے پوچھا : ’ یا رسول اللہ یہ کون لوگ ہیں ؟ “ آپ نے جواب نہ دیا ، یہاں تک کہ میں نے تین مرتبہ سوال کیا ۔ ہم میں سلمان فارسی (رض) بھی موجود تھے ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپناہاتھ سلمان پر رکھا ، پھر فرمایا :” اگر ایمان ثریا کے پاس بھی ہوتا تو ان لوگوں میں سے کچھ آدمی یا ( فرمایا) ایک آدمی اسے ضرورحاصل کرلیتا “ ۔ دراصل اس سورت میں یہود پر چوٹ ہے کہ وہ لوگ جنہیں تم امی کہتے ہو اور اپنے مقابلے میں ذلیل اور حقیر سمجھتے ہو انہی میں اس اللہ نے ایک رسول مبعوث کیا ہے جو ” الملک القدوس “ اور ” العزیز الحکیم “ ہے اور یہ اللہ کا فضل ہے ، جسے وہ چاہتا ہے عطاء کردیتا ہے ۔ تم پر یہ بتاؤ کہ تمہیں اس کا ٹھیکیدار کس نے اور کب بنایا ہے کہ جسے تم چاہو اسی کو یہ فضل عطاء ہو ، دوسرے کو عطاء نہ ہو ؟۔- رہی یہ بات کہ اگر مان بھی لیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عرب و عجم کے امیین کی طرف مبعوث کیا گیا ہے ، تو اس سے آپ کا یہود و نصاریٰ کی طرف مبعوث ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آیت کے الفاظ سے یہ ظاہر ہے کہ آپ یہود کے سواسب لوگوں کی طرف رسول ہیں ، مگر اس میں یہ صراحت نہیں کہ آپ یہود و نصاریٰ کی طرف رسول نہیں ۔ یہ مطلب اس آیت کا مفہوم مخالف ہے جو حجت نہیں ہوتا ، مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(وَمَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتٰبٍ وَّلَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیْنِکَ ) (العنکبوت : ٤٨)” اور تو اس سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا۔ “ اب اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دائیں ہاتھ سے نہیں لکھتے بلکہ بائیں ہاتھ سے لکھتے تھے تو یہ غلط ہے۔ خصوصاً یہاں تو مفہوم مخالف مراد لیا ہی نہیں جاسکتا ، کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے متعدد مقامات پر اس بات کی صراحت فرما دی ہے کہ آپ کو تمام لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا گیا ہے ، جیسا کہ فرمایا :(وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّـلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْراً وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ) (سبا : ٢٨) ” اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کے لیے اس حال میں کہ خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے “۔ اور فرمایا :(قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہ ِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا ) ( الاعراف : ١٥٨)” کہہ دے اے لوگو بیشک میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں “۔ ان دونوں آیات کی تفسیر میں مزید دلائل ملاحظہ فرمائیں۔- ٢۔ سورت کی پہلی آیت ” یُسَبِّحُ ِﷲِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ “ میں مذکور اللہ تعالیٰ کی صفات کی اس آیت میں مذکور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز اس اللہ کی تسبیح کر رہی ہے اور اس کے ہر عیب اور کمی سے پاک ہونے کی شہادت دے رہی ہے جو ” الملک “ ( بادشاہ) ہے۔ ( دیکھئے حشر : ٢٣) اپنی سلطنت کا انتظار کرنے والا، اس میں اپنے احکام بھیجنے والا ہے اور اپنے احکام پہنچانے کے لیے جسے چاہتا ہے منتخب فرماتا ہے۔ اس نے اپنے شہنشاہی اختیار کے تحت ان لوگوں میں سے رسول بھیجنے کے بجائے جو اپنے آپ کو اہل کتاب ، پڑھے لکھے اور مہذب سمجھتے تھے اور دوسروں کو حقیر جانتے تھے ، امی لوگوں میں ایک رسول انہی میں سے بھیج دیا۔” یتلوا علیھم ایتہ “ جو اس کے احکام پر مشتمل آیات انہیں مسلسل پڑھ کر سناتا ہے۔” القدوس “ وہ بادشاہ قدوس ہے۔ ( دیکھیے حشر : ٢٣) اس نے ان میں ایسا رسول بھیجاجو انہیں ہر قسم کے کفر و شرک اور تمام قباحتوں اور آلودگیوں سے پاک کرتا ہے۔” العزیز “ (سب پر غالب ) ہے ، اس کا رسول انہیں اس کی کتاب کی تعلیم دیتا ہے جو اس کے کامل غلبے کی دلیل اور ترجمان ہے۔ ” الحکیم “ ( کمال حکمت والا) ہے ، اس کا رسول انہیں اس کی عطاء کردہ حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔- ٣۔ قرآن مجید میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ صفات چار مقامات پر آئی ہیں ، سورة ٔ بقرہ کی آیت (١٢٩) میں اہل عرب کو اپنا احسان یاد دلاتے ہوئے فرمایا کہ ان صفات والا پیغمبر وہ ہے جس کے لیے ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہے کہ وہ اسے ان کی اولاد میں مبعوث فرمائے ، سو تمہیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔ سورة ٔ بقرہ ہی کی آیت (١٥١) میں فرمایا کہ ان اوصاف والا پیغمبر عطاء کرنے پر میری نعمت کو پہچانو ، مجھے یاد رکھو، میرا شکر ادا کرو اور میری نا شکری مت کرو۔ سورة ٔ آل عمران (١٦٤) میں یہ احسان یاد دلاتا کہ اتنی اعلیٰ صفات کا رسول اس نے خود ان میں مبعوث فرمایا ، جس پر وہ سب احوال گزرتے ہیں جو بطور انسان ان سب پر گزرتے ہیں ۔ احد اور دوسرے مقامات پر دوسروں کی طرف اسے بھی زخم کھانا پڑتے ہیں ، سو وہ ان کے لیے ایک کامل نمونہ ہے۔ چوتھا مقام یہ آیت ہے جس میں یہود کے زعم کو باطل کرنا مقصود ہے ، اس لیے بعد میں ” مثل الذین حملوا لثورۃ “ سے ان کی نالائقیوں کا تذکرہ فرمایا ہے۔- ٤۔ اگرچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تمام انسانوں کے لیے ہے ، مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عرب امیین میں پیدا کرنے اور انہیں اسلام کی دعوت کے اولین مخاطب بنانے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت کا ملہ کار فرما تھی ۔ تفسیر قاسمی میں یہ بات نہایت خوبصورت اور جامع الفاظ میں بیان کی گئی ہے ، وہ لکھتے ہیں :” وانما اوثرت بعثہ صلوات اللہ علیہ فی الامین لانھم احد الناس اذھانا ، واقواھم جنانا ، واصفاھم فطرۃ وافصحھم بیانا ، لم تفسد فطرتھم بغواشی المتحضربن ولا بافانین تلاعب اولیک المتمدنین ، ولذا انقلبوا الی الناس بعد الاسلام بعلم عظیم و حکمۃ باھۃ و ساصۃ عادلۃ ، فادوا بھا معظم الامم ودو خوا بھا اعظم الممالک “” امی لوگوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کو اس لیے ترجیح دی گئی کہ وہ ذہن کے لحاظ سے سب لوگوں سے تیز ، دل کے لحاظ سے سب سے قوی ، فطرت کے لحاظ سے سب سے صاف اور بیان میں سب سے زیادہ فصیح تھے ۔ ان کی فطرت شہری لوگوں کی آلودگیوں سے بگڑی نہیں تھی اور نہ ہی ان نام نہاد تمدن و تہذیب والوں کے مختلف کھیل تماشوں سے فاسد ہوتی تھی ۔ اسی لیے اسلام لانے کے بعد وہ لوگوں کے پاس ایسا عظیم علم ، حیران کن حکمت و دانائی اور عدل پر مبنی سیاست لے کر آئے جس کے ساتھ انہوں نے دن یا کی بڑی بڑی اقوام کی قیادت کی اور عظیم ترین ممالک کو اپنا زیر فرمان بنا کر چھوڑا “۔- ٥۔ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰـلٍ مُّبِیْنٍ :” ان “ اصل میں ” انھم “ ہے ، تخفیف کے لیے ” ان “ کو ” ان “ کردیا اور اس کے اسم ” ھم “ ضمیر کو حذف کردیا اور اس بات کی دلیل کہ یہ ” ان “ نافیہ یا شرطیہ نہیں وہ ” لام “ ہے جو ” لفی ضلل “ پر آیا ہے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے امی لوگ کس طرح کی کھلی گمراہی میں تھے اس کا حال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا زاد جعفر بن ابی طالب (رض) نے نجاشی کے دربار میں بیان کیا ، جب اس بادشاہ نے کفار قریش کے وفد کی شکایت پر انہیں ساتھیوں سمیت بلا کر حقیقت حال دریافت کی ۔ انہوں نے فرمایا :( ایھا الملک کنا قوما اھل جاھیلۃ نعبد الاصنام ، وناکل المیتۃ و ناتی الفواحش ، و نقطع الارحام ، ونسیء الجوار ، یا کل القوی منا الضعیف ، فکنا علی ذلک حتیٰ بعث اللہ الینا رسولاً منا نعرف نسبہ، و صدقہ ، و امانتہ ، و عفافہ ، فدعانا الی اللہ لنوحدہ ، و نعبدہٗ و نخلع ما کنا نعبدنحن وآباؤ نا من دونہ من الحجارۃ والاوثان ) ( مسند احمد : ١، ٢٠٢، ح : ١٧٤٠، قال المحقق اسنادہ حسن)” اے بادشاہ ہم جاہلیت والے لوگ تھے ، بتوں کی عبادت کرتے تھے ، مردار کھاتے تھے ، فواحش کا ارتکاب کرتے تھے ، قطع رحمی کرتے تھے ، پڑوسیوں سے بدسلوکی کرتے تھے اور ہم میں سے قوت والا کمزور کو کھا جاتا تھا۔ ہم اسی حال میں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم میں ایک رسول بھیجا جس کے نسب ، صدق ، امانت اور پاک دامنی کو ہم جانتے تے۔ اس نے ہمیں اللہ کی طرف دعوت دی کہ ہم اسے ایک مانیں ، اس کی عبادت کریں اور ان پتھروں اور تھانوں سے یکسر علیحدگی اختیار کریں جن کی عبادت اللہ کو چھوڑ کر ہمارے آباء و اجداد کرتے تھے ( اس کے بعد جعفر (رض) نے انہیں اسلام کے احکام بیان فرمائے) “۔
(آیت) هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُم، امیین، امی کی جمع ہے، ناخواندہ شخص کو کہا جاتا ہے، عرب کے لوگ اس لقب سے معروف ہیں، کیونکہ ان میں نوشت و خواند کا رواج نہیں تھا بہت آدمی لکھے پڑھے ہوتے تھے، اس آیت میں حق تعالیٰ کی عظیم قدرت کے اظہار کے لئے خاص طور پر عربوں کے لئے یہ لقب اختیار فرمایا اور یہ بھی کہ جو رسول بھیجا گیا وہ بھی انہی میں سے ہے یعنی امی ہے، اس لئے یہ معاملہ بڑا حیرت انگیز ہے کہ قوم ساری امی اور جو رسولبھیجا گیا وہ بھی امی اور جو فرائض اس رسول کے سپرد کئے گئے جن کا ذکر اگلی آیت میں آ رہا ہے وہ سب علمی تعلیمی اصلاحی ایسے ہیں کہ نہ کوئی امی ان کو سکھا سکتا ہے اور نہ امی قوم ان کو سیکھنے کے قابل ہے۔- یہ صرف حق تعالیٰ جل شانہ کی قدرت کا ملہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعجاز ہی ہوسکتا ہے کہ آپ نے جب تعلیم و اصلاح کا کام شروع فرمایا تو انہی امیین میں وہ علماء اور حکماء پیدا ہوگئے جن کے علم و حکمت، عقل و دانش اور ہر کام کی عمدہ صلاحیت نے سارے جہان سے اپنا لوہا منوالیا۔- بعثت نبوی کے تین مقصد :- (آیت) يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ۔ اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تین وصف نعمائے الٰہیہ کے ضمن میں بتلائے گئے ہیں ایک تلاوت آیات قرآن یعنی قرآن پڑھ کر امت کو سنانا، دوسرے ان کو ظاہری اور باطنی ہر طرح کی گندگی اور نجاست سے پاک کرنا، جس میں بدن اور لباس وغیرہ کی ظاہری پاکی بھی داخل ہے اور عقائد و اعمال اور اخلاق و عادات کی پاکیزگی بھی، تیسرے تعلیم کتاب و حکمت۔- یہ تینوں چیزیں امت کے لئے حق تعالیٰ کے انعامات میں ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے مقاصد بھی۔- يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِه، تلاوت کے اصل معنی اتباع و پیروی کے ہیں، اصطلاح میں یہ لفظ کلام اللہ کے پڑھنے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور آیات سے آیات قرآن کریم مراد ہیں، لفظ علیہم سے یہ بتلایا گیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک منصب اور مقصد بعثت یہ ہے کہ آیات قرآن لوگوں کو پڑھ کر سنا دیں۔- آیت مذکورہ میں بعثت نبوی کا دوسرا مقصد یزکیھم بتلایا ہے، یہ تزکیہ سے مشتق ہے، جس کے معنی پاک کرنے کے ہیں، بیشتر مغوی اور باطنی پاکی کے لئے بولا جاتا ہے، یعنی کفر و شرک اور برے اخلاق و عادات سے پاک ہونا اور کبھی مطلقاً ظاہری اور باطنی پاکی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے، یہاں بظاہر یہی عام معنی مراد ہیں۔- تیسرا مقصد يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ، کتاب سے مراد قرآن کریم اور حکمت سے مراد وہ تعلیمات و ہدایات ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قولاً یا عملاً ثابت ہیں، اسی لئے بہت سے حضرات مفسرین نے یہاں حکمت کی تفسیر سنت سے فرمائی ہے۔- ایک سوال و جواب :- یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بظاہر ترتیب کا تقاضا یہ تھا کہ تلاوت کے بعد تعلیم کا ذکر کیا جاتا اس کے بعد تزکیہ کا، کیونکہ ان تینوں وظائف کی ترتیب طبعی یہی ہے کہ پہلے تلاوت یعنی تعلیم الفاظ پھر تعلیم معانی اور ان دونوں کے نتیجے میں اعمال و اخلاق کی درستی جو تزکیہ کا مفہوم ہے، مگر قرآن کریم میں یہ آیت کئی جگہ آئی ہے، اکثر جگہوں میں ترتیب بدل کر تلاوت اور تعلیم کے درمیان تزکیہ کا ذکر فرمایا ہے۔- روح المعانی میں اس کی یہ کیفیت بتلائی ہے کہ اگر ترتیب طبعی کے مطابق رکھا جاتا تو یہ تینوں چیزیں مل کر ایک ہی چیز ہوتی جیسے معالجات کے نسخوں میں کئی دوائیں مل کر مجموعہ ایک ہی دوا کہلاتی ہے اور یہاں اسی حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ یہ تینوں چیزیں الگ الگ مستقل نعمت خداوندی ہیں اور تینوں کو الگ الگ فرائض رسالت قرار دیا گیا ہے، اس ترتیب کے بدلنے سے اس طرف اشارہ ہوسکتا ہے۔- اس آیت کی مکمل تفسیر و تشریح بہت سے اہم مسائل و فوائد پر مشتمل سورة بقرہ میں گزر چکی ہے اس کو دیکھ لیا جائے، معارف القرآن جلد اول صفحہ 272 سے 284 تک یہ مضامین آئے ہیں۔
ہُوَالَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْہِمْ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ ٠ ۤ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ٢ ۙ- بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان 28] ، - فالبعث ضربان :- بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة .- وإلهي، وذلک ضربان :- أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد .- والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام 65] ، وقال عزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة 46] ، أي : توجههم ومضيّهم .- ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7] وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے - پس بعث دو قسم پر ہے - بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا ) - دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ - دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام 65] کہہ و کہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔- أُمِّيُّ- هو الذي لا يكتب ولا يقرأ من کتاب، وعليه حمل : هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ [ الجمعة 2] قال قطرب : الأُمِّيَّة : الغفلة والجهالة، فالأميّ منه، وذلک هو قلة المعرفة، ومنه قوله تعالی: وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتابَ إِلَّا أَمانِيَّ [ البقرة 78] أي : إلا أن يتلی عليهم .- قال الفرّاء : هم العرب الذین لم يكن لهم کتاب، والنَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوباً عِنْدَهُمْ فِي التَّوْراةِ وَالْإِنْجِيلِ [ الأعراف 157] قيل : منسوب إلى الأمّة الذین لم يکتبوا، لکونه علی عادتهم کقولک : عامّي، لکونه علی عادة العامّة، وقیل : سمي بذلک لأنه لم يكن يكتب ولا يقرأ من کتاب، وذلک فضیلة له لاستغنائه بحفظه، واعتماده علی ضمان اللہ منه بقوله : سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى [ الأعلی 6] . وقیل : سمّي بذلک لنسبته إلى أمّ القری.- الامی ۔ وہ ہے جو نہ لکھ سکتا ہو ، اور نہ ہ کتاب میں سے پڑھ سکتا ہو چناچہ آیت کریمہ ؛۔ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ ( سورة الجمعة 2) وہی تو ہے جس نے ان پڑھو میں انہی میں سے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کو پیغمبر بناکر بھیجا ۔ میں امیین سے یہی مراد ہے قطرب نے کہا ہے کہ امییہ بمعنی غفلت جہالت کے ہے اور اسی سے امی ہے کیونکہ اسے بھی معرفت نہیں ہوتی چناچہ فرمایا ؛۔ وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ ( سورة البقرة 78) اور بعض ان میں سے ان پڑھ ہیں کہ اپنے خیالات باطل کے سواخدا کی کتاب سے ) واقف نہیں ہیں ۔ یہاں الا امانی کے معنی الا ان یتلیٰ علیھم کے ہیں یعنی مگر یہ کو انہین پڑھ کر سنا یا جائے ۔ فراء نے کہا ہے کہ امیون سے مراد ہیں جو اہل کتاب نہ تھے اور آیت کریمہ ؛ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا ( سورة الأَعراف 157) اور ہو جو ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) رسول ( اللہ ) نبی امی کی پیروی کرتے ہیں جن ( کے اوصاف ) کو وہ اپنے ہاں توراۃ اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ امی اس امت یعنی قوم کی طرف منسوب ہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو جس طرح کہ عامی اسے کہتے ہیں جو عوام جیسی صفات رکھتا ہو ۔ بعض نے کہا ہے کہ آنحضرت کو امی کہنا اس بنا پر ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ لکھنا جانتے تھے اور نہ ہی کوئی کتاب پڑھتے تھے ۔ بلکہ وحی الہی کے بارے میں اپنے حافظہ اور خدا کی اس ضمانت پر کہ سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى ( سورة الأَعلی 6) ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے ۔ اعتماد کرتے تھے یہ صفت آپ کے لئے باعث فضیلت تھی ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ ام القریٰ یعنی مکہ کی طرف نسبت ہے رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - تلو - تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] - ( ت ل و ) تلاہ ( ن )- کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- زكا - أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة .- يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] ،- إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] ، وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] ، أي :- مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله :- «للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد .- وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان :- أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی 14] .- والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه .- ( زک و ) الزکاۃ - : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ - وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔- علم ( تعلیم)- اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ، فمن التَّعْلِيمُ قوله : الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] ، عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق 4] ، وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] ، عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] ، ونحو ذلك . وقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31]- تعلیم - کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ہمیں خدا کی طرف ست جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] اور خدا کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] اور اس نے ادم کو سب چیزوں کے نام سکھائے ۔ میں آدم (علیہ السلام) کو اسماء کی تعلیم دینے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر بولنے کی صلاحیت اور استعدادرکھ دی جس کے ذریعہ اس نے ہر چیز کے لئے ایک نام وضع کرلیا یعنی اس کے دل میں القا کردیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حیوانات کو ان کے کام سکھا دیئے ہیں جسے وہ سر انجام دیتے رہتے ہیں اور آواز دی ہے جسے وہ نکالتے رہتے ہیٰ - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- مبینبَيَان - والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : - البیان يكون علی ضربین :- أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة .- والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم 10] .- وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] .- وسمي ما يشرح به المجمل والمبهم من الکلام بيانا، نحو قوله : ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] ، ويقال : بَيَّنْتُهُ وأَبَنْتُهُ : إذا جعلت له بيانا تکشفه، نحو : لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ، وقال : نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] ، وإِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] ، وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] ، أي : يبيّن، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] .- البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ اور مجمل مہیم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے جیسے ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنا بَيانَهُ [ القیامة 19] پھر اس ( کے معافی ) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ بینہ وابنتہ کسی چیز کی شروع کرنا ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] تاکہ جو ارشادت لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ ص 70] کھول کر ڈرانے والا ہوں ۔إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] شیہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ وَلا يَكادُ يُبِينُ [ الزخرف 52] اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] . اور جهگڑے کے وقت بات نہ کرسکے ۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی قوم امومت میں برابر تھے - قول باری ہے (ھوالذین بعث فی الامیین رسولا منھم ، وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود انہیں میں سے اٹھایا) انہیں امی اس لئے کہا گیا کہ یہ لوگ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، ان کی اکثریت کا یہی حال تھا۔ اگرچہ بہت قلیل تعداد میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جنہیں لکھنا پڑھنا آتا تھا۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (الشھوھکذا او ھکذا مہینہ اتنے اتنے دنوں کا ہوتا ہے) یہ کہتے ہوئے آپ نے انگلیوں سے اشارہ کیا۔ آپ کا یہ ارشاد بھی ہے (انا نحن امۃ امیۃ لا نحسب ولا نکتب ہم امی لوگ ہیں ہم نہ حساب کتاب رکھتے ہیں اور نہ ہمیں لکھنا آتا ہے)- قول باری ہے (رسولا منھم) کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اُمی تھے۔ ارشاد باری ہے (الذین یتبعون الرسول النبی الامی، جو لوگ رسول کی پیروی کرتے ہیں جو نبی امی ہیں)- ایک قول کے مطابق جس شخص کو لکھنا نہیں آتا ہے اسے امی اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کو ماں کے پیٹ سے پیدائش کی حالت کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ لکھنا تو سیکھنے اور دوسروں سے استفادہ کرنے کے ذریعہ آتا ہے اس حالت کی بنا پر نہیں آتا جس سے فطری طور پر ایک نو مود کو گزرنا پڑتا ہے ۔ (یاد رہے کہ عربی زبان میں ماں کو ام کہتے ہیں) ایک امی کو نبوت عطا کرنے کی حکمت یہ تھی کہ انبیاء سابقین کی کتابوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق جو بشارتیں آئی تھیں آپ کا امی ہونا ان کے عین مطابق تھا۔- نیز اس کی وجہ سے کسی کو یہ تو ہم نہیں ہوسکتا تھا کہ آپ کو کتاب وحکمت کا جو علم دیا گیا تھا آپ نے لکھنے پڑھنے کی مدد سے اسے کسی اور ذریعے سے حاصل کیا تھا۔- آپ کے امی ہونے کی نسبت سے یہ دو وجوہ آپ کی نبوت کی صحت پر دلالت کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ یہ پہلو بھی ہے کہ آپ کی یہ حالت اس قوم کی حالت کے مشابہ تھی جس کے اندر آپ کو مبعوث کیا گیا تھا۔ اسی طرح آپ اپنی اس حالت کی بنا پر حتی الامکان اس قوم کے ساتھ مساوی سطح پر تھے۔- مساوات کی اس جہت کے باوجود قوم کی طرف سے آپ کی لائی ہوئی کتاب جیسی پیش کرنے سے عاجز رہنا اس بات کی دلیل تھی کہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔
اسی نے عرب میں ان کی قوم میں سے محمد کو بھیجا جو ان کو قرآن کریم پڑھ کر سناتے ہیں جس میں اوامرو نواہی کا بیان ہے اور ان کو توحید کے ذریعے سے شرک سے پاک کرتے ہیں یا یہ کہ زکوٰۃ اور توبہ کے ذریعے گناہوں سے پاک کرتے اور اس کی دعوت دیتے ہیں اور ان کو قرآن کریم اور حلال و حرام سکھاتے ہیں یا یہ کہ علم کی باتیں، مواعظ اور قرآن سکھاتے ہیں اور یہ اہل عرب رسول اکرم کی بعثت سے پہلے واضح طور پر کفر میں مبتلا تھے۔
آیت ٢ ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَق ” وہی تو ہے جس نے اٹھایا امیین میں ایک رسول ان ہی میں سے ‘ جو ان کو پڑھ کر سناتا ہے اس کی آیات اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں تعلیم دیتا ہے کتاب و حکمت کی۔ “- وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَـبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ۔ ” اور یقینا اس سے پہلے تو وہ کھلی گمراہی میں تھے۔ “- اس سورت کی یہ آیت انقلابِ نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اساسی منہاج کے حوالے سے اسی طرح اہم ہے جس طرح سورة الصف کی آیت ٩ تکمیلی منہاج کے اعتبار سے اہم ہے۔ سورة الصف کی مذکورہ آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقصد ِبعثت بیان ہوا ہے تو آیت زیر مطالعہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرائض منصبی کا ذکر ہے۔ سورة الصف کی وہ آیت اپنی اہمیت کی وجہ سے قرآن مجید میں تین مرتبہ (سورۃ الصف کے علاوہ سورة التوبہ ‘ آیت ٣٣ اور سورة الفتح ‘ آیت ٢٨ کے طور پر) آئی ہے ‘ تو اس آیت میں مذکور ” انقلابِ نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اساسی منہاج “ قرآن حکیم میں چار مرتبہ (سورۃ الجمعہ کی اس آیت کے علاوہ سورة البقرۃ کی آیات ١٢٩ ‘ ١٥١ اور سورة آل عمران کی آیت ١٦٤ میں) بیان کیا گیا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اساسی منہج کے عناصر ِاربعہ بیان کیے گئے ہیں : (١) تلاوتِ آیات (٢) تزکیہ (٣) تعلیم کتاب (٤) تعلیم حکمت۔ - اس آیت کی بنیادی اہمیت یہ ہے کہ اس میں مطلوبہ انقلاب کی تیاری اور اس کے لیے مردانِ کار کی فراہمی کا مکمل طریقہ اور نصاب بیان کردیا گیا ہے کہ ان کی تعلیم ‘ تربیت ‘ تذکیر ‘ ان کا تزکیہ ‘ ان کا انذار سب کچھ قرآن کریم کے ذریعے سے ہوگا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو قرآن مجید سنانا شروع کیا توسلیم الفطرت لوگ قرآن کی مقناطیسی تاثیر کی وجہ سے اپنی اپنی استعداد کے مطابق اس کی طرف کھنچے چلے آئے۔ کسی نے فوراً ہی لبیک کہہ دیا ‘ کوئی قدرے تامل کے بعد راغب ہوا اور کسی نے نسبتاً زیادہ دیر بعد فیصلہ کیا۔ چناچہ جس طرح دودھ کو بلو کر مکھن نکالا جاتا ہے بالکل اسی طرح مکہ کی آبادی کو بارہ سال کے عرصے میں آیات ِقرآن کی تلاوت کے ذریعے سے بار بار جھنجھوڑکر تمام سلیم الفطرت (زندہ ارواح کے حامل) افراد کو چھانٹ کر الگ کرلیا گیا۔ پھر ان منتخب افراد کا تزکیہ بھی قرآن مجید کی تلاوت سے ہی ہوا۔ قرآن مجید بلاشبہ شِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِلا (یونس : ٥٧) ہے۔ جیسے جیسے یہ کلام ان لوگوں کے سینوں میں اترتا گیا دلوں کی بیماریاں دور ہوتی چلی گئیں۔ یہاں پر یہ اہم نکتہ بھی سمجھ لیجیے کہ دل کی بیماریاں تو بیشمار ہیں لیکن ان تمام بیماریوں کو اگر کوئی ایک نام یا کوئی ایک عنوان دیا جائے تو وہ ” حب ِدُنیا “ ہے۔ حب ِدُنیا کی گندگی جب کسی دل کے اندر ڈیرہ جما لیتی ہے تو اس کے تعفن سے نت نئی بیماریاں جنم لیتی چلی جاتی ہیں ‘ جبکہ خود حب دنیا کے جراثیم کو غذا انسان کی سوچ اور اس کے نظریے سے ملتی ہے۔ ظاہر ہے انسان کی زندگی کا انداز اور اس کی دوڑ دھوپ کا رخ اس کا نظریہ متعین کرتا ہے۔ چناچہ قرآن مجید کی تعلیم کے ذریعے ان لوگوں کے نظریات درست ہوگئے تو حب دنیا سمیت تمام باطنی بیماریوں کی گویا جڑ کٹ گئی اور برے اعمال و خصائل ان کی شخصیات سے ایسے غائب ہوگئے جیسے موسم خزاں میں درختوں سے ّپتے جھڑ جاتے ہیں۔- یہاں ضمنی طور پر یہ نکتہ بھی سمجھ لیجیے کہ اس آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جن فرائض منصبی کا ذکر ہوا ہے ان میں ” تعلیم حکمت “ کا تعلق عام لوگوں سے نہیں ہے ‘ بلکہ یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم و تربیت کا شعبہ تخصص ( ) ہے۔ ہر کوئی اس میدان کا شہسوار نہیں بن سکتا۔ ارشادِ خداوندی ہے : یُؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُج وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًاط (البقرۃ : ٢٦٩) ” وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے۔ اور جسے حکمت دے دی گئی اسے تو خیر ِکثیر عطا ہوگیا “۔۔۔۔ بہرحال یہ آیت ہم پر یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہج انقلاب میں آلہ دعوت اور آلہ انقلاب قرآن مجید ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو دعوت بھی قرآن کے ذریعے دی۔ ان کی تذکیر وتبشیر کے لیے بھی قرآن پر ہی انحصار کیا۔ پھر اس دعوت پر لبیک کہنے والوں کا تزکیہ بھی قرآن سے ہی ہوا اور ان کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بھی قرآن ہی بنا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی بنیاد پر ٢٣ سال کے مختصر عرصے میں انسانی تاریخ کا عظیم ترین انقلاب برپا کر کے جزیرہ نمائے عرب میں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نظام عدل و قسط کو بالفعل نافذ کردیا۔ اس کے بعد پوری دنیا میں دین کو غالب کرنے کا مشن امت کے سپرد کر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دنیا سے تشریف لے گئے۔ یہ مشن منتقل کرتے ہوئے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت کو جو وصیت کی تھی وہ بھی قرآن کے بارے میں تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (قَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہٗ اِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِہٖ کِتَابَ اللّٰہِ ) (١) ” میں تمہارے درمیان وہ شے چھوڑے جا رہا ہوں کہ جسے تم مضبوطی سے تھام لو گے تو ہرگز گمراہ نہیں ہوگے۔ وہ ہے اللہ کی کتاب “- چناچہ آج ہمارے لیے بلکہ تاقیامِ قیامت ہر زمانے کے مسلمانوں کے لیے قرآن مجید گویا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قائم مقام ہے۔ اس حیثیت میں یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا سے کئی گنا بڑا معجزہ ہے ۔ عصائے موسیٰ (علیہ السلام) تو صرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ میں معجزہ تھا ‘ آپ (علیہ السلام) کے بعد تو وہ معجزہ نہیں رہا۔ اگر آج بھی وہ کہیں موجود ہے ‘ جیسا کہ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس محفوظ ہے ‘ تو اس کی حیثیت بس ایک لاٹھی کی سی ہے۔ اس کے برعکس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزئہ رسالت یعنی قرآن مجید قیامت تک کے لیے معجزہ ہے اور ہر اس شخص کے لیے معجزہ ہے جو اس کا حق پہچانے اور ادا کرے۔ اس حوالے سے میرا ایمان تو حق الیقین کی حد تک ہے کہ اگر کوئی شخص خلوص و اخلاص کے ساتھ قرآن مجید میں ایسی ” محنت “ کرے کہ قرآن اس کو کرلے تو پھر اسے دنیا کی ہرچیز بےوقعت نظر آئے گی اور قرآن کے علاوہ کسی اور چیز میں اس کا دل نہیں لگے گا۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی اتنی بڑی نعمت کو بالکل ہی پس پشت ڈال دیا ہے۔ ہم دنیا بھر کے علوم سیکھتے ہیں مگر اس قدر عربی نہیں سیکھ سکتے جس سے قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھا جاسکے۔ اس لیے کہ یہ نہ تو ہماری ترجیح ہے اور نہ ہی اس کے لیے ہمارے پاس وقت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کو نظر انداز کرنے کا ہمارا یہ انداز حیرت انگیز حد تک جسارت آمیز ہے۔ اس حوالے سے ذرا قرآن کی یہ وعید بھی سنیے : اَفَبِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُّدْھِنُوْنَ - وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ اَنَّــکُمْ تُـکَذِّبُوْنَ ۔ (الواقعۃ) کہ اے اللہ کے بندو ذرا سوچو تو کیا تم اس عظیم الشان کلام کے بارے میں مداہنت کرتے ہو ؟ اور کیا اس کی تکذیب کو تم نے اپنا وطیرہ بنا لیا ہے ؟- قرآن مجید تو ظاہر ہے ہر زمانے کے لوگوں کے لیے ہے۔ یہ آیات اپنے نزول کے وقت تو مشرکین مکہ سے مخاطب تھیں ‘ جبکہ آج ان کے مخاطب ہم ہیں۔ وہ لوگ تو نظریاتی طور پر قرآن مجید کو اللہ کا کلام نہیں مانتے تھے اور اپنی زبانوں سے اس کی تکذیب کرتے تھے ‘ جبکہ آج ہم اپنی زبانوں سے اس کے کلام اللہ ہونے کی تصدیق کرنے کے بعد اپنے عمل سے اس کی تکذیب کر رہے ہیں۔ مقامِ عبرت ہے قرآن مجید کی طرف تو پلٹ کر دیکھنے کے لیے بھی ہمارے پاس وقت نہیں جبکہ دنیا کے حقیر مفادات کے لیے ہم دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ کیا ہمیں اسی لیے پیدا کیا گیا تھا ؟ یہی سوال تھا جس نے ابراہیم بن ادھم (رح) کی زندگی بدل دی تھی۔ ابراہیم بن ادھم (رح) بادشاہ کی حیثیت سے غفلت اور عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ایک دن شکار کھیلنے میں مصروف تھے کہ انہوں نے ایک آواز سنی : یَااِبْرَاھِیْمُ اَلِھٰذَا خُلِقْتَ اَمْ لِھٰذَا اُمِرْتَ ؟ کہ اے ابراہیم ذرا سوچو کیا تمہیں اسی کام کے لیے پیدا کیا گیا تھا ؟ اور کیا تمہیں اسی کام کا حکم ہوا تھا ؟ اللہ جانے یہ کسی فرشتے کی آواز تھی یا ان کے اپنے دل کی صدا۔ بہرحال جو بھی صورت حال تھی ‘ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بات ان کے دل میں گھر کرگئی اور ان کی زندگی کی کایا پلٹ گئی۔
سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :2 یہاں امی کا لفظ یہودی اصطلاح کے طور پر آیا ہے ، اور اس میں ایک لطیف طنز پوشیدہ ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن کو یہودی حقارت کے ساتھ امی کہتے اور اپنے مقابلہ میں ذلیل سمجھتے ہیں ، انہیں میں اللہ غالب و دانا نے ایک رسول اٹھایا ہے ۔ وہ خود نہیں اٹھ کھڑا ہوا ہے بلکہ اس کا اٹھانے والا وہ ہے جو کائنات کا بادشاہ ہے ، زبردست اور حکیم ہے ، جس کی قوت سے لڑ کر یہ لوگ اپنا ہی کچھ بگاڑیں گے ، اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن مجید میں اُمی کا لفظ متعدد مقامات پر آیا ہے اور سب جگہ اس کے معنی ایک ہی نہیں ہیں بلکہ مختلف مواقع پر وہ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ کہیں وہ اہل کتاب کے مقابلہ میں ان لوگوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے جن کے پاس کوئی آسمانی کتاب نہیں ہے جس کی پیروی وہ کرتے ہوں ۔ مثلاً فرمایا : قَلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَا لْاُمِّیِّنَءَ اَسْلَمْتُمْ ( آل عمران ۔ 20 ) ۔ اہل کتاب اور امیوں سے پوچھو کیا تم نے اسلام قبول کیا ؟ یہاں امیوں سے مراد مشرکین عرب ہیں ، اور ان کو اہل کتاب ، یعنی یہود و نصاریٰ سے الگ ایک گروہ قرار دیا گیا ہے ۔ کسی جگہ یہ لفظ خود اہل کتاب کے اَن پڑھ اور کتاب اللہ سے ناواقف لوگوں کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمِنْہُمْ اُمِّیُّوْنَ الْکِتٰبَ اِلَّا اَمَانِیَّ ( البقرہ ۔ 78 ) ۔ ان یہودیوں میں کچھ لوگ امی ہیں ، کتاب کا کوئی علم نہیں رکھتے ، بس اپنی آرزوؤں ہی کو جانتے ہیں ۔ اور کسی جگہ یہ لفظ خالص یہودی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے جس سے مراد دنیا کے تمام غیر یہودی ہیں ۔ مثلاً فرمایا: ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ ( آل عمران ۔ 75 ) ۔ یعنی ان کے اندر یہ بد دیانتی پیدا ہونے کا سبب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں امیوں کا مال مار کھانے میں ہم پر کوئی گرفت نہیں ہے ۔ یہی تیسرے معنی ہیں جو آیت زیر بحث میں مراد لیے گئے ہیں ۔ یہ لفظ عبرانی زبان کے لفظ گوئیم کا ہم معنی ہے ، جس کا ترجمہ انگریزی بائیبل میں کیا گیا ہے ، اور اس سے مراد تمام غیر یہودی یا غیر اسرائیلی لوگ ہیں ۔ لیکن اس یہودی اصطلاح کی اصل معنویت محض اس کی اس تشریح سے سمجھ میں نہیں آ سکتی ۔ دراصل عبرانی زبان کا لفظ گوئیم ابتداءً محض اقوام کے معنی میں بولا جاتا تھا ، لیکن رفتہ رفتہ یہودیوں نے اسے پہلے تو اپنے سوا دوسری قوموں کے لیے مخصوص کر دیا ، پھر اس کے اندر یہ معنی پیدا کر دیے کہ یہودیوں کے سوا باقی تمام اقوام ناشائستہ ، بد مذہب ، ناپاک اور ذلیل ہیں ، حتیٰ کہ حقارت اور نفرت میں یہ لفظ یونانیوں کی اصطلاح سے بھی بازی لے گیا جسے وہ تمام غیر یونانیوں کے لیے استعمال کرتے تھے ۔ ربیوں کے لٹریچر میں گوئیم اس قدر قابل نفرت لوگ ہیں کہ ان کو انسانی بھائی نہیں سمجھا جا سکتا ، ان کے ساتھ سفر نہیں کیا جا سکتا ، بلکہ ان میں سے کوئی شخص ڈوب رہا ہو تو اسے بچانے کی کوشش بھی نہیں کی جاسکتی ۔ یہودیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ آنے والا مسیح تمام گوئیم کو ہلاک کر دے گا اور جلا کر خاکستر کر ڈالے گا ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، آل عمران ، حاشیہ 64 ) ۔ سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :3 قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفات چار مقامات پر بیان کی گئی ہیں ، اور ہر جگہ ان کے بیان کی غرض مختلف ہے ۔ البقرہ آیت 129 میں ان کا ذکر اہل عرب کو یہ بتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ آنحضور کی بعثت ، جسے وہ اپنے لیے زحمت و مصیبت سمجھ رہے تھے ، در حقیقت ایک بڑی نعمت ہے جس کے لیے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام اپنی اولاد کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگا کر تے تھے ۔ البقرہ آیت 151 میں انہیں اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر پہچانیں اور اس نعمت سے پورا پورا فیض حاصل کریں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی ہے ۔ آل عمران آیت 164 میں منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کو یہ احساس دلانے کے لیے ان کا اعادہ کیا گیا ہے کہ وہ کتنا بڑا احسان ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان اپنا رسول بھیج کر کیا ہے اور یہ لوگ کتنے نادان ہیں کہ اس کی قدر نہیں کرتے ۔ اب چوتھی مرتبہ انہیں اس سورہ میں دہرایا گیا ہے جس سے مقصود یہودیوں کو یہ بتانا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری آنکھوں کے سامنے جو کام کر رہے ہیں وہ صریحاً ایک رسول کا کام ہے ۔ وہ اللہ کی آیات سنا رہے ہیں جن کی زبان ، مضامین ، انداز بیان ، ہر چیز اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ فی الواقع وہ اللہ ہی کی آیات ہیں ۔ وہ لوگوں کی زندگیاں سنوار رہے ہیں ، ان کے اخلاق اور عادات اور معاملات کو ہر طرح کی گندگیوں سے پاک کر رہے ہیں ، اور ان کو اعلیٰ درجے کے اخلاقی فضائل سے آراستہ کر رہے ہیں ۔ یہ وہی کام ہے جو اس سے پہلے تمام انبیاء کرتے رہے ہیں ۔ پھر وہ صرف آیات ہی سنانے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ہر وقت اپنے قول اور عمل سے اور اپنی زندگی کے نمونے سے لوگوں کو کتاب الٰہی کا منشا سمجھا رہے ہیں اور ان کو اس حکمت و دانائی کی تعلیم دے رہے ہیں جو انبیاء کے سوا آج تک کسی نے نہیں دی ہے ۔ یہی سیرت اور کردار اور کام ہی تو انبیاء کا وہ نمایاں وصف ہے جس سے وہ پہچانے جاتے ہیں ۔ پھر یہ کیسی ہٹ دھرمی ہے کہ جس کا رسول بر حق ہونا اس کے کارناموں سے علانیہ ثابت ہو رہا ہے اس کو ماننے سے تم نے صرف اس لیے انکار کر دیا کہ اللہ نے اسے تمہاری قوم کے بجائے اس قوم میں سے اٹھایا جسے تم امی کہتے ہو ۔ سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :4 یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا ایک اور ثبوت ہے جو یہودیوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے پیش کیا گیا ہے ۔ یہ لوگ صدیوں سے عرب کی سر زمین میں آباد تھے اور اہل عرب کی مذہبی ، اخلاقی ، معاشرتی ، اور تمدنی زندگی کا کوئی گوشہ ان سے چھپا ہوا نہ تھا ۔ ان کی اس سابق حالت کی طرف اشارہ کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ چند سال کے اندر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت و رہنمائی میں اس قوم کی جیسی کایا پلٹ گئی ہے اس کے تم عینی شاہد ہو ۔ تمہارے سامنے وہ حالت بھی ہے جس میں یہ لوگ اسلام قبول کرنے سے پہلے مبتلا تھے ۔ وہ حالت بھی ہے جو اسلام لانے کے بعد ان کی ہو گئی ، اور اسی قوم کے ان لوگوں کی حالت بھی تم دیکھ رہے ہو جنہوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا ہے ۔ کیا یہ کھلا کھلا فرق ، جسے ایک اندھا بھی دیکھ سکتا ہے ، تمہیں یہ یقین دلانے کے لیے کافی نہیں ہے کہ یہ ایک نبی کے سوا کسی کا کارنامہ نہیں ہو سکتا ؟ بلکہ اس کے سامنے تو پچھلے انبیاء تک کے کارنامے ماند پڑ گئے ہیں ۔
1: آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت کے یہی مقاصد سورۃ بقرہ (۲:۱۲۹)اور سورۃ آل عمران (۳:۱۶۴) میں بھی بیان فرمائے گئے ہیں۔