Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

کتابوں کا بوجھ لادا گدھا اور بےعمل عالم ان آیتوں میں یہودیوں کی مذمت بیان ہو رہی ہے کہ انہیں تورات دی کتابوں کا بوجھ لاد دیا جائے تو اسے یہ تو معلوم ہے کہ اس پر کوئی بوجھ ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ اس میں کیا ہے؟ اسی طرح یہود ہیں کہ ظاہری الفاظ تو خوب رٹے ہوئے ہیں لیکن نہ تو یہ معلوم ہے کہ مطلب کیا ہے؟ نہ اس پر ان کا عمل ہے بلکہ اور تبدیل و تحریف کرتے رہتے ہیں ، پس درصال یہ اس بےسمجھ جانور سے بھی بدترین ، کیونکہ اسے تو قدرت نے سمجھ ہی نہیں دی لیکن یہ سمجھ رکھتے ہوئے پھر بھی اس کا استعمال نہیں کرتے ۔ اسی لئے دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے ۔ ( ترجمہ ) یہ لوگ مثل چوپایوں کے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بہکے ہوئے ، یہ غافل لوگ ہیں ۔ یہاں فرمایا اللہ کیا آیتوں کے جھٹلانے الوں کی بری مثال ہے ، ایسے ظالم اللہ کی رہنمائی سے محروم رہتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے جو شخص جمعہ کے دن امام کے خطبہ کی حالت میں بات کرے ، وہ مثل گدھے کے ہے جو کتابیں اٹھائے ہوئے ہو اور جو اسے کہے کہ چپ رہ اس کا بھی جمعہ جاتا رہا ۔ پھر فرماتا ہے اے یہود اگر تمہارا دعویٰ ہے کہ تم حق پر ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب ناحق پر ہیں تو آؤ اور دعا مانگو کہ ہم دونوں میں سے جو حق پر نہ ہو اللہ اسے موت دے ، پھر فرماتا ہے کہ انہوں نے جو اعمال آگے بھیج رکھے ہیں وہ ان کے سامنے ہیں مثلاً کفر فجور ظلم نافرمانی وغیرہ اس وجہ سے ہماری پیشین گوئی ہے کہ وہ اس پر آمادگی نہیں کریں گے ، ان ظالموں کو اللہ بخوبی جانتا ہے ۔ سورہ بقرہ کی آیت قل ان کانت الخ ، کی تفسیر میں یہودیوں کے اس مباہلے کا پورا ذکر ہم کر چکے ہیں اور وہیں یہ بھی بیان کر دیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ اپنے اوپر اگر خود گمراہ ہوں تو ان پر تو یا اپنے مقابل پر اگر وہ گمراہ ہوں موت کی بد دعا کریں ، جیسے کہ نصرانیوں کے مباہلہ کا ذکر سورہ آل عمران میں گذر چکا ہے ، ملاحظہ ہو تفسیر آیت فمن حاجک الخ ، مشرکین سے بھی مباہلہ کا اعلان کیا گیا ملاحظہ ہو تفسیر سورہ مریم آیت ( قُلْ مَنْ كَانَ فِي الضَّلٰلَةِ فَلْيَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمٰنُ مَدًّا 75؀ ) 19-مريم:75 ) ، یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہدے کہ جو گمراہی میں ہو رحمٰن اسے اور بڑھا دے ۔ مسند احمد میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ابو جہل لعنتہ اللہ علیہ نے کہا کہ اگر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کے پاس دیکھوں گا تو اس کی گردن ناپوں گا جب یہ خبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے فرمایا اگر یہ ایسا کرتا تو سب کے دیکھتے فرشتے اسے پکڑ لیتے اور اگر یہود میرے مقابلہ پر آ کر موت طلب کر تے تو یقینا وہ مر جاتے اور اپنی جگہ جہنم میں دیکھ لیتے اور اگر مباہلہ کے لئے لوگ نکلتے تو وہ لوٹ کر اپنے اہل و مال کو ہرگز نہ پاتے ۔ یہ حدیث بخاری ترمذی اور نسائی میں بھی موجود ہے ، پھر فرماتا ہے موت سے تو کوئی بچہی نہیں سکتا ، جیسے سورہ نساء میں ہے ( ترجمہ ) یعنی تم جہاں کہیں بھی ہو وہاں تمہیں موت پا ہی لے گی گو مضبوط محلوں میں ہو ، معجم طبرانی کی ایک مرفوع حدیث میں ہے موت سے بھاگنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے ایک لومڑی ہو جس پر زمین کا کچھ قرض ہو وہ اس خوف سے کہ کہیں یہ مجھ سے مانگ نہ بیٹھے ، بھاگے ، بھاگتے بھاگتے جب تھک جائے تب اپنے بھٹ میں گھس جائے جہاں گھسی اور زمین نے پھر اس سے تقاضا کیا کہ لومڑی میرا قرض ادا کردو پھر وہاں سے دم دبائے ہوئے تیزی سے بھاگی آخر یونہی بھاگتے بھاگتے ہلاک ہو گئی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 اَ سْفَار سَفْر کی جمع ہے، معنی ہیں بڑی کتاب۔ کتاب جب پڑھی جاتی ہے تو انسان اس کے معنوں میں سفر کرتا ہے اس لئے کتاب کو سفر کہا جاتا ہے (فتح القدیر) یہ بےعمل یہودیوں کی مثال بیان کی گئی ہے کہ جس طرح گدھے کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی کمر پر جو کتابیں لدی ہیں، ان میں کیا لکھا ہوا ہے۔ یا اس پر کتابیں لدی ہوئی ہیں یا کوڑا کرکٹ۔ اسی طرح یہ یہودی ہیں یہ تورات کو تو اٹھائے پھرتے ہیں، بلکہ اس میں تاویل و تحریف اور تغیر وتبدل سے کام لیتے ہیں۔ اس لیے یہ حقیقت میں گدھے سے بھی بدتر ہیں، کیونکہ گدھا تو پیدائشی طور پر فہم وشعور سے ہی عاری ہوتا ہے، جب کہ ان کے اندر فہم و شعور ہے لیکن یہ اسے صحیح طریقے سے استعمال نہیں کرتے۔ اسی لیے آگے فرمایا کہ ان کی بڑی بری مثال ہے۔ اور دوسرے مقام پر فرمایا " ۭاُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ 179؁" 7 ۔ الاعراف :179) یہ چوپائے کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں، یہی مثال مسلمانوں کی اور بالخصوص علماء کی ہے جو قرآن پڑھتے ہیں اسے یاد کرتے ہیں اور اس کے معانی ومطالب کو سمجھتے ہیں لیکن اس کے مقتضی پر عمل نہیں کرتے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩] پڑھے لکھے یہود کا اخلاقی انحطاط :۔ اس آیت اور اس سے آگے کی آیات میں براہ راست یہود کو خطاب کیا گیا ہے۔ جو اپنے آپ کو بڑا عالم فاضل سمجھتے تھے۔ انہوں نے تورات کی کئی شرحیں بھی لکھ رکھی تھیں۔ جنہیں تلمود کہتے تھے۔ ان میں سے اکثر لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ اور بہت سے تورات کے عالم بھی تھے۔ عرب بھر میں ان کے علم و فضل کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ اسی لیے وہ دوسرے سب لوگوں کو امی، ان پڑھ، بدھو کہتے تھے اور انہیں حقیر سمجھتے تھے لیکن ان کی عملی زندگی کا یہ حال تھا کہ وہ بےعمل بھی تھے اور بدعمل بھی۔ دنیا کے لالچ میں پھنس کر اللہ کو بھول چکے تھے۔ اللہ کے صرف ان احکام پر عمل کرتے تھے جو ان کی طبیعت اور مزاج کے موافق ہوں۔- خعالم بےعمل کی گدھے سے تشبیہ :۔ حرام خوری اور علی الاعلان جھوٹ بولنا۔ بدعہدی۔ دغا بازی۔ کتاب اللہ میں اپنی مرضی کے موافق تحریف کرلینا۔ سود کھانا اور غیر یہود کے مال کو ناجائز طور پر حاصل کرکے اسے اپنے لیے حلال و طیب سمجھنا ان کی طبیعت ثانیہ بن چکی تھی۔ اسی لیے اللہ نے ان کی مثال ایسے گدھے سے دی ہے جس کی پیٹھ پر کتابیں لاد دی گئی ہوں۔ وہ نہیں جانتا کہ اس کی پیٹھ پر علم و حکمت کے خزانے لادے ہیں یا پتھر ہیں۔ بالفاظ دیگر اللہ نے ان لوگوں کو گدھا قرار دیا جو علم و فضل کے دعویدار تھے۔ اس سے از خود یہ اصول مستنبط ہوتا ہے کہ جو عالم بےعمل یا بدعمل ہو وہ عالم نہیں بلکہ گدھا ہوتا ہے۔ جو مفت میں اپنی پیٹھ پر کتابوں کا اور علم کا بوجھ اٹھائے پھرتا ہے۔- [١٠] یہاں اللہ کی آیات سے مراد وہ بشارتیں اور نبی آخرالزماں کی صفات ہیں جو تورات میں موجود تھیں اور اس نبی آخرالزماں کو جھٹلا دینا ہی گویا اللہ کی آیات کو جھٹلا دینے کے مترادف تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرٰۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا ۔۔۔۔۔:” اسفارا “” سفر “ کی جمع ہے ، بڑی کتاب ۔ ” سفر یسفر “ ( ن) ” الکتاب “ لکھنا۔ ” السافر ای الکاتب “ جمع اس کی ” سفرۃ “ ہے ، جیسا کہ فرمایا :(بِاَیْدِیْ سَفَرَۃٍ کِرَامٍم بَرَرَۃٍ ) (عبس : ١٥، ١٦)” ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں ۔ جو معزز ہیں ، نیک ہیں “۔- ٢۔ بعض اہل علم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے تین باتوں میں یہود کا رد فرمایا، انہوں نے فخر کیا کہ وہ اہل کتاب ہیں جب کہ عرب امی ہیں ، تو اس کی تردید کرتے ہوئے انہیں اس گدھے کے ساتھ تشبیہ دی جو بڑی بڑی کتابیں اٹھائے ہوئے ہو۔ انہوں نے فخر کیا کہ وہ اللہ کے دوست اور محبوب ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(فتمنوا الموت) (الجمعۃ : ٦)” (اگر ایسا ہے) تو موت کی تمنا کرو “۔ تیسرا یہ کہ ان کے ہاں ” سبت “ ( ہفتے کا دن) ہے جو مسلمانوں کے پاس نہیں ، تو اللہ تعالیٰ نے یوم جمعہ کی صورت میں مسلمانوں پر اتنے احسان کا ذکر فرمایا ، جس سے یہود اپنی نادانی کی وجہ سے محروم رہ گئے۔ ( الکشاف) - ٣۔ تورات کا بوجھ رکھا جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر عمل کی ذمہ داری ڈالی گئی ، جیسا کہ فرمایا :(اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَاَشْفَقْنَ مِنْھَا وَحَمَلَھَا الْاِنْسَان) ( الاحزاب : ٧٢)” بیشک ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے اس کا بوجھ اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا ۔ “ ” ثم لم یحملوھا “ پھر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا ، یعنی جس طرح گدھے پر کتابیں لدی ہوں اور وہ نہیں جانتا کہ اس کی پیٹھ پر کیا ہے ، اسی طرح وہ لوگ ہیں جن پر تورات کا بوجھ ڈالا گیا کہ اس پر عمل کریں ، مگر انہوں نے پرواہی نہیں کی کہ اس میں کیا ہے اور وہ ان سے کیا چاہتی ہے۔- ٤۔ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللہ ِ : اللہ کی آیات کو جھٹلانے سے مراد ان بشارتوں کو جھٹلانا ہے جو اللہ تعالیٰ نے تورات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق نازل فرمائیں۔ ( دیکھئے اعراف : ١٥٧)” بئس “ فعل ذم ہے، ” مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللہ ِ “ اس کا فاعل ہے اور اس کا مخصوص بالذم محدوف ہے ، یعنی ” ھذا المثل “ یعنی ان لوگوں کی یہ مثال جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا بری مثال ہے ، جس کا مصداق ایمان والوں کو نہیں بننا چاہیے۔ جیسا کہ کسی مسلمان کو کتے کی مثال کا مصداق بھی نہیں بننا چاہیے کہ اس پر کتے کی مثال صادق آئے۔ ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( لیس لنا مثل السوئ، الذی یعود فی ھبتہ کالکلب یرجع فی قیثہ) (بخاری ، الھبۃ و فضلھا ، باب لا یحل لا حد ان یرجع فی ھبتہ و صدقتہ : ٢٦٢٢)” یہ بڑی مثال ہمارے لیے نہیں ہے ، وہ شخص جو اپنے ہبہ میں لوٹتا ہے اس کتے کی مانند ہے جو اپنی قے میں لوٹتا ہے “۔- ٥۔ استاد محمد عبدہ (رح) تعالیٰ لکھتے ہیں :” کیا وجہ ہے کہ ان علماء کا حال اس سے مختلف ہو جو قرآن و حدیث کا علم رکھتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے ، یا یہودیوں کی طرح ان کی من مانی تاویلیں کرتے ہیں۔ “ شاہ عبد القادر (رح) تعالیٰ لکھتے ہیں :” یہود کے عالم ایسے تھے کتاب پڑھی اور دل میں کچھ اثر نہ ہوا ، اللہ ہم کو پناہ دے “۔ ( موضح)- ٦۔ وَ اللہ ُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ : یعنی جاننے کے باوجود نہ ماننا صریح ظلم ہے اور ایسے ظالموں کو اللہ بھی راہ راست پر چلنے کی توفیق نہیں دیتا، کیونکہ نہ چاہنے والوں کو زبردستی راہ راست پر چلانا اس کا دستور نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا، اسفار، سفر بکسر سین کی جمع ہے، بڑی کتاب کو کہا جاتا ہے، سابقہ آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت و نبوت امیین میں ہونا اور آپ کی بعثت کے تین مقاصد کا ذکر جن الفاظ میں آیتا ہے، پچھلی آسمانی کتاب تورات میں بھی آپ کا ذکر تقریباً انہی الفاظ وصفات کے ساتھ آیا ہے، جس کا مقتضیٰ یہ تھا کہ یہود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھتے ہی آپ پر ایمان لے آتے، مگر ان کو دنیا کے جاہ و مال نے تورات کے احکام سے اندھا کردیا اور باوجود تورات کا علم ہونے کے عمل کے اعتبار سے ایسے ہوگئے جیسے بالکل جاہل ناواقف ہوں ان لوگوں کی مذمت مذکورہ آیت میں اس طرح کی گئی کہ یہ لوگ جن پر تورات لاد دی گئی تھی، یعنی ان کو بےمانگے اللہ کی یہ نعمت دے دیگئی تھی، مگر انہوں نے اس کے اٹھانے کا حق ادا نہ کیا یعنی تورات کے احکام کی پروانہ کی، ان کی مثال ایسی ہے جیسے گدھے کی پشت پر علوم و فنون کی بڑی بڑی کتابیں لاد دی جاتی ہیں، یہ گدھا ان کا بوجھ تو اٹھاتا ہے مگر ان کے مضامین کی نہ اس کو کچھ خبر ہے نہ ان سے کوئی فائدہ اس کو پہنچتا ہے، یہود کا بھی یہی حال ہے کہ دنیا سازی کے لئے تورات تو لئے پھرتے ہیں اور لوگوں میں اس کے ذریعہ جاہ اور اپنا مقام بھی پیدا کرنا چاہتے ہیں مگر اس کی ہدایت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے۔- عالم بےعمل کی مثال :- حضرت مفسرین نے فرمایا کہ جو مثال یہود کی دی گئی ہے، یہی مثال اس عالم دین کی ہے جو اپنے علم پر عمل نہ کرے۔- نہ محقق بودنہ دانش مند چار پائے بروکتا بےچند

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىۃَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْہَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا۝ ٠ ۭ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اللہِ۝ ٠ ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۝ ٥- مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی:- وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔- «لَمْ»- وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی 6] .- ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔- حمر - الحِمَار : الحیوان المعروف، وجمعه حَمِير وأَحْمِرَة وحُمُر، قال تعالی: وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ [ النحل 8] ، ويعبّر عن الجاهل بذلک، کقوله تعالی: كَمَثَلِ الْحِمارِ يَحْمِلُ أَسْفاراً [ الجمعة 5] ، وقال تعالی: كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ [ المدثر 50] ، وحمار قبّان :- دويّبة، والحِمَارَان : حجران يجفّف عليهما الأقط شبّه بالحمار في الهيئة، والمُحَمَّر :- الفرس الهجين المشبّه بلادته ببلادة الحمار . والحُمْرَة في الألوان، وقیل : ( الأحمر والأسود) للعجم والعرب اعتبارا بغالب ألوانهم، وربما قيل : حمراء العجان والأحمران : اللحم والخمر اعتبارا بلونيهما، والموت الأحمر أصله فيما يراق فيه الدم، وسنة حَمْرَاء : جدبة، للحمرة العارضة في الجوّ منها، وکذلک حَمَّارَة القیظ : لشدّة حرّها، وقیل :- وِطَاءَة حَمْرَاء : إذا کانت جدیدة، ووطاءة دهماء : دارسة .- ( ح م ر ) الحمام ( گدھا ) اس کی حمر وحمیر واحمرتہ آتی ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ [ النحل 8] اور گھوڑے خچر اور گدھے ۔ کبھی حمار کے لفظ سے جاہل اور بےعلم آدمی بھی مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ كَمَثَلِ الْحِمارِ يَحْمِلُ أَسْفاراً [ الجمعة 5] ان کی مثال گدھے کی سی ہے جس پر بڑی بڑی کتابیں لدی ہوں ۔ كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ [ المدثر 50] گویا گدھے ہیں جو بدک جاتے ہیں ۔ حمار قبان ایک قسم کا کیڑا ( جسے فارسی میں خرک کہا جاتا ہے ) الجمار ( ان دو پتھر جن پر پنیر خشک کیا جاتا ہے ہیئت میں حمار سے تشبیہ کے طور پر کہا جاتا ہے اور گدھے کے ساتھ جلاوت میں تشبیہ دیکر و غلی نسلی کے گھوڑے کو بھی المحمر کہا جاتا ہے الحمرۃ سرخی ۔ الاحمر الاسود ( عرب ) وعجم ( اس میں عمومی رنگت کا لحاظ کیا گیا ہے ) اور کبھی حمراء العجان ( کنایہ ازعجم ) بھی کہا جاتا ہے ۔ الاحمران ۔ گوشت اور شراب الموت الاحمر سخت موت ، وہ موت جو قبل راقع ہو سنۃ حمراء قحط سالی کیونکر اس میں فضا کا رنگ سرخ نظر آتا ہے اسی بنا پر سخت گرمی کو حمرۃ القیط کہا جاتا ہے ۔ وطاءۃ حمراء قدم کا تازہ نشان س کے بالمقابل مٹے ہوئے نسان کو وطاءۃ دھماء بولتے ہیں ۔- سفر - السَّفْرُ : كشف الغطاء، ويختصّ ذلک بالأعيان، نحو : سَفَرَ العمامة عن الرّأس، والخمار عن الوجه، وسَفْرُ البیتِ : كَنْسُهُ بِالْمِسْفَرِ ، أي : المکنس، وذلک إزالة السَّفِيرِ عنه، وهو التّراب الذي يكنس منه، والإِسْفارُ يختصّ باللّون، نحو : وَالصُّبْحِ إِذا أَسْفَرَ- [ المدثر 34] ، أي : أشرق لونه، قال تعالی: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ [ عبس 38] ، و «أَسْفِرُوا بالصّبح تؤجروا» »من قولهم : أَسْفَرْتُ ، أي : دخلت فيه، نحو : أصبحت، وسَفَرَ الرّجل فهو سَافِرٌ ، والجمع السَّفْرُ ، نحو : ركب . وسَافَرَ خصّ بالمفاعلة اعتبارا بأنّ الإنسان قد سَفَرَ عن المکان، والمکان سفر عنه، ومن لفظ السَّفْرِ اشتقّ السُّفْرَةُ لطعام السَّفَرِ ، ولما يوضع فيه . قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضى أَوْ عَلى سَفَرٍ [ النساء 43] ، والسِّفْرُ : الکتاب الذي يُسْفِرُ عن الحقائق، وجمعه أَسْفَارٌ ، قال تعالی: كَمَثَلِ الْحِمارِ يَحْمِلُ أَسْفاراً [ الجمعة 5] ، وخصّ لفظ الأسفار في هذا المکان تنبيها أنّ التّوراة۔ وإن کانت تحقّق ما فيها۔ فالجاهل لا يكاد يستبینها کالحمار الحامل لها، وقوله تعالی: بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ- [ عبس 15- 16] ، فهم الملائكة الموصوفون بقوله : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] ، والسَّفَرَةُ : جمع سَافِرٍ ، ککاتب وکتبة، والسَّفِيرُ : الرّسول بين القوم يكشف ويزيل ما بينهم من الوحشة، فهو فعیل في معنی فاعل، والسِّفَارَةُ : الرّسالة، فالرّسول، والملائكة، والکتب، مشترکة في كونها سَافِرَةٌ عن القوم ما استبهم عليهم، والسَّفِيرُ : فيما يكنس في معنی المفعول، والسِّفَارُ في قول الشاعر :- 235-- وما السّفار قبّح السّفار - «1» فقیل : هو حدیدة تجعل في أنف البعیر، فإن لم يكن في ذلک حجّة غير هذا البیت، فالبیت يحتمل أن يكون مصدر سَافَرْتُ «2» .- ( س ف ر ) السفر - اصل میں اس کے معنی کشف غطاء یعنی پردہ اٹھانے کے ہیں اور یہ اعیان کے ساتھ مخصوص ہے جیسے سفر العمامۃ عن الراس اس نے سر سے عمامہ اتارا دیا ۔ سعر عن الوجہ چہرہ کھولا اور سفر البیت کے معنی گھر میں جھاڑو دینے اور کوڑا کرکٹ صاف کرنے کے ہیں اور جھاڑو کو مسفرۃ اور اس گرد و غبار کو سفیر کہا جاتا ہے جو جھاڑو دے کر دور کی جاتی ہے ۔ الاسفار ( افعال ) یہ الوان کے ساتھ مختص ہے یعنی کسی رنگ کے ظاہر ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالصُّبْحِ إِذا أَسْفَرَ [ المدثر 34] اور قسم ہے صبح کی جب روشن ہو ۔ اور فرمایا : ۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ [ عبس 38] کتنے منہ اس روز چمک رہے ہوں گے ۔ اور حدیث «أَسْفِرُوا بالصّبح تؤجروا» صبح خوب روشن ہونے کے بعد نماز پڑھا کرو تو زیادہ ثواب ملے گا ۔ میں اسفروا اسفرت کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی روشنی میں داخل ہونے کے ہیں جیسے اصبحت ( میں صبح میں داخل ہوا ) سفر الرجل اس نے سفر کیا اور سافر ( مسافر ) کی جمع سفر آتی ہے جیسے راکب کی جمع رکب رد علی ہذا القیاس ) اور سافر کے معنی ہیں اس نے سفر کیا یہ خاص کر باب مفاعلۃ سے آتا ہے گویا اس میں جانبین یعنی وطن اور آدمی کے ایک دوسرے سے دور ہونے کے معنی کا لحاظ کیا گیا ہے ۔ اور سفر سے ہی سفرۃ کا لفظ مشتق ہے جس کے معنی طعام سفر یا توشہ دان ہیں جس میں سفری کھانا رکھا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضى أَوْ عَلى سَفَرٍ [ النساء 43] اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو ۔ السفر اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں حقائق کا بیان ہو گویا وہ حقائق کو بےنقاب کرتی ہے اس کی جمع اسفار آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الْحِمارِ يَحْمِلُ أَسْفاراً [ الجمعة 5] کی مثال گدھے کی سی ہے جس پر بڑی بڑی کتابیں لدی ہوئی ہوں ۔ یہاں ممثل بہ میں خصوصیت کے ساتھ اسفار کا لفظ ذکر کرنے سے اس بات پر متنبہ کرنا مقصود ہے کہ تورات اگر چہ اپنے مضامین کو محقق طور پر بیان کرتی ہے لیکن جاہل ( یہود ) پھر بھی اس کو نہیں سمجھ پاتے ۔ لہذا ان کی مثال بعینہ اس گدھے کی سی ہے جو علم و حکمت کے پشتارے اٹھائے ہوئے ہو اور آیت بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15- 16] ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سردار نیکو کار ہیں ۔ میں سفرۃ سے مراد وہ فرشتے ہیں جنہیں دوسری جگہ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] عالی قدر لکھنے والے کہا ہے اور یہ سافر کی جمع ہے جیسے کاتب کی جمع کتبۃ السفیر ۔ اس فرستادہ کو کہا جاتا ہے جو مرسل کی غرض کو مرسل الیہ پر کھولتا اور فریقین سے منافرت کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ یہ فعیل بمعنی فاعل سے ہے اور سفارۃ بمعنی رسالت آتا ہے پیغمبر فرشتے اور سماوی ) کتابیں لوگوں پر حقائق کی کشادگی کرنے میں باہم شریک ہیں ( اس نے ان سب کو سفیر کہہ سکتے ہیں ۔ اور سفیر ( فعیل ) بمعنی مفعول ہو تو اس کے معنی کوڑا کرکٹ کے ہوتے ہیں جو جھاڑ دے کر صاف کردیا جاتا ہے ۔ اور شاعر کے قول ۔ ( 229 ) وما السّفار قبّح السّفار میں بعض نے سفار کے معنی اس لوہے کے لئے ہیں جو اونٹ کی ناک میں ڈالا جاتا ہے اور اس معنی پر اگر اس شعر کے علاوہ اور کوئی دلیل نہ ہو تو یہ سافرت ( مفاعلہ ) کا مصدر بھی ہوسکتا ہے - بِئْسَ- و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام،- كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة 79] ، أي : شيئا يفعلونه،- ( ب ء س) البؤس والباس - بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

علم بغیر عمل کے بیکار ہے - قول باری ہے (مثل الذین حملوا التوراۃ ثم لم یحملو ھا کمثل الحمار یحمل اسفار، جن لوگوں کو تورات کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھایا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں)- ایک روایت کے مطابق اس سے یہود مراد ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تورات سیکھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا گیا تھا، انہوں نے تورات کا علم حاصل تو کرلیا لیکن اس پر عمل پیرا نہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں گدھے کے مشابہ قرار دیا جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ کیونکہ انہوں نے بھی اس کتاب سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جس کا انہیں حامل بنایا گیا تھا جس طرح گدھا اپنی پیٹھ پر لدی ہوئی کتابوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا۔- اس کی مثال یہ قول باری ہے (ان ھم الا کالانعام بل ھم اضل سبیلا، یہ لوگ بس چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر گم کردہ راہ) نیز ارشاد ہوا (واتل علیھم نبا الذی اتیناہ ایاتنا فانسلخ منھا، انہیں اس شخص کی خبر پڑھ کر سنائیں جسے ہم نے اپنی آیات عطا کی تھیں پھر وہ ان سے نکل بھاگا) تا قول باری (فمثلہ کمثل الکلب، اس کی مثال کتے جیسی ہے۔ )

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

جن لوگوں کو توریت پر عمل کرنے اور رسول اکرم کی نعت و صفت ظاہر کرنے کا حکم دیا گیا تھا پھر انہوں نے اس حکم کی تعمیل نہیں کی ان کی حالت اس گدھے کی طرح ہے جس پر بہت سی کتابیں لدی ہوئی ہوں مگر وہ ان کتابوں کے نفع سے محروم ہو اسی طرح یہود توریت کے نفع سے محروم ہیں۔- ان یہودیوں کی بری حالت ہے جنہوں نے رسول اکرم اور قرآن حکیم کو جھٹلایا اور ایسے یہودیوں کو اللہ تعالیٰ اپنے دین کی طرف رہنمائی نہیں فرمایا کرتا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

اب اگلی چار آیات میں بنی اسرائیل کی مثال کا آئینہ دکھا کر ہمیں ہمارے مجموعی طرزعمل سے آگاہ کیا جارہا ہے :- آیت ٥ مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّـوْرٰٹۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْہَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًاط ” مثال ان لوگوں کی جو حامل تورات بنائے گئے ‘ پھر وہ اس کے حامل ثابت نہ ہوئے ‘ اس گدھے کی سی (مثال) ہے جو اٹھائے ہوئے ہو کتابوں کا بوجھ۔ “ - جب وہ لوگ حامل تورات ہو کر بھی تورات سے بےگانہ رہے تو ان میں اور اس گدھے میں کیا فرق رہ گیا جو اپنی پیٹھ پر کتابوں کا بوجھ اٹھائے پھر رہا ہے۔ ظاہر ہے ایک گدھے پر آپ مکالماتِ افلاطون لاد دیں یا انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا کی تمام جلدیں رکھ دیں ‘ اس سے اس کے اندر نہ تو کوئی فلسفیانہ بصیرت پیدا ہوگی اور نہ ہی اس کے دماغ میں کوئی معلومات منتقل ہو سکیں گی۔۔۔۔ آیت کے اس حصے میں لفظ حمل مختلف صیغوں میں تین مرتبہ آیا ہے۔ حمل ایسے بوجھ کو کہا جاتا ہے جسے آدمی اٹھا کر چل سکے۔ اسی معنی میں حمّال (قلی) اس شخص کو کہا جاتا ہے جو بوجھ وغیرہ ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ لے جائے اور یہی مفہوم عورت کے حمل کا بھی ہے : حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ (لقمن : ١٤) ” اس کو اٹھائے رکھا اس کی ماں نے (اپنے پیٹ میں) کمزوری پر کمزوری جھیل کر “۔ عورت کو یہ حمل اٹھانے میں مشقت اور تکلیف کا سامنا تو کرنا پڑتا ہے ‘ لیکن اس کے لیے اس بوجھ کو اٹھائے پھرنا ممکن ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اِصْر (البقرۃ : ٢٨٦ ‘ الاعراف : ١٥٧) ایسا بوجھ ہے جس کا اٹھانا انسان کے لیے ممکن نہ ہو اور وہ اس کے نیچے دب کر رہ جائے۔- بہرحال اللہ تعالیٰ جس قوم کو اپنی کتاب عطا کرتا ہے اس قوم پر اس کتاب کے حقوق کا بوجھ بھی ڈالتا ہے۔ ان حقوق میں کتاب پر ایمان لانے ‘ اس کے احکام پر عمل کرنے اور اس کی تعلیمات کی تبلیغ و اشاعت کی ذمہ داری کا بوجھ بھی شامل ہے : وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْـکِتٰبَ لَتُبَـیِّنُـنَّـہٗ لِلنَّاسِ وَلاَ تَـکْتُمُوْنَـہٗز (آل عمران : ١٨٧) ” اور یاد کرو جبکہ اللہ نے ان لوگوں سے ایک قول وقرار لیا تھا جن کو کتاب دی گئی تھی کہ تم لازماً اسے لوگوں کے سامنے واضح کرو گے اور اسے چھپائو گے نہیں “ ۔ یہ میثاق اہل تورات سے لیا گیا تھا جبکہ قرآن مجید میں اہل کتاب سے متعلق ایسے واقعات اور ایسی مثالوں کا ذکر ہمیں خبردار کرنے کے لیے آیا ہے ‘ کہ اے اہل قرآن تمہیں بھی اپنی کتاب کے حقوق کماحقہ ادا کرنے ہیں اور اس کی تعلیمات کو لوگوں کے لیے عام کرنا ہے۔ ورنہ کتابوں کا بوجھ اٹھا نے والے گدھے کی مثال کا اطلاق تم پر بھی ہوگا۔ اس حوالے سے حضرت عبیدہ الملیکی (رض) کا روایت کردہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان بہت اہم ہے :- (یَا اَھْلَ الْقُرْآنِ لَا تَتَوَسَّدُوا الْقُرْآنَ ‘ وَاتْلُوْہُ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ مِنْ آنَائِ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ ‘ وَافْشُوْہُ وَتَغَنَّوْہُ وَتَدَبَّرُوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) (١)- ” اے قرآن والو تم قرآن کو تکیہ (ذہنی سہارا) نہ بنا لینا ‘ بلکہ تمہیں چاہیے کہ رات اور دن کے اوقات میں اس کی تلاوت کیا کروجیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے ‘ اور اس کو پھیلائو ‘ اور اس کو خوش الحانی سے پڑھو ‘ اور اس میں تدبر کرو ‘ تاکہ تم فلاح پاجائو۔ “- مقامِ عبرت ہے آج ہم قرآن مجید کے حقوق ادا کرنے کے لیے تو غور کرنے کو بھی تیار نہیں ‘ لیکن اس کو تکیہ بنانے کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے میں ہم بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ اس کی زندہ مثال ایوبی دور کی یادگار ‘ سونے کی تاروں سے لکھا ہوا چالیس من وزنی قرآن مجید کا وہ نسخہ ہے جسے ہم نے پچھلے پچاس سال سے لاہور میں نمائش کے لیے رکھا ہوا ہے۔ - بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ” بہت بری مثال ہے اس قوم کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا۔ “- یہ یہودیوں کی طرف سے کلام اللہ کی عملی یا حالی تکذیب کا ذکر ہے۔ قبل ازیں سورة الواقعہ کی آیت ٨٢ کے حوالے سے وضاحت کی جا چکی ہے کہ بالکل اسی طور سے ہم بھی قرآن مجید کو جھٹلا رہے ہیں۔ ظاہر ہے اپنی زبان سے نہ تو یہودی تورات کی تکذیب کرتے تھے اور نہ ہی ہم قرآن کے بارے میں ایسا سوچ سکتے ہیں۔ لیکن کیا ہم واقعی قرآن مجید کی عملی یا حالی تکذیب کے مرتکب ہو رہے ہیں ؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ایک ایسے تعلیم یافتہ نوجوان کا تصور کریں جو مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان سے امریکہ گیا ہے۔ اس نوجوان سے اگر پوچھا جائے کہ کیا قرآن مجید اللہ کا کلام ہے تو وہ کہے گا کیوں نہیں میں مانتا ہوں کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ لیکن اگر اس سے دوسرا سوال یہ کیا جائے کہ آپ نے اس کو کتنا پڑھا ہے اور اس کی تعلیمات کو جاننے اور سمجھنے کے لیے آپ نے کس قدر محنت کی ہے تو وہ (اِلا ماشاء اللہ) یہی جواب دے گا کہ مجھے اس کا موقع نہیں ملا۔ تو کیا اس نوجوان کا یہ عمل قرآن مجید کی تکذیب نہیں کر رہا ہے ؟ کیا اس کا حال چیخ چیخ کر گواہی نہیں دے رہا کہ اس کے نزدیک اس کی وہ ڈگری قرآن مجید سے زیادہ اہم ہے ‘ جس کے لیے وہ سات سمندر پار آکر دیار غیر کی خاک چھان رہا ہے ‘ لیکن قرآن مجید کو سمجھنے کی کبھی اس نے ہلکی سی کوشش بھی نہیں کی۔- وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ۔ ” اور اللہ ایسے ظالموں کو (زبردستی) ہدایت نہیں دیتا۔ “- اللہ تعالیٰ کی ہدایت معاذ اللہ کوئی ایسی حقیر شے نہیں جسے ہر شخص کی جھولی میں زبردستی ڈال دیا جائے۔ یہ تو صرف اسی شخص کو ملے گی جس کے دل میں اس کے حصول کی تمنا ہوگی اور جو اس کے حصول کے لیے تگ و دو کرے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :7 اس فقرے کے دو معنی ہیں ۔ ایک عام اور دوسرا خاص ۔ عام معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں پر توراۃ کے علم و عمل ، اور اس کے مطابق دنیا کی ہدایت کا بار رکھا گیا تھا ، مگر نہ انہوں نے اپنی اس ذمہ داری کو سمجھا اور نہ اس کا حق ادا کیا ۔ خاص معنی یہ ہیں کہ حامل توراۃ گروہ ہونے کی حیثیت سے جن کا کام یہ تھا کہ سب سے پہلے آگے بڑھ کر اس رسول کا ساتھ دیتے جس کے آنے کی صاف صاف بشارت توراۃ میں دی گئی تھی ، مگر انہوں نے سب سے بڑھ کر اس کی مخالف کی اور توراۃ کی تعلیم کے تقاضے کو پورا نہ کیا ۔ سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :8 یعنی جس طرح گدھے پر کتابیں لدی ہوں اور وہ نہیں جانتا کہ اس کی پیٹھ پر کیا ہے ، اسی طرح یہ توراۃ کو اپنے اوپر لادے ہوئے ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ کتاب کس لیے آئی ہے اور ان سے کیا چاہتی ہے ۔ سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :9 یعنی ان کا حال گدھے سے بھی بدتر ہے ۔ وہ تو سمجھ بوجھ نہیں رکھتا اس لیے مغرور ہے ۔ مگر یہ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ۔ توراۃ کو پڑھتے پڑھاتے ہیں ۔ اس کے معنی سے ناواقف نہیں ہیں ۔ پھر بھی یہ اس کی ہدایات سے دانستہ انحراف کر رہے ہیں ، اور اس نبی کو ماننے سے قصداً انکار کر رہے ہیں جو توراۃ کی رو سے سراسر حق پر ہے ۔ یہ نافہمی کے قصور وار نہیں ہیں بلکہ جان بوجھ کر اللہ کی آیات کو جھٹلانے کے مجرم ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

4: یعنی تورات کے اَحکام پر عملکرنے کی جو ذمہ داری اُن پر ڈالی گئی اُس کو پورا نہیں کیا۔ اس میں یہ بات بھی داخل ہے کہ انہیں نبی آخرالزماں صلی اﷲ علیہ وسلم پر اِیمان لانے کا حکم دیا گیا تھا، لیکن وہ آپ پر اِیمان نہیں لائے۔