Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جمعہ کا دن کیا ہے؟ اس کی اہمیت کیوں ہے؟ جمعہ کا لفظ جمع سے مشتق ہے ، وجہ اشتقاق یہ ہے کہ اس دن مسلمان بڑی بڑی مساجد میں اللہ کی عبادت کے لئے جمع ہوتے ہیں اور یہ بھی وجہ ہے کہ اسی دن تمام مخلوق کامل ہوئی چھ دن میں ساری کائنات بنائی گئی ہے چھٹا دن جمعہ کا ہے اسی دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے ، اسی دن جنت میں بسائے گئے اور اسی دن وہاں سے نکالے گئے ، اسی دن میں قیامت قائم ہو گی ، اس دن میں ایک ایسی ساعت ہے کہ اس وقت مسلمان بندہ اللہ تعالیٰ سے جو طلب کرے اللہ تعالیٰ اسے عنایت فرماتا ہے ، جیسے کہ صحیح احادیث میں آیا ہے ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان سے پوچھا جانتے ہو جمعہ کا دن کیا ہے؟ انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ علم ہے ۔ آپ نے فرمایا اسی دن تیرے ماں باپ ( یعنی آدم و حوا ) کو اللہ تعالیٰ نے جمع کیا ۔ یا یوں فرمایا کہ تمہارے باپ کو جمع کیا ۔ اسی طرح ایک موقوف حدیث میں حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے فاللہ اعلم ، پہلے اسے یوم العروبہ کہا جاتا تھا ، پہلی امتوں کو بھی ہر سات دن میں ایک دن دیا گیا تھا ، لیکن جمعہ کی ہدایت انہیں نہ ہوئی ، یہودیوں نے ہفتہ پسند کیا جس میں مخلوق کی پیدائش شروع بھی نہ ہوئی تھی ، نصاریٰ نے اتوار اختیار کیا جس میں مخلوق کی پیدائش کی ابتدا ہوئی ہے اور اس امت کے لئے اللہ تعالیٰ نے جمعہ کو سند فرمایا جس دن اللہ تعالیٰ نے جمعہ کو پسند فرمایا جس دن اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پورا کیا تھا ، جیسے صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ ہم دنیا میں آنے کے اعتبار سے تو سب کے پیچھے ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے پہلے ہوں گے سوائے اس کے کہ انہیں ہم سے پہلے کتاب اللہ دی گئی ، پھر ان کے اس دن میں انہوں نے اختلاف کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں راہ راست دکھائی پس لوگ اس میں بھی ہمارے پیچھے ہیں یہودی کل اور نصرانی پرسوں ، مسلم میں اتنا اور بھی ہے کہ قیامت کے دن تمام مخلوق میں سب سے پہلے فیصلہ ہمارے بارے میں کیا جائے گا ، یہاں اللہ تعالیٰ مومنوں کو جمعہ کے دن اپنی عبادت کے لئے جمع ہونے کا حکم دے رہا ہے ، سعی سے مراد یہاں دوڑنا نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ ذکر اللہ یعنی نماز کے لئے قصد کرو چل پڑو کوشش کرو کام کاج چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہو جاؤ ، جیسے اس آیت میں سعی کوشش کے معنی میں ہے ومن ارادالاخرۃ وسعی لھا سعیھا یعنی جو شخص آخرت کا ارادہ کرے پھر اس کے لئے کوشش بھی کرے ، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود کی قرائت میں بجائے فاسعوا کے فامضوا ہے ، یہ یاد رہے کہ نماز کے لئے دوڑ کر جانا منع ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے جب تم اقامت سنو تو نماز کیلئے سکینت اور وقار کے ساتھ چلو ، دوڑو نہیں ، جو پاؤ پڑھ لو ، جو فوت ہو ادا کر لو ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نماز میں تھے کہ لوگوں کے پاؤں کی آہٹ زور زور سے سنی ، فارغ ہو کر فرمایا کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا حضرت ہم جلدی جلدی نماز میں شامل ہوئے فرمایا ایسا نہ کرو نماز کو اطمینان کے ساتھ چل کر آؤ جو پاؤ پڑھ لو جو چھوٹ جائے پوری کر لو ، حضرت حسن فرماتے ہیں اللہ کی قسم یہاں یہ حکم نہیں کہ دوڑ کر نماز کے لئے آؤ یہ تو منع ہے بلکہ مراد دل اور نیت اور خشوع خضوع ہے ، حضرت قتادہ فرماتے ہیں اپنے دل اور اپنے عمل سے کوشش کرو ، جیسے اور جگہ ہے فلما بلغ معہ السعی حضرت ذبیح اللہ جب خلیل اللہ کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے ، جمعہ کے لئے آنے والے کو غسل بھی کرنا چاہئے ، بخاری مسلم میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی جمعہ کی نماز کے لئے جانے کا ارادہ کرے وہ غسل کر لیا کرے ، اور حدیث میں ہے جمعہ کے دن کا غسل ہر بالغ پر واجب ہے اور روایت میں ہے کہ ہر بالغ پر ساتویں دن سر اور جسم کا دھونا ہے ، صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ وہ دن جمعہ کا دن ہے ، سنن اربعہ میں ہے جو شخص جمعہ کے دن اچھی طرح غسل کرے اور سویرے سے ہی مسجد کی طرف چل دے پیدل جائے سوار نہ ہو اور امام سے قریب ہو کر بیٹھے خطبے کو کان لگا کر سنے لغو کام نہ کرے تو اسے ہر ایک قدم کے بدلے سال بھر کے روزوں اور سال بھر کے قیام کا ثواب ہے ، بخاری مسلم میں ہے جو شخص جمعہ کے دن جنابت کے غسل کی طرح غسل کرے ، اول ساعت میں جائے اس نے گویا ایک اونٹ اللہ کی راہ میں قربان کیا دوسری ساعت میں جانے والا مثل گائے کی قربانی کرنے والے کے ہے ، تیسری ساعت میں جانے والا مرغ راہ اللہ میں تصدق کرنے والے کی طرح ہے ، پانچویں ساعت میں جانے والا انڈا راہ اللہ دینے والے جیسا ہے ، پھر جب امام آئے فرشتے خطبہ سننے کے لئے حاضر ہو جاتے ہیں ، مستحب ہے کہ جعہ کے دن اپنی طاقت کے مطابق اچھا لباس پہنے خوشبو لگائے مسواک کرے اور صفائی اور پاکیزگی کے ساتھ جمعہ کی نماز کے لئے آئے ، ایک حدیث میں غسل کے بیان کے ساتھ ہی مسواک کرنا اور خوشبو ملنا بھی ہے ، مسند احمد میں ہے جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور اپنے گھر والوں کو خوشبو ملے اگر ہو اور اچھا لباس پہنے پھر مسجد میں آئے اور کچھ نوافل پڑھے اگر جی چاہے اور کسی کے ایذاء نہ دے ( یعنی گردنیں پھلانگ کر نہ آئے نہ کسی بیٹھے ہوئے کو ہٹائے ) پھر جب امام آ جائے اور خطبہ شروع ہو خاموشی سے سنے تو اس کے گناہ جو اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک کے ہوں سب کا کفارہ ہو جاتا ہے ، ابو داؤد اور ابن ماجہ میں ہے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منبر پر بیان فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے کسی پر کیا حرج ہے اگر وہ اپنے روز مرہ کے محنتی لباس کے علاوہ دو کپڑے خرید کر جمعہ کے لئے مخصوص رکھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمان اس وقت فرمایا جب لوگوں پر وہی معمولی چادریں دیکھیں تو فرمایا کہ اگر طاقت ہو تو ایسا کیوں نہ کر لو ۔ جس اذان کا یہاں اس آیت میں ذکر ہے اس سے مراد وہ اذان ہے جو امام کے منبر پر بیٹھ جانے کے بعد ہوتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہی اذان تھی جب آپ گھر سے تشریف لاتے منبر پر جاتے اور آپ کے بیٹھ جانے کے بعد آپ کے سامنے یہ اذان ہوتی تھی ، اس سے پہلے کی اذان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ تھی اسے امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف لوگوں کی کثرت کو دیکھ کر زیادہ کیا ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کے زمانے میں جمعہ کی اذان صرف اسی وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر خطبہ کہنے کے لئے بیٹھ جاتا ، حضرت عثمان کے زمانے میں جب لوگ بہت زیادہ ہوگئے تو آپ نے دوسری اذان ایک الگ مکان پر کہلوائی زیادہ کی اس مکان کا نام زورا تھا مسجد سے قریب سب سے بلند یہی مکان تھا ۔ حضرت مکحول سے ابن ابی حاتم میں رویات ہے کہ اذان صرف ایک ہی تھی جب امام آتا تھا اس کے بعد صرف تکبیر ہوتی تھی ، جب نماز کھڑی ہونے لگے ، اسی اذان کے وقت خرید و فروخت حرام ہوتی ہے ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے پہلے کی اذان کا حکم صرف اس لئے دیا تھا کہ لوگ جمع ہو جائیں ۔ جمعہ میں آنے کا حکم آزاد مردوں کو ہے عورتوں ، غلاموں اور بچوں کو نہیں ، مسافر مریض اور تیمار دار اور ایسے ہی اور عذر والے بھی معذور گنے گئے ہیں جیسے کہ کتب فروغ میں اس کا ثبوت موجود ہے ۔ پھر فرماتا ہے بیع کو چھوڑ دو یعنی ذکر اللہ کے لئے چل پڑو تجارت کو ترک کر دو ، جب نماز جمعہ کی اذان ہوجائے علماء کرام رضی اللہ عنہم کا اتفاق ہے کہ اذان کے بعد خرید و فروخت حرام ہے ، اس میں اختلاف ہے کہ دینے والا اگر دے تو وہ بھی صحیح ہے یا نہیں؟ ظاہر آیت سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی صحیح نہ ٹھہرے گا واللہ اعلم ، پھر فرماتا ہے بیع کو چھوڑ کر ذکر اللہ اور نماز کی طرف تمہارا آنا ہی تمہارے حق میں دین دنیا کی بہتری کا باعث ہے اگر تم میں علم ہو ۔ ہاں جب نماز سے فراغت ہو جائے تو اس مجمع سے چلے جانا اور اللہ کے فضل کی تلاش میں لگ جانا ، تمہارے لئے حلال ہے ۔ عراک بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر لوٹ کر مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے اور یہ دعا پڑھتے ( ترجمہ ) یعنی اے اللہ میں نے تیری آواز پر حاضری دی اور تیری فرض کردہ نماز ادا کی پھر تیرے حکم کے مطابق اس مجمع سے اٹھ آیا ، اب تو مجھے اپنا فضل نصیب فرما تو سب سے بہتر روزی رساں ہے ( ابن ابی حاتم ) اس آیت کو پیش نظر رکھ کر بعض سلف صالحین نے فرمایا ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن نماز جمعہ کے بعد خرید و فروخت کرے اسے اللہ تعالیٰ ستر حصے زیادہ برکت دے گا ۔ پھر فرماتا ہے کہ خرید فروخت کی حالت میں بھی ذکر اللہ کیا کرو دنیا کے نفع میں اس قدر مشغول نہ ہو جاؤ کہ آخروی نفع بھول بیٹھو ۔ حدیث شریف میں ہے جو شخص کسی بازار جائے اور وہاں ( ترجمہ ) پڑھے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور ایک لاکھ برائیاں معاف فرماتا ہے ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں بندہ کثیر الذکر اسی وقت کہلاتا ہے جبکہ کھڑے بیٹھے لیٹے ہر وقت اللہ کی یاد کرتا رہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 یہ اذان کس طرح دی جائے، اس کے الفاظ کیا ہوں ؟ یہ قرآن میں کہیں نہیں ہے۔ البتہ حدیث میں ہے جس سے یہ معلوم ہوا کہ حدیث کے بغیر قرآن کو سمجھنا ممکن ہے نہ اس پر عمل کرنا ہی۔ جمعہ کو، جمعہ اس لئے کہتے ہیں کہ اس دن اللہ تعالیٰ ہر چیز کی پیدائش سے فارغ ہوگیا تھا، یوں گویا تمام مخلوقات کا اس دن اجتماع ہوگیا، یا نماز کے لئے لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے اس بنا پر کہتے ہیں (فتح القدیر) فَاَسْعَوْا کا مطلب یہ نہیں کہ دوڑ کر آؤ، بلکہ یہ ہے کہ اذان کے بعد فوراً کاروبار بند کر کے آجاؤ۔ کیونکہ نماز کے لیے دوڑ کر آنا ممنوع ہے، وقار اور سکینت کے ساتھ آنے کی تاکید کی گئی ہے۔ (صحیح بخاری) بعض حضرات نے ذروا البیع (خریدو فروخت) چھوڑ دو سے استدلال کیا ہے کہ جمعہ صرف شہروں میں فرض ہے اہل دیہات پر نہیں۔ کیونکہ کاروبار اور خریدوفروخت شہروں میں ہی ہوتی ہے دیہاتوں میں نہیں۔ حالانکہ اول تو دنیا میں کوئی ایسا گاؤں نہیں جہاں خریدو فروخت اور کاروبار نہ ہوتا ہو اس لیے یہ دعوٰی خلاف واقعہ دوسرا بیع اور کاروبار سے مطلب دنیا کے مشاغل ہیں وہ جیسے بھی اور جس قسم کے بھی ہوں۔ اذان جمعہ کے بعد انہیں ترک کردیا جائے۔ کیا اہل دیہات کے مشاغل دنیا نہیں ہوتے ؟ کیا کیھتی باڑی کاروبار اور مشاغل دنیا سے مخلتف چیز ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤] سنت کے واجب الاتباع ہونے پر دلیل :۔ انداز بیان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات کے نزول سے پیشتر اذان اور جمعہ دونوں چیزوں سے خوب متعارف تھے۔ انہیں ہدایت صرف یہ دی جارہی ہے کہ جب جمعہ کے لیے اذان ہوجائے تو خریدو فروخت اور دوسرے دنیوی مشاغل سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر فوراً جمعہ کا خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے مسجد میں پہنچ جاؤ۔ حالانکہ قرآن میں نہ کہیں اذان کے کلمات کا ذکر ہے اور نہ نماز جمعہ کی ترکیب کا۔ یہ باتیں رسول اللہ کی بتائی ہوئی ہیں۔ جن کی قرآن سے توثیق کردی گئی ہے۔ اس سے صاف واضح ہے کہ جس طرح قرآن کے احکام واجب الاتباع ہیں اسی طرح رسول اللہ کے احکام بھی واجب الاتباع ہیں اور جو شخص صرف قرآن کو واجب الاتباع سمجھتا ہے وہ دراصل قرآن کا بھی منکر ہے۔ اذان کی ابتدا کیسے ہوئی ؟ اس کے کلمات اور مسائل و فضائل کیا ہیں ؟ اس کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :۔- خ اذان سے متعلق احادیث اور مسائل :۔ ١۔ عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ مسلمان جب مدینہ آئے تو نماز کے لیے یوں ہی جمع ہوجایا کرتے۔ ایک وقت ٹھیرا لیتے نماز کے لیے اذان نہیں ہوتی تھی۔ ایک دن انہوں نے اس بارے میں گفتگو کی تو بعض کہنے لگے نصاریٰ کی طرح ایک گھڑیال بنا لو اور بعض کہنے لگے یہود کی طرح ایک بگل بنالو۔ سیدنا عمر نے کہا : ایک آدمی کیوں نہیں مقرر کرلیتے جو نماز کے لیے ندا کردیا کرے۔ چناچہ آپ نے (اسی رائے کو پسند کرتے ہوئے) بلال (رض) سے فرمایا : بلال اٹھو اور نماز کے لیے اذان کہو۔ (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب بدء الاذان) - ٢۔ سیدنا انس (رض) کہتے ہیں کہ بلال (رض) کو یہ حکم دیا گیا کہ اذان کے الفاظ دو دو بار اور تکبیر کے الفاظ ایک ایک بار کہیں۔ بجز قد قامت الصلوۃ کے۔ (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب الاذان مثنیٰ مثنیٰ ) - ٣۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ جہاد کرتے۔ آپ صبح ہونے تک ہمیں چڑھائی کرنے سے روکے رکھتے۔ پھر اگر وہاں (صبح کی) اذان سن لیتے تو ان پر حملہ نہ کرتے اور اگر اذان کی آواز نہ آتی تو پھر حملہ کرتے (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب ما یحقن بالاذان من الدمائ) - ٤ـ۔ ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب تم اذان سنو تو جو کچھ مؤذن کہے وہی کچھ تم بھی کہتے جاؤ (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب مایقول اذاسمع المنادی) البتہ جب وہ حی علی الصلٰوۃ کہے تو لاحول ولا قوۃ الا باللٰہ کہے۔- ٥۔ جابر بن عبداللہ انصاری (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اذان سننے کے بعد جو شخص یہ دعا کرے : اللٰہم ربَّ ھذہ الدعوۃِ التامۃ والصلٰوۃ القائمۃ اٰتِ محمد نالوسیلۃَ والفضیلۃَ وابعثہ مقامًا محمودَ نِ الذی وعدتہ قیامت کے دن میری شفاعت کا مستحق ہوگا۔ (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب الدعاء عندالندائ) - ٦۔ عبداللہ بن حارث بصری کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس (رض) نے ہم کو (جمعہ کا) خطبہ سنایا۔ اس دن کیچڑ تھی۔ جب مؤذن حی علیٰ الصلوۃ کہنے کو تھا تو انہوں نے اسے حکم دیا کہ یوں پکارے الصلوٰۃ فی الرحال (اپنے اپنے ٹھکانوں پر ہی نماز پڑھ لو) یہ سن کو لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ ابن عباس (رض) نے کہا : یہ کام تو اس ہستی نے کیا جو مجھ سے بہتر تھے اور اس میں شک نہیں کہ جمعہ واجب ہے۔ (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب الکلام فی الاذان) - ٧۔ عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : بلال تو رات رہے سے (سحری کی) اذان دیتا ہے اور جب تک ام مکتوم کا بیٹا اذان نہ دے۔ تم لوگ کھاتے پیتے رہو اور ام مکتوم کے بیٹے (عبداللہ) اندھے تھے۔ وہ اس وقت تک اذان نہ دیتے جب تک لوگ یہ نہ کہتے کہ صبح ہوگئی، صبح ہوگئی۔ (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب اذان الاعمٰی۔۔ ) - ٨۔ ابو جحیفہ کہتے ہیں کہ میں نے بلال (رض) کو اذان دیتے دیکھا اور میں بھی (ان کی طرح اذان میں ادھر ادھر منہ پھیرنے لگا۔ (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب ھل یتبع الموذن فاہ) - خ نماز جمعہ سے متعلق احادیث اور مسائل :۔ آپ جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو نماز جمعہ کا آغاز کردیا گیا تھا۔ اب جمعہ کے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :- ١۔ سیدنا ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جمعہ کے دن ہر جوان پر غسل واجب ہے اور مسواک کرنا اور اگر میسر ہو تو خوشبو بھی لگانا۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب الطیب للجمعۃ) - ٢۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب کوئی تم میں سے جمعہ کی نماز کے لیے آئے تو غسل کرے۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب فضل الغسل یوم الجمعۃ) - ان دو احادیث سے معلوم ہوا کہ :- ١۔ جمعہ فرض کفایہ ہے فرض عین نہیں۔ نہ یہ بچوں پر فرض ہے نہ بوڑھوں پر، نہ عورتوں پر نہ مسافروں یا مریضوں پر نیز بارش کے دن کسی پر بھی فرض نہیں جیسا کہ اذان سے متعلق حدیث نمبر ٦ سے بھی واضح ہوتا ہے۔- ٢۔ جمعہ کے دن غسل کرنا ہر اس شخص پر واجب ہے جس پر جمعہ واجب ہے وہ غسل کرکے نماز کے لیے جائے جیسا کہ ابو سعید خدری کی حدیث سے واضح ہے۔ تاہم بعض علماء نے یہاں رسول اللہ کے حکم کو وجوب کے لیے نہیں استحباب کے معنوں میں لیا ہے اور ان کی دلیل سیدہ عائشہ (رض) کی وہ حدیث ہے جس میں مذکور ہے کہ لوگ دور دور سے اور بلند مقامات سے آتے۔ انہوں نے اون کی عبائیں پہنی ہوتیں اور گردوغبار اور پسینہ کی وجہ سے ان سے بو آتی تھی۔ تو آپ نے انہیں نہا کر آنے کا حکم دیا تھا۔ (مسلم۔ کتاب الجمعہ) اور جب ایسی صورت نہ ہو تو نہا کر آنا واجب نہیں۔ البتہ مستحب ضرور ہے۔- ٣۔ مسواک کرنا اور خوشبو لگانا سنت اور مستحب ہے واجب نہیں۔- ٤۔ سیدنا انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ آپ جمعہ کی نماز اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب وقت الجمعۃ۔۔ ) - ٥۔ سیدنا عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جمعہ کی اذان ہوتے ہی خریدو فروخت حرام ہوجاتی ہے اور عطاء بن ابی رباح نے کہا کہ ہر پیشہ (اور شغل) حرام ہوجاتا ہے۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب المشی الی الجمعۃ) - ٦۔ سیدنا سائب بن یزید کہتے ہیں کہ آپ کے زمانہ میں اور ابوبکر صدیق (رض) اور عمر کے زمانہ میں جمعہ کے دن ایک ہی اذان ہوا کرتی۔ جب امام منبر پر بیٹھ جاتا۔ سیدنا عثمان (رض) کے زمانہ میں جب مدینہ کی آبادی بہت بڑھ گئی تو انہوں نے زوراء (مدینہ کے بازار میں ایک مقام کا نام) پر تیسری اذان (یعنی اقامت سمیت) بڑھائی۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب الاذان یوم الجمعۃ) - ٧۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ (جمعہ کے دن) دو خطبے پڑھتے اور ان کے درمیان بیٹھتے۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب القعدۃ بین الخطبتین یوم الجمعۃ) - ٨۔ سیدنا جابر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص جمعہ کے دن اس وقت آیا جب آپ خطبہ دے رہے تھے۔ آپ نے اس سے پوچھا : تو نے (تحیۃ المسجد کی) نماز پڑھی ؟ اس نے کہا : نہیں، آپ نے فرمایا : اٹھ دو رکعتیں (ہلکی پھلکی) پڑھ لے۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب من جاء والامام یخطب صلٰٰی رکعتین خفیفتین) - ٩۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ جمعہ کے بعد مسجد میں کچھ نہ پڑھتے۔ جب اپنے گھر لوٹ کر آتے تو دو رکعتیں پڑھتے۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب الصلٰٰوۃ بعد الجمعۃ و قبلہا) - ١٠۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب تو اپنے ساتھی سے جمعہ کے دن یوں کہے : چپ رہ اور امام خطبہ دے رہا ہو تو تو نے لغو حرکت کی۔ (بخاری۔ کتاب الجمعۃ۔ باب الانصات یوم الجمعۃ۔۔ ) - ١١۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ مسجد نبوی کے بعد پہلا جمعہ جو ہوا وہ عبدالقیس کی مسجد میں ہوا جو بحرین میں جواثیٰ (جگہ کا نام) میں تھی۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب الجمعۃ فی القریٰ والمدن) اس سے معلوم ہوا کہ جمعہ ہر گاؤں میں ادا کرنا چاہیے۔ شہر ہونا کوئی شرط نہیں۔- ١٢۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جمعہ کے دن فرشتے جامع مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر آنے والوں کے باری باری نام لکھتے ہیں۔ جو پہلے آتا ہے اس کی مثال ایسے شخص کی ہے جو اونٹ کی قربانی کرے پھر دوسرے کی جیسے گائے کی قربانی کرے پھر تیسرے کی جو مینڈھا، پھر چوتھے کی جو مرغی، پھر پانچویں کی جو انڈا قربانی دے۔ پھر جب امام (خطبہ کے لئے) نکلتا ہے تو فرشتے اپنے دفتر لپیٹ لیتے ہیں اور خطبہ سننے لگ جاتے ہیں۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب الاستماع الی الخطبۃ) - ١٣۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی نے فرمایا کہ : جن دنوں میں سورج طلوع ہوتا ہے ان میں سے سب سے بہتر دن جمعہ کا دن ہے۔ اسی جمعہ کے دن سیدنا آدم (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ اسی دن جنت میں داخل کیے گئے اور اسی دن نکالے گئے۔ اور قیامت بھی اسی دن قائم ہوگی (مسلم۔ کتاب الجمعہ) - خلاف سنت امور :۔ اب ہم چند ایسی خلاف سنت باتوں کا ذکر کرتے ہیں جو آج کل ہم اپنے معاشرہ میں اور بالخصوص ہمارے علماء میں پائی جاتی ہیں :- ١۔ ان میں پہلی چیز جمعہ کے وقت میں تاخیر ہے۔ چناچہ ایاس بن سلمہ بن اکوع اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب ہم جمعہ کی نماز آپ کے ساتھ ادا کرکے واپس لوٹتے تھے تو ہم دیواروں کا سایہ نہ پاتے تھے جس کی آڑ میں آئیں۔ اور جابر بن عبداللہ کی حدیث کے مطابق زوال آفتاب شروع ہوتے ہی آپ کے ساتھ نماز جمعہ ادا کرلیا کرتے تھے۔ (مسلم۔ کتاب الجمعہ) - خ نماز جمعہ کی ادائیگی میں تاخیر :۔ ان دونوں احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ آپ جمعہ کا خطبہ زوال آفتاب تک دے کر فارغ ہوجایا کرتے تھے مگر ہمارے ہاں یہ رواج بڑھ چکا ہے کہ جمعہ کا خطبہ بھی زوال آفتاب سے کافی دیر بعد شروع ہوتا ہے اور بعض مساجد کا تو یہ حال ہے کہ ان کے جمعہ ختم ہونے تک عصر کا اول وقت آجاتا ہے۔- سنتوں کے لئے وقفہ :۔ ٢۔ بعض مساجد بالخصوص احناف کی مساجد میں پہلے خطبہ کے بعد نماز جمعہ کی سنتوں کے لیے وقفہ دیا جاتا ہے۔ یہ بات واضح طور پر سنت کے خلاف ہے۔ آپ نے ایسے دیر سے آنے والے کو خطبہ کے دوران ہی دو ہلکی رکعات ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ لہذا خطبہ کے بعد سنتوں کے لیے وقفہ دینے کا کوئی جواز نہیں۔- خطبہ کو لمبا اور نماز کو مختصر کرنا :۔ ٣۔ تیسری خلاف سنت بات خطبہ کو لمبا کرنا اور نماز کو مختصر کرنا ہے۔ چناچہ واصل بن حیان کہتے ہیں کہ ابو وائل نے کہا کہ ہمیں عمار (رض) نے نہایت جامع اور بلیغ خطبہ دیا۔ پھر جب وہ منبر سے اترے تو ہم نے کہا : اے ابو الیقظان اگر آپ ذرا اس خطبہ کو لمبا کرتے تو بہت بہتر ہوتا۔ تب عمار (رض) نے کہا : میں نے رسول اللہ سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ آدمی کا نماز کو لمبا کرنا اور خطبہ کو مختصر کرنا اس کے سمجھدار ہونے کی نشانی ہے۔ سو تم نماز کو لمبا کیا کرو اور خطبہ کو چھوٹا۔ اور بعض بیان تو جادو ہوتا ہے (یعنی جامع اور مختصر بیان جادو کا سا اثر رکھتا ہے) (مسلم۔ کتاب الجمعہ) اور جابر بن سمرۃ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ کی نماز بھی درمیانہ تھی اور خطبہ بھی درمیانہ (مسلم۔ کتاب الجمعہ) - اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ رسول اللہ کی جمعہ کی نماز کتنی لمبی ہوتی تھی تو اس کے متعلق ابن ابی رافع کہتے ہیں کہ مروان نے ابوہریرہ (رض) کو مدینہ میں خلیفہ مقرر کیا اور ابوہریرہ (رض) نے جمعہ کی نماز پڑھائی تو آپ نے پہلی رکعت میں سورة جمعہ اور دوسری میں المنافقون پڑھی۔ پھر میں ان سے ملا اور کہا کہ آپ نے وہی سورتیں پڑھیں جو سیدنا علی کوفہ میں پڑھتے تھے۔ اس پر ابوہریرہ (رض) کہنے لگے کہ میں نے خود رسول اللہ کو جمعہ کے دن یہی سورتیں پڑھتے سنا ہے (یعنی سیدنا علی (رض) کی تقلید میں نہیں بلکہ رسول اللہ کی اتباع میں، میں نے یہ سورتیں پڑھی ہیں) (مسلم۔ کتاب الجمعہ) اور سیدنا لقمان بن بشیر کہتے ہیں کہ رسول اللہ عیدوں اور جمعہ میں سبح اسم ربک الاعلیٰ اور ھل اتاک حدیث الغاشیۃ پڑھا کرتے تھے اور جب جمعہ اور عید دونوں ایک دن میں ہوتیں تب بھی انہیں دونوں سورتوں کو دونوں نمازوں میں پڑھتے تھے (مسلم۔ کتاب الجمعہ) - یہ تو آپ کی درمیانہ درجہ کی نماز کا حال تھا اور آپ کے خطبات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا کوئی بھی خطبہ بیس منٹ سے زیادہ لمبا کبھی نہیں ہوا۔ گویا سنت طریقہ یہ ہے کہ خطبہ پر زیادہ سے زیادہ بیس منٹ اور دو رکعت نماز پر کم از کم دس منٹ صرف ہوں۔ اب اس کے مقابلہ میں موجودہ صورت حال پر غور فرما لیجیے اہلحدیثوں کی مساجد میں، جو ہر ہر بات میں کتاب و سنت کے متبع ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں، کوئی ہی مسجد ایسی ہوگی جہاں خطبہ کا وقت نصف گھنٹہ ہو۔ ورنہ پون گھنٹہ بلکہ اکثر مساجد میں ایک گھنٹہ خطبہ کے لیے وقت مقرر کیا جاتا ہے اور احناف اور بالخصوص بریلوی علماء تو ڈیڑھ گھنٹہ بلکہ اس سے بھی زیادہ وقت خطبہ میں صرف کردیتے ہیں۔ یہ بات صریحاً خلاف سنت ہے۔ علماء حضرات اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ہمیں عربی کے علاوہ مقامی زبان یا اردو میں بھی اس کی تشریح کرنا پڑتی ہے اگر اس کا لحاظ رکھا جائے تو بھی آدھ گھنٹہ اور زیادہ سے زیادہ پون گھنٹہ بہت کافی ہے۔ کیونکہ تجربہ شاہد ہے کہ مختصر وقت میں بھی بہت سی کام کی باتیں کہی جاسکتی ہیں۔ پھر جب خطیب حضرات خطبہ میں کافی دیر لگا دیتے ہیں تو اس کی کسر جمعہ میں چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھنے سے نکالتے ہیں۔ حتیٰ کہ میں نے خود ایک ایسے ہی خطیب کو نماز جمعہ کی پہلی رکعت میں سورة الفیل اور دوسری میں سورة القریش پڑھتے سنا ہے۔ گویا خطبہ اور نماز دونوں ہی خلاف سنت ہوئے۔ خطبہ انتہائی لمبا اور نماز انتہائی مختصر۔- اب اس طویل خطبہ کا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ اکثر لوگ آتے ہی اس وقت ہیں جب نماز جمعہ کا وقت قریب ہو۔ پھر خطیب حضرات ان دیر سے آنے والوں کو وہ حدیث سنانے لگتے ہیں کہ جو شخص خطبہ جمعہ سننے کے لیے خطبہ شروع ہونے سے پیشتر سب سے پہلے آئے اس کو ایک اونٹ کی قربانی کا ثواب ملتا ہے اور دوسرے نمبر پر آنے والے کو۔۔ الحدیث۔ گویا انہیں اپنے خلاف سنت کام کا تو احساس تک نہیں ہوگا۔ اور اس کے نتیجہ میں دیر سے پہنچنے والوں کو حدیث سنا کر کو سنے لگتے ہیں۔- اس تطویل خطبہ کی وجہ جو میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ خطیب حضرات کی اصل آرزو یہ ہوتی ہے کہ ان کی تقریر کو زیادہ سے زیادہ لوگ سنیں اور اسے سراہا اور پسند کیا جائے۔ لہذا وہ مزید لوگوں کی انتظار میں دیر کرتے جاتے ہیں۔ اور جمعہ پڑھنے والوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ ابھی مولوی خطبہ میں بہت دیر لگائے گا۔ لہذا نماز سے ذرا پہلے چلے جائیں گے۔ اس دوہرے عمل سے خطبہ تو خوب لمبا ہوجاتا ہے۔ پھر اس کی کسر نماز سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔- انداز خطاب اور موضوع خطاب :۔ ٤۔ چوتھی خلاف سنت بات انداز خطاب اور موضوع خطاب ہے۔ سیدنا جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ جب خطبہ پڑھتے تو آپ کی آنکھیں سرخ ہوجاتیں اور آواز بلند ہوجاتی اور غصہ زیادہ ہوجاتا۔ گویا وہ ایک ایسے لشکر سے ڈرانے والے تھے جو بس صبح و شام ہی تم پر پہنچنے والا ہے اور فرماتے کہ میں اس وقت بھیجا گیا ہوں کہ میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہیں پھر آپ اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کو ملا دیتے۔ پھر آپ اللہ کی حمد کے بعد فرماتے کہ ہر بات سے بہتر اللہ کی کتاب ہے اور ہر طریقہ سے بہتر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طریق ہے اور نئے نئے کام نکالنا سب سے برا کام ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ پھر فرماتے میں ہر مومن کا اس کی اپنی جان سے بھی زیادہ خیرخواہ ہوں۔ جو شخص مال چھوڑ جائے وہ تو اس کے گھر والوں کا ہے اور جو قرض یا چھوٹے بچے چھوڑ جائے تو اس قرض کی ادائیگی یا بچوں کی پرورش میرے ذمہ ہے (مسلم۔ کتاب الجمعہ) نیز ام ہشام بنت حارثہ بن نعمان فرماتی ہیں کہ ہمارا اور رسول اللہ کا تنور ایک ہی تھا۔ دو برس یا ایک برس اور کچھ ماہ تک (یعنی اتنی مدت ہم ان کی ہمسائیگی میں رہے) اس دوران میں نے رسول اللہ ہی کی زبان سے سورة ق سیکھی تھی۔ آپ اس کو ہر جمعہ میں منبر پر پڑھتے تھے جب لوگوں کو خطبہ سناتے (مسلم۔ کتاب الجمعہ) - ان دو احادیث سے مندرجہ ذیل امور پر روشنی پڑتی ہے :- ١۔ آپ کا خطاب یا تقریر جوشیلی ہوتی تھی۔ راگ اور سرتال والی نہیں ہوتی تھی جبکہ آج کل خطیب حضرات اپنی پوری کوشش سے راگ اور سر والا لہجہ سیکھتے ہیں۔ وہ قرآنی آیات کے علاوہ اپنی باتوں کو بھی اس طرح سریلی آواز میں پیش کرتے ہیں سامعین جھومنے اور سبحان اللہ، سبحان اللہ کے نعرے لگانے لگیں۔ اور جتنے زیادہ ایسے نعرے لگیں اتنے ہی خطیب حضرات اسے اپنی تقریر کی پذیرائی سمجھ کر پھولے نہیں سماتے۔ اور ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کی تقریر کے دوران ایسے نعرے لگتے رہیں۔- ٢۔ خطاب کے دوران آپ کا موضوع ایک نہیں بلکہ متفرق ہوتے تھے۔ گویا آپ کا انداز خطاب تقریر کا نہیں بلکہ وعظ و نصیحت کا ہوتا تھا۔ آپ کتاب اللہ اور سنت رسول سے تمسک کی تاکید فرماتے اور بدعات سے اجتناب کا حکم دیتے اور اس کے انجام سے ڈراتے تھے اور سب سے پہلے اللہ کی حمدوثنا بیان فرماتے تھے اور یہی خطبہ مسنونہ کے موضوع ہیں۔- خطبہ جمعہ کا موضوع دراصل ذکر اللّٰہ ہے جیسے اس سورة میں فرمایا : (فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ ۝) 62 ۔ الجمعة :9) اور ذکر اللہ سے مراد سارا قرآن ہے۔ تاہم حدیث نمبر ٢ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ خطبہ میں سورة ق پڑھنا زیادہ پسند فرماتے تھے۔ آپ سورة ق کو مدنظر رکھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے بعث الموت پر دلائل پیش کئے ہیں۔ آخرت کا انکار کرنے والی چند اقوام کا مختصراً انجام بتایا ہے۔ اور انسان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اس کے اعمال کا ریکارڈ ساتھ ساتھ تیار کیا جارہا ہے اور اس کے مطابق اس کا مؤاخذہ ہونے والا ہے۔ پھر کچھ جنت اور دوزخ کا ذکر ہے اور سورت کے آخر میں خلاصہ کے طور پر فرمایا کہ : (فَذَكِّرْ بالْقُرْاٰنِ مَنْ يَّخَافُ وَعِيْدِ 45؀ ) 50 ۔ ق :45) اور حدیث نمبر ١ سے بھی واضح ہوتا ہے کہ آپ کا اصل موضوع لوگوں کو ان کے اخروی انجام سے ڈرانا ہوتا تھا اور یہ بات آپ بڑے جوش و خروش سے بتایا کرتے تھے۔- اب دیکھئے ہمارے ہاں خطبات جمعہ میں وعظ و نصیحت اور انذار وتبشیر کا بیان تقریباً مفقود ہے۔ ہمارے ہاں عمومی رواج ایک موضوع پر تقریر کرنے کا ہے یہ بھی اس صورت میں تو درست ہے کہ جو کچھ بیان کیا جائے کتاب و سنت سے ہی اور اس کی حدود میں رہ کر بیان کیا جائے۔ مگر ہمارے ہاں تو خطبہ مسنونہ اور قرآن کی ایک آدھ آیت محض برکت کے لیے پڑھ لی جاتی ہے جسے عامۃ الناس سمجھتے ہی نہیں بعد میں اولیاء اللہ کی حکایات، ان کے تصرفات اور ان کی کرامات اس انداز سے بیان کی جاتی ہیں کہ اگر وہ خدا نہیں تو کم از کم اس سے کم درجہ کے بھی نہیں ہوتے مثلاً مولانا روم کا یہ شعر آپ نے خطبات جمعہ میں اکثر سنا ہوگا۔- اولیاء را ہست قدرت از الٰہ۔۔ تیر جستہ باز گرد انند زراہ - یعنی اولیاء کو اللہ کی طرف سے اس قدر قدرت حاصل ہوتی ہے کہ وہ چھوڑے ہوئے تیر کو راستہ سے ہی واپس لاسکتے ہیں۔- یہ واضح رہے کہ مشرکین مکہ بھی اپنے بتوں کے متعلق یہی عقیدہ رکھتے تھے کہ ان کو جو تصرفات حاصل ہیں وہ اللہ کے عطا کردہ ہیں۔ (مسلم۔ کتاب الحج۔ تلبیۃ المشرکین) پھر ان کی محیرالعقول اور مہیب قسم کی کرامات بیان کی جاتی ہیں جن پر عوام کی طرف سے سبحان اللہ کے نعرے لگنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اور اگر کسی کو زیادہ جوش آجائے تو اجتماعی نعرے شروع ہوجاتے ہیں۔ پہلے نعرہ تکبیر، نعرہ رسالت اور پھر نعرہ حیدری۔ اب سوال یہ ہے کہ صدر اول میں مساجد میں ایسے نعرے بازی ہوتی تھی ؟ اور کیا یہ خالص بدعت نہیں ؟- خ ہمارے پسندیدہ موضوع :۔ ہمارے خطیب حضرات کا دوسرا پسندیدہ موضوع اپنے اختلافی عقائد کی نشرواشاعت اور ان کو فروغ بخشنا ہے۔ پھر ان عقائد کو سنجیدہ طریق پر پیش نہیں کیا جاتا بلکہ فریق مخالف کو طنزو مزاح، تضحیک اور طعن و ملامت کا ہدف بنا کر فرقہ وارانہ فسادات کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔ اور خطیب مخالف فریق پر جتنا زیادہ کیچڑ اچھالنا اور انہیں طعن و ملامت کرنا جانتا ہو اتنا ہی وہ اپنے لوگوں میں ہر دلعزیز اور کامیاب خطیب متصور ہوتا ہے۔ جس خطیب کو یہ فن آگیا۔ بس اس کے وارے نیارے ہوگئے اسے جلسوں جلوسوں میں مدعو کیا جاتا اور گرانقدر نذرانے پیش کئے جاتے ہیں۔ عوام کا ذوق بھی کچھ ایسا بن جاتا ہے کہ وہ ایسے خطیب کو پسند کرتے ہیں۔ جو ایک تو گیت کے انداز میں سریلی آواز سے تقریر کرسکتا ہو دوسرے طعن وتشنیع میں اتنا فن کار ہو کہ فریق مخالف کے بخیے ادھیڑ کے رکھ دے۔ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا تھا کہ (اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ 96؀) 23 ۔ المؤمنون :96) مگر یہ بات نہ ہمارے خطیب حضرات کو اچھی لگتی ہے اور نہ ہمارے عوام کو۔ کیا یہی چیز اللہ کا ذکر ہے جس کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ (فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ ۝) 62 ۔ الجمعة :9) علاوہ ازیں فرقہ بازی اور بدعات کے فروغ میں لاؤڈ سپیکر نہایت کارگر ہتھیار ثابت ہوا ہے۔ جب لاؤڈ سپیکر کی ایجاد معرض وجود میں آئی تو اس وقت علماء نے کہا تھا کہ اس میں سے شیطان بولتا ہے لہذا اس کے استعمال کو ممنوع قرار دیا گیا مگر آج یہ صورت حال ہے کہ جو نئی مسجد تعمیر ہوتی ہے اس کی چھت پڑنے سے پیشتر یہی لاؤڈ سپیکر کا اہتمام ضروری سمجھا جاتا ہے اور ہر فریق اس کا فائدہ یہی بتاتا ہے کہ اس سے کتاب و سنت کا پیغام لوگوں کے گھروں تک پہنچایا جائے گا۔ مگر عملاً اس سے دوسرے فریق پر سنگ باری مقصود ہوتی ہے۔ اگر مخالف فریق کے لاؤڈ سپیکر کے ہارن دو ہوں تو یہ فریق چار ہارن لگوائے گا۔ اور اس کے چار ہارن ہو تو یہ چھ لگوائے گا۔ حالانکہ مسجد میں جمع ہونے والے لوگوں کے لیے سرے سے لاؤڈ سپیکر کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ پھر ہمارے خطیب اور علماء حضرات کا بھی مزاج کچھ ایسا بن چکا ہے کہ وہ لاؤڈ سپیکر کے بغیر تقریر کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ چناچہ عام طور پر مشاہدہ میں آیا ہے کہ صرف گنتی کے چند نمازی سامنے بیٹھے ہیں اور خطیب صاحب لاؤڈ سپیکر کھول کر درس یا خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں لاؤڈ سپیکر کی قطعاً ضرورت نہیں ہوتی مگر اس بات کا کیا علاج کہ مولانا لاؤڈ سپیکر کے بغیر درس یا خطبہ ارشاد فرمانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں اور اس کا فائدہ یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کی یہ آواز لوگوں کے گھروں تک پہنچ رہی ہے۔ اور عملاً یہ ہوتا ہے کہ جب ہر طرف سے اور ہر مسجد سے لوگوں کے گھروں تک یہ آوازیں پہنچنا شروع ہوجاتی ہیں۔ تو لوگ ایسے شوروغل اور سمع خراشی سے بیزار اور متنفر ہوجاتے ہیں اور بعض لوگ تو محض اسی وجہ سے کسی مسجد کے قرب و جوار میں مکان بنانا پسند نہیں کرتے۔ پھر معاشرہ میں کچھ لوگ مریض بھی ہوتے ہیں جنہیں اس قسم کے شوروغل سے بہت تکلیف ہوتی ہے۔- خ لاؤڈ سپیکر کے نقصانات :۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ لاؤڈ سپیکر بدعات اور بدعی عقائد و اعمال کے فروغ کے لیے ایک نہایت کامیاب ہتھیار ہے۔ مثلاً اذان سے پہلے درودشریف پڑھنے کی بدعت کو لاؤڈ سپیکر ہی کی وجہ سے فروغ حاصل ہوا ہے۔ اگر لاؤڈ سپیکر کو قانوناً بند کردیا جائے تو یہ بدعت تھوڑی ہی مدت بعد از خود دم توڑ دے گی۔ کیونکہ اس کی اصل بنیاد ہے ہی نہیں جس پر یہ قائم رہ سکے۔ یہی حال دوسری بدعات کا ہے اور یہ بات بھی مشاہدہ میں آچکی ہے کہ جہاں فرقہ وارانہ تقریروں کی وجہ سے فسادات ہو رہے ہوں وہاں حکومت لاؤڈ سپیکر کے استعمال پر پابندی لگا دیتی ہے۔ تو اس کے نتائج نہایت مفید برآمد ہوتے ہیں۔ اور وہاں فرقہ وارانہ فضا ماند پڑجاتی ہے۔ گویا آج کے دور میں بدعات اور بدعی عقائد کا سب سے بڑا سہارا یہی لاؤڈ سپیکر ہے۔ اور ہمیں یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ علماء نے لاؤڈ سپیکر سے متعلق ابتدائ ً جو رائے قائم کی تھی کہ : اس میں شیطان بولتا ہے وہ بہت حد تک درست تھی۔ رہے وہ عقائد و اعمال جو کتاب و سنت سے ثابت ہیں تو ان کے لیے لاؤڈ سپیکر کی قطعاً ضرورت نہیں۔ وہ اس کے بغیر بھی ہر دور میں زندہ و ثابت رہ سکتے ہیں کیونکہ وہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں۔- جمعہ کی غرض وغایت :۔ اب ذرا موضوع خطاب سے متعلقہ سیدنا جابر بن عبداللہ (رض) سے مروی پہلی حدیث کا آخری حصہ سامنے لائیے۔ آپ فرماتے ہیں کہ : میں ہر مومن کا اس کی اپنی جان سے بھی زیادہ خیر خواہ ہوں جس سے معلوم ہوا کہ جمعہ کی ایک اہم غرض مسلمانوں کی خیرخواہی اور ان کی باہمی صلاح و فلاح ہے نہ کہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا، سنگ باری کرنا اور فرقہ وارانہ فسادات کو پھیلا کر عوام الناس کو سرے سے اسلام ہی سے متنفر بنادینا۔ اس کے بعد فرمایا کہ : جو شخص مال چھوڑ جائے وہ تو اس کے وارثوں کا ہے اور جو قرض یا چھوٹے بچے چھوڑ جائے تو اس قرض کی ادائیگی یا بچوں کی پرورش میرے ذمہ ہے اس سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے دن مسلمانوں کے اس اجتماع کی ایک اہم غرض ان کی معاشی حالات کا جائزہ لینا اور محتاج اور ناتواں افراد کی کفالت اور مقروضوں کے قرض کی ادائیگی کا اہتمام کرنا بھی ہے۔ گویا جمعہ فرض تو اس غرض کے لیے کیا گیا تھا کہ مسلمان زیادہ سے زیادہ تعداد میں اکٹھے ہو کر اللہ کا ذکر سنیں اس کی حمد و ثنا بیان کریں۔ ایک دوسرے کی خیر خواہی اور باہمی اصلاح و فلاح کے امور پر غور کریں۔ اپنے معاشی حالات کا جائزہ لیں۔ محتاج اور یتیموں، بیواؤں اور ناداروں کی کفالت کا اہتمام کریں تاکہ ان میں محبت، مروت، ہمدردی، ایثار اور اخوت جیسے بلند پایہ اخلاق فروغ پائیں۔ لیکن ہمارے سامنے جمعہ کی ادائیگی کے اغراض ان سے یکسر مختلف ہوتے ہیں جنہیں ہم غیر شعوری طور پر اور عادتاً بجا لاتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ ۔۔۔۔۔: اہل کتاب کی شقاوت اور امیین کی سعادت میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہود و نصاریٰ پر جمعہ کا دن فرض کیا گیا تو انہوں نے اسے قبول کرنے میں اختلاف کیا ۔ یہود نے اپنے لیے ہفتے کا دن اور نصاریٰ نے اتوار کا دن عبادت کے لیے مقرر کرلیا ، جبکہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو جمعہ کے دن کی ہدایت عطاء فرما دی ، جس سے انہیں یہودو نصاریٰ دونوں پر سبقت حاصل ہوگئی ۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ نحل کی آیت (١٢٤) :(انما جعل السبت علی الذین اختلفوا فیہ) کی تفسیر۔- ٢۔ یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا ۔۔۔۔۔۔: یہ آیت واضح دلیل ہے کہ جمعہ ان تمام لوگوں پر فرض ہے جو ایمان لا چکے ہیں ، خواہ وہ شہر میں رہتے ہوں یا کسی بستی یا بادیہ میں ۔ امام بخاری (رح) تعالیٰ نے اپنی صحیح میں باب قائم کیا ہے : ” باب الجمعۃ فی القریٰ والمدن “ ( بستیوں اور شہروں میں جمعہ کا باب ) اور اس میں ابن عباس (رض) کی حدیث لائے ہیں ، انہوں نے فرمایا :(ان اول جمعۃ جمعت بعد جمعۃ فی مسجد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی مسجد عبد القیس بجواثی من البحرین) (بخاری ، الجمعۃ ، باب الجمعۃ فی القریٰ والمدن : ٨٩٢)” پہلا جمعہ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسجد میں جمعہ کے بعد ادا کیا گیا عبد القیس قبیلے کی مسجد میں ہوا جو بحرین کے جواثی ٰ مقام پر تھی “۔ ابو داؤد میں ابن عباس (رض) کی اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں :( بجواثاء قریۃ من قری البحرین) (ابو داؤد ، الصلاۃ ، باب الجمعۃ فی القریٰ : ١٠٦٨) ” جواثا بحرین کی بستیوں میں سے ایک بستی ہے “۔ آیت میں جمعہ کے دن صلاۃ کی ندا پر اللہ کے ذکر کی طرف سعی کا حکم ہے اور باجماعت صلاۃ ادا کرنا صرف شہر میں نہیں بلکہ ہر بستی اور بادیہ میں فرض ہے۔- ابو درواء (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سنا ، آپ فرما رہے تھے :( ما من ثلاثۃ فی قریۃ ولا بدولا تقام فیھم الصلاۃ الا قد استحوذ علیھم الشیطان فعلیک بالجماعۃ فانما یا کل الذنب القاصیۃ) ( ابوداؤد الصلاۃ ، باب فی التشدید فی ترک الجاعۃ : ٥٤٧)” کوئی تین آدمی نہیں جو کسی بستی یا بادیہ میں ہوں ، جن میں نماز قائم نہ کی جاتی ہو مگر ان پر شیطان غالب آچکا ہوتا ہے۔ سو جماعت کو لازم پکڑو، کیونکہ بھیڑیا صرف اس بکری کو کھاتا ہے جو ریوڑ سے دور ہو “۔ ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ لوگوں نے عمر بن خطاب (رض) کو خط لکھ کر جمعہ کے متعلق سوال کیا ، انہوں نے لکھا ( جمعوا حیثما کنتم) ( مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢، ١٠١، ح : ٥١٠٨)” تم جہاں بھی ہو جمعہ ادا کرو “۔ اس کی مسند بخاری و مسلم کی شرط پر ہے ۔ جن لوگوں نے جمعہ کے لیے شہر یا حاکم وغیرہ کی شرط لگائی ہے ان کے پاس قرآن و سنت کی کوئی دلیل نہیں اور مشہور روایت ” لا جمعۃ ولا تشریق الا فی مصر جامع “ ( جمعہ اور عید جامع شہر کے سوا نہیں) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں ۔ یہ علی (رض) کا قول مشہو رہے ، جو عمر (رض) کے صحیح سند کے ساتھ مروی قول کے خلاف ہے، جب صحابہ میں اختلاف ہو تو اصل کتاب و سنت کی طرف رجوع واجب ہے ( دیکھئے نسائ : ٥٩) اور کتاب و سنت کے مطابق تمام مسلمانوں پر ہر جگہ جمعہ فرض ہے ، جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے ، البتہ چند لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں ۔ طارق بن شہاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( الجمعۃ حق واجب علی کل مسلم فی جماعۃ الا اربعۃ عبد مملوک او امراۃ او صبی او مریض) (ابو داؤد ، الصلاۃ ، باب الجمعۃ للمملوک والمراۃ : ١٠٦٧، قال الالبانی صحیح)” جمعہ ہر مسلم پر جماعت کے ساتھ اد ا کرنا واجب حق ہے سوائے چار کے ، غلام جو کسی کی ملکیت میں ہو یا عورت یا بچہ یا مریض “۔ اور عبد اللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(لیس علی مسافر جمعۃ) ( المعجم الاوسط للطبرانی ١، ٢٤٩، ح : ٨١٨، وقال الالبانی صحیح ۔ دیکھئے الجامع الصغیر : ٥٤٠٥)” مسافر پر جمعہ نہیں ہے “۔- جن لوگوں پر جمعہ فرض نہیں اگر وہ جمعہ کے لیے آئیں تو اجر کا باعث ہے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں عورتیں بھی جمعہ کے لیے آتی تھیں ، اس سے اجر کے علاوہ قرآن کی آیات سن کر انہیں یاد کرنے کا موقع ملتا ، قرآن و سنت سن کر علم میں اضافہ ہوتا اور نصیحت سن کر اصلاح ہوتی تھی ۔ ام ہشام بنت حارثہ بن نعمان (رض) فرماتی ہیں :( ما اخذت) (ق والقرآن المجید) الاعن لسان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقروھا کل یوم جمعۃ علی المنبر اذا حطب الناس) (مسلم ، الجمعۃ ، باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ : ٥٢، ٨٧٣) ” میں نے سورة ٔ (ق والقرآن المجید) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے سن کر یاد کی ، آپ اسے ہر جمعہ کے دن خطبہ دیتے ہوئے منبر پر پڑھا کرتے تھے “۔ صحیح مسلم کے اسی باب کی ایک روایت (٨٧٣) میں ام ہشام (رض) ہی کے الفاظ ہیں :( ما حفظت) (ق) الا من فی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یخطب بھا کل جمعۃ) مطلب اوپر گزر چکا ہے۔ اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مردوں کو منع فرمایا کہ وہ عورتوں کو اس بات سے روکیں کہ وہ مسجد میں آکر اجر اور قرآن و سنت کے علم سے اپنا حصہ حاصل کریں۔- عبد اللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( لا تمنعوا النساء حظوظھن من المساجد اذا اسنادنو کم) (مسلم ، الصلاۃ ، باب خروج النساء الی المساجد۔۔۔۔: ١٤٠، ٤٤٢)” عورتوں کو مساجد میں سے ان کے حصے میں آنے والی چیزوں سے مت روکو ، جب وہ تم سے اجازت مانگیں “۔- جمعہ کے دن کی بدعات میں سے ایک بدعت ظہر احتیاطی ہے ۔ کچھ لوگ جن کا خیال ہے کہ اسلامی حاکم کے بغیر جمعہ نہیں ہوتا اور دیہات میں بھی جمعہ نہیں ہوتا ، شہروں اور گاؤں میں جمعہ کی دو رکعتیں پڑھانے کے بعد احتیاطاً ظہر کی چار رکعتیں بھی پڑھتے ہیں ، یہ بد ترین بدعت ہے ، کیونکہ اس کی بنیاد شک پر ہے جو کفار کا معمول ہے ، جیسا کہ فرمایا :(بَلْ ھُمْ فِیْ شَکٍّ یَّلْعَبُوْنَ ) ( الدخان : ٩)” بلکہ وہ ایک شک میں کھیل رہے ہیں “۔- ٣۔ اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ :” الصلاۃ “ پر ” الف لام “ عہد کا ہے ، مراد وہ نماز ہے جو جمعہ کے دن کے ساتھ خاص ہے اور سب جانتے ہیں کہ وہ نماز جمعہ ہے جو اس دن ظہر کی جگہ ادا کی جاتی ہے اور ندا سے مراد اذان ہے ۔ دیکھئے سورة ٔ مائدہ کی آیت (٥٨) کی تفسیر۔ آج کل عام طور پر جمعہ کے دن خطبے سے پہلے دو اذانیں کہی جاتی ہیں ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابوبکر اور عمر (رض) کے زمانے میں یہ دو اذانیں نہیں بلکہ ایک ہی اذان تھی۔ سائب بن یزید (رض) سے روایت ہے ، فرماتے ہیں :( کان النداء یوم الجمعۃ اولہ ٗ اذا جلس الامام علی المنبر علی عھد النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و ابی بکر و عمر (رض) عنھما فلما کان عثمان (رض) و کثر الناس راد النداء الثالث علی الزورائ) ( بخاری ، الجمعۃ ، باب الاذان یوم الجمعۃ : ٩١٢)” جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھتا تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، اور ابوبکر اور عمر (رض) کے عہد میں یہی معمول تھا۔ پھر جب عثمان (رض) تعالیٰ عنہ خلیفہ ہوئے اور لوگ زیادہ ہوگئے تو انہوں نے ( بازار میں ایک مقام) زوراء پر تیسری اذان کا اضافہ کردیا “۔ یاد رہے کہ اس تیسری اذان سے مراد وہ اذان ہے جو آج کل خطبے سے پندرہ منٹ یا آدھ گھنٹہ پہلے کہی جاتی ہے ، اس کے بعد کی دو اذانوں سے مراد اذان اور اقامت ہیں ۔ تیسری اذان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابوبکر اور عمر (رض) کے دور میں نہیں کہی جاتی تھی ، عثمان (رض) تعالیٰ عنہ نے لوگوں کی کثرت کے پیش نظر اس کا اضافہ کیا ، مگر ان کے زمانے میں یہ اذان مسجد میں نہیں کہی جاتی تھی بلکہ بازار میں کہی جاتی تھی ، تا کہ لوگوں کو اطلاع ہوجائے ۔ آج کل نہ اس اذان کا اہتمام مسجد سے الگ بازار میں کیا جاتا ہے ، نہ لاؤڈ سپیکر کی وجہ سے اس کی ضرورت باقی ہے اور نہ ہی مسجد میں خطبے سے پہلے دو اذانیں عثمان (رض) تعالیٰ عنہ کا طریقہ ہے۔ اس لیے خطبے سے پہلے مسجد میں ایک ہی اذان کہی جانی چاہیے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر و عمر (رض) کا طریقہ ہے اور عثمان (رض) تعالیٰ عنہ کا عمل بھی یہی ہے۔- ٤۔ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللہ ِ :” سعی سعیاً “ ( ف) کا معنی دوڑنا بھی ہے اور کوشش کرنا بھی ، جیسا کہ فرمایا :( وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی ) (النجم : ٩٣)” اور یہ کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی “۔ یہاں دوسرامعنی مراد ہے ، یعنی نہایت کوشش اور اہتمام کے ساتھ آؤ ، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز کے لیے دوڑ کر آنے سے منع فرمایا ہے۔ - ٥۔ وذروا البیع : اگرچہ جمعہ کے لیے پہلے آنا پہلے فضیلت کا باعث ہے اور اس کے متعلق احادیث مشہور و معروف ہیں ، مگر آخری حد جس کے بعد جمعہ کی طرف روانگی یا اس کے لیے درکار کام کے سوا ہر کام حرام ہوجاتا ہے وہ جمعہ کی اذان ہے ۔ یہاں ” البیع “ کا ذکر اس خاص واقعہ کے پیش نظر آیا ہے جو اگلی آیت میں آرہا ہے ، ورنہ اللہ کے ذکر کی طرف سعی جس طرح بیع ترک کرنے کے سوا نہیں ہوسکتی دوسرے تمام کام ترک کرنے کے بغیر بھی نہیں ہوسکتی اور ظاہر ہے کہ جب سعی فرض ہے تو ہر وہ کام حرام ہے جو اس سے روکنے والا ہے۔- ٦۔ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : ظاہر ہے آخرت کے ثواب کے مقابلے میں دنیا کے فائدوں کی کوئی حیثیت نہیں ۔- ٧۔ جمعہ کے دن غسل کرنا ، اچھے کپڑے پہننا ، خوشبو لگانا، پہلے آنا ، خاموشی کے ساتھ خطبہ سننا اور دوسرے متعلقہ احکام و فضائل کتب احادیث میں تفصیل سے مذکور ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو جب جمعہ کے روز نماز (جمعہ) کے لئے اذان کہی جایا کرے تو تم اللہ کی یاد (یعنی نماز و خطبہ) کی طرف (فوراً ) چل پڑا کرو اور خریدو فروخت (اور اسی طرح دوسرے مشاغل مانعہ عن السعی کمافی رد المحتار) چھوڑ دیا کرو (اور تخصیص بیع کی بوجہ زیادہ اہتمام کے ہے کہ اس کے ترک کو فوت نفع سمجھا جاتا ہے) یہ (چل پڑنا مشاغل بیع وغیرہ کو چھوڑ کر) تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے، اگر تم کو کچھ سمجھ ہو (کیونکہ اس کا نفع باقی ہے اور بیع وغیرہ کا نفع فانی) پھر جب نماز (جمعہ کی) پوری ہوچکے (اور اگر ابتداء میں خطبہ موخر تھا تو نماز پورا ہونے سے مراد اس کا مع متعلقات کے پورا ہونا ہے، جس کا حاصل نماز اور خطبہ کا پورا ہو چکنا ہے) تو (اس وقت تم کو اجازت ہے کہ) تم زمین پر چلو پھرو اور خدا کی روزی تلاش کرو (یعنی اس وقت دنیا کے کاموں کے لئے چلنے پھرنے کی اجازت ہے) اور (اس میں بھی) اللہ کو بکثرت یاد کرتے رہو (یعنی اشغال دنیویہ میں ایسے منہمک مت ہوجاؤ کہ احکام و عبادات ضروریہ سے غافل ہوجاؤ) تاکہ تم کو فلاح ہو اور (بعضے لوگوں کا یہ حال ہے کہ) وہ لوگ جب کسی تجارت یا مشغولی کی چیز کو دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑنے کے لئے بکھر جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہوا چھوڑ جاتے ہیں، آپ فرما دیجئے کہ جو چیز (از قسم ثواب و قرب) خدا کے پاس ہے وہ ایسے مشغلہ اور تجارت سے بدر جہا بہتر ہے اور (اگر اس سے افزونی رزق کی طمع ہو تو سمجھ لو کہ) اللہ سب سے اچھا روزی پہنچانے والا ہے (اس کی طاعات ضروریہ میں مشغول رہنے پر رزق مقدر دیتا ہے، پھر کیوں اس کے احکام کو ترک کیا جاوے ) ۔- معارف و مسائل - يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِيَ للصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۔ ، یوم الجمعہ، اس دن کو یوم جمعہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ مسلمانوں کے اجتماع کا دن ہے اور آسمان و زمین اور تمام کائنات کی تخلیق جو حق تعالیٰ نے چھ دن میں فرمائی ہے ان چھ میں سے آخری دن جمعہ ہے جس میں تخلیق کی تکمیل ہوئی، اسی دن میں آدم (علیہ السلام) پیدا کئے گئے، اسی روز میں ان کو جنت میں داخل کیا گیا، پھر اسی دن میں ان کو زمین کی طرف اتارا گیا، اسی دن میں قیامت قائم ہوگی اور اسی دن میں ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ اس میں انسان جو بھی دعا کرے قبول ہوتی ہے یہ سب باتیں احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں (ابن کثیر) - اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لئے اجتماع اور عید کا ہر ہفتہ میں یہ دن جمعہ کا رکھا تھا، مگر پچھلی امتوں کو اس کی توفیق نہ ہوئی، یہود نے یوم السبت (سنیچر کے دن) کو اپنا یوم اجتماع بنا لیا، نصاریٰ نے اتوار کو، اللہ تعالیٰ نے اس امت کو اس کی توفیق بخشی کہ انہوں نے یوم جمعہ کا انتخاب کیا (کمارواہ البخاری و مسلم عن ابی ہریرة، ابن کثیر) زمانہ جاہلیت میں اس دن کو ” یوم عروبہ “ کہا جاتا تھا، سب سے پہلے عرب میں کعب بن لوئی نے اس کا نام جمعہ رکھا اور قریش اس دن جمع ہوتے اور کعب بن لوئی خطبہ دیتے تھے، یہ واقعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پانسو ساٹھ سال پہلے کا ہے۔- کعب بن لوئی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجداد میں سے ہیں، ان کو حق تعالیٰ نے زمانہ جاہلیت میں بھی بت پرستی سے بچایا اور توحید کی توفیق عطا فرمائی تھی، انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کی خوشخبری بھی لوگوں کو سنائی تھی، قریش میں ان کی عظمت کا عالم یہ تھا کہ ان کی وفات جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پانسو ساٹھ سال پہلے ہوئی، اسی سے اپنی تاریخ شمار کرنے لگے، عرب کی تاریخ ابتداء میں بنا کبعہ سے لی جاتی تھی کعب بن لوئی کی وفات کے بعد اس سے تاریخ جاری ہوگئی، پھر جب واقعہ فیل آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کے سال میں پیش آیا تو اس واقعہ سے عرب کی تاریخ کا سلسلہ جاری ہوگیا، خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ کا اہتمام عرب میں قبل از اسلام بھی کعب بن لوئی کے زمانہ میں ہوچکا تھا اور اس دن کا نام جمعہ رکھنا بھی انہی کی طرف منسوب ہے (مظہری) - بعض روایت میں ہے کہ انصار مدینہ نے قبل از ہجرت فرضیت جمعہ نازل ہونے سے پہلے اپنے اجہتاد سے جمعہ کے روز جمع ہونے اور عبادت کرنے کا اہتمام کر رکھا تھا (کمار واہ عبدالرزاق باسنا صحیح عن محمد بن سیرین از مظہری) - نُوْدِيَ للصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ ، نداء صلوٰة سے مراد اذان ہے اور من یوم الجمعہ بمعنی فی یوم الجمعہ ہے، فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللہ، سعی کے معنی دوڑنے کے بھی آتے ہیں اور کسی کام کو اہتمام کے ساتھ کرنے کے بھی، اس جگہ یہی دوسرے معنی مراد ہیں کیونکہ نماز کے لئے دوڑتے ہوئے آنے کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا اور یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جب نماز کے لئے آؤ تو سکینت اور وقار کے ساتھ آؤ، آیت کے معنی یہ ہیں کہ جب جمعہ کے دن جمعہ کی اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو، یعنی نماز و خطبہ کے لئے مسجد کی طرف چلنے کا اہتمام کرو، جیسا دوڑنے والا کسی دوسرے کام کی طرف توجہ نہیں دیتا، اذان کے بعد تم بھی کسی اور کام کی طرف بجز نماز و خطبہ کے توجہ نہ دو (ابن کثیر) ذکر اللہ سے مراد نماز جمعہ بھی ہو سکتی ہے اور خطبہ جمعہ جو نماز جمعہ کے شرائط و فراض میں داخل ہے وہ بھی، اس لئے مجموعہ دونوں کا مراد لیا جائے یہ بہتر ہے (مظہری وغیرہ) ٰهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ، یعنی چھوڑ دوبیع (فروخت کرنے کو) صرف بیع کہنے پر اکتفا کیا گیا اور مراد بیع و شرائ (یعنی خریدو فروخت) دونوں ہیں، وجہ اکتفا کی یہ ہے کہ ایک کے چھوٹنے سے دوسرا خود بخود چھوٹ جائے گا، جب کوئی فروخت کرنے والا فروخت نہ کرے گا تو خرید والے کے لئے خریدنے کا راستہ ہی نہ رہے گا۔- اس میں اشارہ اس طرف معلوم ہوتا ہے کہ اذان جمعہ کے بعد جو خریدو فروخت کو اس آیت نے حرام کردیا ہے اس پر عمل کرنا تو بیچنے والوں اور خریداروں سب پر فرض ہے مگر اس کا عملی انتظام اس طرح کیا جائے کہ دکانیں بند کردی جائیں تو خریداری خود بخود بند ہوجائے گی، اس میں حکمت یہ ہے کہ گاہکوں اور خریداروں کی تو کوئی حدو شمار نہیں ہوتی ان سب کے روکنے کا انتظام آسان نہیں، فروخت کرنے والے دکاندار متعین اور معدود ہوتے ہیں ان کو فروخت سے روک دیا جائے تو باقی سب خرید سے خود رک جائیں گے اس لئے ذروا البیع میں صرف بیع چھوڑ دینے کے حکم پر اکتفا کیا گیا۔- فائدہ : اذان جمعہ کے بعد سارے ہی مشاغل کا ممنوع کرنا مقصود تھا جن میں زراعت، تجارت، مزدوری سبھی داخل ہیں، مگر قرآن کریم نے صرف بیع کا ذکر فرمایا، اس سے اس طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ جمعہ کی نماز کے مخاطب شہروں اور قصبوں والے ہیں، چھوٹے دیہات اور جنگوں میں جمعہ نہیں ہوگا، اس لئے شہروں اور قصبوں میں جو مشاغل عام لوگوں کو پیش آتے ہیں ان کی ممانعت فرمائی گئی وہ بیع و شراء کے ہوتے ہیں، بخلاف گاؤں والوں کے کہ ان کے مشاغل کاشت اور زمین سے متعلق ہوتے ہیں اور باتفاق فقہا امت یہاں بیع سے مراد فقط فروخت کرنا نہیں بلکہ ہر وہ کام جو جمعہ کی طرف جانے کے اہتمام میں مخل ہو وہ سب بیع کے مفہوم میں داخل ہے اس لئے اذان جمعہ کے بعد کھانا پینا، سونا، کسی سے بات کرنا، یہاں تک کہ کتاب کا مطالعہ کرنا وغیرہ سب ممنوع ہیں، صرف جمعہ کی تیاری کے متعلق جو کام ہوں وہ کئے جاسکتے ہیں۔- اذان جمعہ شروع میں صرف ایک ہی تھی جو خطبہ کے وقت امام کے سامنے کہی جاتی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں پھر صدیق اکبر اور فاروق اعظم کے زمانے میں اسی طرح رہا، حضرت عثمان غنی کے زمانے میں جب مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہوگئی اور اطراف مدینہ میں پھیل گئے امام کے سامنے والی خطبہ کی اذان دور تک سنائی نہ دیتی تھی، تو عثمان غنی نے ایک اور اذان مسجد سے باہر اپنے مکان زوراء پر شروع کرا دی جس کی آواز پورے مدینہ میں پہنچنے لگی، صحابہ کرام میں سے کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا، اس لئے یہ اذان اول باجماع صحابہ مشروع ہوگئی اور اذان جمعہ کے وقت بیع و شراء وغیرہ تمام مشاغل حرام ہوجانے کا حکم جو پہلے اذان خطبہ کے بعد ہوتا تھا اب پہلی اذان کے بعد سے شروع ہوگیا کیونکہ الفاظ قرآن (نودی للصلوٰة من یوم الجمعتہ) اس پر بھی صادق ہیں، یہ تمام باتیں حدیث و تفسیر اور فقہ کی عام کتابوں میں بلا اختلاف مذکور ہیں۔- اس پر پوری امت کا اجماع و اتفاق ہے کہ جمعہ کے روز ظہر کے بجائے نماز جمعہ فرض ہے اور اس پر بھی اجماع و اتفاق ہے کہ نماز جمعہ عام پانچ نمازوں کی طرح نہیں اس کے لئے کچھ مزید شرائط ہیں، پانچوں نمازیں تنہا بلا جماعت کے بھی پڑھی جاسکتی ہیں، دو آدمی کی بھی جماعت سے اور جمعہ بغیر جماعت کے ادا نہیں ہوتا اور جماعت کی تعداد میں فقہاء کے اقوال مختلف ہیں اسی طرح نماز پنجگانہ ہر جگہ دریا، پہاڑ، جنگل میں ادا ہوجاتی ہے، مگر جمعہ جنگ، صحراء میں کسی کے نزدیک ادا نہیں ہوتا، عورتوں، مریضوں، مسافروں پر جمعہ فرض نہیں، وہ جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز پڑھیں، جمعہ کس قسم کی بستی والوں پر فرض ہے اس میں ائمہ فقہاء کے اقوال مختلف ہیں، امام شافعی (رح) کے نزدیک جس بستی میں چالیس مرد احرار، عاقل، بالغ بستے ہوں اس میں جمعہ ہوسکتا ہے اس سے کم میں نہیں، امام مالک (رح) کے نزدیک ایسی بستی کا ہونا ضروری ہے جس کے مکانات متصل ہوں اور اس میں بازار بھی ہو، امام عظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک جمعہ کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ شہر یا قصبہ یا بڑا گاؤں ہو جس میں گلی کوچے اور بازار ہوں اور کوئی قاضی حاکم فیصلہ معاملات کے لئے ہو، مسئلہ اور اس کے دلائل کی تفصیل کا یہ موقع نہیں، حضرات علماء نے اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھ کر سب کچھ واضح کردیا ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ ۧيٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اور فاسعوا باتفاق جمہور امت عام مخصوص البعض ہے، علی الاطلاق ہر مسلمان پر جمعہ فرض نہیں بلکہ کچھ قیود و شرائط سب کے نزدیک ہیں، اختلاف صرف شرائط کی تعیین میں ہے، البتہ جہاں فرض ہے ان کے لئے اس فرض کی بڑی اہمت و تاکید ہے۔ ان لوگوں میں بلا عذر شرعی کوئی جمعہ چھوڑ دے تو احادیث صحیحہ میں اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں اور نماز جمعہ اس کے شرائط و آداب کے ساتھ ادا کرنے والوں کے مخصوص فضائی و برکات کا وعدہ ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللہِ وَذَرُوا الْبَيْعَ۝ ٠ ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝ ٩- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- ندا - النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ- [ الجمعة 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ- [ آل عمران 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر :- 435-- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ- «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ- [ العلق 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال :- فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف .- ( ن د ی ) الندآ ء - کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں - صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- جمعة- وقولهم : يوم الجمعة، لاجتماع الناس للصلاة، قال تعالی: إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الجمعة 9] ، ومسجد الجامع، أي : الأمر الجامع، أو الوقت الجامع، ولیس الجامع وصفا للمسجد، وجَمَّعُوا : شهدوا الجمعة، أو الجامع أو الجماعة .- ۔ اور جمعہ کے دن کو یوم الجمعۃ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ اس میں لوگ نماز کے لئے جمع ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الجمعة 9] جب جمعہ کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے تو خدا کی یاد ( یعنی نماز ) کے لئے جلدی کرو ۔ اور مسجد الجامع کی اصل مسجد الامر الجامع الواقت الجامع ہے لہذا یہاں جامع مسجد کی صفت نہیں ہے ۔ جمعو ا کے معنی نماز جمعہ ادا کرنے یا جامع یا جماعت میں حاضر ہونے کے ہیں ۔ - سعی - السَّعْيُ : المشي السّريع، وهو دون العدو، ويستعمل للجدّ في الأمر، خيرا کان أو شرّا، قال تعالی: وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة 114] ، وقال : نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم 8] ، وقال : وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة 64] ، وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة 205] ، وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم 39- 40] ، إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل 4] ، وقال تعالی: وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء 19] ، كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء 19] ، وقال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] .- وأكثر ما يستعمل السَّعْيُ في الأفعال المحمودة، قال الشاعر :- 234-- إن أجز علقمة بن سعد سعيه ... لا أجزه ببلاء يوم واحد - «3» وقال تعالی: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات 102] ، أي : أدرک ما سعی في طلبه، وخصّ المشي فيما بين الصّفا والمروة بالسعي، وخصّت السّعاية بالنمیمة، وبأخذ الصّدقة، وبکسب المکاتب لعتق رقبته، والمساعاة بالفجور، والمسعاة بطلب المکرمة، قال تعالی: وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ 5] ، أي : اجتهدوا في أن يظهروا لنا عجزا فيما أنزلناه من الآیات .- ( س ع ی ) السعی - تیز چلنے کو کہتے ہیں اور یہ عدو ( سرپٹ دوڑ ) سے کم درجہ ( کی رفتار ) ہے ( مجازا ) کسی اچھے یا برے کام کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة 114] اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو ۔ نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم 8]( بلکہ ) ان کا نور ( ایمان ) ان کے آگے ۔۔۔۔۔۔ چل رہا ہوگا ۔ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة 64] اور ملک میں فساد کرنے کو ڈوڑتے بھریں ۔ وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة 205] اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں ( فتنہ انگریزی کرنے کے لئے ) دوڑتا پھرتا ہے ۔ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم 39- 40] اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی ۔ إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل 4] تم لوگوں کی کوشش طرح طرح کی ہے ۔ وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء 19] اور اس میں اتنی کوشش کرے جتنی اسے لائق ہے اور وہ مومن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] تو اس کی کوشش رائگاں نی جائے گی لیکن اکثر طور پر سعی کا لفظ افعال محمود میں استعمال ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) 228 ) ان جز علقمہ بن سیف سعیہ لا اجزہ ببلاء یوم واحد اگر میں علقمہ بن سیف کو اس کی مساعی کا بدلہ دوں تو ایک دن کے حسن کردار کا بدلہ نہیں دے سکتا اور قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات 102] جب ان کے ساتھ دوڑ نے کی عمر کو پہنچا ۔ یعنی اس عمر کو پہنچ گیا کہ کام کاج میں باپ کا ہاتھ بٹا سکے اور مناسب حج میں سعی کا لفظ صفا اور مردہ کے درمیان چلنے کے لئے مخصوص ہوچکا ہے اور سعاد یۃ کے معنی خاص کر چغلی کھانے اور صد قہ وصول کرنے کے آتے ہیں اور مکاتب غلام کے اپنے آپ کو آزاد کردانے کے لئے مال کمائے پر بھی سعایۃ کا لفظ بولا جاتا ہے مسا عا ۃ کا لفظ فسق و محور اور مسعادۃ کا لفظ اچھے کاموں کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ 5] اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں میں اپنے زعم باطل میں ہمیں عاجز کرنے کے لئے سعی کی میں سعی کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے ہماری نازل کر آیات میں ہمارے عجز کو ظاہر کرنے کے لئے پوری طاقت صرف کر دالی ۔- إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت .- الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ : وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں - ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] ، وقوله :- هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] ، أي :- شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] ، أي : الکتب المتقدّمة .- وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه .- وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) .- ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ- [ الكهف 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] ، وقوله :- فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته،- ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔- وذر - [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی:- قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] «1» .- ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- بيع - البَيْع : إعطاء المثمن وأخذ الثّمن، والشراء :- إعطاء الثمن وأخذ المثمن، ويقال للبیع :- الشراء، وللشراء البیع، وذلک بحسب ما يتصور من الثمن والمثمن، وعلی ذلک قوله عزّ وجل :- وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] ، وقال عليه السلام : «لا يبيعنّ أحدکم علی بيع أخيه» أي : لا يشتري علی شراه .- وأَبَعْتُ الشیء : عرضته، نحو قول الشاعر :- فرسا فلیس جو ادنا بمباع والمبَايَعَة والمشارة تقالان فيهما، قال اللہ تعالی: وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبا [ البقرة 275] ، وقال : وَذَرُوا الْبَيْعَ [ الجمعة 9] ، وقال عزّ وجل : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ [إبراهيم 31] ، لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ [ البقرة 254] ، وبَايَعَ السلطان : إذا تضمّن بذل الطاعة له بما رضخ له، ويقال لذلک : بَيْعَة ومُبَايَعَة . وقوله عزّ وجل : فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بايَعْتُمْ بِهِ [ التوبة 111] ، إشارة إلى بيعة الرضوان المذکورة في قوله تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] ، وإلى ما ذکر في قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ الآية [ التوبة 111] ، وأمّا الباع فمن الواو بدلالة قولهم : باع في السیر يبوع : إذا مدّ باعه .- ( ب ی ع )- البیع کے معنی بیجنے اور شراء کے معنی خدید نے کے ہیں لیکن یہ دونوں ؛ہ ں لفظ ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور مبیع کے لحاظ سے ہوتا ہے اسی معنی میں فرمایا : ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت ( یعنی ) معددے ہموں پر بیچ ڈالا ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کوئی اپنے بھائی کی خرید پر خرید نہ کرے ۔ ابعت الشئی کسی چیز کو بیع کے لئے پیش کرنا ۔ شاعر نے کہا ہے یعنی ہم عمدہ گھوڑی فروخت کے لئے پیش نہیں کریں گے ۔ المبایعۃ والمشارۃ خریدو فروخت کرنا ۔ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبا [ البقرة 275] حالانکہ سودے کو خدا نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام وَذَرُوا الْبَيْعَ [ الجمعة 9] اور خرید فروخت ترک کردو ) لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ [إبراهيم 31] جس میں نہ ( اعمال کا ) سودا ہوگا نہ دوستی ( کام آئے گی ) بایع السلطان ( بادشاہ کی بیعت کرنا ) اس قلیل مال کے عوض جو بادشاہ عطا کرتا ہے اس کی اطاعت کا اقرار کرنا ۔ اس اقرار یبعۃ یا مبایعۃ کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بايَعْتُمْ بِهِ [ التوبة 111] تو جو سودا تم نے اس سے کیا ہے اس سے خوش رہو ۔ میں بیعت رضوان کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر کہ آیت : ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح 18] اے پیغمبر جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ الآية [ التوبة 111] میں پایا جاتا ہے ۔ الباع ( دونوں بازوں کے پھیلانے کی مقدار جو تقریبا 2 فٹ ہوتی ہے ) یہ مادہ وادی سے ہے کیونکہ باع فی السیر یبوع کہا جاتا ہے ۔ جس کے معنی گھوڑے کے لمبے لمبے قدم رکھنا کے ہیں ۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان :- أحدهما : إدراک ذات الشیء .- والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له،- أو نفي شيء هو منفيّ عنه .- فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو :- لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] .- والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله :- فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله :- لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت .- والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ.- فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم .- والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات .- ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ،- وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔- ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں - ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

اذان جمعہ سے کیا مرا د ہے ؟- قول باری ہے (یایھا الذین امنوا اذا نودی لصلوٰۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللہ وذروا البیع، اے لوگو جو ایمان لائے ہو جب پکارا جائے نماز کے لئے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خریدوفروخت چھوڑ دو ) تا آخر آیت۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ جمعہ کے روز حسب معمول باجماعت نمازیں ادا کی جاتی ہیں جس طرح اس روز زندگی کے اور دوسرے مشاغل سرانجام دیے جاتے ہیں لیکن آیت میں یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ ان ہی نمازوں میں سے کوئی جمعہ کی نماز ہے۔- تاہم مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ آیت میں اس سے وہ نماز مراد ہے کہ جسے اگر کوئی شخص جمعہ کے روز امام کے ساتھ ادا کرلے تو پھر اس پر ظہر پڑھنا لازم نہیں ہوتا۔ اس نماز کی دو رکعتیں ہیں جو زوال کے بعد جمعہ کی شرائط کے تحت ادا کی جاتی ہیں۔- سب کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ آیت میں جس نداء کا ذکر ہے اس سے مراد اذان ہے، تاہم آیت میں اذان کی کیفیت بیان نہیں کی گئی ہے۔ البتہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبداللہ بن زید کی روایت میں اسے بیان فرمایا ہے۔ حضرت عبداللہ نے خواب میں اذان دیتے ہوئے کسی کو دیکھا تھا اور یہی خواب حضرت عمر (رض) کو آیا تھا۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اذان کے یہ کلمات حضرت ابومحذورہ کو سکھا دیے تھے۔ اس میں ترجیع کا بھی ذکر ہے۔- ہم نے اذان کے مسئلے پر قول باری (واذا نادیتم الی الصلوۃ اور جب تم نماز کے لئے پکارتے ہو) کی تفسیر کرتے ہوئے روشنی ڈالی ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) اور حسن بصری سے قول باری (اذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ) کی تفسیر منقول ہے کہ امام جب نکل آئے یعنی مسجد میں داخل ہوکر منبر پر بیٹھ جائے اور پھر موذن اذان دے دے تو گویا نماز جمعہ کے لئے پکار ہوگئی۔- زہری نے حضرت سائب (رض) بن یزید سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک موذن ہوتے تھے جب آپ منبر پر بیٹھ جاتے تو وہ اذان دیتے اور پھر جب منبر سے نیچے تشریف لاتے تو وہ اقامت کہہ دیتے۔ یہی طریق کا ر حضرت ابوبکر (رض) کے زمانے میں رہا پھر حضرت عمر (رض) کے زمانے میں بھی۔ لیکن جب حضرت عثمان (رض) خلیفہ بنے اور لوگوں کی تعداد زیادہ ہوگئی نیز آبادی پھیل گئی تو آپ نے تیسری اذان کا اضافہ کردیا۔- سلف کی ایک جماعت سے پہلی اذان کا انکار منقول ہے جو امام کے باہر آنے سے پہلے دی جاتی ہے۔ وکیع نے ہشام بن الغار سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے نافع سے جمعہ کے دن پہلی اذان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا ” حضرت ابن عمر (رض) کا قول ہے کہ یہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے خواہ لوگ اسے اچھا ہی کیوں نہ سمجھیں۔ “- منصور نے حسن سے ان کا قول نقل کیا ہے کہ جمعہ کے دن نداء یعنی اذان وہ ہوتی ہے جو امام کے باہر آنے پر دی جاتی ہے اس سے پہلے کہ اذان نئی ایجاد ہے۔ عبدالرزاق نے ابن جریج سے اور انہوں نے عطاء سے روایت کی ہے کہ ماضی میں جمعہ کی نماز کے لئے ایک اذان ہوتی تھی۔ اور اس کے بعد اقامت ہوجاتی تھی لیکن آج کل جو اذان امام کے باہر آکر منبر پر بیٹھنے سے پہلے دی جاتی ہے وہ باطل اور غلط ہے، اس کی ابتداء حجاج نے کی تھی۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب نے ایک اذان کا ذکر کیا ہے جو امام کے منبر پر بیٹھ جانے کے بعد دی جائے اور پھر منبر سے نیچے آجانے کے بعد اقامت کہی جائے جیسا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کے زمانے میں ہوا کرتا تھا۔ جمعہ کا وقت زوال کے بعد ہوتا ہے۔- حضرت انس (رض) ، حضرت جابر (رض) اور حضرت سہل بن سعد (رض) ، نیز حضرت سلمہ بن الاکوع (رض) نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کی نماز سورج ڈھلنے کے بعد ادا کرتے تھے۔ شعبہ نے عمرو بن مرثد سے اور انہوں نے عبداللہ بن سلمہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں عبداللہ بن مسعود (رض) اور آپ کے رفقاء نے چاشت کے وقت جمعہ کی نماز پڑھا دی تھی اور پھر کہا تھا کہ تم لوگوں کے لئے گرمی کے خطرے کے پیش نظر میں ایسا کیا ہے۔- حضرت عمر (رض) اور حضرت علی (رض) کے متعلق مروی ہے کہ ان حضرات نے زوال کے بعد جمعہ کی نماز ادا کی تھی، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے خود جب یہ کہہ دیا کہ ” میں نے تم لوگوں کے لئے گرمی کے خطرے کے پیش نظر اس نماز کو مقدم کردیا ہے۔ “ تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ ان کا یہ طریق کار اس عام ڈگر سے ہٹ کر تھا، جس سے لوگ متعارف تھے۔ یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ گرمی یا سردی کی بناء پر فرائض کو ان کے مقررہ اوقات سے قبل ادا کرلینا جائز نہیں ہے جبکہ تقدیم و تاخیر کے شرعی اسباب موجودنہ ہوں۔- یہ ممکن ہے کہ حضر ت ابن مسعود (رض) نے جمعہ کی نماز ظہر کے اول وقت میں ادا کی ہو۔ ظہر کا اول وقت چاشت کے وقت سے قریب ترین ہوتا ہے۔ پھر راوی نے اسے اس بنا پر چاشت کا وقت کہہ دیا ہو کہ یہ وقت چاشت سے قریب ترین ہوتا ہے۔ جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سحری کھاتے ہوئے فرمایا تھا (ھلم الی الغداء لمبا رک صبح کے مبارک کھانے میں تم بھی شریک ہوجائو) آپ نے سحری کو صبح کا کھانا قرار دیا کیونکہ سحری کا وقت صبح کے وقت سے قریب ہوتا ہے۔- یا جس طرح حضرت حذیفہ (رض) کا قول ہے کہ ” ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دن کے وقت سحری کھائی تھی۔ “ یہاں مفہوم یہ ی ہے کہ سحری کا وقت دن کے وقت سے قریب ہوتا ہے۔- نماز جمعہ میں اختلاف ائمہ - فقہاء کا اس میں اختلاف ہے کہ دخول وقت کے ساتھ کون سی نماز فرض ہوتی ہے جمعہ یا ظہر کی۔ کچھ حضرات کا قول ہے کہ جمعہ کی نماز فرض ہوتی ہے اور ظہر کی نماز اس کا بدل ہوتی ہے۔ بعض حضرات کا قول اس کے برعکس ہے کہ ظہر کی نماز فرض ہوتی ہے اور جمعہ کی نماز اس کا بدل ہوتی ہے اس لئے یہ بات محال ہوگئی کہ بدل کی ادائیگی اس وقت کے سوا جس میں بدل منہ کی ادائیگی درست ہوتی ہو کسی اور وقت میں کی جائے۔ مبدل منہ ظہر کی نماز ہے۔- جب یہ ثابت ہے کہ ظہر کی ادائیگی کا وقت زوال کے بعد ہوتا ہے تو اس سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ دوسری نمازوں کی طرح جمعہ کی اذان کا وقت زوال کے بعد شروع ہوتا ہے۔ قول باری (فاسعوا الی ذکر اللہ) کی قرات حضرت عمر (رض) ، حضرت ابن مسعود (رض) ، حضرت ابی بن کعب (رض) اور حضرت عبداللہ بن الزبیر نے ” فامضوا الی ذکر اللہ “ (اللہ کے ذکر کی طرف چل پڑو) کی ہے۔- حضرت ابن مسعود (رض) نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اگر میں ” فاسعوا “ کی قرات کرتا تو دوڑتا ہوا جاتا کہ میری چادر گرجاتی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ کہنا درست ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) نے ” فامضوا “ کے لفظ سے آیت کی تفسیر کی ہے ، نص قرات مراد نہیں لی ہے۔- جس طرح انہوں نے ایک عجمی کو آیت (ان شجرۃ الزقوم طعام الاثیم زقوم کا درخت گنہگاروں کی خوراک ہے) کی تعلیم دیتے ہوئے جب دیکھا کہ اس کی زبان پر ” الاثیم “ کا لفظ نہیں چڑھ رہا ہے اور وہ اس لفظ کو ” الیتیم “ پڑھے جارہا ہے تو پھر مجبور ہوکر اسے ” طعا الفاجر کا لفظ پڑھادیا۔- حضرت ابن مسعود (رض) کا مقصد اس عجمی کو اس لفظ کے معنی کا افہام تھا۔ حسن کا قول ہے کہ سعی سے دوڑنا مراد نہیں ہے۔ بلکہ دل اور نیت کی سعی مراد ہے۔ عطاء کا قول ہے کہ سعی سے ذہاب یعنی جانا مراد ہے۔ عکرمہ کے قول کے مطابق سعی کے معنی عمل کے ہیں۔- ابوعبیدہ کا قول ہے کہ (فاسعوا) کے معنی ” اجیبوا “ (لبیک کہو، جواب دو ) کے ہیں۔ دوڑ کر جانا اس کے معنی نہیں ہیں۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ بہتر بات یہ ہے کہ سعی سے نیت وعمل کا اخلاص مراد لیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں سعی کے لفظ کا کئی مقام پر ذکر فرمایا ہے لیکن کسی جگہ رفتار کی سرعت مراد نہیں ہے۔ چناچہ ارشاد ہے (ومن ارادا الاخرۃ وسعی لھا سعیھا جو شخص آخرت کا ارادہ کرے اور اس کے مطابق سعی کرے) اسی طرح ارشاد ہے (واذا تولی سعی فی الارض ، جب اسے حکومت ملتی ہے تو زمین میں کوشاں ہوجاتے ہے)- نیز فرمایا (وان لیس للانسان الا ماسعی۔ اور یہ کہ انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کے لئے وہ کوشش کرے گا) یہاں عمل مراد ہے۔ العلاء بن عبدالرحمن نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (اذاثوب بالصلوٰۃ فلا تاتوھا وانتم تسعون ولکن ائتوھا وعلیکم السکینۃ والوقارفما ادرکتم فصلوا وما فاتکم فاتموا، جب نماز کی اقامت ہوجائے تو تم جماعت میں شامل ہونے کے لئے دوڑتے ہوئے نہ آئو بلکہ پورے سکون اور وقار کے ساتھ چلتے ہوئے آکر شامل ہوجائو، پھر امام کے ساتھ نماز کا جتنا حصہ مل جائے وہ ادا کرلو اور جو باقی رہ جائے اسے پورا کرلو)- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حکم میں جمعہ اور غیر جمعہ کی نمازوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ نیز فقہاء امصار کا متفقہ قول ہے کہ جمعہ کی نماز کے لئے نمازی اپنی اصل رفتار سے چل کر جائے گا۔- فصل - جمعہ صرف شہروں تک محدود ہے یا دیہات بھی شامل ہیں ؟- فقہاء امصار کا اس پر اتفاق ہے کہ نماز جمعہ کے لئے جگہ مخصوص ہوتی ہے۔ اس خاص جگہ کے سوا کہیں اور اس کی ادائیگی جائز نہیں ہوتی۔ کیونکہ فقہاء کا اس پر اجماع ہے کہ بوادی یعنی صحرا اور جنگل نیز بدویوں کے گھاٹ جیسے مقامات پر جمعہ کی نماز جائز نہیں ہوتی۔- ہمارے اصحاب کا قول ہے جمعہ شہروں کے ساتھ مخصوص ہے، دیہاتوں میں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی۔ سفیان ثوری اور عبیداللہ بن الحسن کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ ہر ایسے گائوں میں جمعہ جائز ہے جہاں مکانات ایک دوسرے سے متصل بنے ہوئے ہوں اور بازار کی دکانیں بھی متصل ہوں۔ وہاں کے رہنے والے امام نہ ہونے کی صورت میں کسی کو آگے کردیں گے جو خطبہ دے کر انہیں جمعہ کی نماز پڑھا دے گا۔- اوزاعی کا قول ہے کہ جمعہ کی نماز صرف ایسی مسجد میں جائز ہوگی جہاں امام کے پیچھے پانچوں وقت باجماعت نماز پڑھی جاتی ہو۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر گائوں کے مکانات ایک جگہ بنے ہوئے ہوں اور گائوں والے صرف اپنی ضروریات کے لئے وہاں سے باہر جاتے ہوں، مستقل طور پر کوچ نہ کرجاتے ہوں، اور ان کی تعداد چالیس ہو جو سب کے سب آزاد اور بالغ ہوں، ان میں سے کوئی دیوانہ وغیرہ نہ ہو تو ان پر جمعہ کی نماز فرض ہوجائے گی۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے (لا جمعۃ ولا تشریق الا فی مصر حامع، جمعہ اور عید کی نمازیں صرف جامع قسم کے شہر میں جائز ہوتی ہیں) حضرت علی (رض) سے بھی اسی قسم کی روایت منقول ہے۔ نیز جمعہ اگر گائوں میں جائز ہوتا تو اس کی روایت بھی اسی تواتر کے ساتھ ہوتی جس طرح شہروں کے اندر اس کے جواز کی روایت تو اتر کے ساتھ منقول ہے کیونکہ عوام الناس کی یہ ایک ضرورت تھی۔ نیز جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ صحرا اور جنگل میں جمعہ جائز نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ شہر نہیں ہوتے تو دیہاتوں کے بارے میں بھی یہی حکم واجب ہونا چاہیے۔- ایک روایت کے مطابق حسن بصری سے کہا گیا کہ حجاج نے اہواز میں جمعہ جاری کردیا ہے یہ سن کر انہوں نے کہا : ” حجاج پر خدا کی لعنت ہو، شہروں میں جمعہ جاری کرنے کی بجائے علاقوں کے خلقوم یعنی چھوٹے چھوٹے مقامات پر جمعہ جاری کرتا ہے۔ “- اگر یہ کہا جائے کہ حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ ہر اس شخص پر جمعہ واجب ہے جس کے پاس رات گزارنے کے لئے اپنا ٹھکانہ ہو۔ نیز حضرت انس بن مالک (رض) مقام طف میں رہتے تھے بعض دفعہ وہ وہاں جمعہ کی نماز کرادیتے تھے اور بعض دفعہ نہیں کراتے تھے۔ ایک قول کے مطابق طف سے بصرہ تک کا فاصلہ چار فرسخ سے کم تھا (ایک فرسخ تقریباً آٹھ کیلومیٹر ہوتا ہے)- دونوں مقامات کے درمیان سفر میں نصف دن سے بھی کم وقت لگتا تھا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا یہ بات ان مقامات کے بارے میں ہے جو شہر کے حکم میں ہوتے ہیں۔- حضرت ابن عمر (رض) کی رائے یہ تھی کہ جو مقامات شہر سے قریب ہوں وہ بھی شہر کے حکم میں ہوتے ہیں۔ اور وہاں کے رہنے والوں پر جمعہ واجب ہوتا ہے۔ یہ چیز اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ان حضرات کی رائے میں جمعہ صرف شہروں میں یا ایسے مقامات میں جائز ہوتا ہے جو شہر کے حکم میں ہوں۔ جمعہ کی نماز کی دو رکعتیں ہوتی ہیں ۔ امت نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قولاً اور عملاً اسے روایت کی ہے۔- حضرت عمر (رض) کا قول ہے کہ ” سفر کی نماز دو رکعتیں ہوتی ہیں، فجر کی نماز کی دو رکعتیں ہوتی ہیں۔ اور اسی طرح جمعہ کی نماز کی بھی دو رکعتیں ہوتی ہیں جو قصر نہیں ہوتیں بلکہ مکمل ہوتی ہیں۔ یہ حکم تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے دیا گیا ہے۔ جمعہ کو خطبہ کی وجہ سے دو رکعتوں پر مقصود کردیا گیا ہے۔- جمعہ کے خطبے کے وجوب کا بیان - قول باری ہے (فاسعوا الی ذکر اللہ وذروا البیع۔ اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خریدو فروخت چھوڑ دو ) آیت اللہ کے ذکر کی طرف وجوب سعی کی مقتضی ہے۔ اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ یہ ایک واجب ذکر ہے جس کی طرف سعی واجب ہے۔- سعید بن المسیب کا قول ہے کہ ذکر اللہ سے خطیب کی پندو موعظت مراد ہے۔ ہم نے چند سطور پہلے جس روایت کا ذکر کیا ہے اس میں حضرت عمر (رض) نے فرمایا ہے : ” جمعہ کو خطبہ کی وجہ سے دو رکعتوں پر مقصود کردیا گیا ہے۔ “- زہری نے سعید بن المسیب سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو فرشتے مسجد کے ہر دروازے پر آکھڑے ہوتے ہیں اور سب سے پہلے آنے والوں کے نام سب سے پہلے لکھتے ہیں۔- جب امام خطبے کے لئے برآمد ہوتا ہے تو ناموں کی ان فردوں کو لپیٹ لیا جاتا ہے اور فرشتے خطبہ سننے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ جو شخص دوپہر کی دھوپ میں جمعہ پڑھنے کے لئے جاتا ہے یعنی سب سے پہلے مسجد میں پہنچتا ہے وہ گویا اونٹ کی قربانی دیتا ہے، اس کے بعد آنے والا گویا گائے کی قربانی دیتا ہے، اس کے بعد آنے والا گویا بکری کی، اس کے بعد آنے والا مرغی کی اور اس کے بعد آنے والا انڈے کی قربانی دیتا ہے۔ “- آیت میں ذکر سے اسی مقام پر خطبہ مراد ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اذان جمعہ کے بعد خطبہ کا نمبر آتا ہے اور اسکی طرف سعی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس سے خطبہ مراد ہے۔ سلف کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ امام اگر خطبہ نہ دے تو اس صورت میں چار رکعتیں پڑھائے گا۔- حسن بصری، ابن سیرین، طائوس، ابن جبیر وغیرہم اس گروہ میں شامل ہیں اور فقہاء امصار کا بھی یہی قول ہے۔- کوئی خطبہ نہ سن سکا تو نماز کے بارے میں کیا حکم ہوگا ؟- اگر کسی شخص کو جمعہ کا خطبہ نہ ملے لیکن پوری نماز یا اس کا بعض حصہ مل جائے تو ایسے شخص کے متعلق فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ عطاء بن ابی رباح سے مروی ہے کہ جس شخص کو جمعہ کا خطبہ نہ ملے وہ ظہر کی چار رکعتیں پڑھے گا۔ سفیان نے ابن ابی نجیح سے روایت کی ہے اور انہوں نے مجاہد ، عطاء اور طائوس سے کہ جس شخص کو جمعہ کا خطبہ نہ ملے وہ چار رکعتیں پڑھے گا۔- ابن عون کا قول ہے کہ محمد بن سیرین کے سامنے اہل مکہ کا یہ قول نقل کیا گیا کہ اگر کسی کو جمعہ کا خطبہ نہ ملے تو وہ چار رکعتیں پڑھے گا۔ انہوں نے یہ سن کر کہا کہ ” یہ ایک بےکار بات ہے۔ “- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ عطاء بن ابی رباح اور چند دوسرے اصحاب کے سوا جن کا ہم نے قول نقل کیا ہے فقہاء امصار اور سلف کے مابین اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جس شخص کو جمعہ کی ایک رکعت مل جائے وہ اس کے ساتھ دوسری رکعت ملا لے گا۔ فقہاء کے ساتھ عطاء بن ابی رباح کا اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر ایک شخص خطبہ سننے کے بعد وضو کرنے چلا جائے اور پھر امام کے پیچھے اسے صرف ایک رکعت ملے تو وہ دو رکعتیں پڑھے گا۔ جب ایک رکعت کا رہ جانا اسے جمعہ کی ادائیگی سے روک نہیں سکتا تو خطبہ کا رہ جانا اسے اس کی ادائیگی سے بطریق اولیٰ نہیں روکے گا۔- اوزاعی نے عطاء سے روایت کی ہے کہ جس شخص کو جمعہ کی نماز کی صرف ایک رکعت ملے وہ اس کے ساتھ تین رکعتیں اور ملائے گا۔ یہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس شخص سے صرف ایک رکعت ہی نہیں رہ گئی تھی بلکہ خطبہ بھی رہ گیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) ، حضرت عبداللہ بن عمر (رض) ، حضرت انس (رض) ، حسن، سعید بن المسیب، ابراہیم نخعی اور شعبی کا قول ہے کہ اگر کسی کو جمعہ کی ایک رکعت مل گئی ہو تو اس کے ساتھ دوسری رکعت ملالے گا۔- زہری نے ابو سلمہ سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من ادرک رکعۃ من الجمعۃ فلیصل الیھا اخری ومن فاتتہ الرکعتان یصلی اربعا۔ جس شخص کو جمعہ کی ایک رکعت مل جائے وہ اس کے ساتھ دوسری رکعت ملالے اور جس شخص کی دونوں رکعتیں رہ گئی ہوں وہ چار پڑھے گا)- اگر کوئی شخص تشہد کے اندر امام کے ساتھ جمعہ کی نماز میں شریک ہوجاتا ہے تو ایسے شخص کے متعلق فقہاء امصار کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ابو وائل نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ جو شخص تشہد کو پالیتا ہے وہ پوری نماز کو پالیتا ہے۔ “- ابن جریج نے عبدالکریم سے اور انہوں نے حضرت معاذ بن جبل سے روایت کی ہے کہ ” اگر سلام پھیرنے سے پہلے کوئی شخص جمعہ کی جماعت میں شریک ہوجاتا ہے جبکہ امام قعدہ میں ہو تو وہ جمعہ کی نماز پالیتا ہے۔ “ حسن بصری، ابراہیم نخعی اور شعبی سے مروی ہے کہ جو شخص جمعہ کی نماز میں رکوع کے اندر امام کے ساتھ شریک نہیں ہوگا وہ چار رکعتیں پڑھے گا۔- امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف کا قول ہے کہ اگر تشہد کے اندر وہ نمازیوں کے ساتھ شامل ہوجائے تو اس صورت میں دو رکعتیں پڑھے گا ۔ امام زفر اور امام محمد کا قول ہے کہ چار رکعتیں پڑلے گا۔- طحاوی نے ابن ابی عمران سے ، انہوں نے محمد بن سماعہ سے اور انہوں نے امام محمد سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ وہ چار رکعتیں پڑھے گا۔ پہلی دو رکعتوں کے بعد تشہد کی مقدار قعدہ کرے گا۔ اگر تشہد کی مقدار رقعدہ نہیں کرتا تو میں اسے ظہر کی چار رکعتیں پڑھنے کے لئے کہوں گا۔- امام مالک، ثوری، حسن بن صالح اور امام شافعی کا قول ہے کہ چار رکعتیں پڑھے گا۔ البتہ امام مالک نے کہا ہے کہ جب کھڑا ہوگا تو ایک اور تکبیر کہے گا۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ جب وہ امام کے ساتھ قعدہ میں شامل ہوجائے گا تو سلام نہیں پھیرے گا بلکہ ظہر کی نیت کے ساتھ چار رکعتیں پڑھ لے گا۔ اور مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ نئے سرے سے نماز کا افتتاح کرلے۔- عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے کہا ہے کہ جمعہ کی نماز میں امام کے ساتھ جب تشہد میں شریک ہوجائے گا تو تکبیر کے بغیر قعدہ کرلے گا۔ پھر جب امام سلام پھیرلے گا تو یہ کھڑا ہوجائے گا اور تکبیر کہنے کے بعد اپنی نماز میں داخل ہوجائے گا۔ اگر تکبیر کہہ کر امام کے ساتھ قعدہ میں مل جائے گا تو امام کی فراغت کے ساتھ یہ بھی سلام پھیر لے گا پھر کھڑا ہوکر ظہر کی نماز کے لئے تکبیر کہے گا۔- لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر جمعہ کی نماز کی ایک رکعت امام کے ساتھ اس خیال کے ساتھ ادا کرلے کہ امام نے خطبہ دیا تھا تو اس رکعت کے ساتھ دوسری رکعت ملالے گا اور پھر سلام پھیر دے گا۔ سلام پھیرنے کے بعد اگر لوگ اسے بتائیں کہ امام نے خطبہ ہی نہیں دیا تھا بلکہ چار رکعتیں پڑھائی تھیں تو یہ دو رکعتیں پڑھ کر سجدہ سہو کرے گا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ فرما دیا کہ (ما ادرکتم فصلوا وما فاتکم فاقضوا امام کے ساتھ نماز کا جتنا حصہ ملے اسے پڑھ لو اور جو باقی رہ جائے اسے پورا کرلو) تو اس سے جمعہ کے تشہد میں امام کے ساتھ شامل ہونے والے پر اس کا اتباع یعنی اس کے ساتھ قعدہ کرنا واجب ہوگیا۔ جب اس نے نماز کے اس حصے کو امام کے ساتھ ادا کرلیا تو اس پر رہ جانے والے حصے کو پورا کرنا واجب ہوگیا۔- کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد (وما فاتکم فاقضوا) ظاہراً اسی کا مقتضی ہے۔ اب اس سے جو نماز رہ گئی وہ جمعہ کی نماز تھی اس لئے اس پر دو رکعتوں کی ادائیگی واجب ہوگئی۔ نیز مسافر اگر مقیم امام کے ساتھ تشہد میں شامل ہوجائے تو اس پر اتمام لازم ہوگا یعنی وہ قصر نہیں کرے گا اور اس کی حیثیت اس شخص جیسی ہوگی جو امام کی تکبیر تحریمہ میں شامل ہوا تھا۔ اس لئے جمعہ کے اندر بھی یہی حکم واجب ہوگا۔ کیونکہ ان دونوں میں سے ہر ایک نماز کے اندر اس کا دخول فرض کے بغیر ہوا تھا۔- اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ (من ادرک رکعۃ من الجمعۃ فلیصل الیھا اخری جس شخص کو جمہ کی ایک رکعت مل جائے وہ اس کے ساتھ دوسری رکعت ملا لے) اور بعض روایات کے الفاظ یہ ہیں (وان ادرکھم جلوسا صلی اربعا، اور اگر وہ لوگوں کے ساتھ قعدہ میں شامل ہوا ہو تو چاررکعتیں پڑھ لے) اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اصل روایت اس طرح ہے (من ادرک رکعۃ من الصلوٰۃ فقدادرک جس شخص کو نماز کی ایک رکعت مل گئی اسے نماز مل گئی) حدیث کے راوی زہری کا قول ہے ” میں جمعہ کو بھی نماز سمجھتا ہوں ۔ “ اس لئے روایت میں جمعہ کا ذکر زہری کا اپنا قول ہے۔- یہ روایت زہری سے آگے چلی ہے۔ وہ کبھی اسے سعید بن المسیب سے روایت کرتے ہیں اور کبھی ابوسلمہ سے اور وہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے۔ زہری نے مطلق نماز کے سلسلے میں اس حدیث کی روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ” میں جمعہ کو بھی نماز سمجھتا ہوں۔ “ اگر زہری کے نزدیک یہ روایت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جمعہ کے بارے میں نص ہوتی تو وہ اپنا درج بالا فقرہ ہرگز نہ کہتے۔- علاوہ ازیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد (من ادرک رکعۃ من الجمعۃ فقد ادرک) میں اس امر پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ جس شخص کو جمعہ کی ایک رکعت نہ ملے وہ چاررکعتیں پڑھے۔ یہی صورت اس ارشاد کی بھی ہے (من ادرکعۃ من الجمعۃ فلیضف الیھا رکعۃ اخری)- رہ گئی وہ روایت جس میں ذک رہے (وان ادرکھم جلوسا صلی اربعا) تو اس کے متعلق یہ کہا جائے گا کہ اس فقرے کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام ہونا ثابت نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ کسی راوی کا اپنا فقرہ ہو جسے اس نے اصل روایت میں داخل کردیا ہے۔ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی روایت درست ہوجائے تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ ” وہ لوگوں کو بیٹھا ہوا پائے اور امام سلام پھیر چکا ہو۔- فقہاء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جمعہ کا وجوب ان لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے جو آزاد ، بالغ اور حالت اقامت میں ہوں۔ عورتوں، غلاموں، غلاموں، مسافروں اور درماندہ لوگوں کے ساتھ اس کا وجوب کا تعلق نہیں ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (رابعۃ لا جمعۃ علیھم العبد والمراۃ والمریض والمسافر، چار قسم کے اشخاص پر جمعہ واجب نہیں۔ غلام، عورت، مریض اور مسافرپر)- نابینا کے متعلق امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اس پر جمعہ نہیں۔ امام صاحب نے نابینا کو اپاہج کا درجہ دیا ہے۔ کیونکہ وہ دوسرے کی مدد کے بغیر جمعہ کی نماز میں حاضر ہونے کی قدرت نہیں رکھتا۔ امام ابویوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ اس پر جمعہ ہے۔ ان دونوں حضرات نے نابینا اور اپاہج کے درمیان فرق کیا ہے۔ ان کے نزدیک نابینا آدمی اس شخص کی طرح ہوتا ہے جسے راستہ معلوم نہ ہو، جب اسے راستہ بتادیا جائے تو وہ خود چل پڑتا ہے۔ اس کے برعکس اپاہج انسان خود چل کر جا نہیں سکتا بلکہ اسے کسی ایسے شخص کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے اٹھا کرلے جائے۔- دوسری طرف امام ابوحنیفہ نے نابینا اور راستے سے ناواقف کے درمیان فرق رکھا ہے اس لئے کہ جو شخص راستے سے ناواقف ہو اسے جب راستہ بتادیا جائے تو وہ خود اس راستے کو پالیتا ہے جبکہ نابینا انسان نہ تو خود راستہ پاسکتا ہے اور نہ ہی رہنمائی کرنے اور بتانے پر وہ اسے جان سکتا ہے۔- امام ابویوسف اور امام محمد کے مسلک کے حق میں اس روایت سے استدلال کیا جاسکتا ہے جسے ابوزرین نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ حضرت عبداللہ (رض) بن ام مکتوم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میں نابینا ہوں، مسجد سے میرا گھر دور ہے اور میرے ساتھ آنے والا کوئی قائد بھی نہیں ہے، آیا مجھے اس بات کی اجازت مل سکتی ہے کہ میں مسجد میں نہ آیا کروں اور گھر پر ہی نماز پڑھ لیا کروں۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی اس بات کا نفی میں جواب دیا۔- حصین بن عبدالرحمن کی روایت میں جو انہوں نے عبداللہ بن شداد سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم سے کی ہے یہ ذکر ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی بات سن کر ان سے پوچھا تھا : ” آیا تم اذان کی آواز سنتے ہو۔ “ انہوں نے عرض کیا کہ سنتا ہوں “ اس پر آپ نے فرمایا، پھر نماز کے لئے آیا کرو۔- جمعہ میں نمازیوں کی تعداد - جمعہ کی نماز کی صحت کے لئے نمازیوں کی تعداد کتنی ہونی چاہیے۔ اس بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام محمد، زفر اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ امام کے سوا کم از کم تین آدمی ہوں۔ امام ابویوسف کا قول ہے کہ امام کے سوا دو آدمی ہوں۔ ثوری کا بھی یہی قول ہے۔- حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر امام کے ساتھ صرف ایک آدمی موجود ہو اور امام اسے خطبہ دے کر نماز پڑھا دے تو دونوں کی نماز کی ادائیگی ہوجائے گی۔ امام مالک نے اس سلسلے میں کوئی تعداد مقرر نہیں کی ہے۔ امام شافعی نے چالیس آدمیوں کا اعتبار کیا ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت جابر (رض) نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ تجارتی قافلے کی آمد کی اطلاع ملی۔ لوگ اس طرف چلے گئے اور آپ کے پاس صرف بارہ آدمی رہ گئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (واذاراوتجارۃ او لھوان انفضوا الیھا)- یہ بات سب کو معلوم ہے کہ مدینہ تشریف لانے کے بعد آپ نے کبھی جمعہ کی نماز نہیں چھوڑی اور روایت میں ذکر نہیں ہے کہ جو لوگ تجارتی قافلے کی آمد کی خبر سن کر چلے گئے تھے وہ واپس بھی آگئے تھے، جس سے یہ بات لازم ہوگئی کہ آپ نے بارہ آدمیوں کو جمعہ کی نماز پڑھائی تھی۔- اصحاب سیر نے یہ نقل کیا ہے کہ مدینہ منورہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہلا جمعہ حضرت مصعب بن عمیر (رض) نے پڑھایا تھا جس میں بارہ افراد شریک ہوئے تھے۔ یہ بات ہجرت سے پہلے کی ہے اس لئے اس روایت کی بنا پر چالیس آدمیوں کا اعتبار باطل ہوگیا۔ نیز ثلاثۃ یعنی تین کا لفظ جمع صحیح ہے اس لئے وہ اربعون یعنی چالیس کی طرح ہے کیونکہ دونوں ہی جمع صحیح ہیں۔- البتہ تین سے کم کے ہند سے کے جمع صحیح ہونے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ اس لئے تین پر اقتصار کرنا اور تین سے کم کے اعتبار کو ساقط کردینا واجب ہے ۔ قول باری ہے (وذراوالبیع اور خرید و فروخت ترک کردو) ۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ خریدوفروخت ترک کردینے کے وقت کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ مسروق، ضحاک اور مسلم بن یسار سے مروی ہے کہ زوال شمس کے ساتھ ہی خرید و فروخت کی ممانعت ہوجاتی ہے۔ مجاہد اور زہری کا قول ہے کہ اذان کے ساتھ ہی اس کی ممانعت ہوجاتی ہے۔- ایک قول کے مطابق اس سلسلے میں جمعہ کے وقت کا اعتبار اولیٰ ہے کیونکہ وقت کے دخول کے ساتھ ہی لوگوں پر جمعہ کی حاضری واجب ہوجاتی ہے اس لئے اگر اذان دیر سے بھی ہو تو اس سے وجوب ساقط نہیں ہوتا۔ کیونکہ زوال سے پہلے اذان کے کوئی معنی نہیں تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ زوال کے بعد جمعہ کی اذان کا وقت نماز جمعہ میں حاضری کے وجوب کے بعد ہوتا ہے۔- جمعہ کی نماز کے لئے اذان کے وقت خریدوفروخت کے جواز میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد، زفر اور امام شافعی کا قول ہے کہ نہی کے باوجود بیع واقع ہوجاتی ہے امام مالک کا قول ہے کہ بیع باطل ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ارشاد باری ہے (ولا تاکلوا امالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم) نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (لا یحل مال امری مسلم الا بطیبۃ من نفسہ) ظاہراً یہ ارشاد تمام اوقات میں عقد بیع کے ذریعے فروخت شدہ چیز کی مشتریکی ملکیت میں آجانے کا مقتضی ہے۔ کیونکہ اس عقد باہمی رضامندی کی شرط پائی گئی ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (وذروا البیح) اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم دونوں آیتوں پر عمل کرتے ہیں، جمعہ کے وقت عقد بیع کی ممانعت ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (وذروالبیع) ۔- لیکن دوسری آیت نزی مذکورہ بالا روایت کے حکم کے تحت عقد بیع ہوجانے کی صورت میں ملکیت واقع ہوجائے گی۔ اسے ایک اور پہلو سے دیکھے، نہی کا تعلق نفس عقد میں کسی فساد یا خرابی کے ساتھ نہیں ہے، اس کا تعلق ایک ایسے سبب کے ساتھ ہے جو خود اس عقد بیع میں موجود نہیں ہوتا۔- اور وہ سبب اشتغال عن الصلوٰۃ ہے یعنی نماز جمعہ کے لئے جانے میں رکاوٹ بننے والی مصروفیت اس لئے بیع کے وقوع اور اس کی صحت کے لئے اس سبب کا مانع نہ ہونا لازم قرار پایا۔- جس طرح فرض نماز کے آخری وقت میں کیا گیا عقد بیع درست ہوتا ہے اگر اس میں نماز قوت ہوجانے کے خطرے کے پیش نظر اس کی ممانعت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ نہی کا تعلق اشتغال عن الصلوٰۃ کے ساتھ ہے۔- اس بیع کی مثال خریدوفروخت کی ان صورتوں جیسی ہے جن کی ممانعت ہے لیکن یہ ممانعت ان کے وقوع ہوجانے کی راہ میں حائل نہیں ہوتی، مثلاً آئے ہوئے تجارتی قافلے سے شہر کے باہر جاکر مل لینا اور ان کے ساتھ مول تول کرلینا یا دیہاتی کے ساتھ شہر کی خریدوفروخت یا غصب شدہ زمین پر بیٹھ کر خریدوفروخت کرنا وغی رہے۔- عبدالعزیز الدر اور دی نے یزید بن خصیفہ سے، انہوں نے محمد بن عبدالرحمن بن ثوبان سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : ” جب تم مسجد میں کسی شخص کو بیع کرتے ہوئے دیکھو تو کہو ” لا اربح اللہ تجارتک “ (اللہ تعالیٰ تیری تجارت کو کبھی نفع بخش نہ بنائے) اور جب تم کسی کو مسجد کے اندر اپنی شدہ چیز تلاش کرتے ہوئے دیکھو تو کہو ” لارد اللہ علیک “ (اللہ تعالیٰ تمہاری یہ چیز تمہیں کبھی واپس نہ دے)- محمدبن عجلان نے عمرو بن شعیب سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے عمرو کے دادا سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد میں خریدوفروخت کی ممانعت کی ہے۔ نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہاں گمشدہ چیز کی تلاش سے اور شعرخوانی کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ اسی طرح جمعہ کے دن نماز سے پہلے حلقہ بنا کر بیٹھنے کی بھی ممانعت کی ہے۔- عبدالرزاق نے روایت بیان کی ہے، انہیں محمد بن مسلم نے عبدربہ بن عبیداللہ سے انہوں نے مکحول سے اور انہوں نے حضرت معاذ بن جبل (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” تم اپنی مساجدکو اپنے دیوانوں اور بچوں سے بچا کر رکھو، نیز رفع اصوات سے خریدوفروخت سے ، اقامت حدود سے اور جھگڑے لڑائی سے بھی انہیں محفوظ رکھو، جمعہ کے دنوں میں انہیں دھونی دو اور ان کے دروازوں پر وضو وغیرہ کے لئے مطابر یعنی پانی اور ڈھیلے وغیرہ رکھ دو ۔ “- اس روایت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد بیع وشراء سے منع فرمایا لیکن اگر بیع وشراء کرلی جائے تو جائز ہوگی کیونکہ نہی کا تعلق ایسے سبب کے ساتھ ہے جو نفس عقد میں موجود نہیں ہے۔- جمعہ کے دن سفر کا بیان - ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جمعہ کے دن زوال سے پہلے اور زوال کے بعد سفر شروع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جبکہ سفر پر جانے والا ظہر کا وقت نکل جانے سے پہلے پہلے اپنے شہر سے باہر ہوجائے۔ امام محمد الیسر میں اس مسئلے کا ذکر کیا اور کہا ہے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔- امام مالک کا قول ہے کہ طلوع فجر کے بعد مجھے اس کا سفر پسند نہیں ہے اگرچہ حرام نہیں ہے، لیکن زوال کے بعد جمعہ پڑھے بغیر اسے سفر نہیں کرنا چاہیے۔ اوزاعی، لیث بن سعد اور امام شافعی جمعہ کی نماز پڑھے بغیر سفر کو مکروہ سمجھتے ہیں۔- حماد بن سلمہ نے حجاج بن ارطاۃ سے، انہوں نے الحکم بن عیینہ سے، انہوںے مقسم سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبداللہ ابن رواحہ (رض) ، حضرت جعفر (رض) اور حضرت زید بن حارثہ (رض) کو کسی مہم پر روانہ کیا، حضرت عبداللہ بن رواحہ پیچھے رہ گئے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ان سے ان کی وجہ پوچھی تو انہوں نے عرض کیا کہ جمعہ کی وجہ سے میں پیچھے رہ گیا ہوں، جمعہ کی نماز پڑھنے کے بعد میں چل پڑوں گا۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا (لغدوۃ فی سبیل اللہ اور روحۃ خیر من الدنیا ومافیھا۔ اللہ کی راہ میں ایک صبح یا ایک شام لگانا دنیاو مافیہا سے بہتر ہے) راوی کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ اسی وقت روانہ ہوگئے۔- سفیان ثوری نے اسود بن قیس سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا ” جمعہ کی نماز سفر سے نہیں روکتی۔ “ ہمیں کسی صحابی کے متعلق یہ علم نہیں ہے کہ انہوں نے حضرت عمر (رض) کی اس رائے سے اختلاف کیا ہو۔- یحییٰ بن سعید نے نافع سے روایت کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کا ایک بیٹا عقیق کے مقام پر تھا جو مدینہ سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ ایک جمعہ کی صبح کو حضرت ابن عمر (رض) کو اپنے بیٹے کی بیماری کی اطلاع ملی۔ وہ جمعہ چھوڑ کر اپنے بیٹے کی عیادت کے لئے عتیق چلے گئے۔ عبیداللہ بن عمر نے کہا ہے سالم جمعہ کے روز مکہ سے چل پڑے تھے۔- عطاء اور قاسم بن محمد سے مروی ہے کہ ان دونوں حضرات نے جمعہ کے روز دن کے اول حصے میں سفر کو مکروہ سمجھا ہے۔ حسن اور ابن سیرین سے مروی ہے کہ جب تک جمعہ کا وقت نہ ہوجائے اس سے پہلے سفر پر جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسرائیل نے ابراہیم بن المہاجر سے اور انہوں نے ابراہیم نخعی سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اگر کوئی شخص جمعرات کو سفر پر جانے کا ارادہ کرے تو صبح صبح سفر پر چلا جائے یہاں تک کہ دن پوری طرح چڑھ جائے۔ پھر اگر شام تک قیام کرے تو اگلے دن جمعہ پڑھے بغیر سفر نہ شروع کرے۔- عطاء سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : ” جب تم پر جمعہ کی رات آجائے تو جمعہ پڑھے بغیر سفر پر نہ جائو۔ “ یہ حضرت عائشہ (رض) اور ابراہیم نخعی کا مسلک تھا، جبکہ ارشاد باری ہے (ھوالذی جعل لکم الارض ذلولا فامشوا فی منا کبھا وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو تابع کررکھا ہے، چلو اس کی چھاتی پر) اللہ تعالیٰ نے تمام اوقات میں سفر کی اباحت کردی ہے اور کسی خاص وقت کے ساتھ اس کی تخصیص نہیں کی۔- اگر یہ کہا جائے کہ آپ کی یہ بات جمعہ کی رات اور جمعہ کے دن زوال سے پہلے سفر کی اباحت کے سلسلے میں بالکل واضح ہے لیکن زوال کے بعد سفر کی ممانعت واجب ہے کیونکہ زوال کے ساتھ ہی اسے نماز جمعہ کی حاضری کا خطاب لاحق ہوجاتا ہے اس لئے کہ قول باری ہے (اذا نودی لصلوٰۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللہ وذروا البیع) اس کے جواب میں کہا جائے گا اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ خطاب مسافروں کو لاحق نہیں ہے۔- دوسری طرف ہماری نماز کی فرضیت کا تعلق آخر وقت کے ساتھ ہوتا ہے اس لئے جب کوئی شخص آخر وقت میں گھر سے نکل کر سفر پر روانہ ہوجائے تو اس سے ہمیں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ جمعہ کی ادائیگی کے حکم کا مخاطب ہی نہیں تھا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩۔ ١٠) اے ایمان والو جب اذان جمعہ کے ذریعے سے تمہیں نماز کی طرف بلایا جائے تو تم نماز اور خطبہ کی طرف فورا چلے آیا کرو اور اذان کے بعد خریدو فروخت چھوڑ دیا کرو یہ نماز اور خطبہ امام تمہارے لیے روزی و تجارت سے زیادہ بہتر، اگر تم لوگ کتاب خداوندی کی تصدیق کرتے ہو۔- اب اس حرمت کے بعد اللہ تعالیٰ اجازت دیتا ہے کہ جب امام نماز جمعہ سے فارغ ہوجائے تو اگر تم چاہو تو مسجد سے تمہیں جانے کی اجازت ہے اور اگر تم چاہو تو اللہ کی روزی تلاش کرو اور ایک مطلب یہ ہے کہ جب امام نماز جمعہ سے فارغ ہوجائے تو مسجد میں بیٹھ کر معرفت توحید زہد و توکل کی تعلیم حاصل کرو اور ہر ایک حالت میں ذکر لسانی و قلبی کرتے رہو تاکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے غصہ سے نجات حاصل کرو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

سورت کے تیسرے اور آخری حصے میں نماز جمعہ کا ذکر ہے ۔ نماز جمعہ دراصل ” حزب اللہ “ کا ہفتہ وار تعلیمی و تربیتی اجتماع ہے۔ ایسے اجتماعات کا انعقاد ہر انقلابی تحریک کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی زمانے میں کمیونسٹوں کے ہاں بھی اپنے کارکنوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ہفتہ وار ” سٹڈی سرکلز “ کا انعقاد بڑے اہتمام سے کیا جاتا تھا۔ دراصل حزب اللہ کا نصب العین بہت عظیم اور راستہ بہت کٹھن ہے۔ اس راستے پر سفر جاری رکھنے کے لیے غیر معمولی صبر اور استقامت درکار ہے ۔ اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ انقلابی کارکنوں کے ذہنوں میں ان کے بنیادی نظریے اور نصب العین کا شعور ہر لحظہ مستحضر رہے۔ چناچہ جمعہ کے اجتماع کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ہر سات دن کے بعد باقاعدگی کے ساتھ دور و نزدیک سے سب اہل ایمان اکٹھے ہوں اور اللہ کا کوئی بندہ نائب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیثیت سے ان کے لیے ” یَتْـلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ “ کا فریضہ سرانجام دے ‘ تاکہ تعلیم و تربیت اور تزکیہ نفس کا عمل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بھی قیامت تک جاری وساری رہے۔ - اجتماعِ جمعہ کے اس پہلو کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ اس کے لیے ظہر کی نماز مختصر کردی گئی۔ یعنی ظہر کے چار فرائض کے بجائے صرف دو رکعتیں رہ گئیں اور باقی دو رکعتوں کی جگہ خطبہ یعنی ” تعلیم و تعلّم “ کو لازم کردیا گیا۔ اس لحاظ سے اجتماعِ جمعہ کو تعلیم بالغاں کا ہفتہ وار پروگرام بھی کہا جاسکتا ہے ۔ اس پروگرام کی اہمیت پچھلے زمانے میں اور بھی زیادہ تھی ‘ جب نہ سکول کالج تھے ‘ نہ یونیورسٹیاں تھیں ‘ نہ کتابیں دستیاب تھیں ‘ نہ اخبار چھپتے تھے اور نہ ہی آڈیو ویڈیو کی سہولیات میسر تھیں۔ برعظیم پاک و ہند میں اجتماعِ جمعہ کی تعلیمی اہمیت کا شعور ماضی قریب کے زمانہ تک بھی موجود تھا۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جمعہ کے دن شہر کی جامع مسجد میں دور دراز دیہات سے لوگ صبح سات آٹھ بجے ہی پہنچنا شروع ہوجاتے تھے۔ اس دور میں جمعہ صرف شہروں میں ادا کیا جاتا تھا ‘ دیہات میں جمعہ نہیں ہوتا تھا ۔ جمعہ کے لیے فقہاء نے ” مصر ِجامع “ کی شرط عائد کی ہے۔ یعنی جمعہ ہر بستی میں نہیں بلکہ صرف اس شہر میں ہوسکتا ہے جس میں بازار ہوں ‘ قیامِ امن کا انتظام ہو ‘ جامع مسجد ہو۔ لیکن جب ہر چھوٹی بڑی بستی میں جمعہ پڑھنا شروع کردیا گیا تو مجموعی طور پر اجتماعِ جمعہ کی اہمیت کم ہونا شروع ہوگئی۔ ظاہر ہے جب ہر بستی میں جمعہ ہو رہا ہو تو لوگ اس کے لیے سفر کر کے شہر کی جامع مسجد میں بھلا کیوں جائیں گے ؟- جمعہ کے اجتماعات تو آج بھی منعقد ہوتے ہیں ‘ لوگ جوق در جوق ان میں شرکت بھی کرتے ہیں ‘ خطبے بھی پڑھے اور سنے جاتے ہیں ‘ لیکن یہ سب کچھ ایک ” رسم عبادت “ کے طور پر ہو رہا ہے ‘ جبکہ اس اجتماع کا بنیادی فلسفہ اور اصل مقصد مجموعی طور پر ہماری نظروں سے اوجھل ہوچکا ہے۔ بقول اقبال : ؎- رہ گئی رسم ِاذاں ‘ روحِ بلالی (رض) نہ رہی - فلسفہ رہ گیا ‘ تلقین غزالی نہ رہی - بہرحال آج کل اجتماعِ جمعہ کے حوالے سے جو ظاہری اہتمام دیکھنے میں آتا ہے اس کی حیثیت اس عمارت کے کھنڈرات کی سی ہے جو عرصہ دراز سے زمین بوس ہوچکی ہے ‘ لیکن ان کھنڈرات کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ عمارت بہت عظیم الشان تھی۔- آیت ٩ یٰٓــاَیـُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ” اے ایمان والو جب تمہیں پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو دوڑو اللہ کے ذکر کی طرف اور کاروبار چھوڑ دو ۔ “- نماز تو بہرحال اللہ کا ذکر ہے ہی ‘ لیکن یہاں اللہ کے ذکر سے خصوصی طور پر خطبہ جمعہ مراد ہے۔۔۔۔ ” اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو “ کا مطلب یہ نہیں کہ بھاگتے ہوئے آئو ‘ بلکہ اس سے مراد مستعدی سے چل کھڑے ہونا ہے ‘ یعنی جلدی سے جلدی وہاں پہنچنے کی کوشش کرو۔ نماز کے لیے بھاگ کر آنے سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے۔- ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّــکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ ” یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :14 اس فقرے میں تین باتیں خاص طور پر توجہ طلب ہیں ۔ ایک یہ کہ اس میں نماز کے لیے منادی کرنے کا ذکر ہے ۔ دوسرے یہ کہ کسی ایسی نماز کی منادی کا ذکر ہے جو خاص طور پر صرف جمعہ کے دن ہی پڑھی جانی چاہیے ۔ تیسرے یہ کہ ان دونوں چیزوں کا ذکر اس طرح نہیں کیا گیا ہے کہ تم نماز کے لیے منادی کرو ، اور جمعہ کے روز ایک خاص نماز پڑھا کرو ، بلکہ انداز بیان اور سیاق و سباق صاف بتا رہا ہے کہ نماز کی منادی سن کر نماز کے لیے دوڑنے میں تساہُل برتتے تھے اور خرید و فروخت کرنے میں لگے رہتے تھے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت صرف اس غرض کے لیے نازل فرمائی کہ لوگ اس منادی اور اس خاص نماز کی اہمیت محسوس کریں اور فرض جان کر اس کی طرف دوڑیں ۔ ان تینوں باتوں پر اگر غور کیا جائے تو ان سے یہ اصولی حقیقت قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ایسے احکام بھی دیتا تھا جو قرآن میں نازل ہوئے ، اور وہ احکام بھی اسی طرح واجب الاطاعت تھے جس طرح قرآن میں نازل ہونے والے احکام ۔ نماز کی منادی وہی اذان ہے جو آج ساری دنیا میں ہر روز پانچ وقت ہر مسجد میں دی جا رہی ہے ۔ مگر قرآن میں کسی جگہ نہ اس کے الفاظ بیان کیے گئے ہیں ، نہ کہیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ نماز کے لیے لوگوں کو اس طرح پکارا کرو ۔ یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ ہے ۔ قرآن میں دو جگہ صرف اس کی توثیق کی گئی ہے ، ایک اس آیت میں ، دوسرے سورہ مائدہ کی آیت 85 میں ۔ اسی طرح جمعہ کی یہ خاص نماز جو آج ساری دنیا کے مسلمان ادا کر رہے ہیں ، اس کا بھی قرآن میں نہ حکم دیا گیا ہے نہ وقت اور طریق ادا بتایا گیا ہے ۔ یہ طریقہ بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جاری کردہ ہے ، اور قرآن کی یہ آیت صرف اس کی اہمیت اور اس کے وجوب کی شدت بیان کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے ۔ اس صریح دلیل کے باوجود جو شخص یہ کہتا ہے کہ شرعی احکام صرف وہی ہیں جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں ، وہ دراصل سنت کا نہیں ، خود قرآن کا منکر ہے ۔ آگے بڑھنے سے پہلے جمعہ کے بارے میں چند امور اور بھی جان لینے چاہییں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جمعہ دراصل ایک اسلامی اصطلاح ہے ، زمانہ جاہلیت میں اہل عرب اسے یوم عَرُوْبَہ کہا کرتے تھے ۔ اسلام میں جب اس کو مسلمانوں کے اجتماع کا دن قرار دیا گیا تو اس کا نام جمعہ رکھا گیا ۔ اگرچہ مؤرخین کہتے ہیں کہ کعب بن لُؤَیّ ، یا قُصَیّ بن کِلاب نے بھی اس دن کے لیے یہ نام استعمال کیا تھا ، کیونکہ اس روز وہ قریش کے لوگوں کا اجتماع کیا کرتا تھا ( فتح الباری ) ، لیکن اس کے اس فعل سے قدیم نام تبدیل نہیں ہوا ، بلکہ عام اہل عرب اسے عروبہ ہی کہتے تھے ۔ نام کی حقیقی تبدیلی اس وقت ہوئی جب اسلام میں اس دن کا یہ نیا نام رکھا گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلام سے پہلے ہفتہ کا دن عبادت کے لیے مخصوص کرنے اور اس کو شعار ملت قرار دینے کا طریقہ اہل کتاب میں موجود تھا ۔ یہودیوں کے ہاں اس غرض کے لیے سَبْت ( ہفتہ ) کا دن مقرر کیا گیا تھا ، کیونکہ اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دی تھی ۔ عیسائیوں نے اپنے آپ کو یہودیوں سے ممیز کرنے کے لیے اپنا شعار ملت اتوار کا دن قرار دیا ۔ اگرچہ اس کا کوئی حکم نہ حضرت عیسیٰ نے دیا تھا ، نہ انجیل میں کہیں اس کا ذکر آیا ہے ، لیکن عیسائیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ صلیب پر جان دینے کے بعد حضرت عیسیٰ اسی روز قبر سے نکل کر آسمان کی طرف گئے تھے ۔ اسی بنا پر بعد کے عیسائیوں نے اپنی عبادت کا دن قرار دے لیا اور پھر 321 میں رومی سلطنت نے ایک حکم کے ذریعہ سے اس کو عام تعطیل کا دن مقرر کر دیا ۔ اسلام نے ان دونوں ملتوں سے اپنی ملت کو ممیز کرنے کے لیے یہ دونوں دن چھوڑ کر جمعہ کو اجتماعی عبادت کے لیے اختیار کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت ابو مسعود انصاری کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کی فرضیت کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہجرت سے کچھ مدت پہلے مکہ معظمہ ہی میں نازل ہوچکا تھا ۔ لیکن اس وقت آپ اس پر عمل نہیں کر سکتے تھے ۔ کیونکہ مکہ میں کوئی اجتماعی عبادت ادا کرنا ممکن نہ تھا ۔ اس لیے آپ نے ان لوگوں کو جو آپ سے پہلے ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچ چکے تھے ، یہ حکم لکھ بھیجا کہ وہاں جمعہ قائم کریں ۔ چنانچہ ابتدائی مہاجرین کے سردار حضرت مُصعب بن عُمیر نے 12 آدمیوں کے ساتھ مدینے میں پہلا جمعہ پڑھا ( طبرانی ۔ دارقطنی ) ۔ حضرت کعب بن مالک اور ابن سیرین کی روایت یہ ہے کہ اس سے بھی پہلے مدینہ کے انصار نے بطور خود ( قبل اس کے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ان کو پہنچا ہوتا ) آپس میں یہ طے کیا تھا کہ ہفتہ میں ایک دن مل کر اجتماعی عبادت کریں گے ۔ اس غرض کے لیے انہوں نے یہودیوں کے سبت اور عیسائیوں کے اتوار کو چھوڑ کر جمعہ کا دن انتخاب کیا اور پہلا جمعہ حضرت اسعد بن زُرارہ نے بنی بَیاضہ کے علاقہ میں پڑھا جس میں 40 آدمی شریک ہوئے ( مسند احمد ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ، ابن حِبان ، عبد بن حُمید ، عبدالرزاق ، بیہقی ) ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے اسلامی ذوق خود اس وقت یہ مطالبہ کر رہا تھا کہ ایسا ایک دن ہونا چاہیے جس میں زیادہ سے زیادہ مسلمان جمع ہو کر اجتماعی عبادت کریں ، اور یہ بھی اسلامی ذوق ہی کا تقاضا تھا کہ وہ دن ہفتے اور اتوار سے الگ ہو تاکہ مسلمانوں کا شعار ملت یہود و نصاریٰ کے شعار ملت سے الگ رہے ۔ یہ صحابہ کرام کی اسلامی ذہنیت کا ایک عجیب کرشمہ ہے کہ بسا اوقات ایک حکم آنے سے پہلے ہی ان کا ذوق کہہ دیتا تھا کہ اسلام کی روح فلاں چیز کا تقاضا کر رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد جو اولین کام کیے ان میں سے ایک جمعہ کی اقامت بھی تھی ۔ مکہ معظمہ سے ہجرت کر کے آپ پیر کے روز قُبا پہنچے ، چار دن وہاں قیام فرمایا ، پانچویں روز جمعہ کے دن وہاں سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے ، راستہ میں بنی سالم بن عوف کے مقام پر تھے کہ نماز جمعہ کا وقت آگیا ، اسی جگہ آپ نے پہلا جمعہ ادا فرمایا ( ابن ہشام ) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نماز کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زوال کے بعد کا وقت مقرر فرمایا تھا ، یعنی وہی وقت جو ظہر کی نماز کا وقت ہے ۔ ہجرت سے پہلے حضرت مصعب بن عمیر کو جو تحریری حکم آپ نے بھیجا تھا اس میں آپ کا ارشاد یہ تھا کہ : فاذا مال النھار عن شطرہ عند الزوال من یوم الجمعۃ فتقربوا الی اللہ تعالیٰ برکعتین ( دارقُطنی ) ۔ جب جمعہ کے روز دن نصف النہار سے ڈھل جائے تو دو رکعت نماز کے ذریعہ سے اللہ کے حضور تقرب حاصل کرو ۔ یہ حکم ہجرت کے بعد آپ نے قولاً بھی دیا اور عملاً بھی اسی وقت پر آپ جمعہ کی نماز پڑھاتے رہے ۔ حضرت اَنَس ، حضرت سلمہ بن اکوع ، حضرت جابر بن عبداللہ ، حضرت زبیر بن العوام ، حضرت سہل بن سعد ، حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت عمار بن یاسر اور حضرت بلال ( رضی اللہ عنہم ) سے اس مضمون کی روایات کتب حدیث میں منقول ہوئی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ نماز زوال کے بعد ادا فرمایا کرتے تھے ( مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، ابوداؤد ، نَسائی ، تِرمذی ) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ امر بھی آپ کے عمل سے ثابت ہے کہ اس روز آپ ظہر کی نماز کے بجائے جمعہ کی نماز پڑھاتے تھے ، اس نماز کی صرف دو رکعتیں ہوتی تھیں ، اور اس سے پہلے آپ خطبہ ارشاد فرماتے تھے ۔ یہ فرق جمعہ کی نماز اور عام دنوں کی نماز ظہر میں تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں صلوٰۃ المسافر رکعتان ، وصلوٰۃ الفجر رکعتان ، و صلوٰۃ الجمعۃ رکعتان ، تمام غیر قصر علیٰ لسان نبیکم صلی اللہ علیہ وسلم و انما قصرت الجمعۃ لاجل الخطبۃ ( احکام القرآن للجصاص ) ۔ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے حکم کی رو سے مسافر کی نماز دو رکعت ہے ، فجر کی نماز دو رکعت ہے ، اور جمعہ کی نماز دو رکعت ہے ۔ یہ پوری نماز ہے ، قصر نہیں ہے ۔ اور جمعہ کو خطبہ کی خاطر ہی مختصر کیا گیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس اذان کا یہاں ذکر ہے اس سے مراد وہ اذان ہے جو خطبہ سے پہلے دی جاتی ہے ، نہ کہ وہ اذان جو خطبہ سے کافی دیر پہلے لوگوں کو یہ اطلاع دینے لیے دی جاتی ہے کہ جمعہ کا وقت شروع ہو چکا ہے ۔ حدیث میں حضرت سائب بن یزید کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صرف ایک ہی اذان ہوتی تھے ، اور وہ امام کے منبر پر بیٹھنے کے بعد دی جاتی تھی ۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے زمانے میں بھی یہی عمل ہوتا رہا ۔ پھر حضرت عثمان کے دور میں جب آبادی بڑھ گئی تو انہوں نے پہلے ایک اور اذان دلوانی شروع کر دی جو مدینے کے بازار میں ان کے مکان زَوراء پر دی جاتی تھی ( بخاری ، ابو داؤد ، نَسائی ، طبرانی ) ۔ سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :15 اس حکم میں ذکر سے مراد خطبہ ہے ، کیونکہ اذان کے بعد پہلا عمل جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے وہ نماز نہیں بلکہ خطبہ تھا ، اور نماز آپ ہمیشہ خطبہ کے بعد ادا فرماتے تھے ۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جمعہ کے روز ملائکہ ہر آنے والے کا نام اس کی آمد کی ترتیب کے ساتھ لکھتے جاتے ہیں ۔ پھر : اذا خرج الامام حضرت الملٰئکۃ یستمعون الذکر ۔ جب امام خطبہ دینے کے لیے نکلتا ہے تو وہ نام لکھنے بند کر دیتے ہیں اور ذکر ( یعنی خطبہ ) سننے میں لگ جاتے ہیں ( مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی ) ۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ ذکر سے مراد خطبہ ہے ۔ خود قرآن کا بیان بھی اسی کی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔ پہلے فرمایا : فَاسْعَوْا اِلیٰ ذِکْرِ اللہِ ۔ خدا کے ذکر کی طرف دوڑو ۔ پھر آگے چل کر فرمایا : فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلوٰۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْارْضِ ۔ جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے روز عمل کی ترتیب یہ ہے کہ پہلے ذکر اللہ اور پھر نماز ۔ مفسرین کا بھی اس پر اتفاق ہے کہ ذکر سے مراد یا تو خطبہ ہے یا پھر خطبہ اور نماز دونوں ۔ خطبہ کے لیے ذکر اللہ کا لفظ استعمال کرنا خود یہ معنی رکھتا ہے کہ اس میں وہ مضامین ہونے چاہییں جو اللہ کی یاد سے مناسبت رکھتے ہوں ۔ مثلاً اللہ کی حمد و ثنا ، اس کے رسول پر درود و صلوۃ ، اس کے احکام اور اس کی شریعت کے مطابق عمل کی تعلیم و تلقین ، اس کے ڈرنے والے نیک بندوں کی تعریف وغیرہ ، اسی بنا پر زمخشری نے کشاف میں لکھا ہے کہ خطبہ میں ظالم حکمرانوں کی مدح و ثنا یا ان کا نام لینا اور ان کے لیے دعا کرنا ، ذکر اللہ سے کوئی دور کی مناسبت بھی نہیں رکھتا ۔ بلکہ یہ تو ذکر الشیطان ہے ۔ اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو ۔ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بھاگتے ہوئے آؤ ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جلدی سے جلدی وہاں پہنچنے کی کوشش کرو ۔ اردو زبان میں بھی ہم دوڑ دھوپ کرنا ، بھاگ دوڑ کرنا ، سرگرم کوشش کے معنی میں بولتے ہیں ، نہ کہ بھاگنے کے معنی میں ، اسی طرح عربی میں بھی سعی کے معنی بھاگنے ہی کے نہیں ہیں ۔ قرآن میں اکثر مقامات پر سعی کا لفظ کوشش اور جدو جہد کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ مثلاً : لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعیٰ ۔ وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَۃَ وَسَعیٰ لَھَا سَعْیَھَا ۔ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ ۔ وَاِذَا تَوَلّیٰ سَعیٰ فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْھَا ۔ مفسرین نے بھی بالاتفاق اس کو اہتمام کے معنی میں لیا ہے ، ان کے نزدیک سعی یہ ہے کہ آدمی اذان کی آواز سن کر فوراً مسجد پہنچنے کی فکر میں لگ جائے ۔ اور معاملہ صرف اتنا ہی نہیں ہے ۔ حدیث میں بھاگ کر نماز کے لیے آنے کی صاف ممانعت وارد ہوئی ہے ۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جب نماز کھڑی ہو تو اس کی طرف سکون و وقار کے ساتھ چل کر آؤ ۔ بھاگتے ہوئے نہ آؤ ، پھر جتنی نماز بھی مل جائے اس میں شامل ہو جاؤ ، اور جتنی چھوٹ جائے اسے بعد میں پورا کر لو ۔ ( صحاح ستہ ) ۔ حضرت ابو قتادہ انصاری فرماتے ہیں ، ایک مرتبہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے کہ یکایک لوگوں کے بھاگ بھاگ کر چلنے کی آواز آئی ۔ نماز ختم کرنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے پوچھا یہ کیسی آواز تھی؟ ان لوگوں نے عرض کیا ۔ ہم نماز میں شامل ہونے کے لیے بھاگ کر آ رہے تھے ۔ فرمایا ایسا نہ کیا کرو ، نماز کے لیے جب بھی آؤ پورے سکون کے ساتھ آؤ ۔ جتنی مل جائے اس کو امام کے ساتھ پڑھ لو ، جتنی چھوٹ جائے وہ بعد میں پوری کر لو ( بخاری ، مسلم ) خرید و فروخت چھوڑ دو کا مطلب صرف خرید و فروخت ہی چھوڑنا نہیں ہے ، بلکہ نماز کے لیے جانے کی فکر اور اہتمام کے سوا ہر دوسری مصروفیت چھوڑ دینا ہے ، بیع کا ذکر خاص طور پر صرف اس لیے کیا گیا ہے کہ جمعہ کے رو تجارت خوب چمکتی تھی ، آس پاس کی بستیوں کے لوگ سمٹ کر ایک جگہ جمع ہو جاتے تھے ، تاجر بھی اپنا مال لے لے کر وہاں پہنچ جاتے تھے ۔ لوگ بھی اپنی ضرورت کی چیزیں خریدنے میں لگ جاتے تھے ۔ لیکن ممانعت کا حکم صرف بیع تک محدود نہیں ہے ، بلکہ دوسرے تمام مشاغل بھی اس کے تحت آ جاتے ہیں ، اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف ان سے منع فرما دیا ہے ، اس لیے فقہاء اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ جمعہ کی اذان کے بعد بیع اور ہر قسم کا کاروبار حرام ہے ۔ یہ حکم قطعی طور پر نماز جمعہ کے فرض ہونے پر دلا لت کرتا ہے ۔ اول تو اذان سنتے ہی اس کے لیے دوڑنے کی تاکید بجائے خود اس کی دلیل ہے ۔ پھر بیع جیسی حلال چیز کا اس کی خاطر حرام ہو جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ فرض ہے ۔ مزید برآں ظہر کی فرض نماز کا جمعہ کے روز ساقط ہو جانا اور نماز جمعہ کا اس کی جگہ لے لینا بھی اس کی فرضیت کا صریح ثبوت ہے ۔ کیونکہ ایک فرض اسی وقت ساقط ہوتا ہے جبکہ اس کی جگہ لینے والا فرض اس سے زیادہ اہم ہو ۔ اسی کی تائید بکثرت احادیث کرتی ہیں ، جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی سخت ترین تاکید کی ہے اور اسے صاف الفاظ میں فرض قرار دیا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا جی چاہتا ہے کہ کسی اور شخص کو اپنی جگہ نماز پڑھانے کے لیے کھڑا کر دوں اور جا کر ان لوگوں کے گھر جلادوں جو جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے نہیں آتے ۔ ( مسند احمد ، بخاری ) حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ ہم نے جمعہ کے خطبہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے : لوگوں کو چاہیے کہ جمعہ چھوڑ نے سے باز آ جائیں ، ورنہ اللہ ان کے دلوں پر ٹھپہ لگا دے گا اور وہ غافل ہو کر رہ جائیں گے ۔ ( مسند احمد ، مسلم ، نسائی ) حضرت ابو الجعد ضحْری ، حضرت جابر بن عبداللہ اور حضرت عبد اللہ بن ابی اَوْفیٰ کی روایات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ارشادات منقول ہوئے ہیں ، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص کسی حقیقی ضرورت اور جائز عذر کے بغیر ، محض بے پروائی کی بنا پر مسلسل تین جمعے چھوڑ دے ، اللہ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے ۔ بلکہ ایک روایت میں تو الفاظ یہ ہیں کہ اللہ اس کے دل کو منافق کا دل بنا دیتا ہے ( مسند احمد ، ابو داؤد نسائی ، ترمذی ، ابن ماجہ ، دارمی ، حاکم ، ابن حبان ، بزاز ، طبرانی فی الکبیر ) حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج سے لے کر قیامت تک جمعہ تم لوگوں پر فرض ہے ۔ جو شخص اسے ایک معمولی چیز سمجھ کر یا اس کا حق نہ مان کر اسے چھوڑے ، خدا اس کا حال درست نہ کرے ، نہ اسے برکت دے ۔ خوب سن رکھو ، اس کی نماز نماز نہیں ، اس کی زکوٰۃ زکوٰۃ نہیں ، اس کا حج حج نہیں ، اس کا روزہ روزہ نہیں ، اس کی کوئی نیکی نیکی نہیں جب تک کہ وہ توبہ نہ کر لے اللہ اسے معاف فرمانے والا ہے ۔ ( ابن ماجہ ، بزار ) اسی سے قریب المعنیٰ ایک روایت طبرانی نے اَوسط میں ابن عمر سے نقل کی ہے ۔ علاوہ بریں بکثرت روایات ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کو بالفاظ صریح فرض اور حق واجب قرار دیا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جمعہ ہر اس شخص پر فرض ہے جو اس کی اذان سنے ( ابو داؤد ، دارقطنی ) جابر بن عبداللہ اور ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ آپ نے خطبہ میں فرمایا ۔ جان لو کہ اللہ نے تم پر نماز جمعہ فرض کی ہے ۔ ( بیہقی ) البتہ آپ نے عورت ، بچے غلام ، مریض اور مسافر کو اس فرضیت سے مستثنیٰ قرار دیا ہے ۔ حضرت حفصہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جمعہ کے لیے نکلنا ہر بالغ پر واجب ہے ( نسائی ) ۔ حضرت طارق بن شہاب کی روایت میں آپ کا ارشاد یہ ہے کہ جمعہ ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ پڑھنا واجب ہے ۔ سوائے غلام ، عورت ، بچے ، اور مریض کے ( ابو داؤد ، حاکم ) حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت میں آپ کے الفاظ یہ ہیں: جو شخص اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو ، اس پر جمعہ فرض ہے ۔ الّا یہ کہ عورت ہو یا مسافر ہو ، یا غلام ہو ، یا مریض ہو ( دار قطنی ، بیہقی ) قرآن و حدیث کی ان ہی تصریحات کی وجہ سے جمعہ کی فرضیت پر پوری امت کا اجماع ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

6: جمعہ کی پہلی اذان کے بعد جمعہ کی تیاری کے سوا کوئی اور کام جائز نہیں، نیز جب تک نمازِ جمعہ ختم نہ ہوجائے خرید وفروخت کا کوئی معاملہ جائز نہیں ہے، اللہ کے ذکر سے مراد جمعہ کا خطبہ اور نماز ہے۔