10۔ 1 اس سے مراد کاروبار اور تجارت ہے۔ یعنی نماز جمعہ سے فارغ ہو کر تم اپنے اپنے کاروبار اور دنیا کے مشاغل میں مصروف ہوجاؤ۔ مقصد اس امر کی وضاحت ہے کہ جمعہ کے دن کاروبار بند رکھنے کی ضرورت نہیں۔ صرف نماز کے وقت ایسا کرنا ضروری ہے۔
[١٥] یہ اجازت ہے حکم نہیں یعنی اگر تم نماز جمعہ کے بعد مسجد میں ہی بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتے رہو تو بھی اچھا ہے، جانا چاہو تو بھی اجازت ہے۔ اور اگر جمعہ کی نماز کے بعد کاروبار یا کام کاج کرنا چاہو تو بھی مکمل اجازت ہے ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ جو بھی کام کاج کرو دل میں ہر وقت اللہ کی یاد ضرور رہنی چاہیے اور اگر ہوسکے تو زبانی بھی اللہ کا ذکر کرو۔ یہ یاد تمہیں معاصی میں پڑنے سے روکے گی۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جمعہ کے دن بھی سارا دن ہمیں کام کاج سے چھٹی منانے کی ضرورت نہیں۔ ضروری یہ ہے کہ جمعہ کے دن جس پر جمعہ واجب ہے وہ بر وقت غسل کرے، مسواک کرے۔ صاف ستھرے کپڑے پہنے، تیل اور خوشبو لگائے پھر خطبہ جمعہ شروع ہونے سے پہلے پہلے بلکہ خطبہ کی اذان سے پہلے مسجد پہنچ جائے۔ اور خطبہ بڑے غور سے سنے ہاں اگر ہفتہ میں ایک دن کاروبار سے چھٹی کرنا ہی ہے تو مسلمانوں کو جمعہ کے دن ہی کرنا چاہئے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :- سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ : ہم سب امتوں کے بعد دنیا میں آئے لیکن قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے۔ بات صرف اتنی ہے کہ یہود و نصاریٰ کو ہم سے پہلے اللہ کی کتاب ملی۔ ان کے لیے بھی جمعہ کا دن ہی (عبادت کے لئے) مقرر ہوا تھا لیکن انہوں نے اس میں اختلاف کیا اور ہم کو اللہ نے اسی دن کی ہدایت فرمائی۔ پھر سب لوگ ہمارے پیچھے ہوگئے۔ یہود کا دن کل (ہفتہ کا دن) ہے اور نصاریٰ کا پرسوں (اتوار) کا دن (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب فرض الجمعۃ)
٢۔ فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ ۔۔۔: یہاں ایک سوال ہے کہ آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ جمعہ کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو ، تو کیا نماز کے بعد مسجد سے نکلنا ضروری ہے اور کیا کاروبار بھی ضرور ی ہے یا گھر میں آرام بھی کیا جاسکتا ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اگرچہ اصل یہی ہے کہ جس کام کا حکم دیا جائے وہ فرض ہوتا ہے ، مگر قرینہ موجود ہو تو امر استحباب کے لیے بھی ہوتا ہے اور بیان جواز کے لیے بھی ۔ یہاں اذان کے بعد بیع سے منع فرمایا تھا، اب اس ممانعت کی حد بیان فرما دی کہ یہ ممانعت نماز پوری ہونے تک ہے ، اس کے بعد بیع کی اجازت ہے اور تمہیں اختیار ہے کہ مسجد سے نکل کر کاروبار میں مصروف ہوجاؤ ، لیکن اگر کوئی مسجد میں رہے یا گھر چلا جائے ، کاروبار نہ کرے تو مضائقہ نہیں ۔ یہ ایسے ہی ہے کہ اللہ نے احرام کی حالت میں شکار سے منع فرمایا ، جیسا کہ فرمایا :(لَا تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ) ( المائدہ : ٩٥)” شکار کو مت قتل کرو ، اس حال میں کہ تم احرام والے ہو “۔ پھر فرمایا :(وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا) (المائدۃ : ٢)” اور جب تم احرام کھول دو تو شکار کرو “۔ یہاں شکار کا حکم دینے کا یہ مطلب نہیں کہ احرام کھولنے والے شخص پر شکار کرنا فرض ہے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ احرام کھولنے کے بعد شکار کی اجزت ہے۔- ٢۔ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللہ ِ : اللہ کے فضل سے مراد یہاں روزی تلاش کرنا ہے ، یعنی جس طرح یہود کے لیے یوم السبت ( ہفتہ) کو سارا دن شکار منع تھا ، تم پر ایسی کوئی پابندی نہیں ، صرف اذان سے لے کر نماز سے فراغت تک خطبہ اور نما ز میں حاضری کے سوا ہر کام منع ہے ، اس کے بعد جس حلال طریقے سے روزی کما سکتے ہو کماؤ۔- ٢۔ وَاذْکُرُوا اللہ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ : یعنی روزی کی تلاش میں مصروفیت کے دوران بھی اللہ کی یاد سے غافل نہ ہوجاؤ بلکہ اسے بہت زیادہ یاد کرتے رہو۔ اللہ کی یاد دل سے بھی ہوتی ہے ، زبان سے بھی اور ہر کام اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتے ہوئے اس کے حکم کے مطابق ادا کرنے کے ساتھ بھی ۔ مزید دیکھئے سورة ٔ احزاب (٤١، ٤٢) کی تفسیر۔
(آیت) فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ ، سابقہ آیات میں اذان جمعہ کے بعد بیع و شراء وغیرہ کے تمام دنیوی امور کو ممنوع کردیا گیا تھا، اس آیت میں اس کی اجازت دے دیگئی کہ نماز جمعہ سے فارغ ہونے کے بعد تجارتی کاروبار اور اپنا اپنا رزق حاصل کرنے کا اہتمام سب کرسکتے ہیں۔- جمعہ کے بعد تجارت و کسب میں برکت :- حضرت عراک بن مالک جب نماز جمعہ سے فارغ ہو کر باہر آتے تو دروازہ مسجد پر کھڑے ہو کر یہ دعا کرتے تھے۔- اللھم انی اجبت دعوتک وصلیت فریضتک وانتشرت کما امرتنی فارزقنی من فضلک و انت خیر الراز قین (رواہ ابن ابی حاتم، از ابن کثیر) - ” یعنی یا اللہ میں نے تیرے حکم کی اطاعت کی اور تیرا فرض ادا کیا اور جیسا کہ تو نے حکم دیا ہے نماز پڑھ کر میں باہر جاتا ہوں تو اپنے فضل سے مجھے رزق عطا فرما اور تو تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے “- اور بعض سلف صالحین سے منقول ہے کہ جو شخص نماز جمعہ کے بعد تجارتی کاروبار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ستر مرتبہ برکات نازل فرماتے ہیں۔ (ابن کثیر) - وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ، یعنی نماز جمعہ سے فارغ ہو کر کسب معاش تجارت وغیرہ میں لگو، مگر کفار کی طرح خدا سے غافل ہو کر نہ لگو، عین خریدو فروخت اور مزدوری کے وقت بھی اللہ کی یاد جاری رکھو۔
فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللہِ وَاذْكُرُوا اللہَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ١٠- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- قضی - الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی:- وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] أي : أمر بذلک،- ( ق ض ی ) القضاء - کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- نشر - النَّشْرُ ، نَشَرَ الثوبَ ، والصَّحِيفَةَ ، والسَّحَابَ ، والنِّعْمَةَ ، والحَدِيثَ : بَسَطَهَا . قال تعالی: وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير 10] ، وقال : وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف 57] «2» ، وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ [ الشوری 28] ، وقوله : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً- [ المرسلات 3] أي : الملائكة التي تَنْشُرُ الریاح، أو الریاح التي تنشر السَّحابَ ، ويقال في جمع النَّاشِرِ : نُشُرٌ ، وقرئ : نَشْراً فيكون کقوله :«والناشرات» ومنه : سمعت نَشْراً حَسَناً. أي :- حَدِيثاً يُنْشَرُ مِنْ مَدْحٍ وغیره، ونَشِرَ المَيِّتُ نُشُوراً. قال تعالی: وَإِلَيْهِ النُّشُورُ- [ الملک 15] ، بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان 40] ، وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلانُشُوراً [ الفرقان 3] ، وأَنْشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ فَنُشِرَ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ- [ عبس 22] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] وقیل : نَشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ وأَنْشَرَهُ بمعنًى، والحقیقة أنّ نَشَرَ اللَّهُ الميِّت مستعارٌ من نَشْرِ الثَّوْبِ. كما قال الشاعر :- طَوَتْكَ خُطُوبُ دَهْرِكَ بَعْدَ نَشْرٍ ... كَذَاكَ خُطُوبُهُ طَيّاً وَنَشْراً- «4» وقوله تعالی: وَجَعَلَ النَّهارَ نُشُوراً [ الفرقان 47] ، أي : جعل فيه الانتشارَ وابتغاء الرزقِ كما قال : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص 73] ، وانْتِشَارُ الناس : تصرُّفهم في الحاجاتِ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم 20] ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب 53] ، فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة 10] وقیل : نَشَرُوا في معنی انْتَشَرُوا، وقرئ : ( وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة 11] «1» أي : تفرّقوا . والانْتِشَارُ : انتفاخُ عَصَبِ الدَّابَّةِ ، والنَّوَاشِرُ : عُرُوقُ باطِنِ الذِّرَاعِ ، وذلک لانتشارها، والنَّشَرُ : الغَنَم المُنْتَشِر، وهو للمَنْشُورِ کالنِّقْضِ للمَنْقوض، ومنه قيل : اکتسی البازي ريشا نَشْراً. أي : مُنْتَشِراً واسعاً طویلًا، والنَّشْرُ : الكَلَأ الیابسُ ، إذا أصابه مطرٌ فَيُنْشَرُ. أي : يَحْيَا، فيخرج منه شيء كهيئة الحَلَمَةِ ، وذلک داءٌ للغَنَم، يقال منه :- نَشَرَتِ الأرضُ فهي نَاشِرَةٌ. ونَشَرْتُ الخَشَبَ بالمِنْشَارِ نَشْراً اعتبارا بما يُنْشَرُ منه عند النَّحْتِ ، والنُّشْرَةُ : رُقْيَةٌ يُعَالَجُ المریضُ بها .- ( ن ش ر )- النشر کے معنی کسی چیز کو پھیلانے کے ہیں یہ کپڑے اور صحیفے کے پھیلانے ۔ بارش اور نعمت کے عام کرنے اور کسی بات کے مشہور کردیتے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير 10] اور جب دفتر کھولے جائیں گے ۔ وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف 57] اور وہی تو ہے جو لوگوں کے ناامیدہو جانیکے بعد مینہ برساتا اور اپنی رحمت ( یعنی بارش کے برکت ) کو پھیلا دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً [ المرسلات 3] اور بادلوں کو ( بھاڑ ) ( پہلا دیتی ہے ۔ میں ناشرات سے مراد وہ فرشتے ہن جو ہواؤں کے پھیلاتے ہیں یا اس سے وہ ہوائیں مراد ہیں جو بادلون کو بکھیرتی ہیں ۔ چناچہ ایک قرات میں نشرابین یدی رحمتہ بھی ہے جو کہ وہ الناشرات کے ہم معنی ہے اور اسی سے سمعت نشرا حسنا کا محاورہ ہے جس کے معنی میں نے اچھی شہرت سنی ۔ نشرالمیت نشودا کے معنی ہیت کے ( ازسرنو زندہ ہونے کے ہیں ) چناچہ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ النُّشُورُ [ الملک 15] اسی کے پاس قبروں سے نکل کر جانا ہے بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان 40] بلکہ ان کو مرنے کے بعد جی اٹھنے کی امیدہی نہیں تھی ۔ وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان 3] اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے ۔ اور نہ جینا اور نہ مرکراٹھ کھڑے ہونا ۔ انشر اللہ المیت ک معنی میت کو زندہ کرنے کے ہیں۔ اور نشر اس کا مطاوع آتا ہے ۔ جس کہ معنی زندہ ہوجانے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ [ عبس 22] پھر جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ بعض نے کہا ہے ک نشر اللہ المیت وانشرہ کے ایک ہی معنی میں ۔ لیکن درحقیقت نشر اللہ المیت نشرالثوب کے محاورہ سے ماخوذ ہے شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (425) طوتک خطوب دھرک بعد نشر کذاک خطوبہ طیا ونشرا تجھے پھیلانے کے بعد حوادث زمانہ نے لپیٹ لیا اس طرح حوادث زمانہ لپیٹنے اور نشر کرتے رہتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] اور دن کو اٹھ کھڑا ہونے کا وقت ٹھہرایا ۔ میں دن کے نشوربنانے سے مراد یہ ہے کہ اس کا روبار کے پھیلانے اور روزی کمانے کے لئے بنایا ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص 73] اور اس نے رحمت سے تمہارے لئے رات کو اور دن کو بنایا ۔ تاکہ تم اس میں آرام کرو اور اس میں اس کا فضل تلاش کرو ۔ اور انتشارالناس کے معنی لوگوں کے اپنے کاروبار میں لگ جانے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم 20] پھر اب تم انسان ہوکر جابجا پھیل رہے ہو ۔ فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب 53] تو جب کھانا کھا چکو تو چل دو ۔ فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة 10] پھر جب نماز ہوچکے تو اپنی اپنی راہ لو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ نشروا بمعنی انتشروا کے آتا ہے۔ چناچہ آیت کریمہ : وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة 11] اور جب کہاجائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑا ہوا کرو ۔ میں ایک قراءت فاذا قیل انشروافانشروا بھی ہے ۔ یعنی جب کہاجائے کہ منتشر ہوجاؤ تو منتشر ہوجایا کرو ۔ الانتشار کے معنی چوپایہ کی رگوں کا پھول جانا ۔۔ بھی آتے ہیں ۔ اور نواشر باطن ذراع کی رگوں کو کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ وہ بدن میں منتشر ہیں ۔ النشر ( ایضا) پھیلنے والے بادل کو کہتے ہیں ۔ اور یہ بمعنی منشور بھی آتا ہے جیسا کہ نقض بمعنی منقوض آجاتا ہے اسی سے محاورہ ہے ؛اکتسی البازی ریشا نشرا ۔ یعنی باز نے لمبے چوڑے پھیلنے والے پروں کا لباس پہن لیا ۔ النشر ( ایضا) خشک گھاس کو کہتے ہیں ۔ جو بارش کے بعد سرسبز ہوکر پھیل جائے اور اس سے سر پستان کی سی کونپلیں پھوٹ نکلیں یہ گھاس بکریوں کے لئے سخت مضر ہوتی ہے ۔ اسی سے نشرت الارض فھی ناشرۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی زمین میں نشر گھاس پھوٹنے کے ہیں ۔ شرت الخشب بالمنشار کے معنی آرے سے لکڑی چیرنے کے ہیں ۔ اور لکڑی چیر نے کو نشر اس لئے کہتے ہیں کہ اسے چیرتے وقت نشارہ یعنی پر ادہ پھیلتا ہے ۔ اور نشرہ کے معنی افسوں کے ہیں جس سے مریض کا علاج کیا جاتا ہے ۔- ابتغاء (ينبغي)- البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، تجاوزه أم لم يتجاوزه، فتارة يعتبر في القدر الذي هو الكمية، وتارة يعتبر في الوصف الذي هو الكيفية، يقال : بَغَيْتُ الشیء : إذا طلبت أكثر ما يجب، وابْتَغَيْتُ كذلك، قال اللہ عزّ وجل : لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 48] ، - وأمّا الابتغاء - فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] ، الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] ، وقولهم : يَنْبغي مطاوع بغی. فإذا قيل : ينبغي أن يكون کذا ؟- فيقال علی وجهين : أحدهما ما يكون مسخّرا للفعل، نحو : النار ينبغي أن تحرق الثوب، والثاني : علی معنی الاستئهال، نحو : فلان ينبغي أن يعطی لکرمه، وقوله تعالی: وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس 69] ، علی الأول، فإنّ معناه لا يتسخّر ولا يتسهّل له، ألا تری أنّ لسانه لم يكن يجري به، وقوله تعالی: وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص 35] .- ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ ردی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ اور بغی کا استعمال کیت اور کیفیت یعنی قدر وو صف دونوں کے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 48 پہلے بھی طالب فسادر ہے ہیں ۔- الا بتغاء - یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔- اور ینبغی ( انفعال ) بغی کا مطاوع آتا ہے اور ینبغی ایکون کذا کا محاورہ طرح استعمال ہوتا ہے ( 1) اس شے کے متعلق جو کسی فعل کے لئے مسخر ہو جیسے یعنی کپڑے کو جلا ڈالنا آگ کا خاصہ ہے ۔ ( 2) یہ کہ وہ اس کا اہل ہے یعنی اس کے لئے ایسا کرنا مناسب اور زیبا ہے جیسے کہ فلان کے لئے اپنی کرم کی وجہ سے بخشش کرنا زیبا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس 69] اور ہم نے ان ( پیغمبر ) کو شعر گوئی نہیں سکھلائی اور نہ وہ ان کو شایاں ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی نہ تو آنحضرت فطر تا شاعر ہیں ۔ اور نہ ہی سہولت کے ساتھ شعر کہہ سکتے ہیں اور یہ معلوم کہ آپ کی زبان پر شعر جاری نہ ہوتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص 35] اور مجھ کو ایسی بادشاہ ہی عطا فرما کر میرے بعد کیسی کو شایاں نہ ہو ۔ ( دوسرے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی میرے بعد وہ سلطنت کسی کو میسر نہ ہو )- فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- فلح - الفَلْحُ : الشّقّ ، وقیل : الحدید بالحدید يُفْلَحُ أي : يشقّ. والفَلَّاحُ : الأكّار لذلک، والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان :- دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، وإيّاه قصد الشاعر بقوله : أَفْلِحْ بما شئت فقد يدرک بال ... ضعف وقد يخدّع الأريب - وفَلَاحٌ أخرويّ ، وذلک أربعة أشياء : بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وعلم بلا جهل . ولذلک قيل : «لا عيش إلّا عيش الآخرة» وقال تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ المجادلة 22] ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى- [ الأعلی 14] ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] ، قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ [ المؤمنون 1] ، لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ البقرة 189] ، إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الْكافِرُونَ [ المؤمنون 117] ، فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ الحشر 9] ، وقوله : وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلى [ طه 64] ، فيصحّ أنهم قصدوا به الفلاح الدّنيويّ ، وهو الأقرب، وسمّي السّحور الفَلَاحَ ، ويقال : إنه سمّي بذلک لقولهم عنده : حيّ علی الفلاح، وقولهم في الأذان : ( حي علی الفَلَاحِ ) أي : علی الظّفر الذي جعله اللہ لنا بالصلاة، وعلی هذا قوله ( حتّى خفنا أن يفوتنا الفلاح) أي : الظّفر الذي جعل لنا بصلاة العتمة .- ( ف ل ح ) الفلاح - الفلح کے معنی پھاڑ نا کے ہیں مثل مشہور ہے الحدید بالحدید یفلح لوہالو ہے کو کاٹتا ہے اس لئے فلاح کسان کو کہتے ہیں ۔ ( کیونکہ وہ زمین کو پھاڑتا ہے ) اور فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ چناچہ شاعر نے اسی معنی کے مدنظر کہا ہے ( نحلع البسیط) (344) افلح بماشئت فقد یدرک بالضد عف وقد یخدع الاریب جس طریقہ سے چاہو خوش عیشی کرو کبھی کمزور کامیاب ہوجاتا ہے اور چالاک دہو کا کھانا جاتا ہے ۔ اور فلاح اخروی چار چیزوں کے حاصل ہوجانے کا نام ہے بقابلا فناء غنا بلا فقر، عزت بلا ذلت ، علم بلا جہلاسی لئے کہا گیا ہے (75) لاعیش الاعیش الاخرۃ کہ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے اور اسی فلاح کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] اور زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے ۔ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ المجادلة 22] ( اور ) سن رکھو کہ خدا ہی کا لشکر مراد حاصل کرنے والا ہے ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی 14] بیشک وہ مراد کو پہنچ گیا جو پاک ہوا ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] جس نے اپنے نفس یعنی روح کو پاک رکھا وہ مراد کو پہنچ گیا ۔ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ [ المؤمنون 1] بیشک ایمان والے رستگار ہوئے ۔ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ البقرة 189] تاکہ تم فلاح پاؤ ۔ إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الْكافِرُونَ [ المؤمنون 117] کچھ شک نہیں کہ کافر رستگاری نہیں پائیں گے ۔ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [ الحشر 9] وہ تو نجات پانے والے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلى [ طه 64] اور آج جو غالب رہا وہ کامیاب ہوا ۔ میں یہ بھی صحیح ہے کہ انہوں نے فلاح دنیوی مراد لی ہو بلکہ یہی معنی ( بلحاظ قرآن ) اقرب الی الصحت معلوم ہوتے ہیں ۔ اور سحور یعنی طعام سحر کو بھی فلاح کہا گیا ہے کیونکہ اس وقت حی علی الفلاح کی آواز بلند کی جاتی ہے اور اذان میں حی علی الفلاح کے معنی یہ ہیں کہ اس کامیابی کیطرف آؤ جو نما زکی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر کر رکھی ہے ۔ اور حدیث (76) حتی خفنا ان یفوتنا الفلاح ( حتی کہ فلاح کے فوت ہوجانے کا ہمیں اندیشہ ہوا ) میں بھی فلاح سے مراد وہ کامیابی ہے جو صلاۃ عشا ادا کرنے کی وجہ سے ہمارے لئے مقدر کی گئی ہے ۔
قول باری ہے (فاذا قضیت الصلوٰۃ فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ ، پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو) حسن اور ضحاک کا قول ہے کہ یہ اجازت اور رخصت ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے بیع کی ممانعت کے بعد اس کا ذکر کیا تو ظاہراً اس سے اباحت اور ممانعت کے رفع کا مفہوم حاصل ہوا۔ جس طرح یہ قول باری ہے (واذا حللتم فاصلادوا اور جب احرام کھول دو تو شکار کرو) ۔- ایک قول کے مطابق آیت کا مفہوم ہے ” اللہ کی اطاعت اور دعا کے ذریعے اس کا فضل تلاش کرو۔ “ ایک قول ہے کہ ” تجارت وغیرہ کے ذریعے اس کا فضل تلاش کرو۔ “ یہ بھی اباحت کا مفہوم ادا کررہا ہے۔ یہ بات زیادہ واضح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آیت کی ابتداء میں بیع وشراء کی ممانعت کردی تھی جس طرح جمعہ کی طرف چل پڑنے کا حکم دیا تھا۔ - ابوبکر حبصاص کہتے ہیں ظاہر قول باری (وابتغوا من فضل اللہ) میں بیع کی اباحت ہے جس کی ابتداء میں ممانعت کردی گئی تھی۔ ارشاد باری ہے (واخرون یضربون فی الارض یبتغون من فضل اللہ واخرون یقاتلون فی سبیل اللہ، اور کچھ دوسرے لوگ اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں اور کچھ اور لوگ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں) ۔- آیت کا مفہوم یہ ہے کہ وہ لوگ تجارت اور دوسرے کام کاج کے ذریعے اللہ کا فضل تلاش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اباحت مراد ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اس حکم کے فوراً بعد فرمایا (واذکراللہ کثیرا، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو) آیت میں جمعہ کی نماز کے بعد سفر کی اباحت پر دلالت موجود ہے کیونکہ ارشاد باری ہے (فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ)
آیت ١٠ فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ ” پھر جب نماز پوری ہوچکے تو زمین میں منتشر ہو جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو “- یعنی جمعہ کے حوالے سے اسلام میں یہودیوں کے یوم سبت جیسی سختی نہیں ہے کہ پورا دن اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص کر دو ۔ بلکہ مسلمانوں سے اس دن صرف یہ تقاضا ہے کہ وہ نماز جمعہ سے قبل اپنے تمام کام کاج چھوڑ دیں۔ نہائیں دھوئیں ‘ اچھے کپڑے پہنیں ‘ خوشبو لگائیں اور بروقت مسجد میں پہنچ جائیں ‘ تاکہ تعلیمی و تربیتی نشست سے بھرپور استفادہ کرسکیں۔ اسی لیے نماز جمعہ کے لیے اوّل وقت مسجد میں آنے والے کو حدیث میں اونٹ کی قربانی کے برابر ثواب کی بشارت دی گئی ہے ۔ دوسری طرف نماز جمعہ ترک کرنے والے کے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سخت وعید سنائی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے :- (مَنْ تَرَکَ ثَلَاثَ جُمُعَاتٍ مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ طُبِعَ عَلٰی قَلْبِہٖ ) (١)- ” جو شخص بغیر کسی عذر کے مسلسل تین جمعے ترک کر دے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ “- اس وعیدی حکم میں بھی یہی فلسفہ کارفرما ہے کہ مسلمانوں کے درمیان کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ ہو جو تعلیم و تربیت کے اس اجتماعی پروگرام سے مستقل طور پر کٹ کر رہ جائے۔ بہرحال جمعہ کے دن ” شرعی مصروفیت “ صرف نماز جمعہ کی ادائیگی تک ہی ہے ‘ اس کے بعد ہر کوئی اپنی دنیوی مصروفیات کے لیے آزاد ہے ۔ اس لیے حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ جمعہ کے دن ” آدھی چھٹی “ قرآن مجید کے مذکورہ حکم کے مطابق کرے ۔ یعنی اگر جمعہ کے دن لوگوں کو آدھی چھٹی دینا ضروری ہے تو یہ چھٹی صبح کے وقت ہونی چاہیے تاکہ لوگ آسانی سے نماز جمعہ کی تیاری کریں ‘ نماز ادا کریں اور نماز کے بعد معمول کے مطابق اپنے کام نپٹائیں۔- وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّــعَلَّــکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ ” اور اللہ کو یاد کرو کثرت سے تاکہ تم فلاح پائو۔ “
سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :16 اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جمعہ کی نماز کے بعد زمین میں پھیل جانا اور تلاش رزق کی دوڑ دھوپ میں لگ جانا ضروری ہے ۔ بلکہ یہ ارشاد اجازت کے معنی میں ہے ۔ چونکہ جمعہ کی اذان سن کر سب کاروبار چھوڑ دینے کا حکم دیا گیا تھا اس لیے فرمایا گیا کہ نماز ختم ہو جانے بعد تمہیں اجازت ہے کہ منتشر ہو جاؤ اور اپنے جو کاروبار بھی کرنا چاہو کرو ، یہ ایسا ہی ہے جیسے حالت احرام میں شکار کی ممانعت کرنے کے بعد فرمایا : فَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا ( الماعدہ ۔ 2 ) جب احرام کھول چکو تو شکار کرو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ احرام کھولنے کے بعد ضرور شکار کرو ، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس کے بعد شکار پر کوئی پابندی باقی نہیں رہتی ۔ چاہو تو شکار کر سکتے ہو ۔ یا مثلاً سورہ نساء میں ایک سے زائد نکاح کی اجازت فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ کے الفاظ میں دی گئی ہے ۔ یہاں اگرچہ فَانْکِحُوْا بصیغۂ امر ہے ۔ مگر کسی نے بھی اس کو حکم کے معنی میں نہیں لیا ہے ۔ اس سے یہ اصولی مسئلہ نکلتا ہے کہ صیغۂ امر ہمیشہ وجوب ہی کے معنی میں نہیں ہوتا بلکہ کبھی یہ اجازت اور کبھی استحباب کے معنی میں بھی ہوتا ہے ۔ یہ بات قرائن سے معلوم ہوتی ہے کہ کہاں یہ حکم کے معنی میں ہے اور کہاں اجازت کے معنی میں اور کہاں اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اللہ کو ایسا کرنا پسند ہے لیکن یہ مراد نہیں ہوتی کہ یہ فعل فرض و واجب ہے ۔ خود اسی فقرے کے بعد متصلاً دوسرے ہی فقرے میں ارشاد ہوا ہے وَاذْکُرُوا اللہَ کَثِیْراً ۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرو ۔ یہاں بھی صیغۂ امر موجود ہے ، مگر ظاہر ہے کہ یہ استحباب کے معنی میں ہے نہ کہ وجوب کے معنی میں ۔ اس مقام پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ قرآن میں یہودیوں کے سبت اور عیسائیوں کے اتوار کی طرح جمعہ کو عام تعطیل کا دن قرار نہیں دیا گیا ہے لیکن اس امر سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کر سکتا کہ جمعہ ٹھیک اسی طرح مسلمانوں کا شعار ملت ہے جس طرح ہفتہ اور اتوار یہودیوں اور عیسائیوں کے شعار ملت ہیں ۔ اور اگر ہفتہ میں کوئی ایک دن عام تعطیل کے لیے مقرر کرنا ایک تمدنی ضرورت ہو تو جس طرح یہودی اس کے لیے فطری طور پر ہفتے کو اور عیسائی اتوار کو منتخب کرتے ہیں اسی طرح مسلمان ( اگر اس کی فطرت میں کچھ اسلامی حِس موجود ہو ) لازماً اس غرض کے لیے جمعہ ہی کو منتخب کرے گا ، بلکہ عیسائیوں نے تو دوسرے ایسے ملکوں پر بھی اپنے اتوار کو مسلط کرنے میں تامل نہ کیا جہاں عیسائی آبادی آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ تھی یہودیوں نے جب فلسطین میں اپنی اسرائیلی ریاست قائم کی تو اولین کام جو انہوں نے کیا وہ یہ تھا کہ اتوار کے بجائے ہفتہ کو چھٹی کا دن مقرر کیا ۔ قبل تقسیم کے ہندوستان میں برطانوی ہند اور مسلمان ریاستوں کے درمیان نمایاں فرق یہ نظر آتا تھا کہ ملک کے ایک حصے میں اتوار کی چھٹی ہوتی تھی اور دوسرے حصے میں جمعہ کی ۔ البتہ جہاں مسلمانوں کے اندر اسلامی حس موجود نہیں ہوتی وہاں وہ اپنے ہاتھ میں اقتدار آنے کے بعد بھی اتوار ہی کو سینے سے لگائے رہتے ہیں جیسا کہ ہم پاکستان میں دیکھ رہے ہیں ۔ بلکہ اس سے زیادہ جب بے حسی طاری ہوتی ہے تو جمعہ کی چھٹی منسوخ کر کے اتوار کی چھٹی رائج کی جاتی ہے ، جیسا کہ مصطفیٰ کمال نے ٹرکی میں کیا ۔ سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :17 یعنی اپنے کاروبار میں لگ کر بھی اللہ کو بھولو نہیں ، بلکہ ہر حال میں اس کو یاد رکھو اور اس کا ذکر کرتے رہو ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، تفسیر سورہ احزاب ، حاشیہ 63 ) ۔ سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :18 قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ایک ہدایت یا ایک نصیحت یا ایک حکم دینے کے بعد لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْ نَ ( شائد کہ تم فلاح پا جاؤ ) اور لَعَلَّکُمْ تَرْ حَمُوْنَ ( شاید کہ تم پر رحم کیا جائے ) کے الفاظ ارشاد فرمائے گئے ہیں ۔ اس طرح کے مواقع پر شاید کا لفظ استعمال کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کو معاذاللہ کوئی شک لا حق ہے ، بلکہ یہ دراصل شاہانہ انداز بیان ہے ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی مہربان آقا اپنے ملازم سے کہے کہ تم فلاں خدمت انجام دو ، شاید کہ تمہیں ترقی مل جائے ۔ اس میں ایک لطیف وعدہ پوشیدہ ہوتا ہے جس کی امید میں ملازم دل لگا کر بڑے شوق کے ساتھ وہ خدمت انجام دیتا ہے ۔ کسی بادشاہ کی زبان سے کسی ملازم کے لیے یہ فقرہ نکل جائے تو اس کے گھر خوشی کے شادیانے بج جاتے ہیں ۔ یہاں چونکہ جمعہ کے احکام ختم ہو گئے ہیں ، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مذاہب اربعہ میں قرآن ، حدیث ، آثار صحابہ ، اور اسلام کے اصول عامہ سے جو احکام جمعہ مرتب کیے گئے ہیں ان کا خلاصہ دے دیا جائے ۔ حنفیہ کے نزدیک جمعہ کا وقت وہی ہے جو ظہر کا وقت ہے ۔ نہ اس سے پہلے جمعہ ہو سکتا ہے ، نہ اس کے بعد ۔ بیع کی حرمت پہلی اذان ہی سے شروع ہو جاتی ہے ، نہ کہ اس دوسری اذان سے جو امام کے منبر پر بیٹھنے کے بعد دی جاتی ہے ، کیونکہ قرآن میں اِذَ نُوْ دِیَ لِلصَّلوٰۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ کے الفاظ مطلقاً ارشاد ہوئے ہیں ۔ اس لیے زوال کے بعد جب جمعہ کا وقت شروع ہو جائے اس وقت جو اذان بھی نماز جمعہ کے لیے دی جائے ، لوگوں کو اسے سن کر خرید و فروخت چھوڑ دینی چاہیے ۔ لیکن اگر کسی شخص نے اس وقت خرید و فروخت کر لی ہو تو وہ بیع فاسد یا جسخ نہ ہو جائے گی ، بلکہ یہ صرف ایک گناہ ہو گا ۔ جمعہ ہر بستی میں نہیں بلکہ صرف مصر جامع میں ہو سکتا ہے ، اور مصر جامع کی معتبر تعریف یہ کہ وہ شہر جس میں بازار ہوں ، قیام امن کا انتظام موجود ہو ، اور آبادی اتنی ہو کہ اگر اس کی بڑی سے بڑی مسجد میں بھی نماز جمعہ کے مکلف سب لوگ جمع ہو جائیں تو اس میں سما نہ سکیں ۔ جو لوگ شہر سے باہ رہتے ہوں ان پر جمعہ اس صورت میں شہر آ کر پڑھنا فرض ہے جبکہ ان تک اذان کی آواز پہنچتی ہو ، یا وہ زیادہ سے زیادہ شہر سے 6 میل کے فاصلے پر ہوں ۔ نماز کے لیے ضروری نہیں کہ وہ مسجد ہی میں ہو ۔ وہ کھلے میدان میں بھی ہو سکتی ہے اور ایسے میدان میں بھی ہو سکتی ہے جو شہر کے باہر ہو مگر اس کا یاک حصہ شمار ہوتا ہو ، نماز جمعہ صرف اس جگہ ہو سکتی ہے جہاں ہر شخص کے لیے شریک ہونے کا اذنِ عام ہو ۔ کسی بند جگہ ، جہاں ہر ایک کو آنے کی اجازت نہ ہو ، خواہ کتنے ہی آدمی جمع ہو جائیں ، جمعہ صحیح نہیں ہو سکتا ۔ صحت جمعہ کے لیے ضروری ہے کہ جماعت میں کم از کم ( بقول ابو حنیفہ ) امام کے سوا تین آدمی ، یا ( بقول ابو یوسف و محمد ) امام سمیت دو آدمی ایسے موجود ہوں جن پر جمعہ فرض ہے ۔ جن عذرات کی بنا پر ایک شخص سے جمعہ ساقط ہو جاتا ہے وہ یہ ہیں : آدمی حالت سفر میں ہی ، یا ایسا بیمار ہو کہ چل کر نہ آ سکتا ہو ، یا دونوں ٹانگوں سے معذور ہو ، یا اندھا ہو ( مگر امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک اندھے پر سے صرف اس وقت جمعہ کی فرضیت ساقط ہوتی ہے جبکہ وہ کوئی ایسا آدمی نہ پاتا ہو جو اسے چلا کر لے جائے ) یا کسی ظالم سے اس کو جان اور آبرو کا ، یا ناقابل برداشت مالی نقصان کا خطرہ ہو ، یا سخت بارش اور کیچڑ پانی ہو ، یا آدمی قید کی حالت میں ہو ۔ قیدیوں اور معذوروں کے لیے یہ بات مکروہ ہے کہ وہ جمعہ کے روز ظہر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھیں ۔ جن لوگوں کا جمعہ چھوٹ گیا ہو ان کے لیے بھی ظہر کی نماز جماعت سے پڑھنا مکروہ ہے ۔ خطبہ صحت جمعہ کی شرائط میں سے ایک شرط ہے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی جمعہ کی نماز خطبہ کے بغیر نہیں پڑھی ہے ، اور وہ لازماً نماز سے پہلے ہونا چاہیے ، اور دو خطبے ہونے چاہییں ۔ خطبہ کے لیے جب امام منبر کی طرف جائے ، اس وقت سے اختتام خطبہ تک ہر قسم کی بات چیت ممنوع ہے ، اور نماز بھی اس وقت نہیں پڑھنی چاہیے ، خواہ امام کی آواز اس مقام تک پہنچتی ہو یا نہ پہنچتی ہو جہاں کوئی شخص بیٹھا ہو ( ہدایہ ، فتح القدیر ، احکام القرآن للجصاص ، الفقہ علی المذاہب الا ربعہ ، عمدۃ القاری ) ۔ شافعیہ کے نزدیک جمعہ کا وقت وہی ہے جو ظہر کا ہے ۔ بیع کی حرمت اور سعی کا وجوب اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب دوسری اذان ہو ( یعنی وہ اذان جو امام کے منبر پر بیٹھنے کے بعد دی جاتی ہے ) ۔ تاہم اگر کوئی شخص اس وقت بیع کرے تو وہ فسخ نہیں ہوتی ۔ جمعہ ہر اس بستی میں ہو سکتا ہے جس کے مستقل باشندوں میں 40 ایسے آدمی موجود ہوں جن پر نماز جمعہ فرض ہے ۔ بستی سے باہر کے ان لوگوں پر جمعہ کے لیے حاضر ہونا لازم ہے جن تک اذان کی آواز پہنچ سکتی ہو ۔ جمعہ لازماً بستی کے حدود میں ہونا چاہیے مگر یہ ضروری نہیں کہ وہ مسجد ہی میں پڑھا جائے ۔ جو لوگ صحرا میں خیموں کے اندر رہتے ہوں ان پر جمعہ واجب نہیں ہے ۔ صحت جمعہ کے لیے ضروری ہے کہ جماعت میں امام سمیت کم از کم 40 ایسے آدمی شریک ہوں جن پر جمعہ فرض ہے ۔ جن عذرات کی بنا پر کسی شخص سے جمعہ کا فرض ساقط ہو جاتا ہے وہ یہ ہیں: سفر کی حالت میں ہو ، یا کسی مقام پر چار دن یا اس سے کم قیام کا ارادہ رکھتا ہو ، بشرطیکہ سفر جائز نوعیت کا ہو ۔ ایسا بوڑھا یا مریض ہو کہ سواری پر بھی جمعہ کے لیے نہ جا سکتا ہو ۔ اندھا ہو اور کوئی ایسا آدمی نہ پاتا ہو جو اسے نماز کے لیے لے جائے ۔ جان یا مال یا آبرو کا خوف لاحق ہو ۔ قید کی حالت میں ہو ، بشرطیکہ اس کی قید اس کے اپنے کسی قصور کی وجہ سے نہ ہو ۔ نماز سے پہلے دو خطبے ہونے چاہییں ۔ خطبے کے دوران میں خاموش رہنا مسنون ہے ، مگر بات کرنا حرام نہیں ہے ۔ جو شخص امام سے اتنا قریب بیٹھا ہو کہ خطبہ سن سکتا ہو اس کے لیے بولنا مکروہ ہے ، لیکن وہ سلام کا جواب دے سکتا ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر سن کر بآواز بلند درود پڑھ سکتا ہے ( مغنی المحتاج ۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ ) ۔ مالکیہ کے نزدیک جمعہ کا وقت زوال سے شروع ہو کر مغرب سے اتنے پہلے تک ہے کہ سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے خطبہ اور نماز ختم ہو جائے ۔ بیع کی حرمت اور سعی کا وجوب دوسری اذان سے شروع ہوتا ہے ۔ اس کے بعد اگر بیع واقع ہو تو وہ فاسد ہے اور فسخ ہوگی ۔ جمعہ صرف ان بستیوں میں ہو سکتا ہے جن کے باشندے وہاں مستقل طور پر گھر بنا کر رہتے ہوں ، اور جاڑے گرمی میں منتقل نہ ہوتے ہوں ، اور ان کی ضروریات اسی بستی میں فراہم ہوتی ہوں ، اور اپنی تعداد کی بنا پر وہ اپنی حفاظت کر سکتے ہوں ۔ عارضی قیام گاہوں میں خواہ کتنے ہی لوگ ہوں اور خواہ وہ کتنی ہی مدت ٹھہریں ، جمعہ قائم نہیں کیا جا سکتا ۔ جس بستی میں جمعہ قائم کیا جاتا ہو اس سے تین میل کے فاصلے تک رہنے والے لوگوں پر جمعہ میں حاضر ہونا فرض ہے ۔ نماز جمعہ صرف ایسی مسجد میں ہو سکتی ہے جو بستی کے اندر یا اس سے متصل ہو اور جس کی عمارت بستی کے عام باشندوں کے گھروں سے کم تر درجے کی نہ ہو ۔ بعض مالکیوں نے یہ شرط بھی لگائی ہے کہ مسجد مسقف ہونی چاہیے اور اس میں پنج وقتہ نماز کا بھی اہتمام ہونا چاہیے ۔ لیکن مالکیہ کا راجح مسلک یہ ہے کہ کسی مسجد میں صحت جمعہ کے لیے اس کا مسقف ہونا شرط نہیں ہے ، اور ایسی مسجد میں بھی جمعہ ہو سکتا ہے جو صرف نماز جمعہ کے لیے بنائی گئی ہو اور پنج وقتہ نماز کا اس میں اہتمام نہ ہو ۔ جمعہ کی نماز صحیح ہونے کے لیے جماعت میں امام کے سوا کم از کم 12 ایسے آدمیوں کا موجود ہونا ضروری ہے جن پر جمعہ فرض ہو ۔ جن عذرات کی بنا پر کسی شخص پر سے جمعہ کا فرض ساقط ہو جاتا ہے وہ یہ ہیں : سفر کی حالت میں ہو یا بحالت سفر کسی جگہ چار دن سے کم قیام کا ارادہ رکھتا ہو ۔ ایسا مریض ہو کہ مسجد آنا اس کے لیے دشوار ہو ۔ اس کی ماں یا باپ یا بیوی یا بچہ بیمار ہو ، یا وہ کسی ایسے اجنبی مریض کی تیمارداری کر رہا ہو جس کا اور کوئی تیماردار نہ ہو ، یا اس کا کوئی قریبی رشتہ دار سخت بیماری میں مبتلا ہو یا مرنے کے قریب ہو ۔ اس کے ایسے مال کو جس کا نقصان قابل برداشت نہ ہو خطرہ لاحق ہو ، یا اسے اپنی جان یا آبرو کا خطرہ ہو ، یا وہ مار یا قید کے خوف سے چھپا ہوا ہو بشرطیکہ وہ اس معاملہ میں مظلوم ہو ۔ سخت بارش اور کیچڑ پانی یا سخت گرمی یا سردی مسجد تک پہنچنے میں مانع ہو ۔ دو خطبے نماز سے پہلے لازم ہیں ، حتیٰ کہ اگر نماز کے بعد خطبہ ہو تو نماز کا اعادہ ضروری ہے ۔ اور یہ خطبے لازماً مسجد کے اندر ہونے چاہییں خطبے کے لیے جب امام منبر کی طرف آواز نہ سن رہا ہو ۔ لیکن اگر خطیب اپنے خطبے میں ایسی لغو باتیں کرے جو نظام خطبہ سے خارج ہوں ، یا کسی ایسے شخص کو گالیاں دے جو گالی کا مستحق نہ ہو ، یا کسی ایسے شخص کی تعریفیں شروع کر دے جس کی تعریف جائز نہ ہو ، یا خطبہ سے غیر متعلق کوئی چیز پڑھنے لگے ، تو لوگوں کو اس پر احتجاج کرنے کا حق ہے ۔ نیز خطبہ میں بادشاہ وقت کے لیے دعا مکروہ ہے الا یہ کہ خطیب کو اپنی جان کا خطرہ ہو ۔ خطیب لازماً وہی شخص ہونا چاہیے جو نماز پڑھائے ۔ اگر خطیب کے سوا کسی اور نے نماز پڑھائی ہو تو وہ باطل ہو گی ( حاشیہ الدسوقی علی الشرح الکبیر ۔ احکام القرآن ابن عربی ۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ ) ۔ حنابلہ کے نزدیک جمعہ کی نماز کا وقت صبح کو سورج کے بقدر ایک نیزہ بلند ہونے کے بعد سے عصر کا وقت شروع ہونے تک ہے ۔ لیکن زوال سے پہلے جمعہ صرف جائز ہے ، اور زوال کے بعد واجب اور افضل ۔ بیع کی حرمت اور سعی کے وجوب کا وقت دوسری اذان سے شروع ہوتا ہے ۔ اس کے بعد جو بیع ہو وہ سرے سے منعقد ہی نہیں ہوتی ۔ جمعہ صرف اس جگہ ہو سکتا ہے جہاں 40 ایسے آدمی جن پر جمعہ فرض ہو ، مستقل طور پر گھروں میں ( نہ کہ خیموں میں ) آباد ہوں ، یعنی جاڑے اور گرمی میں منتقل نہ ہوتے ہوں ۔ اس غرض کے لیے بستی کے گھروں اور محلوں کے باہم متصل یا متفرق ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، ان سب کے مجموعہ کا نام ایک ہو تو وہ ایک ہی بستی ہے خواہ اس کے ٹکڑے ایک دوسرے سے میلوں کے فاصلے پر واقع ہوں ۔ ایسی بستی سے جو لوگ تین میل کے اندر رہتے ہوں ان پر جمعہ کے لیے حاضر ہونا فرض ہے ۔ جماعت میں امام سمیت 40 آدمیوں کی شرکت ضروری ہے ۔ نماز کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ مسجد ہی میں ہو ۔ کھلے میدان میں بھی ہو سکتی ہے ۔ جن عذرات کی بنا پر کسی شخص سے جمعہ کا فرض ساقط ہو جاتا ہے وہ یہ ہیں: مسافر ہو اور جمعہ کی بستی میں چار دن یا اس سے کم قیام کا ارادہ رکھتا ہو ۔ ایسا مریض ہو کہ سواری پر آنا بھی اس کے لیے مشکل ہو ۔ اندھا ہو ، الا یہ کہ خود راستہ ٹٹول کر آ سکتا ہو ۔ کسی دوسرے شخص کے سہارے آنا اندھے کے لیے واجب نہیں ہے ۔ سخت سردی یا سخت گرمی یا سخت بارش اور کیچڑ نماز کی جگہ پہنچنے میں مانع ہو ۔ کسی ظالم کی ظلم سے بچنے کے لیے چھپا ہوا ہو ۔ جان یا آبرو کا خطرہ یا ایسے مالی نقصان کا خوف ہو جو قابل برداشت نہ ہو ۔ نماز سے پہلے دو خطبے ہونے چاہییں ۔ خطبے کے دوران میں اس شخص کے لیے بولنا حرام ہے جو خطیب سے اتنا قریب ہو کہ اس کی آواز سن سکتا ہو ۔ البتہ دور کا آدمی جس تک خطیب کی آواز نہ پہنچتی ہو ، بات کر سکتا ہے ۔ خطیب خواہ عادل ہو یا غیر عادل ، لوگوں کو خطبہ کے دوران میں چپ رہنا چاہیے ۔ اگر جمعہ کے روز عید ہو جائے تو جو لوگ عید پڑھ چکے ہوں ان پر سے جمعہ کا فرض ساقط ہے ۔ اس مسئلے میں حنابلہ کا مسلک ائمہ ثلاثہ کے مسلک سے مختلف ہے ( غایتہ المنتہیٰ ۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ ) ۔ اس امر میں تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ جس شخص پر جمعہ فرض نہیں ہے وہ اگر نماز جمعہ میں شریک ہو جائے تو اس کی نماز صحیح ہے اور اس کے لیے پھر ظہر پڑھنا فرض نہیں رہتا ۔
7: جیسا کہ بارہا گزرچکا ہے، اللہ کا فضل تلاش کرنا قرآنِ کریم کی اصطلاح میں تجارت وغیرہ کے ذریعے روزگار حاصل کرنے کو کہا جاتا ہے، لہٰذا مطلب یہ ہے کہ خرید وفروخت پر جو پابندی اذان کے بعد عائد ہوئی تھی، جمعہ کی نماز ختم ہونے کے بعد وہ اٹھ جاتی ہے اور خرید وفروخت جائز ہوجاتی ہے۔