Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تجارت عبادت اور صلوۃ جمعہ٭٭ مدینہ میں جمعہ والے دن تجارتی مال کے آ جانے کی وجہ سے جو حضرات خطبہ چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے ، انہیں اللہ تعالیٰ عتاب کر رہا ہے کہ یہ لوگ جب کوئی تجارت یا کھیل تماشہ دیکھ لیتے ہیں تو اس کی طرف چل کھڑے ہوتے ہیں اور تجھے خطبہ میں ہی کھڑا چھوڑ دیتے ہیں ، حضرت مقاتل بن حیان فرماتے ہیں یہ مال تجارت وحیہ بن خلیفہ کا تھا جمعہ والے دن آیا اور شہر میں خبر کے لئے طب بجنے لگا حضرت وحیہ اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے ، طبل کی آواز سن کر سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے صرف چند آدمی رہ گئے ، مسند احمد میں ہے صرف بارہ آدمی رہ گئے باقی لوگ اس تجارتی قافلہ کی طرف چل دیئے جس پر یہ آیت اتری ۔ مسند ابو یعلی میں اتنا اور بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر وہ بھی باقی نہ رہتے اور سب کی طرف چل دیئے جس پر یہ آیت اتری ۔ مسند ابو یعلی میں اتنا اور بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ بھی باقی نہ رہتے اور سب اٹھ کر چلے جاتے تو تم سب پر یہ وادی آگ بن کر بھڑک اٹھتی ، جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نہیں گئے تھے ، ان میں حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق عنہما بھی تھے ، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جمعہ کا خطبہ کھڑے ہو کر پڑھنا چاہئے ، صحیح مسلم میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن دو خطبے پڑھتے تھے درمیان میں بیٹھ جاتے تھے قرآن شریف پڑھتے تھے اور لوگوں کو تذکیرہ نصیحت فرماتے تھے ، یہاں یہ بات بھی معلوم رہنی چاہئے کہ یہ واقعہ بہ قول بعض کے اس وقت کا ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز کے بعد خطبہ پڑھا کرتے تھے ۔ مراسیل ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سے پہلے جمعہ کی نماز پڑھا کرتے تھے جیسے عیدین میں ہوتا ہے ، یہاں تک کہ ایک مرتبہ آپ خطبہ سنا رہے تھے کہ ایک شخص نے آن کر کہا وحیہ بن خلیفہ مال تجارت لے کر آ گیا ہے ، یہ سن کر سوائے چند لوگوں کے اور سب اٹھ کھڑے ہوگئے ۔ پھر فرماتا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں خبر سنا دو کہ دار آخرت کا ثواب عند اللہ ہے وہ کھیل تماشوں سے خرید و فروخت سے بہت ہی بہتر ہے ، اللہ پر توکل رکھ کر ، طلب رزق اوقات اجازت میں جو کرے اللہ اسے بہترین طریق پر روزیاں دے گا ۔ الحمد اللہ سورہ جمعہ کی تفسیر پوری ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعے کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک قافلہ آگیا، لوگوں کو پتہ چلا تو خطبہ چھوڑ کر باہر خریدو فروخت کے لئے چلے گئے کہ کہیں سامان فروخت ختم نہ ہوجائے صرف 12 آدمی مسجد میں رہ گئے جس پر یہ آیت نازل ہوئی (صحیح بخاری) ۔ انفضاض کے معنی ہیں مائل اور متوجہ ہونا دوڑ کر منتشر ہوجانا۔ الیھا میں ضمیر کا مرجع تجارۃ ہے یہاں صرف ضمیر تجارت پر اکتفا کیا اس لیے کہ جب تجارت بھی باوجود جائز اور ضروری ہونے کے دوران خطبہ مذموم ہے تو کھیل وغیرہ کے مذموم ہونے کیا شک ہوسکتا ہے ؟ علاوہ ازیں قائما سے معلوم ہوا کہ خطبہ جمعہ کھڑے ہو کردینا سنت ہے۔ چناچہ حدیث میں بھی آتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دو خطبے ہوتے تھے، جن کے درمیان آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھتے تھے، قرآن پڑھتے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت فرماتے۔ (صحیح مسلم) 11۔ 2 یعنی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کی اطاعت کی جو جزائے عظیم ہے ۔ 11۔ 3 جس کی طرف تم دوڑ کر گئے اور مسجد سے نکل گئے اور خطبہ جمعہ کی سماعت بھی نہیں کی۔ 11۔ 4 پس اسی سے روزی طلب کرو اور اطاعت کے ذریعے سے اسی کی طرف وسیلہ پکڑو۔ اس کی اطاعت اور اس کی طرف رزق حاصل کرنے کا بہت بڑا سبب ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦] مدنی دور کی ابتدائی زندگی معاشی لحاظ سے بھی مسلمانوں کے لیے سخت پریشان کن تھی۔ مہاجرین کی آباد کاری کے علاوہ کفار مکہ نے بھی اہل مدینہ کی معاشی ناکہ بندی کر رکھی تھی۔ جس کی وجہ سے غلہ کم یاب بھی تھا اور گرانی بھی بہت تھی۔ انہی ایام میں ایک دفعہ رسول اللہ جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ کہ ایک غلہ کا تجارتی قافلہ مدینہ آن پہنچا اور انہوں نے اپنی آمد کی اطلاع کے طور پر طبلے بجانا شروع کردیئے۔ یہ خبر مژدہ جانفزا سے کم نہ تھی۔ چناچہ خطبہ سننے والے مسلمان بھی، محض اس خیال سے کہ اگر دیر سے گئے تو سارا غلہ بک ہی نہ جائے، خطبہ چھوڑ کر ادھر چلے گئے اور آپ کے پاس صرف بارہ آدمیوں کے سوا کوئی نہ رہا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب اذا نفرالناس عن الامام۔۔ ) جس میں مسلمانوں پر میٹھی زبان میں عتاب نازل ہوا کہ یہ قافلہ والے کوئی تمہارے رازق تو نہ تھے۔ رزق کے اسباب مہیا کرنے والا تو اللہ ہے۔ لہذا آئندہ تمہیں ایسی باتوں سے اجتناب کرنا چاہئے۔ ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام کو خطبہ کھڑے ہو کردینا چاہیے اور یہی آپ کا معمول تھا۔- اس سلسلہ میں دو احادیث ملاحظہ فرمائیں :۔- ١۔ جابر بن سمرۃ (رض) فرماتے ہیں نبی اکرم خطبہ کھڑے ہو کردیتے۔ پھر بیٹھ جاتے۔ پھر کھڑے ہو کر خطبہ دیتے۔ جو تمہیں یہ بتائے کہ آپ نے خطبہ بیٹھ کردیا اس نے جھوٹ بولا۔ (مسلم) - ٢۔ کعب بن عجرہ (رض) مسجد میں تشریف لائے اور عبدالرحمن بن ام الحکم بیٹھ کر خطبہ دے رہے تھے۔ کعب نے فرمایا۔ اس خبیث کو دیکھو۔ یہ بیٹھ کر خطبہ دیتا ہے اور قرآن مجید میں ( وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوَۨا انْفَضُّوْٓا اِلَيْهَا وَتَرَكُوْكَ قَاۗىِٕمًا 11۝ۧ) 62 ۔ الجمعة :11) جب انہوں نے خریدو فروخت یا کھیل کے مشغلہ کو دیکھا تو اس طرف بھاگ نکلے اور تمہیں کھڑا ہوا چھوڑ گئے۔ (مسلم)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوَ نِانْفَضُّوْٓا اِلَیْھَا ۔۔۔۔: اس سے پہلے عام تراجم کے مطابق اس آیت کا ترجمہ اور جب وہ کوئی تجارت یا تماشا دیکھتے ہیں تو اٹھ کر اس کی طرف چلے جاتے ہیں اور تجھے کھڑا چھوڑ جاتے ہیں “۔ کیا گیا تھا۔ اس ترجمہ کی وجہ یہ ہے کہ لفظ ” اذا “ عموماً مستقبل کے لیے آتا ہے ، حالانکہ اس مقام پر یہ لفظ مستقبل نہیں بلکہ ماضی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، لہٰذا آیت کا مذکورہ بالا ترجمہ درست نہیں ، بلکہ درست ترجمہ یہ ہے :” اور جب انہوں نے کوئی تجارت دیکھی یا تماشا تو اٹھ کر اس کی طرف چلے گئے اور انہوں نے تجھے کھڑا چھوڑ دیا “۔ قرینہ اس کا یہ ہے کہ یہ فعل صحابہ کرام (رض) سے صرف ایک دفعہ سر زد ہوا ہے ، اس کے بعد انہوں نے کبھی ایسا نہیں کیا ، اس لیے یہ کہنا کہ وہ جب بھی کوئی تجارت یا تماشا دیکھتے تھے تو اٹھ کر چلے جاتے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کھڑا چھوڑ جاتے تھے ، ہرگز درست نہیں ، بلکہ یہاں ماضی میں ہونے والے معاملے کا ذکر ہے جو صرف ایک دفعہ واقع ہوا ہے۔- مفسر ابراہیم میر سیالکوٹی نے ’ ’ شہادۃ القرآن “ ( جلد دوم) میں اس کے متعلق بہت عمدہ بحث لکھی ہے ، وہ فرماتے ہیں : ” اذا “ اور ” اذا “ دو کلمے ظروف زمانیہ میں سے ہیں ۔ ” اذا “ ماضی کے لیے آتا ہے اور کبھی بمعنی مستقبل بھی ہوتا ہے، جیسا کہ ” اذا “ مستقبل کے لیے اور کبھی ماضی کے لیے بھی آتا ہے ، چنانچ مغنی ( مغنی اللبیب) میں ” اذا “ کی بحث میں لکھا ہے :” احدھما ان تجیی للماضیی کما تجیی اذا للمستقبل “” اذا “ بمعنی ” اذا “ کی مثال یہ آیت ہے :(وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوَ نِانْفَضُّوْٓا اِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًا) ( الجمعۃ : ١١) ” اور جس وقت انہوں نے تجارت یا کھیل کا سامان دیکھا تو اس کی طرف اٹھ گئے اور تجھے کھڑا چھوڑ دیا “۔ اور یہ آیت (حَتّٰی اِذَاضَاقَتْ عَلَیْھِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْھِمْ اَنْفُسُھُمْ ) ( التوبۃ : ١١٨)” یہاں تک کہ جس وقت زمین ان پر باوجود فراخ ہونے کے تنگ ہوگئی اور ان کی جانیں بھی ان کو گراں معلوم ہوئیں “۔ اور ” اذا “ بمعنی “ اذا یعنی مستقبل کی مثال یہ آیت ہے :(فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ اِذِالْاَغْلٰلُ فِیْٓ اَعْنَاقِہِمْ ) ( المومن : ٧٠، ٧١)” پس یہ لوگ اس وقت ضرور جان لیں گے ، جب ان کی گردنوں میں طوق پڑیں گے “۔ کیونکہ ” سوف “ جو خاص استقبال کے لیے موضوع ہے ، قرینہ موجود ہے “۔ اس کے بعد مولانا میر سیالکوٹی نے اشعار عرب سے اس کی مثالیں ذکر فرمائی ہیں۔- ٢۔ وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوَ نِانْفَضُّوْٓا اِلَیْھَا ۔۔۔۔۔” فض یفض فضا “ (ن) ” الشثی “ کسی چیز کو توڑ کر ریزہ ریزہ کردینا۔” انفض “ (انفعال) بکھر جانا ، منتشر ہوجانا ۔ مدینہ میں ایک تجارتی قافلے کی آمد پر صحابہ کے اٹھ کر چلے جانے پر ناراضی کا اظہار ہو رہا ہے ۔ جابر بن عبد اللہ (رض) نے بیان کیا کہ جمعہ کے دن ایک قافلہ آیا جب کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے ، تو بارہ آدمیوں کے سوا سب اس کی طرف اٹھ کر چلے گئے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (واذا راوا تجارۃ او لھوا انفضوا لیھا) ( بخاری ، التفسیر ، باب :(واذاروا تجارۃ او لھوا): ٤٨٩٩) جابر بن عبد اللہ (رض) ہی سے روایت ہے کہ جمعہ کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ دے رہے تھے ، اس دوران مدینہ میں ایک قافلہ آیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب جلدی سے اٹھ کر چلے گئے ، حتیٰ کہ آپ کے پاس صرف بارہ آدمی رہ گئے ، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( والذی نفسی بیدہ لوتتا بعتم حتی لا یبقی منکم احد لسال بکم الوادی النار ، فنزلت ھذہ الایۃ) (وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوَ نِانْفَضُّوْٓا اِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًا) وقال فی الاثنی عشر الذین تبتوا مع رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوبکر و عمر) (مسند ابی یعلی : ٣، ٤٦٨، ح : ١٩٧٩، قال المحقق حسین ، سلیم اسد ، المادۃ صحیح)” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم سب ایک دوسرے کے پیچھے چلے جاتے ، حتیٰ کہ تم میں سے ایک بھی باقی نہ رہتا تو یہ وادی تمہیں آگ کے ساتھ بہا کرلے جاتی “۔ اس پر یہ آیت اتری :(وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوَ نِانْفَضُّوْٓا اِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًا) جابر (رض) نے فرمایا : ” ان باقی رہنے والے بارہ آدمیوں میں ابوبکر اور عمررضی اللہ عنہما بھی تھے “۔- ٣۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے ، اس لیے عذر کے بغیر بیٹھ کر خطبہ نہیں دینا چاہیے۔ عبد اللہ بن عمر (رض) نے فرمایا :” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن کھڑے ہو کر خطبہ دیتے ، پھر بیٹھ جاتے ، پھر کھڑے ہوجاتے ، جیسا کہ آج کل کرتے ہیں “۔ ( مسلم ، الجمعۃ ، باب ذکر الخطبتین قبل الصلاۃ وما فیھامن الجلسۃ : ٨٦١)- ٤۔ جابر بن سمرہ (رض) نے فرمایا :( کانت للنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبتان یجلس بینھما یقرا القرآن و یذکر الناس) ( مسلم ، الجمعۃ ، باب ذکر الخطبتین قبل الصلاۃ وما فیھما من الجلسۃ : ٨٦٢)” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو خطبے دیا کرتے تھے ، ان دونوں کے درمیان بیٹھے تھے ، آپ قرآن پڑھتے اور لوگوں کو نصیحت کرتے “۔ اس حدیث سے کئی باتیں ثابت ہوئیں ، ایک یہ کہ جمعہ کے دو خطبے ہیں ، جو کھڑے ہو کردیئے جاتے ہیں اور ان کے درمیان بیٹھا جاتا ہے۔ دوسری یہ کہ جمعہ کے خطبے میں یہ چیزیں ہوں تو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) والا خطبہ ہے ورنہ نہیں ، ایک یہ کہ اس میں قرآن مجید ضرور پڑھا جائے خواہ ایک آیت ہی ہو اور دوسری یہ کہ اس میں نصیحت کی جائے ، اگر کسی خطبے میں تذکیر (نصیحت) نہیں تو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) والا خطبہ نہیں ۔ ظاہر ہے کہ نصیحت کا مقصد یہی ہے کہ لوگ اسے سمجھیں اور اس پر عمل کریں اور یہ مقصد تبھی حاصل ہوسکتا ہے جب لوگوں کو ان کی زبان میں سمجھایا جائے۔- حقیقت یہ ہے کہ جمعہ مسلمانوں کی ہفتہ وار عید ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے ذکر ، اس کی حمد وثناء ، قرآن و سنت کی تعلیم اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا اہتمام ہوتا ہے اور وہ آئندہ سات دنوں کے لیے نئے سرے سے مصروف عمل ہوجاتے ہیں ۔ چونکہ یہ مذہبی شعار ہے اس لیے کوئی حکومت بھی اس اجتماع کو ختم نہیں کرسکتی ۔ مسلمانوں کو عمل کے اندر کوتاہی یا دین حق سے انحراف یا کفار سے جہاد میں غفلت کی صورت میں ان کے علماء انہیں ان کا فریضہ یاد دلاتے ہیں ، مگر جس طرح دوسرے کئی شعار کا حال خراب ہوا جمعہ کے متعلق بھی بعض لوگوں نے اپنے پاس سے ایسی کئی پابندیاں لگا دیں جن کی وجہ سے مسلمان عملاً اس کے فوائد سے محروم ہوگئے۔ ہر جمعہ کو تمام مسلمان قرآن و سنت کا جو علم حاصل کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے احکام سے آگاہ ہوتے تھے ، اب اپنے مسائل کے لیے ان علماء کے محتاج ہوگئے جو قرآن و حدیث سے مسائل لینے کی بجائے کسی ایک فقہی مکتب کے مقلد تھے ، ان علماء کے مطابق قرآن مجید کا ترجمہ عام آدمی کے لیے پڑھنا ہی درست نہ تھا۔ مدت تک برصغیر میں قرآن مجید کے فارسی یا اردو ترجمے کی کسی کو جرأت ہی نہیں ہوئی ۔ ان کے مطابق عام مسلمان کا کام یہ ہے کہ وہ خود قرآن یا حدیث دیکھنے کے بجائے عالم سے مسئلہ پوچھے اور اس عالم کا کام یہ ہے کہ قرآن یا حدیث میں سے مسئلہ بتانے کے بجائے اپنے امام کا قوم بیان کرے۔ اس جمعہ میں قرآن یا حدیث کے بیان کا جو امکان تھا وہ انہوں نے اس طرح ختم کیا کہ اس کے لیے شہر اور حاکم کی شرط لگا دی ، تو چند مقامات کے سوا باقی ہر جگہ جمعہ ویسے ہی بند ہوگیا ، جبکہ عورتوں کے لیے مسجد میں آنا سرے سے ممنوع قرار دیا ۔ پھر یہ شرط لگائی کہ جمعہ کا خطبہ صرف عربی میں ہوگا ، تا کہ کوئی شخص قرآن و سنت سے واقف نہ ہو سکے ، حالانکہ جس امام کے و ہ مقلد ہیں ان کے نزدیک نماز میں بھی قرآن کی تلاوت فارسی یا کسی اور زبان میں کی جاسکتی ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں مدتوں یہی سلسلہ جاری رہا ، آخر کار جب عمل بالحدیث کا غلغلہ بلند ہوا اور تقلید کی پابندیوں سے آزاد علماء نے اردو میں خطبہ شروع کیا اور لوگوں کو اصل قرآن و سنت سننے کا موقع ملا تو بجائے اس کے کہ وہ حضرات بھی اردو میں خطبہ دیتے ، انہوں نے اذان کے بعد والے دو خطبے عربی میں ضروری قرار دینے پر اصرار جاری رکھا ، مگر اس کے ساتھ اپنے مذہب کے دفاع کے لیے اردو میں ایک خطبے کا اضافہ کردیا اور اس کا نام تقریر رکھ دیا ، حالانکہ خطبہ ہو یا خطاب یا تقریر ، ایک ہی چیز ہے۔ ان حضرات نے یہ خیال نہیں فرمایا کہ اس طرح انہوں نے اردو میں خطبہ دے کر ایک تو وہی کام کیا جس سے وہ دسروں کو روکتے تھے اور ایک یہ کہ انہوں نے دو خطبوں کے بجائے تیسرے خطبے کی بدعت ایجاد کرلی ۔ یاد رکھیں کہ اگر ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) والا خطبہ جمعہ دینا چاہتے ہیں تو اس میں تذکیر ( نصیحت) ضروری جز ہے ، بلکہ یہ خطبے کا اصل مقصود ہے اور وہ لوگوں کو ان کی زبان میں سمجھائے بغیر ممکن نہیں ۔ اس لیے خطبے صرف دو ہونے چاہئیں اور عربی کے ساتھ ساتھ اسے مخاطب لوگوں کی زبان میں بھی سمجھانے کا اہتمام ہونا چاہیے۔- ٥۔ قُلْ مَا عِنْدَ اللہ ِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ ۔۔۔۔: یعنی اللہ کی خاطر تم جس لہو ( کھیل تماشے) اور تجارت کو چھوڑو گے اللہ کے پاس اس سے کہیں بہتر بدلا دنیا اور آخرت دونوں میں موجود ہے۔- ٦۔ صحابہ کرام (رض) سے نادانی میں یہ عمل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس پر تنبیہ فرمائی ، اس کے بعد صحابہ کرام (رض) نے جس طرح اللہ کے ذکر اور نماز کو تجارت وغیرہ پر ترجیح دی اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورة ٔ نور ( ٣٦، ٣٧) میں فرمایا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوَۨا انْفَضُّوْٓا اِلَيْهَا وَتَرَكُوْكَ قَاۗىِٕمًا ۭ قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ ۭ وَاللّٰهُ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ - اس آیت میں ان لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے جو جمعہ کا خطبہ چھوڑ کر تجارتی کا مکی طرف متوجہ ہوگئے تھے، امام ابن کثیر (رح) نے فرمایا کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جبکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ جمعہ نماز جمعہ کے بعد دیا کرتے تھے جیسا کہ عیدین میں اب بھی یہی معمول ہے، ایک جمعہ کے روز یہ واقعہ پیش آیا کہ نماز جمعہ سے فارغ ہو کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک ایک تجارتی قافلہ مدینہ طیبہ کے بازار میں پہنچا اور ڈھول باجہ وغیرہ سے اس کا اعلان ہونے لگا، اس وقت نماز جمعہ سے فراغت ہوچکی تھی، خطبہ ہو رہا تھا، بہت سے حضرات صحابہ بازار چلے گئے اور آپ کے ساتھ تھوڑے سے حضرات رہ گئے جن کی تعداد بارہ بتلائی گئی ہے (یہ روایت ابوداؤد نے مراسیل میں بیان فرمائی ہے) بعض روایات حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس واقعہ پر فرمایا کہ اگر تم سب کے سب چلے جاتے تو مدینہ کی ساری وادی عذاب کی آگ سے بھر جاتی (رواہ ابو یعلی، ابن کثیر) - امام تفسیر مقاتل کا بیان ہے کہ یہ تجارتی قافلہ دحیہ بن خلف کلبی کا تھا، جو ملک شام سے آیا تھا اور تجار مدینہ میں اس کا قافلہ عموماً تمام ضروریات لے کر آیا کرتا تھا اور جب مدینہ کے لوگوں کو اس کی آمد کی خبر ملتی تھی تو سب مرد و عورت اس کی طرف دوڑتے تھے، یہ دحیہ بن خلف اس وقت تک مسلمان نہ تھے بعد میں داخل اسلام ہوئے۔- اور حسن بصری (رح) اور ابو مالک (رح) نے فرمایا کہ یہ وہ زمانہ تھا جبکہ مدینہ میں اشیاء ضرورت کی کمی اور سخت گرانی تھی (تفسیر مظہری) یہ اسباب تھے کہ حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بڑی جماعت تجارتی قافلہ کی آواز پر مسجد سے نکل گئی، اول تو نماز فرض ادا ہوچکی تھی، خطبہ کے متعلق یہ معلوم نہ تھا کہ جمعہ میں وہ بھی فرض کا جز ہے، دوسرے اشیاء کی گرانی، تیسرے تجارتی قافلہ پر لوگوں کا ٹوٹ پڑنا، جس سے ہر ایک کو یہ خیال ہوسکتا تھا کہ دیر کروں گا تو اپنی ضروریات نہ پا سکوں گا۔- بہر حال ان اسباب کے تحت صحابہ کرام یہ لغزش ہوئی جس پر حدیث مذکور میں وعید کے الفاظ آئے کہ سب کے سب چلے جاتے تو اللہ کا عذاب آجاتا، اسی پر عار دلانے اور تنبیہ کرنے کے لئے آیت مذکورہ نازل ہوئی اذا راوا تجارة اور اسی کے سبب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ کے معاملے میں اپنا طرز بدل دیا کہ نماز جمعہ سے پہلے خطبہ دینے کا معمول بنا لیا اور یہی اب سنت ہے (ابن کثیر) - آیت مذکورہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ ان لوگوں کو بتلا دیں کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس تجارت اور ڈھول ڈھما کہ سے بہتر ہے جس میں آخرت کا ثواب تو مراد ہے ہی یہ بھی بعید نہیں کہ نماز و خطبہ کی خاطر تجارت و کسب معاش کو چھوڑنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں بھی خاص برکات نازل ہوں، جیسا کہ اوپر سلف صالحین سے بروایت ابن کثیر نقل کیا گیا ہے۔- تمت - الحمد للہ سورة الجمعة- یوم الخمیس 28 جمادی الاولیٰ س 1391 ھ

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَہْوَۨا انْفَضُّوْٓا اِلَيْہَا وَتَرَكُوْكَ قَاۗىِٕمًا۝ ٠ ۭ قُلْ مَا عِنْدَ اللہِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّہْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ۝ ٠ ۭ وَاللہُ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ۝ ١١ ۧ- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - تجر - التِّجَارَة : التصرّف في رأس المال طلبا للربح، يقال : تَجَرَ يَتْجُرُ ، وتَاجِر وتَجْر، کصاحب وصحب، قال : ولیس في کلامهم تاء بعدها جيم غير هذا اللفظ «1» ، فأمّا تجاه فأصله وجاه، وتجوب التاء للمضارعة، وقوله تعالی: هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلى تِجارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الصف 10] ، فقد فسّر هذه التجارة بقوله :- تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ «2» [ الصف 11] ، إلى آخر الآية . وقال : اشْتَرَوُا الضَّلالَةَ بِالْهُدى فَما رَبِحَتْ تِجارَتُهُمْ [ البقرة 16] ، إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجارَةً عَنْ تَراضٍ مِنْكُمْ [ النساء 29] ، تِجارَةً حاضِرَةً تُدِيرُونَها بَيْنَكُمْ [ البقرة 282] .- قال ابن الأعرابي «3» : فلان تاجر بکذا، أي : حاذق به، عارف الوجه المکتسب منه .- ( ت ج ر ) تجر ( ن ) تجرا وتجارۃ کے معنی نفع کمانے کے لئے المال کو کاروبار میں لگانے کے ہیں ۔ صیغہ صفت تاجر وتجور جیسے صاحب وصحت یاد رہے ۔ کہ عربی زبان میں اس کے سو ا اور کوئی لفظ ایسا نہیں ہے ۔ جس تاء ( اصل ) کے بعد جیم ہو ۔ رہا تجاۃ تو اصل میں وجاہ ہے اور تجوب وغیرہ میں تاء اصلی نہیں ہے بلکہ نحل مضارع کی ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلى تِجارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الصف 10] میں تم کو ایسی تجارت بتاؤں جو عذاب الیم سے مخلص دے ۔ میں لفظ تجارہ کی تفسیر خود قرآن نے بعد کی آیت ؛ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ «2» [ الصف 11] آلایہ میں بیان فرمادی ہے ۔ نیز فرمایا ؛ اشْتَرَوُا الضَّلالَةَ بِالْهُدى فَما رَبِحَتْ تِجارَتُهُمْ [ البقرة 16] ہدایت چھوڑ کر گمراہی خریدی تو نہ ان کی تجارت ہی نہیں کچھ نفع دیا ۔ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجارَةً عَنْ تَراضٍ مِنْكُمْ [ النساء 29] ہاں اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کالین دین ہو ( اور اس سے مالی فائدہ حاصل ہوجائے تو وہ جائز ہے ) تِجارَةً حاضِرَةً تُدِيرُونَها بَيْنَكُمْ [ البقرة 282] سود ا وست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو ۔ ابن لاعرابی کہتے ہیں کہ فلان تاجر بکذا کے معنی ہیں کہ فلاں اس چیز میں ماہر ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا جانتا ہے ۔- لهو - [ اللَّهْوُ : ما يشغل الإنسان عمّا يعنيه ويهمّه . يقال : لَهَوْتُ بکذا، ولهيت عن کذا : اشتغلت عنه بِلَهْوٍ ] . قال تعالی: إِنَّمَا الْحَياةُ الدُّنْيا لَعِبٌ وَلَهْوٌ [ محمد 36] ، وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت 64] ، ويعبّر عن کلّ ما به استمتاع باللهو . قال تعالی: لَوْ أَرَدْنا أَنْ نَتَّخِذَ لَهْواً [ الأنبیاء 17] ومن قال : أراد باللهو المرأة والولد فتخصیص لبعض ما هو من زينة الحیاة الدّنيا التي جعل لهوا ولعبا .- ويقال : أَلْهاهُ كذا . أي : شغله عمّا هو أهمّ إليه . قال تعالی: أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر 1] ، رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور 37] ولیس ذلک نهيا عن التّجارة وکراهية لها، بل هو نهي عن التّهافت فيها والاشتغال عن الصّلوات والعبادات بها . ألا تری إلى قوله : لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ [ الحج 28] ، لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة 198] ، وقوله تعالی: لاهِيَةً قُلُوبُهُمْ [ الأنبیاء 3] أي : ساهية مشتغلة بما لا يعنيها، واللَّهْوَةُ : ما يشغل به الرّحى ممّا يطرح فيه، وجمعها : لُهًا، وسمّيت العطيّة لُهْوَةً تشبيها بها، واللَّهَاةُ : اللّحمة المشرفة علی الحلق، وقیل : بل هو أقصی الفم .- ( ل ھ و ) اللھو ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو اہم کاموں سے ہتائے اور بازر کھے یہ لھوت بکذا ولھیت عن کذا سے اسم ہے جس کے معنی کسی مقصد سے ہٹ کر بےسود کام میں لگ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّمَا الْحَياةُ الدُّنْيا لَعِبٌ وَلَهْوٌ [ محمد 36] جان رکھو کہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے ۔ پھر ہر وہ چیز جس سے کچھ لذت اور فائدہ حاصل ہو اسے بھی لھو کہہ دیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لَوْ أَرَدْنا أَنْ نَتَّخِذَ لَهْواً [ الأنبیاء 17] اگر ہم چاہتے کہ کھیل بنائیں تو ہم اپنے پاس سے بنا لیتے ۔ اور جن مفسرین نے یہاں لھو سے مراد عورت یا اولادلی ہے انہوں نے دنیاوی آرائش کی بعض چیزوں کی تخصیص کی ہے جو لہو ولعب بنالی گئیں ہیں ۔ محاورہ ہے : الھاۃ کذا ۔ یعنی اسے فلاں چیز نے اہم کام سے مشغول کردیا ۔ قرآن میں ہے : أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر 1] لوگوتم کو کثرت مال وجاہ واولاد کی خواہش نے غافل کردیا ۔ رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور 37] یعنی ایسے لوگ جن کو خدا کے ذکر سے نہ سود اگر ی غافل کرتی ہے اور نہ خرید وفروخت ۔ اس آیت سے تجارت کی ممانعت یا کر اہتبیان کرنا مقصود نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں پروانہ دار مشغول ہو کر نماز اور دیگر عبادات سے غافل ہونے کی مذمت کی طرف اشارہ ہے نفس تجارت کو قرآن نے فائدہ مند اور فضل الہی سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ [ الحج 28] تاکہ اپنے فائدے کے کاموں کے لئے حاضر ہوں ۔ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة 198] اس کا تمہیں کچھ گناہ نہیں کہ ( حج کے دنوں میں بذریعہ تجارت ) اپنے پروردگار سے روزی طلب کرو ۔ اور آیت کریمہ : لاهِيَةً قُلُوبُهُمْ [ الأنبیاء 3] ان کے دل غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ ان کے دل غافل ہو کر بیکار کاموں میں مشغول ہیں ۔ اللھوۃ ۔ آٹا پیستے وقت چکی میں ایک مرتبہ جتنی مقدار میں غلہ ڈالا جائے ۔ اس لھوۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع لھاء آتی ہے ۔ پھر تشبیہ کے طور پر عطیہ کو بھی لھوۃ کہدیتے ہیں ۔ اللھاۃ ( حلق کا کوا ) وہ گوشت جو حلق میں لٹکا ہوا نظر آتا ہے ۔ بعض نے اس کے معنی منہ کا آخری سرا بھی کئے ہیں ۔- فض - الفَضُّ : کسر الشیء والتّفریق بين بعضه وبعضه، كفَضِّ ختم الکتاب، وعنه استعیر :- انْفَضَّ القومُ. قال اللہ تعالی: وَإِذا رَأَوْا تِجارَةً أَوْ لَهْواً انْفَضُّوا إِلَيْها - [ الجمعة 11] ، لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ [ آل عمران 159] ، والفِضَّةُ- اختصّت بأدون المتعامل بها من الجواهر، ودرع فَضْفَاضَةٌ ، وفَضْفَاضٌ: واسعة .- ( ف ض ض ) الفض کے معنی کسی چیز کو توڑنے اور ریزہ ریزہ کرنے کے ہیں جیسے فض ختم الکتاب : خط کی مہر کو توڑ نا اسی سے انقض القوم کا محاورہ مستعار ہے جس کے معنی متفرق اور منتشر ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں : ۔ وَإِذا رَأَوْا تِجارَةً أَوْ لَهْواً انْفَضُّوا إِلَيْها[ الجمعة 11] اور جب یہ لوگ سودابکتا یا تماشا ہوتا دیکھتے ہیں تو ادھر بھاگ جاتے ہیں ۔ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ [ آل عمران 159] تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھٹرے ہوتے ۔ والفِضَّةُچاندی یعنی وہ ادنی جو ہر جس کے ذریعہ لین دین کیا جاتا ہے ۔ درع فضفا ضۃ وفضفا ض فراخ زرہ ۔ - ترك - تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] ، وقوله :- وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] - ( ت ر ک) ترک - الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔- قائِمٌ- وفي قوله : أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد 33] . وبناء قَيُّومٍ :- ( ق و م ) قيام - أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد 33] تو کیا جو خدا ہر نفس کے اعمال کا نگہبان ہے ۔ یہاں بھی قائم بمعنی حافظ ہے ۔- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» .- الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- لهو - [ اللَّهْوُ : ما يشغل الإنسان عمّا يعنيه ويهمّه . يقال : لَهَوْتُ بکذا، ولهيت عن کذا : اشتغلت عنه بِلَهْوٍ ] . قال تعالی: إِنَّمَا الْحَياةُ الدُّنْيا لَعِبٌ وَلَهْوٌ [ محمد 36] ، وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت 64] ، ويعبّر عن کلّ ما به استمتاع باللهو . قال تعالی: لَوْ أَرَدْنا أَنْ نَتَّخِذَ لَهْواً [ الأنبیاء 17] ومن قال : أراد باللهو المرأة والولد فتخصیص لبعض ما هو من زينة الحیاة الدّنيا التي جعل لهوا ولعبا .- ويقال : أَلْهاهُ كذا . أي : شغله عمّا هو أهمّ إليه . قال تعالی: أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر 1] ، رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور 37] ولیس ذلک نهيا عن التّجارة وکراهية لها، بل هو نهي عن التّهافت فيها والاشتغال عن الصّلوات والعبادات بها . ألا تری إلى قوله : لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ [ الحج 28] ، لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة 198] ، وقوله تعالی: لاهِيَةً قُلُوبُهُمْ [ الأنبیاء 3] أي : ساهية مشتغلة بما لا يعنيها، واللَّهْوَةُ : ما يشغل به الرّحى ممّا يطرح فيه، وجمعها : لُهًا، وسمّيت العطيّة لُهْوَةً تشبيها بها، واللَّهَاةُ : اللّحمة المشرفة علی الحلق، وقیل : بل هو أقصی الفم .- ( ل ھ و ) اللھو ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو اہم کاموں سے ہتائے اور بازر کھے یہ لھوت بکذا ولھیت عن کذا سے اسم ہے جس کے معنی کسی مقصد سے ہٹ کر بےسود کام میں لگ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّمَا الْحَياةُ الدُّنْيا لَعِبٌ وَلَهْوٌ [ محمد 36] جان رکھو کہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے ۔ پھر ہر وہ چیز جس سے کچھ لذت اور فائدہ حاصل ہو اسے بھی لھو کہہ دیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لَوْ أَرَدْنا أَنْ نَتَّخِذَ لَهْواً [ الأنبیاء 17] اگر ہم چاہتے کہ کھیل بنائیں تو ہم اپنے پاس سے بنا لیتے ۔ اور جن مفسرین نے یہاں لھو سے مراد عورت یا اولادلی ہے انہوں نے دنیاوی آرائش کی بعض چیزوں کی تخصیص کی ہے جو لہو ولعب بنالی گئیں ہیں ۔ محاورہ ہے : الھاۃ کذا ۔ یعنی اسے فلاں چیز نے اہم کام سے مشغول کردیا ۔ قرآن میں ہے : أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر 1] لوگوتم کو کثرت مال وجاہ واولاد کی خواہش نے غافل کردیا ۔ رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور 37] یعنی ایسے لوگ جن کو خدا کے ذکر سے نہ سود اگر ی غافل کرتی ہے اور نہ خرید وفروخت ۔ اس آیت سے تجارت کی ممانعت یا کر اہتبیان کرنا مقصود نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں پروانہ دار مشغول ہو کر نماز اور دیگر عبادات سے غافل ہونے کی مذمت کی طرف اشارہ ہے نفس تجارت کو قرآن نے فائدہ مند اور فضل الہی سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : لِيَشْهَدُوا مَنافِعَ لَهُمْ [ الحج 28] تاکہ اپنے فائدے کے کاموں کے لئے حاضر ہوں ۔ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ البقرة 198] اس کا تمہیں کچھ گناہ نہیں کہ ( حج کے دنوں میں بذریعہ تجارت ) اپنے پروردگار سے روزی طلب کرو ۔ اور آیت کریمہ : لاهِيَةً قُلُوبُهُمْ [ الأنبیاء 3] ان کے دل غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ ان کے دل غافل ہو کر بیکار کاموں میں مشغول ہیں ۔ اللھوۃ ۔ آٹا پیستے وقت چکی میں ایک مرتبہ جتنی مقدار میں غلہ ڈالا جائے ۔ اس لھوۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع لھاء آتی ہے ۔ پھر تشبیہ کے طور پر عطیہ کو بھی لھوۃ کہدیتے ہیں ۔ اللھاۃ ( حلق کا کوا ) وہ گوشت جو حلق میں لٹکا ہوا نظر آتا ہے ۔ بعض نے اس کے معنی منہ کا آخری سرا بھی کئے ہیں ۔- تجر - التِّجَارَة : التصرّف في رأس المال طلبا للربح، يقال : تَجَرَ يَتْجُرُ ، وتَاجِر وتَجْر، کصاحب وصحب، قال : ولیس في کلامهم تاء بعدها جيم غير هذا اللفظ «1» ، فأمّا تجاه فأصله وجاه، وتجوب التاء للمضارعة، وقوله تعالی: هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلى تِجارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الصف 10] ، فقد فسّر هذه التجارة بقوله :- تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ «2» [ الصف 11] ، إلى آخر الآية . وقال : اشْتَرَوُا الضَّلالَةَ بِالْهُدى فَما رَبِحَتْ تِجارَتُهُمْ [ البقرة 16] ، إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجارَةً عَنْ تَراضٍ مِنْكُمْ [ النساء 29] ، تِجارَةً حاضِرَةً تُدِيرُونَها بَيْنَكُمْ [ البقرة 282] .- قال ابن الأعرابي «3» : فلان تاجر بکذا، أي : حاذق به، عارف الوجه المکتسب منه .- ( ت ج ر ) تجر ( ن ) تجرا وتجارۃ کے معنی نفع کمانے کے لئے المال کو کاروبار میں لگانے کے ہیں ۔ صیغہ صفت تاجر وتجور جیسے صاحب وصحت یاد رہے ۔ کہ عربی زبان میں اس کے سو ا اور کوئی لفظ ایسا نہیں ہے ۔ جس تاء ( اصل ) کے بعد جیم ہو ۔ رہا تجاۃ تو اصل میں وجاہ ہے اور تجوب وغیرہ میں تاء اصلی نہیں ہے بلکہ نحل مضارع کی ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلى تِجارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الصف 10] میں تم کو ایسی تجارت بتاؤں جو عذاب الیم سے مخلص دے ۔ میں لفظ تجارہ کی تفسیر خود قرآن نے بعد کی آیت ؛ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ «2» [ الصف 11] آلایہ میں بیان فرمادی ہے ۔ نیز فرمایا ؛ اشْتَرَوُا الضَّلالَةَ بِالْهُدى فَما رَبِحَتْ تِجارَتُهُمْ [ البقرة 16] ہدایت چھوڑ کر گمراہی خریدی تو نہ ان کی تجارت ہی نہیں کچھ نفع دیا ۔ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجارَةً عَنْ تَراضٍ مِنْكُمْ [ النساء 29] ہاں اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کالین دین ہو ( اور اس سے مالی فائدہ حاصل ہوجائے تو وہ جائز ہے ) تِجارَةً حاضِرَةً تُدِيرُونَها بَيْنَكُمْ [ البقرة 282] سود ا وست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو ۔ ابن لاعرابی کہتے ہیں کہ فلان تاجر بکذا کے معنی ہیں کہ فلاں اس چیز میں ماہر ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا جانتا ہے ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (واذادم وتجارۃ او لھون انفضوا الیھا، اور جب انہوں نے تجارت یا کھیل تماشہ ہوتے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے) حضرت جابر (رض) بن عبداللہ اور حسن سے مروی ہے کہ لوگوں نے دیکھا کہ قافلہ تجارت خوراک وغیرہ لے کر آیا ہے لوگوں کو اس کی بڑی ضرورت تھی کیونکہ ان پر بھوک کا غلبہ تھا۔ اور خوراک کی قلت درپیش تھی۔- حضرت جابر (رض) کا قول لہو سے آلات موسیقی مثلاً بانسری وغیرہ مراد ہیں۔ مجاہد کے قول کے مطابق اس سے طبلہ سارنگی وغیرہ مراد ہے۔ قول باری ہے (قل ما عند اللہ کہہ دیجئے کہ جو کچھ اللہ کے پاس موجود ہے) یعنی خطبہ سننے اور پندونصیحت کی مجلس میں حاضری دینے کا ثواب (خیر من اللھو ومن التجارۃ وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بہتر ہے) قول باری (و ترکوک قائما اور تمہیں کھڑا چھوڑ دیا) کھڑے ہوکر خطبہ دینے پر دلالت کرتا ہے۔- اعمش نے ابراہیم سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوکر خطبہ دیتے تھے یا بیٹھ کر ؟ “ انہوں نے جواب دیا۔” تم قرآن میں آیت (وترکوک قائما) کی تلاوت نہیں کرتے ۔ “ حصین نے سالم سے اور انہوں نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جمعہ کے روز شام سے ایک تجارتی قافلہ عین جمعہ کے وقت مدینہ پہنچا۔ اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ دے رہے تھے۔ سامعین کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو وہ قافلہ دیکھنے کے لئے اس طرف چلے گئے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف بارہ افراد رہ گئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- جعفر بن محمد نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ دے رہے تھے کہ تجارتی قافلے کی آمد کی اطلاع ملی، لوگ اس طرف چلے گئے اور مسجد نبوی میں صرف بارہ آدمی رہ گئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حصین سے پہلی حدیث کی روایت میں ابن فضیل اور ابن ادریس کے مابین اختلاف ہوگیا ہے۔- ابن فضیل نے یہ ذکر کیا ہے ” ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔ “ جبکہ ابن ادریس نے روایت کی ہے کہ ” حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ دے رہے تھے۔ “ یہاں یہ احتمال ہے کہ ابن فضیل کی روایت کے الفاظ کا مفہوم یہ ہو کہ لوگ نماز کے لئے اکٹھے ہوگئے تھے اور جماعت کے انتظار میں تھے۔ کیونکہ جو شخص جماعت کے انتظار میں ہوتا ہے وہ نماز کے اندر ہوتا ہے۔- ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن ابی الربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمر نے حسن سے قول باری (انفضوا الیھا وترکوک قائما) کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ اہل مدینہ کو خوراک کی قلت اور مہنگائی کا سامنا تھا۔ ایک تجارتی قافلہ عین اس وقت مدینے پہنچا جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے۔ لوگوں کو جب قافلے کی آمد کی اطلاع ملی تو وہ اس طرف چل دیئے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرماتے رہے۔- اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وترکوک قائما) اس موقعہ پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا (لواتبع اخرھم اولھم لا لتھب علیھم الوادی نارا، اگر سب سے پہلے جانے والے شخص کی پیروی میں مسجد سے آخری آدمی بھی چلا جاتا تو پوری وادی ان پر آگ بن کر بھڑک اٹھتی۔ )

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور بعض کی یہ حالت ہے کہ جب دحیہ بن خلفیہ کی تجارت کو دیکھتے ہیں اور طبل کی آواز سنتے ہیں تو مسجد سے اس کی طرف نکل جاتے ہیں۔ البتہ اٹھارہ آدمی یا یہ کہ بارہ آدمی اور دو عورتیں اس وقت مسجد سے نہیں نکلیں اور آپ کو منبر پر خطبہ دیتے ہوئے چھوڑ جاتے ہیں۔- آپ فرما دیجیے کہ ثواب و اجر ایسے مشغلہ سے بہتر ہے یا یہ مطلب ہے کہ اگر تم حضور کے ساتھ نماز پوری کر کے پھر باہر آتے تو یہ چیز تمہارے لیے ثواب کے اعتبار سے فورا نکلنے سے بہتر تھی اور جب منافقین آپ کے پاس آئیں تو آپ فرما دیجیے کہ اللہ تعالیٰ بہترین روزی دینے والا ہے۔- شان نزول : وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَةً (الخ)- بخاری و مسلم نے جابر سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ باہر سے قافلہ آیا تو نمازی اس کی طرف چلے گئے اور آپ کے ساتھ بارہ آدمیوں کے علاوہ اور کوئی باقی نہیں رہا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی یعنی وہ لوگ جب کسی تجارت (الخ)- اور ابن جریر نے بھی جابر سے روایت کیا ہے کہ نوجوان جس وقت شادی کرتے تو مزامیر اور طبلوں کو لے کر نکلتے تھے۔ چناچہ بعض لوگ حضور کو منبر پر چھوڑ کر اس کے دیکھنے کے لیے بکھر جاتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ دونوں واقعات کے بارے میں ایک ساتھ یہ آیت نازل ہوئی ہے اس کے بعد میں نے ابن المنذر میں دیکھا انہوں نے ایک ہی طریق سے ایک ساتھ قافلہ آنے اور نکاح کا واقعہ روایت کیا ہے اور یہ کہ یہ آیت دونوں واقعوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ ١ وَاِذَا رَاَوْ تِجَارَۃً اَوْ لَہْوَا نِ انْفَضُّوْآ اِلَـیْہَا ” اور جب انہوں نے دیکھا تجارت کا معاملہ یا کوئی کھیل تماشا تو اس کی طرف چل دیے “- وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًا ” اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کھڑا چھوڑ دیا۔ “- یہ خاص طور پر منافقین کے طرز عمل کا ذکر ہے کہ وہ تجارت اور کھیل تماشے کو اللہ کے ذکر پر ترجیح دیتے ہیں۔ - اس آیت کا شان نزول یہ بیان کیا جاتا ہے کہ مدینہ طیبہ میں شام سے ایک تجارتی قافلہ عین نماز جمعہ کے وقت آیا اور اہل شہر کو اطلاع دینے کے لیے ڈھول بجانے شروع کردیے۔ چونکہ قحط کا زمانہ تھا ‘ لہٰذا حاضرین مسجد قافلے کی آمد کی اطلاع پا کر فوراً اس کی طرف لپکے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ اکثر لوگ اس دوران اٹھ کر چلے گئے اور تھوڑے لوگ باقی رہ گئے جن میں عشرئہ مبشرہ بھی شامل تھے۔ واضح رہے کہ یہ واقعہ ہجرت کے بعد بالکل قریبی دور کا ہے جبکہ لوگوں کو صحبت ِنبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فیض یاب ہونے کا موقع بہت کم ملا تھا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ابتدا میں عیدین کے خطبہ کی طرح جمعہ کا خطبہ بھی نماز کے بعد ہوتا تھا ‘ اس لیے خطبہ کے دوران اٹھ کر جانے والے لوگوں نے یہی سمجھا ہوگا کہ نماز تو پڑھی جا چکی ہے اس لیے اب اٹھ جانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ بہرحال اس آیت میں بھی ڈانٹ کا انداز ہے اور اس میں جس واقعہ کی طرف اشارہ ہے اس سے بھی مسلمانوں کی صفوں میں اسی کمزوری کی نشاندہی ہوتی ہے جس کا ذکر قبل ازیں سورة الحدید کے مطالعہ کے دوران تفصیل سے کیا جا چکا ہے۔ - قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْـرٌ مِّنَ اللَّہْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِط وَاللّٰہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ ۔ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ کہہ دیجیے کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کہیں بہتر ہے کھیل کود اور تجارت سے ۔ اور اللہ بہترین رزق عطا کرنے والا ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :19 یہ ہے وہ واقعہ جس کی وجہ سے اوپر کی آیات میں جمعہ کے احکام ارشاد فرمائے گئے ہیں ۔ اس کا قصہ جو کتب حدیث میں حضرت جابر بن عبداللہ ، حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت ابو ہریرہ ، حضرت ابو مالک ، اور حضرات حسن بصری ، ابن زید ، قتادہ ، اور مقاتل بن حیان سے منقول ہوا ہے ، یہ ہے کہ مدینہ طیبہ میں شام سے ایک تجارتی قافلہ عین نماز جمعہ کے وقت آیا اور اس نے ڈھول تاشے بجانے شروع کیے تاکہ بستی کے لوگوں کو اس کی آمد کی اطلاع ہو جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ۔ ڈھول تاشوں کی آوازیں سن کر لوگ بے چین ہو گئے اور 12 آدمیوں کے سوا باقی سب بقیع کی طرف دوڑ گئے جہاں قافلہ اترا ہوا تھا ۔ اس قصے کی روایات میں سب سے زیادہ معتبر روایت حضرت جابر بن عبداللہ کی ہے جسے امام احمد ، بخاری ، مسلم ، ترمذی ، ابو عوانہ ، عبد بن حمید ، ابویعلیٰ وغیرہم نے متعدد سندوں سے نقل کیا ہے ۔ اس میں اضطراب صرف یہ ہے کہ کسی روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ نماز کی حالت میں پیش آیا تھا ، اور کسی میں یہ ہے کہ یہ اس وقت پیش آیا جب حضور خطبہ دے رہے تھے ۔ لیکن حضرت جابر اور دوسرے صحابہ و تابعین کی تمام روایات کو جمع کرنے سے صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ دوران خطبہ کا واقعہ ہے اور حضرت جابر نے جہاں یہ کہا ہے کہ یہ نماز جمعہ کے دوران میں پیش آیا ، وہاں دراصل انہوں نے خطبے اور نماز کے مجموعہ پر نماز جمعہ کا اطلاق کیا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ اس وقت 12 مردوں کے ساتھ ایک عورت تھی ( ابن جریر ۔ ابن ابی حاتم ) ۔ دارقطنی کی ایک روایت میں 40 افراد اور عبد بن حمید کی روایت میں 7 نفر بیان کیے گئے ہیں ۔ اور فرّاء نے 8 نفر لکھے ہیں ۔ لیکن یہ سب ضعیف روایات ہیں ۔ اور قتادہ کی یہ روایت بھی ضعیف ہے کہ اس طرح کا واقعہ تین مرتبہ پیش آیا تھا ( ابن جریر ) ۔ معتبر روایت حضرت جابر بن عبداللہ کی ہے جس میں باقی رہ جانے والوں کی تعداد 12 بتائی گئی ہے ۔ اور قتادہ کی ایک روایت کے سوا باقی تمام صحابہ و تابعین کی روایات اس پر متفق ہیں کہ یہ واقعہ صرف ایک مرتبہ پیش آیا ۔ باقی رہ جانے والوں کے متعلق مختلف روایت کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں حضرت ابو بکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت عمار بن یاسر ، حضرت سالم مولیٰ حصیفہ ، اور حضرت جابر بن عبداللہ ( رضی اللہ عنہم ) شامل تھے ۔ حافظ ابو یعلیٰ نے حضرت جابر بن عبداللہ کی جو روایت نقل کی ہے اس میں بیان کیا گیا ہے کہ جب لوگ اس طرح نکل کر لے گئے اور صرف بارہ اصحاب باقی رہ گئے تو ان کو خطاب کر کے حضور نے فرمایا والذی نفسی بیدہ لو تتابعتم حتی لم یبق منکم احد لسال بکم الوادی ناراً ، اگر تم سب چلے جاتے اور ایک بھی باقی نہ رہتا تو یہ وادی آگ سے بہ نکلتی ۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عباس سے اور ابن جریر نے قتادہ سے نقل کیا ہے ۔ شیعہ حضرات نے اس واقعہ کو بھی صحابہ پر طعن کرنے کے لیے استعمال کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ صحابہ کی اتنی بڑی تعداد کا خطبے اور نماز کو چھوڑ کر تجارت اور کھیل تماشے کی طرف دوڑ جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے تھے ۔ لیکن یہ ایک سخت بے جا اعتراض ہے جو صرف حقائق سے آنکھیں بند کر کے ہی کیا جا سکتا ہے ۔ دراصل یہ واقعہ ہجرت کے بعد قریبی زمانے ہی میں پیش آیا تھا ۔ اس وقت ایک طرف تو صحابہ کی اجتماعی تربیت ابتدائی مراحل میں تھی ۔ اور دوسری طرف کفار مکہ نے اپنے اثر سے مدینہ طیبہ کے باشندوں کی سخت معاشی ناکہ بندی کر رکھی تھی جس کی وجہ سے مدینے میں اشیائے ضرورت کمیاب ہو گئی تھیں ۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ اس وقت مدینے میں لوگ بھوکوں مر رہے تھے اور قیمتیں بہت چڑھی ہوئی تھیں ( ابن جریر ) ۔ اس حالت میں جب ایک تجارتی قافلہ آیا تو لوگ اس اندیشے سے کہ کہیں ہمارے نماز سے فارغ ہوتے ہوتے سامان فروخت نہ ہو جائے ، گھبرا کر اس کی طرف دوڑ گئے ۔ یہ ایک ایسی کمزوری اور غلطی تھی جو اس وقت اچانک تربیت کی کمی اور حالات کی سختی کے باعث رو نما ہو گئی تھی ۔ لیکن جو شخص بھی ان صحابہ کی وہ قربانیاں دیکھے گا جو اس کے بعد انہوں نے اسلام کے لیے کیں ، اور یہ دیکھے گا کہ عبادات اور معاملات میں ان کی زندگیاں کیسے زبردست تقویٰ کی شہادت دیتی ہیں ، وہ ہرگز یہ الزام رکھنے کی جرأت نہ کر سکے گا کہ ان کے اندر دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے کا کوئی مرض پایا جاتا تھا ، الّا یہ کہ اس کے اپنے دل میں صحابہ سے بغض کا مرض پایا جاتا ہو ۔ تاہم یہ واقعہ جس طرح صحابہ کے معترضین کی تائید نہیں کرتا اسی طرح ان لوگوں کے خیالات کی تائید بھی نہیں کرتا جو صحابہ کی عقیدت میں غلو کر کے اس طرح کے دعوے کرتے ہیں کہ ان سے کبھی کوئی غلطی سرزد نہیں ہوئی ، یا ہوئی بھی ہو تو اس کا ذکر نہیں کرنا چاہیے ، کیونکہ ان کی غلطی کا ذکر کرنا اور اسے غلطی کہنا ان کی توہین ہے ، اور اس سے ان کی عزت و وقعت دلوں میں باقی نہیں رہتی ، اور اس کا ذکر ان آیات و احادیث کے خلاف ہے جن میں صحابہ کے مغفور اور مقبول بارگاہ الٰہی ہونے کی تصریح کی گئی ہے ۔ یہ ساری باتیں سراسر مبالغہ ہیں جن کے لیے قرآن و حدیث میں کوئی سند موجود نہیں ہے ۔ یہاں ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اس غلطی کا ذکر کیا ہے جو صحابہ کی ایک کثیر تعداد سے صادر ہوئی تھی ۔ اس کتاب میں کیا ہے جسے قیامت تک ساری امت کو پڑھنا ہے ۔ اور اسی کتاب میں کیا ہے جس میں ان کے مغفور اور مقبول بارگاہ ہونے کی تصریح کی گئی ہے ۔ پھر حدیث و تفسیر کی تمام کتابوں میں صحابہ سے لے کر بعد کے اکابر اہل سنت تک نے اس غلطی کی تفصیلات بیان کی ہیں ۔ کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر انہی صحابہ کی وقعت دلوں سے نکالنے کے لیے کیا ہے جن کی وقعت وہ خود دلوں میں قائم فرمانا چاہتا ہے ؟ اور کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ اور تابعین اور محدثین و مفسرین نے اس قصے کی ساری تفصیلات اس شرعی مسئلے سے ناواقفیت کی بنا پر بیان کر دی ہیں جو یہ خالی حضرات بیان کیا کرتے ہیں؟ اور کیا فی الواقع سورہ جمعہ پڑھنے والے اور اس کی تفسیر کا مطالعہ کرنے والے لوگوں کے دلوں سے صحابہ کی وقعت نکل گئی ہے ؟ اگر ان میں سے ہر سوال کا جواب نفی میں ہے ، اور یقیناً نفی میں ہے ، تو وہ سب بے جا اور مبالغہ آمیز باتیں غلط ہیں جو احترام صحابہ کے نام سے بعض لوگ کیا کرتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام کوئی آسمانی مخلوق نہ تھے بلکہ اسی زمین پر پیدا ہونے والے انسانوں میں سے تھے ۔ وہ جو کچھ بھی بنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت سے بنے ۔ یہ تربیت بتدریج سالہا سال تک ان کو دی گئی ۔ اس کا جو طریقہ قرآن و حدیث میں ہم کو نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ جب کبھی ان کے اندر کسی کمزوری کا ظہور ہوا ، اللہ اور اس کے رسول نے بروقت اس کی طرف توجہ فرمائی ، اور فوراً اس خاص پہلو میں تعلیم و تربیت کا ایک پروگرام شروع ہو گیا جس میں وہ کمزوری پائی گئی تھی ۔ اسی نماز جمعہ کے معاملہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب قافلہ تجارت والا واقعہ پیش آیا تو اللہ تعالیٰ نے سورہ جمعہ کا یہ رکوع نازل فرما کر اس پر تنبیہ کی اور جمعہ کے آداب بتائے ۔ پھر اس کے ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل اپنے خطبات مبارکہ میں فرضیت جمعہ کی اہمیت لوگوں کے ذہن نشین فرمائی ، جس کا ذکر ہم حاشیہ 15 میں کر آئے ہیں ، اور تفصیل کے ساتھ ان کو آداب جمعہ کی تعلیم دی ۔ چنانچہ احادیث میں یہ ساری ہدایات ہم کو بڑی واضح صورت میں ملتی ہیں ۔ حضرت ابو سعید خدری کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر مسلمان کو جمعہ کے روز غسل کرنا چاہیے ، دانت صاف کرنے چاہییں ، جو اچھے کپڑے اس کو میسر ہوں پہننے چاہییں ، اور اگر خوشبو میسر ہو تو لگانی چاہیے ( مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، نسائی ) ۔ حضرت سلمان فارسی کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو مسلمان جمعہ کے روز غسل کرے اور حتی الامکان زیادہ اپنے آپ کو پاک صاف کرے ، سر میں تیل لگائے یا جو خوشبو گھر میں موجود ہو وہ لگائے ، پھر مسجد جائے اور دو آدمیوں کو ہٹا کر ان کے بیچ میں نہ گھسے ، پھر جتنی کچھ اللہ توفیق دے اتنی نماز ( نفل ) پڑھے ، پھر جب امام بولے تو خاموش رہے ، اس کے قصور ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک معاف ہو جاتے ہیں ( بخاری ، مسند احمد ) ۔ قریب قریب اسی مضمون کی روایات حضرت ابو ایوب انصاری ، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت نُبَیْشَۃُ الْھَذلِی نے بھی حضور سے نقل کی ہیں ( مسند احمد ، بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، ترمذی ، طبرانی ) ۔ حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب امام خطبہ دے رہا ہو اس وقت جو شخص بات کرے وہ اس گدھے کے مانند ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں ، اور جو شخص اس سے کہے کہ چپ رہ ، اس کا بھی کوئی جمعہ نہیں ہوا ( مسند احمد ) ۔ حضرت ابو ہریرہ کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم نے جمعہ کے روز خطبہ کے دوران میں بات کرنے والے شخص سے کہا چپ رہ تو تم نے بھی لغو حرکت کی ( بخاری ، مسلم ، نسائی ترمذی ، ابو داؤد ) ۔ اسی سے ملتی جلتی روایات امام احمد ، ابو داؤد اور طبرانی نے حضرت علی اور حضرت ابو الدرداء سے نقل کی ہیں ۔ اس کے ساتھ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے خطیبوں کو بھی ہدایت فرمائی کہ لمبے لمبے خطبے دے کر لوگوں کو تنگ نہ کریں ۔ آپ خود جمعہ کے روز مختصر خطبہ ارشاد فرماتے اور نماز بھی زیادہ لمبی نہ پڑھاتے تھے ۔ حضرت جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ حضور طویل خطبہ نہیں دیتے تھے ۔ وہ بس چند مختصر کلمات ہوتے تھے ( ابو داؤد ) ۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ کہتے ہیں کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا خطبہ نماز کی بہ نسبت کم ہوتا تھا اور نماز اس سے زیادہ طویل ہوتی تھی ( نسائی ) ۔ حضرت عمار بن یاسر کی روایت ہے کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا آدمی کی نماز کا طویل ہونا اور خطبے کا مختصر ہونا اس بات کی علامت ہے کہ وہ دین کی سمجھ رکھتا ہے ( مسند احمد ، مسلم ) ۔ تقریباً یہی مضمون بزار نے حضرت عبد اللہ بن مسعود سے نقل کیا ہے ۔ ان باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح لوگوں کو جمعہ کے آداب سکھائے یہاں تک کہ اس نماز کی وہ شان قائم ہوئی جس کی نظیر دنیا کی کسی قوم کی اجتماعی عبادت میں نہیں پائی جاتی ۔ سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :20 یہ فقرہ خود بتا رہا ہے کہ صحابہ سے جو غلطی ہوئی تھی اس کی نوعیت کیا تھی ۔ اگر معاذ اللہ اس کی وجہ ایمان کی کمی اور آخرت پر دنیا کی دانستہ ترجیح ہوتی تو اللہ تعالیٰ کے غضب اور زجر و توبیخ کا انداز کچھ اور ہوتا ۔ لیکن چونکہ ایسی کوئی خرابی وہاں نہ تھی ، بلکہ جو کچھ ہوا تھا تربیت کی کمی کے باعث ہوا تھا ، اس لیے پہلے معلمانہ انداز میں جمعہ کے آداب بتائے گئے ، پھر اس غلطی پر گرفت کر کے مربیانہ انداز میں سمجھایا گیا کہ جمعہ کا خطبہ سننے اور اس کی نماز ادا کرنے پر جو کچھ تمہیں خدا کے ہاں ملے گا وہ اس دنیا کی تجارت اور کھیل تماشوں سے بہتر ہے ۔ سورة الْجُمُعَة حاشیہ نمبر :21 یعنی اس دنیا میں مجازاً جو بھی رزق رسانی کا ذریعہ بنتے ہیں ان سب سے بہتر رازق اللہ تعالیٰ ہے ۔ اس طرح کے فقرے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آئے ہیں ۔ کہیں اللہ تعالیٰ کو احسن الخالقین کہا گیا ہے ، کہیں خیر الغافرین ، کہیں خیر الحاکمین ، کہیں خیر الراحمین ، کہیں خیرالناصرین ۔ ان سب مقامات پر مخلوق کی طرف رزق ، تخلیق ، مغفرت ، رحم اور نصرت کی نسبت مجازی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف حقیقی ۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ بھی دنیا میں تم کو تنخواہ ، اجرت یا روٹی دیتے نظر آتے ہیں ، یا جو لوگ بھی اپنی صنعت و کاریگری سے کچھ بناتے نظر آتے ہیں ، یا جو لوگ بھی دوسروں کے قصور معاف کرتے اور دوسروں پر رحم کھاتے اور دوسروں کی مدد کرتے نظر آتے ہیں ، اللہ ان سب سے بہتر رازق ، خالق ، رحیم ، غفور اور مدد گار ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

8: حافظ ابن کثیرؒ نے فرمایا ہے کہ شروع میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جمعہ کی نماز کے بعد خطبہ دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جب جمعہ کی نماز ختم ہوچکی تھی، اور آپ خطبہ دے رہے تھے تو ایک قافلہ کچھ سامان لے کر آیا، اور ڈھول بجاکر اُس کے آنے کا اعلان بھی کیا جارہا تھا۔ اُس وقت مدینہ منوَّرہ میں کھانے پینے کی چیزوں کی کمی تھی، اس لئے صحابہ کی ایک بڑی تعداد خطبہ چھوڑ کر اُس قافلے کی طرف نکل گئی، اور تھوڑے سے اَفراد مسجد میں رہ گئے۔ اس آیت میں اس طرح جانے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ خطبہ چھوڑ کر جانا جائز نہیں تھا، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جمعہ کی صرف نماز ہی فرض نہیں ہے، بلکہ خطبہ سننا بھی واجب ہے۔