3۔ 1 اس سے معلوم ہوا کہ منافقین بھی صریح کافر ہیں۔
[٤] یعنی اسلام تو لے آئے اور ایمان کا دعویٰ بھی کیا۔ مگر دل سے یہ کافر کے کافر ہی رہے۔ ان کی ہمدردیاں اور سرگوشیاں اور رازداریاں سب کافروں سے ہی وابستہ رہیں اور یہ عادت ان میں اس قدر پختہ ہوگئی کہ اب مسلمانوں کی کوئی بھلائی انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ لہذا اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی کیونکہ اللہ کسی کو جبراً اور کان پکڑ کر راہ ہدایت کی طرف نہیں لایا کرتا۔ اور وہ بیوقوف ایسے ہیں کہ انہیں یہ سمجھ بھی نہیں آرہی کہ جو کام وہ کر رہے ہیں وہ ان کے لیے مفید رہیں گے یا الٹا انہیں پکڑوا دیں گے اور ان کی ذلت و رسوائی کا باعث بن جائیں گے۔
١۔ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا :” ذلک “ کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کا مومن ہونے کی جھوٹی قسمیں کھانا اور اللہ کی راہ سے روکنا وغیرہ اس لیے ہے کہ وہ ایمان لائے ، پھر انہوں نے کفر کیا ۔ ایمان لا کر کفر تین طرح سے ہے ، ایک یہ کہ وہ ظاہر میں ایمان لائے اور مسلمان ہوگئے مگر دل میں کافر ہی رہے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کے پاس آئے تو ایمان کی شہادت دی ، پھر کفار کے پاس گئے تو انہیں اپنے کفر کا یقین دلایا ، جیسا کہ فرمایا :(وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْآ اٰمَنَّاج وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰـطِیْنِہِمْلا قَالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ ) ( البقرۃ : ١٤)” اور جب وہ ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لائے تو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے اور جب اپنے شیطانوں کی طرف اکیلے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں بیشک ہم تمہارے ساتھ ہیں “۔ منافقین کی اکثریت ہی تھی اور ایک یہ کہ ان میں سے بعض شروع میں تو صحیح ایمان لائے ، پھر دنیوی اغراض کی وجہ سے کافر ہوگئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ منافقین میں سے جو لوگ تائب ہوئے اور ان کا اسلام خالص ہوا وہ اس گروہ سے تھے۔- ٢۔ فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ فَہُمْ لَا یَفْقَہُوْنَ : یعنی ان کے ایمان لانے کے بعد کفر کرنے کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر کردی گئی تو وہ نہ دنیا اور آخرت میں نفاق کے نقصان کو سمجھتے ہیں نہ انہیں اس پر کوئی شرمندگی ہوتی ہے اور نہ ہی توبہ کی توفیق ملتی ہے۔
ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ فَہُمْ لَا يَفْقَہُوْنَ ٣- هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال :- هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- طبع - الطَّبْعُ : أن تصوّر الشیء بصورة مّا، كَطَبْعِ السّكّةِ ، وطَبْعِ الدّراهمِ ، وهو أعمّ من الختم وأخصّ من النّقش، والطَّابَعُ والخاتم : ما يُطْبَعُ ويختم . والطَّابِعُ : فاعل ذلك، وقیل للطَّابَعِ طَابِعٌ ، وذلک کتسمية الفعل إلى الآلة، نحو : سيف قاطع . قال تعالی: فَطُبِعَ عَلى قُلُوبِهِمْ [ المنافقون 3] ، - ( ط ب ع ) الطبع ( ف )- کے اصل معنی کسی چیز کو ( ڈھال کر) کوئی شکل دینا کے ہیں مثلا طبع السکۃ اوطبع الدراھم یعنی سکہ یا دراہم کو ڈھالنا یہ ختم سے زیادہ عام اور نقش سے زیادہ خاص ہے ۔ اور وہ آلہ جس سے مہر لگائی جائے اسے طابع وخاتم کہا جاتا ہے اور مہر لگانے والے کو طابع مگر کبھی یہ طابع کے معنی میں بھی آجاتا ہے اور یہ نسبۃ الفعل الی الآلۃ کے قبیل سے ہے جیسے سیف قاطع قرآن میں ہے : فَطُبِعَ عَلى قُلُوبِهِمْ [ المنافقون 3] تو ان کے دلوں پر مہر لگادی ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - فقه - الفِقْهُ : هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد، فهو أخصّ من العلم . قال تعالی: فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء 78] - ( ف ق ہ ) الفقہ - کے معنی علم حاضر سے علم غائب تک پہچنچنے کے ہیں اور یہ علم سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء 78] ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔
اور یہ منافقین کے کام اس وجہ سے ہیں کہ پہلے تو یہ ظاہر میں ایمان لے آئے، پھر خفیہ طور پر کفر پر قائم رہے نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے کفر و نفاق کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر کردی گئی یہ حق و ہدایت کو نہیں سمجھتے۔
آیت ٣ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا ” یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ لوگ ایمان لائے پھر کافر ہوگئے “- یعنی ان کی منافقت شعوری نہیں ہے کہ وہ بدنیتی سے دھوکہ دینے کے لیے ایمان لائے ہوں۔ دین اسلام کی دعوت جب ان لوگوں تک پہنچی تھی تو ان کی فطرت نے گواہی دی تھی کہ یہ سچ اور حق کی دعوت ہے اور اس وقت وہ نیک نیتی سے ایمان لائے تھے۔ کچھ دیر کے لیے انہیں ایمان کی دولت نصیب ہوئی تھی ‘ لیکن ایمان لاتے وقت انہیں معلوم نہیں تھا کہ ع ” یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے “۔ اہل ِایمان کے لیے اللہ تعالیٰ کا واضح حکم ہے : وَلَـنَـبْلُوَنَّــکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِط ( البقرۃ : ١٥٥) کہ ہم تمہیں کسی قدر خوف ‘ بھوک اور مال و جان کے نقصانات جیسی سخت آزمائشوں سے ضرور آزمائیں گے۔ لیکن منافقین کو اس صورت حال کا اندازہ نہیں تھا۔- منافقین ِمدینہ میں بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے قبیلے کے سردار کے پیچھے ایمان لے آئے تھے۔ جیسے اوس اور خزرج کے قائدین ایمان لے آئے تو پورا پورا قبیلہ مسلمان ہوگیا۔ انہیں کیا پتا تھا کہ عملی طور پر ایمان کے تقاضے کیا ہیں۔ وہ تو برف کے تودے کی اوپری سطح ( ) ہی کو دیکھ رہے تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ اس تودے کے نیچے کیا ہے۔ بہرحال ایسے لوگ ایمان تو سچے دل سے لائے تھے ‘ لیکن ان کا ایمان تھا کمزور۔ اسی لیے تکلیفیں اور آزمائشیں دیکھ کر ان کے پائوں لڑکھڑاگئے۔ البتہ ضعیف الایمان مسلمانوں میں بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو اپنی تمامتر کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود ایمان کے دامن سے وابستہ رہے۔ ان سے جب کوئی کوتاہی ہوئی تو انہوں نے اس کا اقرار بھی کیا اور اس کے لیے وہ معافی کے طلب گار بھی ہوئے۔ سورة التوبہ میں ان لوگوں کا ذکر گزر چکا ہے اور وہاں ان کے ضعف ِایمان کا علاج بھی تجویز کردیا گیا : خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْط (التوبۃ : ١٠٣) ” ان کے اموال میں سے صدقات قبول فرما لیجیے ‘ اس (صدقے) کے ذریعے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں پاک کریں گے اور ان کا تزکیہ کریں گے ‘ اور ان کے لیے دعا کیجیے “۔ یعنی انفاق فی سبیل اللہ سے ان کے ایمان کی کمزوری دور ہوجائے گی۔ بہرحال جو لوگ ایک دفعہ ایمان لانے کے بعد مشکلات سے گھبرا کر ایمان کے عملی تقاضوں سے جی چرانے لگے اور اپنی اس خیانت کو جھوٹے بہانوں سے چھپانے لگے وہ منافقت کی راہ پر چل نکلے۔- فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ فَہُمْ لَا یَفْقَہُوْنَ ۔ ” تو ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ‘ پس یہ سمجھنے سے عاری ہوگئے۔ “- ان کی منافقانہ روش کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی۔ چناچہ اب ان کی سمجھ بوجھ کی صلاحیت مفقود ہوچکی ہے اور یہ حقیقی تفقہ سے عاری ہوچکے ہیں۔
سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :4 اس آیت میں ایمان لانے سے مراد ایمان کا اقرار کر کے مسلمانوں میں شامل ہونا ہے ۔ اور کفر کر نے سے مراد دل سے ایمان نہ لانا اور اسی کفر پر قائم رہنا ہے جس پر وہ اپنے ظاہری اقرار ایمان سے پہلے قائم تھے ۔ کلام کا مدعا یہ ہے کہ جب انہوں نے خوب سوچ سمجھ کر سیدھے سیدھے ایمان یا صاف صاف کفر کا طریقہ اختیار کرنے کے بجائے یہ منافقانہ روش اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی اور ان سے یہ توفیق سلب کر لی گئی کہ وہ ایک سچے اور بے لاگ اور شریف انسان کا سا رویہ اختیار کریں ۔ اب ان کی سمجھ بوجھ کی صلاحیت مفقود ہو چکی ہے ۔ ان کی اخلاقی حس مر چکی ہے ۔ انہیں اس راہ پر چلتے ہوئے کبھی یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ یہ شب و روز کا جھوٹ اور یہ ہر وقت کا مکر و فریب اور یہ قول و فعل کا دائمی تضاد ، کیسی ذلیل حالت ہے جس میں انہوں نے اپنے آپ کو مبتلا کر لیا ہے ۔ یہ آیت من جملہ ان آیات کے ہے جن میں اللہ کی طرف سے کسی کے دل پر مہر لگانے کا مطلب بالکل واضح طریقہ سے بیان کر دیا گیا ہے ۔ ان منافقین کی یہ حالت اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی تھی اس لیے ایمان ان کے اندر اتر ہی نہ سکا اور وہ مجبوراً منافق بن کر رہ گئے ۔ بلکہ اس نے ان کے دلوں پر یہ مہر اس وقت لگائی جب انہوں نے اظہار ایمان کرنے کے باوجود کفر پر قائم رہنے کا فیصلہ کر لیا ۔ تب ان سے مخلصانہ ایمان اور اس سے پیدا ہونے والے اخلاقی رویہ کی توفیق سلب کر لی گئی اور اس منافقت اور منافقانہ اخلاق ہی کی توفیق انہیں دے دی گئی جسے انہوں نے خود اپنے لیے پسند کیا تھا ۔