Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 یعنی ان کے حسن و جمال اور رونق و شادابی کی وجہ سے۔ 4۔ 2 یعنی زبان کی فصاحت و بلاغت کی وجہ سے۔ 4۔ 3 یعنی اپنی درازئی قد اور حسن ورعنائی، عدم فہم اور قلت خیر میں ایسے ہیں گویا کہ دیوار پر لگائی ہوئی لکڑیاں ہیں جو دیکھنے والوں کو تو بھلی لگتی ہے لیکن کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ 4۔ 4 یعنی بزدل ایسے ہیں کہ کوئی زوردار آواز سن لیں تو سمجھتے ہیں کہ ہم پر کوئی آفت نازل ہوگئی یا گھبرا اٹھتے ہیں کہ ہمارے خلاف کسی کاروائی کا آغاز تو نہیں ہو رہا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥] منافقوں کی عادات اور خصائل :۔ منافقوں کا رئیس عبداللہ بن ابی بن سلول معاشی لحاظ سے بھی رئیس تھا دیکھنے میں بڑا خوبصورت اور لمبے قدوقامت والا جوان تھا۔ جنگ بدر کے قیدیوں میں آپ کے چچا سیدنا عباس ننگے تھے تو اسی کی قمیص ان کو پوری آسکتی تھی۔ آپ نے عبداللہ بن ابی سے مانگی تو اس نے دے دی تھی۔ اسی بات کا معاوضہ آپ نے اس وقت دیا تھا جب عبداللہ بن ابی مرا تھا۔ اور اس کے بیٹے عبداللہ نے جو سچا مسلمان تھا آپ سے یہ التجا کی تھی کہ آپ اگر اپنی قمیص دے دیں تو میں یہ اپنے باپ کو پہنا دوں اور آپ نے دے دی تھی۔ لسان بھی تھا۔ باتیں کرنے کا اور باتوں سے خوش اور مطمئن کرنے کا اسے ڈھنگ آتا تھا۔ باتیں کرتا تو جی چاہتا تھا کہ اس کی باتیں سنتے ہی رہیں۔ اس کے کچھ خاص مصاحب بھی ایسی ہی صفات کے مالک تھے۔- [٦] یہ لوگ جب آپ کی مجلس میں آتے تو کسی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے۔ دراصل وہ یہ کام اپنی برتری اور شان بےنیازی جتلانے کے لیے کرتے تھے۔ اور اللہ نے ان کو لکڑیوں سے تشبیہ اس لحاظ سے دی کہ لکڑیوں میں سننے، سوچنے سمجھنے کی اہلیت نہیں ہوتی۔ اسی طرح یہ لوگ بس دکھاوے کی خاطر آ تو جاتے ہیں۔ مگر نہ آپ کی باتوں کو دھیان سے سنتے ہیں اور کچھ سن بھی پائیں تو اسے سمجھنے اور سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے اور جیسے آئے تھے ویسے ہی دامن جھاڑ کر چلے جاتے ہیں۔ ہدایت کی کوئی بات قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔- [٧] بزدل اور ڈرپوک ایسے ہیں کہ ادھر کوئی پتا کھٹکا ادھر ان کا دل دہل گیا۔ ایک عادی مجرم کی طرح انہیں ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں ہمارا فلاں راز فاش تو نہیں ہو چلا، یا فلاں حرکت پر گرفت تو نہیں ہونے لگی۔- [٨] کیونکہ یہ لوگ گھر کے بھیدی اور آستین کے سانپ ہیں۔ تمہاری سب باتیں دشمنوں تک پہنچاتے اور ہر کام سے انہیں باخبر رکھتے ہیں۔ یہ لوگ تمہارے ظاہری دشمنوں یعنی یہود کفار مکہ اور مشرکین سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔ لہذا ان سے سخت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ وَ اِذَا رَاَیْتَہُمْ تُعْجِبُکَ اَجْسَامُہُمْ : اکثر منافقین خوش حال ، صاحب حیثیت ، تیز طرار اور ہوشیار لوگ تھے ، ان کی خوش حالی اور مال کی حرص بھی ان کے نفاق کا باعث تھی۔ ان کا سردار عبد اللہ بن ابی معاشی لحاظ سے بھی رئیس تھا اور دیکھنے میں بڑا خوب صورت ، لمبے قدوالا اور جسیم تھا۔ زید بن ارقم (رض) نے اس کے اور اس کے ساتھیوں کے متعلق فرمایا : (کانوا رجالاً اجمل شئی) (بخاری : ٤٩٠٣)” وہ بہت خوبصورت آدمی تھے “۔ مزید تفصیل آگے آیت (٧) کی تفسیر میں دیکھئے۔ جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ( بدر کے قیدیوں میں سے) عباس مدینہ میں تھے ، انصار نے انہیں پہنانے کے لیے کپڑا تلاش کیا مگر انہیں عبد اللہ بن ابی کی قمیص کے علاوہ کوئی قمیص نہ ملی جو ان کے جسم پر پوری آتی ہو ، چناچہ انہوں نے وہی ان کو پہنا دی۔ ( نسائی ، الجنائز ، باب القمیص فی الکفن : ١٩٠٣، وقال الالبانی صحیح) اہل علم فرماتے ہیں کہ عبد اللہ بن ابی کی وفات پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اپنی قمیص جو پہنائی اس پر دوسری مصلحتوں کے علاوہ اس احسان کا بدلا اتارنا بھی مقصود تھا۔ اللہ تعالیٰ نے پچھلی آیت میں ” فھم لا یفقھون “ کے الفاظ کے ساتھ منافقین کی ناسمجھی بیان کرنے کے ساتھ ہی فرمایا کہ اے مخاطب جب تو انہیں دیکھے تو ڈیل ڈول اور خوبصورتی کی وجہ سے ان کے جسم تجھے بہت اچھے دکھائی دیں گے اور اگر وہ بات کریں تو ایسے فصیح و بلیغ ہیں کہ تو ان کی بات سنتا ہی رہ جائے۔ ان کی چرب زبانی کا ذکر سورة ٔ بقرہ (٢٠٤) میں بھی آیا ہے۔ یہاں بعض مفسرین نے ” واذا رایتھم تعجبک اجسامھم “ میں مخاطب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرار دیا ہے ، مگر بہتر ہے کہ اسے ہر مخاطب کے لیے عام رکھا جائے ، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو شروع سے انہیں دیکھتے آرہے تھے۔- ٢۔ ظاہر ہے کہ ” اذا رایتھم “ ( جب تو انہیں دیکھے) سے عبد اللہ بن ابی اور اس جیسے منافق مراد ہیں ، کیونکہ تمام منافق تو حسین و جمیل نہیں تھے اور نہ ہی ایسے فصیح و بلیغ تھے۔ ( التسہیل) ۔- ٣۔ کَاَنَّہُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ:” خشب “” خشبۃ “ کی جمع ہے ، لکڑیاں۔ اس وزن کی یہ جمع بہت کم آتی ہے۔ مفسرین نے اس کی نظیر ” ثمرۃ “ کی جمع ” ثمر “ لکھی ہے۔” مسندۃ “ باب تفعیل سے اسم مفعول ہے ، دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر رکھی ہوئی۔ یعنی جیسے لکڑیوں میں طول و عرض اور خوبصورتی کے باوجود عقل اور سمجھ نہیں ہوتی اسی طرح یہ بھی عقل اور سمجھ سے عاری ہیں ۔ جب یہ آپ کی مجلس میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوں تو یہ مت سمجھیں کہ یہ آدمی ہیں ، بلکہ یوں سمجھیں کہ لکڑیاں ہیں جو ٹیک لگا کر دیوار کے ساتھ رکھی ہوئی ہیں ، گویا بظاہر خوبصورت نظر آتے ہیں ۔ زمخشری نے فرمایا کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ حسین و جمیل اور جسیم و عریض ہونے کے باوجود ان سے کسی نفع کی امید نہیں ، جس طرح کار آمد لکڑی چھت ، دروازے یا کھڑکیوں میں یا کہیں نہ کہیں استعمال ہوتی ہے ، مگر بےکار لکڑیوں کو دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر رکھ دیا جاتا ہے۔- ٤۔ یَحْسَبُوْنَ کُلَّ صَیْحَۃٍ عَلَیْہِمْ : اس میں ان کی بزدلی کا نقشہ کھینچا ہے کہ جوں ہی کوئی آواز بلند ہوتی ہے یا شور اٹھتا ہے تو وہ اسے اپنے آپ پر پڑنے والی افتاد ہی سمجھتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کفار کا حملہ ہوگیا ہو جس میں ہمیں لڑنا پڑے اور اس میں ہماری موت ہو۔ ( دیکھئے احزاب : ١٩) یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو ہمارے خبث باطن کا پتہ چل گیا ہو اور ہمارے خلاف کارروائی کا حکم آگیا ہو ، یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں رسوا کرنے والی یا ہمارے قتل کے حکم والی کوئی آیت یا سورت اتری ہو۔ ( دیکھئے توبہ : ٦٤)- ٥۔ ہُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْہُمْ :” العدو “ خبر پر الف لام لانے سے کلام میں حصر پیدا ہو رہا ہے کہ تمہارے اصل دشمن یہی ہیں ، کیونکہ کھلم کھلا کفار کی عداوت ظاہر ہے جس سے بچاؤ آسان ہے ، یہ گھر کے بھیدی اور آستین کے سانپ ہیں جو مسلمان بن کر ہر وقت تمہارے ساتھ ہیں ۔ ان کی عداوت زیادہ خطرناک ہے اور اس سے بچنا بہت مشکل ہے ، اس لیے ان سے ہوشیار رہیں۔- ٦۔ قَاتَلَہُمُ اللہ ُ : یہ بد دعا کا کلمہ ہے ، اللہ انہیں ہلاک کرے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دعا یا بد دعا کی کیا ضرورت ہے ، وہ تو جو چاہے کرسکتا ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہاں ان کے حق میں لوگوں کی زبان پر آنے والی بد دعا نقل کی گئی ہے۔ مراد ان کی مذمت ہے۔- ٧۔ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ : یعنی اتنے واضح دلائل کے باوجود ایمان چھوڑ کر یہ لوگ کہاں بہکائے جا رہے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا رَاَيْتَہُمْ تُعْجِبُكَ اَجْسَامُہُمْ۝ ٠ ۭ وَاِنْ يَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِہِمْ۝ ٠ ۭ كَاَنَّہُمْ خُشُبٌ مُّسَـنَّدَۃٌ۝ ٠ ۭ يَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَيْحَۃٍ عَلَيْہِمْ۝ ٠ ۭ ہُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْہُمْ۝ ٠ ۭ قٰتَلَہُمُ اللہُ۝ ٠ ۡاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ۝ ٤- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - عجب - العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا - [يونس 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ- [ ق 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] ،- ( ع ج ب ) العجب اور التعجب - اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔ - جسم - الجسم : ما له طول وعرض وعمق، ولا تخرج أجزاء الجسم عن کو نها أجساما وإن قطع ما قطع، وجزّئ ما قد جزئ . قال اللہ تعالی: وَزادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ [ البقرة 247] ، وَإِذا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسامُهُمْ [ المنافقون 4] ، تنبيها أن لا وراء الأشباح معنی معتدّ به، والجُسْمَان قيل : هو الشخص، والشخص قد يخرج من کو نه شخصا بتقطیعه وتجزئته بخلاف الجسم .- ( ج س م ) الجسم وہ ہے جس میں طول ، عرض اور عمق پا یا جائے اور اجزء جسم خواہ کہتے ہی لطیف کیون نہ ہو اجسام ہی کہلاتے ہیں قرآن میں ہے زادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ [ البقرة 247] اس نے اسے علم بھی بہت سا بخشا ہے اور تن و توش بھی ( برا عطا کیا ہے ) اور آیت کریمہ ؛ وَإِذا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسامُهُمْ [ المنافقون 4] اور جب تم ان ( کے تناسب اعضاء) کو دیکھتے ہو تو ان کے جسم تمہیں ( کیا ہی ) اچھے معلوم ہوتے ہیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کہ گئی ہے ک بظاہر ان کی شکل و صورت اگرچہ جاذب نظر آتی ہے لیکن ان کے اندر کسی قسم کی صلاحیت نہیں ہے ۔ الجسمان بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی کسی چیز کا شخص کے ہیں لیکن کسی شخص کے اجزاء ضروری نہیں کہ تقطیع اور تجزیہ کے بعد بھی ان کو شخص ہی کہا جائے مگر جسم کے اجزا کو خواہ کتناہی باریک کیون نہ کردیا جائے وہ جسمیں سے خارج نہیں ہوتے ۔- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - خشب - قال تعالی: كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ [ المنافقون 4] ، شبّهوا بذلک لقلّة غنائهم، وهو جمع الخَشْب ومن لفظ الخشب قيل خَشَبْتَ السیف : إذا صقلته بالخشب الذي هو المصقل، وسیف خَشِيب قریب العهد بالصّقل، وجمل خَشِيب أي : جدید لم يُرَضْ ، تشبيها بالسّيف الخشیب، وتَخَشَّبَتِ الإبل : أكلت الخشب، وجبهة خَشْبَاء : يابسة کالخشب، ويعبّر بها عمّن لا يستحي، وذلک کما يشبّه بالصّخر في نحو قول الشاعر : والصّخر هشّ عند وجهك في الصّلابةوالمَخْشُوب : المخلوط به الخشب، وذلک عبارة عن الشیء الرّديء .- ( خ ش ب ) الخشب ( موٹی لکڑی ج خشب ) اور آیت کریمہ :۔ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ [ المنافقون 4] گویا لکڑیاں ہیں جو دیوار سے لگائی گئی ہیں ۔ میں انہیں نکما ہونے میں لکڑیوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور خشب کے لفظ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ خشیت السیف ۔ تلوار کو صیقل کرنا اور صیقل کرنے کے آلہ کو مخشب کہاجاتا ہے ۔ سیف خشیب تلوار جو تازہ صیقل کی گئی ہو ۔ جمل خشیب نیا اونٹ یعنی جو سدھایا نہ گیا ہو ۔ تخشیت الابل ۔ لکڑی کھانا سوکھی گھاس چرنا ۔ جبھۃ خشباء ۔ لکڑی کی طرح سخت اور کھردری پیشانی ( کنایہ) بےحیا ۔ جیسا کہ شاعر نے صخر یعنی چٹان کے ساتھ تشبیہ دیکر ہے ع (135) والصخر ھش عند وجھک فی الصلابۃ تیرے چہرے کے مقابلہ تو پتھر بھی ہشاش بشاش معلوم ہوتا ہے ۔ المخشوب ۔ وہ چیز جس میں لکڑی ملائی گئی ہو ۔ اور یہ روی چیز سے کنایہ ہوتا ہے ۔- سَنَد - : ( السَّنَدُ ، مُحَرَّكَةً : مَا قابَلَكَ من الجَبَلِ ، وعَلَا عَن السَّفْح) ، هَذَا نصُّ عبارَة الصّحاح .- وَفِي التَّهْذِيب، والمحکم : السَّنَدُ : مَا ارتفعَ من الأَرض فِي قُبُل الجَبَلِ ، أَو الْوَادي . والجمْع أَسنادٌ ، لَا يُكَسَّر علی غير ذالک .( و) السَّنَدُ : ( مُعْتَمَدُ الإِنسان) کالمُسْتَنَدِ. وَهُوَ مَجاز . وَيُقَال : سَيِّدٌ سَنَدٌ.( و) عَن ابْن الأَعرابيّ : السَّنَد : ( ضَرْبٌ من البُرُودِ ) اليَمانِية، وَفِي الحَدِيث (أَنه رأَى علی عائشةَ رضيَ اللهُ عَنْهَا أَربعةَ أَثْوَابٍ سَنَدٍ ) ( ج : أَسْنَاد) ، وَقَالَ ابْن بُزُرْج : السَّنَدُ : واحدُ الأَسْنَادِ من الثِّيَاب، وَهِي من البرودِ ، وأَنشد : جُبَّةُ أَسنادٍ نَقِيٌّ لونُهالم يَضْرِب الخَيَّاطُ فِيهَا بالإِبَرْقَالَ : وَهِي الحَمْرَاءُ من جِبَابِ البُرُود . وَقَالَ الليْث : السَّنَدُ : ضَرْبٌ من الثِّيابِ ، قَمِيصٌ ثمَّ فَوْقَه قَمِيصٌ أَقصرُ مِنْهُ. وکذالک قُمُصٌ قِصَارٌ مِن خِرَق مُغَيَّبٍ بعضُها تحتَ بَعْض . وكلُّ مَا ظَهَرَ من ذالک يُسَمَّى سِمْطاً. قَالَ العجّاج يَصف ثَوْراً وَحْشِيًّا :- كأَنَّ من سَبَائِب الخَيَّاطِكَتَّانها أَو سَنَدٍ أَسْماطِ (أَو الجَمْعُ کالواحِدِ ) ، قَالَه ابْن الأَعرابي . ( و) عَنهُ أَيضاً : ( سَنَّدَ ) الرَّجلُ ( تَسْنيداً : لَبِسَهُ ) ، أَي السَّنَدَ.( وسَنَدَ إِليه) يَسْنُد ( سُنُوداً ) بالضمِّ ، ( وتَسانَد) وأَسْنَد : ( استَنَد) ، وأَسندَ غيرَه .( و) قَالَ الزجّاج : سَنَدَ ( فِي الجَبَلِ ) يَسْنُد سُنوداً : ( صَعِدَ ) ورَقِيَ. وَفِي حَدِيث أُحُدٍ : ( رأَيتُ النساءَ يَسْنُدْنَ فِي الجَبَلِ ) أَي يُصَعِّدن . (كأَسْنَد) ، وَفِي حَدِيث عبد اللہ بن أنيس : ( ثمَّ أَسنَدُوا إِليه فِي مَشْرُبة) أَي صَعِدُوا . وَهُوَ مَجَاز، ( وأَسْنَدتُ أَنا، فيهمَا) أَي فِي الرُّقِيِّ والاستناد .- ( و) من الْمجَاز : ( سَنَدَ للِخَمْسينَ ) ، وَفِي بعض النّسخ : فِي الخَمْسِين، والأُولَى: الصوابُ ، إِذا ( قَارَبَ لهَا) مُثِّل بِسُنودِ الجَبَلِ ، أَي رَقِيَ.( و) سَنَدَ ( ذَنَبُ الناقَة : خَطَرَ فضَرَب قَطَاتَها يَمْنَةً ويَسْرَةً ) ، نَقله الصاغانيّ.( و) مِنَ المَجَازِ : حَدِيثٌ مُسْنَدٌ ، وَحَدِيث قَوِيُّ السَّنَدِ. والأَسَانِيدُ : قوائِمُ الأَحادِيثِ. ( المُسْنَدُ ) ، كمُكْرَم ( ن الحَدِيثِ : مَا أُسْنِدَ إِلى قائِلِهِ ) أَي اتَّصَلَ إِسنادُه حَتَّى يُسْنَد إِلى النّبيّ صلَّى اللہ عليْه وسلّم، ( تاج العروس)- حسب ( گمان)- والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] - ( ح س ب ) الحساب - اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - صاح - الصَّيْحَةُ : رفع الصّوت . قال تعالی: إِنْ كانَتْ إِلَّا صَيْحَةً واحِدَةً [يس 29]- ( ص ی ح ) الصیحۃ - کے معنی آواز بلندکرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ كانَتْ إِلَّا صَيْحَةً واحِدَةً [يس 29] وہ تو صرف ایک چنگھاڑ تھی ( آتشین ۔- عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - حذر - الحَذَر : احتراز من مخیف، يقال : حَذِرَ حَذَراً ، وحذرته، قال عزّ وجل : يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر 9] ، وقرئ : وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَ 3» ، وقال تعالی: وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ- [ آل عمران 28] ، وقال عزّ وجل : خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء 71] ، أي : ما فيه الحذر من السلاح وغیره، وقوله تعالی: هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون 4] ، وقال تعالی:- إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن 14] ، وحَذَارِ ، أي : احذر، نحو :- مناع، أي : امنع .- ( ح ذ ر) الحذر ( س) خوف زدہ کرنے والی چیز سے دور رہنا کہا جاتا ہے حذر حذرا وحذرتہ میں اس سے دور رہا ۔ قرآن میں ہے :۔ يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر 9] آخرت سے ڈرتا ہو ۔ وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَاور ہم سب باسازو سامان ہیں ۔ ایک قرآت میں حذرون ہے هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون 4] یہ تمہاری دشمن میں ان سے محتاط رہنا ۔ إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن 14] تمہاری عورتوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ( بھی ) ہیں سو ان سے بچتے رہو۔ حذر ۔ کسی امر سے محتاط رہنے کے لئے کہنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 28] اور خدا تم کو اپنے ( غضب ) سے محتاط رہنے کی تلقین کرنا ہے الحذر بچاؤ ۔ اور آیت کریمہ :۔ خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء 71] جہاد کے لئے ) ہتھیار لے لیا کرو ۔ میں حذر سے مراد اسلحۃ جنگ وغیرہ ہیں جن کے ذریعہ دشمن سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے حذار ( اسم فعل بمعنی امر ) بچو جیسے مناع بمعنی امنع - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- أنى- أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران 37] ، أي : من أين، وكيف .- ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ أَنَّى لَكِ هَذَا ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔- أفك - الإفك : كل مصروف عن وجهه الذي يحق أن يكون عليه، ومنه قيل للریاح العادلة عن المهابّ : مُؤْتَفِكَة . قال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكاتُ بِالْخاطِئَةِ [ الحاقة 9] ، وقال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم 53] ، وقوله تعالی: قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ [ التوبة 30] أي : يصرفون عن الحق في الاعتقاد إلى الباطل، ومن الصدق في المقال إلى الکذب، ومن الجمیل في الفعل إلى القبیح، ومنه قوله تعالی: يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ [ الذاریات 9] ، فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ [ الأنعام 95] ، وقوله تعالی: أَجِئْتَنا لِتَأْفِكَنا عَنْ آلِهَتِنا [ الأحقاف 22] ، فاستعملوا الإفک في ذلک لمّا اعتقدوا أنّ ذلک صرف من الحق إلى الباطل، فاستعمل ذلک في الکذب لما قلنا، وقال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ جاؤُ بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ [ النور 11] ، وقال : لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية 7] ، وقوله : أَإِفْكاً آلِهَةً دُونَ اللَّهِ تُرِيدُونَ [ الصافات 86] فيصح أن يجعل تقدیره :- أتریدون آلهة من الإفك «2» ، ويصح أن يجعل «إفكا» مفعول «تریدون» ، ويجعل آلهة بدل منه، ويكون قد سمّاهم إفكا . ورجل مَأْفُوك : مصروف عن الحق إلى الباطل، قال الشاعر : 20-- فإن تک عن أحسن المروءة مأفو ... کا ففي آخرین قد أفكوا «1»- وأُفِكَ يُؤْفَكُ : صرف عقله، ورجل مَأْفُوكُ العقل .- ( ا ف ک ) الافک ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیردی گئی ہو ۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤلفکۃ کہا جاتا ہے اور آیات کریمہ : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ ( سورة الحاقة 9) اور وہ الٹنے والی بستیوں نے گناہ کے کام کئے تھے ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى ( سورة النجم 53) اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا ۔ ( میں موتفکات سے مراد وہ بستیاں جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے الٹ دیا تھا ) قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ ( سورة التوبة 30) خدا ان کو ہلاک کرے ۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔ یعنی اعتقاد و حق باطل کی طرف اور سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے افعال کی طرف پھر رہے ہیں ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ ( سورة الذاریات 9) اس سے وہی پھرتا ہے جو ( خدا کی طرف سے ) پھیرا جائے ۔ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ ( سورة الأَنعام 95) پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا ( سورة الأَحقاف 22) کیا تم ہمارے پاس اسلئے آئے ہو کہ ہمارے معبودوں سے پھیردو ۔ میں افک کا استعمال ان کے اعتقاد کے مطابق ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے اعتقاد میں الہتہ کی عبادت ترک کرنے کو حق سے برعمشتگی سمجھتے تھے ۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ ( سورة النور 11) جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تمہیں لوگوں میں سے ایک جماعت ہے ۔ وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ ( سورة الجاثية 7) ہر جھوٹے گنہگار کے لئے تباہی ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللهِ تُرِيدُونَ ( سورة الصافات 86) کیوں جھوٹ ( بناکر ) خدا کے سوا اور معبودوں کے طالب ہو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا مفعول لہ ہو ای الھۃ من الافک اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا تریدون کا مفعول ہو اور الھۃ اس سے بدل ۔۔ ،۔ اور باطل معبودوں کو ( مبالغہ کے طور پر ) افکا کہدیا ہو ۔ اور جو شخص حق سے برگشتہ ہو اسے مافوک کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ع ( منسرح) (20) فان تک عن احسن المووءۃ مافوکا ففی اخرین قد افکوا اگر تو حسن مروت کے راستہ سے پھر گیا ہے تو تم ان لوگوں میں ہو جو برگشتہ آچکے ہیں ۔ افک الرجل یوفک کے معنی دیوانہ اور باؤلا ہونے کے ہیں اور باؤلے آدمی کو مافوک العقل کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور جب آپ ان منافقین کو دیکھیں تو ان کے قد و قامت خوبصورت اور اچھے معلوم ہوں گے اور اگر یہ قسم کھانے لگیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو آپ ان کی باتوں کو سن لیں اور خیال کرنے لگیں کہ یہ سچے ہیں مگر یہ سچے نہیں ہیں ان کے جسم لکڑیوں کی طرح ہیں یعنی ان کے دلوں میں نور اور بھلائی نہیں جیسا کہ خشک لکڑی میں جان اور تازگی نہیں ہوتی۔ مدینہ مونرہ میں جو بھی شور ہوتا ہے وہ بزدلی کی وجہ سے طور پر ہی خیال کرتے ہیں، آپ ان سے مطمئن نہ ہوجائیے اللہ ان کو غارت کرے کہاں کا جھوٹ بک رہے ہیں یا یہ کہ جھوٹ کی وجہ سے کہاں بہکے جارہے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤ وَاِذَا رَاَیْتَہُمْ تُعْجِبُکَ اَجْسَامُہُمْ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) جب آپ انہیں دیکھتے ہیں تو ان کے جسم آپ کو بڑے اچھے لگتے ہیں۔ “- جسمانی طور پر ان کی شخصیات بڑی دلکش اور متاثر کن ہیں۔- وَاِنْ یَّـقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِہِمْ ” اور اگر وہ بات کرتے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی بات سنتے ہیں۔ “- ظاہر ہے یہ لوگ سرمایہ دار بھی تھے اور معاشرتی لحاظ سے بھی صاحب حیثیت تھے۔ اس لحاظ سے ان کی گفتگو ہر فورم پر توجہ سے سنی جاتی تھی۔- کَاَنَّہُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ ” (لیکن اصل میں) یہ دیوار سے لگائی ہوئی خشک لکڑیوں کی مانند ہیں۔ “- حقیقت میں ان لوگوں کی حیثیت ان خشک لکڑیوں کی سی ہے جو کسی سہارے کے بغیر کھڑی بھی نہیں ہوسکتیں اور انہیں دیوار کی ٹیک لگا کر کھڑا کیا جاتا ہے۔ - یَحْسَبُوْنَ کُلَّ صَیْحَۃٍ عَلَیْہِمْ ” یہ ہر زور کی آواز کو اپنے ہی اوپر گمان کرتے ہیں۔ “- اندر سے یہ لوگ اس قدر بودے اور بزدل ہیں کہ کوئی بھی زور کی آواز یا کوئی آہٹ سنتے ہیں تو ان کی جان پر بن جاتی ہے ۔ یہ ہر خطرے کو اپنے ہی اوپر سمجھتے ہیں اور ہر وقت کسی ناگہانی حملے کے خدشے یا جہاد و قتال کے تقاضے کے ڈر سے سہمے رہتے ہیں۔- ہُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْہُمْ ” (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے) اصل دشمن یہی ہیں ‘ آپ ان سے بچ کر رہیں “- یہ ان کے مرض نفاق کی تیسری سٹیج کا ذکر ہے۔ ان کی دشمنی چونکہ دوستی کے پردے میں چھپی ہوتی ہے اس لیے یہاں خصوصی طور پر ان سے ہوشیار رہنے کی ہدایت کی جا رہی ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ لوگ آستین کے سانپ ہیں۔ مشرکین مکہ کے لشکر آپ لوگوں کے لیے اتنے خطرناک نہیں جتنے یہ اندر کے دشمن خطرناک ہیں۔ لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو ہلکا نہ سمجھیں اور ان سے ہوشیار رہیں۔ ایسی صورت حال کے لیے حضرت مسیح (علیہ السلام) کا یہ قول بہت اہم ہے کہ ” فاختہ کی مانند بےضرر لیکن سانپ کی طرح ہوشیار رہو “ ۔ منافقین اگرچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے ‘ لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان یہی تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی غلطیاں اور گستاخیاں مسلسل نظرانداز فرماتے رہتے تھے ‘ بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طبعی شرافت اور مروّت کی وجہ سے ان کے جھوٹے بہانے بھی مان لیتے تھے۔ یہاں تک کہ غزوئہ تبوک کی تیاری کے موقع پر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت سے منافقین کو جھوٹے بہانوں کی وجہ سے پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہہ آگئی : عَفَا اللّٰہُ عَنْکَج لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَتَعْلَمَ الْکٰذِبِیْنَ ۔ (التوبۃ) ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) اللہ آپ کو معاف فرمائے (یا اللہ نے آپ کو معاف فرمادیا) آپ نے انہیں کیوں اجازت دے دی ؟ یہاں تک کہ آپ کے لیے واضح ہوجاتا کہ کون لوگ سچے ہیں اور آپ (یہ بھی) جان لیتے کہ کون جھوٹے ہیں “- قَاتَلَہُمُ اللّٰہُز اَنّٰی یُؤْفَـکُوْنَ ۔ ” اللہ ان کو ہلاک کرے ‘ یہ کہاں سے پھرائے جا رہے ہیں “- تصور کیجیے یہ لوگ کس قدرقابل رشک مقام سے ناکام و نامراد لوٹے ہیں ان کو نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ نصیب ہوا ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت ایمان پر لبیک کہنے کی توفیق ملی ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں میں بیٹھنے کے مواقع ہاتھ آئے۔ کیسی کیسی سعادتیں تھیں جو ان لوگوں کے حصے میں آئی تھیں۔ بقول ابراہیم ذوق : ع ” یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے “ ۔ مگر دوسری طرف ان کی بدنصیبی کی انتہا یہ ہے کہ یہاں تک پہنچ کر بھی یہ لوگ نامراد کے نامراد ہی رہے۔ مقامِ عبرت ہے کس بلندی پر پہنچ کر یہ لوگ کس اتھاہ پستی میں گرے ہیں : ؎- قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند - دوچارہاتھ جب کہ لب ِبام رہ گیا

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :5 حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی بڑے ڈیل ڈول کا ، تندرست ، خوش شکل اور چرب زبان آدمی تھا ۔ اور یہی شان اس کے بہت سے ساتھیوں کی تھی ۔ یہ سب مدینہ کے رئیس لوگ تھے ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں آتے تو دیواروں سے تکیے لگا کر بیٹھتے اور بڑی لچھے دار باتیں کرتے ۔ ان کے جُثّے بشرے کو دیکھ کر اور ان کی باتیں سن کر کوئی یہ گمان تک نہ کر سکتا تھا کہ بستی کے یہ معززین اپنے کردار کے لحاظ سے اتنے ذلیل ہوں گے ۔ سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :6 یعنی یہ جو دیواروں کے ساتھ تکیے لگا کر بیٹھتے ہیں ، یہ انسان نہیں ہیں بلکہ لکڑی کے کندے ہیں ۔ ان کو لکڑی سے تشبیہ دے کر یہ بتایا گیا کہ یہ اخلاق کی روح سے خالی ہیں جو اصل جوہر انسانیت ہے ۔ پھر انہیں دیوار سے لگے ہوئے کندوں سے تشبیہ دے کر یہ بھی بتا دیا گیا کہ یہ بالکل ناکارہ ہیں ۔ کیونکہ لکڑی بھی اگر کوئی فائدہ دیتی ہے تو اس وقت جب کہ وہ کسی چھت میں ، یا کسی دروازے میں یا کسی فرنیچر میں لگ کر استعمال ہو رہی ہو ۔ دیوار سے لگا کر کندے کی شکل میں جو لکڑی رکھ دی گئی ہو وہ کوئی فائدہ بھی نہیں دیتی ۔ سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :7 اس مختصر سے فقرے میں ان کے مجرم ضمیر کی تصویر کھینچ دی گئی ہے ۔ چونکہ وہ اپنے دلوں میں خوب جانتے تھے کہ وہ ایمان کے ظاہر پردے کی آڑ میں منافقت کا کیا کھیل کھیل رہے ہیں ، اس لیے انہیں ہر وقت دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کب ان کے جرائم کا راز فاش ہو ، یا ان کی حرکتوں پر اہل ایمان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے اور ان کی خبر لے ڈالی جائے ۔ بستی میں کسی طرف سے بھی کوئی زور کی آواز آتی یا کہیں کوئی شور بلند ہوتا تھا تو وہ سہم جاتے اور یہ خیال کرتے تھے کہ آ گئی ہماری شامت ۔ سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :8 دوسرے الفاظ میں کھلے دشمنوں کی بہ نسبت یہ چھپے ہوئے دشمن زیادہ خطرناک ہیں ۔ سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :9 یعنی ان کے ظاہر سے دھوکا نہ کھاؤ ۔ ہر وقت خیال رکھو کہ یہ کسی وقت بھی دغا دے سکتے ہیں ۔ سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :10 یہ بد دعا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے بارے میں اس فیصلے کا اعلان ہے کہ وہ اس کی مار کے مستحق ہو چکے ہیں ، ان پر اس کی مار پڑ کر رہے گی ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ نے لُغوی معنی میں استعمال نہ فرمائے ہوں بلکہ عربی محاورے کے مطابق لعنت اور پھٹکار اور مذمت کے لیے استعمال کیے ہوں ، جیسے اردو میں ہم کسی کی برائی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ستیاناس اس کا ، کیسا خبیث آدمی ہے ۔ اس لفظ ستیاناس سے مقصود اس کی خیانت کی شدت ظاہر کرنا ہوتا ہے نہ کہ اس کے حق میں بد دعا کرنا ۔ سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :11 یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کو ایمان سے نفاق کی طرف الٹا پھر انے والا کون ہے ۔ اس کی تصریح نہ کرنے سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ ان کی اس اوندھی چال کا کوئی ایک محرک نہیں ہے بلکہ بہت سے محرکات اس میں کار فرما ہیں ۔ شیطان ہے ۔ برے دوست ہیں ۔ ان کے اپنے نفس کی اغراض ہیں ۔ کسی کی بیوی اس کی محرک ہے ۔ کسی کے بچے اس کے محرک ہیں ۔ کسی کی برادری کے اشرار اس کے محرک ہیں ۔ کسی کو حسد اور بغض اور تکبر نے اس راہ پر ہانک دیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: یعنی ان کا ظاہری حلیہ بڑا پُر کشش ہے، اور باتیں بڑی لچھے دار ہیں، کہ آدمی اُنہیں سنتا ہی رہ جائے، لیکن اندر سے ان میں نفاق کی نجاست بھری ہوئی ہے۔ روایات میں ہے کہ عبداللہ ابن اُبیّ اپنے ڈیل ڈول کے اعتبار سے پُر کشش شخصیت رکھتا تھا، اور اس کی باتیں بڑی فصاحت وبلاغت کی حامل ہوتی تھیں۔ 3: لکڑیاں اگر کسی دیوار کے سہارے لگی رکھی ہوں تو دیکھنے میں کتنی اچھی لگیں، ان کا فائدہ کوئی نہیں ہوتا، اسی طرح یہ منافق لوگ دیکھنے میں کتنے اچھے لگیں، حقیقت میں بالکل بے مصرف ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں ہے، یہ لوگ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھتے تو ان کا جسم اگرچہ مجلس میں ہوتا تھا، لیکن دِل ودِماغ آپ کی طرف متوجہ نہیں ہوتا تھا، اس لحاظ سے بھی انہیں بے جان لکڑیوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ 4: چونکہ ان کے دِل میں چور ہے، اس لئے اگر مسلمانوں میں کوئی شور ہو تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے خلاف کچھ ہو رہا ہے۔