منافقوں کی محرومی سعادت کے اسباب ملعون منافقوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ ان کے گناہوں پر جب ان سے سچے مسلمان کہتے ہیں کہ آؤ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لئے استغفار کریں گے تو اللہ تعالیٰ تمہاے گناہ معاف فرما دے گا تو یہ تکبر کے ساتھ سر ہلانے لگتے ہیں اور اعراض کرتے ہیں اور رک جاتے ہیں اور اس بات کو حقارت کے ساتھ رد کر دیتے ہیں ، اس کا بدلہ یہی ہے کہ اب ان کے لئے بخشش کے دروازے بند ہیں نبی کا استغفار بھی انہیں کچھ نفع نہ دے گا ، بھلا ان فاسقوں کی قسمت میں ہدیات کہاں؟ سورہ براۃ میں بھی اسی مضمون کی آیت گذر چکی ہے اور وہیں اس کی تفسیر اور ساتھ ہی اس کے متعلق کی حدیثیں بھی باین کر دی گئی ہیں ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ سفیان راوی نے اپنا نہ دائیں جانب پھیر لیا تھا اور غضب و تکبر کے ساتھ ترچھی آنکھ سے گھور کر دکھایا تھا اسی کا ذکر اس آیت میں ہے اور سلف میں سے اکثر حضرات کا فرمان ہے کہ یہ سب کا سب بیان عبداللہ بن ابی بن سلول کا ہے جیسے کہ عنقریب آ رہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول اپنی قوم کا بڑا اور شریف شخص تھا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ کے لئے منبر پر بیٹھتے تھے تو یہ کھڑا ہو جاتا تھا اور کہتا تھا لوگو یہ ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو تم میں موجود ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہارا کرام کیا اور تمہیں عزت دی اب تم پر فرض ہے کہ تم آپ کی مدد کرو اور آپ کی عزت و تکریم کرو آپ کا فرمان سنو اور جو فرمائیں بجا لاؤ یہ کہہ کر بیٹھ جایا کرتا تھا ، احد کے میدان میں اس کا نفاق کھل گیا اور یہ وہاں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کھلی نافرمانی کر کے تہائی لشکر کو لے کر مدینہ کو واپس لوٹ آیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد سے فارغ ہوئے اور مدینہ میں مع لاخیر تشریف لائے جمعہ کا دن آیا اور آپ منبر پر چڑھے تو حسب عادت یہ آج بھی کھڑا ہوا اور کہنا چاہتا ہی تھا کہ بعض صحابہ ادھر ادھر سے کھڑے ہوگئے اور اس کے کپڑے پکڑ کر کہنے لگے دشمن اللہ بیٹھ جا تو اب یہ کہنے کا منہ نہیں رکھتا تو نے جو کچھ کیا وہ کسی سے مخفی نہیں اب تو اس کا اہل نہیں کہ زبان سے جو جی میں آئے بک دے ، یہ ناراض ہو کر لوگں کی گردنیں پھلانگتا ہوا باہر نکل گیا اور کہتا جاتا تھا کہ گویا میں کسی بدیات کے کہنے کے لئے کھڑا ہوا تھا میں تو اس کا کام اور مضبوط کرنے کے لئے کھڑا ہوا تھا جو چند اصحاب مجھ پر اچھل کر آ گئے مجھے گھسیٹنے لگے اور ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے گویا کہ میں کسی بڑی بات کے کہنے کے لئے کھڑا ہوا تھا حالانکہ میری نیت یہ تھی کہ میں آپ کی باتوں کی تائید کروں انہوں نے کہا خیر اب تم واپس چلو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کریں گے آپ تمہارے لئے اللہ سے بخشش چاہیں گے اس نے کہا مجھے کوئی ضرورت نہیں ، حضرت فتادہ اور حضرت سدی فرماتے ہیں یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے میں اتری ہے واقعہ یہ تھا کہ اسی کی قوم کے ایک نوجوان مسلمان نے اس کی ایسی ہی چند بری باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنائی تھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بلوایا تو یہ صاف انکار کر گیا اور قسمیں کھا گیا ، انصاریوں نے صحابی کو ملامت اور ڈانٹ ڈپٹ کی اور اسے جھوٹا سمجھا اس پر یہ آیتیں اتریں اور اس منافق کی جھوٹی قسموں اور اس نوجوان صحابی کی سچائی کا اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا اب اس سے کہا گیا کہ تو چل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استغفار کرا تو اس نے انکار کے لہجے میں سر ہلا دیا اور نہ گیا ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جس منزل میں اترتے وہاں سے کوچ نہ کرتے جب تک نماز نہ پڑھ لیں ، غزوہ تبوک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچی کہ عبداللہ بن ابی کہہ رہا ہے کہ ہم عزت والے ان ذلت والوں کو مدینہ پہنچ کر نکال دیں گے پس آپ نے آخری دن میں اترنے سے پہلے ہی کوچ کر دیا اسے کہا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر اپنی خطا کی معافی اللہ سے طلب کر اس کا بیان اس آیت میں ہے ، اس کی اسناد سعید بن جبیر تک صحیح ہے لیکن یہ کہنا کہ یہ واقعہ غزوہ تبوک کا ہے اس میں نظر ہے بلکہ یہ ٹھیک نہیں ہے اس لئے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول تو اس غزوہ میں تھا ہی نہیں بلکہ لشکر کی ایک جماعت کو لے کر یہ تو لوٹ گیا تھا ، کتب سیرو مغازی کے مصنفین میں تو یہ مشہور ہے کہ یہ واقعہ غزوہ مریسیع یعنی غزوہ بنو المصطلق کا ہے چنانچہ اس قصہ میں حضرت ممد بن حییٰ بن حبان اور حضرت عبداللہ بن ابو بکر اور حضرت عاصم بن عمر بن قتادہ سے مروی ہے کہ اس لڑائی کے موقعہ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک جگہ قیام تھا ، وہاں حضرت جھجاہ بن سعید غفاری اور حضرت سنان بن یزید کا پانی کے ازدہام پر کچھ جھگڑا ہو گیا جھجاہ حضرت عمر کے کارندے تھے ، جھگڑے نے طول پکڑا سنان نے انصاریوں کو اپنی مدد کے لئے آواز دی اور جھجاہ نے مہاجرین کو اس وقت حضرت زید بن ارقم وغیرہ انصاری کی ایک جماعت عبداللہ بن ابی کے پاس بیٹھی ہوئی تھی ، اس نے جب یہ فریاد سنی تو کہنے لگا لو ہمارے ہی شہرں میں ان لوگوں نے ہم پر حملے شروع کر دیئے اللہ کی قسم ہماری اور ان قریشویں کی مثال وہی ہے جو کسی نے کہا ہے کہ اپنے کتے کو مٹا تازہ کرتا کہ تجھے ہی کاٹے اللہ کی قسم اگر ہم لوٹ کر مدینہ گئے تو ہم ذی مقدور لوگ ان بےمقدروں کو وہاں سے نکال دیں گے پھر اس کی قوم کے جو لوگ اس کے پاس بیٹھے تھے ان سے کہنے لگا یہ سب آفت تم نے خود اپین ہاتھوں اپنے اوپر لی ہے تم نے انہیں اپنے شہر میں بسایا تم نے انہیں اپنے مال آدھوں آدھ حصہ دیا اب بھی اگر تم ان کی مالی امداد نہ کرو تو یہ خود تنگ آ کر مدینہ سے نکل بھاگیں گے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ تمام باتیں سنیں آپ اس وقت بہت کم عمر تھے سیدھے سرکار نبوت میں حاضر ہوئے اور کل واقعہ بیان فرمایا اس وقت آپ کے پاسح ضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی بیٹیھ ہوئے تھے غضبناک ہو کر فرمانے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عباد بن بشیر کو حکم فرمایئے کہ اس کی گردن الگ کر دے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تو لوگوں میں یہ مشہور ہو جائے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کی گردنیں مارتے ہیں یہ ٹھیک نہیں جاؤ لوگوں میں کوچ کی منادی کر دو ، عبداللہ بن ابی کو جب یہ معلوم ہوا کہ اس کی گفتگو کا علم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہو گیا تو بہت سٹ پٹایا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عذر معذرت اور حیلے حوالے تاویل اور تحریف کرنے لگا اور قسمیں کھا گیا کہ میں نے ایسا ہرگز نہیں کہا ، چونکہ یہ شخص اپنی قوم میں ذی عزت اور باوقعت تھا اور لوگ بھی کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم شاید اس بچے نے ہی غلطی کیہ و اسے وہم ہو گیا ہو واقعہ ثابت تو ہوتا نہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے جلدی ہی کوچ کے وقت سے پہلے ہی تشریف لے چلے راستے میں حضرت اسید بن نضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملے اور آپ کی شان نبوت کے قابل با ادب سلام کیا پھر عرض کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آ جکیا بات ہے کہ وقت سے پہلے ہی جناب نے کوچ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں ملوم نہیں کہ تمہارے ساتھی ابن ابی نے کیا کہا وہ کہتا ہے کہ مدینہ جا کر ہم عزیز ان ذلیلوں کو نکال دیں گے حضرت اسید نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عزت والے آپ ہیں اور ذلیل وہ ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس کی ان باتوں کا خیال بھی نہ فرمایئے دراصل یہ بہت جلا ہوا ہے سنئے اہل مدینہ نے اسے سردار بنانے پر اتفاق کر لیا تھا تاج تیار ہو رہا تھا کہ اللہ رب اعلزت آپ کو لایا اس کے ہاتھ سے ملک نکل گیا پس یہ چراغ پا ہو رہا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے ، دوپہر کو ہی چل دیئے تھے شام ہوئی رات ہوئی صبح ہوئی یہاں تک کہ دھوپ میں تیزی آ گئی تب آپ نے پڑاؤ کیا تاکہ لوگ اس بات میں پھر نہ الجھ جائیں ، چونکہ تمام لوگ تھکے ہارے اور رات کے جاگے ہوئے تھے اترتے ہی سب سو گئے ادھر یہ سورت نازل ہوئی ( سیرۃ ابن اسحاق ) بیہقی میں ہے کہ ہم ایک غزوے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ایک مہاجر نے ایک انصار کو پتھر مار دیا اس پر بات بڑھ گئی اور دونوں نے اپنی اپنی جماعت سے فریاد کی اور انہیں پکارا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے یہ کیا جاہلیت کی ہانک لگانے لگے اس فضول خراب عادت کو چھوڑو ، عبداللہ بن ابی بن سلول کہنے لگا اب مہاجر یہ کرنے لگ گئے اللہ کی قسم مدینہ پہنچتے ہی ہم ذی عزت ان ذلیلوں کو وہاں سے نکال باہر کریں گے ، اس وقت مدینہ شریف میں انصار کی تعداد مہاجرین سے بہت زیادہ تھی گو بعد میں مہاجرین بہت زیادہ ہوگئے تھے ، حضرت عمر کو جب ابن ابی کے اس قول کا علم ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے قتل کرنے کی اجازت چاہی مگر آپ نے روک دیا ، مسند احمد میں حضرت زید بن ارقم سے مروی ہے کہ غزوہ تبوک میں میں نے جب اس منافق کا یہ قول حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا اور اس نے آ کر انکار کیا اور قسمیں کھا گیا اس وقت میری قوم نے مجھے بہت کچھ برا کہا اور ہر طرح ملامت کی کہ میں نے ایسا کیوں کیا ؟ میں نہایت غمگین دل ہو کر وہاں سے چل دیا اور سخت رنج و غم میں تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یاد فرمایا اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے تیرا عذر نازل فرمایا ہے اور تیری سچائی ظاہر کی ہے اور یہ آیت اتری ھم الذین الخ یہ حدیث اور بھی بہت سی کتابوں میں ہے ، مسند احمد میں ہے حضرت زید بن ارقم کا یہ بیان اس طرح ہے کہ میں اسے چچا کے ساتھ ایک غزوے میں تھا اور میں نے عبداللہ بن ابی کی یہ دونوں باتیں سنیں میں نے اپنے چچا سے بیان کیں اور میرے چچا نے حضور سے عرض کیں جب آپ نے اسے بلایا اس نے انکار کیا اور قسمیں کھا گیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سچا اور مجھے جھوٹا جانا میرے چچا نے بھی مجھے برا بھلا کہا مجھے اس قدر غم اور ندامت ہوئی کہ میں نے گھر سے باہر نکلنا چھوڑ دیا یہاں تک کہ یہ سورت اتری اور آپ نے میری تصدیق کی اور مجھے یہ پڑھ سنائی ۔ مسند کی اور روایت میں ہے کہ ایک سفر کے موقعہ پر جب صحابہ کو تنگی پہنچی تو اس نے انہیں کچھ دینے کی ممانعت کر دی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں اس لئے بلوایا کہ آپ ان کے لئے استغفار کریں تو انہو نے اس سے بھی منہ پھیر لیا ، قرآن ریم نے انہیں ٹیک لگائی ہوئی لکڑیاں اس لئے کہا ہے کہ یہ لوگ اچھے جمیل جسم والے تھے ، ترمذی وغیرہ میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک غزوے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے ہمارے ساتھ کچھ اعراب لوگ بھی تھے پانی کی جگہ وہ پہلے پہنچنا چاہتے تھے اسی رطح ہم بھی اسی کی کوشش میں رہتے تھے ایک مرتبہ ایک اعرابی نے جا کر پانی پر بضہ کر کے حوض پر کر لیا اور اس کے اردگرد پتھر رکھ دیئے اور اوپر سے چمڑا پھیلا دیا ایک انصاری نے آ کر اس حوض میں سے اپنے اونٹ کو پانی پلانا چاہا اس نے روکا انصاری نے پلانے پر زور دیا اس نے ایک لکڑی اٹھا کر انصاری کے سر پر ماری جس سے اس کا سر زخمی ہو گیا ۔ یہ چونکہ عبداللہ بن ابی کا ساتھی تھا سیدھا اس کے پاس آیا اور تمام ماجرا کہہ سنایا عبداللہ بہت بگڑا اور کہنے لگا ان اعرابیوں کو کچھ نہ دو یہ خود بھوکے مرتے بھاگ جائیں گے ، یہ اعربای کھانے کے قوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ جاتے تھے اور کھا لیا کرتے تھے تو عبداللہ بن ابی نے کہا تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانا لے کر ایسے وقت جاؤ جب یہ لوگ نہ ہوں آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھالیں گے یہ رہ جائیں گے یونہی بھوکوں مرتے بھاگ جائیں گے اور اب ہم مدینہ جا کر ان کمینوں کو نکال باہر کریں گے ، میں اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا اور میں نے یہ سب سنا اپنے چچا سے ذکر کیا چچا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا آپ نے اسے بلوایا یہ انکار کر گیا اور حلف اٹھا لیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سچا سمجھا اور مجھے جھوٹا قرار دیا میرے چچا میرے پاس آئے اور کہا تم نے یہ کیا حرکت کی؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تجھ پر ناراض ہوگئے اور تجھے جھوٹا جانا اور دیگر مسلمانوں نے بھی تجھے جھوٹا سمجھا مجھ پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا سخت غم و اندوہ کی حالت میں سر جھکائے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا تھوڑی ہی دیر گذری ہو گی کہ آپ میرے پاس آئے ، میرا کان پکڑا ، جبمیں نے سر اٹھا کر آپ کی طرف دیکھا تو آپ مسکرائے اور چل دیئے ، اللہ کی قسم مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے اگر دنیا کی ابدی زندگی مجھے مل جاتی جب بھی میں اتنا خوش نہ ہو سکتا تھا پھر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے پاس آئے اور پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا کہا ؟ میں نے کہا ؟ فرمایا تو کچھ بھی نہیں مسکراتے ہوئے تشریف لے گئے ، آپ نے فرمایا بس پھر خوش ہو ، آپ کے بعد ہی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہی سوال مجھ سے کیا اور میں نے یہی جواب دیا صبح کو سورہ منافقون نازل ہوئی ۔ دوسری روایت میں اس سورت کا منھا الذل تک پڑھنا بھی مروی ہے ، عبداللہ بن لہیعہ اور موسیٰ بن عقبہ نے بھی اسی حدیث کو مغازی میں بیان کیا ہے لیکن ان دونوں کی روایت میں خبر پہنچانے والے کا نام اوس بن اقرم ہے جو قبیلہ بنو حارث بن خزرج میں سے تھے ، ممن ہے کہ حضرت زید بن ارقم نے بھی خبر پہنچائی ہو اور حضرت اوس نے بھی اور یہ بھی ممکن ہے کہ راوی سے نام میں غلطیہو گئی ہو واللہ اعلم ، ابنابی حاتم میں ہے کہ یہ واقعہ غزوہ مریسیع کا ہے یہ وہ غزوہ ہے جس میں حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیج کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مناۃ بت کو تڑوایا تھا جو قفا مثل اور سمندر کے درمیان تھا ، اسی غزوہ میں دو شخصوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا تھا ایک مہاجر تھا دوسرا قبیلہ بہز کا تھا اور قبیل بہز انصاریوں کا حلیف تھا بہزی نے انصاریوں کو اور مہاجر نے مہاجرین کو آواز دی کچھ لوگ دونوں طرف کھڑے ہوگئے اور جھگڑا ہنے لگا جب ختم ہوا تو منافق اور بیمار دل لوگ عبداللہ بن اب کے پاس جمع ہوئے اور کہنے لگے ہمیں تو تم سے بہت کچھ امیدیں تھیں تم ہمارے دشمنوں سے ہمارا بچاؤ تھے اب تو بیکار ہوگئے ہو ، نفع کا خیال نہ نقصان کا تم نے ہی ان جلالیبکو اتنا چڑھا دیا کہ بات بات پر یہ ہم پر چڑھ دوڑیں ، نئے مہاجرین کو یہ لوگ جلالیب کہتے تھے ، اس دشمن اللہ نے جواب دیا کہ اب مدینے پہنچتے ہی ان سب کو وہاں سے دیس نکالا دیں گے ، مالک بن وخشن جو منافق تھا اس نے کہا میں تو تمہیں پہلے ہی سے کہتا ہوں کہ ان لوگں کے ساتھ سلوک کرنا چھوڑ دو خودبخود منتشر ہو جائیں گے یہ باتیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سن لیں اور خدمت نبوی میں آ کر عرض کرنے لگے کہ اس بانی فتنہ عبداللہ بن ابی کا قصہ پاک کرنے کی مجھے اجازت دیجئے آپ نے فرمایا اچھا اگر اجازت دوں تو کیا تم اسے قتل کر ڈالو گے؟ حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم ابھی اپنے ہاتھ سے اس کی گردن ماروں گا ، آپ نے فرمایا اچھا بیٹھ جاؤ اتنے میں حضرت اسید بن حفیر بھی یہی کہتے ہوئے آپ نے ان سے بھی یہی پوچھا اور انہں نے بھی یہی جواب دیا آپ نے انہیں بھی بٹھا لیا ، پھر تھوڑی دیر گذری ہو گی کہ کوچ کرنے کا حکم دیا اور وقت سے پہلے ہی لشکر نے کوچ کیا ، وہ دن رات دوسری صبح برابر چلتے ہی رہے جب دھوپ میں تیزی آ گئی ، اترنے کو فرمایا ، پھر دوپہر ڈھلتے ہی جلدی سے کوچ کیا اور اسی طرح چلتے رہے تیسرے دن صبح کو قفا مثل سے مدینہ شریف پہنچ گئے ، حضرت عمر کو بلوایا ان سے پوچھا کہ کیا میں اس کے قتل کا تجھے حکم دیتا تو تو اسے مار ڈالتا ؟ حضرت عمر نے عرض کیا یقیناً میں اس کا سرتن سے جدا کر دیتا ۔ آپ نے فرمایا اگر تو اسے اس دن قتل کر ڈالات تو بہت سے لوگوں کے ناک خاک آلودہ ہو جاتے میں اگر انہیں کہتا تو وہ بھی اسے مار ڈالنے میں تامل نہ کرتے پھر لوگوں کو باتیں بنانے کا موقعہ ملتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو بھی بےدردی کے ساتھ مار ڈالتا ہے اسی واقعہ کا بیان ان آیتوں میں ہے ، یہ سیاق بہت غریب ہے اور اس میں بہت سی ایسی عمدہ باتیں ہیں جو دوسری روایتوں میں نہیں ، سیرۃ محمد بن اسحاق میں ہے کہ عبداللہ بن ابی منافق کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو پکے سچے مسلمان تھے اس واقعہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گذارش کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے سنا ہے کہ میرے باپ نے جو بکواس کی ہے اس کے بدلے آپ اسے قتل کرنا چاہتے ہیں اگر یونہی ہے تو اس کے قتل کا حکم آپ کسی اور کو نہ کیجئے میں خود جاتا ہوں اور ابھی اس کا سر آپ کے قدموں تلے ڈالتا ہوں ، قسم اللہ کی قبیلہ خزرج کا ایک ایک شخص جانتا ہے کہ مجھ سے زیادہ کوئی بیٹا اپنے باپ سے احسان و سلوک اور محبت و عزت کرنے والا نہیں ( لیکن میں نے فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے پیارے باپ کی گردن مارنے کو تیار ہوں ) اگر آپ نے کسی اور کو یہ حکم دیا اور اس نے اسے مارا تو مجھے ڈر ہے کہ کیں جوش انتقام میں میں اسے نہ مار بیٹھوں اور ظاہر ہے کہ اگر یہ حرکت مجھ سے ہو گئی تو میں ایک کافر کے بدلے ایک مسلمان کو مار کر جہنمی بن جاؤں گا آپ میرے باپ کے قتل کا حکم دیجئے آپ نے فرمایا نہیں نہیں میں اسے قتل کرنا نہیں چاہتا ہم تو اس سے اور نرمی برتیں گے اور اس کے ساتھ حسن سلوک کریں گے جب تک وہ ہمارے ساتھ ہے ، حضرت عکرمہ اور حضرت ابنزید کا بیان ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لشکروں سمیت مدینے پہنچے تو اس منافق عبداللہ بن ابیکے لڑکے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم دینہ شریف کے دروازے پر کھڑے ہوگئے تلوار کھینچ لی لوگ مدینہ میں داخل ہونے لگے یہاں تک کہ ان کا باپ آیا تو یہ فرمانے لگے پرے رہو ، مدینہ میں نہ جاؤ اس نے کہا کیا بات ہے؟ مجھے کیوں روک رہا ہے؟ حضرت عبداللہ نے فرمایا تو مدینہ میں نہیں جا سکتا جب تک کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تیرے لئے اجازت نہ دیں ، عزت والے آپ ہی ہیں اور تو ذلیل ہے ، یہ رک کر کھڑا ہو گیا یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آپ کی عادت مبارک تھی کہ لشکر کے آخری حصہ میں ہوتے تھے آپ کو دیکھ کر اس مناق نے اپنے بیٹے کی شکایت کی آپ نے ان سے پوچھا کہ اسے کیوں روک رکھا ہے؟ انہوں نے کہا قسم ہے اللہ کی جب تک آپ کی اجازت نہ ہو یہ اندر نہیں جا سکتا چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی اب حضرت عبداللہ نے اپنے باپ کو شہر میں داخل ہونے دیا ، مسند حمیدی میں ہے کہ آپ نے اپنے والد سے کہا جب تک تو اپنی زبان سے یہ نہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عزت والے اور میں ذلیل تو مدینہ میں نہیں جا سکتا اور اس سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے باپ کی ہیبت کی وجہ سے میں نے آج تک نگاہ اونچی کر کے ان کے چہرے کو بھی نہیں دیکھا لیکن آپ اگر اس پر ناراض ہیں تو مجھے حکم دیجئے ابھی اس کی گردن حاضر کرتا ہوں کسی اور کو اس کے قتل کا حکم نہ دیجئے ایسا نہ ہو کہ میں اپنے باپ کے قتل کو اپنی آنکھوں سے چلتا پھرتا نہ دیکھ سکوں ۔
5۔ 1 یعنی استغفار سے اعراض کرتے ہوئے اپنے سروں کو موڑ لیتے ہیں۔ 5۔ 2 یعنی کہنے والے کی بات سے منہ موڑ لیں گے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اعراض کرلیں گے۔
[٩] ویسے تو سب منافقوں کا یہی حال تھا۔ مگر ان کا سردار عبداللہ بن ابی اس بات میں بھی ان کا سردار تھا۔ جب بھی ان کی کوئی سازش یا ناشائستہ حرکت یا راز کی بات پکڑی جاتی تو مسلمان ان سے کہتے کہ : چلو، چل کر رسول اللہ سے معافی مانگ لو۔ وہ آپ کو خود بھی معاف کردیں گے اور اللہ سے بھی تمہاری مغفرت کی دعا کریں گے۔ ایسے ہی ایک موقعہ پر عبداللہ بن ابی نے مسلمانوں کو یہ جواب دیا کہ تم نے مجھے ایمان لانے کو کہا تو میں ایمان لے آیا۔ تم نے نمازیں ادا کرنے کو کہا تو وہ بھی میں نے ادا کیں۔ تم نے مال کی زکوٰۃ ادا کرنے کو کہا تو وہ بھی میں نے ادا کی۔ اب کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں محمد کو سجدہ کروں ؟ اس کا کبرونخوت سے بھرا ہوا یہ جواب سن کر آپ کیا سمجھتے ہیں کہ وہ رسول اللہ کے پاس گیا ہوگا ؟ یا مسلمانوں نے اسے آگے کچھ کہا ہوگا ؟ اس کی اسی متکبرانہ کیفیت کا نقشہ اللہ نے اس آیت میں کھینچا ہے۔
١۔ وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْ لَکُمْ ۔۔۔۔۔:” لووا “ ” لوی یلوی لیا “ (ض) ( پھیرنا) سے باب تفعیل ہے ، جس سے سر پھیرنے میں مبالغہ یا اس کا تکرار مقصود ہے۔ آیت (٧) میں اس کا سبب نزول آرہا ہے۔- ٢۔ وْا رُئُ وْسَہُمْ وَرَاَیْتَہُمْ یَصُدُّوْنَ وَہُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ :” صد یصد صدا و صدودا “ (ن) ” صدا “ (متعدی) روکنا اور ” وصدودا “ ( لازم) اعراض کرنا ، منہ پھیرلینا ۔ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر معذرت کرلینے کی ترغیب پر تم انہیں دیکھو گے کہ وہ تکبر کرتے ہوئے منہ پھیر لیں گے۔
سورت کا تر جمہ اور خلاصہ تفسیر اوپر لکھا جا چکا ہے، اب اس کے خاص خاص جملوں کو مزید توضیح دیکھئے :۔ (آیت) وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ الاٰیة، عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین جس کے معاملہ میں یہ سورت نازل ہوئی ہے جس میں اس کی قسموں کا جھوٹا ہونا واضح کردیا گیا تو لوگوں نے اس کو از راہ خیر خواہی یہ کہا کہ تجھے معلوم ہے کہ تیرے بارے میں قرآن میں کیا نازل ہوا ہے، اب بھی وقت نہیں گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوجا (اور اعتراف جرم کرلے) تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرے لئے استغفار فرما دیں گے، اس نے جواب میں کہا کہ تم لوگوں نے مجھے کہا کہ ایمان لے آ میں نے ایمان اختیار کرلیا، پھر تم نے مجھے اپنے مال سے زکوٰة دینے کو کہا وہ دینے لگا، اب اس کے سوا کیا رہ گیا کہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سجدہ کیا کروں، اس پر آیات مذکورہ نازل ہوئیں، جن میں واضح کردیا گیا کہ جب اس کے دل میں ایمان ہی نہیں تو اس کے لئے کسی کا استغفار نافع نہیں ہوسکتا۔ ابن ابی اس واقعہ کے بعد مدینہ طیبہ پہنچ کر چند روز ہی زندہ رہا پھر جلد ہی مر گیا (مظہری)
وَاِذَا قِيْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُوْلُ اللہِ لَوَّوْا رُءُوْسَہُمْ وَرَاَيْتَہُمْ يَصُدُّوْنَ وَہُمْ مُّسْـتَكْبِرُوْنَ ٥- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- استغفار - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس،- والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] - ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے - اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ - رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - لوی - اللَّيُّ : فتل الحبل، يقال : لَوَيْتُهُ أَلْوِيهِ لَيّاً ، ولَوَى يدَهُ ، قال : لوی يده اللہ الذي هو غالبه ولَوَى رأسَهُ ، وبرأسه أماله، قال تعالی: لَوَّوْا رُؤُسَهُمْ [ المنافقون 5] : أمالوها، ولَوَى لسانه بکذا : كناية عن الکذب وتخرّص الحدیث . قال تعالی: يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ- [ آل عمران 78] ، وقال : لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ [ النساء 46] ، ويقال فلان لا يلْوِي علی أحد : إذا أمعن في الهزيمة . قال تعالی:إِذْ تُصْعِدُونَ وَلا تَلْوُونَ عَلى أَحَدٍ [ آل عمران 153] وذلک کما قال الشاعر : ترک الأحبّة أن تقاتل دونه ... ونجا برأس طمرّة وثّاب - واللِّوَاءُ : الراية سمّيت لِالْتِوَائِهَا بالرّيح، واللَّوِيَّةُ : ما يلوی فيدّخر من الطّعام، ولَوَى مدینَهُ ، أي : ماطله، وأَلْوَى: بلغ لوی الرّمل، وهو منعطفه .- ( ل و ی ) لویٰ ( ض ) الجبل یلویہ لیا کے معنی رسی بٹنے کے ہیں ۔ لوی یدہ : اس کے ہاتھ کو موڑ الویراسہ وبراسہ وبراسہ اس نے اپنا سر پھیرلیا یعنی اعراض کیا ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوَّوْا رُؤُسَهُمْ [ المنافقون 5] تو سر پھیر لیتے ہیں لو یٰ لسانہ بکذا : کنایہ ہوتا ہے جھوٹ بولنے اور اٹکل بچوں کی باتیں بنانے سے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران 78] کتاب ( تو راۃ) کو زبان موڑ موڑ کر پڑھتے ہیں لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ [ النساء 46] زبان کو موڑ کر محاورہ ہے : ۔ فلان لا یلون علیٰ احد ۔ وہ کسی کی طرف گردن موڑ کر بھی نہیں دیکھتا ۔ یہ سخت ہزیمت کھا کر بھاگ اٹھنے کے موقع پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِذْ تُصْعِدُونَ وَلا تَلْوُونَ عَلى أَحَدٍ [ آل عمران 153] جب تم لوگ دور بھاگ جاتے تھے ۔ اور کسی کو پیچھے پھر کر نہیں دیکھتے تھے ۔ چناچہ شاعر نے اس معنی کو یوں ادا کیا ہے ( 401 ) ترک الاحبۃ ان تقاتل دو نۃ ونجا بر اس طمرۃ وثاب اور اس نے دوستوں کے درے لڑنا چھوڑ دیا اور چھلا نگیں بھر کر دوڑے والی گھوڑی پر سوار ہو کر بھاگ گیا ۔ اللواء ۔ جھنڈے کو کہتے ہیں ۔ کیونکہ وہ ہوا سے لہراتا رہتا ہے ۔ اللویۃ وہ کھانا جو لپیٹ کر توشہ کے طور پر رکھ دیا جائے ۔ لوی مدینہ ۔ اپنے مقروض کو ڈھیل دینا الویٰ ۔ ٹیلے کے لوی یعنی موڑ پر پہنچنا ۔- رأس - الرَّأْسُ معروف، وجمعه رُؤُوسٌ ، قال : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم 4] ، وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة 196] ، ويعبّر بِالرَّأْسِ عن الرَّئِيسِ ، والْأَرْأَسُ : العظیم الرّأس، وشاة رَأْسَاءُ : اسودّ رأسها . ورِيَاسُ السّيف : مقبضه .- ( ر ء س ) الراس - سر کو کہتے ہیں اور اس کی جمع رؤوس آتی ہے ۔ قرآم میں ہے : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم 4] اور سر بڑاھاپے ( کی آگ ) سے بھڑک اٹھا ہے ۔ وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة 196] اپنے سر نہ منڈاؤ اور کبھی راس بمعنی رئیس بھی آتا ہے اور ارء س ( اسم تفصیل ) کے معنی بڑے سر والا کے ہیں اور سیاہ سر والی بکری کو شاۃ راساء کہتے ہیں اور ریاس السیف کے معنی دستہ شمشیر کے ہیں ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - صدد - الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً- ، [ النساء 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] - ( ص د د ) الصدود والصد - ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ - الاسْتِكْبارُ- والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة .- والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين :- أحدهما :- أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود .- والثاني :- أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ- [ البقرة 34] .- ( ک ب ر ) کبیر - اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔- الاستکبار ( استفعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔- ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔
اور جب ان سے ان کے خاندان والے ان کے رسوا ہونے کے بعد کہتے ہیں کہ رسول اکرم کے پاس جاؤ اور کفر و نفاق سے توبہ کرو تو وہ اپنے سر جھکا لیتے اور منہ پھیر لیتے ہیں اور آپ ان کو توبہ و استغفار اور آپ کی خدمت میں حاضری سے بےرخی کرتا ہوا دیکھیں گے۔- شان نزول : وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا (الخ)- ابن جریر نے قتادہ سے روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن ابی سے کہا گیا کہ تو رسول اکرم کے پاس جا حضور تیرے لیے استغفار کردیں گے تو وہ اپنا سر مٹکانے لگا تو اس کے بارے میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔
آیت ٥ وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْ لَــکُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ” اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو (اپنی غلطی مان لو) تاکہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے لیے استغفار کریں “- ظاہر ہے ان کے دلوں میں تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف بغض اور عناد پیدا ہوچکا تھا تو ان حالات میں وہ کیسے آتے اور کیونکر اپنی غلطی تسلیم کرتے ؟- لَوَّوْا رُئُ وْسَہُمْ ” تو وہ اپنے سروں کو مٹکاتے ہیں “- کہ ہاں ہاں ٹھیک ہے ہم آئیں گے ‘ ضرور آئیں گے۔- وَرَاَیْتَہُمْ یَصُدُّوْنَ وَہُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ ۔ ” اور آپ انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ رک جاتے ہیں تکبر کرتے ہوئے۔ “- ان کے دلوں میں چونکہ تکبر ہے ‘ اس لیے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر معافی مانگنے کو اپنی ہتک سمجھتے ہیں کہ دیکھیں جی آخر ہماری بھی کوئی عزت ہے ‘ اب کون روز روز وہاں جا کر مجرموں کی طرح اقبالِ جرم کرے اور ڈانٹ سنے
سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :12 یعنی صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس استغفار کے لیے آئیں ، بلکہ یہ بات سن کر غرور اور تمکنت کے ساتھ سر کو جھٹکا دیتے ہیں اور رسول کے پاس آنے اور معافی طلب کرنے کو اپنی توہین سمجھ کر اپنی جگہ جمے بیٹھے رہتے ہیں ۔ یہ ان کے مومن نہ ہونے کی کھلی علامت ہے ۔
5: قرآنِ کریم نے جو لفظ استعمال فرمایا ہے، اُس کا ترجمہ سر کا موڑنا بھی ہوسکتا ہے، اور ہلانا بھی۔ حضرت شیخ الہندؒ نے شاید اسی لئے اس کا ترجمہ مٹکانے سے کیا ہے جس میں ایک مکاری کا تصوّر پنہاں ہے، اور جو اُن کی کیفیت کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔