Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 اس کا کہنے والا رئیس المنافق عبد اللہ بن ابی تھا، عزت والے سے اس کی مراد تھی، وہ خود اور اس کے رفقاء اور ذلت والے سے (نعوذ باللہ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمان۔ 8۔ 2 یعنی عزت اور غلبہ صرف ایک اللہ کے لیے ہے اور پھر وہ اپنی طرف سے جس کو چاہے عزت و غلبہ عطا فرمادے۔ 8۔ 3 اس لیے ایسے کام نہیں کرتے جو ان کے لیے مفید ہیں اور ان چیزوں سے نہیں بچتے جو اس کے لیے نقصان دہ ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣] عبداللہ بن ابی کو جھوٹ بولنے کی کیا سزا ملی ؟ جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے جرائم سے انکار کرنے کی سزا اس منافق کو ایک تو یہ ملی کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اس کے نفاق اور کذب کا بھانڈا پھوڑ دیا اور اسے رسوا کیا۔ اور دوسری سزا یہ ملی کہ خود اس کا بیٹا عبداللہ جو سچا مومن تھا۔ مدینہ کے دروازہ پر تلوار سونت کر کھڑا ہوگیا۔ اور اپنے باپ کی راہ روک کر کہنے لگا کہ جب تک رسول اللہ اجازت نہ دیں تم مدینہ میں داخل نہیں ہوسکتے کیونکہ معزز ترین تو اللہ کا رسول ہے اور ذلیل ترین تم ہو۔ کچھ دیر بعد رسول اللہ وہاں پہنچے جہاں بیٹا باپ کا راستہ روکے کھڑا تھا، آپ نے از راہ کرم عبداللہ بن ابی کو مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت دے دی۔ تب جاکر بیٹے نے باپ کا راستہ چھوڑا۔ اس وقت اس منافق کو یہ بات معلوم ہوئی جسے وہ نہیں جانتا تھا کہ تمام تر عزت تو اللہ کے رسول اور مومنوں کے لیے ہے اور ان کے مقابلہ میں وہی ذلیل ترین آدمی ہے۔- جب سیدنا عمر نے عبداللہ بن ابی کے قتل کی اجازت چاہی تو آپ نے اس کے قتل کی اجازت نہ دی اور اس کی وجہ محض شماتت اعداء تھی۔ ورنہ اس کے جرائم اس قابل تھے کہ اسے قتل کرکے اس مجسم فتنہ سے زمین کو پاک کردیا جاتا اور صحابہ میں ایسی چہ میگوئیاں ہونے بھی لگیں تو عبداللہ بن ابی کے بیٹے سیدنا عبداللہ نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : یارسول اللہ اگر آپ میرے باپ کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو مجھے حکم فرمائیے میں اس کا سر آپ کی خدمت میں پیش کردوں گا۔ اگر اسے کسی اور نے قتل کیا تو مبادا میری رگ حمیت بھڑک اٹھے (ابن ہشام، ١٢: ٢٩٠ تا ٢٩٢)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَآ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَلَّ : جابر بن عبد اللہ (رض) بیان کرتے ہیں : ( کنا فی غزاۃ قال سفیان مرۃ فی جیش فکسع رجل من المھاجرین رجلا ً من الانصار فقال الانصاری یا للانصار و قال المھاجری یا للمھاجرین فسمع ذلک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقال مال بال دعویٰ جاھلیۃ ؟ قالوا یا رسول اللہ کسع رجل من المجاجرین رجلاً میں الانصار فقال دعوھا فانھما متنۃ ، فسمع بذلک عبد اللہ بن ابی فقال فعلوھا ؟ اما واللہ لئن رجعنا الی المدینۃ لیخرجن الاعزمنھا الاذل فبلغ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقام عمر فقال یا رسول اللہ دعنی اضرب عنق ھذا المنافق فقال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعہ لا یتحدث الناس ان محمدا یقتل اصحابہ و کانت الانصار اکثر من المھاجرین حین قدموا المدینۃ ، ثم ان المجاجرین کثروا بعد) (بخاری ، التفسیر ، باب قولہ :(سواء علیھم استغرت لھم): ٤٩٠٥) ” ایک بار ہم ایک لشکر میں تھے تو ایک مہاجر آدمی نے ایک انصاری کو اس کے پیچھے کی جانب لات مار دی “۔ تو انصاری نے کہا :” اوانصاریو “ اور مہاجر نے کہا : ” اومہاجرو “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سنا تو فرمایا :” جاہلیت کی اس پکار کا کیا معاملہ ہے ؟ “ لوگوں نے بتایا کہ ایک مہاجرنے ایک انصاری کے پیچھے کی جانب لات مار دی ہے ، تو آپ نے فرمایا :” اس ( جاہلیت کی پکار) کو چھوڑ دو ، کیونکہ یہ بہت بد بودار ہے “ ۔ یہ بات عبد اللہ بن ابی نے سنی تو کہنے لگا : ” انہوں نے ایسا کیا ہے ؟ یاد رکھو اگر ہم مدینہ واپس پہنچے تو جو زیادہ عزت والا ہے وہ ذلیل تر کو اس سے ضرور نکال باہر کرے گا “۔ یہ بات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچی تو عمر (رض) کھڑے ہوگئے اور کہا :” یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں “۔ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اسے رہنے دو ، لوگ یہ بات نہ کریں کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے ۔ “ اور انصار مہاجرین سے زیادہ تھے جب وہ مدینہ میں آئے ، پھر جب میں مہاجرین زیادہ ہوگئے “۔- ٢۔ وَ ِﷲِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰـکِنَّ الْمُنٰـفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ : یعنی یہ منافقین جو کہہ رہے ہیں کہ زیادہ عزت والا ذلیل تر کو نکال باہر کرے گا ، تو انہیں معلوم نہیں کہ زیادہ عزت والا بلکہ ساری عزت کا مالک کون ہے ۔ سو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ عزت کا اصل مالک تو اللہ تعالیٰ ہے، پھر وہ ہے جسے وہ عزت عطاء فرمائے۔ ( دیکھئے نسائ : ١٣٩) ۔ (آل عمران : ٢٦) اور اس نے عزت اپنے رسول اور مومن بندوں کے لیے مقرر فرمائی ہے۔ سو یہ سوچ لیں کہ اگر عزت والے نے ذلیل تر کو مدینہ سے نکالنے کا ارادہ کرلیا تو اس فیصلے کی زد بھی انہیں منافقین پر پڑے گی ، مگر ان جاہلوں کو علم ہی نہیں۔- ٣۔ جابر بن عبد اللہ (رض) سے جو حدیث اوپر نقل کی گئی ہے، ترمذی میں اس کے آخر میں یہ الفاظ ہیں :( فقال لہ ابنہ عبد اللہ بن عبد اللہ : واللہ لا تنقلب حتی تقر انک الذلیل و رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) العزیزففعل) (ترمذی ، تفسیر القرآن ، سورة المنافقون : ٣٣١٥، وقال الالبانی صحیح)” تو اس ( عبد اللہ بن ابی) کے بیٹے عبد اللہ بن عبد اللہ (رض) نے اس سے کہا :” اللہ کی قسم تم واپس نہیں جاؤ گے حتیٰ کہ اقرار کرو کہ تم ہی ذلیل ہو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی عزیز ہیں “۔ چناچہ اس نے ایسے ہی کیا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) يَقُوْلُوْنَ لَىِٕنْ رَّجَعْنَآ اِلَى الْمَدِيْنَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ ، یہ بھی اسی منافق عبداللہ ابن ابی کا قول ہے جس میں اگرچہ الفاظ صاف نہیں بولے مگر مطلب ظاہر تھا کہ اس نے اپنے آپ کو اور انصار مدینہ کو عزت والا اور ان کے مقابل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مہاجرین صحابہ کو معاذ اللہ ذلیل قرار دیا اور انصار مدینہ کو اس پر بھڑکانا چاہا کہ ان کمزور اور ذلیل لوگوں کو مدینہ سے نکال باہر کریں، حق تعالیٰ نے اس کے جواب میں اس کی بات کو اسی پر الٹ دیا کہ اگر عزت والوں نے ذلت والوں کو نکالا تو اس کا خمیازہ تمہیں کو بھگتنا پڑے گا، کیونکہ عزت تو اللہ اور اللہ کے رسول اور مومنین کا حق ہے، مگر تم اپنی جہالت کی بنا پر اس سے بیخبر ہو، یہاں قرآن کریم نے لایعلمون کا لفظ استعمال فرمایا اور اس سے پہلے لایفقہون فرمایا تھا، وجہ فرق کی یہ ہے کہ کوئی انسان اپنے آپ کو دسرے انسان کا رازق سمجھ بیٹھے تو یہ سراسر عقل کے خلاف ہے، اس کا یہ سمجھنا بیوقوفی اور بےعقلی کی علامت ہے اور عزت و ذلت و دنیا میں کبھی کسی کو کبھی کسی کو ملتی رہتی ہے، اس لئے اس میں مغالطہ ہو تو یہ واقعات سے بیخبر ی اور ناواقفی کی دلی ہے، اس لئے یہاں لایعلمون فرمایا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَقُوْلُوْنَ لَىِٕنْ رَّجَعْنَآ اِلَى الْمَدِيْنَۃِ لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَلَّ۝ ٠ ۭ وَلِلہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَلٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۝ ٨ ۧ - قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے - إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت .- الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ : وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں - مدن - المَدينة فَعِيلَةٌ عند قوم، وجمعها مُدُن، وقد مَدَنْتُ مَدِينةً ، ون اس يجعلون المیم زائدة، قال تعالی: وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة 101] قال : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص 15] .- ( م دن ) المدینۃ ۔ بعض کے نزدیک یہ فعیلۃ کے وزن پر ہے اس کی جمع مدن آتی ہے ۔ اور مدنت مدینۃ کے معنی شہر آیا ہونے کے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک اس میں میم زیادہ ہے ( یعنی دین سے مشتق ہے ) قرآن پاک میں ہے : وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة 101] اور بعض مدینے والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں ۔ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی آیا ۔ وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص 15] اور وہ شہر میں داخل ہوئے ۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - عز - العِزَّةُ : حالةٌ مانعة للإنسان من أن يغلب . من قولهم : أرضٌ عَزَازٌ. أي : صُلْبةٌ. قال تعالی: أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء 139] - ( ع ز ز ) العزۃ - اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان کو مغلوب ہونے سے محفوظ رکھے یہ ارض عزاز سے ماخوذ ہے جس کے معنی سخت زمین کے ہیں۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء 139] کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ عزت تو سب خدا ہی کی ہے ۔- ذلت - يقال : الذُّلُّ والقُلُّ ، والذِّلَّةُ والقِلَّةُ ، قال تعالی: تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [ المعارج 44] ، وقال : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] ، وقال : سَيَنالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ [ الأعراف 152] ، وذَلَّتِ الدّابة بعد شماس، ذِلًّا، وهي ذَلُولٌ ، أي : ليست بصعبة، قال تعالی: لا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ [ البقرة 71] ،- بغیر تاء کے ذل اور تار کے ساتھ ذلتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ قل اور قلتہ ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [ المعارج 44] اور ان کے مونہوں پر ذلت چھا جائے گی ۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] اور ( آخری کار ) زلت ( اور رسوائی ) اور محتاجی ( اور بےتوانائی ) ان سے چنٹادی گئی ۔ سَيَنالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ [ الأعراف 152] پروردگار کا غضب واقع ہوگا اور ذلت ( نصیب ہوگی ) منہ زوزی کے بعد سواری کا مطیع ہوجانا اور اس قسم کی مطیع اور مئقاد سواری کا ذلول ( صفت فاعلی ) کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ [ البقرة 71] کہ وہ بیل کام میں لگا ہوا نہ ۔ نہ تو زمین جوتتا ہو ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - لا - «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت .- ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] لا وأبيك ابنة العامريّ- «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] وقوله :- ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] .- فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه :- مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة :- لا حدّ. أي : لا أحد .- ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔- نِّفَاقُ- ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] ونَيْفَقُ السَّرَاوِيلِ معروفٌ- نا فقاء الیربوع ہے یعنی جنگلی چوہے کا بل جس کے دود ھا نے ہوں نافق الیر بوع ونفق جنگی چوہیا اپنے مل کے دہانے سے داخل ہو کر دوسرے سے نکل گئی اور اسی سے نفاق ہے جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَالنَّارِ [ النساء 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ نیفق السراویل پا جامے کا نیفہ - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

نیز عبداللہ بن ابی منافق ہی نے غزوہ تبوک میں اپنے ساتھیوں سے کہا تھا جب ہم اپنے غزوہ سے واپس جائیں گے تو مدینہ سے محمد کو نکال دیں گے مگر ان منافقین پر اللہ ہی کو اور اس کے رسول کو اور مسلمانوں کو غلبہ اور طاقت حاصل ہے مگر منافقین نہ اس چیز کو جانتے ہیں اور نہ اس کی تصدیق کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ یَـقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَــآ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَـیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَلَّ ” وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینہ لوٹ گئے تو جو طاقتور ہیں وہ لازماً نکال باہر کریں گے وہاں سے ان کمزور لوگوں کو۔ “- عربی میں عزت کا اصل مفہوم طاقت اور غلبہ ہے ‘ جبکہ ذلیل کے معنی کمزور اور بےحیثیت کے ہیں۔ مذکورہ واقعہ چونکہ غزوئہ بنی مصطلق سے واپس آتے ہوئے راستے میں پیش آیا تھا اس لیے منافقین کے مکالمے میں یہاں مدینہ پلٹنے کا ذکر آیا ہے۔ عبداللہ بن ابی نے لوگوں کے جذبات بھڑکاتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ جب ہم مدینہ واپس پہنچیں تو بالکل متفق الرائے ہو کر یہ طے کرلیں کہ جو صاحب عزت ہیں ‘ جو مدینہ کے قدیم باشندے ( ) ہیں وہ ان مہاجروں کو جو بڑے کمزور ہیں ‘ جن کی کوئی حیثیت نہیں ‘ مدینہ سے نکال باہر کریں گے۔ - وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰــکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ۔ ” حالانکہ اصل عزت تو اللہ ‘ اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین کے لیے ہے ‘ لیکن یہ منافق جانتے نہیں۔ “- عبداللہ بن ابی کے بیٹے کا نام بھی عبداللہ (رض) تھا ‘ جو بہت مخلص ‘ صادق القول اور صادق الایمان صحابی تھے۔ انہیں جب معلوم ہوا کہ میرے باپ نے یہ بکواس کی ہے تو انہوں نے اپنے باپ کو سبق سکھانے کی ٹھان لی۔ چناچہ لشکرجب واپس مدینہ پہنچا تو حضرت عبداللہ (رض) تلوار سونت کر اپنے باپ کے راستے میں کھڑے ہوگئے۔ انہوں (رض) نے عبداللہ بن ابی سے کہا اب جب تک تم یہ نہیں کہو گے کہ میں ذلیل ہوں اور تمام عزت اللہ ‘ اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان کے لیے ہے ‘ اس وقت تک میں تمہیں شہر میں داخل نہیں ہونے دوں گا۔ عبداللہ بن ابی نے اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی فریاد کی ‘ لوگوں کے سامنے بھی دہائی دی کہ دیکھو میرا اپنا بیٹا میرے قتل کے درپے ہے۔ لیکن حضرت عبداللہ (رض) اپنے موقف پر قائم رہے اور انہوں نے اپنی مذکورہ شرط منوا کر ہی اپنے باپ کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت دی۔- یہ آٹھ آیات تو نفاق کے مراحل اور اس کی تشخیص اور پیش بینی ( ) کے بارے میں تھیں۔ ان میں گویا مرض نفاق ‘ اس کی علامات ‘ اس کا نقطہ آغاز ‘ اس کا سبب ‘ اس کے مختلف مراتب و مدارج اور اس کی ہلاکت خیزی ‘ یہ تمام چیزیں زیر بحث آگئیں۔ ان آیات کا خلاصہ یہی ہے کہ نفاق کی وجہ سے بالآخر انسان کے دل میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان کے خلاف شدید دشمنی پیدا ہوجاتی ہے اور یہ بیماری انسان کو ہلاکت و بربادی کے راستے پر وہاں پر پہنچا دیتی ہے جہاں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا استغفار بھی اس کے کام نہیں آسکتا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :15 حضرت زید بن ارقم کہتے ہیں کہ جب میں نے عبداللہ بن ابی کا یہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچایا ، اور اس نے آ کر صاف انکار کر دیا اور اس پر قَسم کھا گیا ، تو انصار کے بڑے بوڑھوں نے اور خود میرے اپنے چچا نے مجھے بہت ملامت کی ، حتیٰ کہ مجھے یہ محسوس ہو ا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مجھے جھوٹا اور عبداللہ بن ابی کو سچا سمجھا ہے ۔ اس چیز سے مجھے ایسا غم لاحق ہوا جو عمر بھر کبھی نہیں ہوا اور میں دل گرفتہ ہو کر اپنی جگہ بیٹھ گیا ۔ پھر جب یہ آیت نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے بلا کر ہنستے ہوئے میرا کان پکڑا اور فرمایا لڑکے کا کان سچا تھا ، اللہ نے اس کی خود تصدیق فرما دی ( ابن جریر ۔ ترمذی میں بھی اس سے ملتی جلتی روایت موجود ہے ) ۔ سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :16 یعنی عزت اللہ کے لیے بالذات مخصوص ہے ، اور رسول کے لیے بر بنائے رسالت ، اور مومنین کے لیے بر بنائے ایمان ۔ رہے کفار و فُسّاق و منافقین ، تو حقیقی عزت میں سرے سے ان کا کوئی حصہ ہی نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

8: یہ وہی بات ہے جو عبداللہ بن اُبیّ نے کہی تھی اور پھر اُس سے مکر گیا تھا۔ تفصیلی واقعہ اُوپر آ چکا ہے۔