Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 مطلب یہ کہ مہاجرین کا رازق اللہ تعالیٰ ہے اس لئے رزق کے خزانے اسی کے پاس ہیں، وہ جس کو جتنا چاہے دے اور جس سے چاہے روک لے۔ 7۔ 2 منافق اس حقیقت کو نہیں جانتے، اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ انصار اگر مہاجرین کی طرف دست تعاون دراز نہ کریں تو وہ بھوکے مرجائیں گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢] ہجرت سے پہلے مدینہ میں عبداللہ بن ابی کی حیثیت :۔ آیت نمبر ٧ اور ٨ کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لئے ان کا تاریخی پس منظر سمجھنا ضروری ہے جو یہ ہے کہ جب رسول اللہ مدینہ تشریف لائے تو ان کی آمد سے پہلے مدینہ کے دونوں قبیلے اوس اور خزرج اسے اپنا بادشاہ تسلیم کرنے پر تیار ہوچکے تھے اور اس کے لیے سنہری تاج بھی تیار کرالیا گیا تھا۔ وہ خود قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتا تھا۔ اوس اور خزرج اپنی باہمی جنگوں سے بہت تنگ آئے ہوئے تھے اور غالباً عبداللہ بن ابی ہی وہ پہلا شخص تھا جس کی سربراہی کو دونوں قبائل نے تسلیم کرلیا تھا۔ اس کی رسم تاجپوشی ادا ہونے ہی والی تھی کہ آپ مدینہ تشریف لے آئے اور جب تمام لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوگئے تو عبداللہ بن ابی کا سارا بنا بنایا کھیل بگڑ گیا اور جو لوگ عبداللہ بن ابی کی بادشاہت کے دوران بڑے بڑے مناصب کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ عبداللہ بن ابی کے اور ان کے اسلام لانے کے بعد بھی وہ لوگ اس کے دمساز و ہمراز رہے۔ یہ لوگ بظاہر اسلام تو لے آئے مگر بادشاہت اور مناصب کے چھن جانے کی وجہ سے عداوت کی چنگاری ان کے دلوں میں برقرار رہی۔- خ عبداللہ بن ابی کے اسلام لانے کی وجوہ :۔ عبداللہ بن ابی کے ان حالات میں اسلام لانے کی مجبوریاں تین تھیں ایک یہ کہ بدر کی فتح نے عرب بھر میں مسلمانوں کی دھاک بٹھا دی تھی۔ عبداللہ بن ابی بھی ایسے موقع شناس لوگوں میں سے تھا۔ جو چڑھتے سورج کو سلام کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ مدینہ میں اگرچہ یہود و مشرکین بھی آباد تھے مگر بااثر مسلمان ہی تھے تیسرے یہ کہ عبداللہ بن ابی کا اپنا بیٹا، اس کا نام بھی عبداللہ ہی تھا، مسلمان ہوچکا تھا اور وہ سچا مسلمان تھا۔- اسلام لانے کے باوجود ان لوگوں کے دلوں میں عداوت کی چنگاری انہیں ہر موقع پر اسلام کے خلاف مشتعل کرتی رہی۔ جنگ بدر سے پیشتر مشرکین مکہ نے عبداللہ بن ابی کو ہی اپنا ساتھی سمجھ کر یہ پیغام بھیجا تھا کہ تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو پناہ دے رکھی ہے۔ واللہ یا تو تم اس سے لڑائی کرو اور اسے نکال باہر کرو، ورنہ ہم پوری جمعیت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری عورتوں کی حرمت پامال کر ڈالیں گے (ابوداؤد۔ کتاب الجہاد۔ باب خبر النضیر) یہ خط دراصل عبداللہ بن ابی کے دل کی آواز تھا۔ اس خط سے اسے بڑا سہارا مل گیا اور اس نے اپنے رفقاء کو اپنے پاس اکٹھا کرنا شروع کردیا۔ آپ کو جب ان حالات کی اطلاع ہوئی تو آپ اس کے ہاں خود تشریف لائے اور فرمایا کیا تم اپنے بیٹوں اور بھائیوں سے خود ہی لڑو گے ؟ عبداللہ کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ اس کے اپنے بہت سے قریبی رشتہ دار مسلمان ہیں لہذا اس کی کامیابی ناممکن ہے لہذا وہ لہو کے گھونٹ پی کے رہ گیا اور اس کے ساتھی بھی بکھر گئے۔- جنگ بدر کے دوران یہود اور عبداللہ بن ابی کی پارٹی نے مسلمانوں کی شکست کی غلط سلط خبریں پھیلا کر مدینہ کی فضا کو خاصا سنسنی خیز بنادیا تھا۔ پھر جب مسلمانوں کی شاندار فتح کی خبر آگئی۔ تو ان لوگوں کے قلب و جگر چھلنی ہوگئے۔ جنگ احد میں عین وقت پر جس طرح عبداللہ بن ابی نے غداری کی اس کا حال پہلے سورة آل عمران کی آیت نمبر ١٢١ کے حواشی میں گزر چکا ہے۔ - خ اسلام لانے کے بعد عبداللہ بن ابی کا مسلمانوں سے منافقانہ رویہ :۔ جب یہود بنو قینقاع کو قید کرلیا گیا۔ تو عبداللہ بن ابی نے پرزور سفارش کرکے انہیں آزادی دلائی اور وہ جلا وطن کئے گئے۔ جنگ بنونضیر میں اس نے جس طرح یہودیوں کے حوصلے بڑھائے اس کا حال سورة حشر میں گزر چکا ہے اور جنگ احزاب میں منافقوں نے جس عدم تعاون کا مظاہرہ کیا اور جس طرح مسلمانوں کو ہی طعنے دینے شروع کئے تھے اس کا حال سورة احزاب میں گزر چکا ہے۔ گویا عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی ہر وقت ایسے موقع کی تلاش میں رہتے اور اپنی منافقانہ سرگرمیاں دکھاتے تھے جن سے اسلام و مسلمانوں کو زک پہنچے۔ مسلمان مدینہ سے نکل جائیں یا ان کا اثر و رسوخ ختم ہوجائے تاکہ عبداللہ بن ابی کو اپنی کھوئی ہوئی بادشاہت پھر سے نصیب ہوجائے۔- خ غزوہ بنی مصطلق میں مہاجرین و انصار میں لڑائی اور عبداللہ بن ابی کا انصارکو بھڑکانا :۔ غزوہ بنی مصطلق جنگی لحاظ سے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ تاہم اس غزوہ میں دو واقعات ایسے پیش آئے۔ جنہوں نے اس غزوہ کو مشہور بنادیا ہے۔ اور یہ دونوں واقعات منافقوں اور بالخصوص عبداللہ بن ابی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ دونوں واقعات نہیں بلکہ فتنے تھے۔ جنہیں برپا کرنے والا یہی عبداللہ تھا۔ ایک تو واقعہ افک ہے۔ جو واپسی کے دوران پیش آیا تھا اور اس کا تفصیلی ذکر سورة نور میں گزر چکا ہے۔ دوسرا واقعہ اسی مقام پر ہوا جہاں مسلمانوں نے اس مشرک قبیلے کو شکست دی تھی۔ اور شکست دینے کے بعد چند دن آرام کے لیے رک گئے تھے۔ وہاں ایک کنوئیں پر پانی لینے کے سلسلہ میں سیدنا عمر کے خادم جہجاہ بن قیس اور ایک انصاری کے درمیان کچھ تو تو، میں میں ہونے لگی۔ یہ واقعہ بخاری میں ان الفاظ میں مذکور ہے :- سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری (رض) فرماتے ہیں کہ ہم ایک لڑائی پر گئے ہوئے تھے۔ وہاں ایک مہاجر (جہجاہ بن قیس) نے ایک انصاری (سنان بن وبرہ جہنی) کو ایک لات جمائی (جو اس کے سرین پر لگی) انصاری نے فریاد کی : اے انصار دوڑو۔ اور مہاجر نے فریاد کی : اے مہاجرین دوڑو۔ جب آپ نے یہ آوازیں سنیں تو وہاں پہنچ کر فرمایا : یہ کیا دور جاہلیت کی سی باتیں کرنے لگے ہو ؟ وہ کہنے لگے : یارسول اللہ ایک مہاجر نے ایک انصاری کے لات ماری تھی آپ نے فرمایا : ایسی باتیں چھوڑ دو ۔ یہ گندی باتیں ہیں (بخاری۔ کتاب بدء الخلق۔ باب ماینھی من دعوۃ الجاھلیۃ۔ مسلم۔ کتاب البروالصلۃ۔ باب نصر الاخ ظالما او مظلوما) جب عبداللہ بن ابی نے یہ بات سنی تو (انصار سے) کہنے لگا : یہ سب کچھ تمہارا ہی کیا دھرا ہے۔ اللہ کی قسم جب ہم مدینہ واپس جائیں گے تو عزت والا سردار ذلت والے کو وہاں سے باہر نکال دے گا جب یہ خبر نبی اکرم کو پہنچی تو سیدنا عمر کھڑے ہو کر کہنے لگے : یارسول اللہ مجھے اس منافق کی گردن اڑانے کی اجازت دیجئے۔ آپ نے فرمایا : ایسا نہ کرو۔ لوگ کہیں گے کہ محمد اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرنے لگے ہیں مہاجر لوگ جب ہجرت کرکے مدینہ آئے اس وقت تھوڑے سے تھے اور انصار بہت تھے۔ مگر بعد میں مہاجرین بھی بہت ہوگئے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) - خعبداللہ بن ابی کی بکواس اور بعد میں قسم اٹھا کر انکار کرنا :۔ سیدنا زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ میں نے ایک لڑائی (غزوہ تبوک) میں عبداللہ بن ابی کو یہ کہتے سنا : اے انصار پیغمبر کے پاس جو لوگ (مہاجرین) ہیں ان کو خرچ کے لیے کچھ نہ دو ۔ وہ خود ہی پیغمبر کو چھوڑ کر تتر بتر ہوجائیں گے۔ اور اگر ہم اس لڑائی سے لوٹ کر مدینہ پہنچے تو عزت والا (یعنی وہ خود) ذلت والے (یعنی پیغمبر) کو نکال باہر کرے گا۔ میں نے عبداللہ بن ابی کی یہ گفتگو اپنے چچا (سعد بن عبادہ) یا سیدنا عمر سے بیان کی اور انہوں نے آپ کو یہ بات بتادی۔ آپ نے عبداللہ بن ابی منافق اور اس کے ساتھیوں کو بلوایا تو وہ قسمیں کھانے لگے کہ ہم نے ایسا نہیں کہا۔ چناچہ رسول اللہ نے مجھے جھوٹا سمجھا اور اسے سچا سمجھا۔ مجھے اس بات کا اتنا دکھ ہوا جتنا کبھی کسی اور بات سے نہ ہوا تھا۔ میں گھر میں بیٹھ رہا۔ مجھے میرے چچا نے کہا : ارے تو نے یہ کیا کیا۔ آخر رسول اللہ نے تجھے جھوٹا سمجھا اور تجھ سے ناراض ہوئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ (اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ ۝ۚ ) 63 ۔ المنافقون :1) تا آخر۔ چناچہ آپ نے مجھے بلا بھیجا۔ سورة منافقون پڑھ کر سنائی اور فرمایا : زید تجھے اللہ نے سچا کیا (بخاری۔ کتاب التفسیر) - اس موقعہ پر عبداللہ بن ابی نے انصار کو خوب اشتعال دلایا۔ کہنے لگا کہ : یہ مہاجر لوگ ہمارے علاقہ میں آکر ہمارے ہی حریف بن گئے ہیں۔ ان پر تو یہ مثال صادق آتی ہے کہ کتے کو پال کر موٹا تازہ کرو تاکہ وہ تمہیں ہی پھاڑ کھائے۔ بخدا مدینہ واپس جاکر ہم میں کا معزز ترین آدمی (یعنی عبداللہ بن ابی) وہاں کے ذلیل ترین آدمی (یعنی پیغمبر اسلام) کو نکال باہر کرے گا۔ پھر کہنے لگا کہ یہ مصیبت تمہاری اپنی ہی پیدا کردہ ہے۔ تم نے انہیں اپنے شہر میں اتارا، اپنے اموال بانٹ دیئے اور یہ دلیر ہوگئے۔ اب بھی اس کا یہی علاج ہے کہ ان لوگوں کو دینا بند کردو۔ یہ خود ہی یہاں سے چلتے بنیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ ھُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہ ِ ۔۔۔۔: اس آیت میں اور اس سے اگلی آیت میں ان منافقین کے فسق کے نمونے کے طور پر ان کے کچھ گستاخانہ جملے ذکر فرمائے ہیں ، جن سے ان کی اسلام اور مسلمانوں سے شدید نفرت اور دلی بغض کا اظہارہو رہا ہے۔ گویا بتایا جا رہا ہے کہ یہ ہے کہ ان کا بد ترین فسق جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت نہیں دیتا اور جس کی وجہ سے ان کے حق میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے استغفار کا بھی کوئی فائدہ نہیں ۔ زید بن ارقم (رض) فرماتے ہیں :( خجنا مع النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی سفر اصاب الناس فیہ شدۃ ، فقال عبد اللہ بن ابی لا صحابہ لا تفقوا علی من عند رسول اللہ حتیٰ ینفضوا من حولہ وقال لئن رجعنا الی المدینۃ لیخر جن الاعز منھا الاذل فاتیت النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فاخبرتہ فارسل الی عبد اللہ بن ابی فسالہ ٗ فاجتھد یمینہ ما فعل ، قالوا کذب زید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوقع فی نفسی مما قالوا شدۃ ، حتیٰ انزل اللہ عزوجل تصدیقی فی :) (اذا جائک المنفقون) فد عا ھم النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لیستغفرلھم فلووا رو وسھم وقولہ :(خشب مسندۃ) (قال کانو رجالا اجمل شی) ( بخاری ، التفسیر ، باب :(واذا رایتھم تعجبک اجسامھم۔۔۔۔ ) : ٤٩٠٣)” ہم ایک سفر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے ، اس سفر میں لوگوں کو بہت سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا تو عبد اللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا :” ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو اللہ کے رسول کے پاس ہیں ، یہاں تک کہ وہ اس کے گرد سے منتشر ہوجائیں “۔ اور اس نے کہا :” اگر ہم مدینہ واپس پہنچے تو جو زیادہ عزت والا ہے وہ ذلیل تر کو اس میں سے ضرور نکال باہر کرے گا “۔ یہ سن کر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور آپ کو یہ بات بتائی ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبد اللہ بن ابی کی طر ف پیغام بھیج کر اسے بلایا اور اس سے یہ بات پوچھی تو اس نے بہت پکی قسم کھا کر کہا کہ اس نے ا ایسا نہیں کیا ۔ لوگوں نے کہا :” زید نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھوٹ کہا ہے “۔ تو میرے دل میں ان کی بات سے بہت تکلیف پہنچی ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ” اذا جاء ک المنافقون “ میں میری تصدیق نازل فرما دی ۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں بلایا، تا کہ ان کے لیے استغفار کریں تو انہوں نے اپنے سر پھیر لیے “۔ اور ( زید (رض) نے) اللہ کے فرمان ” خشب مسندۃ “ کے متعلق فرمایا :” وہ بہت خوبصورت آدمی تھے “۔- ٢۔ وَ ِﷲِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔۔۔۔:” للہ “ کو پہلے لانے کا مطلب یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین کے خزانوں کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے ، اور کوئی نہیں ۔ منافقین نے خود تو کیا خرچ کرنا تھا ، وہ تو پرلے درجے کے حریص اور بخیل تھے، وہ مخلص مسلمانوں کو بھی مہاجرین پر خرچ کرنے سے روک رہے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ اگر وہ ان پر خرچ نہیں کریں گے تو وہ بھوک سے مرجائیں گے ۔ حالانکہ سارے خزانوں کا مالک تو اللہ تعالیٰ ہے ، وہ جس طرح چاہے انہیں رزق دے سکتا ہے ، مگر یہ منافقین کی بےسمجھی ہے کہ وہ مہاجرین کا رزق اپنے ہاتھ میں سمجھ رہے ہیں ، اس لیے یہاں ” لا یفقھون “ کا لفظ فرمایا کہ ایسا سمجھنے والا بےسمجھ ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) هُمُ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰي مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ حَتّٰى يَنْفَضُّوْا، یہ وہی قول ہے جو جہجاہ مہاجر اور سنان انصاری کے جھگڑے کے وقت ابن ابی نے کہا تھا، جس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دے دیا کہ یہ بیوقوف یوں سمجھ رہے ہیں کہ مہاجرین ہماری داد و دہش کے محتاج ہیں ہم ہی ان کو دیتے ہیں حالانکہ تمام آسمان و زمین کے خزانے تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ چاہیں تو مہاجرین کو تمہاری کسی امداد کے بغیر سب کچھ دے سکتے ہیں، اس کا ایسا سمجھنا چونکہ بےعقلی اور بیوقوفی کی دلیل ہے اس لئے قرآن حکیم نے اس جگہ لایفقمون کا لفظ اختیار فرما کر بتلا دیا کہ ایسا خیال کرنے والا بےعقل و بےسمجھ ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ہُمُ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰي مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہِ حَتّٰى يَنْفَضُّوْا۝ ٠ ۭ وَلِلہِ خَزَاۗىِٕنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَفْقَہُوْنَ۝ ٧- نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- فض - الفَضُّ : کسر الشیء والتّفریق بين بعضه وبعضه، كفَضِّ ختم الکتاب، وعنه استعیر :- انْفَضَّ القومُ. قال اللہ تعالی: وَإِذا رَأَوْا تِجارَةً أَوْ لَهْواً انْفَضُّوا إِلَيْها - [ الجمعة 11] ، لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ [ آل عمران 159] ، والفِضَّةُ- اختصّت بأدون المتعامل بها من الجواهر، ودرع فَضْفَاضَةٌ ، وفَضْفَاضٌ: واسعة .- ( ف ض ض ) الفض کے معنی کسی چیز کو توڑنے اور ریزہ ریزہ کرنے کے ہیں جیسے فض ختم الکتاب : خط کی مہر کو توڑ نا اسی سے انقض القوم کا محاورہ مستعار ہے جس کے معنی متفرق اور منتشر ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں : ۔ وَإِذا رَأَوْا تِجارَةً أَوْ لَهْواً انْفَضُّوا إِلَيْها[ الجمعة 11] اور جب یہ لوگ سودابکتا یا تماشا ہوتا دیکھتے ہیں تو ادھر بھاگ جاتے ہیں ۔ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ [ آل عمران 159] تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھٹرے ہوتے ۔ والفِضَّةُچاندی یعنی وہ ادنی جو ہر جس کے ذریعہ لین دین کیا جاتا ہے ۔ درع فضفا ضۃ وفضفا ض فراخ زرہ ۔ - خزن - الخَزْنُ : حفظ الشیء في الخِزَانَة، ثمّ يعبّر به عن کلّ حفظ کحفظ السّرّ ونحوه، وقوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر 21]- ( خ زن ) الخزن - کے معنی کسی چیز کو خزانے میں محفوظ کردینے کے ہیں ۔ پھر ہر چیز کی حفاظت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے جیسے بھیدہ وغیرہ کی حفاظت کرنا اور آیت :۔ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر 21] اور ہمارے ہاں ہر چیز کے خزانے ہیں ۔ - فقه - الفِقْهُ : هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد، فهو أخصّ من العلم . قال تعالی: فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء 78] - ( ف ق ہ ) الفقہ - کے معنی علم حاضر سے علم غائب تک پہچنچنے کے ہیں اور یہ علم سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء 78] ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ ہُمُ الَّذِیْنَ یَـقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْا ” یہی ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ مت خرچ کرو ان پر جو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد جمع ہوگئے ہیں ‘ یہاں تک کہ یہ منتشر ہوجائیں۔ “- منافقین سمجھتے تھے کہ اگر اہل مدینہ مہاجر مسلمانوں پر خرچ کرنا بند کردیں گے تو چند ہی دنوں میں یہ ساری بھیڑ چھٹ جائے گی۔ یہی بات عبداللہ بن ابی نے متذکرہ بالا جھگڑے کے موقع پر انصارِ مدینہ سے کہی تھی۔- وَلِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلٰــکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَفْقَہُوْنَ ۔ ” حالانکہ آسمانوں اور زمین کے خزانے تو اللہ ہی کے ہیں ‘ لیکن منافقین اس حقیقت کا فہم نہیں رکھتے۔ “- یہاں آسمانوں اور زمین سے مرا دپوری کائنات ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

7: سورت کے تعارف میں جو واقعہ اُوپر آ چکا ہے، اُس میں یہ بات عبداللہ بن اُبیّ نے اپنے ساتھیوں سے کہی تھی کہ مسلمانوں پر اپنا مال خرچ کرنا بند کردو، اُس کے نتیجے میں معاذ اللہ صحابہؓ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں گے۔