وہی مختار مطلق ہے ناقابل تردید سچائی سورہ حدید میں بھی یہ مضمون گذر چکا ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کی اجازت اور اس کے حکم سے ہوتا ہے اس کی قدر و مشیت کے بغیر نہیں ہو سکتا ، اب جس شخص کو کوئی تکلیف پہنچے وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے مجھے یہ تکلیف پہنچی ، پھر صبر و تحمل سے کام لے ، اللہ کی مرضی پر ثابت قدم رہے ، ثواب اور بھلائی کی امید رکھے رضا بہ قضا کے سوا لب نہ ہلائے تو اللہ تعالٰ اس کے دل کی رہبری کرتا ہے اور اسے بدلے کے طور پر ہدایت قلبی عطا فرماتا ہے ۔ وہ دل میں یقین صادق کی چمک دیکھتا ہے اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس مصیبت کا بدلہ یا اس سے بھی بہتر دنیا میں ہی عطا فرما دیتا ہے ۔ حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ اس کا ایمان مضبوط ہو جاتا ہے ، اسے مصائب ڈگمگا نہیں سکتے ، وہ جانتا ہے کہ جو پہنچا وہ خطا کرنے والا نہ تھا اور جو نہ پہنچا وہ ملنے والا ہی نہ تھا ، حضرت علقمہ کے سامنے یہ آیت پڑھی جاتی ہے اور آپ سے اس کا مطلب دریافت کیا جاتا ہے تو فرماتے ہیں اس سے مراد وہ شخص ہے جو ہر مصیبت کے وقت اس بات کا عقیدہ رکھے کہ یہ منجانب اللہ ہے پھر راضی خوشی اسے برداشت کر لے ، یہ بھی مطلب ہے کہ وہ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ لے ۔ متفق علیہ حدیث میں ہے کہ مومن پر تعجب ہے ہر ایک بات میں اس کے لئے بہترین ہوتی ہے نقصان پر صبر و ضبط کر کے نفع اور بھلائی پر شکر و احسان مندی کر کے بہتری سمیٹ لینا ہے ، یہ دو طرفہ بھلائی مومن کے سوا کسی اور کے حصے میں نہیں ، مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ سب سے افضل عمل کونسا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا ، اس کی تصدیق کرنا اس کی راہ میں جہاد کرنا ۔ اس نے کہا حضرت میں کوئی آسان کام چاہتا ہوں آپ نے فرمایا جو فیصلہ قسمت کا تجھ پر جاری ہو تو اس میں اللہ تعالیٰ کا گلہ شکوہ نہ کر اس کی رضا پر راضی رہ یہ اس سے ہلکا امر ہے ۔ پھر اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیتا ہے کہ امور شرعی میں ان اطاعتوں سے سرمو تجاوز نہ کرو جس کا حکم ملے بجا لاؤ ، جس سے روکا جائے رک جاؤ ، اگر تم اس کے ماننے سے اعراض کرتے تو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی بوجھ نہیں ، ان کے ذمہ صرف تبلیغ تھی جو وہ کر چکے اب عمل نہ کرنے کی سزا تمہیں اٹھانا پڑے گی ۔ پھر فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد و صمد ہے اس کے سوا کسی کی ذات کسی طرح کی عبادت کے لائق نہیں ، یہ خبر معنی میں طلب کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید مانو اخلاص کے ساتھ صرف اسی کی عبادت کرو ، پھر فرماتا ہے چونکہ توکل اور بھروسے کے لائق بھی وہی ہے تم اسی پر بھروسہ رکھو ۔ جیسے اور جگہ ارشاد ہے ۔ ( ترجمہ ) مشرق اور مغرب کا رب وہی ہے ، معبود حقیقی بھی اس کے سوا کوئی نہیں تو اسی کو اپنا کار ساز بنا لے ۔
11۔ 1 یعنی اس کی تقدیر اور مشیت سے ہی اس کا ظہور ہوتا ہے۔ بعض کہتے ہیں اس کے نزول کا سبب کفار کا یہ قول ہے کہ اگر مسلمان حق پر ہوتے تو دنیا کی مصیبتیں انہیں نہ پہنچتیں (فتح القدیر) 11۔ 2 یعنی وہ جان لیتا ہے کہ اسے جو کچھ پہنچا ہے اللہ کی مشیت اور اس کے حکم سے ہی پہنچا ہے پس وہ صبر اور رضا بالقضاء کا مظاہرہ کرتا ہے۔
[١٨] اس آیت میں ان دنیادار لوگوں کے اس نظریہ کی تردید کی گئی ہے جو یہ سمجھتے تھے کہ اگر مسلمان حق پر ہوتے تو اس قدر مصائب میں کیوں گھرے ہوتے اور مسلمانوں کو یہ تسلی دی جارہی ہے کہ کوئی مصیبت کسی کے لانے سے نہیں آتی۔ بلکہ اللہ کے علم میں ہوتی ہے اور اسی کے اذن سے آتی ہے۔ اور اس میں اللہ تعالیٰ کی کئی حکمتیں ہوتی ہیں۔ مصیبتوں کے ذریعہ آزمائش سے مقصود تمہارے ایمان کا امتحان ہوتا ہے۔ تاکہ منافقین کھل کر سامنے آجائیں۔ اور تم ان سے محتاط رہنے لگو۔ ان کے علاوہ کئی حکمتیں قرآن میں جابجا مذکور ہیں۔- خ مصائب کی تین قسمیں :۔ واضح رہے کہ مصائب تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو لوگوں کے اپنے اعمال کے نتیجہ یا شامت اعمال کے طور پر آتے ہیں۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے : (ظَھَرَ الْفَسَادُ فِیْ البَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أیْدِیْ النَّاسِ ) دوسرے وہ مصائب جن میں سے ایمانداروں کو آزمائش اور تربیت کے لئے گزارا جاتا ہے۔ جیسے فرمایا : (وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ ١٥٥ۙ ) 2 ۔ البقرة :155) تیسرے وہ جن کا تعلق مندرجہ بالا دونوں اقسام سے نہیں ہوتا اور وہ محض اتفاقی قسم کے حوادث ہوتے ہیں۔ ایسے مصائب مومنوں کے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ بموجب ارشاد نبوی کسی مسلمان کو کوئی کانٹا بھی چبھے تو وہ اس کے کسی نہ کسی گناہ کا کفارہ بن جاتا ہے بشرطیکہ مسلمان اس مصیبت پر صبر کرے۔- [١٩] یعنی جو شخص ان مصائب میں ثابت قدم رہے تو اس کا اللہ پر ایمان مزید بڑھ جاتا ہے اور اسی نسبت سے اسے اللہ مزید ہدایت بخشتا ہے اور یاد رکھو کہ اللہ کو تمہارے ان مصائب کا پورا پورا علم ہے۔ وہ اپنے بندوں کو خواہ مخواہ مصائب میں مبتلا نہیں کرتا۔ بلکہ کسی عظیم مقصد کے لئے تمہیں تیار کرنا چاہتا ہے۔
١۔ مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ ۔۔۔۔: اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ حدید کی آیت (٢٢) کی تفسیر۔- ٢۔ اِلَّا بِاِذْنِ اللہ ِ : اس سے پہلی آیات میں اللہ کی توحید ، رسولوں کی رسالت اور قیامت کا بیان تھا ، اس آیت میں تقدیر پر ایمان کا بیان ہے جس سے آدمی کے دل میں تکلیفیں برداشت کرنے اور ان پر صبر کرنے کی ہمت پیدا ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ اس آیت میں ایمان والوں کے لیے تسلی اور کفار کے اس اعتراض کا جواب بھی ہے کہ ایمان والوں پر مصیبتیں کیوں آتی ہیں ۔ فرمایا جو مصیبت بھی آتی ہے اللہ کے اذن سے آتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں پہلے سے مقدر ہوچکی ہوتی ہے۔ یہ دنیا میں مومن و کافر سب پر آتی ہے ، کیونکہ اس کے بغیر امتحان اور آزمائش کا مقصد حاصل نہیں ہوتا ۔ البتہ مومن و کافر پر اس کا اثر اور نتیجہ مختلف ہوتا ہے ، مومن اپنے رب پر راضی رہتا ہے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اس کے دل کو ہدایت کی روشنی ، یقین اور اطمینان کی نعمت اور آخرت میں جنت عطاء فرماتا ہے اور کافر اپنے رب پر ناراض ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ دنیا کے اندر ہر وقت پریشان اور سراپا شکوہ بنا رہتا ہے اور آخرت میں اس کے لیے جہنم ہے۔- ٣۔ یعنی جو بھی مصیبت پہنچتی ہے اللہ کے حکم سے اور اس کے طے شدہ فیصلے اور تقدیر کے مطابق پہنچتی ہے۔- ٤۔ وَمَنْ یُّؤْمِنْم بِ اللہ ِ یِہْدِ قَلْبَہ : یعنی جسے کوئی مصیبت پہنچے اور وہ جان لے کہ یہ اللہ کے فیصلے اور اس کی تقدیر سے ہے ، پھر اس پر صبر کرے ، ثواب کی نیت رکھے اور اپنے آپ کو پوری طرح اللہ کے فیصلے کے سپرد کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور دنیا میں اس کے ہاتھ سے جو کچھ نکلا یعنی اس سے جو کچھ لیا گیا اس کے بدلے میں اس کے دل میں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق اور سچا یقین عطاء فرماتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو کچھ اس سے لیا گیا اس کی جگہ وہی یا اس سے بہتر چیز عطاء فرما دیتا ہے۔ اس آیت کی طرح سورة ٔ بقرہ (١٥٥ تا ١٥٧) میں مصیبت پر صبر کرنے والوں کو ” المھتدون “ ( ہدایت والے) قرار دیا ۔- طبریٰ نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ” وَمَنْ یُّؤْمِنْم بِ اللہ ِ یِہْدِ قَلْبَہٗ “ کے متعلق ابن عباس (رض) کا قول نقل فرمایا ہے :(یعنی یھد قلبہ للیقین فیعلم ان ما اصابہ لم یکن لیخطئہ وما اخطاہ لم یکن لیصیبہ) ( طبریٰ ٢٢، ٢١، ح : ٣٤٥٩)” یعنی ( آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو اللہ پر ایمان رکھے) اللہ تعالیٰ اس کے دل کو یقین کی ہدایت دیتا ہے اور وہ جان لیتا ہے کہ اس پر جو مصیبت آئی وہ کسی صورت اس سے خطاب کرنے والی نہیں تھی اور جو خطاء کرگئی وہ کسی صورت اس پر آنے والی نہیں تھی “۔ اور اعمش نے ابو ظبیان سے بیان کیا کہ ہم علقمہ کے پاس تھے ، ان کے پاس یہ آیت پڑھی گئی :(وَمَنْ یُّؤْمِنْم بِ اللہ ِ یِہْدِ قَلْبَہٗ ) اور اس کا مطلب پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا :” اس سے مراد وہ آدمی ہے جسے کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ جان لیتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے ، اس پر راضی ہوجاتا ہے اور اسے تسلیم کرلیتا ہے۔ “ (ابن جریر و ابن ابی حاتم بسند صحیح) ۔- صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(عجباً لا مر المومن ان امرہ کلہ خیبر و لیس ذاک لا حد الا للمومن ان اصابتہ سراء شکر ، فکان خیرا لہ و ان اصابتہ ضراء صبر ، فکان خیرالہ) ( مسلم ، الزھد و الرقائق، باب المومن امرہ کلہ خیر : ٢٩٩٩)” مومن کے معاملے پر تعجب ہے ، کیونکہ اس کا سارا معاملہ ہی خیر ہے اور یہ بات مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں ، اگر اسے کوئی خوشی ملتی ہے تو شکر کرتا ہے اور وہ اس کے لیے خیر ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے اور وہ بھی اسے کے لیے خیر ہوتا ہے۔ “- ٣۔ وَ اللہ ُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ : یعنی اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا پوری طرح علم ہے ، وہ خوب جانتا ہے کہ کون اس کی تقدیر پر ایمان رکھ کر صبر و شکر کرتا ہے اور کون نہیں کرتا ، پھر وہ ایک کو اس کے مطابق جزا و سزا دے گا ۔
خلاصہ تفسیر - (جس طرح کفر آخرت کی فلاح سے کلیتہً مانع ہے، اسی طرح اموال و اولاد اور بیوی وغیرہ میں مشغول ہو کر خدائے تعالیٰ کے احکام میں کوتاہی کرنا بھی ایک درجہ میں فلاح آخرت سے مانع ہے اس لئے مصیبت میں تو یہ سمجھنا چاہئے کہ) کوئی مصیبت بدون خدا کے حکم کے نہیں آتی (اور یہ سمجھ کر صبر و رضا اختیار کرنا چاہئے) اور جو شخص اللہ پر (پورا) ایمان رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے قلب کو (صبر و رضا کی) راہ دکھا دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے (کہ کس نے صبر و رضا اختیار کیا اور کس نے نہیں کیا اور ہر ایک کو حسب حکمت جزاء و سزا دیتا ہے) اور (خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہر امر میں جس میں مصائب بھی داخل ہیں) اللہ کا کہنا مانو اور رسول کا کہنا مانو اور اگر تم (اطاعت سے) اعراض کرو گے تو (یاد رکھو کہ) ہمارے رسول کے ذمہ صرف صاف صاف پہنچا دینا ہے (جس کو وہ با حسن وجوہ کرچکے ہیں، اس لئے ان کا تو کوئی ضرر نہیں تمہارا ہی ضرر ہوگا اور چونکہ اللہ کو ضرر ہونے کا احتمال ہی نہیں، اس لئے اس کو یہاں بیان نہیں کیا اور تم لوگوں کو اور خصوص اہل مصیبت کو یوں سمجھنا چاہئے کہ) اللہ کے سوا کوئی معبود ( بننے کے قابل) نہیں اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر (مصائب وغیرہ میں) تو کل رکھنا چاہئے، اے ایمان والو (جیسا مصیبت میں تم کو صبر و رضا کا حکم کیا گیا ہے اسی طرح نعمت کے بارے میں تم کو منہمک نہ ہونے کا حکم کیا جاتا ہے پس نعمت کے بارے میں یوں سمجھنا چاہئے کہ) تمہاری بعض بیبیاں اور اولاد تمہارے (دین کے) دشمن ہیں (جبکہ وہ اپنے نفع دنیوی کے واسطے تم کو ایسی بات کا حکم کریں جو تمہارے لئے مضر آخرت ہو) سو تم ان سے (یعنی ایسوں سے) ہوشیار رہو (اور ان کے ایسے امر پر عمل مت کرو) اور اگر (تم کو ایسی فرمائشوں پر غصہ آوے اور تم ان پر تشدد کرنے لگو اور وہ اس وقت معذرت اور توبہ کریں اور) تم (اس وقت ان کی وہ خطا) معاف کردو (یعنی سزا نہ دو ) اور درگزر کر جاؤ (یعنی زیادہ ملامت نہ کرو) اور بخش دو (یعنی اس کو دل سے اور زبان سے بھلا دو ) تو اللہ تعالیٰ (تمہارے گناہوں کا) بخشنے والا (اور تمہارے حال پر) رحم کرنے والا ہے (اس میں ترغیب ہے عفو کی اور یہ بعض اوقات واجب ہے جبکہ عقوبت سے احتمال غالب بےباکی کا ہو اور بعض اوقات مستحب ہے، آگے اولاد کے ساتھ اموال کے متعلق بھیاسی قسم کا مضمون ہے کہ) تمہارے اموال اور اولاد بس تمہارے لئے ایک آزمائش کی چیز ہے (کہ دیکھیں کون ان پر پڑھ کر خدا کے احکام کو بھول جاتا ہے اور کون یاد رکھتا ہے) اور (جو شخص ان میں پڑھ کر اللہ کو یاد رکھے گا تو) اللہ کے پاس (اس کے لئے) بڑا اجر ہے تو (ان سب باتوں کو سن کر) جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو اور (اس کے احکام) سنو اور مانو اور (بالخصوص مواقع حکم میں) خرچ (بھی) کیا کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا (غالباً اس کی تخصیص اس لئے ہے کہ یہ نفس پر زیادہ شاق ہے) اور جو شخص نفسانی حرص سے محفوظ رہا ایسے ہی لوگ (آخرت میں) فلاح پانے والے ہیں (آگے اس کے بہتر اور اور موجب فلاح ہونے کا بیان ہے کہ) اگر تم اللہ کو اچھی طرح (خلوص کے ساتھ) قرض دو گے تو وہ اس کو تمہارے لئے بڑھا تا چلا جائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بڑا قدر دان ہے (کہ عمل صالح کو قبول فرماتا ہے اور) بڑا برد بار ہے (کہ عمل معصیت پر فی الفور مواخذہ نہیں فرماتا اور) پوشیدہ اور ظاہر (اعمال) کا جاننے والا ہے (اور) زبردست ہے (اور) حکمت والا ہے (شکور سے حکیم تک تمام مضامین سورت کے لئے بمنزلہ علت کے ہیں کہ سب مضامین ان پر مرتب و متفرع ہو سکتے ہیں) - معارف و مسائل - (آیت) مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ يَهْدِ قَلْبَهٗ ” یعنی کسی کو کوئی مصیبت اللہ کے اذن کے بغیر نہیں پہنچتی اور جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے قلب کو ہدایت فرما دیتا ہے “ مطلب یہ ہے کہ یہ امر تو اپنی جگہ ایک یقینی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اذن و مشیت کے بغیر کہیں کوئی ذرہ بھی نہیں ہل سکتا، اللہ کے اذن کے بغیر نہ کوئی کسی کو نقصان و تکلیف پہنچا سکتا ہے نہ نفع اور راحت مگر جس شخص کا اللہ پر اور اس کی تقدیر پر ایمان نہیں ہوتا مصیبت کے وقت اس کے لئے قرار و سکون کا کوئی سامان نہیں ہوتا، وہ ازالہ مصیبت کے لئے ہاتھ پیر مارتا رہتا ہے، بخلاف مومن کے جس کا تقدیر الٰہی پر ایمان ہے اللہ تعالیٰ اس کے قلب کو اس پر مطمئن کردیتا ہے کہ جو کچھ ہوا اللہ تعالیٰ کے اذن و مشیت سے ہوا، جو کچھ مصیبت مجھے پہنچی وہ پہنچنی ہی تھی اس کو کوئی ٹلا نہیں سکتا اور جس مصیبت سے نجات ہوئی وہ نجات ہونا ہی تھی، کسی کی مجال نہیں جو اس مصیبت کو مجھ پر ڈال دے، اس ایمان و اعتقاد کے نتیجہ میں اس کو آخرت کے ثواب کا وعدہ بھی سامنے ہوتا ہے جس سے دنیا کی بڑی سے بڑی مصیبت آسان ہوجاتی ہے۔
مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَۃٍ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ ٠ ۭ وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللہِ يَہْدِ قَلْبَہٗ ٠ ۭ وَاللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ١١- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» .- الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- ( صاب) مُصِيبَةُ- والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. قال تعالی:إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة 50] ، وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء 73] ، فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور 43] ، فَإِذا أَصابَ بِهِ مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم 48] ، قال :- الإِصَابَةُ في الخیر اعتبارا بالصَّوْبِ ، أي : بالمطر، وفي الشّرّ اعتبارا بِإِصَابَةِ السّهمِ ، وکلاهما يرجعان إلى أصل .- مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ [ التوبة 50] اے پیغمبر اگر تم کو اصائش حاصل ہوتی ہے تو ان کی بری لگتی ہے اور اگر مشکل پڑتی ہے ۔ وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ [ النساء 73] ، اور اگر خدا تم پر فضل کرے فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ [ النور 43] تو جس پر چاہتا ہے اس کو برسادیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے ۔ فَإِذا أَصابَ بِهِمَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ [ الروم 48] پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اسے برسا دیتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ جباصاب کا لفظ خیر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو یہ صوب بمعنی بارش سے مشتق ہوتا ہے اور جب برے معنی میں آتا ہے تو یہ معنی اصاب السمھم کے محاورہ سے ماخوز ہوتے ہیں مگر ان دونوں معانی کی اصل ایک ہی ہے ۔- وأَذِنَ :- استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة 279] .- ( اذ ن) الاذن - اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان :- أحدهما : إدراک ذات الشیء .- والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له،- أو نفي شيء هو منفيّ عنه .- فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو :- لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] .- والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله :- فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله :- لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت .- والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ.- فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم .- والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات .- ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ،- وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔- ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں - ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛
تمہاری جانوں مالوں اور گھروں کو کوئی مصیبت بغیر اللہ کے حکم کے نہیں آتی اور جو یہ سمجھے کہ مصیبت اللہ کی جانب سے ہے تو وہ اپنے قلب کو صبر و رضا کی راہ دکھا دیتا ہے یا یہ کہ جب اس کو کوئی نعمت ملے تو شکر کرے اور جب آزمایا جائے تو صبر کرے اور جب ظلم کیا جائے تو معاف کرے اور جس وقت کوئی پریشانی لاحق ہوئی تو انا للہ پڑھے، تو ایسا شخص اپنے دل کو اللہ کی راہ دکھا دیتا ہے اور تمہیں جو مصیبت وغیرہ پیش آتی ہے اللہ تعالیٰ اس سے اچھی طرح آگاہ ہے۔
؎ دوسرے رکوع کی پہلی پانچ آیات میں ثمراتِ ایمانی کا ذکر ہے۔ ان میں سے پہلا ثمرہ یہ ہے :- آیت ١ ١ مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ اِلاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِ ” نہیں آتی کوئی مصیبت مگر اللہ کے اذن سے۔ “- وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰہِ یَہْدِ قَلْبَہٗ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ ۔ ” اور جو کوئی اللہ پر ایمان رکھتا ہے ‘ وہ اس کے دل کو ہدایت دے دیتا ہے ۔ اور اللہ ہرچیز کا علم رکھنے والا ہے۔ “- ایمان حقیقی کی بدولت انسان کے دل کی گہرائیوں میں یہ یقین پیدا ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر ایک پتا ّتک جنبش نہیں کرسکتا۔ اس لیے اگر اس پر کوئی مصیبت بھی آجاتی ہے تو اس کا دل مطمئن رہتا ہے کہ یہ اللہ کے حکم سے ہی آئی ہے اور یہ کہ میری بہتری اسی میں ہے : وَعَسٰٓی اَنْ تَـکْرَہُوْا شَیْئًا وَّہُوَخَیْرٌ لَّــکُمْج وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّہُوَ شَرٌّ لَّــکُمْط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ ۔ (البقرۃ) ” اور ہوسکتا ہے کہ تم کسی شے کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو۔ اور ہوسکتا ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو درآنحالیکہ وہی تمہارے لیے بری ہو۔ اور اللہ جانتا ہے ‘ تم نہیں جانتے “۔ چناچہ اپنے اس ایمان اور یقین کی وجہ سے ایک بندئہ مومن بڑی سے بڑی تکلیف اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی نہ تو دل میں شکوہ کرتا ہے اور نہ ہی حرفِ شکایت زبان پر لاتا ہے ‘ بلکہ وہ ہر حال میں پیکر تسلیم و رضا بنا رہتا ہے کہ اے اللہ میری بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے : بِیَدِکَ الْخَیْر تیری طرف سے میرے لیے خوشی آئے یا غم ‘ مجھے قبول ہے ‘ تیری جو بھی رضا ہو اس کے سامنے میرا سر تسلیم خم ہے بقول غالب ؔ: - ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے - بے نیازی تری عادت ہی سہی - ظاہر ہے اس مقام خاص تک صرف سچے اور مخلص اہل ایمان ہی پہنچ پاتے ہیں۔ ایمانِ حقیقی سے محروم دلوں کے نصیب میں تسلیم و رضا کی حلاوت کہاں : ؎- نہ شود نصیب ِدشمن کہ شود ہلاک تیغت - سر ِدوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی - علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں مقام تسلیم و رضا کی برکات کا ذکر بڑے پرشکوہ انداز میں کیا ہے : ؎- بروں کشید زپیچاکِ ہست و بود مرا - چہ عقدہ ہا کہ مقام رضا کشود مرا - (اس مقامِ رضا نے میرے کیسے کیسے عقدے حل کردیے ہیں اور مجھے دنیا کی کیسی کیسی پریشانیوں سے نجات دلا دی ہے ۔ )- خوئے تسلیم و رضا کی وجہ سے انسان اپنا بڑے سے بڑا مسئلہ بھی اللہ کے سپرد کر کے مطمئن ہوجاتا ہے اور جو انسان اس یقین سے محروم ہے وہ دن رات اسی پیچ و تاب میں پڑا رہتا ہے کہ یہ سب کیسے ہوگیا ؟ آخر یہ میرے ساتھ ہی کیوں ہوا ؟ اگر میں اس وقت ایسا کرلیتا تو اس نقصان سے بچ جاتا اگر میرا فلاں دوست عین وقت پر ایسا نہ کرتا تو ایسا نہ ہوتا کاش میں یوں کرلیتا کاش ‘ اے کاش …گویا انسان اگر مقام تسلیم و رضا سے ناآشنا ہو تو چھوٹے چھوٹے واقعات بھی اس کے دل کا روگ بن جاتے ہیں اور اس کے پچھتاوے کبھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ (سورۃ الصف ‘ سورة الجمعہ ‘ سورة المنافقون اور سورة التغابن ‘ یہ چاروں سورتیں ہمارے ” مطالعہ قرآن حکیم کا منتخب نصاب “ میں شامل ہیں ‘ جس کے مفصل دروس کی ریکارڈنگ موجود ہے۔ مزید تفصیل کے لیے اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ) - اس حوالے سے یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اللہ کی رضا پر راضی رہنے اور ہر سختی یا تکلیف کو اس کا فیصلہ سمجھ کر قبول کرلینے کا تعلق انسان کے ایمان اور دل سے ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ کسی جرم کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہ کریں یا اپنے ساتھ ہونے والی کسی زیادتی کا بدلہ نہ لیں۔ بہرحال ایمان کے ثمرات میں سے پہلاثمرہ یہ ہے کہ حقیقی ایمان انسان کو مقام تسلیم و رضا سے آشنا کرتا ہے۔ لیکن اس کا تعلق چونکہ انسان کے احساسات سے ہے اس لیے یوں کہہ لیجیے کہ یہ وہ پھول ہے جو ایک بندئہ مومن کے دل کے اندر کھلتا ہے ‘ باہر سے نظر نہیں آتا۔ باہر سے نظر آنے والے بڑے پھول کا ذکر اگلی آیت میں آ رہا ہے۔
سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :23 اب روئے سخن اہل ایمان کی طرف ہے ۔ اس سلسلہ کلام کو پڑھتے ہوئے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ جس زمانے میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں وہ مسلمانوں کے لیے سخت مصائب کا زمانہ تھا ۔ مکہ سے برسوں ظلم سہنے کے بعد سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آ گئے تھے ۔ اور مدینے میں جن حق پر ستوں نے ان کو پناہ دی تھی ان پر دہری مصیبت آ پڑی تھی ۔ ایک طرف انہیں سینکڑوں مہاجرین کو سہارا دینا جو عرب کے مختلف حصوں سے ان کی طرف چلے آ رہے تھے ، اور دوسری طرف پورے عرب کے اعدائے اسلام ان کے درپے آزاد ہو گئے تھے ۔ سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :24 یہ مضمون سورہ الحدید ، آیات 22 ۔ 23 میں بھی گزر چکا ہے اور وہاں حواشی نمبر 39 تا 42 میں ہم اس کی تشریح کر چکے ہیں ۔ جن حالات میں اور جس مقصد کے لیے یہ بات وہاں فرمائی گئی تھی ، اسی طرح کے حالات میں اسی مقصد کے لیے اسے یہاں دہرایا گیا ہے ۔ جو حقیقت مسلمانوں کے ذہن نشین کرنی مقصود ہے وہ یہ ہے کہ نہ مصائب خود آجاتے ہیں ، نہ دنیا میں کسی کی یہ طاقت ہے کہ اپنے اختیار سے جس پر جو مصیبت چاہے نازل کر دے ۔ یہ تو سراسر اللہ کے اِذن پر موقوف ہے کہ کسی پر کوئی مصیبت نازل ہونے دے یا نہ ہونے دے ۔ اور اللہ کا اذن بہر حال کسی نہ کسی مصلحت کی بنا پر ہوتا ہے جسے انسان نہ جانتا ہے نہ سمجھ سکتا ہے ۔ سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :25 یعنی مصائب کے ہجوم میں جو چیز انسان کو راہ راست پر قائم رکھتی ہے اور کسی سخت سے سخت حالت میں بھی اس کے قدم ڈگمگانے نہیں دیتی وہ صرف ایمان باللہ ہے ۔ جس کے دل میں ایمان نہ ہو وہ آفات کو یا تو اتفاقات کا نتیجہ سمجھتا ہے ، یا دنیوی طاقتوں کو ان کے لانے اور روکنے میں مؤثر مانتا ہے ، یا انہیں ایسی خیالی طاقتوں کا عمل سمجھتا ہے جنہیں انسانی اوہام نے نفع و ضرر پہنچانے پر قادر فرض کر لیا ہے ، یا خدا کو فاعِل مختار مانتا تو ہے مگر صحیح ایمان کے ساتھ نہیں مانتا ۔ ان تمام مختلف صورتوں میں آدمی کم ظرف ہو کر رہ جاتا ہے ۔ ایک خاص حد تک تو وہ مصیبت سہہ لیتا ہے ، لیکن اس کے بعد وہ گھٹنے ٹیک دیتا ہے ۔ ہر آستانے پر جھک جاتا ہے ۔ ہر ذلت قبول کر لیتا ہے ۔ ہر کمینہ حرکت کر سکتا ہے ۔ ہر غلط کام کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے ۔ خدا کو گالیاں دینے سے بھی نہیں چوکتا ۔ حتیٰ کہ خود کشی تک کر گزرتا ہے ۔ اس کے بر عکس جو شخص یہ جانتا اور سچے دل سے مانتا ہو کہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہی اس کائنات کا مالک و فرمانروا ہے ، اور اسی کے اذن سے مصیبت آتی اور اسی کے حکم سے تل سکتی ہے ، اس کے دل کو اللہ صبر و تسلیم اور رضا بقضاء کی توفیق دیتا ہے ، اس کو عزم اور ہمت کے ساتھ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کی طاقت بخشتا ہے ، تاریک سے تاریک حالات میں بھی اس کے سامنے اللہ کے فضل کی امید کا چراغ روشن رہتا ہے ، اور کوئی بڑی سے بڑی آفت بھی اس کو اتنا پست ہمت نہیں ہونے دیتی کہ وہ راہ راست سے ہٹ جائے ، یا باطل کے آگے سر جھکا دے ، یا اللہ کے سوا کسی اور کے در پر اپنے درد کا مداوا ڈھونڈنے لگے ۔ اس طرح ہر مصیبت نہیں رہتی بلکہ نتیجے کے اعتبار سے سراسر رحمت بن جاتی ہے ، کیونکہ خواہ وہ اس کا شکار وہ کر رہ جائے یا اس سے بخیریت گزر جائے ، دونوں صورتوں میں وہ اپنے رب کی ڈالی ہوئی آزمائش سے کامیاب ہو کر نکلتا ہے ۔ اسی چیز کو ایک متفق علیہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح بیان فرمایا ہے : عجباً للمؤمن ، لا یقضی اللہ لہ قضاءً الا کان خیراً الہٰ ، ان اصابتْہ ضَرّاء صبر ، فکان خیراً لہٗ ، وان اصابَتہ سرّاء شکر ، فکان خیراً الہ ، ولیس ذالک لِاَ حدٍ الّا المؤمن ۔ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے ۔ اللہ اس کے حق میں جو فیصلہ بھی کرتا ہے وہ اس کے لیے اچھا ہی ہوتا ہے ۔ مصیبت پڑے تو صبر کرتا ہے ، اور وہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے ۔ خوشحالی میسر آئے تو شکر کرتا ہے ، اور وہ بھی اس کے لیے اچھا ہی ہوتا ہے ۔ یہ بات مومن کے سوا کسی کو نصیب نہیں ہوتی ۔ سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :26 اس سلسلہ کلام میں اس ارشاد کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ کو معلوم ہے کہ کون شخص واقعی ایمان رکھتا ہے اور کس شان کا ایمان رکھتا ہے ۔ اس لیے وہ اپنے علم کی بنا پر اسی قلب کو ہدایت بخشتا ہے جس میں ایمان ہو ، اور اسی شان کی ہدایت بخشتا ہے جس شان کا ایمان اس میں ہو ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنے مومن بندوں کے حالات سے اللہ بے خبر نہیں ہے ۔ اس نے ایمان کی دعوت دے کر ، اور اس ایمان کے ساتھ دنیا کی شدید آزمائشوں میں ڈال کر انہیں ان کے حال پر چھوڑ نہیں دیا ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ کس مومن پر دنیا میں کیا کچھ گزر رہی ہے اور وہ کن حالات میں اپنے ایمان کے تقاضے کس طرح پورے کر رہا ہے ۔ اس لیے اطمینان رکھو کہ جو مصیبت بھی اللہ کے اذن سے تم پر نازل ہوتی ہے ، اللہ کے علم میں ضرور اس کی کوئی عظیم مصلحت ہوتی ہے اور اس کے اندر کو4ی بڑی خیر پوشیدہ ہوتی ہے ، کیونکہ اللہ اپنے مومن بندوں کا خیر خواہ ہے ، بلا وجہ انہیں مصائب میں مبتلا کرنا نہیں چاہتا ۔
2: یعنی اﷲ تعالیٰ ایمان والوں کے دل کو مصیبت کے وقت یہ اطمینان عطا فرماتا ہے کہ ہر مصیبت اﷲ تعالیٰ کے حکم سے آتی ہے، اور اُس میں کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہوتی ہے، چاہے وہ ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ اس تصوّر کے نتیجے میں اِیمان والوں کو ناقابلِ برداشت تکلیف نہیں ہوتی، اور اُنہیں صبر کی توفیق مل جاتی ہے۔