Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 یعنی انسان کے لیے خیروشر، نیکی اور بدی اور کفر و ایمان کے راستوں کی وضاحت کے بعد اللہ نے انسان کو ارادہ واختیار کی جو آزادی دی ہے اس کی رو سے کسی نے کفر کا اور کسی نے ایمان کا راستہ اپنایا ہے اس نے کسی پر جبر نہیں کیا ہے۔ اگر وہ جبر کرتا تو کوئی بھی شخص کفر کا راستہ اختیار کرنے پر قادر نہ ہوتا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣] اس آیت کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ پیدا تو تمہیں اللہ نے کیا ہے پھر کوئی تو یہ بات تسلیم کرلیتا ہے کہ واقعی ہمارا خالق اللہ ہے اور کوئی یہ بات بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ وہ سرے سے اللہ کی ہستی کا انکار کردیتا ہے کہ ہم تو زمانہ کی گردش کے تحت پیدا ہوتے اور مرتے رہتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اللہ نے انسان کو فطرت سلیمہ پر پیدا کیا تھا۔ کہ وہ بھی اللہ کی باقی تمام مخلوق کی طرح اس کا مطیع و منقاد بن کر رہے۔ لیکن کچھ لوگ تو اس فطرت سلیمہ پر قائم رہتے ہیں اور کچھ ماحول سے متاثر ہو کر کفر کی راہیں اختیار کرلیتے ہیں اور اس مطلب کی توثیق اس ارشاد نبوی سے ہوجاتی ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ : (انسان کا) ہر بچہ فطرت (سلیمہ) پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی (وغیرہ) بنا دیتے ہیں (بخاری۔ کتاب القدر۔ باب جف القلم علیٰ علم اللّٰہ۔۔ ) اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو قوت ارادہ و اختیار اور عقل وتمیز دے کر پیدا کیا تھا۔ اب جو شخص ان اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا غلط استعمال کرتا ہے۔ وہ کفر کی راہ پر جا پڑتا ہے اور جو صحیح استعمال کرتا ہے۔ وہی مومن ہوتا ہے۔- [٤] صرف دیکھتا ہی نہیں بلکہ اس کی تمہیں جزا یا سزا بھی دے گا۔ وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ اگر کسی مومن نے کوئی نیک کام کیا تھا تو اس میں خلوص نیت کا کتنا حصہ تھا۔ اسی کے مطابق وہ اس کی جزا میں کمی یا اضافہ بھی کرے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ فَمِنْکُمْ کَافِرٌ وَّمِنْکُمْ مُّؤْمِنٌ: یعنی اتنی صفات کے مالک ہی نے تمہیں پیدا کیا اور دوسری مخلوقات کی طرح تمہیں بھی ہر بات میں اپنے تکوینی حکم کا پابند کردینے کے بجائے ایمان و فکر دونوں راستے واضح فرما کر تمہیں ان میں سے کسی ایک پر چلنے کا اختصار بخشا ۔ اب حق تو یہ تھا کہ تم اپنے پیدا کرنے والے کا شکر ادا کرتے ہوئے اس پر ایمان لاتے ، مگر اس کے بجائے تم دو گروہوں میں بٹ گئے ، چناچہ تم میں سے کچھ کفر کرنے والے ہیں اور کچھ ایمان لانے والے ۔ اب یہ خیال مت کرنا کہ تمہارے اس کفر پر تم سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی ، یا ایمان لانے پر کوئی جزا نہیں ملے گی ، بلکہ تم جو کچھ کر رہے ہو ، اللہ تعالیٰ اسے پوری طرح دیکھنے والا ہے ، وہ ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق سزا یا جزا دے گا ۔ یہاں ” فمنکم کافر “ کا ذکر پہلے اس لیے فرمایا کہ مقصود ناراضی کا اظہار ہے کہ اتنی صفات کے مالک اور اپنے خالق کے ساتھ بھی ختم میں سے کئی کفر کرنے والے ہیں ۔ اس کے علاوہ اس بات کا اظہار بھی ہے کہ کفر کرنے والے زیادہ ہیں۔ ( دیکھئے بنی اسرائیل : ٨٩۔ سبا : ٢٠) اس آیت میں وہی بات بیان ہوئی ہے جو تفصیل کے ساتھ سورة ٔ الدھر کی ان آیات میں ہے ، فرمایا :(اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰـہُ سَمِیْعًام بَصِیْرًا اِنَّا ھَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا اِنَّـآ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ سَلٰسِلَاْ وَاَغْلٰلاً وَّسَعِیْرًا اِنَّ الْاَبْرَارَ یَشْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ کَانَ مِزَاجُھَا کَافُوْرًا ) (الدھر : ٢ تا ٥)” بلاشبہ ہم نے انسان کو ایک ملے جلے قطرے سے پیدا کیا ، ہم اسے آزماتے ہیں ، سو ہم نے اسے خوب سننے والا ، خوب دیکھنے والا بنادیا ۔ بلا شبہ ہم نے اسے راستہ دکھادیا ، خواہ وہ شکر کرنے والا بنے اور خواہ نا شکرا ۔ یقینا ہم نے کافروں کے لیے زنجیریں اور طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ تیار کی ہے۔ بلا شبہ نیک لوگ ایسے جام سے پئیں گے جس میں کافور ملا ہوا ہوگا ۔- ٢۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ خلق کے وقت کوئی کافر نہیں ہوتا ، بلکہ پیدا ہوتے وقت ہر انسان فطرت پر ہوتا ہے ، پھر بعد میں کفر اختیار کرتا ہے یا ایمان پر قائم رہتا ہے ۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ روم ( ٣٠ تا ٣٢) کی تفسیر۔- ٣۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ تمام لوگوں کی دو ہی قسمیں ہیں ، یا تو مومن ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر ، اس کے رسولوں پر ، یوم آخرت پر اور تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں یا پھر کافر ہیں ، تیسری کوئی قسم نہیں جو نہ مومن ہوں نہ کافر ۔ مومن گناہ کرے تو اس کی وجہ سے اسے ایمان سے خارج یا کافر قرار نہیں دیا جائے گا اور نہ ہی یہ کہا جائے گا کہ یہ نہ مومن ہے نہ کافر ، بلکہ وہ نا قص ایمان والا مومن ہے اور اسے اس وقت تک مومن ہی کہا جائے گا جب تک وہ ان چیزوں پر ایمان رکھتا ہے جن کا دین ہونا سب کو معلوم ہے۔ اگر وہ ان میں سے کسی چیز کا انکار کرے یا ایسا کام کرے جو مرتد ہونے کی علامت ہے تو پھر وہ مومن نہیں بلکہ کافر ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معاوف و مسائل - (آیت) خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّمِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ، یعنی اللہ تعالیٰ نے تم کو پیدا کیا پھر تم میں بعض کافر ہوگئے بعض مومن رہے، اس میں لفظ فمنکم کا حرف فا جو تعقیب (یعنی ایک چیز کا دوسرے کے بعد ہونے) پر دلالت کرتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اول تخلیق و آفرینش میں کوئی کافر نہیں تھا، یہ کافر مومن کی تقسیم بعد میں اس کسب و اختیار کے تابع ہوئی جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو بخشا ہے اور اسی کسب و اختیار کی وجہ سے اس پر گناہ وثواب عائد ہوتا ہے، ایک حدیث سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (کل مولود یولد علی الفطرة فابو اہ یھودانہ وینصرانہ الحدیث) ” یعنی ہر پیدا ہونے والا انسان فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے (جس کا تقاضا مومن ہونا ہے) مگر پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی وغیرہ بنا دیتے ہیں (قرطبی) - دو قومی نظریئے :- قرآن حکیم نے اس جگہ انسان کو دو گروہوں میں تقسیم کیا ہے، کافر، مومن جس سے معلوم ہوا کہ اولاد آدم (علیہ السلام) سب ایک برادری ہے اور دنیا کے پورے انسان اس برادری کے ارفاد ہیں، اس برادری کو قطع کرنے اور ایک الگ گروہ بنانے والی چیز صرف کفر ہے جو شخص کافر ہوگیا، اس نے انسانی برادری کا رشتہ توڑ دیا، اس طرح پوری دنیا میں انسانوں میں تحزب اور گروہ بندی صرف ایمان و کفر کی بنا پر ہو سکتی ہے، رنگ اور زبان، نسب و خاندان، وطن اور ملک میں سے کوئی چیز ایسی نہیں جو انسانی برادری کو مختلف گروہوں میں بانٹ دے، ایک باپ کی اولاد اگر مختلف شہروں میں بسنے لگے یا مختلف زبانیں بولنے لگے یا ان کے رنگ میں تفاوت ہو تو وہ الگ الگ گروہ نہیں ہوجاتے، اختلاف رنگ و زبان اور وطن و ملک کے باوجود یہ سب آپس میں بھائی ہی ہوتے ہیں، کوئی سمجھدار انسان ان کو مختلف گروہ نہیں قرار دے سکتا۔- زمانہ جاہلیت میں نسب اور قبائل کی تفریق کو قومیت اور گروہ بندی کی بنیاد بنادیا گیا، اسی طرح ملک و وطن کی بنیاد پر کچھ گروہ بندی ہونے لگی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سب بتوں کو توڑا اور مسلمان خواہ کسی ملک اور کسی خطہ کا ہو کسی رنگ اور خاندان کا ہو، کوئی زبان بولتا ہو، ان سب کو ایک برادری قرار دیا بنص قرآن (آیت) انما المؤ منون اخوة (مومنین سب کے سب آپس میں بھائی بھائی ہیں) اسی طرح کفار کسی ملک و قوم کے ہوں وہ اسلام کی نظر میں ملت واحدہ ہیں یعنی ایک قوم ہیں۔- قرآن کریم کی مذکورة الصدر آیت بھی اس پر شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کل بنی آدم کو صرف کافر مومن دو گروہوں میں تقسیم فرمایا، اختلاف رنگ و زبان کو قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ملہ کی نشانی اور انسانی کے لئے بہت سے معاشی فوائد پر مشتمل ہونے کی بنا پر ایک عظیم نعمت تو قرار دیا ہے مگر اس کو بنی آدمی میں گروہ بندی کا ذریعہ بنانے کی اجازت نہیں دی۔- اور ایمان و کفر کی بنا پر دو قوموں کی تقسیم یہ ایک امر اختیاری پر مبنی ہے، کیونکہ ایمان بھی اختیاری امر ہے اور کفر بھی، اگر کوئی شخص ایک قومیت چھوڑ کر دوسری میں شامل ہونا چاہئے تو بڑی آسانی سے اپنے عقائد بدل کر دوسرے میں شامل ہوسکتا ہے، بخلاف نسب و خاندان، رنگ اور زبان اور ملک و وطن کے کہ کسی انسان کے اختیار میں نہیں کہ اپنا نسب بدل دے یا رنگ بدل دے، زبان اور وطن اگرچہ بدلے جاسکتے ہیں مگر زبان و وطن کی بنیاد پر بننے والی قومیں دوسروں کو عادةً اپنے اندر جذب کرنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوتیں خواہ ان کی ہی زبان بولنے لگے اور ان کے وطن میں اباد ہوجائے۔- یہی وہ اسلامی برادری اور ایمانی اخوت تھی جس نے تھوڑے ہی عرصہ میں مشرق و مغرب، جنوب و شمال، کالے گورے، عرب عجم کے بیشمار افراد کو ایک لڑی میں پرو دیا تھا جس کی قوت و طاقت کا مقابلہ دنیا کی قومیں نہ کرسکیں تو انہوں نے پھر ان بتوں کو زندہ کیا جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اسلام نے پاش پاش کردیا تھا، مسلمانوں کی عظیم ترین ملت واحدہ کو ملک و وطن اور زبان اور رنگ اور نسب اور خاندان کے مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ان کو باہم ٹکرا دیا، اس طرح دشمنان اسلام کی یلغار کے لئے میدان صاف ہوگیا جس کا نتیجہ آنکھیں آج دیکھ رہی ہیں کہ مشرق و مغرب کے مسلمان جو ایک قوم، ایک دل تھے اب چھوٹے چھوٹے گروہوں میں منحصر ہو کر ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں اور ان کے مقابلہ پر کفر کی طاغوتی قوتیں باہمی اختلاف رکھنے کے باوجود مسلمانوں کے مقابلہ میں ملت واحدہ ہی معلوم ہوتی ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ہُوَالَّذِيْ خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّمِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ۝ ٠ ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝ ٢- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - بصیر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة :- بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔- اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢ ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ فَمِنْکُمْ کَافِرٌ وَّمِنْکُمْ مُّؤْمِنٌ ” وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے ‘ پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن۔ “- ظاہر ہے تمام انسانوں کا خالق اللہ ہے۔ اس لحاظ سے ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے خالق کا شکر گزار بن کر رہے ‘ اسی کو اپنا معبود جانے اور اسی کے آگے جھکے ۔ لیکن بہت سے انسان اللہ تعالیٰ کے منکر اور نافرمان ہیں۔ بظاہر تو یہ بہت عجیب بات ہے کہ مخلوق کا کوئی فرد اپنے خالق کا منکر یا نافرمان ہو لیکن واقعہ بہرحال یہی ہے۔ - وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ۔ ” اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ “- آیت کے مضمون کے اعتبار سے اس جملے میں بہت بڑی وعید بھی پنہاں ہے اور ایک بشارت بھی مضمر ہے۔ یعنی اللہ ایک ایک انسان کے اعتقاد و نظریہ سے باخبر ہے۔ وہ ایک ایک انسان کی ایک ایک حرکت کو بھی دیکھ رہا ہے۔ وقت آنے پر وہ اپنے سب نافرمانوں سے نپٹ لے گا۔ ان الفاظ کا بشارت والا پہلو یہ ہے کہ جو اس کے شکر گزار اور مطیع فرمان ہوں گے ان کو وہ انعام و اکرام سے نوازے گا۔ اس لیے کہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور سب کی روش سے آگاہ ہے

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :5 اس کے چار مفہوم ہیں اور چاروں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں : ایک یہ کہ وہی تمہارا خالق ہے ، پھر تم میں سے کوئی اس کے خالق ہونے کا انکار کرتا ہے اور کوئی اس حقیقت کو مانتا ہے ۔ یہ مفہوم پہلے اور دوسرے فقرے کو ملا کر پڑھنے سے متبادر ہوتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ اسی نے تم کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ تم کفر اختیار کرنا چاہو تو کر سکتے ہو ، اور ایمان لانا چاہو تو لا سکتے ہو ۔ ایمان و کفر میں سے کسی کے اختیار کرنے پر بھی اس نے تمہیں مجبور نہیں کیا ہے ۔ اس لیے اپنے ایمان و کفر ، دونوں کے تم خود ذمہ دار ہو ۔ اس مفہوم کی تائید بعد کا یہ فقرہ کرتا ہے کہ اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے جو تم کرتے ہو ۔ یعنی اس نے یہ اختیار دے کر تمہیں امتحان میں ڈالا ہے اور وہ دیکھ رہا ہے کہ تم اپنے اس اختیار کو کس طرح استعمال کرتے ہو ۔ تیسرا مفہوم یہ ہے کہ اس نے تو تم کو فطرت سلیمہ پر پیدا کیا تھا جس کا تقاضا یہ تھا کہ تم سب ایمان کی راہ اختیار کرتے ، مگر اس صحیح فطرت پر پیدا ہونے کے بعد تم میں سے بعض لوگوں نے کفر اختیار کیا جو ان کی خلقت و آفرینش کے خلاف تھا ، اور بعض نے ایمان کی راہ اختیار کی جو ان کی فطرت کے مطابق تھی ۔ یہ مضمون اس آیت کو سورہ روم کی آیت 30 کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے سمجھ میں آتا ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ یک سُو ہو کر اپنا رخ اس دین پر جمادو ، قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے ، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت نہ بدلی جائے ، یہی بالکل راست اور درست دین ہے ۔ اور اسی مضمون پر وہ متعدد احادیث روشنی ڈالتی ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بار بار یہ فرمایا ہے کہ ہر انسان صحیح فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور بعد میں خارج سے کفر و شرک اور گمراہی اس پر عارض ہوتی ہے ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، تفسیر سورہ روم ، حواشی 42 تا 47 ) ۔ اس مقام پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ کتب آسمانی نے بھی انسان کے پیدائشی گناہگار ہونے کا وہ تصور پیش نہیں کیا ہے جسے ڈیڑھ ہزار سال سے عیسائیت نے اپنا بنیادی عقیدہ بنا رکھا ہے ۔ آج خود کیتھولک علماء یہ کہنے لگے ہیں کہ بائیبل میں اس عقیدے کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے ۔ چنانچہ بائیبل کا ایک مشہور جرمن عالم ریورینڈ ہر برٹ ہاگ ( ) اپنی تازہ کتاب میں لکھتا ہے کہ ابتدائی دور کے عیسائیوں میں کم از کم تیسری صدی تک یہ عقیدہ سرے سے موجود ہی نہ تھا کہ انسان پیدائشی گنہگار ہے ، اور جب یہ خیال لوگوں میں پھیلنے لگا تو دو صدیوں تک عیسائی اہل علم اس کی تردید کرتے رہے ۔ مگر آخر کار پانچویں صدی میں سینٹ آگسٹائن نے اپنی منطق کے زور سے اس بات کو مسیحیت کے بنیادی عقائد میں شامل کر دیا کہ نوع انسانی نے آدم کے گناہ کا وبال وراثت میں پایا ہے اور مسیح کے کفارے کی بدولت نجات پانے کے سوا انسان کے لیے کوئی راہ نجات نہیں ہے ۔ چوتھا مفہوم یہ ہے کہ اللہ ہی تم کو عدم سے وجود میں لایا ۔ تم نہ تھے اور پھر ہو گئے ۔ یہ ایک ایسا معاملہ تھا کہ اگر تم اس پر سیدھے اور صاف طریقے سے غور و فکر کرتے اور یہ دیکھتے کہ وجود ہی وہ اصل نعمت ہے جس کی بدولت تم دنیا کی باقی دوسری نعمتوں سے متمتع ہو رہے ہو ، تو تم میں سے کوئی شخص بھی اپنے خالق کے مقابلہ میں کفر و بغاوت کا رویہ اختیار نہ کرتا ۔ لیکن تم میں سے بعض نے سوچاہی نہیں ، یا غلط طریقے سے سوچا اور کفر کی راہ اختیار کرلی اور بعض نے ایمان کا وہی راستہ اختیار کیا جو فکر صحیح کا تقاضہ تھا ۔ سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :6 اس فقرے میں دیکھنے کا مطلب محض دیکھنا ہی نہیں ہے ، بلکہ اس سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جیسے تمہارے اعمال ہیں ان کے مطابق تم کو جزا یا سزا دی جائے گی ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی حاکم اگر کسی شخص کو اپنی ملازمت میں لے کر یہ کہے کہ میں دیکھتا ہوں تم کس طرح کام کرتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ٹھیک طرح کام کرو گے تو تمہیں انعام اور ترقی سے نوازوں گا ، ورنہ تم سے سخت مواخذہ کروں گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani