اولاً تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم شرافت و کرامت کے طور پر خطاب کیا گیا پھر تبعاً آپ کی امت سے خطاب کیا گیا اور طلاق کے مسئلہ کو سمجھایا گیا ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفضہ کو طلاق دی وہ اپنے میکے آ گئیں اس پر یہ آیت اتری اور آپ سے فرمایا گیا کہ ان سے رجوع کر لو وہ بہت زیادہ روزہ رکھنے والی اور بہت زیادہ نماز پڑھنے والی ہیں اور وہ یہاں بھی آپ کی بیوی ہیں اور جنت میں بھی آپ کی ازواج میں داخل ہیں ، یہی روایت مرسلاً ابن جریر میں بھی ہے اور سندوں سے بھی آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفضہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو طلاق دی پھر رجوع کر لیا ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی صاحبہ کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی ، بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ نہما نے اپنی بیوی صاحبہ کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی ، حضرت عمر نے یہ واقعہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا آپ ناراض ہوئے اور فرمایا سے چاہئے کہ رجوع کر لے پھر حیض سے پاک ہونے تک روکے رکھے پھر دوسرا حیض آئے اور اس سے نہا لیں پھر اگر جی چاہے طلاق دیں یعنی اس پاکیزگی کی حالت میں بات چیت کرنے سے پہلے یہی وہ عدت ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے یہ حدیث اور بھی بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں کے ساتھ مذکور ہے ، حضرت عبدالرحمٰن بن ایمن نے جو عزہ کے مولیٰ ہیں حضرت ابو الزبیر کے سنتے ہوئے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا کہ اس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی تو آپ نے فرمایا سنو ابن عمر نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں طلاق دی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے لوٹا لے چنانچہ ابن عمر نے رجوع کر لیا اور یہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اس سے پاک ہو جانے کے بعد اسے اختیار ہے خواہ طلاق دے خواہ بسا لے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی ( ترجمہ ) ( مسلم ) دوسری روایت میں ( ترجمہ ) یعنی طہر کی حالت میں جماع سے پہلے ، بہت سے بزرگوں نے یہی فرمایا ہے ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یعنی حیض میں طلاق نہ دو ، نہ اس طہر میں طلاق دو جس میں جماع ہو چکا ہو بلکہ اس وقت تک چھوڑ دے جب حیض آ جائے پھر اس سے نہا لے تب ایک طلاق دے ، حضرت عکرمہ فرماتے ہیں عدت سے مراد طہر ہے ، قرء سے مراد حیض ہے یا حمل کی حالت میں ، جب حمل ظاہر ہو ، جس طہر میں مجامعت کر چکا ہے اس میں طلاق نہ دے نہ معلوم حاملہ ہے یا نہیں ، یہیں سے با سمجھ علماء نے احکام طلاق لئے ہیں اور طلاق کی دو قسمیں کی ہیں طلاق سنت اور طلاق بدعت ، طلاق سنت تو یہ ہے کہ طہر کی یعنی پاکیزگی کی حالت میں جماع کرنے سے پہلے طلاق دے دے یا حالت حمل میں طلاق دے اور بدعی طلاق یہ ہے کہ حالت حیض میں طلاق دے یا طہر میں دے لیکن مجامعت کر چکا ہو اور معلوم نہ ہو کہ حمل ہے یا نہیں؟ طلاق کی تیسری قسم بھی ہے جو نہ طلاق سنت ہے نہ طلاق بدعت اور وہ نابالغہ کی طلاق ہے اور اس عورت کی جسے حیض کے آنے سے نامیدی ہو چکی ہو اور اس عورت کی جس سے دخول نہ ہوا ۔ ان سب کے احکام اور تفصیلی بحث کی جگہ کتب فروغ ہیں نہ کہ تفسیر ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم ، پھر فرمان ہے عدت کی حفاظت کرو اس کی ابتداء انتہا کی دیکھ بھال رکھو ایسا نہ ہو کہ عدت کی لمبائی عورت کو دوسرا خاوند کرنے سے روک دے ، اور اس بارے میں اپنے ابتداء انتہا کی دیکھ بھال رکھو ایسا نہ ہو کہ عدت کی لمبائی عورت کو دوسا خاوند کرنے سے روک دے اور اس بارے میں اپنے معبود حقیقی پروردگار عالم سے ڈرتے رہو ، عدت کے زمانہ میں مطلقہ عورت کی رہائش کا مکان خاوند کے ذمہ ہے وہ اسے نکال نہ دے اور نہ خود اسے نکلنا جائز ہے کیونکہ وہ اپنے خاوند کے حق میں رکی ہوئی ہے ( ترجمہ ) زنا کو بھی شامل ہے اور اسے بھی کہ عورت اپنے خاوند کو تنگ کرے اس کا خلاف کرے اور ایذاء پہنچائے ، یا بدزبانی و کج خلقی شروع کر دے اور اپنے کاموں سے اور اپنی زبان سے سسرال والوں کو تکلیف پہنچائے تو ان صورتوں میں بیشک خاوند کو جائز ہے کہ اسے اپنے گھر سے نکال باہر کرے ، یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اس کی شریعت اور اس کے بتائے ہوئے احکام ہیں ۔ جو شخص ان پر عمل نہ کرے انہیں بےحرمتی کے ساتھ توڑ دے ان سے آگے بڑھ جائے وہ اپنا ہی برا کرنے والا اور اپنی جان پر ظلم ڈھانے والا ہے شاید کہ اللہ کو نئی بات پیدا کر دے اللہ کے ارادوں کو اور ہونے والی باتوں کو کوئی نہیں جا سکتا ، عدت کا زمانہ مطلقہ عورت کو خاوند کے گھر گذارنے کا حکم دینا اس مصلحت سے ہے کہ ممکن ہے اس مدت میں اس کے خاوند کے خیالات بدل جائیں ، طلاق دینے پر نادم ہو دل میں لوٹا لینے کا خیال پیدا ہو جائے اور پھر رجوع کر کے دونوں میاں بیوی امن و امان سے گذارا کرنے لگیں ، نیا کام پیدا کنے سے مراد بھی رجعت ہے ، اسی بنا پر بعض سلف اور ان کے تابعین مثلاً حضرت امام احمد بن حنبل وغیرہ کا مذہب ہے کہ متبوتہ یعنی وہ عورت جس کی طلاق کے بعد خاوند کو رجعت کا حق باقی نہ رہا ہو اس کے لئے عدت گذارنے کے زمانے تک مکان کا دینا خاوند کے ذمہ نہیں ، اسی طرح جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اسے بھی رہائشی مکان عدت تک کے لئے دینا اس کے وارثوں پر نہیں ان کی اعتمادی دلیل حضرت فاطمہ بنت قیس فہریہ والی حدیث ہے کہ جب ان کے خاوند حضرت ابو عمر بن حفص نے ان کو تیسری آخری طلاق دی اور وہ اس وقت یہاں موجود نہ تھے بلکہ یمن میں تھے اور ویں سے طلاق دی تھی تو ان کے وکیل نے ان کے پاس تھوڑے سے جو بھیج دیئے تھے کہ یہ تمہاری خوراک ہے یہ بہت ناراض ہوئیں اس نے کہا بگڑتی کیوں ہو؟ تمہارا نفقہ کھانا پینا ہمارے ذمہ نہیں ، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں آپ نے فرمایا ٹھیک ہے تیرا نفقہ اس پر نہیں ۔ مسلم میں ہے نہ تیرے رہنے سہنے کا گھر اور ان سے فرمایا کہ تم ام شریک کے گھر اپنی عدت گذارو ، پھر فرمایا وہاں تو میرے اکثر صحابہ جایا آیا کرتے ہیں تم عبداللہ بن ام مکتوم کے ہاں اپنی عدت کا زمانہ گذارو وہ ایک نابینا آدمی ہیں تم وہاں آرام سے اپنے کپڑے بھی رکھ سکتی ہو ، مسند احمد میں ہے کہ ان کے خاوند کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جہاد پر بھیجا تھا انہوں نے وہیں سے انہیں طلاق بھیج دی ان کے بھائی نے ان سے کہا کہ ہمارے گھر سے چلی جاؤ انہوں نے کہا نہیں جب تک عدت ختم نہ ہو جائے میرا کھانا پینا اور رہنا سہنا میرے خاوند کے ذمہ ہے اس نے انکار کیا آخر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ معاملہ پہنچا جب آپ کو معلوم ہوا کہ یہ آخری تیسری طلاق ہے تب آپ نے حضرت فاطمہ سے فرمایا نان نفقہ گھر بار خاوند کے ذمہ اس صورت میں ہے کہ اسے حق رجعت حاصل ہو جب یہ نہیں تو وہ بھی نہیں تم یہاں سے چلی جاؤ اور فلاں عورت کے گھر اپنی عدت گذارو پھر فرمایا وہاں تو صحابہ کی آمد و رفت ہے تم ابن ام مکتوم کے گھر عدت کا زمانہ گذارو وہ نابینا ہیں تمہیں دیکھ نہیں سکتے ۔ طبرانی میں ہے یہ حضرت فاطمہ بنت قیس ضحاک بن قیس قرشی کی بہن تھیں ان کے خاوند مخزومی قبیلہ کے تھے ، طلاق کی خبر کے بعد ان کے نفقطہ طلب کرنے پر ان کے خاوند کے اولیاء نے کہا تھا نہ تو تمہارے میاں نے کچھ بھیجا ہے نہ ہمیں دینے کو کہا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں یہ بھی مروی ہے کہ جب عورت کو وہ طلاق مل جائے جس کے بعد وہ اپنے اگلے خاوند پر حرام ہو جتای ہے جب تک دوسرے سے نکاح اور پھر طلاق نہ ہو جائے تو اس صورت میں عدت کا نان نفقہ اور رہنے کا مکان اس کے خاوند کے ذمہ نہیں ۔
1۔ 1 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب آپ کے شرف و مرتب کی وجہ سے ہے، ورنہ حکم تو امت کو دیا جا رہا ہے۔ یا آپ ہی کو بطور خاص خطاب ہے۔ اور جمع کا صیغہ بطور تعظیم کے ہے اور امت کے لیے آپ کا اسوہ ہی کافی ہے۔ طَلَّقْتُمْ کا مطلب ہے جب طلاق دینے کا پختہ ارادہ کرلو۔ 1۔ 2 اس میں طلاق دینے کا طریقہ اور وقت بتلایا ہے لعدتھن میں لام توقیت کے لیے ہے۔ یعنی لاول یا لاستقبال عدتھن (عدت کے آغاز میں طلاق دو ۔ یعنی جب عورت حیض سے پاک ہوجائے تو اس سے ہم بستری کے بغیر طلاق دو حالت طہر میں اسکی عدت کا آغاز ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے حیض کی حالت میں یا طہر میں ہم بستری کرنے کے بعد طلاق دینا غلط طریقہ ہے اسکو فقہا طلاق بدعی سے اور پہلے صحیح طریقے کو طلاق سنت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسکی تایید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غضبناک ہوئے اور انہیں اس سے رجوع کرنے کے ساتھ حکم دیا کہ حالت طہر میں طلاق دینا اور اسکے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی آیت سے استدلال فرمایا۔ (صحیح بخاری) تاہم حیض میں دی گئی طلاق بھی باوجود بدعی ہونے کے واقع ہوجائے گی۔ محدثین اور جمہور علماء اسی بات کے قائل ہیں البتہ امام ابن قیم اور امام ابن تیمیہ طلاق بدعی کے وقوع کے قائل نہیں ہیں۔ ۔ 1۔ 3 یعنی اس کی ابتدا اور انتہا کا خیال رکھو، تاکہ عورت اس کے بعد نکاح ثانی کرسکے، یا اگر تم ہی رجوع کرنا چاہو، (پہلی اور دوسری طلاق کی صورت میں) تو عدت کے اندر رجوع کر سکو 1۔ 4 یعنی طلاق دیتے ہی عورت کو اپنے گھر سے مت نکالو، بلکہ عدت تک اسے گھر ہی میں رہنے دو اور اس وقت تک رہائش اور نان و نفقہ تمہاری ذمہ داری ہے۔ 1۔ 5 یعنی عدت کے دوران خود عورت بھی گھر سے باہر نکلنے سے احتراز کرے الا یہ کہ کوئی بہت ہی ضروری معاملہ ہو۔ 1۔ 6 یعنی بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھے یا بد زبانی اور بد اخلاقی کا مظاہرہ کرے جس سے گھر والوں کو تکلیف ہو۔ دونوں صورتوں میں اس کا اخراج جائز ہوگا۔ 1۔ 7 یعنی مرد کے دل میں مطلقہ عورت کی رغبت پیدا کردے اور وہ رجوع کرنے پر آمادہ ہوجائے جیسا کہ پہلی دوسری طلاق کے بعد خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔
[١] عورتوں کی عدت کی کمی بیشی کی مختلف صورتیں :۔ طلاق اور عدت کے بہت سے احکام سورة بقرہ میں گزر چکے ہیں۔ اور کچھ سورة احزاب میں بھی مذکور ہیں۔ اور ان کی تکمیل سورة طلاق میں مذکور احکام سے ہوئی۔ لہذا سابقہ احکام پر بھی ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔ چونکہ طلاق کی صورت میں عورتوں کی حالت مختلف اور ان کی عدت بھی مختلف ہوتی ہے۔ لہذا پہلے عدت کی وضاحت کی جاتی ہے :- ١۔ بیوہ غیرحاملہ کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ (٢: ٢٣٩) - ٢۔ بیوہ حاملہ کی عدت وضع حمل تک ہے۔ (٦٥: ٤) جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ظاہر ہے :- ابو سلمہ کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) کے پاس ایک شخص آیا۔ اس وقت ابوہریرہ (رض) بھی ان کے پاس بیٹھے تھے۔ وہ شخص کہنے لگا : ایک عورت کے ہاں اس کا خاوند مرنے کے چالیس دن بعد بچہ پیدا ہوا ؟ اس کی عدت کے بارے میں آپ کیا فتویٰ دیتے ہیں۔ ابن عباس (رض) نے کہا کہ وہ لمبی عدت (چار ماہ دس دن) پوری کرے ابو سلمہ کہنے لگے : پھر اس آیت کا کیا مطلب ہوا کہ : حاملہ عورتوں کی عدت ان کے وضع حمل تک ہے اور سیدنا ابوہریرہ (رض) کہنے لگے : میں تو اپنے بھتیجے ابو سلمہ کی رائے سے متفق ہوں آخر ابن عباس (رض) نے اپنے غلام کریب کو ام المومنین ام سلمہ (رض) کے پاس یہ مسئلہ پوچھنے کے لئے بھیجا۔ ام سلمہ (رض) نے فرمایا : سبیعہ اسلمیہ کا خاوند (سعد بن خولہ) اس وقت فوت ہوا جبکہ اس کی بیوی حاملہ تھی۔ خاوند کے چالیس دن بعد اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو اسے نکاح کے پیغام آنے لگے۔ اور آپ نے اسے نکاح کی اجازت دے دی۔ ان پیغام دینے والوں میں سے ایک ابو السنابل بھی تھا (بخاری۔ کتاب التفسیر) - ٣۔ غیر مدخولہ عورت خواہ وہ بیوہ ہو یا مطلقہ اس کی کوئی عدت نہیں۔ (٣٢: ٤٩) - ٤۔ بےحیض عورت، اسے خواہ ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو یعنی نابالغہ ہو یا بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے آنا بند ہوچکا ہو، کی عدت تین ماہ قمری ہے۔ (٦٥: ٤) یعنی اس صورت کی آیت نمبر ٤- ٥۔ مطلقہ حاملہ کی عدت وضع حمل تک ہے۔ (٦٥: ٤) یعنی اسی سورة کی آیت نمبر ٤- ٦۔ حیض والی غیر حاملہ کی عدت تین قروء ہے (٢: ٢٢٨) قرء کا معنی حیض بھی ہے اور حالت طہر بھی۔ احناف اس سے تین حیض مراد لیتے ہیں جبکہ شافعی اور مالکی تین طہر مراد لیتے ہیں۔ اس فرق کو درج ذیل مثال سے سمجھئے۔- طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ عورت جب حیض سے فارغ ہو تو اسے طہر کے شروع میں ہی بغیر مقاربت کے طلاق دے دی جائے اور پوری عدت گزر جانے دی جائے عدت کے بعد عورت بائن ہوجائے گی۔ اب فرض کیجئے ایک عورت ہندہ نامی کو ہر قمری مہینہ کے ابتدائی تین دن ماہواری آتی ہے۔ اس کے خاوند نے اسے حیض سے فراغت کے بعد ٤ محرم کو طلاق دے دی۔ اب احناف کے نزدیک اس کی عدت تین حیض پورے یعنی ٣ ربیع الثانی کی شام کو جب وہ حیض سے غسل کرے گی۔ اس کی عدت ختم ہوجائے گی۔ جبکہ شوافع اور موالک کے نزدیک تیسرا حیض شروع ہونے تک اس کے تین طہر پورے ہوچکے ہوں گے یعنی یکم ربیع الثانی کی صبح کو حیض شروع ہونے پر اس کی عدت ختم ہوجائے گی یعنی تین دن کا فرق پڑجائے گا۔- خ عدت کی اہمیت :۔ اس کے بعد اب ارشادربانی کی طرف آئیے۔ فرمایا : عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے لیے طلاق دو جس سے معلوم ہوا کہ عدت کا ٹھیک ٹھیک شمار نہایت اہم چیز ہے۔ لہذا اس کی طرف پوری پوری توجہ دیا کرو۔ اس کی اہمیت کی وجوہ درج ذیل ہیں :- ١۔ عدت کا مقصد تحفظ نسب اور وراثت کے تنازعات کو ختم کرنا ہے۔ عدت کے اندر اندر یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ حاملہ ہے یا نہیں۔ اگر حاملہ ہے تو اس کی عدت وضع حمل تک ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ جس عورت کو صحبت سے پہلے ہی طلاق دے دی جائے اس پر کوئی عدت نہیں (٣٣: ٤٩) کیونکہ اس صورت میں نہ نسب کے اختلاط کا کوئی امکان ہے اور نہ وراثت کے تنازعہ کا۔- ٢۔ عدت کے دوران مطلقہ عورت اپنے خاوند کی بیوی ہی رہتی ہے۔ اور اس دوران خاوند کے حقوق کی نگہداشت کو ملحوظ رکھا گیا ہے جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا : (فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا 49) 33 ۔ الأحزاب :49) یعنی خاوند کے ہاں عدت گزارنا مطلقہ عورت کی ذمہ داری ہے اور مرد کا یہ حق ہے کہ عورت اسی کے ہاں عدت گزارے اس دوران مرد اس سے صحبت کرنے کا پورا پورا حق رکھتا ہے۔ اور وہ عورت کی رضا مندی کے بغیر بھی اپنا یہ حق استعمال کرسکتا ہے۔- ٣۔ عدت کے دوران کسی دوسرے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس عورت سے نکاح تو دور کی بات ہے منگنی کے لیے پیغام تک بھی دے سکے۔ اور اگر خاوند نے عورت کو اس حالت میں طلاق دی کہ وہ گھر پر موجود ہی نہ تھی یا اپنے میکے گئی ہوئی تھی یا اسے اس کے میکے پیغام بھیج دیا گیا تھا اور عورت عدت کے دوران نکاح کرلے تو وہ نکاح باطل ہوگا۔- [٢] عدت کا عرصہ خاوند کے ہاں گزارنے کا حکم اور مصلحت۔ خاوند کے گھر کے علاوہ کسی دوسری جگہ عدت گزارنا غیر شرعی اور گناہ کا کام ہے :۔ ہمارے ہاں عموماً ایسا ہوتا ہے کہ میاں بیوی میں لڑائی ہوئی تو بیوی روٹھ کر میکے چلی گئی یا خود میاں نے اسے میکے روانہ کردیا۔ بعد میں کسی وقت بیک وقت تین طلاق لکھ کر بھیج دیں۔ یا خاوند بیوی کو طلاق دے کر گھر سے نکال دیتا ہے یا بیوی خود ہی اپنے میکے چلی جاتی ہے۔ ان سب صورتوں میں عورت کی عدت اس کے میکے میں ہی گزرتی ہے۔ یہ سب باتیں خلاف شرع اور گناہ کے کام ہیں۔ کیونکہ اللہ کا یہ حکم ہے کہ عورت عدت اپنے طلاق دینے والے خاوند کے ہاں گزارے گی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے عدت کے دوران سکنیٰ اور نفقہ کی ذمہ داری مرد کے سر پر ڈال دی ہے۔ اور بیوہ کے اخراجات کی ذمہ داری میت کے لواحقین پر جو ترکہ کے وراث ہوں گے۔ اور اس حکم میں کئی مصلحتیں ہیں۔ سب سے بڑی مصلحت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ جس مرد اور عورت کے درمیان رشتہ ازدواج قائم ہوچکا ہے۔ اسے زوجین کو اپنی اپنی امکانی حد تک نبھانا ہی چاہئے۔ طلاق کی اجازت صرف ناگزیر حالات کی بنا پر دی گئی ہے۔ جبکہ حالات کنٹرول سے باہر ہوجائیں۔ چناچہ ارشاد نبوی ہے۔ ان ابغض الحلال الی اللہ الطلاق (ابوداؤد۔ کتاب الطلاق) یعنی طلاق جائز اور حلال تو ہے مگر یہ اللہ کے ہاں سخت ناگوار چیز ہے۔ اب عورت اگر اپنے خاوند کے گھر میں رہے گی تو ان کے ملاپ، صلح صفائی، رضا مندی اور رجوع کی کئی صورتیں پیش آسکتی ہیں۔ جو عدت باہر گزارنے کی حالت میں ناممکن ہوجاتی ہیں۔- [٣] صریح برائی کے مختلف پہلو :۔ یعنی صریح برائی کی مرتکب ہوں تو انہیں گھر سے نکال دینے کی اجازت ہے۔ صریح برائی سے مراد زنا بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ قرآن میں زنا کے لئے یہ الفاظ متعدد مقامات پر استعمال ہوئے ہیں۔ اور نشوز بھی یعنی عورت کا ہر بات میں ضد اور کھینچا تانی کا رویہ اختیار کرنا اور مرد کی رائے کی بہرحال مخالفت پر آمادہ رہنا یا بدزبانی کرنا اور کرتے رہنا یعنی ایسے حالات پیدا کردینے سے مصالحت کے بجائے مزید بگاڑ اور تناؤ کی فضا بن جائے۔ اور یہ بدزبانی یا کھینچا تانی مرد سے بھی ہوسکتی ہے اور اس کے قریبی رشتہ داروں مثلاً اس کے والدین وغیرہ سے بھی اور اس سے چوتھی مراد بذات خود ایسی عورتوں کا گھر سے نکل جانا بھی ہے۔ یعنی عدت کے دوران عورتوں کے از خود مرد کے گھر سے نکل جانے کو ہی (فَاحِشَۃً مُّبَیِّنَۃً ) قرار دیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں بھی انہیں واپس گھر لے جانے کی ضرورت نہیں۔- [٤] اللہ کی حدوں کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے پہلے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے :- سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) نے اپنی بیوی (آمنہ بنت غفار) کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی۔ سیدنا عمر نے اس بات کا ذکر رسول اللہ سے کیا۔ آپ کو اس بات پر غصہ آگیا اور سیدنا عمر سے فرمایا کہ ابن عمر (رض) کو حکم دو کہ رجوع کرلے اور اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھے تاآنکہ وہ پاک ہو۔ پھر اسے حیض آئے۔ پھر وہ اس سے پاک ہو۔ پھر اگر طلاق ہی دینا چاہے تو دے دے لیکن طہر کی حالت میں دے اور اس دوران صحبت نہ کرے۔ یہ ہے وہ عدت جس کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ اور (طَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ ) سے یہی مراد ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) - خ طلاق دینے کا صحیح اور مسنون طریقہ :۔ اس حدیث میں طلاق دینے کا اور عدت کو ٹھیک طور پر شمار کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے اور اس سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں :- ١۔ حالت حیض میں طلاق دینا اتنا گناہ کا کام اور اللہ کی حد یا قانون کی خلاف ورزی ہے جس پر رسول اللہ کو غصہ آگیا۔ کیونکہ حیض کی حالت میں طلاق دینے سے تین قروء کا شمار درست طور پر نہیں سکتا خواہ قرء کو حیض کے معنی میں لیا جائے یا طہر کے معنی میں۔ طہر کے معنی میں لیا جائے تو طلاق کے بعد حیض کے بقایا ایام عدت سے زائد شمار ہوجاتے ہیں اور اگر حیض کے معنی میں لیا جائے تو سوال پیدا ہوگا کہ آیا اس حیض کو جس میں طلاق دی گئی ہے، شمار کیا جائے یا چھوڑ دیا جائے ؟ جو صورت بھی اختیار کی جائے وہ اللہ کے قانون کی خلاف ورزی ہی ہوگی۔- ٢۔ آپ کے الفاظ اسے حکم دو کہ رجوع کرلے سے معلوم ہوا کہ اگرچہ حیض کی حالت میں طلاق دینا خلاف سنت اور گناہ کا کام ہے۔ تاہم قانونی لحاظ سے وہ ایک طلاق شمار ہوجائے گی ورنہ رجوع کرنے کا کچھ مطلب ہی نہیں نکلتا۔ اسی بات پر قیاس کرتے ہوئے فقہاء کہتے ہیں کہ اگرچہ ایک ہی مجلس میں تین طلاق دیناخلاف سنت اور حرام ہے تاہم تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ قیاس کی حد تک تو ان کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے۔ مگر اس نص کی موجودگی میں کہ دور نبوی، دور صدیقی اور دور فاروقی کے ابتدائی دو سال تک ایک ہی مجلس میں دی ہوئی تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھی۔ (مسلم۔ کتاب الطلاق۔ باب طلاق الثلاث) اس قیاس کی چنداں وقعت باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ نص کی موجودگی میں قیاس کرنا ناجائز ہے۔- ٤۔ طلاق طہر کی حالت میں دینا چاہیے جس میں صحبت نہ کی گئی ہو، اور بہتر صورت یہی ہے طہر کے ابتدا میں طلاق دی جائے۔ البتہ غیر مدخولہ عورت کو طہر اور حیض دونوں صورتوں میں طلاق دی جاسکتی ہے۔ کیونکہ اس سے نہ نسب کے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور نہ وراثت کے۔ اسی طرح بےحیض عورت یا حاملہ عورت کو مباشرت کے بعد بھی طلاق دی جاسکتی ہے۔ کیونکہ ان صورتوں میں عدت کا کوئی مقصد مجروح یا مشکوک نہیں ہوتا۔- ٥۔ طلاق کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جس طہر میں مرد طلاق دینا چاہے اس میں صحبت نہ کرے۔ پھر ایک ہی بار کی طلاق کو کافی سمجھے اور پوری عدت گزر جانے دے۔ اس طرح عورت پر طلاق بائن واقع ہوجائے گی اور اس کے دو فائدے ہیں۔ ایک یہ کہ عدت کے آخری وقت تک مرد کو رجوع کا حق باقی رہتا ہے اور دوسرا یہ کہ طلاق واقع ہوجانے کے بعد بھی اگر فریقین رضامند ہوں تو تجدید نکاح کی گنجائش باقی رہتی ہے۔- خ طلاق کی تین قسمیں :۔ احناف کے ہاں طلاق کی تین اقسام ہیں۔ (١) احسن، (٢) حسن، (٣) بدعی (ہدایہ اولین۔ کتاب الطلاق۔ باب طلاق السنۃ) احسن تو یہی صورت ہے جو مندرجہ بالا حدیث میں مذکور ہے۔ اسے طلاق السنۃ بھی کہتے ہیں اور صحابہ کرام (رض) اسی طریق کو پسند فرماتے تھے اور طلاق حسن یہ ہے کہ ہر طہر میں مقاربت کیے بغیر ایک طلاق دے۔ یعنی ایک طہر میں پہلی، دوسرے طہر میں دوسری، اور تیسرے طہر میں تیسری۔ اس صورت میں تیسری طلاق دیتے ہی مرد کا حق رجوع ختم ہوجاتا ہے۔ جبکہ عدت ابھی باقی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں فریقین تجدید نکاح بھی نہیں کرسکتے۔ تاآنکہ عورت کسی دوسرے سے غیر مشروط نکاح کرے۔ پھر وہ نیا خاوند اپنی رضا مندی سے کسی وقت اسے طلاق دے دے یا مرجائے تو بعد میں عورت اپنے پہلے خاوند سے نکاح کرسکتی ہے۔ اس طریقہ طلاق کو عموماً شرعی طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن میری معلومات کی حد تک یہ طریقہ کسی مرفوع حدیث سے ثابت نہیں۔ اس کا ماخذ سیدنا عبداللہ بن عباس (رض) کی وہ رائے ہے جو مسند احمد ج ١ ص ٢٦٥ پر حدیث رکانہ کے آخر میں بایں الفاظ مذکور ہے۔ فکان ابن عباس یری انما الطلاق عندکل طھر یعنی ابن عباس (رض) کی رائے یہ تھی کہ تین طلاقیں ایک ساتھ نہیں بلکہ ہر طہر میں الگ الگ ہونی چاہئیں۔ اور امام شافعی اس طرح کی طلاق کو بھی خلاف سنت کہتے ہیں۔- خ بدعی طلاق کی صورتیں :۔ اور بدعی طلاق یہ ہے کہ کوئی شخص (١) بیک وقت تین طلاق دے دے، (٢) ایک طہر میں ہی الگ الگ موقعہ پر تین طلاقیں دے دے، (٣) حالت حیض میں طلاق دے اور (٤) ایسے طہر میں طلاق دے جس میں اس سے صحبت کی ہو۔ ان میں جو فعل بھی کرے گا، گنہگار ہوگا۔ واضح رہے کہ بدعی طریقہ طلاق کو سب فقہاء حرام سمجھتے ہیں۔- [٥] غیر شرعی طلاق کے نقصانات :۔ یعنی جو شخص بھی ان قوانین کی پابندی نہیں کرے گا اس کا کچھ نہ کچھ نقصان اسے دنیا میں پہنچ کے رہے گا۔ صحیح طور پر سنت کے مطابق طلاق نہ دینے سے عدت کی گنتی میں اختلاف بھی پیدا ہوگا۔ اور مشکل بھی پھر نسب اور وراثت کے مسائل بھی اٹھ کھڑے ہوں گے، حق رجوع کی عدت یا اس کا کچھ حصہ ساقط ہوجائے گا اور تجدید نکاح کی بھی بغیر تحلیل کے کوئی صورت باقی نہ رہے گی۔ اس آیت سے بھی بعض علماء نے یہ دلیل لی ہے کہ بیک وقت تین طلاق دینے سے تین ہی واقع ہوجاتی ہیں۔ ورنہ اگر اسے ایک ہی رجعی طلاق شمار کیا جائے اور اس کا حق رجوع باقی رہنے دیا جائے تو اس کو کیا نقصان پہنچا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دلیل بھی بہرحال ایک قیاس ہے۔ اور نص کے مقابلہ میں قیاس کی کچھ حقیقت نہیں ہوتی۔- خ بیک وقت تین طلاق دینا گناہ کبیرہ اور حرام ہے :۔ رہی اس کے نقصان کی بات تو کیا یہ تھوڑا نقصان ہے کہ وہ ایک حرام کام اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا ہے اور اس بات پر سب فقہاء کا اتفاق ہے اور یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ دور نبوی میں ایک شخص نے بیک وقت تین طلاقیں دیں تو آپ یہ سن کر غصہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میری موجودگی میں کتاب اللہ سے اس طرح کا تلاعب اور مذاق ؟ یہاں تک کہ ایک شخص کھڑا ہو کر کہنے لگا : یارسول اللہ میں اسے قتل نہ کردوں (نسائی۔ کتاب الطلاق۔ باب الطلاق الثلاث المجموعۃ ومافیہ من التغلیظ) علاوہ ازیں یہ انداز فکر ہی درست نہیں کہ جسے کسی گناہ کبیرہ کے ارتکاب پر دنیا میں کوئی سزا نہ ملے یا اس کا کوئی نقصان نہ ہو وہ اپنے نفس پر کچھ ظلم نہیں کرتا۔ بلکہ اصل نقصان تو آخرت کا نقصان ہے۔
١۔ یٰٓـاَیُّھَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ ۔۔۔۔: یہاں ایک سوال ہے کہ پہلے ” یایھا النبی “ کے ساتھ صرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کیا ، پھر ” اذا طلقتم “ میں جمع کے صیغے کے ساتھ خطاب کیوں کیا گیا ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ چونکہ طلاق کے احکام میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت دونوں مشرک ہیں ، اس لیے آپ کو اور آپ کی امت دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے ” اذا طلقتم “ فرمایا ، مگر پہلے خاص طور پر آپ کو خطاب آپ کی تعظیم کے لیے ہے ، جیسے کسی قوم کے سردار سے کہا جاتا ہے ، اے فلاں تم ایسا کرو ، یعنی تم اور تمہاری قوم ایسا کرو ۔ گویا یوں فرمایا کہ اے نبی جب تم لوگ طلاق دو ، یعنی آپ اور آپ کی امت طلاق دے۔- ٢۔” اذا طلقتم “ ( جب تم طلاق دو ) سے مراد یہ ہے کہ جب تم طلاق کا ارادہ کرو ، جیسا کہ سورة ٔ مائدہ کی آیت (٦) ” اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ “ میں ہے۔- ٣۔” النسائ “ سے مراد صرف وہ عورتیں ہیں جن کے ساتھ نکاح کے بعد دخول ہوچکا ہو ، کیونکہ جن عورتوں کو دخول سے پہلے طلا ق دے دی جائے ان کی کوئی عدت نہیں ۔ (دیکھئے سورة ٔ احزاب : ٤٩) ۔- ٤۔ فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ : جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو یہ نہیں کہ جب چاہو طلاق دے دو ، بلکہ ان کی عدت کے وقت طلاق دو ، یعنی جب عورت حیض سے پاک ہو تو طہر کی حالت میں جماع کے بغیر طلاق دو ، تا کہ اس کی عدت کسی کمی یا زیادتی کے بغیر پوری ہو ، کیونکہ اگر تم حالت حیض میں طلا ق دو گے تو اگر اس حیض کو عدت میں شمار کرو تو عدت تین حیض سے کم رہ جائے گی اور اگر شمار نہ کرو تو تین حیض سے زیادہ ہوجائے گی ، کیونکہ بعد میں آنے والے تین حیضوں کے ساتھ اس حیض کے وہ ایام بھی شامل ہوں گے جو طلاق کے بعد باقی ہوں گے ۔ اسی طرح اگر تم انہیں ایسے طہر میں طلاق دو گے جس میں ان کے ساتھ جماع کیا ہے تو ممکن ہے کہ حمل قرار پا جائے ، اس صورت میں معلوم نہیں ہو سکے گا کہ اس کی عدت کے لیے تین حیض کا اعتبار ہوگا یا وضع حمل کا ۔ عبد اللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دی جب وہ حیض کی حالت میں تھی ، عمر (رض) نے اس کا ذکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( مرہ فلیرا جعھا ، ثم لیمسکھا حتیٰ تطھر ثم تحیض ، ثم تطھر ، ثم ان شاء امسک بعد وان شاء طلاق قبل ان یمس ، فتلک العدۃ النبی امر اللہ ان طلق لھا النسائ) ( بخاری ، الطلاق ، باب قول اللہ تعالیٰ :( یایھا النبی ۔۔۔۔ ) ٥٢٥١)” اسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کرے ، پھر اسے اپنے پاس رکھے یہاں تک کہ وہ پاک ہو ، پھر اسے حیض آئے ، پھر پاک ہو ، پھر اگر چاہے تو اپنے پاس رکھے اور اگر چاہے تو چھونے سے پہلے طلاق دے دے ، کیونکہ یہ ہے وہ عدت جس کے وقت اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ “ اگر عورت حاملہ ہو تو اسے کسی بھی وقت طلاق دی جاسکتی ہے ، کیونکہ اس کی عدت وضع حمل معلوم اور واضح ہے ، جیسا کہ آگے ” واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن “ میں آرہا ہے۔- ٥۔ اللہ تعالیٰ نے طلاق کے لیے یہ وقت اس لیے مقرر فرمایا ہے کہ جہاں تک ہو سکے میاں بیوی کا تعلق قائم رہے ، اگر کبھی آدمی کو غصہ آئے تو فوراً طلاق نہ دے بلکہ اس وقت کا انتظار کرے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اتنی دیر میں غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا اور حیض سے فراغت کے بعد خاوند کو بیوی کی طرف جو رغبت ہوتی ہے وہ طلاق سے باز رکھنے کا باعث ہوگی ۔ اسی طرح حمل کی حالت خاوند کو طلاق سے روکنے کا باعث ہے ، کیونکہ آنے والے مہمان کی امید اسے اس اقدام سے باز رکھنے والی ہے۔ ان دونوں وقتوں میں طلاق دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ طلاق کسی وقتی اشتعال کی وجہ سے نہیں بلکہ خوب سوچ سمجھ کردی جا رہی ہے ، اس کے بعد عدت کی صورت میں ایک خاصی مدت تک دونوں کو ایک گھر میں رہنے کا حکم دیا گیا ، ہوسکتا ہے کہ ان کا تعلق باقی رہنے کی کوئی صورت نکل آئے ۔ افسوس مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی پرواہی نہیں کی ، ( الاماشاء اللہ) حالانکہ اگر وہ طلاق کے لیے اس وقت کا انتظار کرتے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے تو طلاق کی نوبت ہی بہت کم آتی ، پھر عدت کی برکت سے دوبارہ رجوع کی بھی بہت امید تھی۔- ٦۔ ایک وقت میں صرف ایک طلاق دینا ہی جائز ہے ، اس سے زیادہ دینا حرام ہے۔ اگر کوئی شخص ایک وقت میں ایک سے زیادہ طلاقتیں دے دے تو صرف ایک طلاق ہوگی ۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ بقرہ (٢٢٩، ٢٣٠) کی تفسیر۔- ٧۔ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ :” احصیٰ یحصمی “ اچھی طرح شمار کرنا ، گننا ۔ یہ ” حصی “ ( کنکریاں) سے مشتق ہے۔ عرب امی تھے ، جب انہیں ایسی چیز گننا ہوتی جو تعداد میں زیادہ ہوتی تو ہر ایک کے لیے ایک کنکری رکھتے جاتے ، آخر میں کنکریوں کو گن لیتے ۔” العدۃ “ ( بروزن فعلۃ) بمعنی ’ ’ معدود “ ہے ، گنے ہوئے دن ، جیسے ” طحن “ بمعنی ’ ’ مطحون “ ( پسا ہوا آٹا) ہے۔ یعنی وہ دن جن کے گزر جانے کے بعد کسی اور شخص سے نکاح حلال ہوجاتا ہے۔ اس پر ’ ’ الف لام “ عہد کا ہے ، یعنی وہ عدت جو دوسری آیات میں بتائی گئی ہے۔ ( دیکھئے بقرہ : ٢٢٨۔ طلاق : ٤) عدت کو اچھی طرح گننے کا حکم اس لیے دیا کہ ایسا نہ ہو کہ عدت گزرنے کے بعد بھی تم رجوع کرلو یا عدت گزرنے سے پہلے عورت کسی اور مرد سے نکاح کرلے ، جب کہ یہ دونوں کا م ناجائز ہیں۔- ٦۔ وَاتَّقُوا اللہ رَبَّکُم : ذاتی نام ” اللہ “ اور وصفی نام ” رب “ کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ سے ، جو ہر لمحے انسان کی پرورش کر رہا ہے ، ڈرانے کا حکم دیا ، یعنی ان ایام میں طلاق دینے سے اللہ سے ڈرتے رہو جن میں طلاق دینا ممنوع ہے ، کیونکہ اس میں اللہ کی نافرمانی بھی ہے اور عورت کو اذیت رسانی بھی ۔ اسی طرح عدت کے ایام میں عورتوں کو گھروں سے نکالنے سے بھی ڈرو۔- ٩۔ لَا تُخْرِجُوْھُنَّ مِنْم بُیُوْتِہِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ :” بیوتھـن “ سے مراد خاندوں کے گھر ہیں جن میں عورتیں رہ رہی ہیں، ان میں رہنے کی وجہ سے انہیں ان کے گھر فرمایا ہے۔ یعنی عورت کے لیے عدت کے ایام خاوند کے گھر میں گزارنا ضروری ہے ، نہ خاوندوں کو انہیں ان کے گھروں سے نکالنے کی اجازت ہے نہ انہیں خود ان سے نکل جانے کی ۔ اس کی حکمت آگے ” لَعَلَّ اللہ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا “ میں بیان فرمائی کہ اتنی مدت ایک گھر میں اکٹھے رہنے سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی باہمی صلح اور رجوع کی کوئی صورت پیدا فرما دے گا ۔ اگر وہ دونوں ایک دوسرے سے اسی وقت الگ ہوگئے اور ملاقات کا موقع ہی نہ رہا تو رجوع کا معاملہ بہت مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا خوف دلا کر نہایت تاکید کے ساتھ یہ حکم دیا ہے ، مگر مسلمانوں نے کم ہی اس کی پرواہ کی ہے ، شاید ہی کوئی ایسا مرد ہو جو طلاق کے بعد عورت کو اپنے گھر میں رہنے دے یا کوئی ایسی عورت ہو جو وہاں رہے۔- ١٠۔ الاان یاتین بفاحشۃ مبینۃ : ’ ’ فاحشۃ “ کوئی بھی قول یا فعل جس میں بہت بڑی قباحت ہو۔” مبینۃ “ کھلی اور واضح ۔” بفاحشۃ مبینۃ “ میں زنا ، چوری وغیرہ کے علاوہ عورت کا خاوند سے یا اس کے اہل خانہ سے بد زبانی اور گالی گلوچ کرنا بھی شامل ہے ۔ طبریٰ نے محمد بن ابراہیم کی حسن سند کے ساتھ ابن عباس (رض) سے نقل فرمایا ہے ، انہوں نے فرمایا :( الفاحشۃ ان تبذو علی اھلھا)” فاحشہ یہ ہے کہ گھر والوں پر زبان درازی کرے “۔- ١١۔ وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللہ ِط وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہ ِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہ : یعنی وہ مرد جو عورت کو اس وقت طلاق دیتا ہے جب طلاق دینے کا وقت نہیں ، یا عدت میں عورت کو گھر سے نکال دیتا ہے ، یا عدت میں عورت کو گھر سے نکال دیتا ہے ، یا وہ عورت جو خود ہی نکل جاتی ہے ، یہ نہ سمجھیں کہ وہ معمولی خطا کر رہے ہیں ، بلکہ وہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں پھلانگ رہے ہیں اور جو اللہ کی حدیں پھلانگتا ہے یقینا وہ اپنی جان پر ظلم کر رہا ہے۔- ١٢۔ لا تدری لعل اللہ یحدیث بعد ذلک اترا : یعنی طلاق کے بعد عورت کو عدت کے دوران خاوند کے گھر میں رہنے کا حکم اس لیے ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ اس کے بعد ان کی باہمی موافقت کی کوئی صورت پیدا فرما دے اور خاوند اس سے رجوع کرلے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ خاوند کے گھر میں رہ کر عدت گزارنے کا حکم اس طلاق میں ہے جس سے رجوع ہوسکتا ہو اور وہ صرف پہلی اور دوسری طلاق ہے ، ان دونوں کو رجعی طلاق کہتے ہیں ، ان کی عدت کے دوران عورت کی رہائش اور نفقہ خاوند کے ذمے ہے ۔ رہی تیسری طلاق کی عدت ، تو اگرچہ عورت اس کے دوران آگے نکاح نہیں کرسکتی مگر خاوند رجوع بھی نہیں کرسکتا ، اس لیے اس کے دوران اس کی رہائش نہ صرف یہ کہ خاوند کے ذمے نہیں بلکہ اس کا خاوند کے ساتھ اس کے گھر میں رہنا ہی ٹھیک نہیں ، کیونکہ اس میں سابقہ بےتکلفی کی وجہ سے ان کے حد سے تجاوز کا خطرہ ہے جب کہ وہ عورت اس کے لیے حلال نہیں ، جیسا کہ فرمایا :(فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَہٗ مِنْم بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ ) ( البقرہ : ٢٣٠)” پھر اگر وہ اسے (تیسری) طلاق دے دے تو اس کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہیں ہوگی، یہاں تک کہ اس کے علاوہ کسی اور خاوند سے نکاح کرے “۔ اگرچہ بہت سے ائمہ نے اس کی رہائش خاوند کے ذمے قرار دی ہے ، مگر اس آیت کے مطابق اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحیح حدیث کے مطابق تیسری طلاق کے بعد اس کی رہائش خاوند کے ذمے نہیں ہے ۔ فاطمہ بنت قیس (رض) فرماتی ہیں :( انہ طلقھا زوجھا فی عھد النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و کان انفق علیھا نفقہ دون فلما رات ذلک قالت واللہ الا علمن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فان کان لی نفقہ اخذت الذی یصلحنی وان لم تکن لی نفقۃ لم آخذ منہ شیائ، قالت فذکرت ذلک لرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقال لا نفقۃ لک ولا سکنی) (مسلم ، الطلاق ، باب المطلقۃ البائن لا نفقۃ لھا : ٣٧، ١٤٨٠)” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ان کے خاوند نے انہیں طلاق دے دی اور انہیں معمولی خرچہ دیا ۔ جب انہوں نے یہ دیکھا تو کہا : ” اللہ کی قسم میں یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم میں لاؤں گی ، پھر اگر میرے لیے خرچہ ہوا تو اتنا لوں گی جو میری حالت درست رکھ سکے اور اگر میرے لیے خرچہ نہ ہوا تو میں کچھ بھی نہیں لوں گی “۔ فرماتی ہیں ، میں نے یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تیرے لیے نہ خرچہ ہے نہ رہائش “ ۔ یاد رہے کہ صحیح مسلم کے اسی باب کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ ان کے خاوند نے انہیں تیسری طلاق دے دی تھی۔
خلاصہ تفسیر - اے پیغمبر (آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ) جب تم لوگ (ایسی) عورتوں کو طلاق دینے لگو (جب کے ساتھ خلوت ہوچکی ہے کیونکہ عدت کا حکم ایسی عورتوں سے متعلق ہے جیسا کہ دوسری آیت میں ہے ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فمالکم علیھن من عدة) تو ان کو (زمانہ) عدت (یعنی حیض) سے پہلے (یعنی طہر میں) طلاق دو (اور یہ احادیث صحاح سے ثابت ہے کہ اس طہر میں صحبت نہ ہو جس میں طلاق دینا ہے) اور (طلاق دینے کے بعد) تم عدت کو یاد رکھو (یعنی مرد و عورت سب یاد رکھیں، لیکن خطاب میں تخصیص صیغہ مذکر کی اشارہ اس طرف ہے کہ عورتوں میں غفلت غالب ہوتی ہے تو مردوں کو بھی اس کا اہتمام رکھنا چاہئے، کما فی المدارک) اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے (یعنی ان ابواب میں جو اس کے احکام ہیں ان کے خلاف نہ کرو۔ مثلاً یہ کہ تین طلاق دفعتہ مت دو اور یہ کہ حالت حیض میں طلاق مت دو جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے اور یہ کہ عدت میں) ان عرتوں کو ان کے (رہنے کے) گھروں سے مت نالو (کیونکہ سکنی یعنی حق سکونت مطلقہ کا مثل منکوحہ کے واجب ہے) اور نہ وہ عورتیں خود نکلیں (کیونکہ یہ سکنی محض شوہر کا حق نہیں ہے جو اس کی رضاء سے ساقط ہوجاوے بلکہ حق الشرع ہے) مگر ہاں کوئی کھلی بیحیائی کریں تو اور بات ہے (یعنی مثلاً مرتکب بدکاری یا سرقہ کی ہوں تو سزا کے لئے نکالی اجویں یا بقول بعض علماء زبان درازی اور ہمہ وقت کا تکرار رکھتی ہوں تو ان کو نکال دینا جائز ہے) اور یہ سب خدا کے مقرر کئے ہوئے احکام ہیں اور جو شخص احکام خداوندی سے تجاوز کرے گا (مثلاً اس عورت کو گھر سے نکال دیا) اس نے اپنے اوپر ظلم کیا (یعنی گناہگار ہوا آگے طلاق دینے والے کو ترغیب دیتے ہیں کہ طلاق میں طلاق رجعی بہتر ہے پس ارشاد ہے کہ اے طلاق دینے والے) تجھ کو خبر نہیں شاید اللہ تعالیٰ بعد اس (طلاق دینے) کے کوئی نئی بات (تیرے دل میں) پیدا کر دے (مثلاً طلاق پر ندامت ہو تو طلاق رجعی میں اس کا تدارک آسانی سے ہو سکے گا) پھر جب وہ [ مطلقہ) عورتیں (جبکہ ان کو طلاق رجعی دی ہو بقرینہ فامسکوہن) اپنی عدت گزرنے کے قریب پہنچ جاویں (اور عدت ختم نہیں ہوئی) تو (تم کو دو اختیار ہیں یا تو) ان کو قاعدہ کے موافق (رجعت کر کے) نکاح میں رہنے دو یا قاعدہ کے موافق ان کو رہائی دو (یعنی انقضائے عدت تک رجعت نہ کرو مطلب سے رجعت کرلو) اور (جو کچھ بھی کرو مرافقت یا مفارقت اس پر) آپس میں سے دو معتبر شخصوں کو گواہ کرلو۔ (یہ مستحب ہے کذا فی الہدایہ والنہایہ رجعت میں تو اس لئے کہ بعد انقضائے عدت کبھی عورت اختلاف کرچکا تھ) اور (اے گواہو اگر گواہی کی حاجت پڑے تو) تم ٹھیک ٹھیک اللہ کے واسطے (بلا رو رعایت) گواہی دو ۔ اس ضمن سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ پر اور یوم قیامت پر یقین رکھتا ہو (مطلب یہ کہ ایماندار ہی نصائح سے منتفع ہوتے ہیں اور یوں تو نصائح سب کے لئے عام ہیں) اور (اوپر جو تقویٰ کا حکم ہے احکام کے بعد اس کی متعدد فضیلتیں ارشاد فرماتے ہیں، اول فضیلت یہ کہ) جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے (مضرتوں سے) نجات کی شکل نکال دیتا ہے اور (منافع عطا فرماتا ہے چنانچہا یک بڑی منفعت ہے رزق، سو) اس کو ایسی جگہ سے رز پہنچاتا ہے جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا، اور (ایک شعبہ اس تقویٰ کا توکل ہے اس کی یہ خاصیت ہے کہ) جو شخص اللہ پر توکل کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس (کی اصلاح مہمات) کے لئے کافی ہے (یعنی اپنی کفایت کا اثر خاص اصلاح مہمات میں ظاہر فرماتا ہے ورنہ اس کی کفایت تو تمام عالم کے لئے عام ہے اور یہ اصلاح مہمات بھی عام ہے حساً ہو یا باطنا ہو کیونکہ) اللہ تعالیٰ اپنا کام ( جس طرح چاہتا ہے) پورا کر کے رہتا ہے (اور اسی طرح اصلاح مہمات کا وقت بھی اسی کے ارادہ پر ہے کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے ہر شئے کا ایک انداز (اپنے علم میں) مقرر کر رکھا ہے (اور اسی کے موافق اس کو واقع کرنا قرین حکمت ہوتا ہے آگے پھر عود ہے احکام کی طرف یعنی اوپر تو عدت کا اجمالاً ذکر تھا) اور (تفصیل اس کی آگے ہے وہ یہ کہ) تمہاری (مطلقہ) بیبیوں میں سے جو عورتیں (بوجہ زیادت عمر کے) حیض آنے سے ناامید ہوچکی ہیں اگر تم کو (ان کی عدت کے تعین میں) شبھہ ہو (جیسا کہ واقع میں شبھہ ہوا تھا اور پوچھا تھا) تو ان کی عدت تین مہینے ہیں اور اسی طرح جن عورتوں کو (اب تک بوجہ کم عمر کے) حیض نہیں آیا (ان کی عدت بھی تین مہینے ہیں) اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کے اس حمل کا پیدا ہوجانا ہے (خواہ کامل ہو یا ناقص بشرطیکہ کوئی عضو بن گیا ہو گو ایک انگلی ہی سہی) اور (چونکہ تقویٰ خود بھی مہتم بالشان ہے اور احکام مذکورہ میں جو کہ متعلق بمعاملات دنیا ہیں عام طبائع میں خیال ہوسکتا ہے کہ ان دنیوی معاملات کو دین سے کیا تعلق ہم جس طرح چاہیں کرلیں اس لئے آگے پھر تقویٰ کا مضمون ہے یعنی جو شخص اللہ سے ڈریگا اللہ تعالیٰ اس کے ہر کام میں آسانی کر دے گا (آخرت کی یا دنیا کی ظاہراً یا باطناً ، آگے پھر تاکید امتثال احکام کے لئے ارشاد ہے کہ) یہ (جو کچھ مذکور ہوا) اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمہارے اس بھیجا ہے اور جو شخ (ان معاملات میں اور دوسرے امور میں بھی) اللہ تعالیٰ سے ڈریگا اللہ تعالیٰ اس کے گناہ دور کر دے گا (جو سب سے بڑی مضرت سے نجات ہے) اور اس کو بڑ اجر دے گا ( جو سب سے بڑی منفعت کا حصول ہے، آگے پھر مطلقات کے احکام کا بیان ہے یعنی عدت میں علاوہ عدم تطویل عدت اور حق سکنیٰ کے ان کے کچھ اور حقوق بھی ہیں وہ یہ کہ) تم ان (مطلقہ) عورتوں کو اپنی وسعت کے موافق رہنے کا مکان دو جہاں تم رہتے ہو (یعنی عدت میں سکنی بھی مطلقہ کا واجب ہے البتہ طلاق بائن میں ایک مکان میں خلوت کے ساتھ دونوں کا رہنا جائز نہیں بلکہ پردہ حائل ہونا ضرور ہے) اور ان کو تنگ کرنے کے لئے (سکنی کے بارے میں) تکلیف مت پہنچاؤ (مثلاً کوئی ایسی بات کرنے لگو جس سے وہ پریشان ہو کر نکل جائیں) اور اگر وہ (مطلقہ) عورتیں حمل والیاں ہوں تو حمل پیدا ہونے تک ان کو (کھانے پینے کا) خرچ دو (بخلاف غیر حمل والیوں کے کہ ان کے نفقہ کی حد تین حیض یا تین ماہ ہیں اور یہ احکام تو عدت کے متعلق تھے) پھر اگر (عدت کے بعد) وہ (مطلقہ) عورتیں حمل والیاں ہوں تو حمل پیدا ہونے اور یہ احکام تو عدت کے متعلق تھے) پھر اگر (عدت کے بعد) وہ (مطلقہ) عورتیں (جبکہ پہلے سے بچہ والیاں ہوں یا بچہ ہی پیدا ہونے سے ان کی عدت ختم ہوئی ہو) تمہارے لئے (بچہ کو اجرت پر) دودھ پلا دیں تو تم ان کو (مقررہ) اجرت دو اور (اجرت کے بارے میں) باہم مناسب طور پر مشورہ کرلیا کرو (یعنی نہ تو عورت اس قدر زیادہ مانگے کہ مرد کو دوسری انا ڈھونڈھنی پڑے اور نہ مرد اس قدر کم دینا چاہے کہ عورت کا کام نہ چل سکے بلکہ حتی الامکان دونوں اس کا خیال رکھیں کہ ماں ہی دودھ پلاوے کہ بچہ کی اس میں زیادہ مصلحت ہے) اور اگر تم باہم کشمکش کرو گے تو کوئی دوسری عورت دودھ پلاوے گی (مقصود اس خبر سے امر ہے یعنی اور کسی انا کو تلاش کرلیا جاوے نہ ماں کو جبور کیا جاوے نہ باپ کو اور صورة خبر میں یہ نکتہ ہے کہ مرد کو کم اجرت تجویز کرنے پر عتاب ہے کہ آخر کوئی عورت پلاوے گی اور وہ بھی غالباً بہت کم نہ لے گی پھر یہ کمی ماں ہی کے لئے کیوں تجویز کی جاوے اور عورت کو زیادہ اجرت مانگنے پر عتاب ہے کہ تو نہ پلاوے گی اور کوئی میسر ہو جاویگی کیا دنیا میں ایک تو ہی ہے جو اس قدر گراں بنتی ہے آگے بچہ کے نفقہ کے بارے میں ارشاد ہے کہ) وسعت والے کو اپنی وسعت کے موافق (بچہ پر) خرچ کرنا چاہئے اور جس کی آمدنی کم ہو تو اس کو چاہئے کہ اللہ نے اس کو جتنا دیا ہے اس میں سے خرچ کرے (یعنی امیر آدمی اپنی حیثیت کے موافق خرچ اٹھاوے اور غریب آدمی اپنی حیثیت کے موافق کیونکہ) اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا جتنا اس کو دیا ہے (اور تنگدست آدمی خرچ کرتا ہوا اس سے نہ ڈرے کہ خرچ کرنے سے بالکل ہی کچھ نہ رہے گا جیسا بعضے آدمی اس خوف سے اولاد کو قتل کر ڈالتے ہیں پس ارشاد ہے کہ) خدا تعالیٰ تنگی کے بعد جلدی فراغت بھی دے گا (گو بقدر ضرورت و حاجت روائی سہی، و ہذا کقولہ تعالیٰ ولاتفتلوا ولا دکم خشیہ املاق نحن نور فھم وایاکم) - معارف و مسائل - نکاح و طلاق کی شرعی حیثیت اور ان کا حکیمانہ نظام :۔ معارف القرآن جلد اول ص ٠٥ میں سورة بقرہ کی تفسیر میں اسی عنوان مذکور کے تحت میں پوری تفصیل لکھی جا چکی ہے اس کو ملاحظہ فرمالیں جس کا خلاص ہیہ ہے کہ نکاح و طلاق کا معاملہ ہر مذہب و ملت میں عام معاملات بیع و شراء اور اجارہ کی طرح نہیں کہ طرفین کی رضا مندی سے جس طرح چاہیں کرلیں بلکہ ہر مذہب و ملت کے لوگ ہمیشہ سے اس پر متفقہ ہیں کہ ان معاملات کو ایک خاص مذہبی تقدس حاصل ہے اسی کی ہدایت کے تحت یہ کام سر انجام پانے چاہئیں۔ اہل کتاب یہود و نصاریٰ تو بہرحال ایک آسمانی دین اور آسمانی کتاب سے نسبت رکھتے ہیں ان میں سینکڑوں تحریفات کے باوجود اتنی قدر مشترک اب بھی باقی ہے کہ ان معاملات میں کچھ مذہبی حدود وقیود کے پابند ہیں۔ کفار و مشرکین جو کوئی آسمانی کتاب اور مذہب نہیں رکھتے مگر کسی نہ کسی صورت میں اللہ تعالیٰ کے قائل ہیں جیسے ہندو، آریہ، سکھ، محبوس، آتش پرست، نجوم پرست لوگ وہ بھی نکاح و طلا کے معاملات کو عام معاملات بیع و شراءیا اجارہ کی طرح نہیں سمجھتے ان کے یہاں بھی کچھ مذہبی رسوم ہیں جن کی پابندی ان معاملات میں لازم سمجھتے ہیں اور انہیں اصول و رسوم پر تمام مذاہب و فرق کے عائلی قوانین چلتے ہیں۔- صرف دہر یہ اور لامذہب منکر خدا لوگوں کا ایک فرقہ ہے جو خداو مذہب ہی سے بیزار ہے وہ ان چیزوں کو بھی اجارہ کی طرح باہمی رضامندی سے طے ہوجانے الا ایک معاملہ قرار دیتے ہیں جس کا مقصد اپنے شہوانی جذبات کی تسکین سے آگے کچھ نہیں۔ افسوس ہے کہ آج کل دنیا میں یہی نظریہ عام ہوتا جاتا ہے جس نے انسانوں کو جنگل کے جانوروں کی صف میں کھڑا کردیا ہے۔ انا للہ والیہ المشتکے - شریعت اسلام ایک مکمل اور پاکیزہ نظام حیات کا نام ہے۔ اس میں نکاح کو صرف ایک معاملہ اور معاہدہ نہیں بلکہ ایک گونہ عبادت کی حیثیت بخشی ہے جس میں خالق کائنات کی طرف سے انسانی فطرت میں رکھے ہوئے شہوانی جذبات کی تسکین کا بہترین اور پاکیزہ سامان بھی ہے اور مرد و عورت کے ازدواجی تعلقات سے جو عمرانی مسائل بقائے نسل اور تربیت اولاد کے متعلق ہیں ان کا بھی معتدلانہ اور حکیمانہ بہترین نظام موجود ہے۔- اور چونکہ معاملہ ازدواج کی درستی پر عام نسل انسانی کی درستی موقوف ہے اس لئے قرآن کریم میں ان عائلی مسائل کو تمام دوسرے معاملات سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ قرآن کریم کو بغور پڑھنے والا یہ عجیب مشاہدہ کرے گا کہ دنیا کے عام معاشی مسائل میں سب سے اہمت تجارت شرکت اجارہ وغیرہ۔ قرآن حکیم نے ان کے تو صرف اصول بتلانے پر اکتفا فرمایا ہے ان کے فروعی مسائل قرآن میں شاذ و نادر ہیں۔ بخلاف نکاح و طلاق کے کہ ان میں صرف اصول بتلانے پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ ان کے بیشتر فروع اور زئیات کو بھی براہ راست حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں نازل فرمایا ہے۔- یہ مسائل قرآن کی اکثر سورتوں میں متفرق اور سورة نساء میں کچھ زیادہ تفصیل سے آئے ہیں یہ سورت جو سورة طلاق کے نام سے موسوم ہے اس میں خصوصیت سے طلاق اور عدت وغیرہ کے احکام کا ذکر ہے اسی لئے بعض روایات حدیث میں اس کو سورة نساء صغریٰ بھی کہا گیا ہے یعنی چھوٹی سورة نسائ (قرطبی بحوالہ بخاری) - اسلامی اصول کا رخ یہ ہے کہ جن مرد و عورت میں اسلامی اصول کے مطابق ازدواجی تعلق قائم ہو وہ پائیدا اور عمر بھر کا رشتہ ہو جس سے ان دونوں کا دنیا و دنیا بھی درست ہو اور ان سے پیدا ہونے والی اولاد کے اعمال و اخلاق بھی درست ہوں۔ اسی لئے نکاح کے معاملے میں شروع سے آخر تک ہر قدم پر اسلام کی ہدایات یہ ہیں کہ اس تعلق کو تلخیوں اور رنجشوں سے پاک صاف رکھنے کی اور اگر کبھی پیدا ہوجائے تو ان کے ازالہ کی پوری کوشش کی گی ہے۔ لیکن ان تمام کوششوں کے باوجودبعض اوقات طرفین کی زندگی کی فلاح اسی میں منحصر ہوجاتی ہے کہ یہ تعلق ختم کردیا جائے جن مذاہب میں طلاق کا اصول نہیں ہے ان میں ایسے اوقات میں سخت مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور بعض اوقات انتہائی برے نتائج سامنے آتے ہیں اس لئے اسلام نے قانین نکاح کی طرح طلاق کے بھی اصول و قواعد مقرر فرمائے مگر ساتھ ہی یہ ہدایات بھی دیدیں کہ طلاق اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت مبغوض و مکروہ کام ہے جہاں تک ممکن ہو اس سے پرہیز کرنا چاہئے، حدیث میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمر منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حلال چیزوں میں سب سے زیادہ مبغوض اللہ کے نزدیک طلاق ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تزوجواہ تطلقوافان الطلاق یھتزمنہ عرش الرحمٰن یعنی نکاح کرو اور طلاق نہ دو کیونکہ طلاق سے عرش رحمن ہل جاتا ہے اور حضرت ابوموسی کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عورتوں کو طلاق نہ دو بغیر کسی بدکاری کے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان مردوں کو پسند نہیں کرتا جو صرف ذائقہ چکھنے والے ہیں اور ان عورتوں کو پسند نہیں کرتا جو صرف ذائقہ چکھنے والی ہیں (قرطبی بروایت ثعلبی) اور دارقطنی نے حضرت معاذ بن جبل سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ نے زمین پر جو کچھ پیدا فرمایا ہے ان سب میں اللہ کے نزدیک محبوب غلاموں کو آزاد کرنا ہے اور جتنی چیزیں زمین پر پیدا کی ہیں ان سب میں مبغوض و مکروہ طلاق ہے (از قرطبی) - بہرحال اسلام نے اگرچہ طلاق کی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ تابمقدور اس سے روکا ہے لیکن بعض ضرورت کے مواقع میں اجازت دی تو اس کے لئے کچھ اصول و قواعد بنا کر اجازت دی۔ جن کا حاصل یہ ہے کہ اس رشتہ ازدواج کو ختم ہی کرنا ضروری ہوجائے تو وہ بھی خوبصورتی اور حسن معاملہ کے ساتھ انجام پائے محض غصہ نکالنے اور انتقامی جذبات کا کھیل بنانے کی صورت نہ بننے پائے۔ اس سورت میں احکام طلاق کو اس طرح شروع کیا گیا کہ اول رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ کے عنوان سے خطاب کیا گیا جو امام قرطی کے بیان کے مطباق ان مواقع میں اسعتمال ہوتا ہے جہاں حکم تمام امت کے لئے عام اور جس جگہ کوئی حکم رسول کی ذات سے متعلق ہوتا ہے تو وہاں یایھا الرسول سے خطاب کیا جاتا ہے۔- اس جملہ يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ کا تقاضا یہ تھا کہ آگے بھی بصیغہ مفرد احکام کا بیان ہوتا مگر یہاں اس کے خلاف بصیغہ جمع خطاب فرمایا اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗء جو اگرچہ بلاواسطہ خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے اور بصیغہ جمع خطاب کرنے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم و تکریم بھی ہے سات ھہی اس طرف اشارہ بھی کہ یہ حکم آپ کے لئے مخصوص نہیں تمام امت اس میں شریک ہے۔- اور بعض حضرات نے اس جگہ جملہ محذوف قرار دے کر آیت کی تفسیر یہ کی ہے يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗ یعنی اے نبی آپ مسلمانوں کو بتلا دیں کہ جب وہ طلاق دیا کریں تو آگے بیان کئے ہوئے قانون کی پابندی کریں۔ اوپر خلاصہ تفسیر میں اسی کو اختیار کیا گیا ہے۔ آگے بعض احکام طلاق کا بیان ہے۔- پہلا حکم :۔ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِن عدت کے لفظی معنے عدد شمار کرنے کے ہیں۔ شرع اصطلاح میں اس مدت کو کہا جاتا ہے جس میں عورت ایک شوہر کے ناح سے نکلنے کے بعد دوسرے نکاح سے ممنوع ہوتی ہے۔ اس مدت انتظار کو عدت کہا جاتا ہے اور کسی شوہر کے نکاح سے نکلنے کی صورتیں دو ہوت ہیں ایک یہ کہ شوہر کا انتقال ہوجائے، اس کی عدت کو عدت وفات کہا جاتا ہے جو غیر حاملہ کے لئے چار ماہ دس دن مقرر ہے۔ دوسری صورت نکاح سے نکلنے کی طلاق ہے۔ عدت طلاق غیر حاملہ عورت کے لئے امام اعظم ابوحنفہ اور بعض دوسرے ائمہ کے نزدیک تین حیض پورے ہیں اور امام شافعی اور بعض دوسرے ائمہ کے نزدیک تین طہر عدت طلاق ہے بہرحال اس کے لئے کچھ ایام یا مہینے مقرر نہیں جتنے مہینوں میں تین حیض یا تین طہر پورے ہوجاویں وہ ہی عدت طلاق ہوگی اور جن عورتوں کو ابھی کم عمری کی وجہ سے حیض نہیں آیا یا زیادہ عمر ہوجانے کے سبب حیض منقطع ہوچکا ہے ان کا حکم آگے مستقلاً آ رہا ہے اور اسی طرح حمل والی عورتوں کا حکم بھی آگے آ رہا ہے اس میں عدت وفات اور عدت طلاق دونوں یکساں ہیں۔ فطلقوھن لعدتھن اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو فطلقوھن لقبل عدتھن تلاوت فرمائی اور حضرت ابن عمر اور ابن عباس (رض) کی قراءت میں بھی ایک روایت میں لقبل عدتھن اور دوسری ایک روایت میں فی قبل عدتھن منقول ہے۔ (روح) - اور صیحین بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی عورت کو بحالت حیض طلاق دے دیتھی۔ حضرت فاروق اعظم نے اس کا ذکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تو آپ سخت ناراض ہوئے پھر فرمایا۔- ان کو چاہئے کہ بحالت حیض دی ہوئی طلاق سے رجوع کرلیں پھر اپنی زوجیت میں رکھیں یہاں تک کہ حیض سے طہارت ہوجائے اور پھر اس کے بعد حیض آئے اس حیض سے طہارت ہوجائے اس وقت اگر طلاق دینا ہی ہے تو اس طہر میں مباشرت و صحبت کئے بغیر طلاق دیدیں۔ یہی وہ عدت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے آیت (مذکورہ) میں حکم دیا ہے۔- اس حدیث سے چند باتیں ثابت ہوئیں اول یہ کہ حالت حیض میں طلاق دینا حرام ہے دوسرے یہ کہ اگر کسی نے ایسا کرلیا تو اس طلاق سے رجعت کرلینا واجب ہے (بشرطیکہ طلاق قابل رجعت ہو جیسا کہ ابن عمر کے واقعہ میں تھی) تیسرے یہ کہ جس طہر میں طلاق دینا ہے اس میں عورت سے مباشرت و صحبت نہ ہو۔ چوتھے یہ کہ آیت قرآنی فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِن کی یہی تفسیر ہے۔- آیت مذکورہ کی دونوں قراتوں سے پھر ایک روایت حدیث سے آیت مذکورہ کا یہ مفہوم متعین ہوگیا کہ جب کسی عورت کو طلاق دینا ہو تو عدت شروع ہونے سے قبل طلاق دی جائے۔ امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک چونکہ عدت حیض سے شروع ہوتی ہے تو معنے آیت کے یہ قرار دیئے کہ جس طہر میں طلاق دینے کا ارادہ ہو اس میں عورت سے مباشرت نہ کرے اور آخر طہر میں حیض شروع ہونے سے پہلے طلاق دیدے اور امام شافعی وغیرہ کے نزدیک چونکہ عدت طہر ہی سے شروع ہوتی اس لئے لقبل عدتھن کا مفہوم یہ قرار دیا کہ بالکل شروع طہر میں طلاق دے دیجائے اور یہ بحث کہ عدت تین حیض ہیں یا تین طہر اس کا بیان سورة بقرہ کی آیت ثلثتہ قروء کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔- بہرحال طلاق کے متعلق پہلا حکم اس آیت سے باجماع امت یہ ثابت ہوا کہ حالت حیض میں طلاق دینا بھی حرام ہے اور ایسے طہر میں جس میں عورت کے ساتھ مباشرت و صحبت کرلی ہو اس میں بھی طلاق دینا حرام ہے اور وجہ حرمت کی دونوں میں یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں عورت کی عدت طویل ہوجائے گی جو اس کے لئے باعث تکلیف ہے کیونکہ جس حیض میں طلاق دی یہ حیض تو عدت میں شمار نہیں ہوگا بلکہ حیض کے ایام پورے ہوں اور مذہب ابوحنیفہ کے مطابق اسکے بعد کا طہر بھی خال گزرے پھر جب دوسرا حیض آئے تو اس وقت عدت شروع ہوگی جس میں بڑی تطویل ہے اور مذہب شافعی کے مطابق بھی کم از کم حیض کے بقیہ ایام جو عدت سے پہلے گزریں گے وہ زیادہ ہوجائیں گے۔ طلاق کا یہ پہلا حکم ہے اس اہم ہدایت پر مشتمل ہے کہ طلاق کوئی غصہ نکالنے یا انتقام کی چیز نہیں بلکہ بدرجہ مجبوری طرفین کی راحت کا انتظام ہے اس لئے طلاق دینے کے وقتہی سے اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ عورت کو طول عدت کے بلاوجہ تکلیف نہ پہنچے اور یہ حکم صرف ان عورتوں کے لئے ہیں جن پر عدت گزارنا حیض یا طہر سے لازم ہے اور جن عورتوں پر عدت واجب ہی نہیں مثلاً وہ عورت جس سے خلوت ہی ابھی تک نہیں ہوئی اس پر سرے سے عدت ہی لازم نہیں اس کو حالت حیض میں بھی طلاق دے دیجائے تو جائز ہے اسی طرح وہ عورت جس کو کم عمری یا زیادتی عمر کے سبب حیض نہیں آت اس لئے اس کی عدت میں حیض و طہر کا کوئی اعتبار ہی نہیں بلکہ ان کی عدت مہینوں کے حساب سے تین ماہ ہے ان کو کسی بھی حالت میں طلاق دے دیجائے یا صحبت و مباشرت کے عبد طلاق دے دیجائے سب جائز ہے جیسا کہ آئندہ آیات میں آ رہا ہے۔ (از مظہری مع بعض تشریحات) - دوسرا حکم َ وَاَحْصُوا الْعِدَّةَ ہے۔ احصاء کے معنے شمار کرنے کے ہیں۔ معنے آیت کے یہ ہیں کہ عدت کے ایام کو اہتمام کے ساتھ یاد رکھنا چاہئے ایسا نہ کہ بھول میں پڑ کر اختتام عدت سے پہلے ہی ختم سمجھ لے اور یہ ذمہ داری ایام عدت کو محفوظ رکھنے کی مرد و عورت دونوں پر عائد ہے مگر یہاں صیغہ مذکر استعمال کیا گیا کیونکہ عام طور پر جو احکام مرد و عورت میں مشترک ہیں ان میں عموماً خطاب بصیغہ مذکر ہی آتا ہے عورتیں تبعاً اس میں داخل سمجھی جاتی ہیں اور اس خاص مسئلہ میں وہ حکمت بھی ہو سکتی ہے جو خلاصہ تفسیر میں لکھی گئی ہے کہ عورتوں میں غفلت کا احتمال زیادہ ہے اس لئے براہ راست ذمہ داری مردوں پر ڈال دی گئی۔- تیسرا حکم لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْ بُيُوْتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْن (نہ نکالو ان کو ان کے گھروں سے) اس میں لفظ بیوتھن میں (مکانات) کو ان عورتوں کے بیوت فرما کر اس طرف اشارہ کیا کہ جب تک ان کا حق سکنی (سکونت) مرد کے ذمہ ہے اس گھر میں اس کا حق ہے اس میں سکوتن کو بحال رکھنا کوئی احسان نہیں بلکہ ادائیگی واجب ہے بیوی کے حقوق میں سے ایک حق سکنی بھی ہے۔ اس آیت نے بتلا دیا کہ یہ حق صرف طلاق دیدینے سے ختم نہیں ہوجاتا بلکہ ایام عدت تک عورت کو اسی جگہ رہنے کا استحقاق ہے اور ان کا گھر سے نکال دینا قبل اتمام عدت کے ظلم و حرام ہے اسی طرح خود ان کے لئے با اختیار خود ان گھروں سے نکل جانا بھی حرام ہے اگرچہ شوہر بھی اس کی اجازت دیدے کیونکہ ایام عدت اسی مکان میں گزارنا شوہر ہی کا حق نہیں بلکہ حق اللہ بھی ہے۔ جو منجانب اللہ معتدہ پر لازم ہے (ہذا ہو مذہب الخفیتہ) - چوتھا حکم َ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ یعنی معتدہ عورتوں کو ان کے گھروں سے نکالنا حرام عے مگر اس میں سے یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ عورت کسی کھلی بےحیائی میں مبتلا ہو ائے۔ اس کھلی بےحیائی سے کیا مراد ہے اس میں ائمہ تفسیر کے تین قول منقول ہیں۔- اول یہ کہ بےحیائی سے مراد خود یہی گھر سے نکل جانا ہے تو اس صورت میں یہ استثناء صرف صورة استثناء ہے جس سے خروج من البیت کی اجازت دینا مقصود نہیں بلکہ اس کی ممانعت کو اور زیادہ موکد کرنا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے یہ کہا جائے کہ فلاں کام کسی کو نہیں کرنا چاہئے بجز اس کے کہ وہ آدمیت ہی سے نکل جائے، یا کہ اپنی ماں کو گالی نہ دو بجز اس کے کہ تم ماں کے بالکل ہی نافرمان ہوجاؤ تو یہ ظاہر ہے کہ پہلی مثال میں اس صورت استثاء سے اس فعل کا جواز بتلانا منظور نہیں اور دوسری مثال میں ماں کی نافرمانی کا جواز ثابت کرنا نہیں بلکہ بلیغ انداز میں اس کی اور بھی زیادہ ممانعت و شناعت کا بیان ہے تو خلاصہ مضمون آیت اس صورت میں یہ ہوا کہ مطلقہ عوتیں اپنے شوہروں کے گھروں سے نہ نکلیں مگر یہ کہ وہ بےحیائی ہی پر اتر آئیں اور نکل بھاگیں تو اس کا مطلب نکل بھاگنے کا جواز نہیں بلکہ اور زیادہ مذمت اور ممانعت کا اثبات ہے۔ فاحشہ مبینہ کی یہ تفصیر حضرت عبداللہ بن عمر، سدی، ابن النسائب نخعی وغیرہ سے منقول ہے اور امام اعظم ابوحنیفہ نے اسی کو اختیار فرمایا ہے (روح المعانی) - دوسرا قول یہ ہے کہ فاحشہ مبینہ سے مراد زنا اور بدکاری ہے اس صورت میں استثناء اپنے معنی میں ہے کہ اگر مطلقہ عورت نے زنا کیا اور جرم اس پر ثابت ہوگیا تو اس کو حد شرعی جاری کرنے کے لئے لامحالہ بیت عدت سے نکالا جائیگا۔ یہ تفسیر حضرت قتادہ، حسن صری، شعبی، زید بن اسلم اور ضحاک و عکرمہ وغیرہ سے منقول ہے امام ابویوسف نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔- تیسرا قول یہ ہے کہ فاحشہ مبینہ سے مراد زبان درازی اور لڑائی جھگڑا ہے تو معنے آیت کے یہ ہوں گے کہ مطلقہ عورتوں کو ان کے گھروں سے نکالنا جائز نہیں بجز اس صورت کے کہ عورت بد زبان جھگڑا لو ہو اپنے شوہر اور اس کے متعلقین سے بد زبانی کے ساتھ پیش آئے تو ایسی صورت میں اس کو مکان عدت سے نکالا جاسکتا ہے۔ فاحشہ مبینہ کی یہ تفسیر حضرت ابن عباس سے بروایت متعددہ منقول ہے اور آیت مذکور میں حضرت ابی بن کعب اور عبداللہ بن مسعود کی قرائت اس طرح ہے الا ان یفحش اس لفظ کے ظاہری معنی فحش کلام اور بد زبانی کے ہیں۔ اس قراءت سے بھی آخری تفسیر کی تائید ہوتی ہے (روح) اس صورت میں بھی استثاء اپنی حقیقت پر رہے گا کہ بد زبانی اور جھگڑا کرنے کی صورت میں مطلقہ کو مکان عدت سے نکالا جاسکتا ہے۔- یہاں تک طلاق کے متعلق چار احکام کا بیان آیا ہے اور آگے مزید احکام بیان ہوں گے مگر ان کے درمیان میں احکام مذکورہ کی پابندی کی تاکید اور اس کی مخالفت سے بچنے کے لئے چند وعظ و نصیحت کے جملے ب یان ہوتے ہیں یہ قرآن حکیم کا خاص اسلوب ہے کہ ہر حکم کے بعد اللہ تعالیٰ کے خوف اور آخرت کی فکر یاد دلا کر اس کی خلاف ورزی کو روکا گیا ہے کہ کیونکہ میاں بیوی کا رشتہ اور باہمی حقوق کی پوری ادائیگی کا انتظام کسی قانون کے ذریعہ نہیں ہوسکتا اس کے لئے خوف خدا و آخرت ہی روکنے والی چیز ہے۔- (آیت) وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ۭ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ ۭ لَا تَدْرِيْ لَعَلَّ اللّٰهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا، حدود اللہ سے مراد شریعت کے مقرر کردہ قوانین ہیں۔ ومن یتعد یعنی جو شخص حدود اللہ میں تعدی کرے یعنی ان حدود و احکام کی خلاف ورزی کرے فقد ظلم نفسہ، تو اس نے اپنی جان پر ظلم کیا، یعنی اللہ کا یا شریعت اسلام کا کچھ نہیں بگاڑا اپنا ہی نقصان کیا ہے اور یہ نقصان عام ہے دینی بھی اور دنیاوی بھی، دینی نقصان تو اس میں خلاف شروع کرنے کا گناہ اور اس کا وبال آخرت ہے اور دنیوی نقصان یہ ہے کہ جو شخص شرعی ہدایات کے بغیر طلاق دے بیٹھتا ہے وہ اکثر تین طلاقوں تک پہنچ جاتا ہے جس کے بعد آپس میں رجوع یا نکاح جدید بھی نہیں ہوسکتا اور آدمی اکثر طلاق دینے کے بعد پچھتاتا ہے اور مصیبت جھیلتا ہے خصوصاً جبکہ صاحب اولاد بھی ہو، اس لئے یہ مصیبت دنیا ہی میں اپنی جان پر پڑی اور بہت سے لوگ جو بیوی کو تکلیف دینے اور نقصان پہنچانے کی نیت سے ظالمانہ طلاق دیتے ہیں گو اس کی تکلیف عورت کو بھی کچھ پہنچ جائے لیکن اس کے لئے ظلم پر ظلم اور دوہرا وبال ہوجائے گا ایک اللہ کی مقرر کردہ حدود کو توڑنے کا دوسرے عورت پر ظلم کرنے کا جس کی حقیت یہ ہے کہ - پنداشت ستمگر جفا برما کرد برگر دن وے بماندو برمابگذشت - لَا تَدْرِيْ لَعَلَّ اللّٰهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا یعنی تم نہیں جانتے شاید اللہ تعالیٰ اس غیظ و غضب کے بعد کوئی دوسری حالت پیدا فرما دیں کہ بیوی سے جو راحتیں ملتی تھیں اور اولاد کی پرورش اور گھر کے انتظام کی سہولتیں تھیں ان کا خیال کر کے تم پھر اپنی طلاق پر پچھتاؤ اور دوبارہ اس کو نکاح میں رکھنے کا ارادہ کرو تو دوبارہ نکاح میں رہنے کی صورت جبھی ہو سکتی ہے جبکہ تم طلاق کے وقت حدود شرعیہ کی رعایت کرو کہ بلاوجہ طلاق کو باسن نہ کرو بلکہ رجعی رہنے دو جس میں رجعت کرنے کا شوہر کو اختیار ہوتا ہے رجعت کرلینے سے پہلا نکاح بدستور قائم رہ جاتا ہے اور یہ کہ تین طلاق تک نوبت نہ پہنچا دو جسکے بعد رجعت کا حق نہیں رہتا اور دونوں کی رضامندی کے باوجود آپس میں دوبارہ نکاح بھی شرعاً حلال نہیں ہوتا۔
يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَطَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ ٠ ۚ وَاتَّقُوا اللہَ رَبَّكُمْ ٠ ۚ لَا تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْۢ بُيُوْتِہِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَـيِّنَۃٍ ٠ ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ ٠ ۭ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ ٠ ۭ لَا تَدْرِيْ لَعَلَّ اللہَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا ١- نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- طلق - أصل الطَّلَاقِ : التّخليةُ من الوثاق، يقال : أَطْلَقْتُ البعیرَ من عقاله، وطَلَّقْتُهُ ، وهو طَالِقٌ وطَلِقٌ بلا قيدٍ ، ومنه استعیر : طَلَّقْتُ المرأةَ ، نحو : خلّيتها فهي طَالِقٌ ، أي : مُخَلَّاةٌ عن حبالة النّكاح . قال تعالی: فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَ [ الطلاق 1] ، الطَّلاقُ مَرَّتانِ [ البقرة 229] ، وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَ [ البقرة 228] ، فهذا عامّ في الرّجعيّة وغیر الرّجعيّة، وقوله : وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ [ البقرة 228] ، خاصّ في الرّجعيّة، وقوله : فَإِنْ طَلَّقَها فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ- [ البقرة 230] ، أي : بعد البین، فَإِنْ طَلَّقَها فَلا جُناحَ عَلَيْهِما أَنْ يَتَراجَعا [ البقرة 230] ، يعني الزّوج الثّاني . وَانْطَلَقَ فلانٌ: إذا مرّ متخلّفا، وقال تعالی: فَانْطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخافَتُونَ [ القلم 23] ، انْطَلِقُوا إِلى ما كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ [ المرسلات 29] ، وقیل للحلال :- طَلْقٌ ، أي : مُطْلَقٌ لا حَظْرَ عليه، وعدا الفرس طَلْقاً أو طَلْقَيْنِ اعتبارا بتخلية سبیله . والمُطْلَقُ في الأحكام : ما لا يقع منه استثناء «2» ، وطَلَقَ يَدَهُ ، وأَطْلَقَهَا عبارةٌ عن الجود، وطَلْقُ الوجهِ ، وطَلِيقُ الوجهِ : إذا لم يكن کالحا، وطَلَّقَ السّليمُ : خَلَّاهُ الوجعُ ، قال الشاعر :- 302-- تُطَلِّقُهُ طوراً وطورا تراجع«3» ولیلة طَلْقَةٌ: لتخلية الإبل للماء، وقد أَطْلَقَهَا .- ( ط ل ق ) - ا لطلاق دراصل اس کے معنی کسی بندھن سے آزاد کرنا کے ہیں ۔ محاورہ الطلقت البعر من عقالہ وطلقۃ میں نے اونٹ کا پائے بند کھول دیا طالق وطلق وہ اونٹ جو مقید نہ ہو اسی سے خلی تھا کی طرح طلقت المرءۃ کا محاورہ مستعار ہے یعنی میں نے اپنی عورت کو نکاح کے بندھن سے آزادکر دیا ایسی عورت کو طائق کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَ [ الطلاق 1] تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو ۔ الطَّلاقُ مَرَّتانِ [ البقرة 229] طلاق صرف دو بار ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَ [ البقرة 228] اور طلاق والی عورتیں تین حیض تک اپنے تئیں روکے کے رہیں ۔ میں طلاق کا لفظ عام ہے جو رجعی اور غیر رجعی دونوں کو شامل ہے ۔ لیکن آیت کریمہ : ۔ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ [ البقرة 228] اور ان کے خاوند ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حقدار ہیں ۔ میں واپس لے لینے کا زیادہ حقدار ہونے کا حکم رجعی طلاق کے ساتھ مخصوص ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ طَلَّقَها فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ [ البقرة 230] پھر اگر شوہر ( دو طلاقوں کے بعد تیسری ) طلاق عورت کو دے دے تو ۔۔۔۔ اس پہلے شوہر پر حلال نہ ہوگی ۔ میں من بعد کے یہ معنی ہیں کہ اگر بینونت یعنی عدت گزرجانے کے بعد تیسری طلاق دے ۔ تو اس کے لئے حلال نہ ہوگی تا و قتیلہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ طَلَّقَها فَلا جُناحَ عَلَيْهِما أَنْ يَتَراجَعا [ البقرة 230] میں طلقھا کے معنی یہ ہیں کہ اگر دوسرا خاوند بھی طلاق دے دے وہ پہلے خاوند کے نکاح میں آنا چاہیئے کے تو ان کے دوبارہ نکاح کرلینے میں کچھ گناہ نہیں ہے ۔ انطلق فلان کے معنی چل پڑنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَانْطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخافَتُونَ ، [ القلم 23] تو وہ چل پڑے اور آپس میں چپکے چپکے کہتے جاتے تھے : ۔ انْطَلِقُوا إِلى ما كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ [ المرسلات 29] جس چیز کو تم جھٹلا یا کرتے تھے اب اسکی طرف چلو ۔ اور حلال چیز کو طلق کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے کھالینے پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہوتی ۔ عد الفرس طلقا اوطلقین گھوڑے نے آزادی سے ایک دو دوڑیں لگائیں اور فقہ کی اصطلاحی میں مطلق اس حکم کو کہا جاتا ہے جس سے کوئی جزئی مخصوص نہ کی گئی ہو ۔ طلق یدہ واطلقھا اس نے اپنا ہاتھ کھول دیا ۔ طلق الوجہ اوطلیق الوجہ خندہ رو ۔ ہنس مکھ ، طلق السلیم ( مجہول ) مار گزیدہ کا صحت یاب ہونا ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) تطلقہ طورا وطور الرجع کہ وہ کبھی در د سے آرام پالیتا ہے اور کبھی وہ دور دوبارہ لوٹ آتا ہے لیلۃ طلحۃ وہ رات جس میں اونٹوں کو پانی پر وارد ہونے کے لئے آزاد دیا جائے کہ وہ گھاس کھاتے ہوئے اپنی مرضی سے چلے جائیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ الطلق الابل یعنی اس نے پانی پر وار ہونے کے لئے اونٹوں کو آزاد چھوڑدیا ۔- نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- عدۃ - وعد بروزن فعلۃ بمعنی معدود ہے جیسے کہ طحن بمعنی مطحون۔ اور اسی بناء پر انسانوں کی گنی ہوئی جماعت کو عدۃ کہتے ہیں اور عورت کی عدت بھی اسی معنی میں ہے یعنی اس کے گنے ہوئے دن ۔ عورت کی عدت سے مراد وہ ایام کہ جن کے گزر جانے پر اس سے نکاح کرنا حلال ہوجاتا ہے۔- حصا - الإحصاء : التحصیل بالعدد، يقال : قد أحصیت کذا، وذلک من لفظ الحصا، واستعمال ذلک فيه من حيث إنهم کانوا يعتمدونه بالعدّ کا عتمادنا فيه علی الأصابع، قال اللہ تعالی:- وَأَحْصى كُلَّ شَيْءٍ عَدَداً [ الجن 28] ، أي : حصّله وأحاط به . وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «من أحصاها دخل الجنّة» وقال : «نفس تنجيها خير لک من إمارة لا تحصيها»- ( ح ص ی ) الا حصاء - ( افعال ) کے معنی عدد کو حاصل کرنا کہا جاتا ہے احصیت کذا میں نے اسے شمار کیا ۔ اصل میں یہ لفظ حصی ( کنکر یاں ) سے مشتق ہے اور اس سے گننے کا معنی اس لئے لیا گیا ہے کہ عرب لوگ گنتی میں کنکریوں پر اس طرح اعتماد کرتے تھے جس طرح ہم انگلیوں پر کرتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَحْصى كُلَّ شَيْءٍ عَدَداً [ الجن 28] یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو گن رکھا ہے ۔ اور اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ«من أحصاها دخل الجنّة» وقال : «نفس تنجيها خير لک من إمارة لا تحصيها» جو شخص ان ( اسمائے حسنٰی ) کا احصا لرلیگا ( یعنی یاد کرلے گا ) ( وہ جنت میں داخل ہوگا نیز آنحضرت نے فرمایا کہ ایک جان کو ہلاکت سے بچالینا اس امارت سے بہتر ہے جسے تم نباہ سکو - تَّقْوَى- والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا - [ النحل 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- (بقیہ حصہ کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)
نبی کو خطاب دراصل امت کو خطاب ہے - قول باری ہے (یایھا النبی اذا طلقتم النسآء فطلقوھن لعدتھن، اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے لئے طلاق دیا کرو) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت میں خطاب کی تخصیص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کی گئی ہے اس کے کئی وجوہ محتمل ہیں۔- ایک تو یہ ہے کہ مخاطبین کے اس علم پر اکتفا کیا گیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب بنا کر جو حکم سنایا جارہا ہے اس کے مخاطب وہ بھی ہیں کیونکہ انہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کا پابند بنایا گیا ہے۔ اس قاعدے سے صرف وہی احکام مستثنیٰ ہیں جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے ساتھ مخصوص ہیں۔- آیت کی ابتداء حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خطاب کی تخصیص سے ہوئی پھر خطاب کا رخ مسلمانوں کی طرف موڑ دیا گیا کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کے معنی مسلمانوں کی پوری جماعت کو خطاب کے تھے۔- دوسری وجہ یہ ہے کہ عبارت اپنے مفہوم کے لحاظ سے کچھ اس طرح بنتی ہے۔ ” یا ایھا النبی قل لامتک اذا طلقتم النساء (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت سے کہہ دو کہ جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو الخ) تیسری وجہ یہ ہے کہ عادۃً جب سردار کو خطاب کیا جاتا ہے تو اس میں اس کے تمام پیروکار اور متبعین داخل ہوتے ہیں جس طرح یہ قول باری ہے (الی فرعون وملائہ فرعون اور اس کی جماعت کی طرف)- آیا دوران حیض طلاق واقع ہوسکتی ہے ؟- قول باری ہے (فطلقوھن لعدتھن تو انہیں ان کی عدت کے لئے طلاق دیا کرو) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ایک روایت کے مطابق حضرت ابن عمر (رض) نے اپنی بیوی کو حیض کے دوران طلاق دے دی تھی، جب حضرت عمر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” ان سے کہو کہ رجوع کرکے بیوی کو اپنی زوجیت میں رکھیں۔ جب وہ حیض سے پاک ہوجائے اور اس کے ایک اور حیض گزر جائے اور طہر کا زمانہ آجائے تو ہم بستری کرنے سے پہلے علیحدگی اختیار کرلیں یا اسے بدستور اپنی بیوی بنائے رکھیں۔ کیونکہ یہی وہ عدت ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ “- نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے یہ روایت کی ہے ۔ ابن جریج نے ابوالزبیر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرات کی تھی فطلقوھن فی قبل عدتھن (انہیں ان کی عدت کی ابتداء میں طلاق دو “ آپ نے فرمایا ” طہر کی حالت میں جس میں ہم بستری نہ ہوئی ہو “۔ )- وکیع نے سفیان سے ، انہوں نے ابوطلحہ کے آزاد کردہ غلام محمد بن عبدالرحمن سے ، انہوں نے سالم سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے کہ انہوں نے حیض کے دوران اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی۔ حضرت عمر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات کا تذکرہ کیا جسے سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” انہیں کہو کہ رجوع کرلیں اور پھر طلاق دے دیں خواہ بیوی حاملہ ہو یا غیر حاملہ۔ “ بعض طرق میں اس روایت کے یہ الفاظ ہیں : ” اسے حالت طہر طلاق دیں جس میں ہم بستری نہ ہوئی ہو یا حالت حمل میں طلاق دیں جبکہ حمل ظاہر ہوچکا ہو۔ “- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قول باری (فطلقوھن لعدتھن) میں اللہ کی مراد کو واضح کردیا ہے کہ طلاق کا ماموربہ وقت یہ ہے کہ اسے حالت طہر میں طلاق دی جائے جس میں ہمبستری نہ ہوئی ہو یا حالت حمل میں طلاق دی جائے جبکہ حمل ظاہر ہوچکا ہو۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی واضح فرمادیا کہ سنت طلاق کی ایک صورت اور بھی ہے وہ یہ کہ دو طلاقوں کے درمیان ایک حیض کا فاصلہ رکھا جائے چناچہ آپ نے فرمایا : بیوی سے رجوع کرلیں پھر اسے حیض سے پاک ہونے دیں پھر وہ ایک حیض گزار کر پاک ہوجائے پھر اگر چاہیں تو اسے طلاق دے دیں۔ “- یہ چیز اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ایک ہی طہر میں دو طلاق دے دینا سنت طریقہ نہیں ہے ہمیں کسی اہل علم کے متعلق یہ معلوم نہیں کہ اس نے طہر کے اندر ہمبستری کے بعد طلاق کی اباحت کی ہو۔- البتہ وکیع نے حسن بن صالح سے، انہوں نے بیان سے اور انہوں نے شعبی سے روایت کی ہے کہ اگر ایک شخص اپنی بیوی کی حالت طہر میں طلاق دے دیتا ہے تو اس کی یہ طلاق سنت طلاق ہوگی خواہ اس نے اس کے ساتھ ہم بستری کیوں نہ کرلی ہو۔ شعبی کی یہ بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت شدہ سنت اور اجماع امت کے خلاف ہے تاہم شعبی سے ایسی روایت بھی ہے جو اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ان کی مراد اس سے یہ ہے کہ عورت حاملہ ہو۔- یہ روایت یحییٰ بن آدم نے حسن بن صالح سے ، انہوں نے بیان سے اور انہوں نے شعبی سے کی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو حمل کے دوران طلاق دے دے تو اس کی یہ طلاق سنت طلاق ہوگی خواہ اس نے اس کے ساتھ ہمبستری کیوں نہ کرلی ہو۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شعبی سے اصل روایت یہی تھی لیکن کسی راوی نے غفلت برتتے ہوئے حاملہ کے لفظ کا تذکرہ نہیں کیا۔- قول باری (فطلقوھن بعدتھن) ایک طلاق کو نیز تین طلاقوں کو شامل ہے جو طہر کے زمانوں میں متفرق صورت میں دی جائیں۔ کیونکہ حرف لام کا ادخال اسی مفہوم کا مقتضی ہے جس طرح یہ قول باری ہے (اقم الصلوۃ لدلوک الشمس الی غسق اللیل، نماز قائم کرو زوال آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک) آیت ہر زوال آفتاب کے وقت نماز کے عمل کی تکرار کے حکم کو شامل ہے۔ اس لئے زیر بحث آیت کی دو باتوں پر دلالت ہورہی ہے۔- ایک تو یہ کہ تین طلاقوں کی اباحت ہے جو طہر کے زمانوں میں متفرق صورت میں دی جائیں۔ اس میں ان حضرات کے قول کا ابطال ہے جن کے نزدیک طہر کے زمانوں میں تین طلاق دینا سنت نہیں ہے۔ امام مالک ، اوزاعی، حسن بن صالح اور لیث بن سعد کا یہی مسلک ہے۔- دوسری بات جس پر آیت کی دلالت ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ ایک ہی طہر میں تین طلاقوں کی ممانعت ہے۔ کیونکہ قول باری (لعدتھن) اس کا مقتضی ہے، ایک ہی طہر میں تینوں طلاقوں کا مقتضی نہیں ہے۔- جس طرح یہ قول باری ہے (لدلوک الشمس) یہ قول باری ایک وقت کے اندر دو نمازوں کی ادائیگی کا مقتضی نہیں ہے بلکہ یہ اوقات کے اندر نماز کی ادائیگی کی تکرار کا مقتضی ہے۔- ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ طلاق سنت دینے کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو وقت کا پہلو ہے وہ یہ کہ حالت طہر میں طلاق دے جس کے اندر ہم بستری نہ ہوئی ہو یا حمل کی حالت میں طلاق دے جب کہ حمل ظاہر ہوچکا ہو۔- دوسرا پہلو طلاق کی تعداد کا ہے وہ یہ کہ ایک طہر میں ایک سے زائد طلاق نہ دے۔ وقت کی شرط اس شخص کے لئے ہے جو عدت میں طلاق دے رہا ہو کیونکہ جس عورت پر عدت واجب نہیں ہوتی مثلاً ایسی عورت جسے اس کے خاوند نے دخول سے پہلے ہی طلاق دے دی ہو، اسے حیض کے دوران طلاق دینا مباح ہے۔- کیونکہ قول باری ہے (لا جناح علیکم ان طلقتم النساء مالم تمسوھن او تفرضوا لھن فریضۃ، تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورتوں کو ہاتھ لگانے یا مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دے دو ) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مذکورہ بیویوں کو طہر اور حیض دونوں حالتوں کے اندر طلاق دینامباح کردیا ہے۔- ہم نے سورة بقرہ میں ان لوگوں کے قول کے بطلان کو واضح کردیا ہے جن کے نزدیک ایک حیض میں تین طلاقوں کو جمع کردینا طلاق سنت کی ایک صورت ہے اور ان لوگوں کے قول کے بطلان کو بھی جو کہتے ہیں کہ طہر کے زمانوں میں تین طلاق متفرق کرکے دینا بھی ممنوع ہے۔- اگریہ کہا جائے کہ حاملہ عورت کو ہم بستری کے بعد طلاق دے دینا اگر جائز ہے تو غیر حاملہ عورت کو طہر کے اندر ہمبستری کے بعد طلاق دے دینا بھی جائز ہونا چاہیے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کسی مسئلے میں حدیث اور اتفاق سلف کے ہوتے ہوئے قیاس کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہوتی تاہم اگر قیاس کی جہت سے دیکھا جائے تو دونوں صورتوں کے اندر واضح فرق معلوم ہوگا۔- وہ یہ کہ اگر عورت حیض سے پاک ہوجائے اور طہر کی حالت میں مرد اس کے ساتھ ہم بستری کرے تو اسے یہ علم نہیں ہوگا کہ اس ہم بستری کے نتیجے میں عورت کو حمل ٹھہر گیا ہے یا نہیں ۔ حمل ٹھہر جانے کی صورت میں ممکن ہے کہ وہ اسے طلاق نہ دینا چاہتا ہو اور پھر طلاق دینے کی بنا پر اسے نادم ہونا پڑے۔- قول باری ہے (واحصوا العدۃ اور عدت کے زمانے کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو) یعنی وہ عدت جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد (والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلاثۃ فروء اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک انتظار میں رکھیں) ۔- نیز (ما للانی یئسن من المحیض اور وہ عورتیں جو حیض سے مایوس ہوچکی ہیں) تاقول باری (والائی لم یحضن واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن وہ عورتیں جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو اور حاملہ عورتوں کی عد ت کی حد یہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہوجائے) کے ذریعے واجب کردیا ہے۔- کیونکہ درج بالا آیات میں مطلقہ عورتوں کی عدتوں کا ذکر ہے جو ان پر آیات میں مذکورہ احوال کے تحت واجب ہوتی ہیں۔ اس طرح عدت کے زمانے کا ٹھیک ٹھیک شمار کئی مقاصد کے لئے ہوگا۔- ایک مقصد تو یہ ہے کہ اگر شوہر کا ارادہ رجوع اور بیوی کو رکھنے کا یا اسے رخصت کرکے علیحدگی اختیار کرنے کا ارادہ ہو تو اس کی عدت کی مدد سے ایسا کرنا ممکن ہوگا۔- دوسرا مقصد یہ ہے کہ جس حالت میں عورت کو طلاق ملی ہے اسے اسی حالت پر باقی رہنے دینے کے لئے عدت کا پورا پورا خیال رکھا جائے اور کوئی ایسی حالت پیدا ہونے نہ دی جائے جس کی بنا پر اس کی عدت کا اس حالت کی طرف منتقل ہوجانا واجب ہوجائے۔- تیسرا مقصد یہ ہے کہ عورت جب عدت گزر جانے کے بعد بائن ہوجائے تو مرد اس کی علیحدگی کی گواہی پیش کرکے اس کے سوا کسی اور عورت سے نکاح کرسکے جس کے ساتھ اس مطلقہ کی موجودگی میں نکاح جائز نہیں تھا۔- نیز یہ مقصد بھی ہے کہ عدت کے اختتام سے پہلے مطلقہ عورت کو اس کا شوہر اس کے گھر سے نکال نہ سکے۔- احکام القرآن پر کتابیں لکھنے والوں میں سے ایک صاحب کا خیال ہے کہ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا قول ہے کہ طلاق سنت کی تعداد ایک ہوتی ہے نیز امام کے نزدیک یہ بھی طلاق سنت کی ایک صورت ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاق دینا چاہے تو ہر طہر میں ایک طلاق دے دے۔ اس طرح امام صاحب اور ان کے رفقاء کے نزدیک پہلی صورت بھی طلاق سنت ہے اور دوسری صورت بھی طلاق سنت ہی ہے۔- اب یہ بات کیسے جائز ہوسکتی ہے کہ ایک چیز اور اس کے برعکس دونوں سنت بن جائیں۔ اگر یہ بات جائز ہوتی تو حرام کا حلال ہوجانا بھی جائز ہوجاتا ۔ اگر امام ابوحنیفہ یہ کہہ دیتے کہ پہلی صورت سنت ہے اور دوسری صورت رخصت تو زیادہ مناسب بات ہوتی۔ “- ابوبکر حبصاص مصنف کے اس پورے بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسے شخص کا کلام ہوسکتا ہے جسے عبادات کے اصول اور ان کے ورود کے جواز اور عدم جواز کی صورتوں کی معرفت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔- کوئی اہل علم بھی درج بالا جیسی صورت کے ساتھ عبادت کے ورود کے جواز کی نفی نہیں کرتا کیونکہ یہ بات جائز ہے کہ طلاق کے سلسلے میں سنت طریقہ یہ ہوجائے کہ شوہر کو دو باتوں کے درمیان اختیار دے دیا جائے۔- ایک یہ کہ وہ بیوی کو طہر کی حالت میں ایک طلاق دے کر بس کرے اور دوسری یہ کہ حالت طہر میں ایک طلاق دینے کے بعد دوسرے طہر میں دوسری طلاق اور تیسرے طہر میں تیسری طلاق دے دے۔ اور یہ دونوں صورتیں مندوب ومستحب قرار دی جائیں اور اسی کے ساتھ پہلی صورت دوسری صورت سے بہتر تسلیم کی جائے۔- جس طرح یہ قول باری ہے (والقوا عد من النساء اللاتی لا یرجون نکاحا فلیس علیھن جناح ان یضعن ثیابھن، اور جو عورتیں جوانی سے گزری بیٹھی ہوں، نکاح کی امیدوار نہ ہوں ان پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ اپنی چادریں اتار کر رکھ دیں) پھر ارشاد ہوا (وان یستعففن خیرلھن، تاہم وہ بھی حیاداری برتیں تو ان کے حق میں اچھا ہے) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قسم توڑنے والے کو تین باتوں کا اختیار دیا ہے وہ ان میں سے جو بات بھی کرلے گا اس کا فرض پورا ہوجائے گا۔- ابوبکر حبصاص کی نظروں میں مصنف کا یہ کہنا کہ ” اگر یہ بات جائز ہوتی تو حرام کا حلال ہوجانا بھی جائز ہوجاتا۔ “ سنن اور فروض میں تخیر کی نفی کا موجب ہے۔ نیز ایک چیز کا بیک وقت حلال اور حرام ہونا اپنی جگہ خود ممتنع ہے۔- مصنف کے اس قول کا بودا پن اور اس کی نامعقولیت اس قدر واضح ہے کہ اس کی تردید میں کوئی لمبی چوڑی بات کہنے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے۔ دوسری طرف حضرت ابن مسعود (رض) اور تابعین کی ایک جماعت سے بعینہ ہمارے قول کی طرح قول مروی ہے۔- تکمیل عدت تک مطلقہ بیوی گھر سے نہ نکلے - قول باری ہے (لا تخرجوھن من بیوتھن ولا یخرجن، نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں) اس میں شوہر کو مطلقہ بیوی کو گھر سے نکالنے اور مطلقہ بیوی کو خود گھر سے نکلنے کی نہی ہے۔ اس میں مطلقہ کے لئے عدت کے اختتام تک سکونت مہیا کرنے کے وجوب پر دلیل موجود ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مطلقہ عورتوں کو اپنے جن گھروں سے نکلنے سے منع فرما دیا ہے یہ وہی گھر ہیں جن میں طلاق سے پہلے وہ سکونت پذیر تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان ہی گھرورں میں سکونت پذیر رہنے دینے کا حکم فرمایا۔- آیت میں گھر کی نسبت مطلقہ عورت کی طرف سکونت کی بنا پر کی گئی ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے (وقرن فی بیوتکن ، اور تم اپنے گھروں میں قرار پکڑی رہو) حالانکہ ازواج مطہرات کے یہ حجرے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تھے۔ اسی آیت کی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ شوہر کے لئے اپنی مطلقہ بیوی کے ساتھ سفر اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک وہ اس سے رجوع کرنے کی گواہی قائم نہ کرلے۔- ہمارے اصحاب نے عدت کے اندر مطلقہ کو سفر کرنے سے بھی روکا ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ طلاق رجعی کی صورت میں شوہر پر مطلقہ کی سکونت اور نفقہ کے وجوب کے بارے میں اہل علم کے درمیان ہمیں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے نیز اس پر اتفاق ہے کہ اسے اس کے گھر سے نکال دینا بھی جائز نہیں ہے۔- قول باری ہے (الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ، الا یہ کہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں) حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ عدت کے اختتام سے پہلے اس کا گھر سے نکلنا صریح برائی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے ” الا یہ کہ وہ شوہر کے اہل خاندان سے بدزبانی پر اتر آئے۔ اگر وہ ایسا کرے تو ان کے لئے اسے گھر سے نکال دینا جائز ہوجائے گا۔- ضحاک کے قول کے مطابق شوہر کی نافرمانی صریح برائی ہے ۔ حسن اور زید بن اسلم کا قول ہے کہ وہ زنا کا ارتکاب کرلے اور پھر اس پر حد جاری کرنے کے لئے اسے باہر لے جایا جائے۔ قتادہ کا قول ہے کہ نافرمانی اور سرکشی پر اتر آئے تو ایسی صورت میں اسے نکال دینا جائز ہوگا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ لفظ کے اندر مذکورہ بالا تمام معانی کا احتمال موجود ہے اور یہ کہنا درست ہے کہ تمام معانی مراد ہیں۔ اس صورت میں اس کا گھر سے نکل جانا صریح برائی ہوگیا، اگر وہ زنا کی مرتکب ہوگی تو حد جاری کرنے کے لئے اسے باہر لے جایا جائے گا۔ اگر شوہر کے خاندان والوں کے ساتھ بدزبانی کرے گی تو اسے نکال دیا جائے گا۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت فاطمہ بنت قیس کو شوہر کے گھر سے منتقل ہوجانے کا حکم دیا تھا جب انہوں نے اپنے خاوند کے رشتہ داروں کے ساتھ بدزبانی کی تھی۔ اگر شوہر کی نافرمانی اور اس سے سرکشی، بدزبانی اور بد خلقی کی صورت میں ہو جس کی وجہ سے اس کا وہاں رہنا مشکل ہوجائے تو آیت میں اس کا مراد ہونا جائز ہوگا لیکن اگر شوہر کی نافرمانی کی کوئی اور صورت ہو تو ایسا عذر تسلیم نہیں کیا جائے گا جس کی بنا پر اسے گھر سے نکال باہر کرنا جائز ہوجائے۔- ہم نے آیت میں مراد جن تاویلات کا ذکر کیا ہے وہ اس پر دلالت کرتی ہیں کہ عذر کی بنا پر اس کا اس گھر سے منتقل ہوجانا جائز ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان اعذار کی بنا پر جن کا ہم نے ذکر کیا ہے مطلقہ کے گھر سے نکل جانے کی اباحت کردی ہے۔- قول باری ہے (ومن یتعد حدود اللہ فقد ظلم نفسہ، اور جو کوئی اللہ کے حدود سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اوپر خودظلم کرے گا) آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو سنت طریقے سے طلاق نہیں دے گا اس کی طلاق واقع ہوجائے گی لیکن اللہ کے حدود کو تجاوز کرنے کی بنا پر وہ اوپر خودظلم کرنے والا قرار پائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر طلاق عدت کے بعد کیا ہے۔ اس لئے اس نے یہ واضح کردیا کہ جو شخص غیر عدت کے لئے طلاق دے گا اس کی طلاق واقع ہوجائے گی اس لئے کہ اگر اس کی طلاق واقع نہ ہوتی تو وہ اپنے اوپر ظلم کرنے والا نہ کہلاتا۔ - شوہر کا اپنے نفس پر ظلم کرنے کے باوجود اس کی دی ہوئی طلاق کا واقع ہوجانا آیت میں مراد یہ ہے۔ اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے کہ جس کا ذکر مذکورہ بالا آیت کے فوراً بعد ہوا ہے (لا تدری لعلی اللہ یحدث بعد ذلک، تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ کوئی صورت پیدا کردے) یعنی اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ندامت کا احساس پیدا کردے لیکن یہ احساس اسے کوئی فائدہ نہ دے سکے کیونکہ وہ اپنی بیوی کو تین طلاق دے چکا ہے۔- یہ بات امام شافعی کے اس قول کے بطلان پر دلالت کرتی ہے کہ ایک کلمہ کے ذریعے تین طلاق دے دینا بھی سنت طریقہ ہے۔ بطلان کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین طلاق دینے پر نیز بعد میں طلاق ہونے والی ندامت کا اعتبار نہ کرنے پر اسے اپنے اوپر ظلم کرنے والا قرار دیا ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی حضرت ابن عمر (رض) کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ جب انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کے دوران طلاق دی تھی اور انہیں رجوع کرنے کا حکم دیا تھا کیونکہ حیض کے دوران دی ہوئی پہلی طلاق غلط تھی۔ آپ نے انہیں رجوع کرنے کا حکم دیا تاکہ غلطی کے اسباب ختم ہوجائیں اور پھر وہ سنت طریقے سے اپنی بیوی کو نئے سرے سے طلاق دیں۔- بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حیض کے دوران دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ ہم نے سورة بقرہ میں کتاب وسنت کی جہت سے اس قول کے بطلان کو واضح کردیا ہے۔ اس کے بطلان پر یونس بن جبیر کی وہ گفتگو بھی دلالت کرتی ہے جو حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے ساتھ ہوئی تھی۔ یونس نے ان سے حیض کے دوران طلاق دینے کا مسئلہ پوچھا تھا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس حکم کا بھی ذکر کیا تھا جو آپ نے انہیں حیض کے دوران اپنی بیوی کو طلاق دینے پر رجوع کرلینے کے سلسلے میں دیا تھا۔ جب یونس نے حضرت ابن عمر (رض) سے یہ پوچھا کہ آیا انہوں نے اس حیض کو عدت میں شمار کیا تھا ؟ تو انہوں نے جواب میں کہا تھا۔” منہ بند کرو تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ (یعنی میں) اتنا ہی عاجز اور بیوقوف تھا۔ “- اگر کوئی شخص اس روایت سے استدلال کرے جسے محمد بن بکر نے ہمیں بیان کیا ہے۔ انہیں ابودائود نے، انہیں احمد بن صالح نے، انہیں عبدالرزاق نے ، انہیں ابن جریج نے، انہیں ابوالزبیرنے کہ انہوں عروہ کے آزاد کردہ غلام عبدالرحمن بن ایمن کو حضرت ابن عمر (رض) سے ایک شخص کے متعلق مسئلہ پوچھتے ہوئے سنا تھا جس نے اپنی بیوی کو حیض کے دوران طلاق دے دی تھی۔ - حضرت ابن عمر (رض) نے اپنا واقعہ سناتے ہوئے فرمایا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں میں نے اپنی بیوی کو حیض کے دوران طلاق دے دی تھی۔ حضرت عمر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب اس کا ذکر کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیوی کو مجھ پر لوٹا دیا اور اسے کوئی بات قرار نہیں دی اور فرمایا کہ جب یہ حیض سے پاک ہوجائے تو پھر اسے طلاق دے دینا یا اپنے عقدزوجیت میں باقی رہنے دینا۔- آپ نے اس موقع پر آیت (یا ایھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن فی قبل عد نہن) کی تلاوت کی۔ مستدل کا خیال یہ ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے یہ بتایا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی بیوی کو ان پر لوٹا دیا تھا اور اسے کوئی بات قرار نہیں دی تھی یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ طلاق واقع ہی نہیں ہوئی تھی۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض نے جو کچھ کہا ہے وہ اس پر دلالت نہیں کرتا کہ آپ نے طلاق واقع ہوجانے کا حکم نہیں لگایا بلکہ طلاق واقع ہوجانے پر اس کی دلالت واضح ہے کیونکہ حضرت ابن عمر (رض) کے قول ” آپ نے بیوی کو مجھ پر لوٹا دیا۔ “ سے رجوع مراد ہے اور آپ نے اسے کوئی بات قرار نہیں دی “ سے یہ مراد ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیوی کو ان سے بائن نہیں کیا۔- حضرت ابن عمر (رض) کی اس روایت کو ان سے حضرت انس (رض) نے روایت کی ہے، حضرت انس (رض) سے ابن سیرین، سعید بن جبیر اور زیدبن اسلم نے روایت کی ہے اسی طرح منصور نے ابو وائل سے اور انہوں نے حضرت انس (رض) سے اس کی روایت کی ہے ۔ سب کے الفاظ یہ ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابن عمر (رض) کو حکم دیا تھا کہ اپنی بیوی سے رجوع کرلیں حتیٰ کہ وہ حیض سے پاک ہوجائے۔
نبی اکرم آپ اپنے متبعین سے فرما دیجیے کہ جب تم مدخول بہا عورتوں کو طلاق دینے لوگ تو ان کو ایسی پاکی کے زمانہ میں طلاق دو جس پاکی میں ان کے ساتھ صحبت نہ کی ہو اور پھر اس کے بعد تم ان کی عدت کو یاد رکھو کہ وہ تین حیض سے پاک ہو کر غسل کرلیں۔- اور اللہ سے ڈرو یعنی سنت کے خلاف ایام حیض میں ان کو طلاق مت دو اور یہ کہ جن عورتوں کو تم نے طلاق دے دی ہے عدت کے زمانہ میں ان کے رہنے کے گھروں سے ان کو مت نکالو اور نہ وہ عورتیں خود نکلیں جب تک کہ عدت پوری نہ ہوجائے۔- مگر یہ کہ وہ خود کھلی نافرمانی کریں یہ کہ عدت میں گھر سے نکل جائیں کہ ان کا عدت کے زمانہ میں نکلنا اور نکالنا دونوں گناہ ہیں۔- یا یہ مطلب کہ وہ کھلی بےحیائی کر بیٹھیں تو البتہ سزا دینے کے لیے نکالی جائیں گی یہ احکام خداوندی ہیں کہ عورتوں کی طلاق، نفقہ اور رہائش کے بارے میں اس کے مقرر کردہ فرائض ہیں اور جو شخص احکام خداوندی سے تجاوز کرے گا تو اس نے خود اپنے آپ کو نقصان پہنچایا۔- خاوند کو خبر نہیں ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ اس ایک طلق کے بعد یا عدت پوری ہونے کے بعد شوہر کے دل میں بیوی کی محبت اور اس سے رجوع کی صورت پیدا کردے۔- شان نزول : يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ (الخ)- امام حاکم نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ عبد یزید ابورکانہ نے ام رکانہ کو طلاق دے دی اور پھر قبیلہ مزنیہ کی ایک عورت سے شادی کرلی۔ چناچہ وہ حضور کے پاس آئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ انہوں نے اسی عورت سے شادی کا ارادہ کیا ہے تب یہ آیت نازل ہوئی۔ حافظ ذہبی فرماتے ہیں سند اولی ہے اور حدیث غلط ہے کیونکہ عبد یزید نے اسلام کا زمانہ ہی نہیں پایا۔- اور ابن ابی حاتم نے قتادہ کے طریق سے حضرت انس سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم نے حضرت حفصہ کو طلاق دی تو ان کے گھر والے آئے تب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ سے کہا گیا کہ ان سے رجوع کرلیجیے اس لیے کہ یہ دن کو روزہ رکھنے اور رات کو نمازیں پڑھنے والی ہیں اور اسی روایت کو ابن جریر نے قتادہ سے اور ابن المنذر نے ابن سیرین سے مرسلا روایت کیا ہے اور ابن ابی حاتم نے مقاتل سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت عمرو بن العاص، طفیل بن حارث اور عمرو بن سعید بن العاص کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
آیت ١ یٰٓــاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَطَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) جب آپ لوگ اپنی عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے حساب سے طلاق دو اور عدت کا پورا لحاظ رکھو۔ “- نوٹ کیجیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صیغہ واحد میں مخاطب کرنے کے بعد فوراً جمع کا صیغہ (طَلَّقْتُمْ ) آگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات سے نہیں ‘ عام اہل ایمان سے متعلق ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اہل ایمان کے نمائندہ ‘ معلم اور ہادی کی حیثیت سے مخاطب کیا گیا ہے۔ عدت کے حساب سے طلاق دینے اور عدت کا لحاظ رکھنے کے بہت سے پہلو ہیں۔ مجموعی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نازک اور حساس معاملے میں شریعت کی طے کردہ حدود وقیود کا لحاظ رکھو اور متعلقہ قوانین کی سختی سے پابندی کرو ۔ مثلاً حیض کی حالت میں طلاق نہ دو ‘ تینوں طلاقیں اکٹھی نہ دو ‘ ہر طلاق کی عدت کا حساب رکھو ‘ عدت کے دوران عورت کا نکاح نہ کرو۔ میاں بیوی کے درمیان ایک یا دو طلاقوں کے بعد ہونے والی علیحدگی کی صورت میں ان دونوں کے آپس میں دوبارہ نکاح کے حق کو تسلیم کرو ‘ وغیرہ وغیرہ۔- وَاتَّقُوا اللّٰہَ رَبَّـکُمْ ” اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جو تمہارا ربّ ہے۔ “- لَا تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْم بُیُوْتِہِنَّ ” انہیں مت نکال باہر کرو ان کے گھروں سے “- ایسا نہ ہو کہ غصے میں طلاق دی اور کہا کہ نکل جائو میرے گھر سے ‘ ابھی اور اسی وقت یہ طریقہ قطعاً غلط ہے۔ - وَلَا یَخْرُجْنَ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّـبَـیِّنَۃٍط ” اور وہ خود بھی نہ نکلیں ‘ سوائے اس کے کہ وہ ارتکاب کریں کسی کھلی بےحیائی کا۔ “- عام حالات میں تو طلاق کے فوراً بعد عورت کو گھر سے نہیں نکالا جاسکتا ‘ اور نہ ہی اسے از خود نکلنے کی اجازت ہے۔ لیکن اس دوران اگر وہ بدکاری وغیرہ میں ملوث ہوجائے تو ایسی صورت میں اسے اس گھر سے نکالا جاسکتا ہے۔ - وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ ” اور یہ اللہ کی حدود ہیں۔ “- وَمَنْ یَّـتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ ” اور جو کوئی اللہ کی حدود سے تجاوز کرے گا تو اس نے اپنی ہی جان پر ظلم کیا۔ “- لَا تَدْرِیْ لَـعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا ۔ ” تمہیں نہیں معلوم کہ شاید اس کے بعد اللہ کوئی نئی صورت پیدا کردے۔ “- طلاق کے بعد اگر عورت شوہر کے گھر میں ہی عدت گزار رہی ہو تو حالات بہتر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ کیا معلوم اللہ تعالیٰ ان دونوں میں بہتری کی کوئی صورت پیدا کر دے اور وہ پہلی طلاق کے بعد ہی رجوع کرلیں اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی مشیت سے حالات ہمیشہ کے لیے سازگار ہوجائیں۔
سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :1 1 ۔ یعنی تم لوگ طلاق دینے کے معاملہ میں یہ جلد بازی نہ کیا کرو کہ جونہی میاں بیوی میں کوئی جھگڑا ہوا ، فوراً ہی غصّے میں آکر طلاق دے ڈالی ، اور نکاح کا جھٹکا اس طرح کیا کہ رجوع کی گنجائش بھی نہ چھوڑی ۔ بلکہ جب تمہیں بیویوں کو طلاق دینا ہو تو ان کی عدت کے لیے دیا کرو ۔ عدت کے لیے طلاق دینے کے دو مطلب ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد بھی ہیں: ایک مطلب اس کا یہ ہے کہ عدت کا آغاز کرنے کے لیے طلاق دو ، یا بالفاظ دیگر اس وقت طلاق دو جس سے ان کی عدت شروع ہوتی ہو ۔ یہ بات سورہ بقرہ آیت 228 میں بتائی جا چکی ہے کہ جس مدخولہ عورت کو حیض آتا ہو اس کی عدت طلاق کے بعد تین مرتبہ حیض آنا ہے ۔ اس حکم کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو عدت کا آغاز کرنے کے لیے طلاق دینے کی صورت لازماً یہی ہو سکتی ہے کہ عورت کو حالت حیض میں طلاق نہ دی جائے ، کیوں کہ اس کی عدت اس حیض سسے شروع نہیں ہو سکتی جس میں اسے طلاق دی گئی ہو ، اور اس حالت میں طلاق دینے کے معنی یہ ہو جاتے ہیں کہ اللہ کے حکم کے خلاف عورت کی عدت تین حیض کے بجائے چار حیض بن جائے ۔ مزید براں اس حکم کا تقاضا یہ بھی ہے کہ عورت کو اس طُہر میں طلاق نہ دی جائے جس میں شوہر اس سے مباشرت کر چکا ہو ، کیونکہ اس صورت میں طلاق دیتے وقت شوہر اور بیوی دونوں میں سے کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ آیا مباشرت کے نتیجے میں کوئی حمل قرار پا گیا ہے یا نہیں ، اس وجہ سے عدت کا آغاز نہ اس مفروضے پر کیا جا سکتا ہے کہ یہ عدت آئندہ حیضوں کے اعتبار سے ہو گی اور نہ اسی مفروضے پر کیا جا سکتا ہے کہ یہ حاملہ عورت کی عدت ہو گی ۔ پس یہ حکم بیک وقت دو باتوں کا مقتضی ہے ۔ ایک یہ کہ حیض کی حالت میں طلاق نہ دی جائے ۔ دوسرے یہ کہ طلاق یا تو اس طُہر میں دی جائے جس میں مباشرت نہ کی گئی ہو ، یا پھر اس حالت میں دی جائے جبکہ عورت کا حاملہ ہونا معلوم ہو ۔ غور کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ طلاق پر یہ قیدیں لگانے میں بہت بڑی مصلحتیں ہیں ۔ حیض کی حالت میں طلاق نہ دینے کی مصلحت یہ ہے کہ یہ وہ حالت ہوتی ہے جس میں عورت اور مرد کے درمیان مباشرت ممنوع ہونے کی وجہ سے ایک طرح کا بُعد پیدا ہو جاتا ہے ، اور طبی حیثیت سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ اس حالت میں عورت کا مزاج معمول پر نہیں رہتا ۔ اس لیے اگر اس وقت دونوں کے درمیان کوئی جھگڑا ہو جائے تو عورت اور مرد دونوں اسے رفع کرنے کے معاملہ میں ایک حد تک بے بس ہوتے ہیں ، اور جھگڑے سے طلاق تک نوبت پہنچانے کے بجائے اگر عورت کے حیض سے فارغ ہونے تک انتظار کر لیا جائے تو اس امر کا کافی امکان ہوتا ہے کہ عورت کا مزاج بھی معمول پر آ جائے اور دونوں کے درمیان فطرت نے جو طبعی کشش رکھی ہے وہ بھی اپنا کام کر کے دونوں کو پھر سے جوڑ دے ۔ اسی طرح جس طہر میں مباشرت کی جا چکی ہو اس میں طلاق کے ممنوع ہونے کی مصلحت یہ ہے کہ اس زمانے میں اگر حمل قرار پا جائے تو مرد اور عورت ، دونوں میں سے کسی کو بھی اس کا علم نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے وہ وقت طلاق دینے کے لیے موزوں نہیں ہے ۔ حمل کا علم ہو جانے کی صورت میں تو مرد بھی دس مرتبہ سوچے گا کہ جس عورت کے پیٹ میں اس کا بچہ پرورش پا رہا ہے اسے طلاق دے یا نہ دے ، اور عورت بھی اپنے اور اپنے بچے کے مستقبل کا خیال کر کے شوہر کی ناراضی کے اسباب دور کرنے کی پوری کوشش کرے گی ۔ لیکن اندھیرے میں بے سوچے سمجھے تیر چلا بیٹھنے کے بعد اگر معلوم ہو کہ حمل قرار پا چکا تھا ، تو دونوں کو پچھتانا پڑے گا ۔ یہ تو ہے عدت کے لیے طلاق دینے پہلا مطلب ، جس کا اطلاق صرف ان مدخولہ عورتوں پر ہوتا ہے جن کو حیض ٓآتا ہو اور جن کے حاملہ ہونے کا امکان ہو ۔ اب رہا اس کا دوسرا مطلب ، تو وہ یہ ہے کہ طلاق دینا ہو تو عدت تک کے لیے طلاق دو ، یعنی بیک وقت تین طلاق دے کر ہمیشہ کی علیٰحدگی کے لیے طلاق نہ دے بیٹھو ، بلکہ ایک ، یا حد سے حد دو طلاقیں دے کر عدت تک انتظار کرو تا کہ اس مدت میں ہر وقت تمہارے لیے رجوع کی گنجائش باقی رہے ۔ اس مطلب کے لحاظ سے یہ حکم ان مدخولہ عورتوں کے معاملہ میں بھی مفید ہے جن کو حیض آتا ہو اور ان کے معاملہ میں بھی مفید ہے جن کو حیض آنا بند ہو گیا ہو ، یا جنہیں ابھی حیض آنا شروع نہ ہوا ہو ، یا جن کا طلاق کے وقت حاملہ ہونا معلوم ہو ، اس فرمان الہٰی کی پیروی کی جائے تو کسی شخص کو بھی طلاق دے کر پچھتانا نہ پڑے ، کیونکہ اس طرح طلاق دینے سے عدت کے اندر رجوع بھی ہو سکتا ہے ، اور عدت گزر جانے کے بعد بھی یہ ممکن رہتا ہے کہ سابق میاں بیوی پھر باہم رشتہ جوڑنا چاہیں تو از سر نو نکاح کرلیں ۔ طَلِّقُوْ ھُنَّ لِعِدَّ تِھِنَّ کے یہی معنی اکابر مفسرین نے بیان کیے ہیں ۔ ابن عباس اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ طلاق حیض کی حالت میں نہ دے ، اور نہ اس طہر میں دے جس کے اندر شوہر مباشرت کر چکا ہو ، بلکہ اسے چھوڑے رکھے یہاں تک کہ حیض سے فارغ ہو کر وہ طاہر ہو جائے ۔ پھر اسے ایک طلاق دے دے ۔ اس صورت میں اگر وہ رجوع نہ بھی کرے اور عدت گزر جائے تو وہ صرف ایک ہی طلاق سے جدا ہو گی ( ابن جریر ) ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں عدت کے لیے طلاق یہ ہے کہ طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دی جائے ۔ یہی تفسیر حضرت عبداللہ بن عمر ، مجاہد ، میمون بن مہران ، مقاتِل بن حَیان ، اور ضحاک رحمہم اللہ سے مروی ہے ( ابن کثیر ) عکرمہ اس کا مطلب بیان کرتے ہیں طلاق اس حالت میں دے کہ عورت کا حاملہ ہونا معلوم ہو ، اور اس حالت میں نہ دے کہ وہ اس سے مباشرت کر چکا ہو اور کچھ پتہ نہ ہو کہ وہ حاملہ ہو گئی ہے یا نہیں ( ابن کثیر ) ۔ حضرت حسن بصری اور ابن سیرین ، دونوں کہتے ہیں طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دی جائے ، یا پھر اس حالت میں دی جائے جبکہ حمل ظاہر ہو چکا ہو ( ابن جریر ) ۔ اس آیت کے منشا کو بہترین طریقہ سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس موقع پر واضح فرمایا تھا جب حضرت عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تھی ۔ اس واقعہ کی تفصیلات قریب قریب حدیث کی تمام کتابوں میں نقل ہوئی ہیں ، اور وہی در حقیقت اس معاملہ میں قانون کی ماخذ ہیں ۔ قصہ اس کا یہ ہے کہ جب حضرت عبداللہ نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی تو حضرت عمر نے جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا ۔ آپ سن کر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ اس کو حکم دو کہ بیوی سے رجوع کر لے اور اسے اپنی زوجیت میں روکے رکھے یہاں تک کہ وہ طاہر ہو ، پھر اسے حیض آئے اور اس سے بھی فارغ ہو کر وہ پاک ہو جائے ، اس کے بعد اگر وہ اسے طلاق دینا چاہے تو طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دے ۔ یہی وہ عدت ہے جس کے لیے طلاق دینے کا اللہ عزو جل نے حکم دیا ہے ۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ یا تو طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دے ، یا پھر ایسی حالت میں دے جبکہ اس کا حمل ظاہر ہو چکا ہو اس آیت کے منشا پر مزید روشنی چند اور احادیث بھی ڈالتی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور اکابر صحابہ سے منقول ہیں ۔ نسائی میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اطلاع دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر غصے میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا اَیُلْعَبُ بکتابِ اللہِ وَانَا بَیْنَ اظہرکم؟ کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جا رہا ہے حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں؟ اس حرکت پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غصے کی کیفیت دیکھ کر ایک شخص نے پوچھا کیا میں اسے قتل نہ کر دوں؟ عبدالرزاق نے حضرت عبادہ بن الصامت کے متعلق روایت نقل کی ہے کہ ان کے والد نے اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دے ڈالیں ۔ انہوں نے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مسئلہ پوچھا ۔ آپ نے فرمایا : بانت منہ بثالث فی معصیۃ اللہ تعالیٰ ، و بقی تسع مأۃ و سبع و تسعون ظُلْماً و عُدْو اناً ، ان شاء اللہ عذَّبہ ، وان شاء غفر لہ تین طلاقوں کے ذریعہ سے تو اللہ کی نافرمانی کے ساتھ وہ عورت اس سے جدا ہو گئی ، اور 997 ظلم اور عُدوان کے طور پر باقی رہ گئے جن پر اللہ چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو معاف کر دے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر کے قصے کی جو تفصیل دار قطنی اور ابن ابی شیبہ میں روایت ہوئی ہے اس میں ایک بات یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت عبداللہ بن عمر کو بیوی سے رجوع کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے پوچھا اگر میں اس کو تین طلاق دے دیتا تو کیا پھر بھی میں رجوع کر سکتا تھا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : لا ، کانت تبین منک و کانت معصیۃً نہیں ، وہ تجھ سے جدا ہو جاتی اور یہ فعل معصیت ہوتا ۔ ایک روایت میں آپ کے الفاظ یہ ہیں کہ : اذاً قد عصیت ربک و بانت منک امر أتک ۔ اگر تم ایسا کرتے تو اپنے رب کی نافرمانی کرتے اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہو جاتی ۔ صحابہ کرام سے اس بارے میں جو فتاویٰ منقول ہیں وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انہی ارشادات سے مطابقت رکھتے ہیں ۔ مُؤطّا میں ہے کہایک شخص نے آ کر حضرت عبداللہ بن مسعود سے کہا میں نے اپنی بیوی کو آٹھ طلاقیں دے ڈالی ہیں ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے پوچھا پھر اس پر تمہیں کیا فتویٰ دیا گیا ؟ اس نے عرض کیا مجھ سے کہا گیا ہے کہ عورت مجھ سے جدا ہو گئی ۔ آپ نے فرمایا صدقوا ، ھو مثل ما یقولون ، لوگوں نے سچ کہا ، مسئلہ یہی ہے جو وہ بیان کرتے ہیں ۔ عبدالرزاق نے عَلْقَمہ سے روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص نے ابن مسعود سے کہا میں نے اپنی بیوی کو 99 طلاقیں دے ڈالی ہیں ۔ انہوں نے فرمایا ثلاث بینھا و سائرھن عدوان ۔ تین طلاقیں اسے جدا کرتی ہیں ، باقی سب زیادتیاں ہیں ۔ وَکیع بن الجراح نے اپنی سنن میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ، دونوں کا یہی مسلک نقل کیا ہے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے آ کر عرض کیا کہ میں اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دے بیٹھا ہوں ۔ انہوں نے فرمایا بانت منک بثلاث ۔ وہ تین طلاقوں سے تجھ سے جدا ہو گئی ۔ ایسا ہی واقعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش ہوا تو انہوں نے جواب دیا : بانت منک بثلاث وا قسم سائرھن علی نسائک ۔ تین طلاقوں سے تو وہ تجھ سے جدا ہو گئی ، باقی طلاقوں کو اپنی دوسری عورتوں پر تقسیم کرتا پھر ۔ ابو داؤد اور ابن جریر نے تھوڑے لفظی فرق کے ساتھ مجاہد کی روایت نقل کی ہے کہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کے پاس بیٹھے تھے ۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے بیٹھا ہوں ۔ ابن عباس سن کر خاموش رہے ، حتی کہ میں نے خیال کیا شاید یہ اس کی بیوی کو اس کی طرف پلٹا دینے والے ہیں ۔ پھر انہوں نے فرمایا تم میں سے ایک شخص پہلے طلاق دینے میں حماقت کا ارتکاب کر گزرتا ہے ، اس کے بعد آ کر کہتا ہے یا ابن عباس ، یا ابن عباس ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کر دے گا ، اور تو نے اللہ سے تقویٰ نہیں کیا ۔ اب میں تیرے لیے کوئی راستہ نہیں پاتا ۔ تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے جدا ہو گئی ۔ ایک اور روایت جسے مؤطا اور تفسیر ابن جریر میں کچھ لفظی فرق کے ساتھ مجاہد ہی سے نقل کیا گیا ہے ، اس میں یہ ذکر ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دیں ، پھر ابن عباس سے مسئلہ پوچھا ۔ انہوں نے جواب دیا تین طلاقوں سے تو وہ تجھ سے جدا ہو گئی ، باقی 97 سے تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے جدا ہو گئی اور تو نے اللہ کا خوف نہیں کیا کہ وہ تیرے لیے اس مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کرتا امام طحاوِی نے روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص ابن عباس کے پاس آیا اور اس نے کہا میرے چچا نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے ڈالی ہیں ۔ انہوں نے جواب دیا : اِنَّ عمک عصی اللہ فَاَثِم و اطاع الشیطان فلم یجعل لہ مخرجاً ۔ تیرے چچا نے اللہ کی نافرمانی کی اور گناہ کا ارتکاب کیا اور شیطان کی پیروی کی ۔ اللہ نے اس کے لیے اس مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں رکھا ہے ۔ ابو داؤد اور مؤطا میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو خلوت سے پہلے تین طلاقیں دے دیں ، پھر اس سے دوبارہ نکاح کرنا چاہا اور فتویٰ پوچھنے نکلا ۔ حدیث کے راوی محمد بن بکیر کہتے ہیں کہ میں اس کے ساتھ ابن عباس اور ابوہریرہ کے پاس گیا دونوں کا جواب یہ تھا انک ارسلت من یدک ماکان من فضل ۔ تیرے لیے جو گنجائش تھی تو نے اسے اپنے ہاتھ سے چھوڑ دیا ۔ زمخشری نے کشاف میں بیان کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جو شخص بھی ایسا آتا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہوں اسے وہ مارتے تھے اور اس کی طلاقوں کو نافذ کر دیتے تھے ۔ سعید بن منصور نے یہی بات صحیح سند کے ساتھ حضرت انس کی روایت سے نقل کی ہے ۔ اس معاملہ میں صحابہ کرام کی عام رائے ، جسے ابن ابی شیبہ اور امام محمد نے ابراہیم نخعی سے نقل کیا ہے ، یہ تھی کہ ان الصحابۃ رضی اللہ عنہم کانو یستحبون ان یطلقھا واحد ۃ ثم یتر کھا حتی تحیض ثلاثۃ حیض ۔ صحابہ رضی اللہ عنہیم اس بات کو پسند کرتے تھے کہ آدمی بیوی کو صرف ایک طلاق دے دے اور اس کو چھوڑے رکھے یہاں تک کہ اسے تین حیض آ جائیں ۔ یہ ابن ابی شیبہ کے الفاظ ہیں ۔ اور امام محمد کے الفاظ یہ ہیں: کانو ایستحبون ان لا تزید و افی الطلاق علی واحدۃ حتی تنقضی العدّۃ ۔ ان کو پسند یہ طریقہ تھا کہ طلاق کے معاملہ میں ایک سے زیادہ نہ بڑھیں یہاں تک کہ عدت پوری ہو جائے ان احادیث و آثار کی مدد سے قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیات کا منشا سمجھ کر فقہائے اسلام نے جو مفصل قانون مرتب کیا ہے اسے ہم ذیل میں نقل کرتے ہیں ۔ 1 ) ۔ حنفیہ طلاق کی تین قسمیں قرار دیتے ہیں: احسن ، حسَن اور بِدْعی ۔ احسن طلاق یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو ایسے طہر میں جس کے اندر اس نے مجامعت نہ کی ہو ، صرف ایک طلاق دے کر عدت گزر جانے دے ۔ حَسَن یہ ہے کہ ہر طہر میں ایک ایک طلاق دے ۔ اس صورت میں تین طہروں میں تین طلاق دینا بھی سنت کے خلاف نہیں ہے ، ۔ اگرچہ بہتر یہی ہے کہ ایک ہی طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جائے ۔ اور طلاق بدعت یہ ہے کہ آدمی بیک وقت تین طلاق دے دے ، یا ایک ہی طہر کے اندر الگ الگ اوقات میں تین طلاق دے ، یا حیض کی حالت میں طلاق دے ، یا ایسے طہر میں طلاق دے جس میں وہ مباشرت کر چکا ہو ۔ ان میں سے جو فعل بھی وہ کرے گا گناہگار ہو گا ۔ یہ تو ہے حکم ایسی مدخولہ عورت کا جسے حیض آتا ہو ۔ رہی غیر مدخولہ عورت تو اسے سنت کے مطابق طہر اور حیض دونوں حالتوں میں طلاق دی جا سکتی ہے ۔ اور اگر عورت ایسی مدخولہ ہو جسے حیض آنا بند ہو گیا ہو ، یا ابھی آنا شروع ہی نہ ہوا ہو ، تو اسے مباشرت کے بعد بھی طلاق دی جا سکتی ہے ، کیونکہ اس کے حاملہ ہونے کا امکان نہیں ہے ۔ اور عورت حاملہ ہو تو مباشرت کے بعد اسے بھی طلاق دی جا سکتی ہے ، کیونکہ اس کا حاملہ ہونا پہلے ہی معلوم ہے ۔ لیکن ان تینوں قسم کی عورتوں کو سنت کے مطابق طلاق دینے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ایک مہینہ بعد طلاق دی جائے ، اور احسن یہ ہے کہ صرف ایک طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جائے ۔ ( ہدایہ ، فتح القدیر ، احکام القرآن للجصاص ، عمدۃ القاری ) ۔ امام مالک کے نزدیک بھی طلاق کی تین قسمیں ہیں ۔ سُنی ، بدعی مکروہ ، اور بدعی حرام ۔ سنت کے مطابق طلاق یہ ہے کہ مدخولہ عورت کو جسے حیض آتا ہو ، طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر ایک طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جائے ۔ بِدعی مکروہ یہ ہے کہ ایسے طہر کی حالت میں طلاق دی جائے جس میں آدمی مباشرت کر چکا ہو ، یا مباشرت کیے بغیر ایک طہر میں ایک سے زیادہ طلاقیں دی جائیں ، یا عدت کے اندر الگ الگ طہروں میں تین طلاقیں دی جائیں ، یا بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی جائیں ۔ اور بِدعی حرام یہ ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق دی جائے ۔ ( حاشیہ الدسوقی علیٰ الشرح الکبیر ۔ احکام القرآن لابن العربی ) ۔ امام احمد بن حنبل کا معتبر مذہب یہ ہے جس پر جمہور حنابلہ کا اتفاق ہے : مدخولہ عورت جس کو حیض آتا ہو اسے سنت کے مطابق طلاق دینے کا طریقہ یہ ہے کہ طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر اسے طلاق دی جائے ، پھر اسے چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ عدت گزر جائے ۔ لیکن اگر اسے تین طہروں میں تین الگ الگ طلاقیں دی جائیں ، یا ایک ہی طہر میں تین طلاقیں دے دی جائیں ، یا بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی جائیں ، یا حیض کی حالت میں طلاق دی جائے ، یا ایسے طہر میں طلاق دی جائے جس میں مباشرت کی گئی ہو اور عورت کا حاملہ ہونا ظاہر نہ ہو ، تو یہ سب طلاق بدعت اور حرام ہیں ۔ لیکن اگر عورت غیر مدخولہ ہو ، یا ایسی مدخولہ ہو جسے حیض آنا بند ہو گیا ہو ، یا ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو ، یا حاملہ ہو ، تو اس کے معاملہ میں نہ وقت کے لحاظ سے سنت و بدعت کا کوئی فرق ہے نہ تعداد کے لحاظ سے ۔ ( الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف علیٰ مذہب احمد بن حنبل ) ۔ امام شافعی کے نزدیک طلاق کے معاملہ میں سنت اور بدعت کا فرق صرف وقت کے لحاظ سے ہے نہ کہ تعداد سے َ یعنی مدخول عورت جس کو حیض آتا ہو ا سے حیض کی حالت میں طلاق دینا ‘ یا جو حاملہ ہو سکتی ہو اسے ا یسے طُہر میں طلا ق دینا جس میں مباشرت کی جا چکی ہو اور عورت کا حاملہ ہونا ظا ہر نہ ہو‘ بدعت اور حرام ہے ۔ رہی طلاقوں کی تعداد ، تو خواہ بیک وقت تین طلاقیں دی جائیں ، یا ایک ہی طْہر میں دی جائیں ، یا الگ الگ طُہروں میں دی جائیں ، بہر حال یہ سنّت کے خلاف نہیں ہے ۔ اور غیر مدخولہ عورت جسے حیض آنا بند ہو گیا ہو ، یا حیض آیا ہی نہ ہو ، یا جس کا حاملہ ہونا ظاہر ہو ، اس کے معاملہ میں سنّت اور بدعت کا کوئی فرق نہیں ہے ۔ ( مغنی المحتاج ) ۔ ( 2 ) کسی طلاق کے بدعت ، مکروہ ، حرام ، یا گناہ ہونے کا مطلب ائمۂ اربعہ کے نزدیک یہ نہیں ہے کہ وہ واقع ہی نہ ہو ۔ چاروں مذاہب میں طلاق ، خواہ حیض کی حالت میں دی گئی ہو ، یا بیک وقت تین طلاقیں دے دی گئی ، یا ایسے طہر میں طلاق دی گئی ہو جس میں مباشرت کی جاچکی ہو اور عورت کا حاملہ ہونا ظاہر نہ ہوا ہو ، یا کسی اور ایسے طریقے سے دی گئی ہو جسے کسی امام نے بدعت قرار دیا ہے ، بہر حال واقع ہو جاتی ہے ، اگر چہ آدمی گناہ گار ہوتا ہے ۔ لیکن بعض دوسرے مجتہدین نے اس مسئلے میں ائمۂ اربعہ سے اختلاف کیا ہے ۔ سعید بن المستیب اور بعض دوسرے تابعین کہتے ہیں کہ جو شخص سنت کے خلاف حیض کی حالت میں طلاق دے دے اس کی طلاق سرے سے واقع ہی نہیں ہوتی ۔ یہی رائے امامیہ کی ہے ۔ اور اس رائے کی بنیاد یہ ہے کہ ایسا کرنا چونکہ ممنوع اور بدعت محرمہ ہے اس لئے یہ غیر مؤثر ہے ۔ حالانکہ اوپر جو احادیث ہم نقل کر آئے ہیں ان میں یہ بیان ہوا کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے جب بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو حضور نے انہیں رجوع کا حکم دیا ۔ اگر یہ طلاق واقع ہی نہیں ہوئی تھی تو رجوع کا حکم دینے کے کیا معنی؟ اور یہ بھی بکثرت احادیث سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اکابر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایک سے زیادہ طلاق دینے والے کو اگرچہ گناہگار قرار دیا ہے ، مگر اس کی طلاق کو غیر مؤثر قرار نہیں دیا ۔ طاؤس اور عکرمہ کہتے ہیں کہ بیک وقت تین طلاقیں دی جائیں تو صرف ایک طلاق واقع ہوتی ہے ، اور اسی رائے کو امام ابن تیمیہ نے اختیار کیا ہے ۔ ان کی اس رائے کا ماخذ یہ روایت ہے کہ ابو الصہباء نے ابن عباس سے پوچھا کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں تین طاقوں کو ایک قرار دیا جاتا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا ہاں ( بخاری و مسلم ) اور مسلم ، ابو داؤد اور مسند احمد میں ابن عباس کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد ، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سوالوں میں تین طلاق کو ایک قرار دیا جاتا تھا ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگ ایک ایسے معاملہ میں جلد بازی کرنے لگے ہیں جس میں ان کے لیئے سوچ سمجھ کر کام کرنے کی گنجائش رکھی گئی تھی ۔ اب کیوں نہ ہم ان کے اس فعل کر نافذ کر دیں؟ چنانچہ انہوں نے اسے نافذ کر دیا لیکن یہ رائے کئی و جوہ سے قابل قبول نہیں ہے ۔ اول تو متعدد روایات کے مطابق ابن عباس کا اپنا فتوی اس کے خلاف تھا جیسا کہ ہم اوپر نقل کر چکے ہیں ۔ دوسرے یہ بات ان احادیث کے بھی خلاف پڑتی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اکابر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منقول ہوئی ہیں ، جن میں بیک وقت تین طلاق دینے والے کے متعلق یہ فتوی دیا گیا ہے کہ اس کی تینوں طلاقیں نافذ ہو جاتی ہیں ۔ یہ احادیث بھی ہم نے اوپر نقل کر دی ہیں ۔ تیسرے ، خود ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے مجمع میں تین طاقوں کو نافذ کرنے کا اعلان فرمایا تھا ، لیکن نہ اس وقت ، نہ اس کے بعد کبھی صحابہ میں سے کسی نے اس سے اختلاف کا اظہار کیا ۔ اب کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سنت کے خلاف کسی کام کا فیصلہ کر سکتے تھے ؟ اور سارے صحابہ رضی اللہ عنہم اس پر سکوت بھی پر اختیار کر سکتے تھے ؟ مزید براں رکانہ بن عبد یزید کے قصے میں ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ، امام شافعی دارمی اور حاکم نے یہ روایت نقل کی ہے کہ رکانہ نے جب ایک ہی مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حلف دے کر پوچھا کہ ان کی نیت ایک ہی طلاق دینے کی تھی؟ ( یعنی باقی دو طلاقیں پہلی طلاق پر زور دینے کے لیئے ان کی زبان سے نکلی تھیں ، تین طلاق دے کر ہمیشہ کے لئے جدا کر دینا مقصود نہ تھا ) اور جب انہوں نے یہ حلفیہ بیان دیا تو آپ نے ان کو رجوع کا حق دے دیا ۔ اس سے اس معاملہ کی اصل حقیقت معلوم ہو جاتی ہے کہ ابتدائی دور میں کسی قسم کی طلاقوں کو ایک کے حکم میں رکھا جاتا تھا ۔ اسی بنا پر شارحین حدیث نے ابن عباس کی روایت کا یہ مطلب لیا ہے کہ ابتدائی دور میں چونکہ لوگوں کے اندر دینی معاملات میں خیانت قریب مفقود تھی ، اس لیئے تین طلاقیں محض پہلی طلاق پر زور دینے کے لیئے اس کی زبان سے نکلی تھیں ۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ لوگ پہلے جلد بازی کر کے تین تین طلاقیں دے ڈالتے ہیں اور پھر تاکید کا بہانہ کرتے ہیں تو انہوں نے اس بہانے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ امام نووی اور امام سبکی نے اسے ابن عباس والی روایت کی بہترین تاویل قرار دیا ہے ۔ آخری بات یہ ہے کہ خود ابو الصباء کی ان روایات میں اضطراب پایا جاتا ہے جو ابن عباس کے قول کے بارے میں ان سے مروی ہیں ۔ مسلم اور ابوداؤد اور نسائی نے انہی ابو الصباء سے ایک روایت یہ نقل کی ہے کہ ان کے دریافت کرنے پر ان عباس نے فرمایا ایک شخص جب خلوت سے پہلے بیوی کو تین طلاقیں دیتا تھا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں اس کو ایک طلاق قرار دیا جاتا تھا اس طرح ایک ہی راوی نے ابن عباس سے دو مختلف مضمونوں کی روایتیں نقل کی ہیں اور یہ اختلاف دونوں روایتوں کو کمزور کر دیتا ہے ۔ ( 3 ) حیض کی حالت میں طلاق دینے والے کو چونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رجوع کا حکم دیا تھا ، اس لیئے فقہا کے درمیان یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ یہ حکم کس معنی ہے ۔ امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، امام احمد ، امام اوزاعی ، ابن ابی لیلی ، اسحاق بن راہویہ اور ابو ثور کہتے ہیں کہ ایسے شخص کو رجوع کا حکم تو دیا جائے گا مگر رجوع پر مجبور نہ کیا جائے گا ( عمدۃ القاری ) ۔ ہدایہ ہیں حنفیہ کا مذہب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس صورت میں رجوع کرنا نہ صرف مستحب بلکہ واجب ہے ۔ مغنی المحتاج میں شافعیہ کا مسلک یہ بیان ہوا ہے کہ جس نے حیض میں طلاق دی ہو اور تین نہ دے ڈالی ہوں اس کے لیئے مسنون یہ ہے کہ وہ رجوع کرے ، اور اس کے بعد والے طہر میں طلاق نہ دے بلکہ اس کے گزر نے کے بعد جب دوسری مرتبہ عورت حیض سے فارغ ہو تب طلاق دینا چاہے تو دے ، تاکہ حیض میں دی ہوئی طلاق سے رجوع محض کھیل کے طور پر نہ ہو ۔ الانصاف میں حنابلہ کا مسلک یہ بیان ہوا ہے کہ اس حالت میں طلاق دینے والے کے لیئے رجوع کرنا مستحب ہے ۔ لیکن امام مالک اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ حیض کی حالت میں طلاق دینا جرم قابل دست اندازیِ پولیس ہے ۔ عورت خواہ مطالبہ کرے یا نہ کرے ، بہر حال حاکم کا یہ فرض ہے کہ جب کسی شخص کا یہ فعل اس کے علم میں آئے تو وہ اسے رجوع پر مجبور کرے اور عدت کے آخری وقت تک اس پر دباؤ ڈالتا رہے ۔ اگر وہ انکار کرے تو اسے قید کر دے ۔ پھر بھی انکار کرے تو اسے مارے ۔ اس پر نہ مانے تو حاکم خود فیصلہ کر دے کہ میں نے تیری بیوی تجھ پر واپس کر دی اور حاکم کا یہ فیصلہ رجوع ہو گا جس کے بعد مرد کے لیئے اس عورت سے مباشرت کرنا جائز ہوگا ، خواہ اس کی نیت رجوع کی ہو یا نہ ہو ، کیونکہ حاکم کی نیت کی قائم مقام ہے ( حاشیہ الدسوتی ) مالکیہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جس شخص نے طوعاً و کرہاً حیض میں دی ہوئی رجوع کر لیا ہو وہ اگر طلاق ہی دینا چاہے تو اس کے لیئے مستحب طریقہ یہ ہے کہ جس حیض میں اس نے طلاق دی ہے اس کے بعد والے طہر میں سے طلاق نہ دے بلکہ جب دوبارہ حیض آنے کے بعد وہ طاہر ہو اس وقت طلاق دے ۔ طلاق سے متصل والے طہر میں طلاق نہ دے نے کا حکم دراصل اس لیئے دیا گیا ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق دینے والے کا رجوع صرف زبانی کلامی نہ ہو بلکہ اسے طہر کے زمانے میں عورت سے مباشرت کرنی چاہیے پھر جس طہر میں مباشرت کی جاچکی ہو اس میں طلاق دینا چونکہ ممنوع ہے ، لہذا طلاق دینے کا صحیح وقت اس کے والا طہر ہی ہے ( حاشیہ الدسوتی ) ۔ ( 4 ) رجوعی طلاق دینے والے کے لیئے رجوع کا موقع کسی وقت تک ہے ؟ اس میں بھی فقہاء کے درمیان سے مراد تین حیض ہیں یا تین طہر؟ امام شافعی اور امام مالک کے نزدیک قرء سے مراد حیض ہے اور امام احمد بن حنبل کا معتبر مذہب بھی یہی ہے ۔ یہ رائے چاروں خلفاء راشدین ، عبداللہ بن مسعود عبد اللہ بن عباس ابی بن کعب ، معاذ بن جبل ، ابو الدردا ، عبادہ بن صامت اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہم سے منقول ہے ۔ امام محمد نے مؤطا میں شعبی کا قول نقل کیا ہے کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے 13 صحابیوں سے ملے ہیں ، اور ان سب کی رائے یہی تھی ۔ اور یہی بکثرت تابعین نے بھی اختیار کی ہے ۔ اس اختلاف کی بنا شافعیہ اور مالکیہ کے نزدیک تیسرے حیض میں داخل ہوتے ہی عورت کی عدت ختم ہو جاتی ہے ، اور مرد کا حق رجوع ساقط ہو جاتا ہے ۔ اور اگر طلاق حیض کی حالت میں دی گئی ہو ، اس حیض کا شمار عدت میں نہ ہوگا ، بلکہ چو تھے حیض میں داخل ہونے پر عدت ختم ہوگی ( مضنی المحتاج أ حاشیہ الدستی ) حنفیہ کا مذہب یہ ہے کہ اگر تیسرے حیض میں دس دن گزر نے پر خون بند ہو تو عورت کی عدت ختم نہ ہوگی جب تک عورت غسل نہ کرے ، یا ایک نماز کا پورا وقت نہ گزر جائے ۔ پانی نہ ہونے کی صورت میں امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک جب عورت تیمم کر کے نماز پڑ ھ لے اس وقت مرد کا حق رجوع ختم ہو گا ، اور امام محمد کے نزدیک تیمم کرتے ہی حق رجوع ختم ہو جائے گا ( ہدایہ ) امام احمد کا معتبر مذہب جس پر جمہور حنابلہ کا اتفاق ہے ، یہ ہے کہ جب تک عورت تیسرے حیض سے فارغ ہو کر غسل نہ کر لے مرد کا حق رجوع باقی رہے گا ( الانصاف ) ( 5 ) رجوع کس طرح ہوتا ہے اور کس طرح نہیں ہوتا ؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان یہ امر متفق علیہ ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو رجعی طلاق دی ہو وہ عدت ختم ہونے پہلے چاہے رجوع کر سکتا ہے ، خواہ عورت راضی ہو یا نہ ہو ۔ کیونکہ قرآن مجید ( سورہ بقرہ ، آیت 228 ) میں فرما یا گیا ہے وَبُعُولَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ ان کے شوہر اس مدت کے اندر انہیں واپس لے لینے کے پوری طرح حق دار ہیں اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عدت گزر نے سے پہلے تک ان کی زوجیت بر قرار رہتی ہے اور وہ انہیں قطعی طور پر چھوڑ دینے سے پہلے واپس لے سکتے ہیں ۔ بالفاظ دیگر رجوع کوئی تجدید نکاح نہیں ہے کہ اس کے لیئے عورت کی رضا ضروری ہو ۔ شافعیہ کے نزدیک رجوع صرف قول ہی سے ہو سکتا ہے ، عمل سے نہیں ہو سکتا ۔ اگر آدمی زبان سے یہ نہ کہے کہ میں نے رجوع کیا تو مباشرت یا اختلاط کا کوئی فعل خواہ رجوع کی نیت ہی سے کیا گیا ہو ، رجوع قرار نہیں دیا جا ئے گا ، بلکہ اس صورت میں عورت سے ہر قسم سے کا اتمتاع حرام ہے چاہے وہ بلا شہوت ہی ہو ۔ لیکن مطلقہ رجعیہ سے مباشرت کرنے پر حد نہیں ہے ، کیونکہ علماء کا اس کے حرام ہونے پر اتفاق نہیں ہے ۔ البتہ جو اس کے حرام ہونے کا اعتقاد رکھتا ہوا سے تعزیز دی جائے گی ۔ مزید براں آدمی رجوع بالقول کرے یا نہ کرے ( مغنی المحتاج ) ۔ مالکیہ کہتے ہیں کہ رجوع قول اور فعل ، دونوں سے ہو سکتا ہے ۔ اگر رجوع بالقول میں آدمی صریح الفاظ استعمال کرے تو خواہ اس کی نیت رجوع کی ہو یا نہ ہو ، رجوع ہو جائے گا ، بلکہ اگر وہ مذاق کے طور پر بھی رجوع قرار دیئے جائیں گے جبکہ وہ رجوع کی نیت سے کہے گئے ہوں ۔ رہا رجوع بالفعل تو کوئی فعل خواہ وہ اختلاط ہو ، یا مباشرت ، اس وقت تک رجوع قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک کہ وہ رجوع کی نیت سے نہ کیا گیا ہو ( حاشیتہ الدسوتی ۔ احکام القرآن لابن العربی ) حنیفہ اور حنابلہ کا مسلک رجوع بالقول کے معاملہ میں وہی جو مالکیہ کا ہے ۔ ربا رجوع بالفعل ، تو مالکیہ کے بر عکس ان دونوں مذاہب کا فتوی یہ ہے کہ شوہر اگر عدت کے اندر مطلقہ رجعیہ سے مباشرت کر لے تو وہ آپ سے آپ رجوع ہے ، خواہ وہ مباشرت سے کم کسی درجے کا ہو ، اور حنابلہ محض اختلاط کو رجوع نہیں مانتے ( ہدایہ ، فتح القدیر ، عمدۃ القاری ، الانصاف ) ( 6 ) طلاق سنت اور طلاق بدعت کے نتائج کا فرق یہ ہے کہ ایک طلاق یا دو طلاق دینے کی صورت میں اگر عدت گزر بھی جائے تو مطلّقہ عورت اور اس کے سابق شوہر کے درمیان باہمی رضامندی سے پھر نکاح ہو سکتا ہے ۔ لیکن اگر آدمی تین طلاق دے چکا ہو تو نہ عدّت کے اندر رجوع ممکن ہے اور نہ عدّت گزر جانے کے بعد دو بارہ نکاح کیا جا سکتا ہے ۔ الّا یہ کہ اس عورت کا نکاح کسی اور شخص سے ہو ، وہ نکاح صحیح نوعیت کاہو ، دوسرا شوہر اس عورت سے مباشرت بھی کر چکا ہو ، پھر یا تو وہ اسے طلاق دے دے یا مر جائے ۔ اس کے بعد اگر عورت اور اس کا سابق شوہر رضامندی کے ساتھ از سرِ نو نکاح کرنا چاہیں توکر سکتے ہیں ۔ احادیث کی اکثر کتابوں میں صحیح سند کے ساتھ یہ روایت آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ، پھر اس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا ، اور اس دوسرے شوہر کے ساتھ اس کی خلوت بھی ہوئی مگر مباشرت نہیں ہوئی ، پھر اس نے اسے طلاق دے دی ، اب کیا اس عورت کا اپنے سابق شوہر سے دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: لا ، حتّٰی یزوق الاٰخر من عسَیْلتھا ما ذاق الاول ۔ نہیں ، جب تک کہ دوسرا شوہر اس سے اسی طرح لطف اندوز نہ ہو چکا ہو جس طرح پہلا شوہر ہوا تھا ۔ رہا سازشی نکاح ، جس میں پہلے سے یہ طے شدہ ہو کہ عورت کو سابق شوہر کے لیے حلال کرنے کی خاطر ایک آدمی اس سے نکاح کرے گا اور مباشرت کرنے کے بعد اسے طلاق دیدے گا ، تو امام ابو یوسف کے نزدیک یہ نکاح فاسد ہے ، اور امام ابوحنفیہ کے نزدیک اس سے تحلیل تو ہو جائے گی ، مگر یہ فعل مگر وہ تحریمی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لعن اللہ المحلل و المحلل لہ ، اللہ نے تحلیل کرنے والے اور تحلیل کرانے والے ، دونوں پر لعنت فرمائی ہے ( ترمذی ، نسائی ) ۔ حضرت عقبہ بن عامر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ سے پوچھا الا اخبرکم بالتیس المستعار؟ کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ کرائے کا سانڈ کون ہوتا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا ضرور ارشاد فرمائیں ۔ فرمایا ھوالمحلل ، لعن اللہ المحلل و المحلل لہ ۔ وہ تحلیل کرنے والا ہے ۔ خدا کی لعنت ہے تحلیل کرنے والے پر بھی اور اس شخص پر بھی جس کے لیے تحلیل کی جائے ( ابن ماجہ ۔ دارقطنی ) ۔ سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :2 اس حکم کا خطاب مردوں سے بھی ہے اور عورتوں سے بھی اور ان کے خاندان والوں سے بھی ۔ مطلب یہ ہے کہ طلاق کو کھیل نہ سمجھ بیٹھو کہ طلاق کا اہم معاملہ پیش آنے کے بعد یہ بھی یاد نہ رکھا جائے کہ کب طلاق دی گئی ہے ، کب عدت شروع ہوئی اور کب اس کو ختم ہونا ہے ۔ طلاق ایک نہایت نازک معاملہ ہے جس سے عورت اور مرد اور ان کی اولاد اور ان کے خاندان کے لیے بہت سے قانونی مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ اس لیے جب طلاق دی جائے تو اس کے وقت اور تاریخ کو یاد رکھا جائے ، اور یہ بھی یاد رکھا جائے کہ کس حالت میں عورت کو طلاق دی گئی ہے ، اور حساب لگا کر دیکھا جائے کہ عدت کا آغاز کب ہوا ہے ، کب تک وہ باقی ہے ، اور کب وہ ختم ہو گئی ۔ اسی حساب پر ان امور کا فیصلہ موقوف ہے کہ شوہر کو کب تک رجوع کا حق ہے ۔ کب تک اسے عورت کو گھر میں رکھنا ہے ، کب تک اس کا نفقہ دینا ہے ، کب تک وہ عورت کا وارث ہو گا اور عورت اس کی وارث ہو گی ، کب عورت اس سے جدا ہو جائے گی اور اسے دوسرا نکاح کر لینے کا حق حاصل ہو جائے گا ۔ اور اگر یہ معاملہ کسی مقدمہ کی صورت اختیار کر جائے تو عدالت کو بھی صحیح فیصلہ کرنے کے لیے طلاق کی صحیح تاریخ اور وقت اور عورت کی حالت معلوم ہونے کی ضرورت ہو گی ، کیونکہ اس کے بغیر وہ مدخولہ اور غیر مدخولہ ، حاملہ اور غیر حاملہ ، بے حیض اور باحیض ، رجعیہ اور غیر رجعیہ عورتوں کے معاملہ میں طلاق سے پیدا شدہ مسائل کا صحیح فیصلہ نہیں کر سکتی ۔ سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :3 یعنی نہ مرد غصے میں آ کر عورت کو گھر سے نکال دے ، اور نہ عورت خود ہی بگڑ کر گھر چھوڑ دے ۔ عدت تک گھر اس کا ہے ۔ اسی گھر میں دونوں کو رہنا چاہیے ، تاکہ باہم موافقت کی کوئی صورت اگر نکل سکتی ہو تو اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے ۔ طلاق اگر رجعی ہو تو کسی وقت بھی شوہر کی طبیعت بیوی کی طرف مائل ہو سکتی ہے ، اور بیوی بھی اختلاف کے اسباب کو دور کر کے شوہر کو راضی کرنے کی کوشش کر سکتی ہے ۔ دونوں ایک گھر میں موجود رہیں گے تو تین مہینے تک ، یا تین حیض آنے تک ، یا حمل کی صورت میں وضع حمل تک اس کے مواقع بارہا پیش آ سکتے ہیں ۔ لیکن اگر مرد جلد بازی کر کے اسے نکال دے ، یا عورت ناسمجھی سے کام لے کر میکے جا بیٹھے تو اس صورت میں رجوع کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں اور بالعموم طلاق کا انجام آخر کار مستقل علیٰحدگی ہو کر رہتا ہے ۔ اسی لیے فقہاء نے یہاں تک کہا ہے کہ طلاق رجعی کی صورت میں جو عورت عدت گزار رہی ہو اسے بناؤ سنگھار کرنا چاہیے تاکہ شوہر اس کی طرف مائل ہو ( ہدایہ ۔ الانصاف ) ۔ فقہاء کے درمیان اس امر میں اتفاق ہے کہ مطلقہ رجعیہ کو عدت کے زمانے میں سکونت اور نفقہ کا حق ہے ، اور عورت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے جائے ، اور مرد کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ اسے گھر سے نکالے ۔ اگر مرد اسے نکالے گا تو گناہ گار ہو گا ، اور عورت اگر خود نکلے گی تو گناہ گار بھی ہو گی اور نفقہ و سکونت کے حق سے بھی محروم ہو جائے گی ۔ سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :4 اس کے متعدد مطلب مختلف فقہاء نے بیان کیے ہیں ۔ حضرت حسن بصری ، عامر شعبی ، زید بن اسلم ، ضحاک ، مجاہد ، عکرمہ ، ابن زید ، حماد اور لیث کہتے ہیں کہ اس سے مراد بدکاری ہے ۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ اس سے مراد بد زبانی ہے ، یعنی یہ کہ طلاق کے بعد بھی عورت کا مزاج درستی پر نہ آئے ، بلکہ وہ عدت کے زمانے میں شوہر اور اس کے خاندان والوں سے جھگڑتی اور بد زبانی کرتی رہے ۔ قتادہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد نشوز ہے ، یعنی عورت کو نشوز کی بنا پر طلاق دی گئی ہو اور عدت کے زمانے میں بھی وہ شوہر کے مقابلے پر سرکشی کرنے سے باز نہ آئے ۔ عبد اللہ بن عمر ، سدی ، ابن السائب ، اور ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اس سے مراد عورت کا گھر سے نکل جانا ہے ، یعنی ان کی رائے میں طلاق کے بعد عدت کے زمانہ میں عورت کا گھر چھوڑ کر نکل جانا بجائے خود فاحشۃ مبینۃ ( صریح برائی کا ارتکاب ) ہے ، اور یہ ارشاد کہ وہ نہ خود نکلیں الّا یہ کہ صریح برائی کی مرتکب ہوں کچھ اس طرح کا کلام ہے جیسے کوئی کہے کہ تم کسی کو گالی نہ دو الّا یہ کہ بدتمیز بنو ان چار اقوال میں سے پہلے تین قولوں کے مطابق الّا یہ کا تعلق ان کو گھروں سے نہ نکالو کے ساتھ ہے اور اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ بد چلنی یا بد زبانی یا نشوز کی مرتکب ہوں تو انہیں نکال دینا جائز ہو گا ۔ اور چوتھے قول کی رو سے اس کا تعلق اور نہ وہ خود نکلیں کے ساتھ ہے اور مطلب یہ ہے کہ اگر وہ نکلیں گی تو صریح برائی کی مرتکب ہوں گی ۔ سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :5 یہ دونوں فقرے ان لوگوں کے خیال کی بھی تردید کرتے ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ حیض کی حالت میں طلاق دینے یا بیک وقت تین طلاق دے دینے سے کوئی طلاق سرے سے واقع ہی نہیں ہوتی ، اور ان لوگوں کی رائے کو بھی غلط ثابت کر دیتے ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ بیک وقت تین طلاق ایک ہی طلاق کے حکم میں ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر بدعی طلاق واقع ہی نہیں ہوتی یا تین طلاق ایک ہی طلاق رجعی کے حکم میں ہیں ، تو یہ کہنے کی آخر ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے کہ جو اللہ کی حدود ، یعنی سنت کے بتائے ہوئے طریقے کی خلاف ورزی کرے گا وہ اپنے نفس پر ظلم کرے گا ، اور تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ موافقت کی کوئی صورت پیدا کر دے ؟ یہ دونوں باتیں تو اسی صورت میں با معنی ہو سکتی ہیں جبکہ سنت کے خلاف طلاق دینے سے واقعی کوئی نقصان ہوتا ہو جس پر آدمی کو پچھتانا پڑے ، اور تین طلاق بیک وقت دے بیٹھنے سے رجوع کا کوئی امکان باقی نہ رہتا ہو ۔ ورنہ ظاہر ہے کہ جو طلاق واقع ہی نہ ہو اس سے حدود اللہ پر کوئی تعدی نہیں ہوتی جو اپنے نفس پر ظلم قرار پائے ، اور جو طلاق بہرحال رجعی ہی ہو اس کے بعد تو لازماً موافقت کی صورت باقی رہتی ہے ، پھر یہ کہنے کی کوئی حاجت نہیں ہے کہ شاید اس کے بعد اللہ موافقت کی کوئی صورت پیدا کر دے ۔
1: جب میاں بیوی میں طلاق کے ذریعے علیحدگی ہوجائے تو عورت کو دُوسرا نکاح کرنے کے لئے کچھ مدّت اِنتظار کرنا ضروری ہوتا ہے، اس مدّت کو ’’عدّت‘‘ کہا جاتا ہے، سورۂ بقرہ (۲:۲۲۸) میں گذرچکا ہے کہ جن عورتوں کو طلاق ہوگئی ہو، اُن کی عدّت یہ ہے کہ طلاق کے بعد ان کو تین ماہواریاں آجائیں، اب اس آیت میں طلاق دینے والوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر انہیں طلاق دینی ہو تو وہ ایسے وقت طلاق دیں کہ عدّت شروع ہونے والی ہو، حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی تشریح یہ فرمائی ہے کہ ایسے وقت طلاق نہ دی جائے جب بیوی کو ماہواری آرہی ہو، بلکہ ایسے طہر یعنی پاکی کی حالت میں طلاق دی جائے جس میں بیوی سے جماع بھی نہ کیا ہو، اس حکم میں دو مصلحتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں، ایک یہ کہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ اول تو جب میاں بیوی کا رشتہ ایک مرتبہ قائم ہوجائے تو وہ قائم رہے، اور اگر طلاق کے ذریعے اُس کے ٹوٹنے کی نوبت آئے تو وہ بھی اچھی طرح سوچ سمجھ کر شریفانہ طریقہ پر ہو جس میں فریقین میں سے کوئی دوسرے کے لئے ناواجبی تکلیف کا سبب نہ بنے، اگر ماہواری کی حالت میں طلاق دی جائے تو ہوسکتا ہے کہ وہ وقتی نفرت کی وجہ سے دی جارہی ہو، یا اگر ایسی پاکی کی حا لت میں دی جائے جس میں دونوں جماع کرچکے ہوں تب بھی ہوسکتا ہے کہ بیوی کی طرف شوہر کی رغبت کم ہوگئی ہو، اس کے برخلاف اگر ایسے طہر میں طلاق دی جائے جس میں ایک مرتبہ بھی جماع نہ ہوا ہو تو عام طور پر یہ وقت ایسا ہوتا ہے جب بیوی کی طرف شوہر کی رغبت اپنے شباب پر ہوتی ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ طلاق دے رہا ہے تو اس بات کی علامت ہے کہ طلاق کسی وقتی بے رغبتی کا نتیجہ نہیں ہے، دوسری مصلحت یہ ہے کہ اگر ماہواری کے زمانے میں طلاق دی جائے تو عورت کے لئے عدّت کا زمانہ بلا وجہ لمبا ہوجاتا ہے، کیونکہ جس ماہواری کے دوران طلاق دی گئی ہے، وہ عدّت میں شمار نہیں ہوگی اس لئے عدّت اُس وقت شروع ہوگی جب عورت اس ماہواری سے پاک ہوجائے، پھر دوبارہ ماہواری آنے کا اِنتظار کرے، اس سے عورت کو تکلیف ہوسکتی ہے، لہٰذا حکم یہ دیا گیا ہے کہ طلاق ایسے طہر میں دی جائے جس میں جماع نہ ہوا ہو۔ یہ اس آیت کی وہ تفسیر ہے جو اکثر مفسرین نے اختیار کی ہے اور اس کی تائید کچھ صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ بعض مفسرین نے اس کی ایک اور تفسیر کی ہے، وہ آیت کا ترجمہ یہ کرتے ہیں کہ: ’’انہیں عدّت کے لئے طلاق دو‘‘، اور مطلب یہ بتاتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اس بات کی ترغیب دے رہے ہیں کہ اِنسان جب بیوی کو طلاق دے تو رجعی طلاق یعنی ایسی طلاق دے جس سے عدّت کے دوران رُجوع کرنا ممکن ہو، گویا عدّت تک کے لئے طلاق دی جائے، اس دوران سوچنے سمجھنے کا موقع ہوگا۔ اور اگر حالات معمول پر آجائیں تو طلاق سے رُجوع کرلیا جائے، جیسا کہ اگلی آیت میں بیان فرمایا گیا ہے۔ 2: عدّت کے دوران شوہر کے ذمے واجب ہے کہ جس بیوی کو طلاق دی ہے، اس کو اپنے گھر میں رہائش فراہم کرے، اور عورت کے ذمے بھی یہ واجب ہے کہ وہ شوہر ہی کے گھر میں عدت گزارے، اور کہیں نہ جائے، البتہ اﷲ تعالیٰ نے وہ صورت اس سے مستثنیٰ فرمادی ہے جب عورت کسی کھلی بے حیائی کا ارتکاب کرے، اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ کسی بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھے، اور دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ لڑائی جھگڑے میں بدزبانی کرنے لگے۔ اس صورت میں بھی اس کا شوہر کے گھر میں رہنا ضروری نہیں ہے۔ 3: یہ اسی طرف اشارہ ہے کہ بعض اوقات باہمی جھگڑے کی وجہ سے لوگ طلاق دے ڈالتے ہیں، لیکن بعد میں اﷲ تعالیٰ دونوں کے درمیان صلح صفائی کرادیتے ہیں، ایسی صورت میں نکاح کا رشتہ دوبارہ قائم ہوسکتا ہے، لیکن یہ اُسی وقت ممکن ہوگا جب طلاق رجعی دی گئی ہو، اس لئے اس آیت میں ترغیب یہی دی گئی ہے کہ طلاق دینی بھی ہو تو رجعی طلاق دینی چاہئیے، کیونکہ طلاق بائن کے بعد شوہر کے ہاتھ سے رجوع کا اختیار نکل جاتا ہے اور طلاق مغلظہ (تین طلاقوں) کے بعد میاں بیوی دونوں کے ہاتھ سے دوسرا نکاح کرنے کا اِختیار بھی ختم ہوجاتا ہے۔