عائلی قانون ارشاد ہوتا ہے کہ عدت والی عورتوں کی عدت جب پوری ہونے کے قریب پہنچ جائے تو ان کے خاوندوں کو چاہئے کہ دو باتوں میں سے ایک کرلیں یا تو انہیں بھلائی اور سلوک کے ساتھ اپنے ہی نکاح میں روک رکھیں یعنی طلاق جو دی تھی اس سے رجوع کر کے باقاعدہ اس کے ساتھ بود و باش رکھیں یا انہیں طلاق دے دیں ، لیکن برا بھلا کہے بغیر گالی گلوچ دیئے بغیر سرزنش اور ڈانٹ ڈپٹ بغیر بھلائی اچھائی اور خوبصورتی کے ساتھ ۔ ( یہ یاد رہے کہ رجعت کا اختیار اس وقت ہے جب ایک طلاق ہوئی ہو یا دو ہوئی ہوں ) پھر فرمایا ہے اگر رجعت کا ارادہ ہو اور رجعت کرو یعنی لوٹا لو تو اس پر دو عادل مسلمان گواہ رکھ لو ، ابو داؤد اور اور ابن ماجہ میں ہے کہ حضرت عمران بن حصیص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے پھر اس سے جماع کرتا ہے نہ طلاق پر گواہ رکھتا ہے نہ رجعت پر تو آپ نے فرمایا اس نے خلاف سنت طلاق دی اور خلاف سنت رجوع کیا طلاق پر بھی گواہ رکھنا چاہئے اور رجعت پر بھی ، اب دوبارہ ایسا نہ کرنا ۔ حضرت عطا رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں نکاح ، رجعت بغیر دو عادل گواہوں کے جائز نہیں جیسے فرمان اللہ ہے ہاں مجبوی ہو تو اور بات ہے ، پھر فرماتا ہے گواہ مقرر کرنے اور سچی شہادت دینے کا حکم انہیں ہو رہا ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں اللہ کی شریعت کے پابند اور عذاب آخرت سے ڈرنے والے ہوں ۔ حضرت امام شافعی فرماتے ہیں رجعت پر گواہ رکھنا واجب ہے گو آپ سے ایک دوسرا قول بھی مروی ہے اسی طرح نکاح پر گواہ رکھنا بھی آپ واجب بتاتے ہیں ایک اور جماعت کا بھی یہی قول ہے ، اس مسئلہ کو ماننے والی علماء کرام کی جماعت یہ بھی کہتی ہے کہ رجعت زبانی کہے بغیر ثابت نہیں ہوتی کیونکہ گواہ رکھنا ضروری ہے اور جب تک زبان سے نہ کہے گواہ کیسے مقرر کئے جائیں گے پھر فرماتا ہے کہ جو شخص احکام اللہ بجا لائے اس کی حرام کردہ چیزوں سے پرہیز کرے اللہ تعالیٰ اس کے لئے مخلصی پیدا کر دیتا ہے ایک اور جگہ ہے اس طرح رزق پہنچاتا ہے کہ اس کے خواب و خیال میں بھی نہ ہو ۔ مسند احمد میں ہے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ میرے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا اے ابو ذر اگر تمام لوگ صرف اسے ہی لے لیں تو کافی ہے ، پھر آپ نے بار بار اس کی تلاوت شروع کی یہاں تک کہ مجھے اونگھ آنے لگی پھر آپ نے فرمایا ابو ذر تم کیا کرو گے جب تمہیں مدینہ سے نکال دیا جائے گا ؟ جواب دیا کہ میں اور کشادگی اور رحمت کی طرف چلا جاؤں گا یعنی مکہ شریف کو ، وہیں کا کبوتر بن کر رہ جاؤں گا ، آپ نے فرمایا پھر کیا کرو گے جب تمہیں وہاں سے بھی نکالا جائے؟ میں نے کہا شام کی پاک زمین میں چلا جاؤ گا فرمایا جب شام سے نکالا جائے گا تو کیا کرے گا ؟ میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ پیغمبر بنا کر بھیجا ہے پھر تو اپنی تلوار اپنے کندھے پر رکھ کر مقابلہ پر اتر آؤں گا ، آپ نے فرمایا کیا میں تجھے اس سے بہتر ترکیب بتاؤں؟ میں نے کہا ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ضرور ارشاد ہو فرمایا سنتا رہ اور مانتا رہ اگرچہ حبشی غلام ہو ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں بہت ہی جامع آیت ( ترجمہ ) ہے اور سب سے زیادہ کشیادگی کا وعدہ اس آیت ( ترجمہ ) الخ ، میں ہے ، مسند احمد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جو شخص بکثرت استغفار کرتا رہے اللہ تعالیٰ اسے ہر غم سے نجات اور ہر تنگی سے فراخی دے گا اور ایسی جگہ سے رزق پہنچائے گا جہاں کا اسے خیال و گمان تک نہ ہو ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اسے اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت کے ہر کرب و بےچینی سے نجات دے گا ، ربیع فرماتے ہیں لوگوں پر کام بھاری ہو اس پر آسان ہو جائے گا ، حضرت عکرمہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو اللہ کے حکم کے مطابق طلاق دے گا اللہ اسے نکاسی اور نجات دے گا ، ابن مسعود وغیرہ سے مروی ہے کہ وہ جانتا ہے کہ اللہ اگر چاہے دے اگر نہ چاہے نہ دے ، حضرت قتادہ فرماتے ہیں تمام امور کے شبہ سے اور موت کی تکیف سے بچا لے گا اور روزی ایسی جگہ سے دے گا جہاں کا گمان بھی نہ ہو ، حضرت سدی فرماتے ہیں یہاں اللہ سے ڈرنے کی یہ معنی ہیں کہ سنت کے مطابق طلاق دے اور سنت کے مطاق رجوع کرے ، آپ فرماتے ہیں حضرت عوف بن مالک اتجعی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے کو کفار گرفتار کر کے لے گئے اور انہیں جیل خانہ میں ڈال دیا ان کے والد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اکثر آتے اور اپنے بیٹے کی حالت اور حاجت مصیبت اور تکلیف بیان کرتے رہتے آپ انہیں صبر کرنے کی تلقین کرتے اور فرماتے عنقریب اللہ تعالیٰ ان کے چھٹکارے کی سبیل بنا دے گا ، تھوڑے دن گذرے ہوں گے کہ ان کے بیٹے دشمنوں میں سے نکل بھاگے راستہ میں دشمنوں کی بکریوں کا ریوڑ مل گیا جسے اپنے ساتھ ہنکا لائے اور بکریاں لئے ہوئے اپنے والد کی خدمت میں جا پہنچے پس یہ آیت اتری کہ متقی بندوں کو اللہ نجات دے دیتا ہے اور اس کا گمان بھی نہ ہو وہاں سے اسے روزی پہنچاتا ہے ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ گناہ کی وجہ سے انسان اپنی روزی سے محروم ہو جاتا ہے تقدیر کو لوٹانے والی چیز صرف دعا ہے عمر میں زیادتی کرنے والی چیز صرف نیکی اور خوش سلوکی ہے ۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ حضرت مالک بن اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لڑکے حضرت عوف رضی اللہ عنہ جب کافروں کی قید میں تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان سے کہلوا دو کہ بکثرت ( ترجمہ ) پڑھتا رہے ، ایک دن اچانک بیٹھے بیٹھے ان کی قید کھل گئی اور یہ وہاں سے نکل بھاگے اور ان لوگوں کی ایک اونٹنی ہاتھ لگ گئی جس پر سوار ہو لئے راستے میں ان کے اونٹوں کے ریوڑ ملے انہیں بھی اپنے ساتھ ہنکا لائے وہ لوگ پیچھے دوڑے لیکن یہ کسی کے ہاتھ نہ لگے سیدھے اپنے گھر آئے اور دروازے پر کھڑے ہو کر آواز دی باپ نے آواز سن کر فرمایا اللہ کی قسم یہ تو عوف ہے ماں نے کہا ہائے وہ کہاں وہ تو قید و بند کی مصیبتیں جھیل رہا ہو گا اب دونوں ماں باپ اور خادم دروازے کی طرف دوڑے دروازہ کھولا تو ان کے لڑکے حضرت عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور تمام انگنائی اونٹوں سے بھری پڑی ہے پوچھا کہ یہ اونٹ کیسے ہیں انہوں نے واقعہ بیان فرمایا کہا اچھا ٹھہرو میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی بابت مسئلہ دریافت کر آؤں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ سب تمہارا مال ہے جو چاہو کرو اور یہ آیت اتری کہ اللہ سے ڈرنے والوں کی مشکل اللہ آسان کرتا ہے اور بےگمان روزی پہنچاتا ہے ، ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے جو شخص ہر طرف سے کھچ کر اللہ کا ہو جائے اللہ اس کی ہر مشکل میں اسے کفایت کرتا ہے اور بےگمان روزیاں دیتا ہے اور جو اللہ سے ہٹ کر دنیا ہی کا ہو جائے اللہ بھی اسے اسی کے حوالے کر دیتا ہے ، مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے جو آپ نے فرمایا بچے میں تمہیں چند باتیں سکھاتا ہوں سنو تم اللہ کو یاد رکھو وہ تمہیں یاد رکھے گا اللہ کے احکام کی حفاظت کرو تو اللہ کو اپنے پاس بلکہ اپنے سامنے پاؤں گے جب کچھ مانگنا ہو اللہ ہی سے مانگو جب مدد طلب کرنی ہو اسی سے مدد چاہو تمام امت مل کر تمہیں نفع پہنچانا چاہے اور اللہ کو منظور نہ ہو تو ذرا سا بھی نفع نہیں پہنچا سکتی اور اسی طرح سارے کے سارے جمع ہو کر تجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہیں تو بھی نہیں پہنچا سکتے اگر تقدیر میں نہ لکھا ہو قلمیں اٹھ چکیں اور صحیفے خشک ہوگئے ، ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے ، امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن صحیح کہتے ہیں مسند احمد کی اور حدیث میں ہے جسے کوئی حاجت ہو اور وہ لوگوں کی طرف لے جائے تو بہت ممکن ہے کہ وہ سختی میں پڑ جائے اور کام مشکل ہو جائے اور جو اپنی حاجت اللہ کی طرف لے جائے اللہ تعالیٰ ضرور اس کی مراد پوری کرتا ہے یا تو جلدی اسی دنیا میں ہی یا دیر کے ساتھ موت کے بعد ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے قضا اور احکام جس طرح اور جیسے چاہے اپنی مخلوق میں پورے کرنے والا اور اچھی طرح جاری کرنے والا ہے ۔ ہر چیز کا اس نے اندازہ مقرر کیا ہوا ہے جیسے اور جگہ ہے ( ترجمہ ) ہر چیز اس کے پاس ایک اندازے سے ہے ۔
2۔ 1 مطلقہ مد خولہ کی عدت تین حیض ہے۔ اگر رجوع کرنا مقصود ہو تو عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے رجوع کرلو۔ بصورت دیگر انہیں معروف کے مطابق اپنے سے جدا کردو۔ 2۔ 2 اس رجعت اور بعض کے نزدیک طلاق پر گواہ کرلو۔ یہ امر وجوب کے لئے نہیں، استحباب کے لئے ہے، یعنی گواہ بنا لینا بہتر ہے تاہم ضروری نہیں۔ 2۔ 3 یہ تاکید گواہوں کو ہے کہ وہ کسی کی رعایت اور لالچ کے بغیر صحیح صحیح گواہی دیں۔ 2۔ 4 یعنی شدائد اور آزمائشوں سے نکلنے کی سبیل پیدا فرما دیتا ہے
[٦] نئی صورت سے مراد مصالحت، رضا مندی اور رجوع کی وہ راہیں ہیں جو طلاق کے بعد فریقین کو ہوش میں آنے اور طلاق کے نقصانات پر غور کرنے کے بعد درست نظر آنے لگتی ہیں۔- [٧] دور جاہلیت میں طلاق کے سلسلہ میں عورتوں کی حالت زار :۔ یعنی تمہارے ہی گھر میں تمہاری مطلقہ بیوی کی عدت ختم ہونے کو آئے، تو تمہارے سامنے دو راستے ہیں ایک یہ کہ بہرحال تم انہیں چھوڑنا ہی چاہتے ہو ایسی صورت میں ان کے سب حقوق انہیں ادا کرو اور علاوہ ازیں ان سے فیاضانہ سلوک کرتے ہوئے کچھ مزید بھی اپنی استطاعت کے مطابق دے دو ۔ جاتے جاتے اس پر کوئی الزام تراشی نہ کرو نہ اسے کسی طرح کا دکھ پہنچاؤ۔ بلکہ اپنی زندگی کے ساتھی کو شکر رنجیوں کے باوجود بھلے مانسوں اور شریفوں کی طرح رخصت کرو۔ اور اگر تم انہیں اپنے گھر میں ہی آباد رکھنا چاہتے ہو تو رجوع کرلو۔ اور اس معاملہ میں تمہاری نیت بخیر اور اس عورت کو فی الواقع آباد رکھنے کی ہونی چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ اپنی بیوی کو مزید سزائیں دینے کی خاطر اس سے رجوع کرکے اپنے ہاں روکے رکھو۔ یہ حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے عورتوں پر ان بےپناہ مظالم کا خاتمہ کردیا جو دور جاہلیت میں ان پر ڈھائے جاتے تھے۔ عورتوں کی اس دردناک کیفیت کو امام ترمذی نے یوں بیان فرمایا : سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک مرد جتنی بھی طلاقیں چاہتا اپنی بیویوں کو دیئے جاتا اور عدت کے اندر پھر رجوع کرلیتا۔ اگرچہ وہ مرد سو بار یا اس سے بھی زیادہ طلاقیں دیتا جائے۔ یہاں تک کہ ایک (انصاری) مرد نے اپنی بیوی سے کہا : اللہ کی قسم میں نہ تو تجھے طلاق دوں گا کہ تو مجھ سے جدا ہوسکے اور نہ ہی میں بساؤں گا۔ اس عورت نے پوچھا وہ کیسے ؟ کہنے لگا : میں تجھے طلاق دونگا اور جب تیری عدت گزرنے کے قریب ہوگی تو رجوع کرلوں گا یہ سن کر وہ عورت سیدہ عائشہ (رض) کے پاس گئی اور اپنا یہ دکھڑا سنایا۔ سیدہ عائشہ (رض) خاموش رہیں تاآنکہ رسول اللہ تشریف لائے۔ سیدہ عائشہ (رض) نے آپ کو یہ ماجرا سنایا تو آپ بھی خاموش رہے تاآنکہ قرآن (کی یہ آیت) نازل ہوئی۔ طلاق صرف دو بار ہے پھر یا تو ان عورتوں کو بھلے مانسوں کی طرح اپنے پاس رکھو یا پھر اچھی طرح سے رخصت کردو (ترمذی۔ ابو اب الطلاق واللعان۔ باب بلا عنوان) - [٨] رجوع وطلاق پر گواہ بنانے کا فائدہ :۔ یعنی اگر رجوع کرکے اسے اپنے پاس رکھ لیا ہے تو بھی دو معتبر گواہ بنا لے تاکہ بعد میں زوجین متہم نہ ہوں۔ اور اگر رخصت کرنا ہے تو بھی گواہ بنا لو۔ واضح رہے کہ یہ گواہی رجوع اور طلاق کے لیے شرط نہیں کہ اگر گواہ نہ بنائے جائیں تو رجوع اور طلاق غیر موثر ہوتے ہیں اور واقع نہیں ہوتے۔ بلکہ یہ حکم اس احتیاط کے لیے دیا گیا ہے کہ بعد میں کوئی فریق کسی واقعہ کا انکار نہ کردے اور نزاع پیدا ہونے کی صورت میں بآسانی فیصلہ ہوسکے اور شکوک و شبہات کا دروازہ بھی بند ہوجائے۔- [٩] یعنی اگر رخصتی یا رجوع کے بعد فریقین میں کسی بات میں نزاع پیدا ہوجائے تو گواہ جانبداری سے ہرگز کام نہ لیں نہ گول مول بات کریں نہ ہیرا پھیری سے کام لیں بلکہ صاف اور سیدھی سچی گواہی دیں۔- [١٠] طلاق سے متعلق اخلاقی ہدایات :۔ یعنی یہ ہدایات تمہاری ہی خیرخواہی کے لئے ہیں اور بطور پندونصیحت ہیں۔ ان کی حیثیت قانونی نہیں ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص اپنی عورت کو حالت حیض میں یا اس طہر میں جس میں اس نے صحبت کی ہو طلاق دے دے گا تو اگرچہ اس نے خلاف سنت اور گناہ کا کام کیا تاہم طلاق واقع ہوجائے گی اسی طرح اگر اس نے ستانے کی خاطر ہی رجوع کیا ہو تو یہ بھی رجوع قانوناً تسلیم کیا جائے گا۔ یا عورت کو رخصت کرتے وقت حسن سلوک کے بجائے دھکے مار کر نکال دیا ہو تب بھی طلاق کے واقع ہونے میں کوئی شک نہ رہے گا۔ یہ ہدایات تو اس شخص کے لئے ہیں جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا اور اللہ سے ڈرتا ہو۔ وہ ان پر اس لئے عمل کرے گا کہ یہ اس کے ایمان کا تقاضا ہے۔ اور اس لئے بھی کہ ان احکام کی نافرمانی کرنے پر آخرت میں اس سے باز پرس بھی ہوگی اور گرفت بھی۔- [١١] گھریلو مسائل اور بالخصوص میاں بیوی کے تعلقات بعض دفعہ ایسی پیچیدہ صورت اختیار کر جاتے ہیں کہ انسان انہیں جس قدر حل کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ اور زیادہ پیچیدہ ہوتے جاتے ہیں اور الجھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ ایسے پریشان کن حالات میں انسان کا طرز عمل یہ ہونا چاہئے کہ جو کام بھی کرے اللہ سے ڈر کر کرے۔ اگر واضح احکام موجود ہیں تو ان پر عمل کرے اور اگر واضح احکام نہیں ملتے تو بھی اللہ کے ڈر کو ہی مشعل راہ بنائے اور اللہ کی منشا معلوم کرنے کی کوشش کرنے کے بعد اس پر عمل کرے اور انجام اللہ کے سپرد کر دے۔ آگے ان پیچیدہ حالات سے نکالنا اور ان سے نجات دینا اللہ کا کام ہے۔ وہ خود کوئی راہ اسے سمجھا دے گا یا نئی راہ پیدا کر دے گا۔
١۔ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ : یعنی جب انکی عدت ختم ہونے کے قریب پہنچ جائے ، کیونکہ عدت ختم ہونے کے بعد تو رجوع ہو نہیں سکتا۔- ٢۔ فَاَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ ۔۔۔۔: یعنی جب عورتوں کی عدت ختم ہونے کے بعد ہو ، صرف اتنی باقی ہو جس میں ان سے رجوع ہوسکتا ہو اتو انہیں معروف ( اچھے طریقے) کے ساتھ روک لو یا معروف کے ساتھ ان سے جدا ہوجاؤ ، معروف کے ساتھ روکنے کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ اچھے طریقے سے ان کے ساتھ رہنے کی نیت سے ان سے رجوع کر کے حسب سابق بیوی بنا کر رکھ لو اور اس رجوع پر گواہ بناؤ اور معروف طریقے سے جدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان سے رجوع نہ کرو بلکہ انہیں ان کے حال پر رہنے دو ، تا کہ عدت ختم ہوجائے اور وہ خود بخود تم سے جدا ہوجائیں ، پھر کسی لڑائی جھگڑے یا برا بھلا کہنے کے بغیر انہیں رخصت کر دو ۔ اس میں اچھائی یہ ہے کہ اگرچہ عدت گزر نے کی وجہ سے وہ آزاد ہیں کہ جس مرد سے چاہیں شادی کرلیں ، مگر انہیں پہلے خاوندوں سے شادی کا بھی اختیار ہے۔- ٣۔ سورة ٔ بقرہ میں اور یہاں پہلی یا دوسری طلاق کے بعد دو ہی صورتیں بیان فرمائی ہیں ، ایک یہ کہ عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلو، دوسری یہ کہ اچھے طریقے سے چھوڑ دو ، یعنی رجوع نہ کرو بلکہ عدت ختم ہونے دو اور اچھے طریقے سے جدا ہوجاؤ ، عدت ختم ہونے سے پہلے دوسری یا تیسری طلاق دینے کا حکم نہیں دیا ۔ جس عورت کو حیض آتا ہو اس کے لیے طلاق سنت یہی ہے ۔ بعض حضرات طلاق کا سنت طریقہ یہ بیان کرتے ہیں کہ جب عورت حیض سے پاک ہو تو جماع کے بغیر اسے ایک طلاق دو ، اگلے طہر میں دوسری طلاق دو اور تیسرے طہر میں تیسری طلاق دو ، حالانکہ یہ ہرگز طلاق سنت نہیں ہے ۔ یہ طلاق سنت کیسے ہوسکتی ہے جب کہ ابھی پہلی طلاق کی عدت جاری ہے ، نہ وہ آخر کو پہنچی ہے نہ اس سے رجوع ہوا ہے ، تو دوسری اور تیسری طلاق کا کیا مطلب ؟ پھر اس میں بلا ضرورت عورت کو ہمیشہ کے لیے حرام کرنے کی تلقین کی گئی ہے جو شریعت کے مقصد ہی کے خلاف ہے۔ طلاق سنت صرف دو ہی ہیں ، ایک وہ جو آیت میں مذکور ہے اور عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ عورت حیض سے پاک ہو تو جماع کے بغیر اسے طلاق دی جائے ، پھر اگر اسے بسانے کی نیت ہو تو عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلے ، یا عدت ختم ہوجانے دے ، جس سے وہ خود بخود جدا ہوجائے گی ۔ طلاق سنت کی دوسری صورت یہ ہے کہ حمل کی حالت میں طلاق دے ، پھر وضع حمل سے پہلے یا تو رجوع کرلیے یا عدت ختم ہونے پر علیحدگی اختیار کرلے۔- ہر طہر میں طلاق کو سنت قرار دینے والے دلیل میں عبد اللہ بن مسعود (رض) کا قول بیان کرتے ہیں ، سنن نسائی میں ہے : ( اخبر نا محمد بن یحییٰ بن ایوب قال حدثنا حفص بن غیاث قال حدثنا الاعمش ، عن ابی اسحاق عن ابی الاخوص ، عن عبد اللہ انہ قال طلاق السنۃ تطلیقۃ و ھی طاھر فی غیر جماع فاذ حاضت و طھرت طلقھا اخری فاذا حاضت و طھرت طلقھا اخری ثم تعتد بعد ذلک بحیضۃ) (نسائی ، الطلاق ، باب طلاق السنۃ : ٣٤٢٣)” عبد اللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا :” طلاق سنت یہ ہے کہ عورت کو طہر کی حالت میں جماع کے بغیر ایک طلاق دے ، پھر جب اسے حیض آئے اور وہ پاک ہو تو اسے دوسری طلاق دے ، پھر جب اسے حیض آئے اور وہ پاک ہو تو اسے تیسری طلاق دے ، پھر اس کے بعد ایک حیض عدت گزارے “۔ مگر اس روایت میں طلاق سنت کی جو تفصیل آئی ہے درست نہیں ، کیونکہ یہ قرآن کی آیت کے خلاف ہے اور خود عبد اللہ بن مسعود (رض) سے طلاق کا طریقہ آیت کے مطابق اس سند سے بہتر سند کے ساتھ ثابت ہے ۔ ابن ابی شیبہ (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں : ( حدثنا و کیع ، عن اسرائیل ، عن ابی اسحاق ، عن ابی الاحوص ، عن عبد اللہ قال من اراد الطلاق الذی ھو الطلاق فلیطلقھا تطلیقۃ ، ثم یدعھا حتیٰ تحیص ثلاث حیض) (مصنف ابن ابی شیبۃ ، الطلاق ، باب ما یستحب من طلاق السنۃ : ٥، ٤، ح : ١٨٠٣٦)- ” عبد اللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا :” جو شخص طلاق دینا چاہیے ، جو اصل طلاق ہے ، وہ عورت کو ایک طلاق دے ، پھر اسے اسے کے حال پر چھوڑ دے یہاں تک کہ اسے تین حیض آجائیں “۔- واضح رہے کہ عبد اللہ بن مسعود (رض) سے مروی دونوں روایتوں کی سند ابو اسحاق سے عبد اللہ بن مسعود (رض) تک ایک ہی ہے ، پھر نسائی کی روایت میں ابو اسحاق سے بیان کرنے والے اعمش ہیں جو مشہور مدلس ہیں ، جب کہ ابن ابی شیبہ کی سند میں ابو اسحاق سے بیان کرنے والے ان کے پوتے اسرائیل بن یونس بن اسحاق ہیں جن کے متعلق ابو حاتم نے فرمایا :” ھو من اتفن اصحاب ابی اسحاق “ وہ ابو اسحاق کے سب سے پختہ شاگردوں میں سے ہیں “۔ یاد رہے کہ اسرائیل پر تدلیس کی تہمت بھی نہیں ، اس لیے انہی کی روایت معتبر ہوگی ۔ نسائی میں ابن مسعود (رض) سے طلاق سنت کی جو تعریف اعمش سے نروایت کی ہے وہ صحیح نہیں۔- ٤۔ وَّاَشْہِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ : یعنی جب رجوع کا ارادہ کرو تو دو صاحب عدل آدمی گواہ بنا لو ، تا کہ بعد میں کسی قسم کے جھگڑے کا یا گناہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ باقی نہ رہے۔ مثلاً اگر خاوند نے رجوع کر لیاہو مگر گواہ نہ بنائے ہوں اور فوت ہوجائے تو اس کے وارث اس کی بیوی کو اس کی میراث سے یہ کہہ کر محروم کرسکتے ہیں کہ تمہیں تو طلاق ہوچکی تھی اور رجوع کا کوئی گواہ نہیں ، اس لیے تم نہ اس کی بیو ی رہی اور نہ میراث میں تمہارا حق ہے ۔ اسی طرح اگر خاوند گواہوں کے بغیر رجوع کرلے اور عورت اللہ سے نہ ڈرتی ہو اور کہیں اور نکاح کرنا چاہتی ہو تو عدت ختم ہونے پر کہہ سکتی ہے کہ خاوند نے مجھ سے رجوع نہیں کیا ، اب میں آزاد ہوں اور جہاں چاہوں نکاح کروں ۔ اسی طرح اگر گواہی کی شرط نہ ہو تو عدت ختم ہونے کے بعد بھی خاوند دعویٰ کرسکتا ہے کہ میں نے عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلیا تھا ۔ رجوع کی طرح عدت کے خاتمے پر ایک دوسرے سے علیحدگی کی صورت میں بھی گواہ بنانے کا حکم ہے ، تا کہ اس طرح کی قباحتوں میں سے کوئی قباحت پیدا نہ ہو جن کا اوپر ذکر ہوا۔- واضح رہے کہ سنت یہی ہے کہ طلاق اور رجوع دونوں پر گواہ بنائے جائیں ، مطرف بن عبد اللہ کہتے ہیں :(ان عمران بن حصین سئل عن الرجل یطلق امراتہ ثم یقع بھا ولم یشھد علی طلاقھا ولا علی رجع تھا فقال طلقت لغیر سنۃ وراجعت لغیر سنۃ اشھد علی طلاقھا و علی رجع تھا ولا تعد) (ابو داؤد ، الطلاق ، باب الرجل یراجع ولا یشھد : ٢١٨٦)” عمران بن حصین (رض) سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا گیا جو اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے پھر اس سے جماع کرلیتا ہے ، لیکن نہ اس نے اس کی طلاق پر کوئی گواہ بنا یا ہے اور نہ اس کے رجوع پر ؟ تو انہوں نے فرمایا :” تم نے سنت کے خلاف طلاق دی اور سنت کے خلاف ہی رجوع کیا ۔ اس کی طلاق پر گواہ بناؤ اور اس کے رجوع پر بھی گواہ بناؤ اور دوبارہ ایسا نہ کرنا “۔- ٥۔ وَاَقِیْمُوا الشَّہَادَۃَ ِﷲ: یہ گواہوں کو حکم ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے شہادت دو ۔ یہ حکم اس لیے دعا کہ گواہی دینے میں آدمی کو کئی مشکلات در پیش ہوتی ہیں ، اسے اپنے نہایت اہم کام ترک کرنا پڑتے ہیں ، حاکم کے پاس حاضری دینا پڑتی ہے اور بعض اوقات دور دراز سے آنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی لوگوں کی ناراضی کا خطرہ مول لینا پڑتا ہے اور کئی اور موانع بھی ہوتے ہیں ، صرف اللہ کی رضا ایسی چیز ہے جس کی خاطر آدمی ہر مشقت برداشت کرتے ہوئے شہادت دیتا ہے اور سچی شہادت دیتا ہے۔- ٦۔ ذٰلِکُمْ یُوْعَظُ بِہٖ ۔۔۔۔۔۔۔۔: یعنی حضرات نے یہاں یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ اوپر طلاق کا وقت مقرر کرنے یا اس کا شمار کرنے ، عدت کے دوران گھر سے نہ نکالنے ، عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلینے یا علیحدگی اختیار کرنے اور گواہ بنانے کے جو احکام دیئے گئے ہیں ان کی حیثیت وعظ و نصیحت کی ہے ، قانون کی نہیں ۔ ان حضرات کی یہ بات درست نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ یہ احکام بھی قانون کی حیثیت رکھتے ہیں ، طلاق یا رجوع یا جو بھی عمل ان کے خلاف ہوگا اس کا کچھ اعتبار نہیں ، مثلاً کوئی شخص عدت کا شمار ہی نہیں کرتا تو اس کا رجوع یا فراق کیسے معتبر ہوسکتا ہے ؟ ہاں اگر کسی دوسری دلیل سے ثابت ہوجائے کہ ان میں سے فلاں حکم استحباب کے لیے ہے تو الگ بات ہے۔ قرآن مجید کی اصطلاح میں وعظ کا لفظ نہایت تاکید والے اکام کے لیے آتا ہے ، جن کے قانون ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں۔ دیکھئے سورة ٔ مجادلہ (٣) ، بقرہ (٢٣١) ، نحل (٩٠) اور سورة ٔ نور (١٧) ۔- ٧۔ وَمَنْ یَّتَّقِ اللہ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا : میاں بیوی کے باہمی معاملات کو ان کے سوا یا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، اگر ان میں سے کوئی ظلم ، زیادتی یا خیانت کے بعد غلط بیانی پر اتر آئے تو دنیا میں اسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا ، صرف اللہ تعالیٰ کا ڈر ہی ایسی چیز ہے جو انہیں ہر قسم کے گناہ سے با ز رکھ سکتا ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہر معاملے کی طرح نکاح و طلاق کے معاملے میں بھی اپنے تقویٰ کی تاکید فرمائی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نکاح کے موقع پر جو تین آیات پڑھتے تھے ان تینوں میں تقویٰ کی تاکید فرمائی ہے۔ یہاں اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ گھریلو جھگڑوں میں آدمی اپنے آپ کو حق پر ثابت کرنے کے لیے غلط کام یا غلط بات کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس طرح میرے مسائل حل ہوجائیں گے اور اگر میں ڈر کر صحیح کام کروں گا یا صحیح بات کروں گا تو پھنس جاؤں گا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آسان یا مشکل ہر موقع پر تم اللہ سے ڈرتے رہو اور وہی کام کرو جو اس کے تقویٰ کا تقاضا ہے۔ پھنسنے سے مت گھبراؤ ، جو بھی اللہ سے ڈرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے نکلنے کا راستہ بنا دے گا اور تقویٰ اختیار کرنے میں اگر کوئی نقصان ہوتا ہے ، بیوی ساتھ نہیں رہتی یا مال کا نقصان ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی تلافی کے لیے اس سے بھی بہتر چیز وہاں سے دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوگا ۔ دوسری جگہ اللہ تعالٰ نے بگڑے ہوئے معاملات کو درست کرنے کے لیے چالاکی اختیار کرنے اور جھوٹ فریب سے اپنے آپ کو حق پر ثابت کرنے کے بجائے اللہ سے ڈرنے اور سیدھی اور صاف بات کہنے کا حکم دیا اور اس پر تمام بگڑے ہوئے معاملات کو درست کردینے اور گزشتہ غلطیوں پر پردہ ڈال دینے کا وعدہ کیا ، فرمایا :(یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْط وَمَنْ یُّطِعِ اللہ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا ) (الاحزاب : ٧٠، ٧١)” اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو اور بالکل سیدھی بات کہو۔ وہ تمہارے لیے تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے تو یقینا اس نے کامیابی حاصل کرلی ، بہت بڑی کامیابی “۔- ٨۔” وَمَنْ یَّتَّقِ اللہ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ “ کی جو تفسیر اوپر کی گئی ہے وہ اس مقام کی مناسبت سے ہے ، ورنہ آیت کے الفاظ عام ہیں ۔ اس لیے صرف نکاح و طلاق ہی نہیں ، کسی مسئلے میں بھی جو شخص اللہ سے ڈرے گا اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی اس کی نافرمانی سے بچے گا اللہ تعالیٰ جلدی یا دیر سے اس کے لیے نکلنے کا راستہ ضرور نکال دے گا اور اسے وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوگا ۔ اسی طرح جو اللہ سے ڈرتا رہے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا کے غم ، آخرت کی فکر اور موت اور قیامت کی سختیوں سے نکلنے کا راستہ بھی بنا دے گا ۔- ٩۔ ابن کثیر نے ابن ابی حاتم کے حوالے سے عبد اللہ بن مسعود (رض) کا قول ذکر کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا :(ان اجمع آیۃ فی القرآن) (اِنَّ اللہ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ ) ( النحل : ٩٠) ( وان اکبر آیۃ فی القرآن فرجا) (وَمَنْ یَّتَّقِ اللہ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا ) ( الطلاق : ٢)” قرآن کی سب سے جامع آیت ” ان اللہ یامر بالعدل والاحسان “ ہے اور قرآن کی مشکل سے نکلنے کی سب سے بڑی آیت ” ومن یتق اللہ یجعل لہٗ مخرجا “ ہے۔ ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے فرمایا کہ اس کی سند جید ہے۔- ١٠۔ واضح رہے کہ اس مقام پر ابن کثیرنے مالک بن اشجعی (رض) کے بیٹے عوف بن مالک (رض) کا واقعہ ذکر کیا ہے جو دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا اور انہوں نے اسے باندھ رکھا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس کی طرف پیغام بھیجو کہ وہ ” لاحوق ولا قوۃ الا باللہ “ کثرت سے پڑھے ، جس کے نتیجے میں اس کی ہتھکڑیں گرگئیں اور وہ دشمن کے اونٹ سمیٹ کر خیریت سے واپس آگیا ۔ اس پر یہ آیت اتری :(وَمَنْ یَّتَّقِ اللہ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ ) اللہ تعالیٰ اور قدرت کے لحاظ سے ایسا ہونا کچھ مشکل نہیں ، مگر تفسیر ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے لکھا ہے کہ اس کی سب سندیں مرسل یا منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہیں ۔
(آیت) فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَاَمْسِكُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْهُنَّ بِمَعْرُوْف، اجلھن میں لفظ اجل بمعنے عدت ہے اور بلوغ اجل سے مراد عدت کا اختتام کے قریب ہونا ہے۔- طلاق کے متعلق پانچواں حکم اس آیت میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ جب مطلقہ بیوی کی عدت ختم کے قریب پہنچے تو اب نکاح سے نکل جانے کا وقت آ گیا اس وقت تک وقتی تاثرات اور غم و غصہ کی کیفیت بھی ختم ہوجانی چاہئے اس وقت پھر سنجیدگی کے ساتھ غور کرلو کہ نکاح رکھنا بہتر ہے ای اس کا بالکل منقطع کردینا اگر نکاح میں رکھنے کی رائے ہوجائے تو اس کو روک لو جس کی مسنون صورت اگلی آیت کے اشارہ اور حدیث کے ارشاد کے مطابق یہ ہے کہ زبان سے کہہ دو کہ میں نے اپنی طلاق سے رجوع کرلیا اور اس پر دو گواہ بھی بنا لو۔ - اور اگر اب بھی یہی رائے قائم ہو کہ نکاح ختم کرنا ہے تو پھر اس کو خوبصورتی کے ساتھ آزاد کردو۔ یعنی عدت ختم ہوجانے دو عدت پوری ہوتے ہی وہ آزاد دو خودم ختار ہوجائے گی۔- چھٹا حکم :۔ اختتام عدت کے وقت، بیوی کو روکنا اور نکاح میں رکھنا طے ہو یا آزاد کردینا، دونوں میں قرآن کریم نے بمعروف کی قید لگا دی ہے۔ معروف کے لفظی معنے پہچانا ہوا طریقہ اور مراد اس سے یہ ہے کہ جو طریقہ شریعت و سنت سے ثابت اور اسلام اور مسلمانوں میں عام طور پر معروف ہے وہ اختیار کرو وہ یہ ہے کہ اگر نکاح میں رکھنا اور رجعت کرنا طے کرو تو آگے اس کو زبانی یا عملی ایذاء نہ پہنچاؤ اور اس پر احسان نہ جتلاؤ اور اس کی جو عملی یا اخلاقی کمزوری طلاق کا سبب بن رہی تھی آگے خود بھی اس پر صبر کرنے کا عزم کرلو تاکہ پھر وہ تلخی پیدا نہ ہو، اور اگر آزاد کرنا طے ہو تو اس میں معروف و مسنون طریقہ یہ ہے کہ اس کو ذلیل و خوار کر کے یا برا بھلا کہہ کر گھر سے نکالو بلکہ حسن اخلاق کے ساتھ رخصت کرو اور جیسا کہ قرآن کریم کی دوسری آیات سے ثابت ہے چلتے وقت اس کو کوئی جوڑا کپڑے کا دے کر رخصت کرنا کم از کم مستحب ضرور ہے۔ بعض صورتوں میں واجب بھی ہے جس کی تفصیل کتب فقہ میں ہے۔- ساتواں حکم آیت مذکورہ میں روکنے یا آزاد کرنے کے دو اختیار دینے سے نیز اس سے پہلی آیت میں لعل اللہ یحدث بعد ذلک امراً سے ضمنی طور پر یہ مستفاد ہوا کہ منشاء رباین یہ ہے کہ طلاق دینے کی مجبوری ہی پیش آجائے تو طلاق ایسی دی جائے جس میں رجعت کرنے کا حق باقی رہے جس کی مسنون صورت یہ ہے کہ صاف لفظوں میں صرف ایک طلاق دیدے اور اس کے ساتھ اظہار غیظ و غضب کے لئے ایسا کوئی لفظ نہ بولے جو رشتہ نکاح کو بالکیہ منقطع کردینے پر دلالت کرتا ہو مثلاً کہہ دے کہ میرے گھر سے نکل جاؤ۔ یا کہہ دے تمہیں بہت سخت طلاق دیتا ہوں یا کہہ دے کہ اب میرا تم سے کوئی تعلق نکاح کا باقی نہیں ایسے الفاظ اگر طلاق صریح کے ساتھ بھی کہہ دیئے جاویں یا خود یہی ال فاظ بہ نیت طلاق کہہ دیئے جاویں تو اس سے رجعت کا حق باطل ہوجاتا ہے۔ یہ اصطلاح شرع میں طلاق بائن ہوجاتی ہے جس سے نکاح فوراً ٹوٹ جاتا ہے اور رجعت کا حق باقی نہیں رہتا اور اس سے زیادہ اشدیہ ہے کہ طلاق کو تین کے عدد تک پہنچا دے کہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ شوہر کا صرف حق رجعت ہی سلب نہیں ہوجائے گا بلکہ آئندہ اگر مرد و عورت دونوں راضی ہو کر باہم نکاح بھی کرنا چاہیں تو نکاح جدید بھی نہ ہو سکے گا جیسا کہ سورة بقرہ کی آیت میں ہے۔ (آیت) فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ۔- تین طلاق بیک وقت دینا حرام ہے مگر کسی نے ایسا کیا تو تینوں طلاق واقع ہوجائیں گی اس پر امت کا اجماع ہے :۔ آج کل دین سے بےپرواہی اس کے احکام سے غفلت بری طرح عام ہوتی جاتی ہے جاہلوں کا تو کہنا کیا ہے لکھے پڑھے عرائض نویس بھی تین طلاق سے کم کو گویا طلاق ہی نہیں سمجھتے اور رات دن اس کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ تین طلاقیں دینے والے بعد میں پچھتاتے ہیں اور اس فکر میں رہتے ہیں کہ کسی طرح بیوی ہاتھ سے نہ جائے۔ حدیث صحیح میں تین طلاق بیک وقت دینے پر وسل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سخت غضبناک ہونا امام نسائی نے بروایت محمود بن لبید نقل کیا ہے اسی لئے بیک وقت تین طلاق دینا باجماع امت حرام و ناجائز ہے اور اگر کوئی شخص تین طہر میں الگ الگ تین طلاقوں تک پہنچ جائے تو اس کے ناپسندیدہ ہونے پر بھی امت کا اجماع اور خود قرآن کی آیات کے اشارے سے ثابت ہے صرف اس میں اختلاف ہے کہ یہ صورت بھی حرام و ناجائز اور طلاق بدغی میں داخل ہے یا ایسا نہیں، امام مالک کے نزدیک حرام ہے اور امام اعظم ابوحنیفہ و شافعی حرام تو نہیں کہتے یعنی اس صورت کو طلاق بدعی میں شمار نہیں کرتے بلکہ طلاق سنت میں داخل سمجھتے ہیں مگر ناپسندیدہ فعل ان کے نزدیک بھی ہے تفصیل اس کی سورة بقرہ کی تفسیر معارف القرآن جلد اول ص ٤٠٥ میں مذکور ہے۔- مگر جس طرح تین طلاق بیک وقت دینے کے حرام ہونے پر پوری امت کا اجماع ہے اسی طرح اس پر بھی اجماع ہے کہ حرام ہونے کے باوجود کوئی شخص ایسا کر گزرے تو تینوں طلاق واقع ہو کر آئندہ آپس میں نکاح جدید بھی حلال نہیں ہوگا۔ پوری امت میں کچھ اہل حدیث اور اہلت شیع کے سوا تمام مذاہب اربعہ اس پر متفق ہیں کہ تین طلاق بیک وقت بھی دے دیگیں تو تینوں واقع ہوجائیں گی کیونکہ کسی فعل کے حرام ہونے سے اس کے آثار کا وقوع متاثر نہیں ہوا کرتا جیسے کوئی کسی کو بےگناہ قتل کر دے تو یہ فعل حرام ہونے کے باوجود منقول تو بہرحال مر ہی جائیگا۔ اسی طرح تین طلاق بیک وقت حرام ہونے کے باوجود تینوں کا وقوع لازمی امر ہے اور صرف مذاہب اربعہ کا ہی نہیں بلکہ اس پر صحابہ کرام کا بھی اجماع حضرت فاروق اعظم (رض) کے زمانہ میں منقول و معروف ہے اس کا بھی مکمل بیان معارف القرآن جلد اول ص ٤٠٥ تا ص ٤١٥ میں تفصیل کے ساتھ آچکا ہے اس کو دیکھ لیا جاوے۔- وَّاَشْهِدُوْا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنْكُمْ وَاَقِيْمُوا الشَّهَادَةَ لِلّہ یعنی گواہ بنا لو اپنے مسلمانوں میں سے دو معتبر آدمیوں کو اور قائم کرو شہادت کو ٹھیک ٹھیک۔- آٹھواں حکم اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ اختتام عدت کے وقت خواہ رجعت کر کے بیوی کو روکنا طے کیا جائے یا عدت پوری کر کے آزاد کرنا طے کیا جائے دونوں صورتوں میں اپنے اس فعل رجعت یا ترک رجعت پر دو معتبر گواہ بنا لو۔ یہ حکم اکثر ائمہ کے نزدیک استحبابی ہے رجعت اس پر موقوف نہیں اور گواہ بنانے کی حکمت رجعت کرنے کی صورت میں تو یہ ہے کہ کہیں کل کو عوتر رجعت سے انکا کر کے اس کے نکاح سے نکل جانے کا دعویٰ نہ کرنے لگے اور ترک رجعت اور انقطاع نکاح کی صورت میں اس لئے کہ کل کو خود اپن انفس ہی کہیں شرارت یا بیوی کی محبت سے مغلوب ہو کر یہ دعویٰ نہ کرنے لگے کہ عدت گزرنے سے پہلے رجعت کرلی تھی۔ ان دو گواہوں کے لئے ذوی عدل فرما کر بتلا دیا کہ شرعی اور اصطلاحی معنی میں عدل یعنی ثقہ و معتبر ہونا گواہوں کا ضروری ہے ورنہ ان کی شہادت پر قاضی کوئی فیصلہ نہیں دے گا اور اقیموالشھادة للہ میں عام مسلمانوں کو خطاب ہے کہ اگر تم کسی ایسے واقعہ رجعت یا انقطاع نکاح کے گواہ ہو اور قاضی کی عدالت میں گواہی دینے کی نوبت آوے تو کسی رو رعایت یا مخالفت و عداوت کی وجہ سے سچی گواہی دینے میں ذرا بھی فرق نہ کرو۔ - ذٰلِكُمْ يُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ، یعنی اس مذکورہ مضمون سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو ایمان رکھتا ہو اللہ پر اور آخری دن یعنی قیامت پر۔ اس میں آخرت کا خصوصیت سے ذکر اس لئے کیا گیا کہ زوجین کے باہمی حقوق کی ادائیگی بغیر تقویٰ اور فکر آخرت کے کسی سے نہیں کرائی جاسکتی۔- جرم و سزا کے قوانین میں قرآن حکیم کا عجیب و غریب حکیمانہ اور مربیانہ اصول :۔ دنیا کی حکومتوں میں قواعد و قوانین کی تدوین اور جرائم کی سزا و تعزر کا پرانا دستور ہے ہر قوم و ملک میں قوانین اور تعزیرات کی کتابیں لکھی گئی ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ قرآن کریم بھی اللہ کے قانون کی کتاب ہے مگر اس کا طرز تمام دنیا کی کتب قوانین سے نرالا اور عجیب ہے کہ قانون کے آگے پیچھے خوف خدا اور فکر آخرت کو سامنے کردیا جاتا ہے۔ تاکہ ہر انسان قانون کی پابندی کسی پولیس اور نگراں کے خوف سے نہیں بلکہ اللہ کے خوف سے کرے کوئی دیکھے یا نہ دیکھے، خلوت ہو یا جلوت ہر صورت میں پابندی قانون کو ضروری سمجھے۔ صرف یہی سبب ہے کہ قرآن پر صحیح ایمان رکھنے والوں میں کسی سخت سے سخت قانون کی تنفیذ بھی زیادہ دشوار نہیں ہوتی اس کے لئے اسلامی حکومت کو پولیس اور اس پر اسپیشل پولیس اور اس پر خفیہ پولیس کا جال پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔- قرآن کریم کا یہ مربیانہ اصول تمام ہی قوانین میں عام ہے۔ خصوصیت سے میاں بیوی کے تعلقات اور باہمی حقوق کے قوانین میں اس کا سب سے زیادہ اہمتام کیا گیا ہے کیونکہ یہ تعلقات ہی ایسے ہیں کہ ان میں نہ ہر کام پر کوئی شہادت مہیا ہو سکتی ہے نہ عدالتی تحقیق زوجین کے حقوق باہمی کی کمی و کوتاہی کا صحیح اندازہ لگا سکتی ہے ان کا تمامتر مدار خود زوجین ہی کے قلوب اور ان کے اعمال و افعال پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نکاح کے خطبہ مسنونہ میں قرآن کریم کی جو تین آیتیں پڑھنا سنت سے ثابت ہے یہ تینوں آیتیں تقویٰ کے حکم سے شروع اور اسی پر ختم ہوتی ہیں جن میں یہ اشارہ ہے کہ نکاح کرنے والوں کو ابھی سے یہ سمجھ لینا ہے کہ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے مگر حق تعالیٰ ہمارے کھلے اور چھپے سب اعمال سے بلکہ دلوں کے پوشیدہ خیالات تک سے واقف ہے ہم نے آپس کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی برتی، ایک سے دوسرے کو تکلیف پہنچی تو عالم السراء کے سامنے جوابدہی کرنا ہوگی، اسی طرح سورة طلاق میں جبکہ طلاق کے چند احکام بیان فرمائے گئے تو پہلے ہی حکم کے بعد واتقو اللہ ربکم فرما کر تقویٰ کی ہدایت فرمائی پھر چار احکام کا ذکر کرنے کے بعد یہ وعظ و نصیحت کی کہ جو شخص ان کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ کسی اور پر نہیں بلکہ اپنی ذات ہی پر ظلم کرتا ہے اس کا وبال اسی کو تباہ کر دے گا وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ پھر اور چار ضمنی احکام و قوانین ذکر کرنے کے بعد دوبارہ اس ہدایت کو دہرایا گیا ذٰلِكُمْ يُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِر آگے ایک آیت میں تقویٰ کے فضائل اور اس کی دینی و دنیوی برکات کا بیان فرمایا پھر اسی آیت کے آخر میں اللہ پر توکل اور بھروسہ رکھنے کی برکات ارشاد فرمائی گئیں اسکے بعد پھر چند احکام عدت کے بیان فرمائے اور اس کے بعد پھر دو آیتوں میں تقویٰ کے مزید برکات وثمرات کا بیان آیا اور اس کے بعد پھر کچھ نکاح و طلاق کے متعلقات بیوی کے نفقہ اور اولاد کے دودھ پلانے وغیرہ کے احکام بتلائے گئے۔ طلاق و عدت اور عورتوں کے نفقہ اور دودھ پلانے وغیرہ کے احکام میں بار بار کہیں ذکر آخرت کہیں تقویٰ کی فضیلت و برکت اور کہیں توکل کے برکات اور کچھ احکام بیان کر کے پھر تقویٰ کے مکرر سکرر فضائل کا بیان بظاہر بےجوڑ معلوم ہوتا ہے مگر قرآن کریم کے اس مربیانہ اصول کی حکمت سمجھ لینے کے بعد اس کا جوڑا اور گہرا ربط بھی واضح اب آیات مذکورہ کی تفسیر و تشریح دیکھئے۔- وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا ۙوَّيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ، یعنی جو شخص اللہ سے ڈریگا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر مشکل و مصبت سے نجات کا راستہ نکالدیں گے اور اس کو بےگمان رزق عطا فرما دیں گے۔ لفظ تقویٰ کے اصلی اور لغوی معنے بچنے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں گناہوں سے بچنے کے لئے یہ لفظ بولا جاتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف اضافت و نسبت ہوتی ہے تو ترجمہ اللہ سے ڈرنے کا کردیا جاتا ہے اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی نافرمانی اور معصیت سے بچے اور ڈرے۔- اس آیت میں تقویٰ کی دو برکتیں بیان فرمائیں ہیں۔ اول یہ کہ تقویٰ اختیار کرنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ بچنے کا راستہ نکال دیتے ہیں۔ کس چیز سے بچنا، اس میں صحیح بات یہ ہے کہ یہ عام ہے دنیا کی سب مشکلات و مصائب کے لئے بھی اور آخرت کی سب مشکلات و مصائب کے لئے بھی اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی یعنی گناہوں سے بچنے والے آدمی کے لئے دنیا و آخرت کی ہر مشکل و مصیبت سے نجات کا راستہ نکال دیتے ہیں اور دوسری برکت یہ ہے کہ اس کو ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتے ہیں جہاں کا اس کو خیال و گمان بھی نہیں ہوتا۔ صحیح بات یہی ہے کہ رزق سے بھی اس جگہ مراد ہر ضرورت کی چیز ہے خواہ دنیا کی ہو یا آخرت کی، مومن متقی کے لئے اللہ تعالیٰ کا وعدہ اس آیت میں یہ ہے کہ اس کی ہر مشکل کو بھی آسان کردیتا ہے اور اس کی ضروریات کا بھی تکفل کرتا ہے اور ایسے رساتوں سے اس کی ضروریات مہیا کردیتا ہے جس کا اس کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتا (کذا فی الروح) - مناسبت مقام کی وجہ سے بعض حضرات مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں یہ فرمایا ہے کہ طلاق دینے والے شوہر اور مطلقہ بیوی دونوں یا ان میں جو بھی تقویٰ اختیار کرنے والا ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو طلاق اور انقطاع نکاح کے بعد پیش آنے والی ہر مشکل و تکلیف سے نجات عطا فرمائیں گے اور مرد کو اس کے مناسب یوی اور عورت کو اس کے مناسب شوہر عطا فرمائیں گے اور ظاہر ہے کہ آیت کا اصل مفہوم جو تمام مشکلات اور ہر قسم رزق کے لئے عام اور شامل ہے اس میں زوجین کی یہ مشکلات و ضروریات بھی شامل ہیں (کذا فی روح المعانی) - آیت مذکورہ کا شان نزول :۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ عوف بن مالک اشجعی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے لڑکے سالم کو دشمن گرفتار کر کے لے گئے، اس کی ماں سخت پریشان ہے مجھے کیا کرنا چاہئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں تم کو اور لڑکے کی والدہ کو حکم دیتا ہوں کہ تم کثرت کے ساتھ لاحول ولا قوة الا باللہ پڑھا کرو۔ ان دونوں نے حکم کی تعمیل کی، کثرت سے یہ کلمہ پڑھنے لگے اس کا یہ اثر ہوا کہ جن دشمنوں نے لڑکے کو قید کر رکھا تھا وہ کسی روز ذرا غافل ہوئے لڑکا کسی طرح ان کی قید سے نکل گیا اور ان کی کچھ بکریاں ہنکا کر ساتھ لے کر اپنے والد کے پاس پہنچ گیا۔ بعض روایات میں ہے کہ ان کا ایک اونٹ ان کو مل گیا اس پر سوار ہوئے اور دوسرے اونٹوں کو ساتھ لگایا سب کو لے کر والد کے پاس پہنچے گئے، ان کے والد یہ خبر لے کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بعض روایات میں ہے کہ یہ سوال بھی کیا کہ یہ اونٹ بکریاں جو میرا لڑکا ساتھ لے آیا ہے یہ ہمارے لئے جائز و حلال ہیں یا نہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ومن یتق اللہ آلایتہ۔- اور بعض روایات میں ہے کہ عوف بن مالک اشجعی اور ان کی بیوی کو جب لڑکے کی مفارقت نے زیادہ بےچین کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا اور اس میں کچھ بعد نہیں کہ تقوے کا بھی حکم دیا ہو اور بکثرت لاحول ولا قوة الخ پڑھنے کا بھی (یہ سب روایات روح المعانے میں ابن مردویہ سے من طریق الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس نقل کی گئی ہیں) - اس شان نزول سے بھی یہ معلوم ہوا کہ اگرچہ اس مقام پر یہ آیت طلاق سے تعلق رکھنے والے مرد و عورت کے متعلق آئی ہے مگر مفہوم اس کا عام ہے سب کے لئے شامل ہے۔- مسئلہ :۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی مسلمان کفار کی قید میں میں آجائے اور وہ ان کا کچھ مال لے کر واپس آجائے تو یہ مال بحکم مال غنیمت حلال ہے اور مال غنیمت کے عام قاعدہ کے مطابق اس کا پانچواں حصہ بیت المال کو دینا بھی اس کے ذمہ نہیں جیسا کہ واقعہ حدیث میں اس مال میں سے خمس نہیں لیا گیا۔ حضرات فقہاء نے فرمایا کہ کوئی مسلمان چھپ کر بغیر اما و اجازت لئے ہوئے دارالحرب میں چلا جائے اور وہاں سے کفار کا کچھ مال چھین کر یا کسی طرح لے آئے اور دار الاسلام میں پہن جائے تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ لیکن جو شخص کفار سے امان اور اجازت لے کر ان کے ملک میں جائے جیسا آج کل ویزا لینے کا دستور ہے تو اس کے لئے جائز نہیں کہ ان کا کوئی مال بغیر ان کی رضامندی کے لے آئے اسی طرح جو شخص قید ہو کر ان کے ملک میں چلا جائے پھر کفار میں سے کوئی آدمی اس کے پاس کوئی امانت رکھدے تو اس امانت کا لے آنا بھی حلال نہیں، پہلی صورت میں تو اس لئے کہ امان لے کر جانے سے ایک معاہدہ ان کے درمیان ہوگیا اب بغیر ان کی رضامندی کے ان کے جان و مال میں کوئی تصرف کرنا عہد شکنی میں داخل ہے اور دوسری صورت میں بھی امانت رکھنے والے سے عملی ماہدہ ہوتا ہے کہ جب وہ مانگے گا امانت اس کو دے دیجائے گی، اب امانت واپس نہ کرنا بد عہدی اور عہد شکنی ہے جو شرعاً حرام ہے (مظہری) - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ہجرت سے پہلے بہت سے کفار اپنی امانتیں رکھدیتے تھے۔ ہجرت کے وقت آپ کے قبضہ میں ایسی کچھ امانتیں تھیں ان کو آپ اپنے ساتھ نہیں لائے بلکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اسی کام کے لئے اپنے پیچھے چھوڑا کہ وہ جس جس کی امانت ہے اس کو سپرد کردیں۔- مصائب سے نجات اور مقاصد کے حصول کا مجرب نسخہ :۔ حدیث مذکور میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عوف بن مالک کو مصیبت سے نجات اور حصول مقصد کے لے یہ تلقین فرمائی کہ کثرت کے ساتھ لاحول ولاقوة الا باللہ پڑھا کریں۔ حضرت مجدد الف ثانی نے فرمایا کہ دینی اور دنیاوی ہر قسم کے مصائب اور مضرتوں سے بچنے اور منافع و مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اس کلمہ کی کثرت بہت مجرب عمل ہے اور اس کثرت کی مقدار حضرت مجدد نے یہ بتلائی کہ روزانہ پانسو مرتبہ یہ کلمہ لاحول ولاقوة الا باللہ پڑھا کرے اور سو سو مرتبہ درود شریف اس کے اول و آخر میں پڑھ کر اپنے مقصد کے لئے دعا کرے (تفسیر مظہری) اور امام احمد اور حاکم بیہقی ابونعیم وغیرہ نے حضرت ابوذر سے روایت کیا ہے اور حاکم نے اس کی اسناد کو صحیح کہا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک روز اس آیت وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا آلایتہ کی تلاوت بار بار فرماتے رہے یہاں تک کہ مجھے نیند آنے لگی پھر فرمایا کہ اے ابوذر اگر آدمی صرف اس آیت کو اختیار کرلیں تو سب کے لئے کافی ہے (روح المعانی) کافی ہونے کی مراد ظاہر ہے کہ تمام دینی اور دنیوی مقاصد میں کامیابی کے لئے کافی ہے۔
فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمْسِكُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّاَشْہِدُوْا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنْكُمْ وَاَقِيْمُوا الشَّہَادَۃَ لِلہِ ٠ ۭ ذٰلِكُمْ يُوْعَظُ بِہٖ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ٠ۥۭ وَمَنْ يَّـتَّقِ اللہَ يَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا ٢ ۙ- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- بلغ - البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15]- ( ب ل غ ) البلوغ - والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : - بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ - أجل - الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص 28] .- ( ا ج ل ) الاجل - ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔- سكن - السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] ، وقال تعالی: وَلَهُ ما سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهارِ [ الأنعام 13] ، ولِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس 67] ، فمن الأوّل يقال : سکنته، ومن الثاني يقال : أَسْكَنْتُهُ نحو قوله تعالی: رَبَّنا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي [إبراهيم 37] ، وقال تعالی: أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ [ الطلاق 6]- ( س ک ن ) السکون ( ن )- السکون ( ن ) حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔ اور فرمایا : ۔ وَلَهُ ما سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهارِ [ الأنعام 13] اور جو مخلوق رات اور دن میں بستی ہے سب اسی کی ہے ۔ ولِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس 67] تاکہ اس میں آرام کرو ۔ تو پہلے معنی یعنی سکون سے ( فعل متعدی ) سکنتہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی کو تسکین دینے یا ساکن کرنے کے ہیں اور اگر معنی سکونت مراد ہو تو اسکنتہ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَبَّنا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي [إبراهيم 37] اے پروردگار میں نے اپنی اولاد لا بسائی ہے أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ [ الطلاق 6] 25 ) ( مطلقہ ) عورتوں کو ( ایام عدت میں ) اپنے مقدرو کے مطابق وہیں رکھو جہاں خود رہتے ہو ۔- معْرُوفُ :- اسمٌ لكلّ فعل يُعْرَفُ بالعقل أو الشّرع حسنه، والمنکر : ما ينكر بهما . قال : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] ، وقال تعالی: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ لقمان 17] ، وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] ، ولهذا قيل للاقتصاد في الجود : مَعْرُوفٌ ، لمّا کان ذلک مستحسنا في العقول وبالشّرع . نحو : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] ، إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ [ النساء 114] ، وَلِلْمُطَلَّقاتِ مَتاعٌ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 241] ، أي : بالاقتصاد والإحسان، وقوله : فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق 2] ، وقوله : قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ [ البقرة 263] ، أي : ردّ بالجمیل ودعاء خير من صدقة كذلك، والعُرْفُ : المَعْرُوفُ من الإحسان، وقال : وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ- [ الأعراف 199] . وعُرْفُ الفرسِ والدّيك مَعْرُوفٌ ، وجاء القطا عُرْفاً. أي : متتابعة . قال تعالی: وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1]- المعروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور منکر ہر اس بات کو کہاجائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ جود ( سخاوت ) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی معروف کہاجاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے ۔ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ [ النساء 114] ہاں ( اس شخص کی مشاورت اچھی ہوسکتی ہے ) جو خیرات یا نیک بات ۔۔۔ کہے ۔ وَلِلْمُطَلَّقاتِ مَتاعٌ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 241] اور مطلقہ کو بھی دستور کے مطابق نان ونفقہ دینا چاہیے ۔ یعنی اعتدال اور احسان کے ساتھ ۔ نیز فرمایا : فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق 2] تو یا تو ان کی اچھی طرح سے زوجیت میں رہنے دو اور اچھی طرح سے علیحدہ کردو ۔ قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ [ البقرة 263] نرم بات اور درگذر کرنا صدقہ سے بہتر ہے ۔ یعنی نرم جواب دے کر لوٹا دینا اور فقیر کے لئے دعا کرنا اس صدقہ سے بہتر ہے جس پر احسان جتلایا جائے ۔ العرف : وہ نیک بات جس کی اچھائی کو سب تسلیم کرتے ہوں قرآن پاک میں ہے : وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ [ الأعراف 199] اور نیک کام کرنے کا حکم دو ۔ عرف الفرس گھوڑے کی ایال عرف الدیک : مرغی کی کلغی جاء القطاعرفا : قطار جانور آگے پیچھے یکے بعد دیگرے آئے اسی سے قرآن پاک میں ہے : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1] ہواؤں کی قسم جو متواتر چلتی ہیں ۔- فرق - الفَرْقُ يقارب الفلق لکن الفلق يقال اعتبارا بالانشقاق، والفرق يقال اعتبارا بالانفصال . قال تعالی: وَإِذْ فَرَقْنا بِكُمُ الْبَحْرَ [ البقرة 50] ، والفِرْقُ : القطعة المنفصلة، ومنه : الفِرْقَةُ للجماعة المتفرّدة من النّاس، وقیل : فَرَقُ الصّبح، وفلق الصّبح . قال : فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء 63] ، - ( ف ر ق ) الفرق - والفلق کے قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن معنی انشقاق یعنی پھٹ جانا کے لحاظ سے فلق کا لفظ بولا جاتا ہے اور مغی انفعال یعنی الگ الگ ہونے کے لحاظ سے فرق قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ فَرَقْنا بِكُمُ الْبَحْرَ [ البقرة 50] اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو پھاڑ دیا ۔ اور الفراق کے معنی الگ ہونے والا ٹکڑہ کے ہیں اسی سے فرقۃ ہے جس کے معنی لوگوں کا گروہ یا جماعت کے ہیں ۔ اور طلوع فجر پر فرق اور فلق دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء 63] تو دریا پھٹ گیا اور ہر ایک ٹکڑا یوں ہوگیا ( کہ ) گویا بڑا پہاڑ ہے - اقامت - والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة 43] ، في غير موضع وَالْمُقِيمِينَ الصَّلاةَ [ النساء 162] . وقوله : وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] فإنّ هذا من القیام لا من الإقامة، وأمّا قوله : رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] أي : وفّقني لتوفية شرائطها، وقوله : فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] فقد قيل : عني به إقامتها بالإقرار بوجوبها لا بأدائها، والمُقَامُ يقال للمصدر، والمکان، والزّمان، والمفعول، لکن الوارد في القرآن هو المصدر نحو قوله : إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً- [ الفرقان 66] ، والمُقَامةُ : لإقامة، قال : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] نحو : دارُ الْخُلْدِ [ فصلت 28] ، وجَنَّاتِ عَدْنٍ [ التوبة 72] وقوله : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] ، من قام، أي : لا مستقرّ لكم، وقد قرئ : لا مقام لَكُمْ- «1» من : أَقَامَ. ويعبّر بالإقامة عن الدوام . نحو : عَذابٌ مُقِيمٌ- [هود 39] ، وقرئ : إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] ، أي : في مکان تدوم إقامتهم فيه، وتَقْوِيمُ الشیء : تثقیفه، قال : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4]- الاقامتہ - ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے اسی بنا پر کئی ایک مقام پر اقیموالصلوۃ اور المتقین الصلوۃ کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] اوت جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر ۔ میں قاموا اقامتہ سے نہیں بلکہ قیام سے مشتق ہے ( جس کے معنی عزم اور ارادہ کے ہیں ) اور آیت : ۔ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] اے پروردگار مجھ کو ( ایسی توفیق عنایت ) کر کہ نماز پڑھتا رہوں ۔ میں دعا ہے کہ الہٰی مجھے نماز کو پورے حقوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے ۔۔۔۔۔۔۔ لگیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں اقامۃ سے نماز کا ادا کرنا مراد نہیں ہے بلکہ اس کے معنی اس کی فرضیت کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ المقام : یہ مصدر میمی ، ظرف ، مکان ظرف زمان اور اسم مفعول کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن قرآن پاک میں صرف مصدر میمی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً [ الفرقان 66] اور دوزخ ٹھہرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور مقامتہ ( بضم الیم ) معنی اقامتہ ہے جیسے فرمایا : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ کے رہنے کے گھر میں اتارا یہاں جنت کو دارالمقامتہ کہا ہے جس طرح کہ اسے دارالخلد اور جنات عمدن کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] یہاں تمہارے لئے ( ٹھہرنے کا ) مقام نہیں ہے تو لوٹ چلو ۔ میں مقام کا لفظ قیام سے ہے یعنی تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے اور ایک قرات میں مقام ( بضم المیم ) اقام سے ہے اور کبھی اقامتہ سے معنی دوام مراد لیا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ عَذابٌ مُقِيمٌ [هود 39] ہمیشہ کا عذاب ۔ اور ایک قرات میں آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ مقام بضمہ میم ہے ۔ یعنی ایسی جگہ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ تقویم الشی کے معنی کسی چیز کو سیدھا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4] کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ۔ اس میں انسان کے عقل وفہم قدوقامت کی راستی اور دیگر صفات کی طرف اشارہ ہے جن کے ذریعہ انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے اور وہ اس کے تمام عالم پر مستولی اور غالب ہونے کی دلیل بنتی ہیں ۔- شهد - وشَهِدْتُ يقال علی ضربین :- أحدهما - جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول :- أشهد . والثاني يجري مجری القسم،- فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، - ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ - شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے - ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ- [ الأنفال 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . - والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت - ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب )- یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔- عدل - العَدَالَةُ والمُعَادَلَةُ : لفظٌ يقتضي معنی المساواة، ويستعمل باعتبار المضایفة، والعَدْلُ والعِدْلُ يتقاربان، لکن العَدْلُ يستعمل فيما يدرک بالبصیرة كالأحكام، وعلی ذلک قوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] ، والعِدُل والعَدِيلُ فيما يدرک بالحاسّة، کالموزونات والمعدودات والمکيلات، فالعَدْلُ هو التّقسیط علی سواء، وعلی هذا روي : «بالعَدْلِ قامت السّموات والأرض» «5» تنبيها أنه لو کان رکن من الأركان الأربعة في العالم زائدا علی الآخر، أو ناقصا عنه علی مقتضی الحکمة لم يكن العالم منتظما .- والعَدْلُ ضربان :- مطلق : يقتضي العقل حسنه، ولا يكون في شيء من الأزمنة منسوخا، ولا يوصف بالاعتداء بوجه، نحو : الإحسان إلى من أحسن إليك، وكفّ الأذيّة عمّن كفّ أذاه عنك .- وعَدْلٌ يُعرَف كونه عَدْلًا بالشّرع، ويمكن أن يكون منسوخا في بعض الأزمنة، کالقصاص وأروش الجنایات، وأصل مال المرتدّ. ولذلک قال : فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة 194] ، وقال : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری 40] ، فسمّي اعتداء وسيئة، وهذا النحو هو المعنيّ بقوله : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ- [ النحل 90] ، فإنّ العَدْلَ هو المساواة في المکافأة إن خيرا فخیر، وإن شرّا فشرّ ، والإحسان أن يقابل الخیر بأكثر منه، والشرّ بأقلّ منه، ورجلٌ عَدْلٌ: عَادِلٌ ، ورجالٌ عَدْلٌ ، يقال في الواحد والجمع، قال الشاعر : 311-- فهم رضا وهم عَدْلٌ«1» وأصله مصدر کقوله : وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ- [ الطلاق 2] ، أي : عَدَالَةٍ. قال تعالی: وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری 15] ، وقوله : وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء 129] ، فإشارة إلى ما عليه جبلّة النّاس من المیل، فالإنسان لا يقدر علی أن يسوّي بينهنّ في المحبّة، وقوله : فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً- [ النساء 3] ، فإشارة إلى العَدْلِ الذي هو القسم والنّفقة، وقال : لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة 8] ، وقوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] ، أي : ما يُعَادِلُ من الصّيام الطّعام، فيقال للغذاء : عَدْلٌ إذا اعتبر فيه معنی المساواة . وقولهم :«لا يقبل منه صرف ولا عَدْلٌ» «2» فالعَدْلُ قيل : هو كناية عن الفریضة، وحقیقته ما تقدّم، والصّرف : النّافلة، وهو الزّيادة علی ذلک فهما کالعَدْلِ والإحسان . ومعنی أنه لا يقبل منه أنه لا يكون له خير يقبل منه، وقوله : بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام 1] ، أي : يجعلون له عَدِيلًا فصار کقوله : هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل 100] ، وقیل : يَعْدِلُونَ بأفعاله عنه وينسبونها إلى غيره، وقیل : يَعْدِلُونَ بعبادتهم عنه تعالی، وقوله : بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل 60] ، يصحّ أن يكون من قولهم : عَدَلَ عن الحقّ : إذا جار عُدُولًا، وأيّام مُعْتَدِلَاتٌ: طيّبات لِاعْتِدَالِهَا، وعَادَلَ بين الأمرین : إذا نظر أيّهما أرجح، وعَادَلَ الأمرَ : ارتبک فيه، فلا يميل برأيه إلى أحد طرفيه، وقولهم : ( وضع علی يدي عَدْلٍ ) فمثل مشهور «1» .- ( ع د ل ) العدالۃ والمعادلۃ - کے لفظ میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں اور معنی اضافی کے اعتبار سے استعمال ہوتا ہے یعنی ایک دوسرے کے ہم وزن اور برابر ہوتا اور عدل عدل کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن عدل کا لفظ معنوی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے احکام شرعیہ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] او عدل ذلک صیاما یا اس کے برابر روزے رکھنا اور عدل وعدیل کے الفاظ ان چیزوں کے لئے بولے جاتے ہیں جن کا اور اک حواس ظاہرہ سے ہوتا ہے جیسے وہ چیزیں جن کا تعلق ماپ تول یا وزن سے ہوتا ہے پس عدل کے معنی دو چیزوں کا برابر ہونا کے ہیں چناچہ اسی معنی میں مروی ہے بالعدل قامت السموت والاارض کہ عدل ہی سے آسمان و زمین قائم ہیں یعنی اگر عناصر اربعہ جن کائنات نے ترکیب پائی ہے میں سے ایک عنصر میں بھی اس کی معینہ مقدار سے کمی یا بیشی ہوجائے تو نظام کائنات قائم نہیں رہ سکتا ،- العدل دو قسم پر ہے - عدل مطلق - جو عقلا مستحن ہوتا ہے یہ نہ تو کسی زمانہ میں منسوخ ہوا ہے اور نہ ہی کسی اعتبار سے تعدی کے ساتھ متصف ہوسکتا ہے مثلا کیسی کے احسان کے بدلہ میں اس پر احسان کرنا اور جو تمہیں تکلف نہ دے اسے ایزا رسانی باز رہنا قغیرہ ۔ - دوم عدل شرعی - جسے شریعت نے عدل کہا ہے اور یہ منسوخ بھی ہوسکتا ہے جیسے قصاص جنایات کی دیت اور مال مرتد کی اصل وغیرہ چناچہ آیات : ۔ فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة 194] پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ۔ واپس ہی تم اس پر کرو ۔ وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری 40] اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے ۔ میں زیادتی اور برائی کی سزا کا کام بھی زیادتی اور برائی ہی قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل 90] خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ میں عدل کے یہی معنی مراد کیونکہ کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کے مقابلہ میں زیادہ نیکی اور شر کے مقابلہ میں مسامحت سے کام لینے کا نام احسان ہے اور لفظ عدل واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے رجل عدل عادل ورجال عدل شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 303 ) فھم رضا وھم عدل وہ راضی رہنے والے اور عدال ہیں ۔ دراصل عدل کا لفظ مصدر ہے چناچہ آیت : ۔ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق 2] اور اپنے میں سے دو منصب مردوں کو گواہ بنالو میں عدل کے معنی عدالہ ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری 15] اور مجھے حکم ہوا کہ تم میں انصاف کروں لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر امادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو ۔ انصاف کیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء 129] اور تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہر گز برابری نہیں کرسکو گے ۔ میں انسان کے طبعی میلان کی طرف اشارہ ہے کہ تمام بیویوں سے برابر وجہ کی محبت اس کی قدرت سے باہر ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء 3] اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت کانی ہے ۔ میں عدل سے نان ونفقہ اور ازواجی تعلقات میں برابر ی مرادی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] اس کے برابر روزے رکھنا ۔ میں عدل سے مراد یہ ہے کہ وہ روزے طعام سے فدیہ کے برابر ہوں کیونکہ فدیہ میں مساوت کے معنی ملحوظ ہوں تو اسے بھی عدل کہہ دیا جاتا ہے اور ( 33 ) لایقبل منہ صرف ولا عدل میں بعض نے کہا ہے کہ عدل کا لفظ فریضہ سے کنایہ ہے مگر اس کے اصل معنی وہی ہیں جو ہم بیان کرچکے ہیں اور صرف کا لفظ نافلۃ سے اور یہ اصل فرض سے بڑھ کر کام کرنے کا نام ہے لہذا یہ باہم تقابل کے اعتبار سے عدل اور احسان کے ہم مثل ہیں اور لایقبل منہ کے معنی یہ ہیں کہ اسکے پاس کسی قسم کی نیکی ہوگی جو قبول کی جائے اور یہ آیت : ۔ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام 1] کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں کو خدا کی مثل اور نظیر قرار دیتے ہیں ۔ لہذا یہ آیت : ۔ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل 100] کے ہم معنی ہوگی بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ وہ افعال الہیہ کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں بعض نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے عدول کرنا مراد لیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل 60] بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہورہے ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہوسکتی ہے یعنی اس کے معنی یعدلون بہ کے ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ عدل عن الحق سے مشتق ہو جس کے معنی حق سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ ایام معتد لات معتدل زمانہ یعنی جب رات دن برابر ہوتے ہیں ۔ عادل بین الامرین اس نے دو چیزوں کے درمیان موازنہ کیا عادل الامر کسی معاملہ میں پھنس گیا اور کسی ایک جانب فیصلہ نہ کرسکا اور جب کسی شخص کی زندگی سے مایوسی ہوجائے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اب وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔- شَّهَادَةُ- : قول صادر عن علم حصل بمشاهدة بصیرة أو بصر . وقوله : أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ [ الزخرف 19] ، يعني مُشَاهَدَةِ البصر ثم قال : سَتُكْتَبُ شَهادَتُهُمْ [ الزخرف 19] ، تنبيها أنّ الشّهادة تکون عن شُهُودٍ ، وقوله : لِمَ تَكْفُرُونَ بِآياتِ اللَّهِ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ [ آل عمران 70] ، أي : تعلمون، وقوله : ما أَشْهَدْتُهُمْ خَلْقَ السَّماواتِ [ الكهف 51] ، أي : ما جعلتهم ممّن اطّلعوا ببصیرتهم علی خلقها، وقوله : عالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهادَةِ [ السجدة 6] ، أي : ما يغيب عن حواسّ الناس وبصائرهم وما يشهدونه بهما - الشھادۃ ۔ ( 1 ) وہ بات جو کامل علم ویقین سے کہی جائے خواہ وہ علم مشاہدہ بصر سے حاصل ہوا ہو یا بصیرت سے ۔ اور آیت کریمہ : أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ [ الزخرف 19] کیا یہ ان کی پیدائش کے وقت حاضر تھے ۔ میں مشاہدہ بصر مراد ہے اور پھر ستکتب شھادتھم ( عنقریب ان کی شھادت لکھ لی جائے گی ) سے اس بات پر تنبیہ کی ہے کہ شہادت میں حاضر ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ [ آل عمران 70] اور تم اس بات پر گواہ ہو ۔ میں تشھدون کے معنی تعلمون کے ہیں یعنی تم اس بات کو یقین کے ساتھ جانتے ہو ۔ اور آیت کریمہ ۔ ما أَشْهَدْتُهُمْ خَلْقَ السَّماواتِ [ الكهف 51] میں نے نہ تو ان کو آسمان کے پیدا کرنے کے وقت بلایا تھا ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ یہ اس لائق نہیں ہیں کہ اپنی بصیرت سے خلق آسمان پر مطع ہوجائیں اور آیت کریمہ : عالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهادَةِ [ السجدة 6] پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے ۔ میں غالب سے وہ چیزیں مراد ہیں جن کا ادراک نہ تو ظاہری حواس سے ہوسکتا ہو اور نہ بصیرت سے اور شہادت سے مراد وہ اشیا ہیں جنہیں لوگ ظاہری آنکھوں سے دیکھتے ہیں ۔ - وعظ - الوَعْظُ : زجر مقترن بتخویف . قال الخلیل . هو التّذكير بالخیر فيما يرقّ له القلب، والعِظَةُ والمَوْعِظَةُ : الاسم . قال تعالی: يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] - ( و ع ظ ) الوعظ - کے معنی ایسی زجر تو بیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو خلیل نے اس کے معنی کئے ہیں خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پیدا ہوا عظۃ وموعضۃ دونوں اسم ہیں قرآن میں ہے : ۔ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث .- وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع .- وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔- تَّقْوَى- والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا - [ النحل 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔
قول باری ہے (فاذا بلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف اوفار قوھن بمعروف ، پھر جب وہ اپنی (عدت کی) مدت کے خاتمہ پر پہنچیں تو یا انہیں بھلے طریقے سے (اپنے نکاح میں) روک رکھو یا بھلے طریقے سے ان سے جدا ہوجائو)- اس سے مراد یہ ہے کہ جب عدت کے اختتام کا وقت قریب آجائے۔ یہ مراد نہیں ہے کہ جب عدت کی مدت حقیقت میں گزر جائے کیونکہ عدت گزر جانے کی منزل پر پہنچ جانے کی صورت میں رجوع کرلینے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔- اللہ تعالیٰ نے مدخولہ بیوی کی طلاق کا ابتداء میں جو ذکر کیا ہے وہ رجوع کرلینے کے ذکر کے ساتھ مقرون ہے چناچہ ارشاد ہے (لا تدری لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا) یعنی یہ کہ شوہر کی رائے بدل جائے اور بیوی کو زوجیت میں باقی رکھنے کا خیال دل میں آجائے جس کے نتیجے میں وہ عدت کے اندر اس سے رجوع کرلے۔- اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر فرمایا (فامسکوھن بمعروف اوفارقوھن بمعروف) اور سورة بقرہ میں فرمایا (فامسکوھن بمعروف او سرحوھن بمعروف) انہیں بھلے طریقے سے (اپنے نکاح میں) روک رکھو یا بھلے طریقے سے انہیں رخصت کردو۔- رجوع کرنے یا علیحدگی اختیار کرنے پر گواہی قائم کرنا - قول باری ہے (فاذا بلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف اوفار قوھن بمعروف واشھدوا ذوی عدل منکم، جب وہ اپنی عدت کی مدت کے خاتمہ پر پہنچیں تو یا انہیں بھلے طریقے سے (اپنے نکاح میں) روک رکھو یا بھلے طریقے پر ان سے جدا ہوجائو اور دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنا لو جو تم میں سے صاحب عدل ہوں) شوہر چاہے رجوع کرے یاعلیحدگی اختیار کرے دونوں باتوں پر گواہی قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔- حضرت عمران بن حصین (رض) ، طائوس، ابراہیم اور ابو قلابہ سے مروی ہے کہ شوہر اگر رجوع کرلے اور گواہی قائم نہ کرے تو رجوع کرنے کا عمل درست ہوگا اور بعد میں گواہی قائم کرلے گا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے شوہر کو رجوع کرلینے یا علیحدگی اختیار کرلینے کا حکم دیا اور اس کے فوراً بعد گواہی قائم کرنے کا ذکر کیا تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ رجوع کرلینے کی صورت میں اس کا رجوع درست ہوگا اور اس کے بعد گواہی قائم کرلینا درست ہوگا کیونکہ اللہ نے گواہی قائم کرنے کو رجوع کرنے کے عمل میں شرط قرار نہیں دیا۔- فقہاء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ آیت میں مذکور فراق سے مراد یہ ہے کہ شوہر اس سے علیحدہ رہے حتیٰ کہ اس کی عدت گزر جائے نیز یہ کہ گواہی قائم نہ کرنے کے باوجود علیحدگی درست ہوجاتی ہے اور شوہر اس بات پر بعد میں گواہی قائم کرلے گا۔- علیحدگی کے ذکر کے بعد گواہی قائم کرنے کا ذکر ہوا ہے لیکن اس کے باوجود گواہی قائم کرنا علیحدگی کی صحت کے لئے شرط قرار نہیں دیا گیا ہے اس لئے رجوع کرنے کے عمل میں گواہی قائم کرنے کا مفہوم بھی یہی ہوگا۔ نیز علیحدگی اختیار کرنا شوہر کا حق ہوتا ہے اور یہ گواہی قائم کیے بغیر جائز ہے کیونکہ اس میں کسی اور کی رضامندی حاصل کرنے کی اسے ضرورت نہیں ہوتی۔- اسی طرح رجوع کرنا بھی شوہر کا حق ہے اس لئے ضروری ہے کہ گواہی کے بغیر بھی یہ جائز ہوجائے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے شوہر اور اس کی مطلقہ بیوی سے تہمت کی نفی کرنے اور احتیاطی تدبیر کے طور پر امساک یا فرقت پر گواہی قائم کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ جب طلاق کا علم ہو اور رجوع کرلینے کا علم نہ ہو یا طلاق اور فراق دونوں کا علم نہ ہو تو اس صورت میں خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں دونوں ایک دوسرے کو جھٹلا نہ بیٹھیں۔- احتیاط کا مفہوم صرف رجوع کرلینے یا علیحدگی کرنے کی حالت تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس حالت کے بعد بھی اگر گواہی قائم کردی جائے تو یہ احتیاط باقی رہتی ہے۔ اس لئے رجوع کرلینے کے گھنٹے دو گھنٹے کے بعد اگر گواہی قائم کردی جائے تو ضروری ہے کہ اس گواہی اور ماقبل کی گواہی کے حکم کے درمیان کوئی فرق نہ رکھاجائے۔ گواہوں کے بغیر رجوع کرلینے کی صورت میں اس کے درست ہونے کے متعلق ہمیں اہل علم کے درمیان کسی اختلاف کا علم نہیں۔- البتہ سفیان نے ابن جریج سے اور انہوں نے عطاء بن ابی رباح سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” طلاق، نکاح اور رجوع گواہی کے ذریعے عمل میں آتے ہیں۔ “ عطاء کا یہ قول اس امر پر محمول ہے کہ گواہی قائم کرنے کا حکم اس احتیاط کے پیش نظر دیا گیا ہے کہ بعد میں طرفین ایک دوسرے کو جھٹلا نہ سکیں۔ یہ مراد نہیں ہے کہ گواہوں کے بغیر رجوع کا عمل درست نہیں ہوتا۔- آپ نہیں دیکھتے کہ عطاء نے اپنے قول میں طلاق کا بھی ذکر کیا ہے جب کہ کسی کو اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ گواہوں کے بغیرطلاق واقع ہوجاتی ہے۔ شعبہ نے معطر الوراق سے اور انہوں نے عطاء اور حکم سیروایت کی ہے کہ اگر شوہرعدت کے اندر بیوی کو آغوش میں لے لے یعنی ہم بستری کرلے تو اس کا یہ عمل رجوع کرنے کا عمل قرار پائے گا۔- قول باری ہے (واقیموا الشھادۃ للہ، اور اے گواہ بننے والو ) گواہی ٹھیک ٹھیک اللہ کے لئے ادا کرو، آیت میں حکام کے سامنے تمام حقوق کے بارے میں گواہی قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ اس مقام پر شہادت کا لفظ اسم جنس کے معنی ادا کررہا ہے۔ اگرچہ اس کا ذکر رجوع کرنے کے عمل پر دو عادل آدمیوں کی گواہی قائم کرنے کے حکم کے بعد ہوا ہے لیکن یہ بات لفظ کو اس کے عموم میں استعمال کرنے سے مانع نہیں ہے۔- اس طرح یہ قول باری دو باتوں پر مشتمل ہے۔ ایک تو یہ کہ گواہی قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور دوسری یہ کہ گواہی قائم کرنا اللہ تعالیٰ کے حق کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، آیت کے آخری حصے کے ذریعے اس کی تاکید اور اس پر عمل پیرا رہنے کا مفہوم واضح کیا گیا ہے۔
جب وہ مطلقہ عورتیں تیسرے حیض کے بند ہونے کے قریب پہنچ جائیں تو یا تو عدت گزرنے سے پہلے ان سے رجوع کرو اور حسن سلوک ان کے ساتھ کرو یا ان کو قاعدہ کے موافق چھوڑ دو کہ ان کی عدت کو لمبا نہ کرو اور ان کا حق ادا کرو اور اس مراجعت یا طلاق پر دو آزاد پسندیدہ عادل مسلمان آدمیوں کو گواہ کرلو اور پھر حکام کے سامنے تم ٹھیک حق کے واسطے گواہی دو ۔- ان تمام باتوں سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر یقین رکھتا ہو اور کہا گیا ہے کہ شروع سورت سے لے کر یہاں تک یہ آیات رسول اکرم کی شان میں نازل ہوئی ہیں جبکہ آپ نے حضرت حفصہ کو طلاق دے دی تھی۔- اور آپ کے صحابہ کرام میں سے ان چھ آدمیوں کے بارے میں جن میں ابن عمر بھی ہیں یہ آیت نازل ہوئی کہ انہوں نے اپنی عورتوں کو حالت حیض میں طلاق دے دی تھی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے منع کیا اور سنت کے مطابق طلاق دینے کا طریقہ بتلایا۔- اور جو شخص مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ سے ڈر کر صبر کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے سختی سے نکلنے کی صورت میں نکال دیتا ہے یا یہ کہ معصیت سے اطاعت کی طرف یا یہ کہ دوزخ سے جنت کی طرف نکال دیتا ہے۔- شان نزول : وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا (الخ)- اور حاکم نے جابر سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ایک اشجعی شخص کے بارے میں نازل ہوئی یہ تنگدست مزدور پیشہ کثیر اہل و عیال والے شخص تھے یہ رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ سے کچھ مانگا آپ نے فرمایا اللہ سے ڈرو اور صبر کرو۔ چناچہ یہ کچھ ہی دیر ٹھہرے تھے کہ ان کا لڑکا بکریاں لے کر آیا اور ان کے لڑکے کو دشمن نے پکڑ لیا تھا۔ چناچہ انہوں نے حضور کی خدمت میں آکر واقعہ کی اطلاع دی آپ نے فرمایا ان کو کھاؤ۔- حافظ ذہبی فرماتے ہیں حدیث منکر ہے مگر اس کا شاہد موجود ہے۔- اور ابن جریر نے سالم بن ابی الجعد سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔- اور سدی نے بھی باقی سدی نے ان کا نام عوف اشجعی بھی ذکر کیا ہے۔- اور اس روایت کو حاکم نے بھی ابن مسعود سے روایت کیا ہے اور اسی طرح نام ذکر کیا ہے۔- اور ابن مردویہ نے کلبی، ابو صالح کے طریق سے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ عوف بن مالک اشجعی آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میرے لڑکے کو دشمن نے پکڑ لیا ہے اور اس کی ماں رو رہی ہے آپ مجھ کو کیا حکم دیتے ہیں آپ نے فرمایا میں تمہیں اور اس کی ماں کو اس بات کا حکم دیتا ہوں کہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ کثرت کے ساتھ پڑھیں اس عورت نے بھی کہا اچھا چناچہ دونوں نے اس کی کثرت شروع کردی نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے لڑکے سے دشمن غافل ہوا۔ اور وہ دشمن کی بکریاں ہانک کر اپنے باپ کے پاس لے آیا اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔- اسی روایت کو خطیب نے اپنی تاریخ میں جبیر، ضحاک کے واسطہ سے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے۔ اور اسی روایت کو ثعلبی نے دوسرے طریقہ سے روایت کیا ہے۔
آیت ٢ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ ” پھر جب وہ اپنی (عدت کی) میعاد کو پہنچنے لگیں تو اب ان کو یا تو (اپنے نکاح میں) روک رکھو معروف طریقے سے ‘ یا جدا کردو معروف طریقے سے “- یعنی ایک یا دو طلاق دینے کی صورت میں عدت پوری ہوجانے سے پہلے مرد کو حتمی فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگر تو وہ رجوع کرنا چاہتا ہے تو شریعت کے طے کردہ طریقے سے رجوع کرلے اور اگر اس نے طلاق ہی کا فیصلہ کرلیا ہے تو پھر بھلے طریقے سے عورت کو گھر سے رخصت کر دے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اسے ستانے کی غرض سے روکے رکھے ۔- وَّاَشْھِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ ” اور اپنے میں سے دو معتبر اشخاص کو گواہ بنا لو “- یعنی اگر کوئی طلاق کے بعد رجوع کرنا چاہے تو وہ اپنے لوگوں میں سے کم از کم دو معتبر اشخاص کی موجودگی میں ایسا کرے۔- وَاَقِیْمُوا الشَّہَادَۃَ لِلّٰہِ ” اور گواہی قائم کرو اللہ کے لیے۔ “- ذٰلِکُمْ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ” یہ ہے جس کی نصیحت کی جا رہی ہے ہراس شخص کو کہ جو ایمان رکھتا ہو اللہ پر اور یوم آخر پر۔ “- اس سے ملتے جلتے الفاظ سورة الاحزاب کی آیت ٢١ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسوہ اور سورة الممتحنہ کی آیت ٦ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ (علیہ السلام) کے ساتھیوں کے اسوہ کے بارے میں بھی آئے ہیں۔ مطلب یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اُسوئہ کاملہ تو اپنی جگہ پر موجود ہے ‘ اسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ (علیہ السلام) کے ساتھیوں کی زندگی بھی مثالی نمونہ ہے ‘ لیکن کس کے لیے ؟ لِمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ ۔ یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اُسوئہ حسنہ سے استفادہ صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور یوم آخرت کی حاضری کی امید رکھتا ہے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے اس جملے کا مفہوم بھی یہی ہے کہ مسائل طلاق سے متعلق یہ وعظ اور نصیحت صرف اسی شخص کے لیے فائدہ مند ہوسکتی ہے جو واقعی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو۔- وَمَنْ یَّــتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّـہٗ مَخْرَجًا ” اور جو شخص اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا ‘ اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا راستہ پیدا کر دے گا۔ “- اللہ کے تقویٰ کا مقام و مرتبہ واضح کرنے کا یہ بہت حسین اور دلکش انداز ہے اور اس اعتبار سے یہ قرآن مجید کا منفرد مقام ہے۔ یہاں پر ایک اہم نکتہ یہ سمجھ لیں کہ حقیقی تقویٰ دل کا تقویٰ ہے ‘ جس کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ اپنے دست مبارک سے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : (اَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا ، اَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا ، اَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا) (١) کہ اصل تقویٰ یہاں (دل کے اندر) ہوتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تقویٰ کا براہ راست تعلق انسان کے دل کے ساتھ ہے۔ اگر دل میں تقویٰ نہیں تو ّجبہ و دستار کا اہتمام اور متقیانہ وضع قطع کی حیثیت بہروپ سے زیادہ کچھ نہیں۔ چناچہ اس آیت میں اہل تقویٰ کو بہت بڑی بشارت سنائی جا رہی ہے کہ اگر کسی بندئہ مومن کا تقویٰ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں مقبول و منظور ہوا تو اس کے لیے مشکل سے مشکل صورت حال سے نکلنے کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور پیدا کردیا جائے گا ‘ جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلے تو فرعون نے انہیں ساحل سمندر پر جا لیا۔ اب آگے سمندر تھا اور پیچھے فرعون کا لشکر ۔ بظاہر بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا ‘ مگر اللہ تعالیٰ نے سمندر کو پھاڑ کر ان کے لیے راستہ پیدا کردیا۔ - اسی طرح جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غارِ ثور میں تشریف فرما تھے تو مشرکین مکہ میں سے کچھ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کھوج میں غار کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔ انہیں دیکھ کر حضرت ابوبکر (رض) نے عرض کیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر ان لوگوں نے نیچے اپنے قدموں کی طرف بھی دیکھ لیا تو ہم انہیں نظر آجائیں گے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا : لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَاج (التوبۃ : ٤٠) کہ آپ فکر مت کریں ‘ اللہ ہمارے ساتھ ہے اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے ایسی صورت حال پیدا فرما دی کہ مشرکین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہ دیکھ سکے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سفر طائف کی مثال لیں تو بظاہر وہاں سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خالی ہاتھ واپس آئے تھے ‘ لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے مدینہ سے کھڑکی کھول دی اور ایسے حالات پیدا فرما دیے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ تشریف لے جانے سے پہلے ہی وہاں انقلاب آگیا۔ یہ مثالیں گواہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنے متقی بندوں کے لیے ضرور ” مخرج “ پیدا فرماتا ہے۔ چناچہ اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف اہل ایمان کے لیے آیت زیر مطالعہ کے ان الفاظ میں یہ خوشخبری ہے کہ وہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اپنی کوششیں پورے خلوص سے جاری رکھیں۔ جب اللہ تعالیٰ کو ان کوششوں کی کامیابی منظور ہوگی تو حیرت انگیز طریقے سے منزل خود چل کر ان کے سامنے آجائے گی۔
سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :6 6 ۔ یعنی ایک یا دو طلاق دینے کی صورت میں عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے فیصلہ کر لو کہ آیا عورت کو اپنی زوجیت میں رکھنا ہے یا نہیں ۔ رکھنا ہو تو نباہنے کی غرض سے رکھو ، اس غرض سے نہ رکھو کہ اس کو ستانے کے لیے رجوع کر لو اور پھر طلاق دے کر اس کی عدت لمبی کرتے رہو ۔ اور اگر رخصت کرنا ہو تو شریف آدمیوں کی طرح کسی لڑائی جھگڑے کے بغیر رخصت کرو ، مہر یا اس کا کوئی حصہ باقی ہو تو ادا کر دو ، اور حسب توفیق کچھ نہ کچھ متعہ طلاق کے طور پر دو ، جیسا کہ سورہ بقرہ آیت 241 میں ارشاد ہوا ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، الاحزاب ، حاشیہ 86 ) ۔ سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :7 ابن عباس کہتے ہیں کہ اس سے مراد طلاق پر بھی گواہ بنانا ہے اور رجوع پر بھی ( ابن جریر ) ۔ حضرت عمران بن حصین سے پوچھا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور پھر اس سے رجوع کر لیا ، مگر نہ طلاق پر کسی کو گواہ بنایا نہ رجوع پر ۔ انہوں نے جواب دیا تم نے طلاق بھی سنت کے خلاف دی اور رجوع بھی سنت کے خلاف کیا ۔ طلاق اور رجعت اور فرقت پر گواہ بنانا ، ان افعال کی صحت کے لیے شرط نہیں ہے کہ اگر گواہ نہ بنایا جائے تو نہ طلاق واقع ہو ، نہ رجوع صحیح ہو اور نہ فرقت ، بلکہ یہ حکم اس احتیاط کے لیے دیا گیا ہے کہ فریقین میں سے کوئی بعد میں کسی واقعہ کا انکار نہ کر سکے ، اور نزاع پیدا ہونے کی صورت میں بآسانی فیصلہ ہو سکے ، اور شکوک و شبہات کا دروازہ بھی بند ہو جائے ۔ یہ حکم بالکل ایسا ہی ہے جیسے فرمایا: وَاَشْھِدُوْآاِذَا تَبَایَعْتُمْ ، جب تم آپس میں بیع کا کوئی معاملہ طے کرو تو گواہ بنا لو ( بقرہ ۔ 282 ) ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بیع پر گواہ بنانا فرض ہے اور اگر گواہ نہ بنایا جائے تو بیع صحیح نہ ہو گی ، بلکہ یہ ایک حکیمانہ ہدایت ہے جو نزاعات کا سد باب کرنے کے لیے دی گئی ہے اور اس پر عمل کرنے ہی میں بہتری ہے ۔ اسی طرح طلاق اور رجوع کے معاملہ میں بھی صحیح بات یہی ہے کہ ان میں سے ہر فعل گواہیوں کے بغیر بھی قانوناً درست ہو جاتا ہے ، لیکن احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ جو فعل بھی کیا جائے ، اسی وقت یا اس کے بعد دو صاحب عدل آدمیوں کو اس پر گواہ بنا لیا جائے ۔ سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :8 یہ الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ اوپر جو ہدایات دی گئی ہیں وہ نصیحت کی حیثیت رکھتی ہیں نہ کہ قانون کی ۔ آدمی سنت کے خلاف طلاق دے بیٹھے ، عدت کا شمار محفوظ نہ رکھے ، بیوی کو بلا عذر معقول گھر سے نکال دے ، عدت کے خاتمے پر رجوع کرے تو عورت کو ستانے کے لیے کرے اور رخصت کرے تو لڑائی جھگڑے کے ساتھ کرے ، اور طلاق ، رجوع ، مفارقت ، کسی چیز پر بھی گواہ نہ بنائے ، تو اس سے طلاق اور رجوع اور مفارقت کے قانونی نتائج میں کوئی فرق واقع نہ ہوگا ۔ البتہ اللہ تعالیٰ کی نصیحت کے خلاف عمل کرنا اس بات کی دلیل ہو گا کہ اس کے دل میں اللہ اور روز آخرت پر صحیح ایمان موجود نہیں ہے جس کی بنا پر اس نے وہ طرز عمل اختیار کیا جو ایک سچے مومن کو اختیار نہ کرنا چاہیے ۔ سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :9 سیاق کلام خود بتا رہا ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے کام کرنے کا مطلب سنت کے مطابق طلاق دینا ، عدت کا ٹھیک ٹھیک حساب رکھنا ، بیوی کو گھر سے نہ نکالنا ، عدت کے اختتام پر عورت کو روکنا ہو تو نباہ کرنے کی نیت سے رجوع کرنا اور علیحدگی ہی کرنی ہو تو بھلے آدمیوں کی طرح اس کو رخصت کر دینا ، اور طلاق ، رجوع یا مفارقت ، جو بھی ہو ، اس پر دو عادل آدمیوں کو گواہ بنا لینا ہے ۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو اس طرح تقویٰ سے کام لے گا اس کے لیے ہم کوئی مخرج ( یعنی مشکلات سے نکلنے کا راستہ ) نکال دیں گے ۔ اس سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جو شخص ان امور میں تقویٰ سے کام نہ لے گا وہ اپنے لیے خود ایسی الجھنیں اور مشکلات پیدا کر لے گا جن سے نکلنے کا کوئی راستہ اسے نہ مل سکے گا ۔ ان الفاظ پر غور کیا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے نزدیک طلاق بدعی سرے سے واقع ہی نہیں ہوتی اور جو لوگ بیک وقت یا ایک ہی طہر میں دی ہوئیں تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق قرار دیتے ہیں ، ان کی رائے صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ اگر طلاق بدعی واقع ہی نہ ہو تو سرے سے کوئی الجھن پیش نہیں آتی جس سے نکلنے کے لیے کسی مخرج کی ضرورت ہو ۔ اور اگر تین طلاق اکٹھی دے بیٹھنے سے ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہو ، تب بھی مخرج کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ۔ اس صورت میں آخر وہ پیچیدگی کیا ہے جس سے نکلنے کے لیے کسی راستے کی حاجت پیش آئے ؟
4: یہ اُس صورت کا تذکرہ ہورہا ہے جب شوہر نے طلاق رجعی دی ہو، اس صورت میں جب عدّت پوری ہونے سے پہلے شوہر کو فیصلہ کرنا ضروری ہے کہ آیا وہ طلاق سے رُجوع کرکے بیوی سے اِزدواجی تعلق بحال کرنا چاہتا ہے یا اب بھی علیحدگی ہی مناسب سمجھتا ہے، دونوں صورتوں میں اُسے یہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ جو کام بھی کرے، بھلے طریقے سے کرے۔ اگر نکاح کا رشتہ باقی رکھنا ہے تو طلاق سے رُجوع کرلے، اور آئندہ بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور اگر علیحدگی چاہتا ہے تب بھی شریفانہ انداز میں بھل منسی کے ساتھ بیوی کو رُخصت کرے۔ 5: رُجوع کی صورت میں ترغیب دی گئی ہے کہ دوگواہوں کی موجودگی میں شوہر یہ کہے کہ میں نے طلاق سے رُجوع کرلیا۔ عدل والے گواہوں سے مراد گواہوں کا نیک ہونا ہے۔ یہ رُجوع کا پسندیدہ طریقہ ہے، لیکن رجوع کی لازمی شرط نہیں ہے، اسی طرح اگر شوہر زبان سے کچھ نہ کہے، لیکن بیوی سے حقوق زوجیت ادا کرلے، بلکہ بوس وکنار ہی کرلے، تب بھی رجوع ہوجاتا ہے۔ 6: یہ ان گواہوں سے خطاب ہے جن کی موجودگی میں شوہر نے طلاق سے رجوع کیا ہو کہ اگر کبھی رجوع کو ثابت کرنے کے لئے گواہی دینی پڑے تو ٹھیک ٹھیک گواہی دیں