Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حیرت ، افزا شان ذوالجلال اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ اور اپنی عظیم الشان سلطنت کا ذکر فرماتا ہے تاکہ مخلوق اس کی عظمت و عزت کا خیال کر کے اس کے فرمان کو قدر کی نگاہ سے دیکھے اور اس پر عامل بن کر اسے خوش کرے ، تو فرمایا کہ ساتوں آسمانوں کا خلاق اللہ تعالیٰ ہے ، جیسے حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا ( ترجمہ ) کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ پاک نے ساتوں آسمانوں کس طرح اوپر تلے پیدا کیا ہے؟ اور جگہ ارشاد ہے ( ترجمہ ) یعنی ساتوں آسمان اور زمین اور ان میں جو کچھ ہے سب اس اللہ کی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں ، پھر فرماتا ہے اسی کے مثال زمینیں ہیں ، جیسے کہ بخاری و مسلم کی صحیح حدیث میں ہے جو شخص ظلم کر کے کسی کی ایک بالشت بھر زمین لے لے گا اسے ساتوں زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا ، صحیح بخاری میں ہے اسے ساتویں زمین تک دھنسایا جائے گا ، میں نے اس کی تمام سندیں اور کل الفاظ ابتداء اور انتہا میں زمین کی پیدائش کے ذکر میں بیان کر دیئے ہیں ، فالحمد اللہ ، جن بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد ہفت اقلیم ہے انہوں نے بےفائدہ دوڑ بھاگ کی ہے اور اختلاف بےجا میں پھنس گئے ہیں اور بلا دلیل قرآن حدیث کا صریح خلاف کیا ہے سورہ حدید میں آیت ( هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ Ǽ۝ ) 57- الحديد:3 ) ، کی تفسیر میں ساتوں زمینوں کا اور ان کے درمیان کی دوری کا اور ان کی موٹائی کا جو پانچ سو سال کی ہے پورا بیان ہو چکا ہے ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں ، ایک اور حدیث میں بھی ہے ساتوں آسمان اور جو کچھ ان میں اور ان کے درمیان ہے اور ساتوں زمینیں اور جو کچھ ان میں اور ان کے درمیان ہے کرسی کے مقابلہ میں ایسے ہیں جیسے کسی لمبے چوڑے بہت بڑے چٹیل میدان میں ایک چھلا پڑا ہو ، ابن جریر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ اگر میں اس کی تفسیر تمہارے سامنے بیان کروں تو اسے نہ مانو گے اور نہ ماننا جھوٹا جاننا ہے ، اور رویات میں ہے کہ کسی شخص نے اس آیت کا مطلب پوچھا تھا اس پر آپ نے فرمایا تھا کہ میں کیسے باور کرلوں کہ جو میں تجھے بتاؤں گا تو اس کا انکار کرے گا ؟ اور روایت میں مروی ہے کہ ہر زمین میں مثل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اور اس زمین کی مخلوق کے ہے اور ابن مثنی والی اس روایت میں آیا ہے ہر آسمان میں مثل ابراہیم کے ہے ، بہیقی کی کتاب الاسماء والصفات میں حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ ساتوں زمینوں میں سے ہر ایک میں نبی ہے مثل تمہارے نبی کے اور آدم ہیں مثل آدم کے اور نوح ہیں مثل نوح کے اور ابراہیم ہیں مثل ابراہمی کے اور عیسیٰ ہیں مثل عیسیٰ کے پھر امام بیہقی نے ایک اور روایت بھی ابن عباس کی وارد کی ہے اور فرمایا ہے اس کی اسناد صحیح ہے لیکن یہ بالکل شاذ ہے ابو الضحیٰ جو اس کے ایک راوی ہیں میرے علم میں تو ان کی متابعت کوئی نہیں کرتا ، واللہ اعلم ، ایک مرسل اور بہت ہی منکر روایت ابن ابی الدنیا لائے ہیں جس میں مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ صحابہ کے مجمع میں تشریف لائے دیکھا کہ سب کسی غور و فکر میں چپ چاپ ہیں ، پوچھا کیا بات ہے؟ جواب ملا اللہ کی مخلوق کے بارے میں سوچ رہے ہیں فرمایا ٹھیک ہے مخلوقات پر نظریں دوڑاؤ لیکن کہیں اللہ کیب ابت غور و خوض میں نہ پڑ جانا ، سنو اس مغرب کی طرف ایک سفید زمین ہے اس کی سفیدی اس کا نور ہے یا فرمایا اس کا نور اس کی سفیدی ہے سورج کا راستہ چالیس دن کا ہے وہاں اللہ کی ایک مخلوق ہے جس نے ایک آنکھ جھکپنے کے برابر بھی کبھی اس کی نافرمانی نہیں کی ، صحابہ نے کہا پھر شیطان ان سے کہاں ہے؟ فرمایا انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ شیطان پیدا بھی کیا گیا ہے یا نہیں؟ پوچھا کیا وہ بھی انسان ہیں؟ فرمایا انہیں حضرت آدم کی پیدائش کا بھی علم نہیں ، الحمد اللہ سورہ طلاق کی تفسیر بھی پوری ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 ای خلق من الارض مثلھن۔ یعنی سات آسمانوں کی طرح، اللہ نے سات زمینیں بھی پیدا کی ہیں۔ بعض نے اس سے سات اقالیم مراد لیے ہیں، لیکن یہ صحیح نہیں۔ بلکہ جس طرح اوپر نیچے سات آسمان ہیں۔ اسی طرح سات زمینیں ہیں، جن کے درمیان بعد و مسافت ہے اور ہر زمین میں اللہ کی مخلوق آباد ہے۔ (القرطبی) احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ جیسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا من اخذ شبرا من الارض ظلاما فانہ یطوقہ یوم القیامۃ من سبع ارضین (صحیح مسلم) جس نے کسی کی ایک بالشت زمین بھی ہتھیالی تو قیامت والے دن اس زمین کا اتنا حصہ ساتوں زمینوں سے طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ (صحیح بخاری) اور صحیح بخاری کے الفاظ ہیں خسف بہ الی سبع ارضین یعنی اس کو ساتوں زمینوں تک دھنسا دیا جائے گا۔ بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ ہر زمین میں اسی طرح کا پیغمبر ہے جس طرح کا پیغمبر تمہاری زمین پر آیا مثلاً آدم آدم کی طرح، نوح نوح کی طرح، ابراہیم ابراہیم کی طرح، عیسیٰ عیسیٰ کی طرح۔ لیکن یہ بات کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں۔ 12۔ 2 یعنی جس طرح ہر آسمان پر اللہ کا حکم نافذ اور غالب ہے، اسی طرح ہر زمین پر اس کا حکم چلتا ہے، آسمانوں کی طرح ساتوں زمینوں کی بھی وہ تدبیر فرماتا ہے۔ 12۔ 3 پس اس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں، چاہے وہ کیسی ہی ہو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٧] سات زمینوں کے مختلف مفہوم :۔ اس جملہ کے کئی مفہوم ہوسکتے ہیں۔ لغوی مفہوم یہ ہے کہ سماء اور ارض دونوں اسمائے نسبیہ سے ہیں۔ سماء یعنی بلندی ہے اور ارض بمعنی پستی۔ اس لحاظ سے ہم ہر بلندی کے مقابلہ میں پستی کو ارض کہہ سکتے ہیں اور ہر پستی کے مقابلہ میں بلندی کو سماء کہہ سکتے ہیں۔ گویا ہماری زمین پہلے آسمان کے مقابلہ ارض ہے۔ اور پہلا آسمان دوسرے آسمان کے مقابلہ میں ارض ہے۔ علی ہذا القیاس چھٹا آسمان ساتویں آسمان کے مقابلہ میں ارض ہے۔ اس طرح سات آسمانوں کی طرح زمینیں بھی سات بن جاتی ہیں۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اس سے ہماری زمین کے ہی سات طبقات یا سات پرت مراد ہوں۔ جنہیں طبقات الارض کہا جاتا ہے۔ اور ان میں سے ہر طبقہ ارض ہے یا اپنے سے اوپر والے طبقہ کے مقابلہ میں ارض ہے اور اس مفہوم کی تائید اس حدیث سے بھی ہوجاتی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ : جو شخص کسی دوسرے کی تھوڑی سی بھی زمین ناحق لے لے تو وہ قیامت کے دن سات زمینوں تک دھنستا چلا جائے گا (بخاری۔ کتاب المظالم۔ باب اثم من ظلم شیأا من الارض) اور تیسرا مفہوم یہ ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ ہماری ہی زمین جیسی ہی چھ اور زمینیں اس کائنات میں موجود ہوں اور وہاں کسی جاندار مخلوق کی آبادی بھی ہو۔ انسان آج تک کائنات کی وسعت کا اندازہ نہیں کرسکا اور نہ آئندہ کبھی کرسکے گا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جس قدر جدید اور طاقتور قسم کی دوربینیں ایجاد کر رہا ہے اور رصدگاہیں تیار کر رہا ہے۔ اسے کائنات کے نئے سے نئے گوشے نظر آنے لگے ہیں اور وہ یہ سمجھنے لگا کہ کائنات میں ہر آن وسعت پیدا ہوتی جارہی ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے : ( وَالسَّمَاۗءَ بَنَيْنٰهَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ 47؀) 51 ۔ الذاریات :47) یعنی ہم نے آسمان (یہاں آسمان سے مراد فضائے بسیط ہے) کو اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور ہم اس میں ہر آن توسیع کر رہے ہیں اور اس مفہوم کی تائید میں چند احادیث مل جاتی ہیں۔ اگرچہ وہ ضعیف قسم کی ہیں۔- [٢٨] یعنی عالم کے انتظام و تدبیر کے لئے اللہ کے احکام تکوینیہ اور شرعیہ ان آسمانوں اور زمینوں میں نازل ہوتے رہتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ اَﷲُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ ۔۔۔۔: سورت کے آخر میں اس کے اندر مذکور احکام کی عظمت کی طرف توجہ دلانے کے لیے آسمان و زمین کی پیدائش ، ان میں اپنے اوامر کے نزول اور اپنے علم و قدرت کا ذکر فرمایا ، تا کہ یہ بات مد نظر رہے کہ یہ احکام دینے والا کون ہے۔ بارہ (١٢ ) آیات پر مشتمل اس سورت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر اس کے تقویٰ کے ساتھ شروع ہوا ہے جو اس کے نام ، اس کی ضمیر اور اس کی طرف نسبت کی صورت میں تقریباً تیس (٣٠) مرتبہ آیا ہے اور آخر میں پھر اس عظیم ہستی کا تعارف ان صفات کے ساتھ دہرایا ہے۔ ( ابن عاشور)- ٢۔ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ : سات آسمانوں کی کیفیت تو اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرمائی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے اوپر تہ بہ تہ ہیں جیسا کہ فرمایا :(اَلَمْ تَرَوْا کَیْفَ خَلَقَ اللہ ُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ) ( نوح : ١٥) ” کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کس طرح اللہ نے سات آسمانوں کو اوپر تلے پیدا کیا “۔- ٣۔ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَھُنَّ : قرآن مجید میں آسمان کا ذکر واحد کے صغیے ” السمائ “ کے ساتھ بھی آیا ہے اور جمع کے صیغے ” سموت “ کے ساتھ بھی ، مگر زمین کا ذکر واحد کے صیغے کے ساتھ آیا ہے ، آسمانوں کی طرح اوپر تلے سات زمینیں ہونے کا ذکر نہیں فرمایا۔ یہاں فرمایا کہ اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور زمین سے بھی ان کی مثل یعنی مانند ۔ مانند ہونے کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ زمین بھی اپنی عظمت ، برکت آبادی اور کردیت ( گول ہونے) میں آسمانوں کی طرح ہے۔ دوسرا مطلب جو اکثر مفسرین نے مراد لیا ہے، یہ ہے کہ سات آسمانوں کی طرح زمینیں بھی اوپر تلے سات ہیں ۔ اس کی دلیل میں وہ صحیح حدیث پیش کی ہے جو عبد اللہ بن عمر (رض) نے بیان فرمائی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( من اخذمن الارض شیاء بغیر حقہ حسف بہ یوم القیامۃ الی سبع ارضین) (بخاری ، المظالم ، باب اثم من ظلم شیئا من الارض : ٢٤٥٤)” جو شخص میں سے کچھ بھی اس کے حق کے بغیر لے گا اسے قیامت کے دن سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا “۔- حدیث میں مذکور سات زمینوں سے مراد تو ظاہر ہے کہ اسی زمین کے سات طبقات ہیں جس پر ہم رہتے ہیں ، لیکن کیا آیت میں مذکور سات زمینوں سے بھی یہ طبقات مراد ہیں یا ہماری زمینیں جیسی اور چھ زمینیں ہیں ، یہ بات اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ۔ کائنات کے بےپناہ وسعتوں کو دیکھیں تو کچھ بعید نہیں کہ ہماری زمین جیسی اور زمینیں بھی ہوں جو ہماری زمین ہی کی طرح آباد ہوں ، جیسا کہ فرمایا :(وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلاَّ ھُو) ( المدثر : ٣١)” اور تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا “ ۔ اور اللہ تعالیٰ نے اکیلے ہی آسمان و زمین کو پیدا فرمایا ، کوئی اس وقت موجود نہ تھا کہ ان کے اسرار سے پوری طرف واقف ہو ، جیسا کہ فرمایا :(مَآ اَشْھَدْتُّھُمْ خَلْقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) (الکہف : ٥١)” میں نے انہیں آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں حاضر نہیں کیا “۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایجاد کا جو سلیقہ فرمایا ہے جس سے بڑی بڑی طاقتور دوبینیں ایجاد ہوئی ہیں ، ہیئت دان ان کے ساتھ کائنات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہر دن نئے سے نیا انکشاف ہوتا ہے۔ ہمارے لیے اتنی بات ہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کی طرح زمینیں بھی سات پیدا فرمائی ہیں ۔ رہی ان کی کیفیت اور متعین مراد ، تو وہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ اس نے اسے مجمل رکھا ہے تو اس میں ہماری بہتر ی ہے ، کیونکہ اگر اس کی واقعی کیفیت بیان ہوئی تو اپنی ذہنی نا رسائی کی وجہ سے ممکن تھا کہ کئی لوگ انکار ہی کردیتے۔- ٤۔ یَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَھُنَّ : اللہ تعالیٰ کا امر دو قسم کا ہے ، ایک امر کونی ہے ، یعنی وہ جس چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے ” کن “ ( ہوجا) کہتا ہے تو وہ ہوجاتی ہے اور ایک امر شرعی ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے سے اپنے احکام نازل فرماتا رہتا ہے ، یعنی آسمانوں اور زمینوں کے درمیان اللہ تعالیٰ کے اوامر کونی اور اوامر شرعی اترتے رہتے ہیں ۔ اس میں بھی اس سورت میں مذکور احکام کی اہمیت کا اظہار ہو رہا ہے کہ وہ ان عظیم الشان آسمانوں اور زمینوں کے خالق ومالک کے احکام ہیں۔- ٥۔ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌلا وَّاَنَّ اللہ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْئٍ عِلْمًا : یعنی زمین و آسمان کی پیدائش کی یہ بات تمہیں اس لیے بتائی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی ہر چیز پر پوری قدرت کو اور اس کے ہر چیز پر علم کے ساتھ احاطے کو جان لو ، پھر جب تم اس کی قدرت اور علم سے واقف ہوجاؤ گے تو اس کے احکام کی نافرمانی کی جرأت نہیں کرو گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

سات زمینیں کہاں کہاں کس صورت میں ہیں :- (آیت) اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ ، اس آیت سے اتنی بات تو واضح طور پر ثابت ہے کہ جس طرح آسمان سات ہیں ایسی ہی زمینیں بھی سات ہیں۔ پھر یہ سات زمینیں کہاں کہاں اور کس وضع و صورت میں ہیں اوپر نیچے طبقات کی صورت میں تہ برتہ ہیں یا ہر ایک زمین کا مقام الگ الگ ہے اگر اوپر نیچے طبقات ہیں تو کیا جس طرح سات آسمانوں میں ہر دو آسمان کے درمیان بڑا فاصلہ ہے اور ہر آسمان میں الگ الگ فرشتے آباد ہیں اسی طرح ایک زمین اور دوسری زمین کے درمیان بھی فاصلہ اور ہوا فضا وغیرہ ہیں اور اس میں کوئی مخلوق آباد ہے یا یہ طبقات زمین ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں۔ قرآن مجید اس سے ساکت ہے اور روایات حدیث ہو اس بارے میں آئی ہیں ان میں اکثر احادیث میں ائمہ حدیث کا اختلاف ہے بعض نے ان کو صحیح و ثابت قرار دیا ہے بعض نے موضوع و منگھڑت تک کہہ دیدا ہے اور عقلاً یہ سب صورتیں ممکن ہیں اور ہماری کوئی دینی یا دنیوی ضرورت اس کی تحقیق پر موقوف نہیں نہ ہم سے قبر میں یا حشر میں اس کا سوال ہوگا کہ ہم ان سات زمینوں کی وضع و صورت اور محل وقوع اور اس میں بسنے والی مخلوقات کی تحقیق کریں، اس لئے اسلم صورت یہ ہے کہ بس اس پر ایمان لائیں اور یقین کریں کہ زمینیں بھی آسمانوں کی طرح سات ہی ہیں، اور سب کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے پیدا فرمایا ہے۔ اتین ہی بات قرآن نے بیان کی ہے جس کو قرآن نے بیان کرنا ضروری نہیں سمجھا ہم بھی اس کی فکر و تحقیق میں کیوں پڑیں۔ حضرات سلف صالحین کا ایسی صورتوں میں یہی طرز عمل رہا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے ابھموا ما ابھمہ اللہ، یعنی جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے مبہم چھوڑا ہے تم بھی اسے مبہم رہنے دو جبکہ اس میں تمہارے لئے کوئی عملی حکم نہیں، اور تمہاری کوئی دینی یا دنیوی ضرورت اس سے متعلق نہیں۔ خصوصاً یہ تفسیر عوام کے لئے لکھی گئی ہے۔ ایسے خلاص علمی اختلافی مباحث اس میں نہیں لئے گئے جن کی عورت کو ضرورت نہیں ہے۔- یتنزل الامربیھن یعنی اللہ کا حکم ان ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کے درمیان نازل ہوتا رہتا ہے اور حکم الٰہی کی دو قسم ہیں۔ ایک تشریعی جو اللہ کے مکلف بندوں کے لئے بذریعہ وحی بواسطہ انبیاء بھیجا جاتا ہے جیسے زمین میں انسان اور جن کے لئے آسمانوں سے فرشتے یہ تشریعی احکام انبیاء تک لے کر آتے ہیں جن میں عقائد، عبادات، اخلاق، معاملات، معاشرت کے قوانین ہوتے ہیں ان کی پابندی پر ثواب اور خلاف ورزی پر عذاب ہوتا ہے۔ دوسری قسم حکم کی حکم تکوینی ہے۔ یعنی تقدیر الٰہی کی تنفیذ سے متعلق احکام جس میں کائنات کی تخلیق اور اس کی تدریجی ترقی اور اس میں کمی بیشی اور موت وحیات داخل ہیں یہ احکام تمام مخلوقات الہیہ پر حاوی ہیں۔ اس لئے اگر ہر دو زمینوں کے درمیان فضاء اور فاصلہ اور اس میں کسی مخلوق کا آباد ہونا ثابت ہوجائے خواہ مخلوق مکلف احکام شرعیہ کی نہ ہو تو اس پر بھی یتنزل الامر صادق ہے کہ اللہ تعالیٰ کا امرتکوینی اس پر بھی حاوی ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم - تمت سورة الطلاق بعون اللہ وحمدہ فی اخریوم من جمادی الثانیہ 1391 ھ یوم الاحد واللہ اموفق والمعین

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَللہُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّ۝ ٠ ۭ يَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَہُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝ ٠ۥۙ وَّاَنَّ اللہَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا۝ ١٢ ۧ- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - سبع - أصل السَّبْع العدد، قال : سَبْعَ سَماواتٍ [ البقرة 29] ، سَبْعاً شِداداً [ النبأ 16] ، يعني : السموات السّبع وسَبْعَ سُنْبُلاتٍ [يوسف 46] ، سَبْعَ لَيالٍ [ الحاقة 7] ، سَبْعَةٌ وَثامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ [ الكهف 22] ، سَبْعُونَ ذِراعاً [ الحاقة 32] ، سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة 80] ، سَبْعاً مِنَ الْمَثانِي[ الحجر 87] . قيل : سورة الحمد لکونها سبع آيات، السَّبْعُ الطّوال : من البقرة إلى الأعراف، وسمّي سور القرآن المثاني، لأنه يثنی فيها القصص، ومنه : السَّبْعُ ، والسَّبِيعُ والسِّبْعُ ، في الورود . والْأُسْبُوعُ جمعه : أَسَابِيعُ ، ويقال : طفت بالبیت أسبوعا، وأسابیع، وسَبَعْتُ القومَ : كنت سابعهم، وأخذت سبع أموالهم، والسَّبُعُ :- معروف . وقیل : سمّي بذلک لتمام قوّته، وذلک أنّ السَّبْعَ من الأعداد التامّة، وقول الهذليّ :- 225-- كأنّه عبد لآل أبي ربیعة مسبع - «2» أي : قد وقع السّبع في غنمه، وقیل : معناه المهمل مع السّباع، ويروی ( مُسْبَع) بفتح الباء، وكنّي بالمسبع عن الدّعيّ الذي لا يعرف أبوه، وسَبَعَ فلان فلانا : اغتابه، وأكل لحمه أكل السّباع، والْمَسْبَع : موضع السَّبُع .- ( س ب ع ) السبع اصل میں " سبع " سات کے عدد کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ سَبْعَ سَماواتٍ [ البقرة 29] سات آسمان ۔ سَبْعاً شِداداً [ النبأ 16] سات مضبوط ( آسمان بنائے ) ۔ وسَبْعَ سُنْبُلاتٍ [يوسف 46] سات بالیں ۔ سَبْعَ لَيالٍ [ الحاقة 7] سات راتیں ۔ سَبْعَةٌ وَثامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ [ الكهف 22] سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتا ہے ۔ سَبْعُونَ ذِراعاً [ الحاقة 32] ستر گز سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة 80] ستر مرتبہ اور آیت : سَبْعاً مِنَ الْمَثانِي[ الحجر 87] ( الحمد کی ) سات آیتیں ( عطا فرمائیں جو نماز کی ہر رکعت میں مکرر پڑھی جاتی ہیں میں بعض نے کہا ہے کہ سورة الحمد مراد ہے ۔ کیونکہ اس کی سات آیتیں ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ السبع الطوال یعنی سورة بقرہ سے لے کر اعراف تک سات لمبی سورتیں مراد ہیں ۔ اور قرآن پاک کی تمام سورتوں کو بھی مثانی کہا گیا ہے ۔ کیونکہ ان میں واقعات تکرار کے ساتھ مذکور ہیں منجملہ ان کے یہ سات سورتیں ہیں السبیع والسبع اونٹوں کو ساتویں روز پانی پر وارد کرتا ۔ الاسبوع ۔ ایک ہفتہ یعنی سات دن جمع اسابیع طفت بالبیت اسبوعا میں نے خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگائے سبعت القوم میں ان کا ساتواں بن گیا ۔ اخذت سبع اموالھم میں نے ان کے اموال سے ساتواں حصہ وصول کیا ۔ السبع ۔ درندہ کو کہتے ہیں ۔ کیونکہ اس کی قوت پوری ہوتی ہے جیسا کہ سات کا عدد " عدد تام " ہوتا ہے ۔ ھذلی نے کہا ہے ( الکامل) كأنّه عبد لآل أبي ربیعة مسبعگویا وہ آل ابی ربیعہ کا غلام ہے جس کی بکریوں کو پھاڑ کھانے کے لئے درندے آگئے ہوں ۔ بعض نے مسبع کا معنی مھمل مع السباع کئے ہیں یعنی وہ جو درندوں کی طرح آوارہ پھرتا ہے اور بعض نے مسبع ( بفتح باء ) پڑھا ہے ۔ اور یہ دعی سے کنایہ ہے یعنی وہ شخص جسکا نسب معلوم نہ ہو ۔ سبع فلانا کسی کی غیبت کرنا اور درندہ کی طرح اس کا گوشت کھانا ۔ المسبع ۔ درندوں کی سر زمین ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - إِنَّ وأَنَ- إِنَّ أَنَّ ينصبان الاسم ويرفعان الخبر، والفرق بينهما أنّ «إِنَّ» يكون ما بعده جملة مستقلة، و «أَنَّ» يكون ما بعده في حکم مفرد يقع موقع مرفوع ومنصوب ومجرور، نحو : أعجبني أَنَّك تخرج، وعلمت أَنَّكَ تخرج، وتعجّبت من أَنَّك تخرج . وإذا أدخل عليه «ما» يبطل عمله، ويقتضي إثبات الحکم للمذکور وصرفه عمّا عداه، نحو : إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ- [ التوبة 28] تنبيها علی أنّ النجاسة التامة هي حاصلة للمختص بالشرک، وقوله عزّ وجل : إِنَّما حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ [ البقرة 173] أي : ما حرّم ذلك إلا تنبيها علی أنّ أعظم المحرمات من المطعومات في أصل الشرع هو هذه المذکورات .- وأَنْ علی أربعة أوجه :- الداخلة علی المعدومین من الفعل الماضي أو المستقبل، ويكون ما بعده في تقدیر مصدر، وينصب المستقبل نحو : أعجبني أن تخرج وأن خرجت .- والمخفّفة من الثقیلة نحو : أعجبني أن زيدا منطلق .- والمؤكّدة ل «لمّا» نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] . والمفسّرة لما يكون بمعنی القول، نحو : وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا [ ص 6] أي : قالوا : امشوا .- وكذلك «إِنْ» علی أربعة أوجه : للشرط نحو : إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبادُكَ [ المائدة 118] ، والمخفّفة من الثقیلة ويلزمها اللام نحو : إِنْ كادَ لَيُضِلُّنا [ الفرقان 42] ، والنافية، وأكثر ما يجيء يتعقّبه «إلا» ، نحو : إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا [ الجاثية 32] ، إِنْ هذا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ [ المدثر 25] ، إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَراكَ بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود 54] .- والمؤكّدة ل «ما» النافية، نحو : ما إن يخرج زيد - ( ان حرف ) ان وان - ( حرف ) یہ دونوں اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ ان جملہ مستقل پر آتا ہے اور ان کا مابعد ایسے مفرد کے حکم میں ہوتا ہے جو اسم مرفوع ، منصوب اور مجرور کی جگہ پر واقع ہوتا ہے جیسے اعجبنی انک تخرج وعجبت انک تخرج اور تعجب من انک تخرج جب ان کے بعد ما ( کافہ ) آجائے تو یہ عمل نہیں کرتا اور کلمہ حصر کے معنی دیتا ہے ۔ فرمایا :۔ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ ( سورة التوبة 28) ۔ مشرک تو پلید ہیں (9 ۔ 28) یعنی نجاست تامہ تو مشرکین کے ساتھ مختص ہے ۔ نیز فرمایا :۔ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ ( سورة البقرة 173) اس نے تم امر ہوا جانور اور لہو حرام کردیا ہے (2 ۔ 173) یعنی مذکورہ اشیاء کے سوا اور کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیا اس میں تنبیہ ہے کہ معلومات میں سے جو چیزیں اصول شریعت میں حرام ہیں ان میں سے - یہ چیزیں سب سے بڑھ کر ہیں ۔- ( ان )- یہ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے (1) ان مصدریہ ۔ یہ ماضی اور مضارع دونوں پر داخل ہوتا ہے اور اس کا مابعد تاویل مصدر میں ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں یہ مضارع کو نصب دیتا ہے جیسے :۔ اعجبنی ان تخرج وان خرجت ۔ ان المخففہ من المثقلۃ یعنی وہ ان جو ثقیلہ سے خفیفہ کرلیا گیا ہو ( یہ کسی شے کی تحقیق اور ثبوت کے معنی دیتا ہے جیسے ۔ اعجبنی ان زید منطلق ان ( زائدہ ) جو لما کی توکید کے لئے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ ( سورة يوسف 96) جب خوشخبری دینے والا آپہنچا (12 ۔ 92) ان مفسرہ ۔ یہ ہمیشہ اس فعل کے بعد آتا ہے جو قول کے معنیٰ پر مشتمل ہو ( خواہ وہ لفظا ہو یا معنی جیسے فرمایا :۔ وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ ( سورة ص 6) ان امشوا اور ان میں جو معزز تھے وہ چل کھڑے ہوئے ( اور بولے ) کہ چلو (38 ۔ 6) یہاں ان امشوا ، قالوا کے معنی کو متضمن ہے ان ان کی طرح یہ بھی چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ان شرطیہ جیسے فرمایا :۔ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ( سورة المائدة 118) اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں (5 ۔ 118) ان مخففہ جو ان ثقیلہ سے مخفف ہوتا ہے ( یہ تا کید کے معنی دیتا ہے اور ) اس کے بعد لام ( مفتوح ) کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا :۔ إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا ( سورة الفرقان 42) ( تو ) یہ ضرور ہم کو بہکا دیتا ہے (25 ۔ 42) ان نافیہ اس کے بعداکثر الا آتا ہے جیسے فرمایا :۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا ( سورة الجاثية 32) ۔۔ ،۔ ہم اس کو محض ظنی خیال کرتے ہیں (45 ۔ 32) إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ( سورة المدثر 25) (ٌپھر بولا) یہ ( خدا کا کلام ) نہیں بلکہ ) بشر کا کلام سے (74 ۔ 25) إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ - ( سورة هود 54) ۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا ( کر دیوانہ کر ) دیا ہے (11 ۔ 54) ان ( زائدہ ) جو ( ما) نافیہ کی تاکید کے لئے آتا ہے جیسے : مان یخرج زید ۔ زید باہر نہیں نکلے گا ۔ - قَدِيرُ :- هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] .- القدیر - اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔- حيط - الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين :- أحدهما : في الأجسام - نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] ، - والثاني : في العلم - نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] - ( ح و ط ) الحائط ۔- دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور - احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔- (2) دوم احاطہ بالعلم - ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ - شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان :- أحدهما : إدراک ذات الشیء .- والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له،- أو نفي شيء هو منفيّ عنه .- فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو :- لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] .- والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله :- فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله :- لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت .- والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ.- فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم .- والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات .- ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ،- وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔- ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں - ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اللہ ہی نے سات آسمان اوپر نیچے اور اسی طرح سات زمینیں تہ بہ تہ پیدا کیں ان سب آسمانوں اور زمینوں میں فرشتے وحی و تنزیل اور اللہ تعالیٰ کے احکام لے کر آتے رہتے ہیں۔- تاکہ تمہیں معلوم ہوجائے اور تم یقین کرلو کہ اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین والوں میں ہر ایک پر قادر ہے اور اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کو اپنے احاطہ علمی میں لیے ہوئے ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّ ” اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے ہیں اور زمین میں سے بھی انہی کی مانند۔ “- یہ آیت ” آیاتِ متشابہات “ میں سے ہے۔ ابھی تک انسان سات آسمانوں کی حقیقت سے بھی واقف نہیں ہوسکا۔ ” زمین میں سے انہی کی مانند “ کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جتنے آسمان بنائے اتنی ہی زمینیں بھی بنائیں ‘ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جیسے اس نے متعدد آسمان بنائے ہیں ویسے ہی متعدد زمینیں بھی بنائی ہیں۔ قرآن حکیم کے بعض مقامات پر ایسے اشارے ملتے ہیں کہ جاندار مخلوقات صرف زمین پر ہی نہیں ہیں ‘ عالم بالا میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مفسرین نے اپنے اپنے اندازوں سے اس آیت کی تفسیر کی ہے ‘ لیکن اس کا قطعی مفہوم ہم ابھی نہیں جان سکتے۔ بہرحال کسی وقت اس کی حقیقت انسان پر منکشف ہوجائے گی۔- یَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَہُنَّ ” ان کے درمیان (اللہ کا) امر نازل ہوتا ہے “- اس سے مراد تدبیر ِکائنات سے متعلق اللہ تعالیٰ کے احکام ہیں۔ اس بارے میں مزید وضاحت سورة السجدۃ کی اس آیت میں ملتی ہے :- یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٓٗ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ۔ - ” وہ تدبیر کرتا ہے اپنے امر کی آسمان سے زمین کی طرف پھر وہ (اَمر) چڑھتا ہے اس کی طرف (یہ سارا معاملہ طے پاتا ہے) ایک دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی کے حساب سے ایک ہزار برس ہے۔ “- گویا یہ اللہ تعالیٰ کی ہزار سالہ منصوبہ بندی سے متعلق احکام کا ذکر ہے جو زمین کی طرف ارسال کیے جاتے ہیں۔ متعلقہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ان احکام کی تنفیذ عمل میں لاتے رہتے ہیں ‘ یہاں تک کہ ہزار سال کے اختتام پر یہ ” امر “ اٹھا لیا جاتا ہے اور اگلے ہزار سال کا امر نازل کر دیاجاتا ہے۔- لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْــرٌلا ” تاکہ تم یقین رکھو کہ اللہ ہرچیز پر قادر ہے “- اس دورئہ ترجمہ قرآن کے دوران کئی مرتبہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں دو صفات خصوصی اہمیت کی حامل ہیں اور قرآن مجید میں ان دو صفات کی بہت تکرار ملتی ہے۔ یعنی اللہ کا عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْــرٌاور بِکُلِّ شَیْئٍ عِلِیْمٍ ہونا۔ لہٰذا ان دو صفات کے بارے میں ایک بندئہ مومن کا مراقبہ بہت گہرا ہونا چاہیے ‘ تاکہ اللہ تعالیٰ کے علم اور اختیار کے بارے میں اس کے یقین میں کسی لمحے کوئی کمزوری نہ آنے پائے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی ان دونوں صفات کا ذکر آیا ہے۔- وَّاَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْئٍ عِلْمًا ۔ ” اور یہ کہ اللہ نے اپنے علم سے ہر شے کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ “- پہلے اللہ کی قدرت کے بارے میں بتایا گیا اور اب اس کے علم کا ذکر آگیا۔ یعنی کائنات کی کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں اور نہ ہی کوئی چیز اس کے علم سے پوشیدہ ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :23 اُنہی کے مانند کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جتنے آسمان بنائے اُتنی ہی زمینیں بھی بنائیں ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جیسے متعدد آسمان اس نے بنائے ہیں ویسی ہی متعدد زمینیں بھی بنائی ہیں ۔ اور زمین کی قسم سے مطلب یہ ہے کہ جس طرح یہ زمین جس پر انسان رہتے ہیں ، اپنی موجودات کے لیے فرش اور گہوارہ بنی ہوئی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کائنات میں اور زمینیں بھی تیار کر رکھی ہیں جو اپنی اپنی آبادیوں کے لیے فرش اور گہوارہ ہیں ۔ بلکہ بعض مقامات پر تو قرآن میں یہ اشارہ بھی کر دیا گیا ہے کہ جاندار مخلوقات صرف زمین ہی پر نہیں ہیں ، عالم بالا میں بھی پائی جاتی ہیں ( مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ۔ الشوریٰ ، آیت 29 ، حاشیہ 50 ) ۔ بالفاظ دیگر آسمان میں یہ جو بے شمار تارے اور سیارے نظر آتے ہیں ، یہ سب ڈھنڈار پڑے ہوئے نہیں ہیں بلکہ زمین کی طرح ان میں بھی بکثرت ایسے ہیں جن میں دنیائیں آباد ہیں ۔ قدیم مفسرین میں سے صرف ابن عباس ایک ایسے مفسر ہیں جنہوں نے اس دور میں اس حقیقت کو بیان کیا تھا جب آدمی اس کا تصور تک کرنے کے لیے تیار نہ تھا کہ کائنات میں اس زمین کے سوا کہیں اور بھی ذی عقل مخلوق بستی ہے ۔ آج اس زمانے کے سائنس دانوں تک کو اس کے امر واقعہ ہونے میں شک ہے ، کجا کہ 14 سو برس پہلے کے لوگ اسے بآسانی باور کر سکتے ۔ اسی لیے ابن عباس رضی اللہ عنہ عام لوگوں کے سامنے یہ بات کہتے ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں اس سے لوگوں کے ایمان متزلزل نہ ہو جائیں ۔ چنانچہ مجاہد کہتے ہیں کہ ان سے جب اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا اگر میں اس کی تفسیر تم لوگوں سے بیان کروں تو تم کافر ہو جاؤ گے اور تمہارا کفر یہ ہوگا کہ اسے جھٹلاؤ گے ۔ قریب قریب یہی بات سعید بن جبیر سے بھی منقول ہے کہ ابن عباس نے فرمایا کیا بھروسہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر میں تمہیں اس کا مطلب بتاؤں تو تم کافر نہ ہو جاؤ گے ۔ ( ابن جریر ۔ عبد بن حمید ) ۔ تاہم ابن جریر ، ابن ابی حاتم اور حاکم نے ، اور شعب الایمان اور کتاب الاسماء و الصفات میں بیہقی نے ابوالضحٰی کے واسطے سے باختلاف الفاظ ابن عباس کی یہ تفسیر نقل کی ہے کہ : فی کلِّ ارضٍ نبیٌّ کنبیِّکم و اٰدمُ کَاٰدَمَ و نوحٌ کنوح و ابراہیم کا براھیم و عیسیٰ کعیسیٰ ۔ ان میں سے ہر زمین میں نبی ہے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسا اور آدم ہے تمہارے آدم جیسا اور نوح ہے تمہارے نوح جیسا ، اور ابراہیم ہے تمہارے ابراہیم جیسا اور عیسیٰ ہے تمہارے عیسیٰ جیسا ۔ اس روایت کو ابن حجر نے فتح الباری میں اور ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں بھی نقل کیا ہے ۔ اور امام ذہبی نے کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے البتہ میرے علم میں ابوالضحٰی کے سوا کسی نے اسے روایت نہیں کیا ہے ، اس لیے یہ بالکل شاذ روایت ہے ۔ بعض دوسرے علماء نے اسے کذب اور موضوع قرار دیا ہے اور ملا علی قاری نے اس کو موضوعات کبیر ( ص 19 ) میں موضوع کہتے ہوئے لکا ہے کہ اگر یہ ابن عباس ہی کی روایت ہے تب بھی اسرائیلیات میں سے ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے رد کرنے کی اصل وجہ لوگوں کا اسے بعید از عقل و فہم سمجھنا ہے ، ورنہ بجائے خود اس میں کوئی بات بھی خلاف عقل نہیں ہے ۔ چنانچہ علامہ آلوسی اپنی تفسیر میں اس پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس کو صحیح ماننے میں نہ عقلاً کوئی چیز مانع ہے نہ شرعاً ۔ مراد یہ ہے کہ ہر زمین میں ایک مخلوق ہے جو ایک اصل کی طرف اسی طرح راجع ہوتی ہے جس طرح بنی آدم ہماری زمین میں آدم علیہ السلام کی طرف راجع ہوتے ہیں ۔ اور ہر زمین میں ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو اپنے ہاں دوسروں کی بہ نسبت اسی طرح ممتاز ہیں جس طرح ہمارے ہاں نوح اور ابراہیم علیہ السلام ممتاز ہیں ۔ آگے چل کر علامہ موصوف کہتے ہیں ممکن ہے کہ زمینیں سات سے زیادہ ہوں اور اسی طرح آسمان بھی صرف سات ہی نہ ہوں ۔ سات کے عدد پر ، جو عدد تام ہے ، اکتفا کرنا اس بات کو مستلزم نہیں کہ اس سے زائد کی نفی ہو ۔ پھر بعض احادیث میں ایک ایک آسمان کی درمیانی مسافت جو پانچ پانچ سو برس بیان کی گئی ہے اس کے متعلق علامہ موصوف کہتے ہیں : ھومن باب التقریب لِلافْھام ، یعنی اس سے مراد ٹھیک ٹھیک مسافت کی پیمائش بیان کرنا نہیں ہے ، بلکہ مقصود بات کو اس طرح بیان کرنا ہے کہ وہ لوگوں کی سمجھ سے قریب تر ہو ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ حال میں امریکہ کے رانڈکارپوریشن ( ) نے فلکی مشاہدات سے اندازہ لگایا ہے کہ زمین جس کہکشاں ( ) میں واقع ہے صرف اسی کے اندر تقریباً 60 کروڑ ایسے سیارے پائے جاتے ہیں جن کے طبعی حالات ہماری زمین سے بہت کچھ ملتے چلتے ہیں اور امکان ہے کہ ان کے اندر بھی جاندار مخلوق آباد ہو ( اکانومسٹ ، لندن ۔ مورخہ 26 جولائی 1969ء ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

14: احادیث سے اس کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آسمانوں کی طرح زمینیں بھی سات ہیں۔ البتہ ان کی کوئی تفصیل قرآن و حدیث نے نہیں بتائی کہ یہ سات زمینیں تہہ بر تہہ ہیں، یا ان کے درمیان فاسلہ ہے، اور اگر فاصلہ ہے تو وہ کہاں واقع ہیں۔ کائنات کی بیشمار چیزیں ایسی ہیں جن تک ابھی اِنسان کے علم کی رسائی نہیں ہوئی۔ اﷲ تعالیٰ ہی ان کی حقیقت جانتا ہے، اور قرآنِ کریم کے مقصد کے لئے یہ ساری تفصیلات جاننا ضروری بھی نہیں ہے۔ آیت کا اصل مقصد یہ ہے کہ کائنات کے ان حقائق سے اﷲ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ پر ایمان لانا ہی عقل سلیم کا تقاضا ہے۔