مسائل عدت جن بڑھیا عورتوں کی اپنی بڑی عمر کی وجہ سے ایام بند ہوگئے ہوں یہاں ان کی عدت بتائی جاتی ہے کہ تین مہینے کی عدت گذاریں ، جیسے کہ ایام والی عورتوں کی عدت تنی حیض ہے ۔ ملاحظہ ہو سورہ بقرہ کی آیت ، اسی طرح وہ لڑکیاں جو اس عمر کو نہیں پہنچیں کہ انہیں حیض آئے ان کی عدت بھی یہی تین مہینے رکھی ، اگر تمہیں شک ہو اس کی تفسیر میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ خون دیکھ لیں اور تمہیں شبہ گذرے کہ آیا حیض کا خون ہے یا استخاصہ کی بیماری کا ، دوسرا قول یہ ہے کہ ان کی عدت کے حکم میں تمہیں شک باقی رہ جائے اور تم اسے نہ پہچان سکو تو تین مہینے یاد رکھو لو ، یہ دوسرا قول ہی زیادہ ظاہر ہے ، اس کی دلیل یہ روایت بھی ہے کہ حضتر ابی بن کعب نے کہا تھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت سی عورتوں کی عدت ابھی بیان نہیں ہوئی کمسن لڑکیاں بوڑھی بڑی عورتیں اور حمل والی عورتیں اس کے جواب میں یہ آیت اتری ، پھر حاملہ کی عدت بیان فرمائی کہ وضع حمل اس کی عدت ہے گو طلاق یا خاوند کی موت کے ذرا سی دیر بعد ہی ہو جائے ، جیسے کہ اس آیہ کریمہ کے الفاظ ہیں اور احادیث نبویہ سے ثابت ہے اور جمہور علماء سلفو خلف کا قول ہے ، ہاں حضرت علی اور حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ سورہ بقرہ کی آیت اور اس آیت کو ملا کر ان کا فتویٰ یہ ہے کہ ان دونوں میں سے جو زیادہ دیر میں ختم ہو وہ عدت یہ گذارے یعنی اگر بچہ تین مہینے سے پہلے پیدا ہو گیا تو تین مہینے کی عدت ہے اور تین مہینے گذر چکے اور بچہ نہیں ہوا تو بچے کے ہونے تک عدت ہے ، صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو سلمہ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضرت ابن عباس کے پاس آیا اور اس وقت حضرت ابو ہریرہ بھی وہیں موجود تھے اس نے سوال کیا کہ اس عورت کے بارے میں آپ کا کیا فتویٰ ہے جسے اپنے خاوند کے انقال کے بعد چالیسویں دن بچہ ہو جائے آپ نے فرمایا دونوں عدتوں میں سے آخری عدت اسے گذارنی پڑے گی یعنی اس صورت میں تین مہینے کی عدت اس پر ہے ، ابو سلمہ نے کہا قرآن میں تو ہے کہ حمل والیوں کی عدت بچہ کا و جانا ہے ، حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا میں بھی اپنے چچا زاد بھائی حضرت ابو سلمہ کے ساتھ ہوں یعنی میرا بھی یہی فوتویٰ ہے ، حضرت ابن عباس نے اسی وقت اپنے غلام کریب کو ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا کہ جاؤ ان سے یہ مسئلہ پوچھ آؤ انہوں نے فرمایا سبیعہ اسلمیہ کے شوہر قتل کئے گئے اور یہ اس وقت امید سے تھیں چالیس راتوں کے بعد بچہ ہو گیا اسی وقت نکاح کا پیغام آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کر دیا پیغام دینے والوں میں حضرت ابو السنابل بھی تھے ۔ یہ حدیث قدرے طوالت کے ساتھ اور کتابوں میں بھی ہے ، حضرت عبداللہ بن عتبہ نے حضرت عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری کو لکھا کہ وہ سبیعہ بنت حارث اسلمیہ کے پاس جائیں اور ان سے ان کا واقعہ دریافت کر کے انہیں لکھ بھیجیں ، یہ گئے دریافت کیا اور لکھا کہ ان کے خاوند حضرت سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ تھے یہ بدری صحابی تھے حجتہ الوداع میں فوت ہوگئے اس وقت یہ حمل سے تھیں تھوڑے ہی دن کے بعد انہیں بچہ پیدا ہو گیا جب نفاس سے پاک ہوئیں تو اچھے کپڑے پہن کر بناؤ سنگھار کر کے بیٹھ گئیں حضرت ابو السنابل بن بلک جب ان کے پاس آئے تو انہیں اس حالت میں دیکھ کر کہنے لگے تم جو اس طرح بیٹھی ہو تو کیا نکاح کرنا چاہتی ہو واللہ تم نکاح نہیں کر سکتیں جب تک کہ چار مہینے دس دن نہ گذر جائیں ۔ میں یہ سن کر چادر اوڑھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے یہ مسئلہ پوچھا آپ نے فرمایا بچہ پیدا ہوتے ہی تم عدت سے نکل گئیں اب تمہیں اختیار ہے اگر چاہو تو اپنا نکاح کر لو ( مسلم ) صحیح بخاری میں اس آیت کے تحت میں اس حدیث کے وارد کرنے کے بعد یہ بھی ہے کہ حضرت ممد بن سیرین ایک مجلس میں تھے جہاں حضرت عبدالرحمن بن ابو یعلی بھی تھے جن کی تعظیم تکریم ان کے ساتھی بہت ہی کیا کرتے تھے انہوں نے حاملہ کی عدت آخری دو عدتوں کی میعاد بتائی اس پر میں نے حضرت سبیعہ والی حدیث بیان کی ، اس پر میرے بعض ساتھی مجھے ٹہو کے لگانے لگے میں نے کہا پھر تو میں نے بڑی جرات کی اگر عبداللہ پر میں نے بہتان باندھا حالانکہ وہ کوفہ کے کونے میں زندہ موجود ہیں پس وہ ذرا شرما گئے اور کہنے لگے لیکن ان کے چچا تو یہ نہیں کہتے میں حضرت ابو عطیہ مالک بن عامر سے ملا انہوں نے مجھے حضرت سبیعہ والی حدیث پوری سنائی میں نے کہا تم نے اس بابت حضرت عبداللہ سے بھی کچھ سنا ہے؟ فرمایا یہ حضرت عبداللہ کہتے تھے آپ نے فرمایا کیا تم اس پر سختی کرتے ہو اور رخصت نہیں دیتے؟ سورہ نساء قصریٰ یعنی سورۃ طلاق سورہ نساء طولی کے بعد اتری ہے اور اس میں فرمان ہے کہ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے ، ابن جریر میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایتہے کہ جو ملاعنہ کرنا چاہے میں اس سے ملاعنہ کرنے کو تیار ہوں یعنی میرے فتوے کے خلاف جس کا فتویٰ ہو میں تیار ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں آئے اور جھوٹے پر اللہ کی لعنت کرے ، میرا فتویٰ یہ ہے کہ حمل والی کی عدت بچہ کا پیدا ہو جانا ہے پہلے عام حکم تھا کہ جن عرتوں کی خاوند مر جائیں وہ چار مہینے دس دن عدت گذاریں اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کہ حمل والیوں کی عدت بچے کا پیدا ہو جانا ہے پس یہ عورتیں ان عورتوں میں سے مخصوص ہوگئیں اب مسئلہ یہی ہے کہ جس عورت کا خاوند مر جائے اور وہ حمل سے ہو تو جب حمل سے فارغ ہو جائے ، عدت سے نکل گئی ۔ ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ حضرت ابن مسعود نے یہ اس وقت فرمایا تھا جب انہیں معلوم ہوا کہ حضرت علی کا فتویٰ یہ ہے کہ اس کی عدت ان دونوں عدتوں میں سے جو آخری ہو وہ ہے ، مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابی بن کعب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ حمل والیوں کی عدت جو وضع حمل ہے یہ تین طلاق والیوں کی عدت ہے یا فوت شدہ خاوند والیوں کی آپ نے فرمایا دونوں کی ، یہ حدیث بہت غریب ہے بلکہ منکر ہے اس لئے کہ اس کی اسناد میں مثنی بن صباح ہے اور وہ بالکل متروک الحدیث ہے ، لیکن اس کی دوسری سندیں بھی ہیں ۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ متقیوں کے لئے ہر مشکل سے آسانی اور ہر تکلیف سے راحت عنایت فرما دیتا ہے ، یہ اللہ کے احکام اور اس کی پاک شریعت ہے جو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے تمہاری طرفاتار رہا ہے اللہ سے ڈرنے والوں کو اللہ تعالیٰ اور چیزوں کے ڈر سے بچا لیتا ہے اور ان کے تھوڑے عمل پر بڑا اجر دیتا ہے ۔
4۔ 1 یہ ان کی عدت ہے جن کا حیض عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے بند ہوگیا ہو، یا جنہیں حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو۔ واضح رہے کہ نادر طور پر ایسا ہوتا ہے کہ عورت سن بلوغت کو پہنچ جاتی ہے اور اسے حیض ہی نہیں آتا۔ 4۔ 2 مطلقہ اگر حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے، چاہے دوسرے روز ہی وضع حمل ہوجائے، ہر حاملہ عورت کی عدت یہی ہے چاہے وہ مطلقہ ہو یا اس کا خاوند فوت ہوگیا ہو۔ احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے (صحیح بخاری) اور جن کے خاوند فوت ہوجائیں ان کی عدت چار مہینے دس دن ہے۔
[١٥] نکاح نابالغاں :۔ یعنی جو عورتیں اتنی بوڑھی ہوچکی ہوں کہ انہیں حیض آنا بند ہوچکا ہو یا وہ نابالغ لڑکیاں جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو۔ اور بعض عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ انہیں عمر کی نسبت سے بڑی دیر کے بعد حیض آتا ہے اور ایسا بھی ممکن ہے کہ کسی عورت کو عمر بھر حیض نہ آئے۔ ایسی سب عورتوں کی عدت تین ماہ ہے اور یہ اس دن سے شروع ہوجائے گا جس دن سے اسے طلاق دی گئی اور تین ماہ قمری شمار ہوں گے، شمسی نہیں۔ ضمناً اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ نابالغ بچیوں کی شادی بھی جائز ہے اور ان سے صحبت کرنا بھی جائز ہے۔ اسی طرح جن بڑی عورتوں کو بھی حیض نہ آیا ہو یا اتنی بوڑھی ہوچکی ہوں کہ ان کا حیض بند ہوچکا ہو ان سے بھی صحبت کرنا جائز ہے۔- اس آیت میں (ارْتَبْتُمْ ) 65 ۔ الطلاق :4) کے الفاظ بڑے ذومعنی ہیں۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اگر تمہیں ایسی عورتوں کی عدت معلوم کرنے میں تشویش ہو اور تم ان کی عدت معلوم کرنا چاہتے ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی عدت تین ماہ ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ بےحیض عورت کے ہاں عموماً اولاد پیدا نہیں ہوتی۔ تاہم ایسی عورتوں کے ہاں اولاد کا پیدا ہوجانا اللہ کی قدرت سے کچھ بعید بھی نہیں۔ اور اس کی مثالیں بھی اس دنیا میں پائی جاتی ہیں اگرچہ ایسی مثالیں شاذ ہیں۔ تاہم ناممکن اور مفقود بھی نہیں۔ اسی لئے ایسی عورتوں کی عدت مقرر کردی گئی۔- [١٦] عورت مطلقہ ہو یا بیوہ ہو یعنی اس کا خاوند فوت ہوجائے اس کی عدت وضع حمل تک ہوگی۔ جیسا کہ اسی سورة کی پہلی آیت کے حاشیہ نمبر ١ میں اس کی وضاحت پیش کی جاچکی ہے۔- [١٧] اس سورت میں بار بار اللہ سے ڈرتے رہنے کی تاکید کی گئی ہے وجہ یہ ہے کہ ازدواجی زندگی کے مسائل بھی کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ جب تک انسان ہر وقت اللہ سے ڈرتا نہ رہے وہ اپنی بیوی کے معاملہ میں بےراہ رو ہوجاتا ہے اور اسی لیے کتاب و سنت میں اپنی بیویوں سے حسن سلوک کی بار بار تاکید آئی ہے۔
١۔ وَالّٰئِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآئِکُمْ ۔۔۔۔:” اتی “” اللاتی “ کی طرح ” التی “ کی جمع ہے ، وہ عورتیں ۔ ’ ازتبتم “ ’ ریب “ (شک) میں سے باب افتعال ماضی مطلق معروف جمع مذکر حاضر کا صیغہ ہے ، اصل میں ’ ’ ارتیبتم “ تھا۔ یعنی وہ عورتیں جو حیض سے ناامید ہوچکی ہیں اور وہ عورتیں جنہیں حیض آیا ہی نہیں ، اگر انہیں دخول کے بعد طلاق ہو تو ان کی عدت تین قمری مہینے ہے ، جب کہ دخولے بغیر طلاق ہو تو ان پر کوئی عدت نہیں ۔ دیکھئے سورة ٔ احزاب (٤٩) ۔- ٢۔ اِنِ ارْتَبْتُمْ (اگر تمہیں شک ہو) کے تین مطلب ہوسکتے ہیں ، ایک یہ کہ اگر تمہیں شک ہو کہ عدت تو حیض سے شمارہوتی ہے اور ان عورتوں کا حیض بند ہے یا آیا ہی نہیں تو ان کی عدت کا کیا کیا جائے ، تو ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ان کی عدت تین قمر ی مہینے ہے۔ ابن کثیر نے فرمایا کہ یہ سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ ابن جریر نے یہی معنی پسند فرمایا ہے اور معنی کے لحاظ سے زیادہ ظاہر یہی ہے ۔ ابن جریر نے اس پر ابی بن کعب (رض) کی روایت بطور دلیل ذکر فرمائی ہے کہ انہوں نے عرض کیا : ” یا رسول اللہ “ کئی طرح کی عورتوں کی عدت کا ذکر قرآن میں نہیں آیا ، یعنی چھوٹی عمر کی عورتیں ، عمر رسیدہ عورتیں اور حاملہ عورتیں ۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :(والی یسن من المحیض من نسائکم)” اور وہ عورتیں جو تمہاری عورتوں میں سے حیض سے ناامید ہوچکی ہیں “۔ ابن کثیر نے اس کے علاوہ ابن ابی حاتم کی سند کے ساتھ اسی مفہوم کی مفصل روایت ذکر کی ہے ، مگر تفسیر ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے فرمایا کہ ان دونوں کی سند میں عمرو بن سالم ( ابو عثمان انصاری) راوی ہے جسے تقریب میں مقبول کہا گیا ہے ، یعنی اس کی متابعت ہو تو اس کی روایت قبول ہے ورنہ کمزور ہے اور یہاں اس کی متابعت نہیں کی گئی ، لہٰذا اس کی سند ضعیف ہے۔ اس تفسیر کے مطابق ” ان ارتبتم “ کے الفاظ کا کوئی خاص فائدہ نظر نہیں آتا۔- دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر ایسی عورتوں کو حیض سے مایوس ہوچکی ہیں ، بیماری کا خون ( استحاضہ) شروع ہوجائے اور تم فیصلہ نہ کرسکو کہ یہ حیض ہے یا استحاضہ تو ان کی عد ت تین قمری مہینے ہے ۔ یہ مجاہد اور زہری کا قول ہے۔ ( طبری : ٢٣، ٦٩، ح : ٤٦١٧، ٣٤٦١٨، بسند صحیح ) اس سے ظاہر ہے کہ جب شک کی صورت میں ان کی عدت تین ماہ ہے تو اگر انہیں کسی قسم کا خون آتا ہی نہیں اور ان کے حیض سے مایوس ہونے میں کوئی شک ہی نہیں تو ان کی عدت بالاولیٰ تین ماہ ہے۔- تیسرا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ عام قاعدہ یہی ہے کہ جن عورتوں کا حیض بند ہوگیا ہو یا شروع ہی نہ ہوا ہو انہیں حمل نہیں ہوتا ، مگر شاذ و نادر ایسی عورتوں کو بھی حمل ہوجاتا ہے اور یہاں مسئلہ ان عورتوں کا بیان ہو رہا ہے جنہیں دخول کے بعد طلاق دی گئی ہے ، اس میں حمل کا امکان بہر حال رہتا ہے ۔ سو اگر تمہیں آثار سے ان کے حاملہ ہونے کا شک پڑجائے تو ان کی عدت تین ماہ ہے ، اتنی مدت میں ان کا حاملہ ہونا نہ ہونا واضح ہوجائے گا ۔ اگر حاملہ نہ ہوں تو عدت تین ماہ ہی ہے اور اگر حمل ظاہرہو جائے تو ان کی عدت وضع حمل ہے ، جیسا کہ فرمایا :(والاوت الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن) کہ حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔ اس سے ظاہ رہے کہ اگر حیض سے مایوس عمر رسیدہ عورت یا ایسی عورت جسے حیض آیا ہی نہیں اور ان کے متعلق حمل کا کوئی شک بھی نہ ہو تو ان کی عدت بالاولیٰ تین ماہ ہے۔- ٣۔ وَالّٰئِیْ لَمْ یَحِضْنَ : یعنی وہ عورتیں جنہیں حیض آیا ہی نہیں ان کی عدت بھی تین ماہ ہے۔ اس میں چھوٹی عمر کی لڑکیاں بھی شامل ہیں جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو اور بڑی عمر کی عورتیں بھی جنہیں کسی وجہ سے حیض شروع ہی نہیں ہوسکا ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ چھوٹی عمر کی لڑکی سے نکاح ہوسکتا ہے اور اس کا خاوند اس سے جماع بھی کرسکتا ہے۔ کفار کے کہنے پر چھوٹی عمر کی شادی پر پابندی لگانا یا بالغ ہوجانے والی لڑکیوں کی شادی پر اٹھارہ سال کی یا کسی مخصوص عمر کی پابندی لگانا اللہ تعالیٰ کے احکام کی صریح مخالفت ہے۔- ٤۔ وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ :” اولات “ ” ذات “ کی جمع ہے جیسا کہ ” اوتو “” ذو “ کی جمع ہے ۔” اولات الاحمال “ حمل والیاں ۔ آیت کے الفاظ عام ہیں ۔ اس لیے حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہی ہے ، خواہ اس کے خاوند نے اسے طلاق دی ہو یا اس کا خاوند فوت ہوجائے ۔ صحیح احادیث سے بھی یہی بات ثابت ہے کہ حاملہ عورت کا خاوند فوت ہوجائے تو بچہ پیدا ہونے کے ساتھ اس کی عدت ختم ہوجائے گی ، خواہ خاوند فوت ہونے کے فوراً بعد بچہ پیدا ہوجائے یا کئی ماہ کے بعد پیدا ہو ۔ ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ سبیعہ اسلمیہ کے ہاں ان کے خاوند کے قتل ہونے کے چالیس دن بعد بچہ پیدا ہوگیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں نکاح کرنے کی اجازت دے دی۔ ( بخاری ، التفسیر ، باب :( و اولات الاحمال ۔۔۔ ): ٤٩٠٩) رہی وہ عورتیں جو حاملہ نہ ہوں اور ان کے خاوند فوت ہوجائیں تو ان کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ دیکھئے سورة ٔ بقرہ (٢٣٤) ۔- ٥۔ وَمَنْ یَّتَّقِ اللہ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا : اس سورت میں بار بار اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کی تاکید کی گئی ہے ، وجہ یہ ہے کہ میاں بیوی کے مسائل بھی کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ جب تک آدمی ہر وقت اللہ سے ڈرتا نہ رہے وہ اپنی بیوی کے معاملہ میں بےراہ رو ہوجاتا ہے ، اس لیے کتاب و سنت میں اپنی بیویوں سے حسن سلوک کی بار بار تاکید آئی ہے۔ ( کیلانی) اس مقام کی مناسبت سے اس کے کام میں آسانی پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو اللہ سے ڈرے گا اول تو طلاق کے وقت کے انتظار کی وجہ سے طلاق کی نوبت ہی نہیں آئے گی اور اگر اللہ کے مقرر کردہ طریقے کے مطابق طلاق دے گا تو عدت کے اندر اسے رجوع کا حق حاصل رہے گا اور اگر عدت ختم ہوجائے تو دوبارہ نکاح کا موقع باقی رہے گا ۔
وَاڿ يَىِٕسْنَ مِنَ الْمَحِيْضِ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلٰثَةُ اَشْهُرٍ ۙ وَّاڿ لَمْ يَحِضْنَ ۭ وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ، اس آیت میں مطلقہ عورتوں کی عدت کی مزید تفصیل ہے جس میں تین قسم کی عورتوں کی عدت کا عام قاعدہ عدت سے جداگانہ حکم مذکور ہے۔- عدت طلاق کے متعلق نواں حکم : عدت طلاق عام حالات میں تین حیض پورے ہیں جس کا بیان سورة بقرہ میں ہوچکا ہے لیکن و عورتیں جن کو عمر کی زیادتی یا کسی بیماری وغیرہ کے سبب حیض آنا بند ہوچکا ہو اسی طرح وہ عوتریں جن کو کم عمری کے سبب ابھی تک حیض آنا شروع نہ ہوا ہو ان کی عدت آیت مذکورہ میں تین حیض کے بجائے تین مہینے مقرر فرماوی اور حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل قرار دی ہے خواہ وہ کتنے ہی دنوں میں ہو۔ - اِنِ ارْتَبْتُمْ یعنی اگر تمہیں شک ہو، مراد شک سے یہ ہے کہ اصل عدت حیض سے شمار ہوتی ہے اور ان عورتوں کا حیض تو بند ہے تو پھر عدت کی شمار کیسے ہوگی یہ تردد مراد ہے۔- آگے پھر تقویٰ کی فضیلت و برکت کا بیان ہے ومن یتق اللہ یجعل لہ میں امرہ یسرا یعنی جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے کام میں آسانی کردیتا ہے یعنی دنیا و آخرت کے کام اس کے لئے آسان ہوجاتے ہیں
وَاڿ يَىِٕسْنَ مِنَ الْمَحِيْضِ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشْہُرٍ ٠ ۙ وَّاڿ لَمْ يَحِضْنَ ٠ ۭ وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ ٠ ۭ وَمَنْ يَّتَّقِ اللہَ يَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ يُسْرًا ٤- يأس - اليَأْسُ : انتفاءُ الطّمعِ ، يقال : يَئِسَ واسْتَيْأَسَ مثل : عجب واستعجب، وسخر واستسخر . قال تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف 80] ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف 110] ،- ( ی ء س ) یأس - ( مصدرس ) کے معنی ناامید ہونیکے ہیں اور یئس ( مجرد) واستیئاس ( استفعال ) دونوں ہم معنی ہیں جیسے ۔ عجب فاستعجب وسخرو استسخر۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے ۔ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف 110] یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے ۔- حيض - الحیض : الدّم الخارج من الرّحم علی وصف مخصوص في وقت مخصوص، والمَحِيض : الحیض ووقت الحیض وموضعه، علی أنّ المصدر في هذا النّحو من الفعل يجيء علی مفعل، نحو : معاش ومعاد، وقول الشاعر : لا يستطیع بها القراد مقیلاأي مکانا للقیلولة، وإن کان قد قيل : هو مصدر، ويقال : ما في برّك مكيل ومکال - ( ح ی ض ) الحیض ۔ وہ خون جو مخصوص دنوں میں صفت خاص کے ساتھ عورت کے رحم سے جاری ہوتا ہے اسے حیض کہا جاتا ہے اور محیض کے معنی حیض اور مقام حیض کے ہیں کیونکہ فعل سے اس قسم کے مصادر مفعل کے وزن پر آتے ہیں جیسے معاش ومعاذا ور شاعر کے قول ع ( الکامل ) ( کہ چیچڑی اس میں قیلولہ کی جگہ بھی نہیں پاتی ہے میں مقیلا ظرف ہے یعنی قیلولہ کرنے کی جگہ گو بعض نے کہا ہے کہ یہ مصدر ہے اور کہا جاتا ہے کہ تیرے غلہ میں ماپ نہیں ہے ۔ نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- ارْتِيابُ- والارْتِيابُ يجري مجری الْإِرَابَةِ ، قال : أَمِ ارْتابُوا أَمْ يَخافُونَ [ النور 50] ، وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ [ الحدید 14] ، ونفی من المؤمنین الِارْتِيَابَ فقال : وَلا يَرْتابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ وَالْمُؤْمِنُونَ [ المدثر 31] ، وقال : ثُمَّ لَمْ يَرْتابُوا[ الحجرات 15] ، وقیل : «دع ما يُرِيبُكَ إلى ما لا يُرِيبُكَ» ورَيْبُ الدّهر صروفه، وإنما قيل رَيْبٌ لما يتوهّم فيه من المکر، والرِّيبَةُ اسم من الرّيب قال : بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة 110] ، أي : تدلّ علی دغل وقلّة يقين .- اور ارتیاب ( افتعال ) ارابہ کے ہم معنی ہے جس کے معنی شک و شبہ میں پڑنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛َ أَمِ ارْتابُوا أَمْ يَخافُونَ [ النور 50] یا شک میں پڑے ہوئے ہیں ۔ اور اس بات سے ڈرتے ہیں ۔ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ [ الحدید 14] اور اس بات کے منتظر رہے ( کہ مسلمانوں پر کوئی آفت نازل ہو ) اور ( اسلام کی طرف سے ) شک میں پڑے رہے ۔ اور مؤمنین سے ارتیاب کی نفی کرتے ہوئے فرمایا ولا يَرْتابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ وَالْمُؤْمِنُونَ [ المدثر 31] اور اہل کتاب اور مسلمان ( ان باتوں میں کسی طرح کا ) شک و شبہ نہ لائیں ۔ ثُمَّ لَمْ يَرْتابُوا[ الحجرات 15] پھر کسی طرح کا شک وشبہ نہیں کیا ۔ ایک حدیث میں ہے :(161) دع ما یریبک الی ما لا یریبک ۔ کہ شک و شبہ چھوڑ کر وہ کام کرو جس میں شک و شبہ نہ ہو ۔ اور گردش زمانہ کو ریب الدحر اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان میں فریب کاری کا وہم ہوتا ہے ( کما مر ) اور ریبۃ ، ریب سے اسم ہے جس کے معنی شک وشبہ کے ہیں ( جمع ریب ) قرآن میں ہے :۔ بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة 110] کہ وہ عمارت ان کے دلوں میں ریبۃ بنی رہے گی ۔ یعنی ہمیشہ ان کے دلی کھوٹ اور خلجان پر دلالت کرتی رہے گی ۔- عدۃ - وعد بروزن فعلۃ بمعنی معدود ہے جیسے کہ طحن بمعنی مطحون۔ اور اسی بناء پر انسانوں کی گنی ہوئی جماعت کو عدۃ کہتے ہیں اور عورت کی عدت بھی اسی معنی میں ہے یعنی اس کے گنے ہوئے دن ۔ عورت کی عدت سے مراد وہ ایام کہ جن کے گزر جانے پر اس سے نکاح کرنا حلال ہوجاتا ہے۔- ثلث - الثَّلَاثَة والثَّلَاثُون، والثَّلَاث والثَّلَاثُمِائَة، وثَلَاثَة آلاف، والثُّلُثُ والثُّلُثَان .- قال عزّ وجلّ : فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ [ النساء 11] ، أي : أحد أجزائه الثلاثة، والجمع أَثْلَاث، قال تعالی: وَواعَدْنا مُوسی ثَلاثِينَ لَيْلَةً [ الأعراف 142] ، وقال عزّ وجل : ما يَكُونُ مِنْ نَجْوى ثَلاثَةٍ إِلَّا هُوَ رابِعُهُمْ [ المجادلة 7] ، وقال تعالی: ثَلاثُ عَوْراتٍ لَكُمْ [ النور 58] ، أي : ثلاثة أوقات العورة، وقال عزّ وجلّ : وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلاثَ مِائَةٍ سِنِينَ [ الكهف 25] ، وقال تعالی: بِثَلاثَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُنْزَلِينَ [ آل عمران 124]- ث ل ث ) الثلاثۃ ۔ تین ) مؤنث ) ثلاثون تیس ( مذکر ومؤنث) الثلثمائۃ تین سو ( مذکر ومؤنث ) ثلاثۃ الاف تین ہزار ) مذکر و مؤنث ) الثلث تہائی ) تثغیہ ثلثان اور جمع اثلاث قرآن میں ہے ؛۔ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ [ النساء 11] توا یک تہائی مال کا حصہ وواعدْنا مُوسی ثَلاثِينَ لَيْلَةً [ الأعراف 142] اور ہم نے موسیٰ سے تیس رات کو میعاد مقرر کی ۔ ما يَكُونُ مِنْ نَجْوى ثَلاثَةٍ إِلَّا هُوَ رابِعُهُمْ [ المجادلة 7] کسی جگہ ) تین ( شخصوں ) کا مجمع ) سر گوشی نہیں کرتا مگر وہ ان میں چوتھا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثَلاثُ عَوْراتٍ لَكُمْ [ النور 58]( یہ ) تین ( وقت ) تمہارے پردے ( کے ) ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ یہ تین اوقات ستر کے ہیں ۔ وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلاثَ مِائَةٍ سِنِينَ [ الكهف 25] اور اصحاب کہف اپنے غار میں ( نواوپر ) تین سو سال رہے ۔ بِثَلاثَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُنْزَلِينَ [ آل عمران 124] تین ہزار فرشتے نازل کرکے تمہیں مدد دے ۔ إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنى مِنْ ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ [ المزمل 20] تمہارا پروردگار - شهر - الشَّهْرُ : مدّة مَشْهُورَةٌ بإهلال الهلال، أو باعتبار جزء من اثني عشر جزءا من دوران الشمس من نقطة إلى تلک النّقطة . قال تعالی: شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185] ، فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ [ البقرة 185] ، الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُوماتٌ [ البقرة 197] ، إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً [ التوبة 36] ، فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ [ التوبة 2] ، والْمُشَاهَرَةُ : المعاملة بالشّهور کالمسانهة والمیاومة، وأَشْهَرْتُ بالمکان : أقمت به شهرا، وشُهِرَ فلان واشْتُهِرَ يقال في الخیر والشّرّ.- ( ش ھ ر ) الشھر ( مہینہ ) وہ مدت معینہ جو چاند کے ظہور سے شروع ہوتی ہے ۔ یا دوران شمس کے بارہ - حصوں میں سے ایک حصہ کا نام ہے جو ایک نقطہ سے شروع ہو کر دوسرے نقطہ پر ختم ہوجاتا ہے قرآن میں ہے :۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185]( روزوں کا مہینہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں ۔۔۔ الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُوماتٌ [ البقرة 197] حج کے مہینے معین ہیں جو معلوم ہیں ۔ إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً [ التوبة 36] خدا کے نزدیک مہینے گنتی میں بارہ ہیں فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ [ التوبة 2] تو مشرکوا زمین میں چار مہینے چل پھر لو ۔ المشاھرۃ کے معنی ہیں مہینوں کے حساب سے معاملہ کرنا ۔ جیسے مسانھۃ ( سال وار معاملہ کرنا ) اور میاومۃ ( دنوں کے حساب سے معاملہ کرنا ) اشھرت بالمکان کسی جگہ مہینہ بھر قیا م کرنا شھر فلان واشتھر کے معنی مشہور ہونے کے ہیں خواہ وہ شہرت نیک ہو یا بد ۔- «لَمْ»- وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی 6] .- ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔- حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی:- وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔- أجل - الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص 28] .- ( ا ج ل ) الاجل - ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔- وضع - الوَضْعُ أعمّ من الحطّ ، ومنه : المَوْضِعُ. قال تعالی: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ- [ النساء 46] ويقال ذلک في الحمل والحمل، ويقال : وَضَعَتِ الحملَ فهو مَوْضُوعٌ. قال تعالی: وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] ، وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] فهذا الوَضْعُ عبارة عن الإيجاد والخلق، ووَضَعَتِ المرأةُ الحمل وَضْعاً. قال تعالی: فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] فأما الوُضْعُ والتُّضْعُ فأن تحمل في آخر طهرها في مقبل الحیض . ووَضْعُ البیتِ : بناؤُهُ. قال اللہ تعالی:- إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] ، وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] هو إبراز أعمال العباد نحو قوله : وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] ووَضَعَتِ الدابَّةُ تَضَعُ في سيرها وَضْعاً : أسرعت، ودابّة حسنةُ المَوْضُوعِ ، وأَوْضَعْتُهَا : حملتها علی الإسراع . قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] والوَضْعُ في السیر استعارة کقولهم : ألقی باعه وثقله، ونحو ذلك، والوَضِيعَةُ : الحطیطةُ من رأس المال، وقد وُضِعَ الرّجلُ في تجارته يُوضَعُ : إذا خسر، ورجل وَضِيعٌ بيّن الضعَةِ في مقابلة رفیع بيّن الرّفعة .- ( و ض ع ) الواضع - ( نیچے رکھ دینا ) یہ حطه سے عام ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية 14] اور آبخورے ( قرینے سے ) رکھے ہوئے ۔ اور اسی سے موضع ہے جس کی جمع مواضع آتی - ہے جس کے معنی ہیں جگہیں یا موقعے جیسے فرمایا : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب ) کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ۔ اور وضع کا لفظ وضع حمل اور بوجھ اتارنے کے معنی میں آتا ہے چناچہ محاورہ ہے وضعت لمرءۃ الحمل وضعا عورت نے بچہ جنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران 36] جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار میرے تو لڑکی ہوئی ہے ۔ لیکن الوضع والتضع کے معنی عورت کے آخر طہر میں حاملہ ہونے کے ہیں ۔ وضعت الحمل میں نے بوجھ اتار دیا اور اتارے ہوئے بوجھ کو موضوع کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن 10] اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی ۔ میں وضع سے مراد خلق وایجا د ( یعنی پیدا کرنا ) ہے اور وضع البیت کے معنی مکان بنانے کے آتے ہیں چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران 96] پہلا گھر جو لوگوں کے عبادت کرنے کیلئے بنایا کیا گیا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف 49] اور عملوں کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی ۔ میں وضع کتاب سے قیامت کے دن اعمال کے دفتر کھولنا اور ان کی جزا دینا مراد ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء 13] اور قیامت کے دن وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا ۔ وضعت ( ف ) الدابۃ فی سیر ھا : سواری تیز رفتاری سے چلی اور تیز رفتار سواری کو حسنتہ المواضع ( وحسن المواضع کہا جاتا ہے ۔ اوضع تھا میں نے اسے دوڑایا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] اور تم میں ( فساد دلوانے کی غرض ) سے دوڑے دوڑے پھرتے ۔ اور وضع کا لفظ سیر یعنی چلنے کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ القی باعہ وثقلہ : میں قیام کرنے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ الوضیعۃ :( رعایت ) کمی جو اصل قمیت میں کی جائے اس نے تجارت میں نقصان اٹھایا رجل وضیع : نہایت خسیس آدمی ( باب کرم ) یہ رفیع کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بلند قدر کے ہیں ۔ - تَّقْوَى- والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - يسر - اليُسْرُ : ضدّ العسر . قال تعالی: يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق 7] ، وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف 88] ، فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات 3] وتَيَسَّرَ كذا واسْتَيْسَرَ أي تسهّل، قال : فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ [ البقرة 196] ، فَاقْرَؤُا ما تَيَسَّرَ مِنْهُ- [ المزمل 20] أي : تسهّل وتهيّأ، ومنه : أَيْسَرَتِ المرأةُ ، وتَيَسَّرَتْ في كذا . أي : سهَّلته وهيّأته، قال تعالی: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ [ القمر 17] ، فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ- [ مریم 97] واليُسْرَى: السّهل، وقوله : فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرى[ اللیل 7] ، فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرى [ اللیل 10] فهذا۔ وإن کان قد أعاره لفظ التَّيْسِيرِ- فهو علی حسب ما قال عزّ وجلّ : فَبَشِّرْهُمْ بِعَذابٍ أَلِيمٍ [ آل عمران 21] . واليَسِيرُ والمَيْسُورُ : السّهلُ ، قال تعالی: فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء 28] واليَسِيرُ يقال في الشیء القلیل، فعلی الأوّل يحمل قوله : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب 30] ، وقوله : إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج 70] . وعلی الثاني يحمل قوله : وَما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً- [ الأحزاب 14] والمَيْسَرَةُ واليَسَارُ عبارةٌ عن الغنی. قال تعالی: فَنَظِرَةٌ إِلى مَيْسَرَةٍ- [ البقرة 280] واليَسَارُ أختُ الیمین، وقیل : اليِسَارُ بالکسر، واليَسَرَاتُ : القوائمُ الخِفافُ ، ومن اليُسْرِ المَيْسِرُ.- ( ی س ر ) الیسر کے معنی آسانی ار سہولت کے ہیں یہ عسر کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے ۔ اور سختی نہیں چاہتا ۔ سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق 7] خدا عنقریب تنگی کے بعد کشائش بخشے گا ۔ وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف 88] بلکہ اس سے نرم بات کہیں گے ۔ فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات 3] پھر نر می سے چلتی ہیں ۔ تیسر کذا واستیسرکے معنی آسان ہو نیکے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ [ البقرة 196] اگر رستے میں روک لئے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو کردو ۔ فَاقْرَؤُا ما تَيَسَّرَ مِنْهُ [ المزمل 20] تو جتنا آسانی سے ہو سکے پڑھ لیا کرو ۔ اسی سے الیسرت المرءۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی عورت کے سہولت سے بچہ جننے کے ہیں ۔ یسرت کذا کے معنی کسی کام آسان اور سہل کردینے کے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ [ القمر 17] اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ۔ فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ مریم 97] اے پیغمبر یہ قران تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ہے ۔ الیسری اسم بمعنی یسر قرآن پاک میں ہے : فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرى[ اللیل 7] اس کو ہم آسان طریقے کی توفیقی دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرى [ اللیل 10] اسے سختی میں پہنچا ئنگے ۔ میں عسریٰ کے ساتھ تیسیر کا لفظ بطور تحکم لایا گیا ہے جس طرح کہ آیت : ۔ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذابٍ أَلِيمٍ [ آل عمران 21] میں عذاب کے متعلق بشارت کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ الیسیر والمیسور سہل اور آسان قرآن پاک میں ہے : ۔ فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً
آیسہ اور صغیرہ کی عدت کا بیان - قول باری ہے (واللائی یئسن من المحیض من نساء کم ان ارتبتم فعدتھن ثلثۃ اشھرو ا للائی لم یحضن اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں ان کے معاملہ میں اگر تم لوگوں کو کوئی شک لاحق ہے تو (تمہیں معلوم ہو کہ) ان کی عدت تین مہینے ہے اور یہی حکم ان کا ہے جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو)- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت اس امر کی مقتضی ہے کہ اس میں جن عورتوں کا ذکر ہے ان کے لئے شک کے بغیر ایاس ثابت کردیا جائے اور قول باری (ان ارتبتم) سے ایاس کے متعلق شک مراد لینا درست نہیں ہے کیونکہ جن عورتوں کا ایاس ثابت ہوگیا ہے ان کا حکم آیت کی ابتداء میں اللہ نے ثابت کردیا ہے۔ اس سے یہ واجب ہوگیا کہ شک کا تعلق ایاس کے سوا کسی اور بات کے ساتھ تسلیم کیا جائے۔ آیت میں مذکور شک کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف رائے ہے۔- مطرف نے عمرو بن سالم سے روایت کی ہے کہ حضرت ابی بن کعب نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ کتاب اللہ میں نابالغ لڑکیوں ، بوڑھی عورتوں نیز حاملہ عورتوں کی عدت کا ذکر نہیں ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (واللائی یئسن من المحیض من نسآء کم ان ارتبتم فعدتھن ثلاثۃ اشھر واللائی لم یئسن و اولا ت الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن) ۔- اس حدیث میں یہ ذکر ہوا کہ اس آیت کے نزول کا سبب یہ تھا کہ لوگوں کو نابالغ لڑکیوں، بوڑھی عورتوں نیز حاملہ عورتوں کی عدت کے متعلق شک تھا۔ آیت میں شک کا ذکر دراصل اس سبب کے ذکر دراصل اس سبب کے ذکر کے درجے پر ہوا ہے جس کی بنا پر حکم کا نزول ہوا۔ اس لئے اس کا مفہوم یہ ہوگا ” اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں ان کے معاملہ میں اگر کوئی شک لاحق ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ان کی عدت تین مہینے ہے۔ “- جس عورت کا حیض بند ہوجائے اس کے حکم کے متعلق سلف اور ان کے بعد آنے والے فقہاء امصار کی آرا میں اختلاف ہے۔ ابن المسیب نے حضرت عمر (رض) سے روایت کی ہے، انہوں نے فرمایا ” جس عورت کو طلاق ہوجائے پھر اسے ایک یا دو حیض آجائیں اور پھر حیض بند ہوجائے تو نو ماہ تک حیض آنے کا انتظار کیا جائے گا۔ اگر اس دوران حمل ظاہر ہوجائے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ نو ماہ کے بعد تین ماہ اور گزارے گی اور پھر عدت سے فارغ ہوگی۔ “- حضرت ابن عباس (رض) سے اس عورت کے متعلق جس کا حیض ایک سال تک بند رہے منقول ہے کہ ” اسی کو شک کہتے ہیں۔ “ معمر نے قتادہ سے، اور انہوں نے عکرمہ سے اس عورت کے متعلق نقل کیا ہے جسے سال میں ایک مرتبہ حیض آتا ہو کہ ” اسی کو شک کہتے ہیں اس کی عدت تین ماہ ہوگی۔ “- سفیان نے عمرو سے اور انہوں نے طائوس سے اسی قسم کی روایت کی ہے۔ حضرت عثمان (رض) ، حضرت علی (رض) اور حضرت زید بن ثابت سے مروی ہے کہ ایسی عورت تین حیض گزارے گی۔- امام مالک نے یحییٰ بن سعید سے اور انہوں نے محمد بن یحییٰ بن حبان سے روایت کی ہے کہ ان کے دادا احبان کے عقد میں دو عورتیں تھیں، ایک ہاشمیہ تھی اور دوسری انصاریہ۔ انہوں نے انصاریہ کو اس وقت طلاق دی جب وہ بچے کو دودھ پلارہی تھی۔ ایک سال گزرنے کے بعد حبان کی وفات ہوگئی اور مطلقہ کو حیض نہیں آیا۔- وہ کہنے لگی کہ میں ان کی وارث بنوں گی مجھے حیض نہیں آیا ہے۔ جھگڑا امیر المومنین حضرت عثمان (رض) کے سامنے پیش ہوا۔ آپ نے اس کے حق میں فیصلہ دیا ۔ اس فیصلے پر ہاشمیہ نے حضرت عثمان (رض) سے اپنے غصے کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا ” یہ تمہارے چچا زاد بھائی (حضرت علی) کا فیصلہ ہے۔ انہوں نے ہی ہمیں یہ مشورہ دیا تھا۔- ابن وہب نے روایت کی ہے کہ یونس نے ابن شہاب زہری سے یہ واقعہ نقل کیا ہے۔ اس روایت میں ابن شہاب نے کہا تھا کہ انصاریہ کو نو ماہ تک حیض نہیں آیا، پھر انہوں نے حبان کی وفات اور وراثت کے جھگڑے کا ذکر کرنے کے بعد کہا کہ حضرت عثمان (رض) نے اس جھگڑے کے بارے میں حضرت علی (رض) اور حضرت زید (رض) سے مشورہ کیا۔ دونوں نے یہی مشورہ دیا کہ مطلقہ وارث ہوگی۔ کیونکہ وہ نہ تو ان عورتوں میں سے ہے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہیں اور نہ ان کنواری لڑکیوں میں سے جنہیں ابھی تک حیض نہیں آیا۔- اسے تو حبان کے پاس تین حیض گزارنے تک رہنا ہوتا خواہ اس کی مدت کم ہوتی یا زیادہ ۔ ان دونوں حضرات کے اس قول سے یہ دلالت حاصل ہوتی ہے کہ قول باری ( ) ، عورت کے بارے میں شک پر محمول نہیں ہے بلکہ عورتوں کی عدت کے حکم کے متعلق شک کرنے والوں کے شک پر محمول ہے۔ نیز یہ کہ ایک عورت اس وقت تک آیسہ نہیں ہوتی جب تک وہ ان عورتوں میں سے نہ ہو جو جوانی سے گزری بیٹھی ہوں اور ان کے حیض آنے کی امید ختم ہوچکی ہو۔- حضرت ابن مسعود (رض) سے بھی اسی قسم کی روایت منقول ہے۔ اس بارے میں فقہاء امصار کے مابین بھی اختلاف رائے ہے۔ جس عورت کا حیض بند ہوجائے اور اس کی وجہ یہ نہ ہو کہ نئے سرے سے حیض آنے کے متعلق مایوسی ہو۔- اس کے متعلق ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اس کی عدت کا حساب حیض کے ذریعے ہوگا۔ یہاں تک کہ وہ اس عمر کو پہنچ جائے جس میں اس کے خاندان کی عورتوں کو حیض نہیں آتا۔ اس صورت میں وہ حیض سے مایوس عورت جیسی عدت گزارے گی یعنی نئے سرے سے عدت کے تین ماہ اور گزارے گی۔- سفیان ثوری، لیث بن سعد اور امام شافعی کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ ایسی عورت پہلے نو ماہ تک انتظار کرے گی اگر اس دوران اسے حیض نہ آئے تو پھر تین ماہ کی عدت گزارے گی۔ اگر تین ماہ مکمل کرلینے سے پہلے حیض آجائے تو عدت کا حساب حیض کے ذریعے کرے گی۔- البتہ اگر اس پر نو ماہ گزر جائیں اور اسے حیض نہ آئے تو اس صورت میں وہ اگلے تین ماہ کی عدت گزارے گی جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے۔ ابن القاسم نے امام مالک کی طرف سے بیان کیا ہے کہ مطلقہ عورت کو اگر حیض آجائے اور پھر اسے شک ہوجائے یعنی اس کا حیض بند ہوجائے تو ایسی صورت میں حیض بند ہونے کے دن سے ، نہ کہ طلاق واقع ہونے کے دن سے، نو ماہ کی عدت گزارے گی۔- امام مالک نے قول باری (ان ارتبتم) کے معنی یہ یہاں کیے ہیں کہ ” اگر تمہیں یہ معلوم نہ ہو کہ اس عورت کے معاملہ میں تمہیں کیا کرنا چاہیے۔ “ اوزاعی کا قول ہے کہ کوئی شخص اگر اپنی جوان بیوی کو طلاق دے دے پھر اس کا حیض بند ہوجائے اور تین ماہ تک اسے کوئی حیض نہ آئے تو وہ ایک سال کی عدت گزارے گی۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے آیسہ کی عدت تین ماہ مقرر کی ہے۔ ظاہر لفظ اس امر کا مقتضی ہے کہ یہ عدت ان عورتوں کے لئے ہو جنہیں حیض سے مایوسی ہوچکی ہو اور اس میں شک وشبہ نہ ہو۔- جس طرح قول باری (واللانی لم یحضن) اس لڑکی کے لئے ہے جس کے متعلق یہ ثابت ہو کہ اسے حیض نہیں آیا اور جس طرح قول باری (واولات الاحمال اجلھن) اس عورت کے لئے ہے جس کا حمل ثابت ہوچکا ہو ، اسی طرح قول باری (واللائی یئسن) اس عورت کے لئے ہے جس کا ایاس ثابت اور متعین ہوچکا ہو، اس عورت کے لئے نہیں جس کے ایاس کے بارے میں شک و شبہ ہو۔- قول بایر (ان ارتبتم) کو تین باتوں میں سے ایک پر محمول کیا جاسکتا ہے یا تو اس سے مراد یہ ہے کہ شک اس بارے میں ہو کہ آیا وہ آیسہ ہے یا آیسہ نہیں ہے یا اس سے مراد یہ ہے کہ اس کے حاملہ ہونے یا نہ ہونے میں شک ہو۔ یا آیسہ اور صغیرہ (نا بالغ لڑکی) کی عدت کے بارے میں مخاطبین کا شک مراد ہے۔ آیت کو پہلی صورت پر محمول کرنا اس بنا پر درست نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس عورت کی عدت مہینوں کے حساب سے مقرر کردی اسے آیسہ ثابت کردیا ہے۔- اب ایسی عورت جس کے ایاس کے متعلق شک ہو وہ آیسہ نہیں ہوسکتی کیونکہ رجاء یعنی امید کے ساتھ ایاس کا اجتماع محال ہے اس لئے کہ یہ دونوں اضداد میں سے ہیں۔ یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ حیض سے مایوس عورت کے بارے میں حیض آنے کی امیدرکھی جائے۔ اس لئے آیت سے ایاس کے بارے میں شک کے معنی لینا غلط ہے۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھیے۔- سب کا اس امر پر اتفاق ہے کہ بڑی عمر کی وہ عورت آیت میں مراد ہے جس کی حیض سے مایوسی یقینی امر ہوتی ہے۔ آیت میں مذکور شک تمام مخاطبین کی طرف راجع ہے، اور مذکورہ بالا عورت کے سلسلے میں شک سے مراد اس کی عدت کے بارے میں مخاطبین کا شک ہے اس لئے جس عورت کے ایاس کے متعلق شک ہو اس کے سلسلے میں بھی عدت کے بارے میں شک مراد لینا واجب ہے کیونکہ لفظ کا عموم سب کے بارے میں ہے۔- نیز اگر عورت جوان ہو اور اسے سال میں ایک مرتبہ حیض آنے کی عادت ہو تو ایسی عورت کو اپنے ایاس کے بارے میں کوئی شک نہیں ہوتابل کہ اس کا حیض والی عورت ہونا یقینی امر ہوتا ہے۔- اس صورت میں یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ اس کی عدت کی مدت ایک سال ہو جبکہ یہ معلوم ہو کہ وہ آیسہ نہیں ہے بلکہ حیض والی عورت ہے۔ دو حیضوں کے درمیان مدت کی طوالت اسے حیض والی عورتوں کے دائرے سے خارج نہیں کرتی۔- اس لئے جو شخص ایسی عورت پر مہینوں کے حساب سے عدت واجب کرتا ہے وہ دراصل کتاب اللہ کی مخالفت کا مرتکب ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حیض والی عورتوں کی عدت حیض کے حساب سے مقرر کی ہے چناچہ ارشاد ہے (والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروم اور طلاق یافتہ عورتیں تین قروء یعنی حیض تک اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں گی) آیت میں یہ فرق نہیں رکھا گیا ہے کہ کسی عورت کی حیض کی مدت طویل ہوتی ہے اور کسی کی قصیر۔- یہاں یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ شک سے مراد حمل سے مایوسی کے بارے میں شک ہے اس لئے کہ حیض سے مایوسی دراصل حمل سے مایوسی کی صورت ہوتی ہے۔ ہم نے دلائل سے ان لوگوں کے قول کا بطلان بھی ثابت کردیا ہے جن کے نزدیک آیت میں مذکور شک حیض کی طرف راجع ہے۔- اس لئے اب تیسری صورت ہی باقی رہ گئی یعنی قول باری (ان ارتبتم) سے آیسہ اور صغیرہ کی عدت کے بارے میں مخاطبین کا شک مراد ہے۔ جیسا کہ حضرت ابی بن کعب سے مروی ہے کہ انہیں آیسہ اور صغیرہ کی عدت کے بارے میں شک ہوا تھا اور پھر انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بارے میں استفسار کیا تھا۔- نیز اگر ایاس کے بارے میں شک مراد ہوتا تو اس میں آیت کا خطاب مردوں کو ہونے کی بجائے عورتوں کی طرف ہونا اولیٰ ہوتا کیونکہ حیض کے بارے میں معلومات کا حصول عورت کی جہت سے ہوتا ہے۔ اسی بنا پر حیض کے بارے میں عورت کے بیان کی تصدیق کی جاتی ہے۔- اس صورت میں آیت میں (ان ارتبتم ) کی بجائے ” ان ارتبتن یا ان ارتبن “ (اگر تم عورتوں کو شک ہو یا ان عورتوں کو شک ہو) کے الفاظ ہوتے۔ لیکن جب شک کے بارے میں خطاب کا خ عورتوں کی بجائے مردوں کی طرف ہے تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اس سے عدت کے بارے میں مخاطبین کا شک مراد ہے۔- قول باری (واللائی لم یحضن) سے مرادیہ ہے کہ جن عورتوں کو ابھی تک حیض نہیں آیا ان کی عدت کی مدت تین ماہ ہے۔ کیونکہ یہ فقرہ ایسا کلام ہے جسے مستقل بالذات قرار نہیں دیا جاسکتا اس لئے اس کے ساتھ پوشیدہ لفظ کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اور یہ پوشیدہ لفظ وہ ہے جس کا ذکر ظاہر لفظ میں گزر چکا ہے یعنی (فعدتھن ثلثۃ اشھر) دوسرے الفاظ میں ان عورتوں کی عدت کا حساب مہینوں کے ذریعے ہوگا۔- حاملہ عورت کی عدت کا بیان - قول باری ہے (واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن، اور حاملہ عورتوں کی عدت کی حد یہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہوجائے)- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ سلف کے مابین اور ان کے بعد آنے والے اہل علم کے مابین اس مسئلے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ طلاق یافتہ حاملہ عورت کی عدت کی حد یہ ہے کہ اس کا وضع حمل ہوجائے۔ البتہ ایسی حاملہ عورت جس کا شوہر وفات پا گیا ہو اس کی عدت کی مدت کے بارے میں سلف کے مابین اختلاف رائے ہے۔- حضرت علی (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ دونوں مدتوں میں سے جو زیادہ طویل ہوگی وہ اس کی عدت کی مدت ہوگی۔ ایک مدت تو وضع حمل ہے اور دوسری مدت چار مہینے دس دن ہے۔ حضرت عمر (رض) ، حضرت ابو مسعود (رض) البدری اور حضرت ابوہریرہ (رض) کا قول ہے کہ اس کی مدت کی حد وضع حمل ہے۔ جب وضع حمل ہوجائے گا تو اس کے لئے کسی سے نکاح کرلینا جائز ہوگا۔ فقہاء امصار کا بھی یہی وقل ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ابراہیم نے علقمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کی ہے۔ انہوں نے فرمایا ” جو شخص چاہے میں اس کے ساتھ اس امر پر مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں کہ قول باری (واولات الاحمال اجلھن ان یعضعن حملھن) کا نزول اس آیت کے بعد ہوا ہے جس میں بیوہ ہوجانے والی عورت کی عدت کی مدت بیان ہوئی ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود (رض) کا یہ قول دو معنوں کو متضمن ہے۔ ایک تو درج بالا آیت کے نزول کی تاریخ کا اثبات نیز یہ کہ اس کا نزول بیوہ ہوجانے والی عورت کے لئے عدت کے مہینوں کے ذکر کے بعد ہوا ہے۔ دوسرے یہ کہ درج بالا آیت اپنی ذات کے لحاظ سے اس حکم کو بیان کرنے میں خود کفیل ہے جو اس کے عموم کے اندر پایا جاتا ہے ، اور اسے ماقبل کی آیت کے ساتھ جس میں مطلقہ عورت کا ذکر ہے جوڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔- اس بنا پر تمام طلاق یافتہ اور بیوہ ہوجانے والی عورتوں میں جبکہ وہ حاملہ ہوں عدت کے لئے وضع حمل کا اعتبار واجب ہوگا اور وضع حمل کے حکم کو صرف طلاق یافتہ عورتوں تک محدود نہیں رکھا جائے گا کیونکہ اس میں دلالت کے بغیر عموم کی تخصیص لازم آئے گی۔- آیت زیر بحث میں بیوہ ہوجانے والی عورت جبکہ حاملہ ہو داخل اور مراد ہے اس پر یہ امر دلالت کرتا ہے کہ اگر اس کی بیوگی کی عدت کے مہینے گزر جائیں لیکن وضع حمل نہ ہوا ہو تو سب کے نزدیک اس کی عدت نہیں گزرے گی بلکہ وضع حمل تک یہ عدت میں رہے گی۔- اگر مہینوں کے اعتبار کا اس بنا پر جواز ہوتا کہ اس کا دوسری آیت میں ذکر ہے تو پھر طلاق یافتہ عورت کے سلسلے میں حمل کے ساتھ حیض کا بھی اعتبار کرنا جائز ہوتا کیونکہ قول باری (والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلاثۃ قروا) میں اس کا ذکر ہے۔- اب جبکہ حمل کے ساتھ حیض کا اعتبار نہیں ہوتا تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ حمل کے ساتھ مہینوں کا اعتبار بھی نہیں ہوگا۔ منصور نے ابراہیم سے، انہوں نے اسود سے، انہوں نے ابوالسائل بن بعکک سے روایت کی ہے کہ سبیعہ (رض) بنت الحارث نے اپنے شوہر کی وفات کے تیئس دن بعد بچے کو جنم دیا اور نکاح کی خواہش کا اظہار کیا۔- اس بات کا ذکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ہوا تو آپ نے فرمایا (ان تعفل قد خلا اجلھا ، اگر وہ ایسا کرنا چاہے تو کرسکتی ہے کیونکہ اس کی عدت کی مدت گزر گئی ہے) یحییٰ بن ابی کثیر نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت کی ہے کہ اس واقعہ کے بارے میں حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) کے درمیان اختلاف رائے ہوگیا۔- حضرت ابن عباس (رض) نے کریب کو حضرت ام سلمہ (رض) کے پاس بھیج کر سبیعہ (رض) کے بارے میں دریافت کروایا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ شوہر کی وفات کے چند دنوں بعد سبیعہ (رض) کے ہاں بچہ پیدا ہوگیا تھا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں نکاح کرلینے کی اجازت دے دی تھی۔- محمد بن اسحاق نے محمد بن ابراہیم التیمی، انہوں نے ابو سلمہ سے اور انہوں نے سبیعہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ان کے ہاں اپنے شوہر کی وفات کے دو ماہ بعد بچے کی پیدائش ہوگئی تھی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں نکاح کرلینے کی اجازت دے دی تھی۔- ہمارے اصحاب نے نابالغ لڑکے کی بیوی کی عدت وضع حمل ہی رکھی ہے جب اسے حمل ہو اور اس کا خاوند فوت ہوجائے کیونکہ قول باری ہے (واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن) آیت میں بالغ اور نابالغ کی بیویوں کے درمیان نیز نسب کے ساتھ ملحق ہونے والے اور محلق نہ ہونے والے نوزائیدہ بچوں کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے حیض والی عورتوں کی عدت بیان کردی تو حضرت معاذ نے کھڑے ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ تو پھر ان عورتوں کی کیا عدت ہے جو حیض آنے سے ناامید ہوچکی ہیں۔- تو اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہیں ایسی عورتوں کی عدت کے تعین میں شک ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہیں پھر ایک اور شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ جن عورتوں کو کم سنی کی وجہ سے حیض نہیں آتا ان کی کیا عدت ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کی بھی عدت تین مہینے ہے، پھر ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ پھر حاملہ عورتوں کی کیا عدت ہے، تو اس پر یہ حکم نازل ہوا کہ ان کی عدت ان کے اس حمل کا پیدا ہوجانا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے احکام کی بجا آوری میں ڈرے گا اللہ تعالیٰ اس کے ہر ایک کام میں آسانی فرما دے گا۔- شان نزول : وَاڿ يَىِٕسْنَ مِنَ الْمَحِيْضِ (الخ)- اور ابن ابی حاتم نے دوسرے طریق سے مرسلا روایت کیا ہے اور ابن جریر اور اسحاق بن راہویہ اور حاکم وغیرہ نے ابی بن کعب سے روایت کیا ہے کہ جب سورة بقرہ کی وہ آیت جو عورتوں کی قسموں کے بارے میں ہے نازل ہوئی تو لوگوں نے عرض کیا مطلقہ عورتوں کی قسموں میں سے کچھ قسمیں باقی رہ گئیں چھوٹی اور بوڑھی اور حمل والی عورتوں کا حکم نہیں بیان کیا گیا تب اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔ یہ روایت صحیح الاسناد اور مقاتل نے اپنی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ خلاد بن عمرو بن الجموح نے اس عورت کی عدت کے بارے میں جس کو حیض نہیں آتا رسول اکرم سے دریافت کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
اب آئندہ آیات میں پھر طلاق سے متعلق مسائل کا ذکر ہے : - آیت ٤ وََالّٰٓئِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآئِکُمْ ” اور تمہارے ہاں کی خواتین میں سے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں “- یعنی ایسی عمر رسیدہ خواتین جن کے حیض کا سلسلہ بند ہوچکا ہو۔ - اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشْہُرٍ ” اگر تمہیں شک ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہوگی “- ایسی خواتین کے معاملے میں چونکہ تین طہر اور تین حیض کا حساب کرنا ممکن نہیں ‘ اس لیے ان کی عدت کا شمار مہینوں میں کیا جائے گا ۔ چناچہ ان کی عدت کی مدت تین ماہ ہوگی۔- وََّالّٰٓئِیْ لَمْ یَحِضْنَط ” اور (ان کی بھی) جن کو ابھی حیض آیا ہی نہیں۔ “- اگر کسی لڑکی کا کم سنی میں نکاح ہوگیا اور ابھی اسے حیض آنا شروع نہیں ہوا تھا کہ طلاق ہوگئی تو اس کی عدت بھی تین ماہ ہی شمار ہوگی۔- وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ ” اور حاملہ خواتین کی عدت یہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہوجائے۔ “- ایسی صورت میں وضع حمل جب بھی ہوجائے گا عدت ختم ہوجائے گی ‘ چاہے اس میں نو ماہ لگیں یا ایک ماہ بعد ہی وضع حمل ہوجائے۔۔۔۔ اس کے بعد پھر سے تقویٰ کے بارے میں یاد دہانی کرائی جا رہی ہے۔ اس سے قبل پہلی اور دوسری آیت میں بھی تقویٰ کا ذکر آچکا ہے :- وَمَنْ یَّـتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا ۔ ” اور جو کوئی اللہ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے وہ اس کے کاموں میں آسانی پیدا کردیتا ہے۔ “- جیسا کہ سورة الیل میں فرمایا گیا ہے :- فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی ۔ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی ۔ فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی ۔ - ” تو جس نے (اللہ کی راہ میں) مال دیا اور (اللہ کی نافرمانی سے) پرہیز کیا ‘ اور بھلائی کو سچ مانا ‘ اس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے۔ “
سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :12 یہ ان عورتوں کا حکم ہے جن کو حیض آنا قطعی بند ہو چکا ہو اور کبر سنی کی وجہ سے وہ سن ایاس میں داخل ہو چکی ہوں ۔ ان کی عدت اس روز سے شمار ہو گی جس روز انہیں طلاق دی گئی ہو ۔ اور تین مہینوں سے مراد تین قمری مہینے ہیںَ اگر قمری مہینے کے آغاز میں طلاق دی گئی ہو تو بالاتفاق رویت ہلال کے لحاظ سے عدت شمار ہو گی ، اور اگر مہینے کے بیچ میں کسی وقت طلاق دی گئی ہو تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک 30 دن کا مہینہ قرار دے کر 3 مہینے پورے کرنے ہوں گے ( بدائع الصنائع ) ۔ رہیں وہ عورتیں جن کے حیض میں کسی نوع کی بے قاعدگی ہو ، ان کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلافات ہیں ۔ حضرت سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے فرمایا جس عورت کو طلاق دی گئی ہو ، پھر ایک دو مرتبہ حیض آنے کے بعد اس کا حیض بند ہو گیا ہو ، وہ 9 مہینے انتظار کرے ۔ اگر حمل ظاہر ہو جائے تو ٹھیک ہے ، ورنہ 9 مہینے گزرنے کے بعد وہ مزید تین مہینے عدت گزارے ، پھر وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح کے لیے حلال ہو گی ۔ ابن عباس ، قتادہ اور عکرمہ کہتے ہیں کہ جس عورت کو سال بھر حیض نہ آیا ہو اسکی عدت تین مہینے ہے ۔ طاؤس کہتے ہیں کہ جس عورت کو سال میں ایک مرتبہ حیض آئے اس کی عدت تین حیض ہے ۔ یہی رائے حضرت عثمان حضرت علی ، اور حضرت زیدبن ثابت سے مروی ہے ۔ امام مالک کی روایت ہے کہ ایک صاحب حبان نامی تھے جنہوں نے اپنی بیوی کو ایسے زمانے میں طلاق دی جبکہ وہ بچے کو دودھ پلا رہی تھیں اور اس پر ایک سال گزر گیا مگر انہیں حیض نہ آیا ۔ پھر وہ صاحب انتقال کر گئے ۔ مطلقہ بیوی نے وراثت کا دعویٰ کر دیا ۔ حضرت عثمان کے سامنے مقدمہ پیش ہوا ۔ انہوں نے حضرت علی اور حضرت زید بن ثابت سے مشورہ طلب کیا ۔ دونوں بزرگوں کے مشورے سے حضرت عثمان نے فیصلہ فرمایا کہ عورت وارث ہے ۔ دلیل یہ تھی کہ نہ وہ ان عورتوں میں سے ہے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں اور نہ ان لڑکیوں میں سے ہے جن کو ابھی حیض نہیں آیا ، لہٰذا وہ شوہر کے مرنے تک اپنے اس حیض پر تھی جو اسے پہلے آیا تھا اور اس کی عدت باقی تھی ۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ جس عورت کا حیض بند ہو گیا ہو ، مگر اس کا بند ہونا سن ایام کی وجہ سے نہ ہو کہ آئندہ اس کے جاری ہونے کی امید نہ رہے ، اس کی عدت یا تو حیض ہی سے ہوگی اگر وہ آئندہ جاری ہو ، یا پھر اس عمر کے لحاظ سے ہوگی جس میں عورتوں کو حیض آنا بند ہو جاتا ہے اور اس عمر کو پہنچنے کے بعد وہ تین مہینے عدت گزار کر نکاح سے آزاد ہو گی ۔ یہی قول امام شافعی ، امام ثوری اور امام لیث کا ہے ۔ اور یہی مذہب حضرت علی ، حضرت عثمان اور حضرت زید بن ثابت کا ہے ۔ امام مالک نے حضرت عمر اور حضرت عبداللہ بن عباس کے قول کو اختیار کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ عورت پہلے 9 مہینے گزارے گی ۔ اگر اس دوران میں حیض جاری نہ ہو تو پھر وہ تین مہینے اس عورت کی سی عدت گزارے گی جو حیض سے مایوس ہو چکی ہو ۔ ابن القاسم نے امام مالک کے مسلک کی توضیح یہ کی ہے کہ 9 مہینے اس روز سے شمار ہوں گے جب آخری مرتبہ اس کا حیض ختم ہوا تھا نہ کہ اس روز سے جب اسے طلاق دی گئی ۔ ( یہ تمام تفصیلات احکام القرآن للجصاص اور بدائع الصنائع للکاسانی سے ماخوذ ہیں ) ۔ امام احمد بن حنبل کا مذہب یہ ہے کہ اگر کوئی عورت جس کی عدت حیض کے اعتبار سے شروع ہوئی تھی ، عدت کے دوران میں آئسہ ہو جائے تو اسے حیض والی عورتوں کے بجائے آئسہ عورتوں والی عدت گزارنی ہوگی ۔ اور اگر اس کو حیض آنا بند ہو جائے اور معلوم نہ ہو سکے کہ وہ کیوں بند ہو گیا ہے تو پہلے وہ حمل کے شبہ میں 9 مہینے گزارے گی اور پھر اسے تین مہینے عدت کے پورے کرنے ہوں گے ۔ اور اگر یہ معلوم ہو کہ حیض کیوں بند ہوا ہے ، مثلاً کوئی بیماری ہو یا دودھ پلا رہی ہو یا ایسا ہی کوئی اور سبب ہو تو وہ اس وقت تک عدت میں رہے گی جب تک یا تو حیض آنا شروع نہ ہو جائے اور عدت حیضوں کے لحاظ سے شمار ہو سکے ، یا پھر وہ آئسہ ہو جائے اور آئسہ عورتوں کی سی عدت گزار سکے ( الانصاف ) ۔ سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :13 حیض خواہ کم سنی کی وجہ سے نہ آیا ہو ، یا اس وجہ سے کہ بعض عورتوں کو بہت دیر میں حیض آنا شروع ہوتا ہے ، اور شاذ و نادر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی عورت کو عمر بھر نہیں آتا ، بہر حال تمام صورتوں میں ایسی عورت کی عدت وہی ہے جو آئسہ عورت کی عدت ہے ، یعنی طلاق کے وقت سے تین مہینے ۔ اس جگہ یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ قرآن کی تصریح کے مطابق عدت کا سوال اس عورت کے معاملہ میں پیدا ہوتا ہے جس سے شوہر خلوت کر چکا ہو ، کیونکہ خلوت سے پہلے طلاق کی صورت میں سرے سے کوئی عدت ہے ہی نہیں ( الاحزاب ، 49 ) ۔ اس لیے ایسی لڑکیوں کی عدت بیان کرنا جنہیں حیض آنا شروع نہ ہوا ہو ، صریحاً اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس عمر میں نہ صرف لڑکی کا نکاح کر دینا جائز ہے بلکہ شوہر کا اس کے ساتھ خلوت کرنا بھی جائز ہے ۔ اب یہ بات ظاہر ہے کہ جس چیز کو قرآن نے جائز قرار دیا ہو اسے ممنوع قرار دینے کا کسی مسلمان کو حق نہیں پہنچتا ۔ جس لڑکی کو ایسی حالت میں طلاق دی گئی ہو کہ اسے ابھی حیض آنا شروع نہ ہوا ہو ، اور پھر عدت کے دوران میں اس کو حیض آ جائے ، تو وہ پھر اسی حیض سے عدت شروع کرے گی اور اس کی عدت حائضہ عورتوں جیسی ہو گی ۔ سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :14 اس امر پر تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ مطلقہ حاملہ کی عدت وضع حمل تک ہے ۔ لیکن اس امر میں اختلاف واقع ہو گیا ہے کہ آیا یہی حکم اس عورت کا بھی ہے جس کا شوہر زمانہ حمل میں وفات پا گیا ہو؟ یہ اختلاف اس وجہ سے ہوا ہے کہ سورہ بقرہ آیت 234 میں اس عورت کی عدت 4 مہینے دس دن بیان کی گئی ہے جس کا شوہر وفات پا جائے ، اور وہاں اس امر کی کوئی تصریح نہیں ہے کہ یہ حکم آیا تمام بیوہ عورتوں کے لیے عام ہے یا ان عورتوں کے لیے خاص ہے جو حاملہ نہ ہوں ۔ حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن عباس ان دونوں آیتوں کو ملا کر یہ استنباط کرتے ہیں کہ حاملہ مطلقہ کی حد تو وضع حمل تک ہی ہے ، مگر بیوہ حاملہ کی عدت آخر الَاَجلَین ہے ، یعنی مطلقہ کی عدت اور حاملہ کی عدت میں سے جو زیادہ طویل ہو وہی اس کی عدت ہے ۔ مثلاً اگر اس کا بچہ 4 مہینے دس دن سے پہلے پیدا ہو جائے تو اسے چار مہینے دس سن پورے ہونے تک عدت گزارنی ہو گی ۔ اور اگر اس کا وضع حمل اس وقت تک نہ ہو تو پھر اس کی عدت اس وقت پوری ہوگی جب وضع حمل ہو جائے ۔ یہی مذہب امامیہ کا ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ سورہ طلاق کی یہ آیت سورہ بقرہ کی آیت کے بعد نازل ہوئی ہے ، اس لیے بعد کے حکم نے پہلی آیت کے حکم کو غیر حاملہ بیوہ کے لیے خاص کر دیا ہے اور ہر حاملہ کی عدت وضع حمل تک مقرر کر دی ہے ، خواہ وہ مطلقہ ہو یا بیوہ ۔ اس مسلک کی رو سے عورت کا وضع حمل چاہے شوہر کی وفات کے فوراً بعد ہو جائے یا 4 مہینے دس دن سے زیادہ طول کھینچے ، بہر حال بچہ پیدا ہوتے ہیں وہ عدت سے باہر ہو جائے گی ۔ اس مسلک کی تائید حضرت ابی بن کعب کی یہ روایت کرتی ہے وہ فرماتے ہیں ، جب سورہ طلاق کی یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کیا یہ مطلقہ اور بیوہ دونوں کے لیے ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ہاں ۔ دوسری روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید تصریح فرمائی : اجل کل حامل ان تضع مافی بطنہا ، ہر حاملہ عورت کی عدت کی مدت اس کے وضع حمل تک ہے ( ابن جریر ۔ ابن ابی حاتم ۔ ابن حجر کہتے ہیں کہ اگر چہ اس کی سند میں کلام کی گنجائش ہے ، لیکن چونکہ یہ متعدد سندوں سے نقل ہوئی ہے اس لیے ماننا پڑتا ہے کہ اس کی کوئی اصل ضرور ہے ) ۔ اس سے بھی زیادہ بڑھ کر اس کی مضبوط تائید سبیعہ اسلمیہ کے واقعہ سے ہوتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں پیش آیا تھا ۔ وہ بحالت حمل بیوہ ہوئی تھیں اور شوہر کی وفات کے چند روز بعد ( بعض روایات میں 20 دن ، بعض میں 23 دن ، بعض میں 25 دن ، بعض میں 40 دن اور بعض میں 35 دن بیان ہوئے ہیں ) ان کا وضع حمل ہو گیا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے معاملہ میں فتویٰ پوچھا گیا تو آپ نے ان کو نکاح کی اجازت دے دی ۔ اس واقعہ کو بخاری و مسلم نے کئی طریقوں سے حضرت ام سلمہ سے روایت کیا ہے ۔ اسی واقعہ کو بخاری ، مسلم ، امام احمد ، ابو داؤد ، نسائی اور ابن ماجہ نے مختلف سندوں کے ساتھ حضرت مسور بن مخرمہ سے بھی روایت کیا ہے ۔ مسلم نے خود سبیعہ اسلمیہ کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ میں حضرت سعد بن خولہ کی بیوی تھی ۔ حجۃ الوداع کے زمانے میں میرے شوہر کا انتقال ہو گیا جبکہ میں حاملہ تھی ۔ وفات کے چند روز بعد میرے ہاں بچہ پیدا ہو گیا ۔ ایک صاحب نے کہا کہ تم چار مہینے دس دن سے پہلے نکاح نہیں کر سکتیں ۔ میں نے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا تو آپ نے فتویٰ دیا کہ تم وضع حمل ہوتے ہی حلال ہو چکی ہو ، اب چاہے تو دوسرا نکاح کر سکتی ہو ۔ اس روایت کو بخاری نے بھی مختصراً نقل کیا ہے ۔ صحابہ کی کثیر تعداد سے یہی مسلک منقول ہے ۔ امام مالک ، امام شافعی ، عبد الرزاق ، ابن ابی شیبہ اور ابن المنذر نے روایت نقل کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے حاملہ بیوہ کا مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے کہا اس کی عدت وضع حمل گی ہے ۔ اس پر انصار میں سے ایک صاحب بولے کہ حضرت عمر نے تو یہاں تک کہا تھا کہ اگر شوہر ابھی دفن بھی نہ ہوا ہو ا بلکہ اس کی لاش اس کے بستر پر ہی ہو اور اس کی بیوی کے ہاں بچہ ہو جائے تو وہ دوسرے نکاح کے لیے حلال ہو جائے گی ۔ یہی رائے حضرت ابو ہریرہ ، حضرت ابو مسعود بدری اور حضرت عائشہ کی ہے ، اور اسی کو ائمہ اربعہ اور دوسرے اکابر فقہاء نے اختیار کیا ہے ۔ شافعیہ کہتے ہیں کہ اگر حاملہ کے پیٹ میں ایک سے زیادہ بچے ہوں تو آخری بچے کی ولادت پر عدت ختم ہو گی ۔ بچہ خواہ مردہ ہی پیدا ہو ، اس کی ولادت سے عدت ختم ہو جائے گی ۔ اسقاط حمل کی صورت میں اگر دائیاں اپنے فن کی رو سے یہ کہیں کہ یہ محض خون کا لوتھڑا نہ تھا بلکہ اس میں آدمی کی صورت پائی جاتی تھی ، یا یہ رسولی نہ تھی بلکہ آدمی کی اصل تھی تو ان کا قول قبول کیا جائے گا اور عدت ختم ہو جائے گی ( مغنی المحتاج ) ۔ حنابلہ اور حنفیہ کا مسلک بھی اس کے قریب قریب ہے ، مگر اسقاط کے معاملہ میں ان کا مذہب یہ ہے کہ جب تک انسانی بناوٹ ظاہر نہ پائی جائے ، محض دائیوں کے اس بیان پر کہ یہ آدمی ہی کی اصل ہے ، اعتماد نہیں کیا جائے گا اور اس سے عدت ختم نہ ہو گی ( بدائع الصنائع ۔ الانصاف ) ۔ لیکن موجودہ زمانے میں طبی تحقیقات کے ذریعہ سے یہ معلوم کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آسکتی کہ جو چیز ساقط ہوئی ہے وہ واقعی انسانی حمل کی نوعیت رکھتے تھی یا کسی رسولی یا جمے ہوئے خون کی قسم سے تھی ، اس لیے اب جہاں ڈاکٹروں سے رائے حاصل کرنا ممکن ہو وہاں یہ فیصلہ بآسانی کیا جا سکتا ہے کہ جس چیز کو اسقاط حمل کہا جاتا ہے وہ واقعی اسقاط تھا یا نہیں اور اس سے عدت ختم ہوئی یا نہیں ۔ البتہ جہاں ایسی طبی تحقیق ممکن نہ ہو وہاں حنابلہ اور حنفیہ کا مسلک ہی زیادہ مبنی بر احتیاط ہے اور جاہل دائیوں پر اعتماد کرنا مناسب نہیں ہے ۔
8: سورۂ بقرہ (۲:۲۲۸) میں طلاق یافتہ عورتوں کی عدّت تین ماہواری بتائی گئی ہے۔ اس پر بعض حضرات کے دل میں سوال پیدا ہوا کہ جن عورتوں کی ماہواری بڑی عمر میں پہنچنے پر بند ہوجاتی ہے، ان کی عدّت کیا ہوگی۔ اس آیت نے واضح فرمادیا کہ تین ماہواری کے بجائے ان کی عدّت تین مہینے ہوگی۔ اور اسی طرح وہ نابالغ لڑکیاں جنہیں ابھی ماہواری آنی شروع ہی نہیں ہوئی اُن کی عدّت بھی تین مہینے ہوگی۔ اور جن عورتوں کو حمل کی حالت میں طلاق دی گئی ہو، اُن کی عدّت اُس وقت تک جاری رہے گی جب تک ان کے یہاں بچہ پیدا ہوجائے، یا حمل کسی وجہ سے گرجائے، چاہے وہ تین مہینے سے کم مدّت میں ہو یا زیادہ مدّت میں۔