Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

طلاق کے بعد بھی سلوک کی ہدایت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ جب ان میں سے کوئی اپنی بیوی کو طلاق دے تو عدت کے گذر جانے تک اس کے رہنے سہنے کو اپنا مکان دے ، یہ جگہ اپنی طاقت کے مطابق ہے یہاں تک کہ حضرت فتادہ فرماتے ہیں اگر زیادہ وسعت نہ ہو تو اپنے ہی مکان کا ایک کو نہ اسے دے دے ، اسے تکلیفیں پہنچا کر اس قدر تنگ نہ کرو کہ وہ مکان چھوڑ کرچلی جائے یا تم سے چھوٹنے کے لئے اپنا حق مہر چھوڑ دے یا اس طرح کہ طلاق دی دیکھا کہ وہ ایک روز عدت کے رہ گئے ہیں رجوع کا اعلان کر دیا پھر طلاق دے دی اور عدت کے ختم ہونے کے قریب رجعت کر لی تاکہ نہ وہ بیچاری سہاگن رہے نہ رانڈ ، پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اگر طلاق والی عورت حمل سے ہو تو بچہ ہونے تک اس کا نان نفقہ اس کے خاوند کے ذمہ ہے ، اکثر علماء کا فرمان ہے کہ یہ خصا ان عورتوں کے لئے بیان ہو رہا ہے جنہیں آخری طلاق دے دی گئی ہو جس سے رجوع کرنے کا حق ان کے خاوندوں کو نہ ہرا ہو اس لئے کہ جن سے رجوع ہو سکتا ہے ان کی عدت تک کا خرچ تو خاوند کے ذمہ ہے ہی وہ حمل سے ہوں تب اور بےحمل ہوں تو بھی اور حضرات علماء فرماتے ہیں یہ حکم بھی انہیں عورتوں کا بیان ہو رہا ہے جن سے رجعت کا حق حاصل ہے کیونکہ اوپر بھی انہی کا بیان تھا اسے الگ اس لئے بیان کر دیا کہ عموماً حمل کی مدت لمبی ہوتی ہے اس لمحے کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ عدت کے زمانے جتنا نفقہ تو ہمارے ذمہ ہے پھر نہیں اس لئے صاف طور پر فرما دیا کہ رجعت والی طلاق کے وقت اگر عورت حمل سے ہو تو جب تک بچہ نہ ہو اس کا کھلانا پلانا خاوند کے ذمہ ہے ۔ پھر اس میں بھی علماء کا اختلاف ہے کہ خرچ اس کے لئے حمل کے واسطے سے ہے یا حمل کے لئے ہے ، امام شافعی وغیرہ سے دونوں قول مروی ہیں اور اس بناء پر بہت سے فروعی مسائل میں بھی اختلاف رونما ہوا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ جب یہ مطلقہ عورتیں حمل سے فارو ہو جائیں تو اگر تمہاری اولاد کو وہ دودھ پلائیں تو تمہیں ان کی دودھ پلائی دینی چاہئے ۔ ہاں عورت کو اختیار ہے خواہ دودھ پلائے یا نہ پلائے لیکن اول دفعہ کا دودھ اسے ضرور پلانا چاہئے گو پھر دودھ نہ پلائے کیونکہ عموماً بچہ کی زندگی اس دودھ کے ساتھ وابستہ ہے اگر وہ بعد میں بھی دودھ پلاتی رہے تو ماں باپ کے درمیان جو اجرت طے ہو جائے وہ ادا کرنی چاہئے ، تم میں آپس میں جو کام ہوں وہ بھلائی کے ساتھ باقاعدہ دستور کے مطابق ہونے چاہئیں نہ اس کے نقصان کے درپے رہے نہ وہ اسے ایذاء پہنچانے کی کوشش کرے ، جیسے سورہ بقرہ میں فرمایا ( ترجمہ ) یعنی بچہ کے بارے میں نہ اس کی ماں کو ضرور پہنچایا جائے نہ اس کے باپ کو ۔ پھر فرماتا ہے اگر آپس میں اختلاف بڑھ جائے مثلاً لڑکے کا باپ کم دینا چاہتا ہے اور اس کی ماں کو منظور نہیں یا ماں زائد مانگتی ہے جو باپ پر گراں ہے اور موافقت نہیں ہو سکتی دونوں کسی بات پر رضامند نہیں ہوتے تو اختیار ہے کہ کسی اور دایہ کو دیں ہاں جو اور دایہ کو دیا جانا منظور کیا جاتا ہے اگر اسی پر اس بچہ کی ماں رضامند ہو جائے تو زیادہ مستحق یہی ہے ، پھر فرماتا ہے کہ بچے کا باپ یا ولی جو و اسے چاہئے کہ بچے پر اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرے ، تنگی والا اپنی طاقت کے مطابق دے ، طاقت سے بڑھ کر تکلیف کسی کو اللہ نہیں دیتا ، تفسیر ابن جریر میں ہے کہ حضرت ابو عبیدہ کی بابت حضرت عمر نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ مٹوا کپڑا پہنتے ہیں اور ہلکی غذا کھاتے ہیں آپ نے حکم دیا کہ انہیں ایک ہزار دینار بھجوا دو اور جس کے ہاتھ بھجوائے ان سے کہہ دیا کہ دیکھنا وہ ان دیناروں کو پا کر کیا کرتے ہیں؟ جب یہ اشرفیاں انہیں مل گئیں تو انہوں نے باریک کپڑے پہننے اور نہایت نفیس غذائیں کھانی شروع کر دیں ، قاصد نے واپس آ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے واقعہ بیان کیا آپ نے فرمایا اللہ اس پر رحم کرے اس نے اس آیت پر عمل کیا کہ کشادگی والا اپنی کشادگی کے مطابق خرچ کرے اور تنگی و ترشی والا اپنی حالت کے موافق ، طبرانی کی ایک غریب حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کی شخص کے پاس دس دینار تھے اس نے ان میں سے ایک راہ اللہ صدقہ کیا دوسرے کے پاس دس اوقیہ تھے اس نے اس میں سے ایک اوقیہ یعنی چالیس درہم خرچ کئے تیسرے کے پاس سو اوقیہ تھے جس میں سے اس نے اللہ کے نام پر دس اوقیہ خرچ کئے تو یہ سب اجر میں اللہ کے نزدیک برابر ہیں اس لئے کہ ہر ایک نے اپنے مال کا دسواں حصہ فی سبیل اللہ دیا ہے ، پھر اللہ تعالیٰ سچا وعدہ دیتا ہے کہ وہ تنگی کے بعد آسانی کر دے گا جیسے اور جگہ فرمایا ( ترجمہ ) تحقیق کے ساتھ آسانی ہے ، مسند احمد کی حدیث اس جگہ وارد کرنے کے قبال ہے جس میں ہے کہ حضرت ابو ریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اگلے زمانہ میں ایک میاں بیوی تھے جو فقر و فاقہ سے اپنی زندگی گذار رہے تھے پاس کچھ بھی نہ تھا ایک مرتبہ یہ شخص سفر سے آیا اور سخت بھوکا تھا بھوک کے مارے بیتاب تھا آتے ہی اپنی بیوی سے پوچھا کچھ کھانے کو ہے؟ اس نے کہا آپ خوش ہو جایئے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی روزی ہمارے ہاں آ پہنچی ہے اس نے کہا پھر لاؤ جو کچھ ہو دے دو میں بہت بھوکا ہوں ۔ بیوی نے کہا اور ذرا سی دیر صبر کر لو اللہ کی رحمت سے ہمیں بہت کچھ امید ہے پھر جب کچھ دیر اور ہو گئی اس نے بیتاب ہو کر کہا جو کچھ تمہارے پاس ہے دیتی کیوں نہیں؟ مجھے تو بھوک سے سخت تکلیف ہو رہی ہے بیوی نے کہا اتنی جلدی کیوں کرتے ہو؟ اب تنور کھولتی ہوں ، تھوڑی ڈیر گذرنے کے بعد جب بیوی نے دیکھا کہ یہ اب پھر تقاضہ کرنا چاہتے ہیں تو خود بخود کہنے لگیں اب اٹھ کر تنور کو دیکھتی ہوں اٹھ کر جو دیکھتی ہیں تو قدرت اللہ سے ان کے توکل کے بدلے وہ بکری کے پہلو کے گوشت سے بھرا ہوا ہے دیکھتی ہیں کہ گھر کی دونوں چکیاں از خود چل رہی ہیں اور برابر آٹا نکل رہا ہے انہو نے تنور میں سے سب گوشت نکال لیا اور چکیوں میں سارا آٹا اٹھا لیا اور جھاڑ دیں حضرت ابو ہریرہ قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اگر وہ صرف آٹا لے لیتیں اور چکی نہ جھاڑتیں تو وہ قیامت تک چلتی رہتیں اور روایت میں ہے کہ ایک شخص اپنے گھر پہنچا دیکھا کہ بھوک کے مارے گھر والوں کا برا حال ہے آپ جنگل کی طرف نکل کھڑے ہوئے یہاں ان کی نیک بخت بیوی صاحبہ نے جب دیکھا کہ میاں بھی پریشان حال ہیں اور یہ منظر دیکھ نہیں سکے اور چل دیئے تو چکی کو ٹھیک ٹھاک کیا تنور سلگایا اور الله تعالیٰ سے دعا کرنے لگیں اے اللہ ہمیں روزی دے دعا کر کے اٹھیں تو دیکھا کہ ہنڈیا گوشت سے پر ہے تنور میں روٹیاں لگ رہی ہیں اور چکی سے برابر آٹا ابلا چلا آتا ہے اتنے میں میاں بھی تشریف لائے پوچھا کہ میرے بعد تمہیں کچھ ملا ؟ بیوی صاحبہ نے کہا ہاں ہمارے رب نے ہمیں بہت کچھ عطا فرما دیا اس نے جا کر چکی کے دوسرے پاٹ کو اٹھا لیا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان ہو تو آپ نے فرمایا اگر وہ اسے نہ اٹھاتا تو قیامت تک یہ چکی چلتی ہی رہتی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 یعنی مطلقہ رجعیہ کو۔ اس لیے کہ مطلقہ بائنہ کے لیے تو رہائش اور نفقہ ضروری ہی نہیں۔ اپنی طاقت کے مطابق رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر مکان فراخ ہو اور اس میں متعدد کمرے ہوں تو ایک کمرہ اس کے لیے مخصوص کردیا جائے۔ بصورت دیگر اپنا کمرہ اس کے لیے خالی کردے۔ اس میں حکمت یہی ہے کہ قریب رہ کر عدت گزارے گی تو شاید خاوند کا دل پسیج جائے اور رجوع کرنے کی رغبت اس کے دل میں پیدا ہوجائے خاص طور پر اگر بچے بھی ہوں تو پھر رغبت اور رجوع کا قوی امکان ہے۔ مگر افسوس ہے کہ مسلمان اس ہدایت پر عمل نہیں کرتے جس کی وجہ سے اس حکم کے فوائد سے بھی محروم ہیں۔ ہمارے معاشرے میں طلاق کے ساتھ ہی جس طرح عورت کو فوراً چھوت بنا کر گھر سے نکال دیا جاتا ہے، یا بعض دفعہ لڑکی والے اسے اپنے گھر لے جاتے ہیں، یہ رواج قرآن کریم کی صریح تعلیم کے خلاف ہے۔ 6۔ 2 یعنی نان نفقہ میں یا رہائش میں اسے تنگ اور بےآبرو کرنا تاکہ وہ گھر چھوڑ جائے۔ عدت کے دوران ایسا رویہ اختیار نہ کیا جائے۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے عدت ہوجانے کے قریب ہو تو رجوع کرلے اور بار بار ایسا نہ کرے، جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں کیا جاتا تھا۔ جس کے سدباب کے لیے شریعت نے طلاق کے بعد رجوع کرنے کی حد مقرر فرمادی تاکہ کوئی شخص آئندہ اس طرح عورت کو تنگ نہ کرے، اب ایک انسان دو مرتبہ تو ایسا کرسکتا ہے یعنی طلاق دے کر عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلے۔ لیکن تیسری مرتبہ جب طلاق دے گا تو اس کے بعد اس کے رجوع کا حق بھی ختم ہوجائے گا۔ 6۔ 2 یعنی مطلقہ خواہ بائنہ ہی کیوں نہ ہو، اگر حاملہ ہے تو اس کا نفقہ و رہائش ضروری ہے، جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے۔ 6۔ 3 یعنی طلاق دینے کے بعد اگر وہ تمہارے بچے کو دودھ پلائے تو اس کی اجرت تمہارے ذمے ہے۔ 6۔ 4 یعنی باہم مشورے سے اجرت اور دیگر معاملات طے کر لئے جائیں۔ مثلاً بچے کا باپ حیثیت کے مطابق اجرت دے اور ماں، باپ کی حیثیت کے مطابق اجرت طلب کرے، وغیرہ۔ 6۔ 5 یعنی آپس میں اجرت وغیرہ کا معاملہ طے نہ ہوسکے تو کسی دوسری انا کے ساتھ معاملہ کرلے جو اسکے بچے کو دودھ پلائے

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٨] عدت کے دوران رہائش اور نان ونقہ خاوند کے ذمہ ہے :۔ مطلقہ عورت کی عدت کے دوران اس کی رہائش اور اس کی خوراک و پوشاک کا سارا خرچ طلاق دینے والے مرد کے ذمہ ہے۔ اس قطعی اصل سے استثناء کی ایک مثال دور نبوی میں ملتی ہے۔ وہ قصہ یہ تھا کہ فاطمہ بنت قیس کے خاوند عمرو بن حفص نے جب اپنی بیوی کو تیسری طلاق دی تو اس وقت وہ خود شام کے علاقے میں تھے۔ فاطمہ بنت قیس آپ کے پاس آئی اور انہیں یہ معاملہ بتایا تو آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ اپنی عدت ام شریک کے گھر میں گزارے، پھر فرمایا : یہ عورت (ام شریک) ایسی ہے جس کے ہاں میرے صحابہ اکثر آتے جاتے ہیں لہذا تم ابن ام مکتوم کے ہاں عدت گزارو۔ کیونکہ وہ اندھا آدمی ہے تو اس کے ہاں کپڑے تک اتار سکتی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ تو اپنے چچا ابن ام مکتوم کے ہاں چلی جا۔ اور سیدہ عائشہ (رض) نے فرمایا کہ فاطمہ بنت قیس اللہ سے نہیں ڈرتی جو کہتی ہے کہ جس عورت پر طلاق بائن پڑے اس کے لئے نہ رہائش ہے اور نہ نفقہ (خوراک و پوشاک) (بخاری۔ کتاب الطلاق۔ باب قصۃ فاطمۃ بنت قیس) - خ فاطمہ بنت قیس کا استثنائی قصہ :۔ فاطمہ بنت قیس کا قصہ تقریباً سب کتب احادیث میں مذکور ہے۔ لیکن ان کی عدت گزارنے اور نفقہ کا قصہ بالکل اضطراری نوعیت کا تھا۔ یہ ایک درشت مزاج اور زبان دراز خاتون تھیں جب طلاق مغلظہ واقع ہوئی اس وقت ان کا خاوند شام میں تھا۔ تیسری طلاق کے بعد چونکہ خاوند کا حق رجوع ختم ہوجاتا ہے اور وہ اس کی بیوی نہیں رہتی۔ لہذا یہ مسئلہ بذات خود مختلف فیہ ہے۔ کہ طلاق مغلظہ کے بعد سکنیٰ اور نفقہ واجب بھی ہے یا نہیں۔ تاہم جمہور علماء کی یہی رائے ہے کہ پوری عدت کے دوران سکنیٰ اور نان و نفقہ واجب ہے۔ فاطمہ بنت قیس کا گھر جنگل میں تھا جہاں آس پاس مکانات نہیں تھے لہذا وہاں مال اور ناموس دونوں باتوں کا خطرہ تھا علاوہ ازیں اس کے خاوند نے جو کچھ سَرَاحًا جَمِیْلاً کے طور پر بھیجا تھا اسے فاطمہ بنت قیس نے حقیر سمجھ کر ٹھکرا دیا تھا۔ یہ تھے وہ خصوصی حالات جن کی بنا پر رسول اللہ نے فاطمہ کے حق میں یہ فیصلہ دیا تھا اور یہ انہی کے لئے خاص تھا۔ اسی لئے سیدنا عمر سیدہ عائشہ (رض) اور دوسرے صحابہ فاطمہ کے اس قول کو کہ : طلاق بائن والی عورت کے لئے سکنیٰ اور نفقہ نہیں ہے کا انکار کرتے اور اس کے ذاتی واقعہ کو رسول اللہ کی خصوصی اجازت سمجھتے تھے جو کسی دوسرے کے لیے جائز نہیں۔- [١٩] یعنی واجبی خرچ نہ دے کر یا دوسرے طریقوں سے اس طرح تنگ نہ کر ڈالو کہ وہ از خود نکلنے اور تمہارا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں اور تم یہ سمجھنے لگو کہ جب وہ خود ہی چلی گئی ہے تو تم پر اس کا کچھ الزام نہیں۔- [٢٠] بیوہ کا نان ونفقہ واجب نہیں :۔ حاملہ خواہ مطلقہ ہو یا بیوہ اس کی عدت تا وضع حمل ہے۔ خواہ یہ چند دن بعد ہی وضع حمل ہو یا چھ سات ماہ تک لمبی ہوجائے۔ اس دوران اگر مطلقہ ہے تو اس کے سکنیٰ اور نفقہ کا ذمہ دار اس کا خاوند ہوگا۔ اور اگر بیوہ ہے تو اس کا سکنیٰ تو مرد کے لواحقین کے ذمہ ہوگا اور وہ عدت اپنے خاوند کے گھر میں گزارے گی۔ لیکن نفقہ کی حقدار نہ رہے گی کیونکہ اب وہ وراثت کی حقدار بن گئی ہے وہ اپنے حصہ میں سے اپنی ذات پر خرچ کرے گی۔ یہ نہیں ہوگا کہ پہلے خاوند کے مشترکہ ورثہ سے اس کا نفقہ بھی اسے دیا جائے اور پھر وراثت کا حصہ بھی۔- [٢١] طلاق کے بعد بچہ کو دودھ پلانے سے متعلقہ مسائل :۔ اس آیت اور اگلی آیت سے مندرجہ ذیل باتیں مستفاد ہوتی ہیں :- ١۔ عورت اپنے دودھ کی خود مالک ہے اور وہ طلاق دینے والے خاوند سے بھی اسی طرح اجرت لے سکتی ہے جس طرح دوسروں سے۔- ٢۔ قانونی طور پر بچہ باپ کا ہوتا ہے، ماں کا نہیں ہوگا۔ اگر بچہ ماں کا ہو تو اجرت لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔- ٣۔ اگر ماں بھی وہی اجرت مانگے جو دوسری عورتیں مانگتی ہیں تو ماں دودھ پلانے کی زیادہ حقدار ہے۔- ٤۔ اگر ماں کسی بیماری یا کمزوری کی وجہ سے دودھ پلانے سے انکار کر دے یا اجرت اتنی زیادہ مانگے جو اس کے خاوند کی استطاعت یا معروف رواج سے زیادہ ہو تو باپ کسی دوسری عورت سے بھی دودھ پلوانے کی خدمت لے سکتا ہے۔- ٥۔ طلاق کے بعد اگر فریقین میں شکررنجی باقی رہ گئی ہو تب بھی بچہ کی تربیت کے سلسلہ میں ماں اور باپ کو بچہ کی اور ایک دوسرے کی بھلائی ہی سوچنا چاہئے۔ باپ محض ماں کو ستانے، تنگ کرنے اور اس کی نظروں سے بچہ غائب رکھنے کی خاطر کسی دوسری عورت سے دودھ نہ پلائے یا ماں کو اس کا بہت کم معاوضہ دے یا سرے سے کچھ دینے پر آمادہ ہی نہ ہو۔ اور نہ ہی ماں اتنا خرچ طلب کرے یا ایسے حالات پیدا کردے کہ باپ کسی دوسری عورت سے دودھ پلانے پر مجبور ہوجائے۔- ٦۔ ہمارے ہاں یہ دستور بن چکا ہے کہ مطلقہ عورت اور طلاق دینے والا مرد بعد میں تازیست نہ ایک دوسرے کے سامنے ہوں اور نہ کلام کریں اور اسے غیرت کا مسئلہ بنا لیا گیا ہے۔ بلکہ بسا اوقات مرد اور عورت کے خاندان میں بغض اور عداوت چل جاتی ہے۔ شرعاً ان باتوں کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں بالخصوص (وَاْتَمِرُوْا بَيْنَكُمْ بِمَعْرُوْفٍ ۝ۭ ) 65 ۔ الطلاق :6) کے الفاظ قابل توجہ ہیں۔ نیز جب سیدنا زید بن حارثہ نے سیدہ زینب کو طلاق دے دی تو اس کے بعد نبی نے سیدہ زینب کو اپنے لیے نکاح کا پیغام سیدنا زید کی زبانی ہی بھیجا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ اَسْکِنُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِکُمْ : اس میں ان عورتوں کا حکم بیان فرمایا ہے جنہیں پہلی یا دوسری طلاق دی گئی ہو ۔ پہلے ان کے متعلق فرمایا تھا کہ عدت پوری ہونے تک انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ ہی وہ خود نکلیں ، اب اسی کی تفصیل ہے۔” من حیث سکنتم “ میں ” من “ تبعیض کے لیے ہے ، یعنی جہاں تم رہتے ہو اس کے کسی حصے میں انہیں بھی رہنے کے لیے جگہ دو ۔” من وجدکم “ اپنی وسعت کے مطابق ، یعنی مکان ذاتی ہے یا کرائے کا یا خیمہ وغیرہ ہے، جہاں رہتے ہو وہیں انہیں رکھو۔ اس کا مقصد اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے بیان فرمایا ہے کہ اتنی مدت ایک جگہ رہنے کی وجہ سے ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ دوبارہ موافقت کی صورت پیدا فرما دے اور رجوع ہوجائے ، اس دوران ان کا نفقہ بھی خاوند کے ذمے ہے۔ تیسری طلاق کے بعد چونکہ رجوع کی گنجائش نہیں ، اس لیے خاوند کے ساتھ رہائش کا حکم بھی نہیں اور نہ ہی ان کا خرچ خاوند کے ذمے ہے ، جیسا کہ پہلی آیت کے فائدہ (١٢) میں فاطمہ بنت قیس (رض) کی صحیح حدیث میں گزر چکا ہے۔- ٢۔ وَلَا تُضَآرُّوْہُنَّ لِتُضَیِّقُْوْا عَلَیْہِنَّ : یعنی انہیں نفقہ میں کمی یا نا مناسب رہائش یا بد زبانی یا مار پیٹ کے ساتھ تکلیف پہنچا کر تنگ نہ کرو کہ وہاں رہیں تو تنگی میں مبتلا رہیں یا پھر مکان چھوڑ کر چلی جائیں یا مہر چھوڑ دیں۔- ٣۔ وَاِنْ کُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْہِنَّ ۔۔۔۔۔: مطلقہ عورت اگر حاملہ نہیں تو رجعی طلاق کی صورت میں اس کا نفقہ اور رہائش خاوند کے ذمے ہے ، تیسری طلاق کی صورت میں اس کا نفقہ یا رہائش خاوند کے ذمے نہیں ، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ البتہ اگر وہ حاملہ ہے تو رجعی طلاق کی صورت میں بچہ پیدا ہونے تک اس کا نفقہ اور رہائش دونوں خاوند کے ذمے ہیں اور اگر تیسری طلاق ہے تو وضع حمل تک صرف اس کا خرچہ خاوند کے ذمے ہے۔- ٤۔ فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَکُمْ فَاٰ تُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ : اس جملے سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بچہ باپ کا ہوتا ہے ماں کا نہیں ، کیونکہ ماں اس بچے کے باپ کے لیے دودھ پلا رہی ہے اور اجرت لے رہی ہے ، اگر بچہ ماں کا ہو تو اجرت لینے کا سوال پیدا نہیں ہوتا ۔ دوسرا یہ کہ عورت اپنے دودھ کی خود مالک ہے ، وہ طلاق دینے والے خاوند سے بھی اسی طرح اجرت لے سکتی ہے جیسے دوسروں سے ۔- ٥۔ وَاْتَمِرُوْا بَیْنَکُمْ بِمَعْرُوْفٍ :” واتمروا “ ” اثتمرا یا تمرا ائتمارا “ ( افتعال) مشورہ کرنا ، جیسا کہ سورة ٔ قصص میں فرمایا :(یموسیٰ ان الملاء یا تمرون بک لیقتلوک) (القصص : ٢٠)” اے موسیٰ بیشک سردار تیرے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں تو تجھے قتل کردیں “۔ طلاق کے بعد عموماً میاں بیوی کو اور ان کے تعلق والوں کو حکم دیا کہ بچے کو دودھ پلانے ، اس کے علاج و تربیت اور اس کی بہتری کے لیے آپس میں اچھے طریقے سے مشورہ کرتے رہو، ایسا نہ ہو کہ تمہاری کشیدگی بچے کو نقصان پہنچانے کا باعث بن جائے۔- ٦۔ وَاِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَہٗٓ اُخْرٰی : یعنی اگر ماں کسی بیماری یا کمزوری کی وجہ سے دودھ پلانے سے انکار کر دے ، یا اجرت اتنی زیادہ مانگے جو خاوند کی استطاعت یا معروف رواج سے زیادہ ہو ، یا خاوند اس کی طلب کردہ اجرت دینے پر تیار نہ ہو ، یا کسی اور وجہ سے آپس میں ضد پیدا ہوجائے اور ماں دودھ نہ پلائے تو ضروری نہیں کہ ہر حال میں ماں ہی دودھ پلائے ، بلکہ کوئی اور عورت اسے دودھ پلا دے گی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

آگے پھر مطلقہ عورتوں کی عدت اور ان کے نفقہ کا بیان اور عام عورتوں کے حقوق کی ادائیگی کی تاکید ہے اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ وَلَا تُضَاۗرُّوْهُنَّ لِتُضَيِّقُوْا عَلَيْهِنَّ اس آیت کا تعلق اس پہلے حکم سے ہے جو اوپر آ چکا ہے کہ مطلقہ عورتوں کو ان کے گھروں سے نہ نکالو۔ اس آیت میں اس کا ایجابی پہلو ذکر کیا گیا کہ ان کو عدت پوری ہونے تک اپنی وسعت وقدرت کے مطابق رہنے کا مکان دو جہاں تم خود رہتے ہو اسی مکان کے کسی حصہ میں رکھو۔ اگر مطلقہ بطلاق رجعی ہے جب تو باہم کسی پردہ کی بھی ضرورت نہیں، ہاں اگر طلاق بائن دی ہے یا تین طلاق دے دی ہیں تو اب رشتہ نکاح ٹوٹ چکا ہے اس کو سابق شوہر سے پردہ کرنا چاہئے اس لئے پردہ کیساتھ اسی مکان میں رہنے کا انتظام کیا جائے۔- دسواں حکم مطلقہ عورتوں کو ایام عدت میں پریشان نہ کرو :۔ لاتضآروھن اس کا مطلب یہ ہے کہ ایام عدت میں جبکہ مطلقہ عورت تمہارے ساتھ رہے تو طعن تشنیع کر کے یا اس کی ضروریات میں تنگی کر کے اس کو پریشان نہ کرو کہ وہ نکلنے پر مجبور ہوجائے۔- وَاِنْ كُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَيْهِنَّ حَتّٰى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ یعنی اگر مطلقہ عورتیں حمل والیاں ہوں تو ان پر اس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک کہ ان کا حمل پیدا نہ ہوائے۔- گیارہواں حکم مطلقات کا نفقہ عدت :۔ اس آیت میں بتلایا گیا ہے کہ مطلقہ عورتیں اگر حاملہ ہوں تو ان کا نفقہ اس وقت تک شوہر پر لازم ہے جب تک کہ حمل پیدا ہو .... اسی لئے مطلقہ حاملہ کی متعلق پوری امت کا اجماع ہے کہ اس کا نفقہ اس کی عدت جو وضع حمل ہے پوری ہونے تک شوہر پر واجب ہے۔ باقی جو مطلقہ حاملہ نہیں اگر اس کو طلاق رجعی دی گئی ہے تو اس کا نفقہ عدت بھی شوہر پر باجماع امت واجب ہے باقی وہ مطلقہ جس کو طلاق بائن یا تین طلاق دی گئی ہیں یا جس نے خلع وغیرہ کے ذریعہ اپنا نکاح فسخ کرایا ہو اس کے متعلق امام شافعی و احمد اور بعض دوسرے ائمہ کا قول یہ ہے کہ ان کا نفقہ شوہر پر واجب نہیں اور امام اعظم ابوحینفہ کے نزدیک ان کا نفقہ بھی شوہر پر لازم ہے ان کے نزدیک جس طرح حق سکنی تمام مطلقات کے لئے واجب ہے اسی طرح نفقہ بھی ہر قسم کی مطلقات کے لئے واجب ہے اور دلیل یہی آیت ہے۔ جس میں عام مطلقات کے لئے حق سکنی دینے کو لازم کیا گیا ہے یعنی اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ کیونکہ اسی آیت میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی قرائت یہ ہے اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ اور ایک قراءت دوسری قرات کے لئے مفسر ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آیت مذکورہ کی مشہور قراءت جس میں لفظ انفقوا مذکور نہیں اس میں بھی ایام عدت تک واجب کردیا ہے اور اس کی تائید حضرت فاروق اعظم اور دوسرے متعدد صحابہ کرام کے اس قول سے ہوتی کہ انہوں نے فاطمہ بنت قیس کی جن کو ان کے شوہر نے تین طلاق دے دی تھی ان کی اس روایت کو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا نفقہ ان کے شوہر پر لازم نہیں کیا یہ کہہ کر رد فرمایا کہ ہم ان کی اس روایت کی بناء پر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو نہیں چھوڑ سکتے جس میں تمام مطلقات کا نفقہ عدت شوہروں پر واجب کیا گیا ہے۔ (راہ مسلم) - اس میں کتاب اللہ کے حوالہ سے بظاہر یہی آیت مراد ہے اور فاروق اعظم کے نزدیک مفہوم آیت میں نفقہ بھی داخل ہے اور سنت سے مراد وہ حدیث ہے جو خود عمر بن خطاب سے طحاوی، دارقطنی اور طبرانی نے روایت کی ہے عمر بن خطاب نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ آپ نے مطلقہ ثلثا کے لئے بھی نفقہ اور سکنی واجب کیا ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ حمل والی عورتوں کا نفقہ عدت تو صراحتہ اس آیت نے واجب قرار دیا ہے اسی لئے اس پر اجماع امت ہے۔ اسی طرح مطلقہ رجعیہ کا چونکہ ابھی تک نکاح ٹوٹا نہیں ہے اس کا نفقہ بھی باتفاق واجب ہے مطلقہ بائنہ پاثلثہ وغیرہ کے معاملہ میں فقہاء امت کا اختلاف ہے امام اعظم کے نزدیک اس کا بھی نفقطہ واجب ہے اس کی مکمل تفصیل اسی آیت کی تفسیر میں تفسیر مظہری میں دیکھی جاسکتی ہے۔- فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ ، یعنی مطلقہ عورتیں اگر حاملہ ہوں اور پھر حمل سے بچہ پیدا ہوگیا تو ان کی عدت تو وضع حمل کی وجہ سے پوری ہوگئی اس لئے ان کا نفقہ تو شوہر پر لازم نہیں رہا مگر جو بچہ پیدا ہوا ہے اگر یہ مطلقہ ماں اس کو دودھ پلائے تو دودھ پلانے کا معاوضہ لینا اور دینا جائز ہے۔- بارہواں حکم :۔ رضاعت یعنی بچہ کو دودھ پلانے کی اجرت، جب تک عورت شوہر کے نکاح میں ہے اس وقت تک بچوں کو دودھ پلانا خود ماں کے ذمہ بحکم قرآن واجب ہے (آیت) والولدت یرضعن اولادھن اور جو کا مکسی کے ذمہ خود واجب ہو اس پر معاوضہ لینا رشوت کے حکم میں ہے جس کا لینا بھی ناجائز ہے اور دینا بھی۔ اور ایام عدت بھی اس معاملے میں بحکم نکاح میں کیونکہ عورت کا نفقہ جس طرح بحالت نکاح شوہر پر لازم ہے عدت میں بھی واجب ہے، البتہ جب وضع حمل کے ذریعہ عدت ختم ہوگئی اور عورت آزاد ہوگئی اس کا نفقہ بھی شوہر پر واجب نہیں رہا، اب اگر یہ اس بچے کو دودھ پلائے تو آیت مذکورہ نے اس کا معاوضہ لینے اور دینے کو جائز قرار دے دیا۔- تیرھواں حکم وَاْتَمِرُوْا بَيْنَكُمْ بِمَعْرُوْفٍ :۔ ائمتار کے لفظی معنے باہم مشورہ اور ایک دوسرے کی بات قبول کرنے کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ دودھ پلانے کی اجرت میں زوجین کو اس کی ہدایت دی گئی ہے کہ باہمی نزاع کی نوبت نہ آنے دیں۔ مطلقہ بیوی عام اجرت سے زیادہ نہ مانگے، شوہر عام اجرت کے مطابق دینے سے انکار نہ کرے ایک دوسرے کے ساتھ رواداری کا معاملہ کریں۔- چودھواں حکم وَاِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهٗٓ اُخْرٰى:۔ یعنی اگر دودھ پلانے کا معاملہ باہمی مشورہ سے طے نہ ہو پائے یا مطلقہ عورت اگر اپنے بچہ کو معاوضہ لے کر بھی دودھ پلانے سے انکار کر دے تو اس کو قضاء مجبور نہیں کیا جائے گا بلکہ یہ سمجھا جائے گا کہ ماں کی شفقت بچے پر سب سے زیادہ ہونے کے باوجود جب انکار کر رہی ہے تو کوئی واقعی عذر ہوگا لیکن اگر فی الواقع اس کو عذر نہیں محض غصہ و ناراضی کی وجہ سے انکار کرتی ہے تو عنداللہ وہ گنہگار ہوگی مگر قاضی کی عدالت اس کو دودھ پلانے پر مجبور نہیں کریگی۔ - اسی طرح اگر شوہر کو دودھ پلانے کی اجرت دینے کی بوجہ افلاس کے قدرت نہیں اور کوئی دوسری عورت بلامعاوضہ یا اس معاوضہ سے کم پر دودھ پلانے کو تیار ہو جو معاوضہ مطلقہ ماں مانگتی ہے تو شوہر کو مجبور نہیں کیا جائے گا کہ وہ ماں کا مطالبہ منظور کر کے اسی سے دودھ پلوائے بلکہ دونوں صورتوں میں دوسری عورت سے اس کو دودھ پلوایا جاسکتا ہے۔ ہاں اگر دوسری دودھ پلانے الی عورت بھی اتنا ہی معاوضہ طلب کرے جتنا ماں کر رہی ہے تو شوہر کے لئے باتفاق فقہاء جائز نہیں کہ ماں کو چھوڑ کر دوسری عورت سے اسی معاوضہ پر دودھ پلوائے۔- مسئلہ :۔ اگر دوسری عورت سے دودھ پلوانا طے ہوجائے تو یہ ضروری ہے کہ دودھ پلانے الی عورت اس کی ماں کے پاس رکھ کر ودھ پلائے۔ ماں سے الگ کر کے دودھ پلوانا جائز نہیں کیونکہ حضانت یعنی تربیت اور اپنی نگرانی میں رکھنا ازروئے احادیث صحیحہ ماں کا حق ہے اس سے یہ حق سلب کرنا جائز نہیں (تفسیر مظہری) - پندرھواں حکم :۔ بیوی کے نفقہ کی مقدار میں شوہر کی حالت کا اعتبار ہو گا

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَسْكِنُوْہُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ وَلَا تُضَاۗرُّوْہُنَّ لِتُضَيِّقُوْا عَلَيْہِنَّ۝ ٠ ۭ وَاِنْ كُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَيْہِنَّ حَتّٰى يَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ۝ ٠ ۚ فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ۝ ٠ ۚ وَاْتَمِرُوْا بَيْنَكُمْ بِمَعْرُوْفٍ۝ ٠ ۚ وَاِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَہٗٓ اُخْرٰى۝ ٦ ۭ- سكن - السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] ، وقال تعالی: وَلَهُ ما سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهارِ [ الأنعام 13] ، ولِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس 67] ، فمن الأوّل يقال : سکنته، ومن الثاني يقال : أَسْكَنْتُهُ نحو قوله تعالی: رَبَّنا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي [إبراهيم 37] ، وقال تعالی: أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ [ الطلاق 6]- ( س ک ن ) السکون ( ن )- السکون ( ن ) حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔ اور فرمایا : ۔ وَلَهُ ما سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهارِ [ الأنعام 13] اور جو مخلوق رات اور دن میں بستی ہے سب اسی کی ہے ۔ ولِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس 67] تاکہ اس میں آرام کرو ۔ تو پہلے معنی یعنی سکون سے ( فعل متعدی ) سکنتہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی کو تسکین دینے یا ساکن کرنے کے ہیں اور اگر معنی سکونت مراد ہو تو اسکنتہ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَبَّنا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي [إبراهيم 37] اے پروردگار میں نے اپنی اولاد لا بسائی ہے أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ [ الطلاق 6] 25 ) ( مطلقہ ) عورتوں کو ( ایام عدت میں ) اپنے مقدرو کے مطابق وہیں رکھو جہاں خود رہتے ہو ۔- حيث - حيث عبارة عن مکان مبهم يشرح بالجملة التي بعده، نحو قوله تعالی: وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] ، وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ [ البقرة 149] .- ( ح ی ث ) حیث - ( یہ ظرف مکان مبنی برضم ہے ) اور ) مکان مبہم کے لئے آتا ہے جس کی مابعد کے جملہ سے تشریح ہوتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] اور تم جہاں ہوا کرو - وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- ضر - الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] ، فهو محتمل لثلاثتها،- ( ض ر ر) الضر - کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں - ضيق - الضِّيقُ : ضدّ السّعة، ويقال : الضَّيْقُ أيضا، والضَّيْقَةُ يستعمل في الفقر والبخل والغمّ ونحو ذلك . قال تعالی: وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود 77] ، أي : عجز عنهم، وقال : وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود 12] - ( ض ی ق ) الضیق والضیق - کتے معنی تنگی کے ہیں اور یہ سعتہ کی ضد ہے اور ضیقتہ کا لفظ فقر بخل غم اور اس قسم کے دوسرے معانی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود 77] کے معنی یہ ہیں کہ وہ انکے مقابلہ سے عاجز ہوگئے ۔ اور آیت ؛۔ وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود 12] اور اس ( خیال سے سے تمہارا دل تنگ ہو ۔- حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی:- وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔- نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- رضع - يقال : رَضَعَ المولود يَرْضِعُ «1» ، ورَضِعَ يَرْضَعُ رَضَاعاً ورَضَاعَةً ، وعنه استعیر : لئيم رَاضِعٌ: لمن تناهى لؤمه، وإن کان في الأصل لمن يرضع غنمه ليلا، لئلّا يسمع صوت شخبه «2» ، فلمّا تعورف في ذلک قيل : رَضُعَ فلان، نحو : لؤم، وسمّي الثّنيّتان من الأسنان الرَّاضِعَتَيْنِ ، لاستعانة الصّبيّ بهما في الرّضع، قال تعالی:- وَالْوالِداتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كامِلَيْنِ لِمَنْ أَرادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضاعَةَ [ البقرة 233] ، فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَ [ الطلاق 6] ، ويقال : فلان أخو فلان من الرّضاعة، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «يحرم من الرَّضَاعِ ما يحرم من النّسب» «3» ، وقال تعالی: وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلادَكُمْ [ البقرة 233] ، أي : تسومونهنّ إرضاع أولادکم .- ( ر ض ع ) بچے کا دودھ پینا ۔ اسی سے استعارہ کے طور پر انتہائی کمینے کو لئیم راضع کہا جاتا ہے ۔ درا صل یہ لفظ اس کنجوس شخص پر بولا جاتا ہے جو انتہائی بخل کی وجہ سے رات کے وقت اپنی بکریوں کے پستانوں سے دودھ چوس لے تاکہ کوئی ضرورت مند دودھ دوہنے کی آواز سنکر سوال نہ کرے ۔ پھر اس سے رضع فلان بمعنی لئم استعمال ہونے لگا ہے راضعتان بچے کے اگلے دو دانت جن کے ذریعے وپ مال کی چھاتی سے دودھ چوستا ہے ۔ اور ارضاع ( افعال ) کے معنی دودھ پلانا کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْوالِداتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كامِلَيْنِ لِمَنْ أَرادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضاعَةَ [ البقرة 233] اور جو شخص پوری مدت تک دودھ پلانا چاہے تو اس کی خاطر مائیں اپنی اولاد کو پورے دو برس دودھ پلائیں ۔ نیز فرمایا : ۔ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَ [ الطلاق 6] اگر وہ ( بچے کو ) تمہارے لئے دودھ پلانا چاہیں تو انہیں ان کی دودھ پلائی دو ۔ عام محاورہ ہے : ۔ فلان اخوہ من الرضاعۃ : ( بضم الراء ) وہ فلاں کا رضاعی بھائی ہے ۔ حدیث میں ہے : یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من النسب ۔ جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں وہ بوجہ رضاعت کے بھی حرام ہوجاتے ہیں ۔ الاسترضاع کسی سے دودھ پلوانا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلادَكُمْ [ البقرة 233] اگر تم اپنی اولاد کو ( کسی دایہ سے ) دودھ پلوانا چاہو ۔ یعنی انہیں مزدوری دے کر دودھ پلوانے کا ارادہ ہو ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247] .- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف 57] .- والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء 93] .- يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ .- والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - معْرُوفُ :- اسمٌ لكلّ فعل يُعْرَفُ بالعقل أو الشّرع حسنه، والمنکر : ما ينكر بهما . قال : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] ، وقال تعالی: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ لقمان 17] ، وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] ، ولهذا قيل للاقتصاد في الجود : مَعْرُوفٌ ، لمّا کان ذلک مستحسنا في العقول وبالشّرع . نحو : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] ، إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ [ النساء 114] ، وَلِلْمُطَلَّقاتِ مَتاعٌ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 241] ، أي : بالاقتصاد والإحسان، وقوله : فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق 2] ، وقوله : قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ [ البقرة 263] ، أي : ردّ بالجمیل ودعاء خير من صدقة كذلك، والعُرْفُ : المَعْرُوفُ من الإحسان، وقال : وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ- [ الأعراف 199] . وعُرْفُ الفرسِ والدّيك مَعْرُوفٌ ، وجاء القطا عُرْفاً. أي : متتابعة . قال تعالی: وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1]- المعروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور منکر ہر اس بات کو کہاجائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ جود ( سخاوت ) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی معروف کہاجاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے ۔ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ [ النساء 114] ہاں ( اس شخص کی مشاورت اچھی ہوسکتی ہے ) جو خیرات یا نیک بات ۔۔۔ کہے ۔ وَلِلْمُطَلَّقاتِ مَتاعٌ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 241] اور مطلقہ کو بھی دستور کے مطابق نان ونفقہ دینا چاہیے ۔ یعنی اعتدال اور احسان کے ساتھ ۔ نیز فرمایا : فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق 2] تو یا تو ان کی اچھی طرح سے زوجیت میں رہنے دو اور اچھی طرح سے علیحدہ کردو ۔ قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ [ البقرة 263] نرم بات اور درگذر کرنا صدقہ سے بہتر ہے ۔ یعنی نرم جواب دے کر لوٹا دینا اور فقیر کے لئے دعا کرنا اس صدقہ سے بہتر ہے جس پر احسان جتلایا جائے ۔ العرف : وہ نیک بات جس کی اچھائی کو سب تسلیم کرتے ہوں قرآن پاک میں ہے : وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ [ الأعراف 199] اور نیک کام کرنے کا حکم دو ۔ عرف الفرس گھوڑے کی ایال عرف الدیک : مرغی کی کلغی جاء القطاعرفا : قطار جانور آگے پیچھے یکے بعد دیگرے آئے اسی سے قرآن پاک میں ہے : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1] ہواؤں کی قسم جو متواتر چلتی ہیں ۔- عسر - العُسْرُ : نقیض الیسر . قال تعالی: فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً [ الشرح 5- 6] ، والعُسْرَةُ : تَعَسُّرُ وجودِ المالِ. قال : فِي ساعَةِ الْعُسْرَةِ [ التوبة 117] ، وقال : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] ، وأَعْسَرَ فلانٌ ، نحو : أضاق، وتَعَاسَرَ القومُ : طلبوا تَعْسِيرَ الأمرِ. وَإِنْ تَعاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرى[ الطلاق 6] ، ويَوْمٌ عَسِيرٌ: يتصعّب فيه الأمر، قال : وَكانَ يَوْماً عَلَى الْكافِرِينَ عَسِيراً [ الفرقان 26] ، يَوْمٌ عَسِيرٌ عَلَى الْكافِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ [ المدثر 9- 10] ، وعَسَّرَنِي الرّجلُ : طالبني بشیء حين العُسْرَةِ.- ( ع س ر ) العسر - کے معنی تنگی اور سختی کے ہیں یہ یسر ( آسانی فارغ البالی ) کی ضد ہے قرآن میں ہے : فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً [ الشرح 5- 6] یقینا مشکل کے ساتھ آسانی ہے بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے ۔ العسرۃ تنگ دستی تنگ حسالی قرآن میں ہے : ۔ فِي ساعَةِ الْعُسْرَةِ [ التوبة 117] مشکل کی گھڑی میں ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة 280] اور اگر قرض لینے والا تندست ہو ۔ اور اضاق فلان کی طرح اعسر فلان کے معنی ہیں وہ مفلس اور تنگ حال ہوگیا تعاسر القوم لوگوں نے معاملہ کو الجھا نے کی کوشش کی قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ تَعاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرى[ الطلاق 6] اور اگر باہم ضد ( اور نااتفاقی ) کرو گے تو ( بچے کو اس کے ) باپ کے ) کہنے سے کوئی اور عورت دودھ پلائے گی ۔ یوم عسیر سخت دن ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ يَوْماً عَلَى الْكافِرِينَ عَسِيراً [ الفرقان 26] اور وہ دن کافروں پر ( سخت ) مشکل ہوگا ۔ يَوْمٌ عَسِيرٌ عَلَى الْكافِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ [ المدثر 9- 10] مشکل کا دن ( یعنی ) کافروں پر آسان نہ ہوگا ۔ عسر الرجل تنگدستی کے وقت کسی چیز کا مطالبہ کرنا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

طلاق یافتہ عورت کے لئے سکونت مہیا کرنے کا بیان - قول باری ہے (اسکنوھن من حیث سکنتم من وجد کم ولا تضارو ھن لتضیقوا علیھن، ان کو (زمانہ عدت) میں اس جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو جیسی کچھ بھی جگہ تم کو میسر ہو اور انہیں تنگ کرنے کے لئے ان کو نہ ستائو) تاآخر آیت۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ فقہاء امصار اور اہل عراق، امام مالک اور امام شافعی سب کا اس پر اتفاق ہے کہ طلاق بائن پانے والی عورت کے لئے بھی سکونت مہیا کرنا واجب ہے جبکہ قاضی ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ صرف طلاق رجعی پانے والی عورت کے لئے سکونت مہیا کرنا واجب ہے۔ طلاق بائن پانے والی کے لئے کوئی سکونت نہیں۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری (فطلقوھن لعدتھن) مطلقہ رجعیہ اور مطلقہ بائنہ دونوں کو شامل ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جس عورت کو دو طلاقیں مل چکی ہوں اور اس کے حق میں صرف ایک طلاق باقی ہو۔ اگر شوہر اسے تیسری طلاق دینا چاہے گا تو آیت کی رو سے اس پر اپنی بیوی کو طلاق عدت دینا لازم ہوگا۔- اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (یطلقھا طاھرا من غیر جماع او حا ملا قداستبان حملھا، وہ اسے طہر کی حالت میں طلاق دے گا جس میں ہم بستری نہ ہوئی ہو یا حمل کی حالت میں طلاق دے گا جب کہ اس کا حمل ظاہر ہوچکا ہوگا) ۔- اس حکم کے اندر پہلی طلاق اور تیسری طلاق کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا جب قول باری (فطلقوھن لعدتھن) مطلقہ بائنہ کو بھی شامل ہے۔ پھر ارشاد ہوا (اسکنو ھن من حیث سکنتم من وجدکم) تو اس کا مطلقہ ، بائنہ اور رجعیہ دونوں کو شامل ہونا واجب ہوگیا۔- اگر یہ کہا جائے کہ قول باری ہے (لاتدری لعل اللہ یحدث بعد ذلا امرا) نیز ارشاد ہے (فاذا بلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف اوفار قوھن بمعروف) تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ طلاق رجعی مراد ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا آیت زیر بحث جن صورتوں کو شامل ہے مذکور ہ آیات میں اس کی ایک صورت کا ذکر ہے۔- اس میں یہ دلالت بھی موجود نہیں ہے کہ خطاب کا ابتدائی حصہ صرف طلاق رجعی کے بارے میں ہے۔ طلاق بائن کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ اس قول باری کی طرح ہے (والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء) اس میں طلاق رجعی اور بائن دونوں کے لئے عموم ہے۔- پھر قول باری (وبعولتھن احق بردھن اور ان کے شوہر انہیں واپس کرلینے کے زیادہ حقدار ہیں) مطلقہ رجعیہ کے ساتھ مخصوص حکم پر مشتمل ہے لیکن یہ بات قول باری (والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلاثۃ قروع) کو سب کے لئے عام ہونے کی راہ میں حائل نہیں ہے۔- قاضی ابن ابی لیلیٰ نے فاطمہ (رض) بنت قیس کی روایت سے استدلال کیا ہے۔ ہم اس پر آئندہ سطور میں مطلقہ بائنہ کے نفقہ کے متعلق بحث کے دوران روشنی ڈالیں گے (انشاء اللہ)- مطلقہ بائنہ کا نان ونفقہ - مطلقہ بائنہ کے نفقہ کے متعلق فقہاء امصار کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ ہر طلاق یافتہ عورت کو نام ونفقہ اور سکونت کی سہولتیں حاصل کرنے کا حق ہے جب تک وہ عدت کے اندر ہے خواہ وہ حاملہ ہو یا غیر حاملہ۔ حضرت عمر (رض) اور حضرت ابن مسعود (رض) سے اسی قسم کی روایت ہے۔- قاضی ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ طلقہ بائنہ کو نہ تو نفقہ دیا جائے گا اور ناہ ہی اس کے لئے سکونت فراہم کی جائے گی۔ ایک روایت کے مطابق ان کا قول ہے کہ سکونت مہیا کی جائے گی۔ لیکن نفقہ نہیں دیا جائے گا۔- عثمان البتی کا قول ہے کہ ہر طلاق یافتہ عورت کو نفقہ اور سکونت مہیا کی جائے گی۔ خواہ غیر حاملہ کیوں نہ ہو۔ ان کی رائے میں طلاق یافتہ عورت اگر خاوند کے گھر سے کسی اور جگہ منتقل ہوجانا چاہے تو وہ ایسا کرسکتی ہے۔- امام مالک کا قول ہے کہ مطلقہ بائنہ کے لئے سکونت فراہم کی جائے گی لیکن نفقہ نہیں دیا جائے گا البتہ اگر حاملہ ہو ت ونفقہ بھی دیا جائے گا ۔ امام مالک سے یہ بھی مروی ہے کہ شوہر اگر خوشحال ہو تو اس پر اس کی بائن طلاق یافتہ حاملہ بیوی کا نفقہ لازم ہوگا لیکن اگر تنگدست ہوگا تو اس پر کوئی نفقہ لازم نہیں ہوگا۔- اوزاعی ، لیث اور امام شافعی کا قول ہے مطلقہ بائنہ کے لئے سکونت فراہم کی جائے گی لیکن اسے نفقہ نہیں دیا جائے گا۔ البتہ اگر حاملہ ہو تو نفقہ بھی دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (اسکنوھن من حیث سکنتم من وجد کم ولا تضاروھن لتضیقوا علیھن ) یہ آیت مطلقہ بائنہ کے لئے نفقہ کے وجوف پر تین وجوہو سے دلالت کررہی ہے۔- اول یہ کہ سکونت فراہم کرنے کا تعلق مال کے اندر لاحق ہونے والے حق کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سکنی (سکونت مہیا کرنے) کے حق کو نص کتاب کے ذریعے واجب کردیا ہے کیونکہ آیت زیر بحث مطلقہ، رجعیہ اور بائنہ دونوں کو شامل ہے۔ یہی بات نفقہ کے وجوب کی بھی مقتضی ہے کیونکہ سکنیٰ کا تعلق مال کے اندر لاحق ہونے والے حق کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ نفقہ کا ایک حصہ ہے اس لئے سکنیٰ کی طرح نفقہ بھی واجب ہوگا۔- دوم یہ قول باری ہے (ولا تضاروھن) ظاہر ہے کہ مضارہ یعنی اسے ستانے کا عمل نفقہ میں ہوتا ہے جس طرح سکنیٰ میں ہوتا ہے۔- سوم قول باری ہے (لتضیقوا علیھن) تضییق یعنی تنگ کرنے کا عمل نفقہ کے سلسلے میں بھی ہوسکتا ہے اس لئے اس پر لازم کردیا گیا کہ وہ اپنی مطلقہ بیوی پر خرچ کرے اور خرچ کے سلسلے میں اس پر کوئی تنگی عائد نہ کرے۔- قول باری ہے (وان کن اولات حمل فانفقوا علیھن حتی یضعن حملھن، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر اس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک ان کا وضع حمل نہ ہوجائے)- آیت مطلقہ رجعیہ اور بائنہ دونوں کو شامل ہے۔ نفقہ کا وجوب یا تو حمل کی بنا پر ہوگا یا اس بنا پر کہ وہ شوہر کے گھر کی چاردیواری کے اندر رہنے کی پابند ہے۔ اب جب اس کا اس پر اتفاق ہے کہ مطلقہ رجعیہ کے لئے آیت کی بنا پر ، نہ کہ حمل کی بنا پر، نفقہ واجب ہے یعنی اس بنا پر کہ وہ شوہر کے گھر کی چاردیواری کے اندر رہنے کی پابند ہے تو پھر یہ ضروری ہے کہ اسی علت کی بنا پر مطلقہ بائنہ بھی نفقہ کی حق دار قرار دی جائے ۔ کیونکہ مطلقہ رجعیہ کے لئے نفقہ کے استحقاق کے سلسلے میں جو چیز علت قرار دی گئی ہے۔- اس کے لئے آیت میں ضمیر یعنی پوشیدہ الفاظ کی موجودگی کا ہمیں علم ہے۔ اس طرح آیت کا مفہوم یہ ہے ” فاتفقوا علیھن لعلۃ انھا محبوسۃ علیہ فی بیتہ “ ( ان پر اس علت کی بنا پر خرچ کرو کہ وہ شوہر کے گھر کی چاردیواری کے اندر رہنے کی پابند ہے) کیونکہ جس ضمیر یعنی پوشیدہ لفظ پر دلالت قائم ہوجائے وہ منطوق یعنی ظاہر لفظ کے حکم میں ہوتا ہے۔- اسے ایک اور جہت سے دیکھیے، وہ یہ کہ حاملہ عورت کو نفقہ کا استحقاق یا تو حمل کی بنا پر حاصل ہوتا ہے یا اس بنا پر کہ وہ شوہر کے گھر کی چاردیواری کے اندر رہنے کی پابند ہوتی ہے۔ - اگر پہلی صورت مراد ہو تو پھر یہ ضروری ہے کہ اس پر اس مال میں سے خرچ کیا جائے جو اس کے حمل کا ہو جس طرح نابالغ پر اس کے مال میں سے خرچ کیا جاتا ہے۔ اب جب سب کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اگر حمل کا مال ہو تو اس صورت میں بھی اس کی ماں کے اخراجات کا بوجھ اس کے سو ہر پر پڑے گا، حمل کے مال پر نہیں پڑے گا۔- یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نفقہ کے وجوب کا تعلق دوسری صورت کے ساتھ ہے یعنی اس کا وجوب اس بنا پر ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کے گھر کی چار دیواری کے اندر رہنے کی پابند ہوتی ہے۔ اگر پہلی صورت مراد ہوتی تو طلاق رجعی کے اندر بھی حاملہ عورت کا نفقہ حمل کے حال میں واجب ہوتا جس طرح ولادت کے بعد حمل کا نفقہ حمل کے مال میں واجب ہوتا ہے۔- جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ طلاق رجعی میں حاملہ کانفقہ حمل کے مال میں واجب نہیں ہوتا تو طلاق بائن کی صورت میں بھی ایسا ہی ہونا ضروری ہے۔ اور پھر بیویہ ہوجانے والی حاملہ عورت کا نفقہ میراث کے اندر حمل کے حصے میں سے ادا کیا جاتا ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ نفقہ کے ایجاب میں حاملہ عورت کے ذکر کی تخصیص کا کیا فائدہ ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس میں مطلقہ رجعیہ بھی داخل ہے اور یہ بات غیر حاملہ کے نفقہ کی نفی کے لئے مانع نہیں ہے۔ یہی بات مطلقہ بائنہ کے سلسلے میں بھیہوگی۔ حمل کا ذکر اس لئے ہوا ہے کہ حمل کی مدت کبھی کم ہوتی ہے اور کبھی زیادہ۔- اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ معلوم کرادینا چاہا کہ حمل کی مدت کی طوالت کی صورت میں بھی نفقہ واجب ہے۔ حمل کی یہ مدت عدت کی صورت میں حیض کی مدت سے زیادہ ہوتی ہے۔ نظر اور قیاس کی جہت سے بھی اسے اگر دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ طلاق یافتہ سرکش عورت اگر عدت کے دوران شوہر کے گھر سے نکل جائے تو زوجیت کی بقا کے باوجود وہ نفقہ کی حقدار نہیں ہوگی کیونکہ وہ اپنے آپ کو شوہر کے گھر میں رکھنے میں ناکام رہی لیکن وہ جب شوہر کے گھر میں واپس آجائے گی تو نفقہ کی مستحق بن جائے گی۔- اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جس سبب کی بنا پر وہ نفقہ کی مستحق ہوتی ہے وہ اس کا اپنے آپ کو شوہر کے گھر میں رکھنا ہے۔ جب ہم اور وہ حضرات جو سکنیٰ کے وجوب کے قائل ہیں سکنی کے وجوب پر متفق ہیں اور سکنیٰ کی بنا پر وہ اپنے آپ کو شوہر کے گھر کے حوالے کردینے والی بن گئی تو پھر یہ بات بھی واجب ہوگئی کہ وہ نفقہ کی مستحق قرار دی جائے۔- نیز جب حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ مطلقہ رجعیہ عدت میں نفقہ کی مستحق ہوتی ہے تو پھر مطلقہ ، بائنہ کا مستحق نفقہ ہونا بھی واجب ہوگیا۔ قدر مشترک یہ ہے کہ مطلقہ بائنہ بھی طلاق کی وجہ سے عدت گزاررہی ہے۔ یا آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ نکاح صحیح کی بناپر وہ شوہر کے گھر کی چاردیواری میں عدت گزارنے کی پابند ہے۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں جب اس کے لئے سکنیٰ واجب ہے تو نفقہ بھی واجب ہوگا۔- غرض ان باتوں میں سے جس بات کو بھی علت کا درجہ دے کر قیاس کریں گے آپ کا قیاس درست ہوگا۔ سنت کی جہت سے اس پر نظر ڈالیے۔- حمادبن سلمہ نے حماد بن ابی اسماعیل سے اور انہوں نے شعبی سے روایت کی ہے کہ فاطمہ بنت قیس کو ان کے شوہر نے طلاق بائن دے دی تھی وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں تو آپ نے انہیں فرمایا (لا نفقۃ لک ولا سکنیٰ تمہارے لئے نہ تو نفقہ ہے اور نہ ہی سکنیٰ )- راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم نخعی کو یہ حدیث سنائی تو انہوں نے کہا کہ حضرت عمر (رض) کو جب یہ حدیث سنائی گئی تھی تو انہوں نے فرمایا تھا ” ہم ایک عورت کے قول کی بنا پر جس میں اسے وہم ہوجانے کا پورا امکان موجود ہے، اللہ کی کتاب اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کو چھوڑ نہیں سکتے، میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خود یہ سنا ہے کہ اسے نفقہ اور سکنیٰ دونوں ملیں گے۔ “- سفیان نے سلمہ سے، انہوں نے شعبی سے، انہوں نے فاطمہ (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ جب ان کے شوہر نے انہیں تین طلاق دے دیں تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لئے نہ نفقہ واجب کیا اور نہ ہی سکنیٰ ۔- میں یعنی رواوی نے اس بات کا تذکرہ ابراہیم نخعی سے کیا تو انہوں نے کہا کہ حضرت عمر (رض) سے بھی یہی بات کہی گئی تھی تو انہوں نے فرمایا تھا کہ ہم ایک عورت کی بات پر اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ترک نہیں کرسکتے۔ اسے نفقہ اور سکنیٰ دونوں دیے جائیں گے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ دونوں روایتیں نفقہ اور سکنیٰ کے ایجاب پر نص ہیں۔ پہلی روایت میں حضرت عمر (رض) کے الفاظ ہیں : ” میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خود سنا ہے کہ اسے نفقہ اور سکنیٰ دونوں دیے جائیں گے “۔ اگر حضرت عمر (رض) کے یہ الفاظ نہ بھی ہوتے پھر بھی ان کا یہ قول کہ ” ہم اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ نہیں سکتے۔ “ اس امر کا مقتضی ہوتا کہ نفقہ اور سکنیٰ کے ایجاب پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے یہ بات نص ہے۔- جو حضرات نفقہ اور سکنیٰ دونوں کے یا صرف نفقہ کے وجوب کے قائل نہیں ہیں ان کے استدلال کی بنیاد فاطمہ بنت قیس کی مذکورہ بالا روایت ہے۔ حالانکہ یہ روایت ایسی ہے جس کی راویہ پر سلف نے نکیر کی ہے۔ دوسری طرف خبر واحد کو قبول کرنے کی ایک شرط یہ ہے کہ اس پر سلف نے نکیر نہ کی ہو۔- ہم نے حضرت عمر (رض) سے جو پہلی روایت نقل کی ہے اس میں آپ نے فاطمہ بنت قیس پر نکیر کی ہے۔ قاسم بن محمد نے روایت کی ہے کہ مروان نے حضرت عائشہ (رض) سے فاطمہ (رض) بنت قیس کی روایت بیان کی تو انہوں نے مروان سے کہا کہ ” اگر تم فاطمہ (رض) کی روایت بیان نہ کرو تو اس سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ “- بعض طرق کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے مروان سے کہا کہ ” اگر تم یہ روایت بیان کرو گے تو اس سے فاطمہ (رض) کی کوئی بھلائی نہیں ہوگی۔ “ حضرت عائشہ (رض) کی اس سے فاطمہ (رض) کی وہ روایت مراد ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسے نہ تو نفقہ ملے گا اور نہ سکنیٰ ۔ “- ابن المسیب کا قول ہے کہ اس عورت نے لوگوں کو آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ اس نے اپنے شوہر کے رشتہ داروں کے ساتھ زبان درازی کی تو اسے شوہر کے گھر سے منتقل ہوجانے کا حکم دیا گیا۔- ابوسلمہ نے کہا ہے کہ فاطمہ نے جو روایت بیان کی ہے اس پر لوگوں نے نکیر کی ہے۔ اعرج نے ابو سلمہ سے روایت کی ہے کہ فاطمہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت بیان کرتی تھیں کہ آپ نے انہیں فرمایا تھا (اعتدی فی بیت ابن امر مکتوم، تم ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت گزارو) ۔- ابو سلمہ کہتے ہیں کہ محمد بن اسامہ کا کہنا ہے کہ ان کے والد حضرت اسامہ (رض) کے سامنے جب فاطمہ بنت قیس کی اس روایت کا ذکر ہوتا تو وہ غصے سے اس چیز کو زمین پردے مارتے جو اس وقت ان کے ہاتھ میں ہوتی۔ ظاہر ہے کہ حضرت اسامہ (رض) اس شدت سے اس بنا قر نکیر کرتے تھے کہ انہیں فاطمہ (رض) کی روایت کے بطلان کا علم ہوچکا تھا۔ - عمار بن زریق نے ابو اسحاق سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں مسجد کے اندر اسود بن یزید کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ شعبی نے بیان کیا کہ مجھے فاطمہ بنت قیس نے روایت سنائی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا تھا کہ تمہیں نہ تو نفقہ ملے گا اور نہ ہی سکنیٰ ۔ جب اسود نے شعبی کی زبان سے یہ الفاظ سنے تو انہیں ایک کنکراٹھا کر مارا اور فرمایا ” افسوس ہے تم پر کہ تم ایسی روایت بیان کرتے ہو۔- یہی روایت حضرت عمر (رض) کے سامنے بیان ہوئی تھی جسے انہوں نے سن کر فرمایا تھا کہ ” ہم کتاب وسنت کو ایک عورت کی بات پر چھوڑ نہیں سکتے جس کے متعلق ہم نہیں جانتے کہ کہیں اس نے جھوٹ تو نہیں کہا ہے۔- اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (لا تخرجوھن من بیوتھن) زہری نے کہا ہے کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بتایا ہے کہ فاطمہ (رض) بنت قیس نے اپنی بھانجی کو جسے اس کے شوہر نے طلاق دے دی تھی، شوہر کے گھر سے منتقل ہوجانے کا فتویٰ دے دیا جسے گورنر مروان نے سخت ناپسند کیا اور پیغام بھیج کر فاطمہ (رض) سے اس فتوے کی حقیقت پوچھی تو انہوں نے جواب میں کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں یعنی فاطمہ کو یہی فتویٰ دیا تھا۔- مروان کو یہ بات بڑی عجیب لگی اور انہوں نے جواب میں کہلا بھیجا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (لا تخرجوھن من بیوتھن ولا یخرجن) اس پر فاطمہ (رض) نے جواباً کہلوا بھیجا کہ آیت کا تعلق طلاق رجعی کے ساتھ ہے کیونکہ ارشاد باری ہے (لا تدری لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا فاذا بلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف) ۔- اس کے جواب میں مروان نے کہا کہ ” میںے تم سے پہلے کسی سے یہ روایت نہیں سنی ہے اس لئے میں تو اس محفوظ راستے کو اختیار کروں گا جس پر میں نے لوگوں کو گامزن پایا ہے۔ “- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ فاطمہ (رض) بنت قیس پر اس روایت کے سلسلے میں مذکورہ بالا حضرات سلف نے نکیر کی ہے اور یہ بات تو واضح ہے کہ حضرات سلف لوگوں کی روایات پر نظر اور قیاس کی جہت سے نکیر نہیں کرتے تھے۔ اگر انہیں ظاہر کتاب وسنت سے اس روایت کے خلاف بات معلوم نہ ہوجاتی تو وہ اس روایت کے سلسلے فاطمہ (رض) پر ہرگز تنقید نہ کرتے۔ فاطمہ کی اس روایت کا چرچا صحابہ کرام کے اندر موجود تھا لیکن کسی نے بھی اس پر عمل نہیں کیا۔ البتہ حجاج بن ارطاۃ نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ تین طلاق پانے والی عورت اور بیوہ ہوجانے والی عورت کے لئے کوئی نفقہ نہیں۔ وہ جس جگہ چاہیں عدت گزار سکتی ہیں۔- فاطمہ بنت قیس اور ان کی روایت پر سلف کی نکیر اور حضرت عمر (رض) کی طرف سے اس روایت کی مخالفت کے سلسلے میں جن باتوں کا ہم نے ذکر کیا ہے وہ باتیں دونوں گروہوں یعنی نفقہ اور سکنیٰ دونوں کی نفی کرنے والوں نیز نفقہ کی نفی اور سکنی کا اثبات کرنے والوں کے ذمہ عائد ہوتی ہیں بلکہ یہ باتیں موخر الذکر گروہ کے ذمہ پہلے گروہ کی بہ نسبت زیادہ عائد ہوتی ہیں۔- کیونکہ انہوں نے نفی سکنیٰ کے سلسلے میں فاطمہ (رض) کی روایت کو کسی علت کی بنا پر ترک کردیا ہے جبکہ یہی علت نفی نفقہ کے سلسلے میں اس روایت کو ترک کرنے کی موجب بن رہی ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ فاطمہ (رض) بنت قیس کی روایت کو نفی سکنیٰ کے سلسلے میں اس لئے قبول نہیں کیا گیا کہ وہ ظاہر کتاب کے خلاف تھی کیونکہ ارشاد باری ہے (اسکنوھن ھن حیث سکنتم من وجدکم)- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ فاطمہ (رض) بنت قیس نے خود یہ استدلال کیا تھا کہ آیت کا تعلق مطلقہ ربعیہ کے ساتھ ہے اس کے باوجود اگر یہ کہنا درست ہے کہ فاطمہ بنت قیس کی کتاب اللہ کے خلاف ایک روایت میں وہم ہوگیا ہے اور ان سے غلطی سرزد ہوگئی ہے تو یہی بات نفقہ کے سلسلے میں بھی کہنا درست ہوگا۔- اس روایت کی ہمارے نزدیک ایک درست توجیہ موجود ہے جس کے تحت نفی نفقہ اور سکنیٰ کے سلسلہ میں فاطمہ کی یہ روایت ہمارے مسلک کے عین مطابق بن جاتی ہے۔ وہ اس طرح کہ فاطمہ کے متعلق یہ مروی ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر کے رشتہ داروں کے ساتھ بدزبانی کی تھی جس کے نتیجے میں انہوں نے فاطمہ کو اس کے گھر سے چلے جانے کے لئے کہا تھا۔ اس طرح وہ خود اس نقل مکانی کا سبب بن گئی تھیں جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (لا تخرجوھن من بیوتھن ولا یخرجن الا ان یا تین بفاحشۃ مبینۃ۔ )- اور حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ آیت کے آخری حصے کا مفہوم یہ ہے کہ مطلقہ عورت اہل خانہ کے ساتھ بدزبانی کرے اور گھر والے اسے نکال دیں۔ جب نقل مکانی کا سبب خود فاطمہ کی طرف سے وجود میں آیا تو ان کی حیثیت ناشزد جیسی ہوگئی یعنی ایسی عورت جیسی جو اپنے شوہر کے ساتھ سرکشی پر اتر آئے۔ - اس لئے فاطمہ (رض) کا نفقہ اور سکنیٰ دونوں ساقط ہوگئے اس طرح نفقہ کے اسقاط کے لئے جو علت موجبہ تھی وہی سکنیٰ کے اسقاط کے لئے بھی علت موجبہ بن گئی۔ یہ بات ہمارے اس اصول کی صحت پر دلالت کرتی ہے جس کے مطابق نفقہ کے استحقاق کا تعلق سکنیٰ کے استحقاق کے ساتھ ہوتا ہے۔- اگر یہ کہا جائے نفقہ سکنیٰ کی طرح نہیں ہے کیونکہ سکنیٰ کا تعلق اللہ کے حق کے ساتھ ہے اور اس کے اسقاط پر طرفین کی رضامندی کا جواز نہیں ہوتا اس کے برعکس نفقہ عورت کا حق ہے اگر وہ اس کے اسقاط پر راضی ہوجائے تو یہ ساقط ہوجاتا ہے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے جس جہت سے نفقہ کو سکنیٰ پر قیاس کیا ہے اس کے لحاظ سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے وہ اس طرح کہ سکنیٰ کے اندر دو پہلو ہیں ایک پہلو کا تعلق اللہ کے حق کے ساتھ ہے اور وہ یہ کہ مطلقہ اپنے شوہر کے گھر میں رہ کر عدت گزارے۔ دوسرے پہلو کا تعلق مطلقہ کے حق کے ساتھ ہے۔- وہ یہ کہ اگر شوہر کا اپنا گھر نہ ہو تو گھر کا کرایہ وغیرہ مال میں لازم ہوتا ہے اس صورت میں اگر مطلقہ بیوی کرایہ وغیرہ خود ادا کرنے اور شوہر سے اس کی ذمہ داری ساقط کرنے پر رضامند ہوجائے تو اس کا یہ اقدام جائز ہوگا۔ اس لئے سکنیٰ جس جہت سے مال کے ساتھ تعلق رکھنے والا حق قرار پاتا ہے اس جہت سے وہ اور نفقہ دونوں کی حیثیت یکساں ہوجاتی ہے۔- بیوہ ہوجانے والی حاملہ عورت کے نفقہ کے متعلق اہل علم کے درمیان اختلاف رائے ہے حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت ابن مسعود (رض) ، حضرت ابن عمر (رض) ، قاضی شریح، ابوالعالیہ، شعبی اور ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ شوہر کے پورے مال میں سے اس نفقہ دیا جائے گا جبکہ حضرت جابر (رض) ، حضرت عبداللہ ابن الزبیر (رض) ، حسن بصری، سعید بن المسیب اور عطاء کا قول ہے کہ شوہر کے مال میں سے اسے نفقہ نہیں دیا جائے گا بلکہ وہ اپنے نفقہ کی خود ذمہ دار ہوگی۔- فقہاء امصار کے مابین بھی اس مسئلے میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف امام زفر اور امام محمد کا قول ہے کہ میت کے مال میں سے اسے نہ نفقہ ملے گا اور نہ سکنیٰ خواہ وہ حاملہ ہو یا غیر حاملہ۔ قاضی ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ اس کا نفقہ مرحوم شوہر کے مال میں سے اس طرح ادا کیا جائے گا جس طرح میت کے مال میں سے اس کا قرض ادا کیا جاتا ہے بشرطیکہ بیوہ حاملہ ہو۔- امام مالک (رح) کا قول ہے کہ بیوہ خواہ حاملہ ہو اس کے نفقہ کی ذمہ داری خود اس پر ہوگی البتہ اگر مکان شوہر کا ہو تو بیوہ کو اس میں رہنے کا حق حاصل ہوگا۔ اگر مرحوم شوہر پر قرض وغیرہ ہو تو بیوہ کو عدت کے اختتام تک اس گھر پر قرض خوا ہوں کی نسبت زیادہ حق ہوگا۔ اگر بیوہ کرائے کے مکان میں رہتی ہو اور مالک مکان نے اسے نکال دیا ہو تو مرحوم شوہر کے مال میں اس کے لئے سکنیٰ کا حق نہیں ہوگا۔ یہ ابن وہب کی روایت ہے۔- ابن القاسم نے امام مالک کی طرف سے کہا ہے کہ مرحوم شوہر کے مال میں بیوہ کے لئے کوئی نفقہ نہیں ہے۔ اگر مکان مرحوم شوہر کا ہو تو اسے اس میں رہنے کا حق حاصل ہوگا۔ اگر شوہر پر قرض ہو تو اس مکان پر بیوہ کا حق قرض خواہوں کے حق سے بڑھ کر ہوگا۔ قرضہ کی ادائیگی کے سلسلے میں اگر مکان فروخت کیا جائے گا تو خریدار پر یہ شرط عائد کردی جائے گی کہ وہ بیوہ کو اس میں رہنے دے گا۔- الاشجعی نے سفیان ثوری سے نقل کیا ہے کہ بیوہ اگر حاملہ ہو تو وضع حمل تک مرحوم شوہر کے پورے مال سے اس کے اخراجات پورے کیے جائیں گے۔ وضع حمل کے بعد نوزائیدہ بچے کے حصے سے اس پر خرچ کیا جائے گا۔- المعانی نے سفیان ثوری سے نقل کیا ہے کہ بیوہ کا نفقہ ترکہ میں اس کے حصے سے ادا کیا جائے گا۔ اوزاعی کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص حاملہ بیوی چھوڑ کر مرجائے تو اسے کوئی نفقہ نہیں ملے گا اور اگر لونڈی حاملہ یعنی ام ولد ہو تو اسے وضع حمل تک پورے مال سے نفقہ دیاجائے گا۔- لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر لونڈی ام ولد اپنے آقا سے حاملہ ہو اور آقا مرجائے تو اسے آقا کے پورے مال سے نفقہ دیا جائے گا اگر وہ بچے کو جنم دے تو یہ نفقہ بچے کے حصے میں سے ادا کیا جائے گا۔ اگر بچے کی پیدائش نہ ہو تو یہ نفقہ بطور قرض ہوگا جس کی واپسی کی چار جوئی کی جائے گی۔- حسن بن صالح کا قول ہے کہ بیوہ ہوجانے والی عورت کو اس کے مرحوم شوہر کے پورے مال سے نفقہ دیا جائے گا۔ بیوہ ہوجانے والی عورت کے نفقہ کے بارے میں امام شافعی سے دو قول منقول ہیں۔ ایک قول کے مطابق اسے نفقہ اور سکنیٰ دونوں دیے جائیں گے اور دوسرے قول کے مطابق اسے نہ نفقہ دیا جائے گا اور نہ سکنیٰ ۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ غیر حاملہ بیوی کو نہ نفقہ ملے گا اور نہ ہی سکنیٰ ۔ اس لئے حاملہ بیوہ کا بھی یہی حکم ہونا ضروری ہے کیونکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اس نفقہ کا استحقاق حمل کی بنا پر نہیں ہوتا ۔- آپ نہیں دیکھتے کہ کسی نے بھی میراث میں حمل کے حصے میں سے نفقہ واجب نہیں کیا بلکہ اس بارے میں دوہی قول ہیں۔ ایک قول کے مطابق بیوہ کا نفقہ میراث کے اندر اس کے اپنے حصے میں سے ادا کیا جائے گا اور دوسرے قول کے مطابق مرحوم شوہر کے کل مال سے نفقہ دیا جائے گا۔- کسی نے بھی حمل کے حصے میں سے بیوہ کا نفقہ واجب نہیں کیا جب حمل کی بنا پر نفقہ واجب نہیں ہوا اور عدت میں ہونے کی بنا پر بھی نفقہ کا استحقاق جائز نہیں ہوتا کیونکہ اگر اس بنا پر نفقہ کا استحقاق ہوتا تو غیر حاملہ کے لئے بھی نفقہ واجب ہوجاتا اس لئے کوئی ایسی وجہ باقی نہیں رہی جس کی بنا پر اسے نفقہ کا مستحق قرار دیا جاسکے۔- نیز دلائل کی رو سے جب وہ مرحوم شوہر کے مال میں سکنیٰ کی مستحق قرار نہیں پاتی تو نفقہ کو مستحق بھی نہیں قرار پائے گی۔ نیز نفقہ کا وجوب جب ہوتا ہے تو یہ ایک حالت کے بعد دوسری حالت کے تحت واجب ہوتا ہے۔- شوہر کی وفات پر اس کی میراث ورثاء کی طرف منتقل ہوجاتی ہے اس حالت میں شوہر کا کوئی مال نہیں ہوتا بلکہ سارا مال ورثاء کا ہوجاتا ہے اس لئے ورثاء پر بیوہ کا نفقہ واجب کردینا جائز نہیں ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں مرحوم شوہر کے چھوڑے ہوئے ترکہ میں سے اسے کوئی نفقہ نہیں ملے گا۔- اگر یہ کہا جائے کہ بیوہ کے نفقہ کی حیثیت مرحوم شوہر پر عائد ہونے والے قرض کی طرح ہوتی ہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ میت کے مال میں ثابت ہونے والا قرض دو میں سے ایک وجہ کی بنا پر ثابت ہوتا ہے۔ یا تو یہ قرض میت پر اس کی زندگی میں ثابت ہو یا اس کے وجوب کا تعلق کسی ایسے سبب کے ساتھ ہو جس میں میت اپنی موت سے پہلے ملوث ہوچکا ہو۔ - مثلاً جنایات کی صورتیں یا مرحوم نے کوئی کنواں کھودا ہوا اور اس کی موت کے بعد کوئی انسان اس کنویں میں گر کر مرگیا ہو ۔ اب نفقہ ان دونوں وجوہ سے خارج ہے اس لئے میت کے مال میں اس کا ایجاب جائز نہیں ہوگا کیونکہ وہ سبب موجود نہیں ہے جس کی بنا پر نفقہ واجب ہوتا ہے اور مرحوم شوہر کا مال بھی نہیں ہوتا کیونکہ موت کے ساتھ ہی اس کا مال اس کے ورثاء کو منتقل ہوجاتا ہے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ موت کی بنا پر نکاح باطل ہوگیا اور میت کی ملکیت ورثاء کی طرف منتقل ہوگئی اس لئے نفقہ کے ایجاب کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ غیر حاملہ بیوہ کے لئے اس علت کی بنا پر نفقہ واجب نہیں ہوتا۔- اگر یہ کہا جائے کہ قول باری ہے باری ہے (وان کن اولات حمل فانفقوا علیھن) اس میں بیوہ ہوجانے والی اور طلاق یافتہ دونوں کے لئے عموم ہے جس طرح قول باری (واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن) میں دونوں صنف کے لئے عموم ہے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات اس بنا پر غلط ہے کہ قول باری (اسکنوھن من حیث سکنتم من وجد کم) میں شوہروں کو خطاب ہے۔- اسی طرح قول باری (وان کن اولات حمل فانفقوا علیھن) میں شوہروں کو خطاب ہے ۔ اب موت کی وجہ سے وہ اس خطاب کے مخاطب نہیں رہے، دوسری طرف اس خطاب کو شوہروں کے سوا دوسروں کی طرف متوجہ کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ اس لئے آیت کسی حالت میں بھی بیوہ ہوجانے والی عورت کے لئے نفقہ کے ایجاب کی مقتضی نہیں بنی۔- رضاعت کی اجرت - قول باری ہے (فان ارضعن لکم فاتوھن اجورھن۔ پھر اگر وہ تمہارے لئے (بچے کو) دودھ پلائیں تو ان کی اجرت انہیں دو ) آیت کئی احکام پر دلالت کو متضمن ہے۔ ایک تو یہ کہ اگر ماں بچے کو مناسب اجرت لے کر دودھ پلانے پر رضامند ہوجائے تو باپ کے لئے کسی اور عورت سے دودھ پلوانے کی گنجائش نہیں ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے باپ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ماں جب بچے کو دودھ پلاوے تو اسے اجرت دے دی جائے۔- یہ قول باری اس پر دلالت کرتا ہے کہ ماں بچے کی پرورش کی سب سے بڑھ کر حق دار ہوتی ہے ۔ اس پر بھی دلالت ہورہی ہے کہ اجرت کا استحقاق رضاعت کے عمل سے فراغت کے بعد ہوگا، رضاعت کا معاملہ طے ہونے کے ساتھ نہیں ہوگیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رضاعت کے بعداجرت واجب کی ہے چناچہ ارشاد ہے (فان ارضعن لکم فاتوھنااجورھن)- اس پر بھی دلالت ہورہی ہے کہ عورت کا دودھ اگرچہ عین یعنی قائم بالذات شمار ہوتا ہے لیکن اسے منافع کے قائم مقام کردیا گیا ہے جن کا استحقاق صرف اجارہ کے عقود کی بنا پر حاصل ہوتا ہے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب نے عورت کے دودھ کی بیع کو جائز قرار نہیں دیا ہے جس طرح منافع پر بیع کا عقد جائز نہیں ہوتا۔- اسی بات میں عورت کے دودھ کا حکم جانوروں کے دودھ کے حکم سے مختلف ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ بچے کو دودھ پلانے کے لئے کسی بکری کو اجارے پر لینا جائز نہیں ہوتا۔ کیونکہ اعیان یعنی قائم بالذات اشیاء پر اجارے کے عقود کے ذریعے حق ثابت نہیں ہوتا ۔ جس طرح کھجور کے درخت یا کسی اور درخت کو اجدارے پر لینے کا مسئلہ ہے۔- قول باری ہے (واتمرو ا بینکم بمعروف اور بھلے طریقے سے (اجرت کا معاملہ) باہمی گفت وشنید سے طے کرلو) یعنی……واللہ اعلم……عورت سے اجرت کے مطالبہ کے سلسلے میں اس پر زیادتی نہ کرے اور شوہر اس اجرت کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے جس پر عورت کا حق بنتا ہے۔- قول باری ہے (وان تعاسرتم فستر ضع لہ اخری۔ لیکن اگر تم نے (اجرت طے کرنے میں) ایک دوسرے کو تنگ کیا تو بچے کو کوئی اور عورت دودھ پلائے گی)- ایک قول کے مطابق اگر مطلقہ عورت یعنی بچے کی ماں مناسب اجرت سے زائد کا مطالبہ کرے اور دوسری عورت مناسب اجرت پر دودھ پلانے پر رضامندہوجائے تو شوہر کے لئے اس اجنبی عورت سے دودھ پلوانا جائز ہوگا۔ لیکن رضاعت کا یہ عمل بچے کی ماں کے گھر میں تکمیل پذیر ہوگا کیونکہ ماں ہی بچے کو اپنے پاس رکھنے کی زیادہ حق دار ہوتی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

پھر سابقہ بیان کی طرف اللہ تعالیٰ رجوع فرماتے ہیں کہ ان مطلقہ عورتوں کو اپنی وسعت کے مطابق نان نفقہ اور رہائش دو اور ان کو تنگ کرنے کے لیے نان نفقہ اور رہائش کے بارے میں تکلیف مت پہنچاؤ۔- اور اگر وہ مطلقہ عورتیں حمل والیاں ہیں تو وضع حمل تک خاوند ان کو کھانے پینے کا خرچ دیں اور اگر وہ مائیں تمہارے لیے بچہ کو دودھ پلائیں تو اس پر ان کو مقررہ اجرت دو اور میاں بیوی باہم ارضاع کے نفقہ پر مشورہ کرلیا کریں نہ بالکل اسراف ہی کریں اور نہ بالکل ہی کمی کردیں اور اگر نفقہ میں کشمکش ہو اور ماں بچہ کو دودھ پلانے پر راضی نہ ہو تو اجرت پر بچہ کو کسی اور سے دودھ پلوا دو ۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦ اَسْکِنُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِکُمْ ” اور ان عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم خود رہتے ہو اپنی حیثیت کے مطابق “- پہلی آیت میں واضح حکم آچکا ہے : لَا تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْم بُـیُوْتِہِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ کہ طلاق کے بعد انہیں فوری طور پر گھر سے مت نکالو اور نہ ہی وہ از خود نکلیں۔ اسی حوالے سے اس آیت میں مزید وضاحت کی جا رہی ہے کہ عدت کے دوران مطلقہ خاتون کو بدستور ویسی ہی رہائش فراہم کی جائے جیسی کہ تمہارے اپنے استعمال میں ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اسے گھر سے تو نہ نکالو لیکن کسی ملازمہ کی کو ٹھڑی میں ڈال دو ۔- وَلَا تُضَآرُّوْہُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْہِنَّ ” اور انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچائو ‘ انہیں تنگ کرنے کے لیے۔ “- گھر سے نکالنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حیلے بہانے سے اسے بار بار اس قدر ستایا جائے کہ وہ تنگ آکر خود ہی گھر سے نکل جائے۔ چناچہ بدنیتی پر مبنی یہ طریقہ استعمال کرنے سے بھی منع کردیا گیا ۔- وَاِنْ کُنَّ اُوْلَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْھِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَھُنَّج ” اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ حمل سے فارغ ہوجائیں۔ “- دین اسلام ‘ ہمدردی اور غم گساری کا دین ہے اور اس کا ایک ثبوت مندرجہ بالا حکم ہے۔ حاملہ عورت کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے ‘ اس لیے یہاں خصوصی طور پر حکم دیا گیا کہ طلاق دینے کے بعد بھی حاملہ عورت کا خیال رکھتے ہوئے اس کی تمام ضرورتوں کو پورا کرتے رہو۔ - فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَـکُمْ فَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ ” پھر اگر وہ تمہارے لیے (تمہارے بچے کو) دودھ پلائیں تو انہیں ان کا معاوضہ ادا کرو۔ “- وَاْتَمِرُوْا بَیْنَـکُمْ بِمَعْرُوْفٍ ” اور آپس میں مشورہ کرلیا کرو بھلے طریقے سے۔ “- یعنی دودھ پلانے کی اجرت اور عدت سے متعلق معاملات مناسب طور سے آپس کے مشورے سے طے کیے جانے چاہئیں۔ اگر طلاق کے بعد وہ دونوں میاں بیوی نہیں رہے تو کیا ہوا ‘ آخر دونوں انسان تو ہیں۔ چناچہ انہیں چاہیے کہ تمام معاملات باہمی گفت و شنید سے طے کریں اور ایک دوسرے سے ایسا رویہ اختیار کریں جیسا کہ ایک شریف انسان کو دوسرے شریف انسان سے اختیار کرنا چاہیے۔- وَاِنْ تَـعَاسَرْتُمْ ” اور اگر تم ایک دوسرے سے تنگی محسوس کرو “- مثلاً خاتون ضد میں آکر دودھ پلانے سے انکار کر دے یا اس قدر معاوضہ مانگے جو مرد ادا نہ کرسکے ‘ یا مرد معاوضہ دینے سے انکار کر دے ‘ یا کسی اور طریقے سے ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرنے کی ٹھان لے :- فَسَتُرْضِعُ لَــہٗٓ اُخْرٰی ۔ ” تو پھر کوئی اور عورت اس کے لیے دودھ پلائے گی۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :16 اس امر میں تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ مطلّقہ کو اگر رجعی طلاق دی گئی ہو تو شوہر پر اس کی سکونت اور اس کے نفقہ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ اور اس امر پر بہی اتفاق ہے کہ اگر عورت حاملہ ہو ، تو خو اہ اسے رجعی طلاق دی گئی ہو یا قطعی طور پرا لگ کر دینے والی بہر حال اس کے وضع حمل تک اس کی سکونت اور اس کے نفقہ کا ذمہ دار شو ہر ہو گا ۔ اس کے بعد اختلاف اس امر میں ہو ا ہے کہ آیا غیر حاملہ مطلّقہ مَبتُوتہ ( یعنی جسے قطعی طور پرا لگ کر دینے والی طلاق دی گئی ہو ) سکونت اور نفقہ دونوں کی حق دار ہے ؟ یا صرف سکونت کا حق رکہتی ہے ؟ یا دونوں میں سے کسی کی بھی حق دار نہیں ہے ؟ ایک گروہ کہتا ہے کہ وہ سکونت اور نفقہ دونوں کی حق دار ہے ۔ یہ رائے حضرت عمر ، حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت علی بن حسین ( امام زین العابد ین ) ، قاضی شُریح اور ابراہیم نخعی کی ہے ۔ اسی کو حنفیہ نے اختیار کیا ہے ، اور امام سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا بھی یہی مذہب ہے ۔ اس کی تائید دار قطنی کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : المطلقۃ ثلاثا لھا السکنٰی والنفقۃ ، جس عورت کو تین طلاقیں دی جاچکی ہوں اس کے لیے زمانہ عدت میں سکونت اور نفقہ کا حق ہے ۔ اس کی مزید تائید ان روایات سے ہوتی ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ فاطمہ بنت قیس کی حدیث کو حضرت عمر نے یہ کہہ کر رد کر دیا تھا کہ ایک عورت کے قول پر اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ترک نہیں کر سکتے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کے علم میں لازماً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ سنت ہوگی کہ ایسی عورت کے لیے نفقہ اور سکونت کا حق ہے ۔ بلکہ ابراہیم نخعی کی ایک روایت میں تو یہ تصریح ہے کہ حضرت عمر نے فاطمہ بنت قیس کی حدیث کو رد کرتے ہوئے فرمایا تھا سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقول لھا السکنٰی و النفقۃ ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ایسی عورت کے لیے سکونت کا حق بھی ہے اور نفقہ کا بھی امام ابوبکر جصاص احکام القرآن میں اس مسئلے پر مفصل بحث کرتے ہوئے اس مسلک کے حق میں پہلی دلیل یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مطلقاً فرمایا ہے فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ ، ان کو ان کی عدت کے لیے طلاق دو اس فرمان الہٰی کا اطلاق اس شخص پر بھی تو ہوتا ہے جو دو طلاق پہلے دے کر رجوع کر چکا ہو اور اب اسے صرف ایک ہی طلاق دینے کا حق باقی ہو ۔ دوسری دلیل ان کی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے طلاق دینے کا جب یہ طریقہ بتایا کہ آدمی یا تو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں مباشرت نہ کی گئی ہو یا ایسی حالت میں طلاق دے جبکہ عورت کا حاملہ ہونا ظاہر ہو چکا ہو تو اس میں آپ نے پہلی ، دوسری ، یا آخری طلاق کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ ان کو اسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو ہر قسم کی طلاق سے متعلق مانا جائے گا ۔ تیسری دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ حاملہ مطلقہ خواہ رجعیہ ہو یا مبتوتہ ، اس کی سکونت اور اس کا نفقہ شوہر پر واجب ہے ۔ اور غیر حاملہ رجعیہ کے لیے بھی یہ دونوں حقوق واجب ہیں ۔ اس سے معلوم ہو ا کہ سکونت اور نفقہ کا وجوب دراصل حمل کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ یہ دونوں قسم کی عورتیں شرعاً شوہر کے گھر میں رہنے پر مجبور ہیں ۔ اب اگر یہی حکم مبتوتہ غیر حاملہ کے بارے میں بھی ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی سکونت اور اس کا نفقہ مرد کے ذمہ نہ ہو ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ مطلقہ مبتوتہ کے لیے سکونت کا حق تو ہے مگر نفقہ کا حق نہیں ہے ۔ یہ مسلک سعید بن المسیب ، سلیمان بن یسار ، عطاء ، شعبی ، اوزاعی ، لیث اور ابو عبید رحمہم اللہ کا ہے ، اور امام شافعی اور امام مالک نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے ۔ لیکن مغنی المحتاج میں امام شافعی کا مسلک اس سے مختلف بیان ہوا ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے ۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ مطلقہ مبتوتہ کے لیے نہ سکونت کا حق ہے نہ نفقہ کا ۔ یہ مسلک حسن بصری ، حماد ، ابن ابی لیلیٰ ، عمرو بن دینار ، طاؤس ، اسحاق بن راہویہ ، اور ابو ثور کا ہے ۔ ابن جریر نے حضرت ابن عباس کا بھی یہی مسلک نقل کیا ہے ۔ امام احمد بن حنبل اور امامیہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے ۔ اور مغنی المحتاج میں شافعیہ کا مسلک بھی یہ بیان کیا گیا ہے کہ تجب سکنٰی لمعتدۃِ طلاقٍ او حاملٍ ولا بائن………… والحائل البائن لا نفقۃ لھا ولا کسوۃ ۔ طلاق کی بنا پر جو عورت عدت گزار رہی ہو اس کے لیے سکونت کا حق واجب ہے خواہ وہ حاملہ ہو یا نہ ہو ، مگر بائنہ کے لیے واجب نہیں ہے ………… اور غیر حاملہ بائنہ کے لیے نہ نفقہ ہے اور نہ کپڑا ۔ اس مسلک کا استدلال ایک تو قرآن مجید کی اس آیت سے ہے کہ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللہُ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْراً ، تم نہیں جانتے ، شاید اس کے بعد اللہ موافقت کی کوئی صورت پیدا کر دے ۔ اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ بات مطلقہ رجعیہ کے حق ہی میں درست ہو سکتی ہے نہ کہ مبتوتہ کے حق میں ۔ اس لیے مطلقہ کو گھر میں رکھنے کا حکم بھی رجعیہ ہی کے لیے خاص ہے ۔ دوسرا استدلال فاطمہ بنت قیس کی حدیث سے ہے جسے کتب حدیث میں بکثرت صحیح سندوں کے ساتھ روایت کیا گیا ہے ۔ یہ فاطمہ بن قیس الفہریہ اولین مہاجرات میں سے تھیں ، بڑی عاقلہ سمجھی جاتی تھیں ، اور حضرت عمر کی شہادت کے موقع پر اصحاب شوریٰ کا اجتماع انہی کے ہاں ہوا تھا ۔ یہ پہلے ابو عمرو بن حفص المحیرۃ المخزُومی کے نکاح میں تھیں ، پھر ان کے شوہر نے ان کو تین طلاقیں دے کر الگ کر دیا ، اور بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا نکاح حضرت اسامہ بن زید سے کیا ۔ ان کا قصہ یہ ہے کہ ان کو شوہر ابو عمرو پہلے ان کو دو طلاق دے چکے تھے ۔ پھر جب حضرت علی کے ساتھ وہ یمن بھیجے گئے تو انہوں نے وہاں سے باقی ماندہ تیسری طلاق بھی ان کو بھیج دی ۔ بعض روایات میں یہ ہے کہ ابو عمرو ہی نے اپنے رشتہ داروں کو پیغام بھیجا تھا کہ عدت کے زمانے میں ان کو گھر میں رکھیں اور ان کا خرچ برداشت کریں ۔ اور بعض میں یہ ہے کہ انہوں نے خود نفقہ و سکونت کے حق کا مطالبہ کیا تھا ۔ بہر حال جو صورت بھی ہو ، شوہر کے رشتہ داروں نے ان کا حق ماننے سے انکار کر دیا ۔ اس پر یہ دعویٰ لے کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچیں ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ نہ تمہارے لیے نفقہ ہے نہ سکونت ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انما النفقہ والسکنٰی للمرأۃ علیٰ زوجھا ما کانت لۂ علیھا رجعۃ ، فاذالم یکن لہ علیہا رجعۃ فلا نفقۃ ولا سکنٰی ۔ عورت کا نفقہ اور اس کی سکونت تو شوہر پر اس صورت میں واجب ہے جب کہ شوہر کو اس پر رجوع کا حق ہو ۔ مگر جب رجوع کا حق نہ ہو تو نہ نفقہ ہے نہ سکونت ( مسند احمد ) ۔ طبرانی اور نسائی نے بھی قریب قریب یہی روایت نقل کی ہے اور اس کے آخری الفاظ یہ ہیں فاذا کانت لا تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ فلا نفقۃ ولا سکنٰی ۔ لیکن جب وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہو جب تک اس کے سوا کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے تو پھر اس کے لیے نہ نفقہ ہے نہ سکونت ۔ یہ حکم بیان کرنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پہلے ام شریک کے گھر میں عدت گزارنے کا حکم دیا اور بعد میں فرمایا کہ تم ابن ام مکتوم کے ہاں رہو ۔ لیکن اس حدیث کو جن لوگوں نے قبول نہیں کیا ہے ان کے دلائل یہ ہیں: اولاً ، ان کو شوہر کے رشتہ داروں کا گھر چھوڑنے کا حکم اس لیے دیا گیا تھا کہ وہ بہت تیز زبان تھیں اور شوہر کے رشتہ دار ان کی بد مزاجی سے تنگ تھے ۔ سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ ان خاتون نے اپنی حدیث بیان کر کے لوگوں کو فتنے میں ڈال دیا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ زبان دراز تھیں ، اس لیے ان کو ابن ام مکتوم کے ہاں رکھا گیا ( ابو داؤد ) ۔ دوسری روایت میں سعید بن المسیب کا یہ قول منقول ہوا ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر کے رشتہ داروں سے زبان درازی کی تھی اس لیے انہیں اس گھر سے منتقل ہونے کا حکم دیا گیا تھا ( جصاص ) ۔ سلیمان بن یسار کہتے ہیں ان کا گھر سے نکلنا در اصل بد مزاجی کی وجہ سے تھا ( ابو داؤد ) ۔ ثانیاً ، ان کی روایت کو حضرت عمر نے اس زمانے میں رد کر دیا تھا جب بکثرت صحابہ موجود تھے اور اس معاملہ کی پوری تحقیقات ہو سکتی تھی ۔ ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر کو فاطمہ کی یہ حدیث پہنچی تو انہوں نے فرمایا لسنا بتارکی اٰیۃ فی کتاب اللہ و قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لقول امرأۃ لعلھا اوھمت سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقول لھا السکنٰی و النفقۃ ۔ ہم کتاب اللہ کی ایک آیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قول کو ایک عورت کے قول کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتے جسے شاید کچھ وہم ہوا ہے ۔ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ مبتوتہ کے لیے سکونت کا حق بھی ہے اور نفقہ کا بھی ( جصاص ) ۔ ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں اسود بن یزید کے پاس کوفہ کی مسجد میں بیٹھا تھا ۔ وہاں شعبی نے فاطمہ بنت قیس کی حدیث کا ذکر کیا ۔ اس پر حضرت اسود نے شعبی کو کنکریاں کھینچ ماریں اور کہا کہ حضرت عمر کے زمانے میں جب فاطمہ کی یہ روایت پیش کی گئی تھی تو انہوں نے کہا تھا ہم اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ایک عورت کے قول کی وجہ سے رد نہیں کر سکتے ، معلوم نہیں اس نے یاد رکھا یا بھول گئی ۔ اس کے لیے نفقہ اور سکونت ہے ، اللہ کا حکم ہے لَا تُخرِجُوْھُنَّ مِنْ بُیُوْتِھِنَّ یہ روایت باختلاف الفاظ مسلم ، ابو داؤد ، ترمذی اور نسائی میں منقول ہوئی ہے ۔ ثالثاً ، مروان کے زمانہ حکومت میں جن مطلقہ مبتوتہ کے متعلق ایک نزاع چل پڑی تھی ، حضرت عائشہ نے فاطمہ بنت قیس کی روایت پر سخت اعتراضات کیے تھے ۔ قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے پوچھا کیا آپ کو فاطمہ کا قصہ معلوم نہیں ہے ؟ انہوں نے جواب دیا فاطمہ کی حدیث کا ذکر نہ کرو تو اچھا ہے ( بخاری ) بخاری نے دوسری روایت جو نقل کی ہے اس میں حضرت عائشہ کے الفاظ یہ ہیں فاطمہ کو کیا ہو گیا ہے ، وہ خدا سے ڈرتی نہیں؟ تیسری روایت میں حضرت عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے فرمایا فاطمہ کے لیے یہ حدیث بیان کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے ۔ حضرت عروہ ایک اور روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے فاطمہ پر سخت ناراضی کا اظہار فرمایا اور کہا وہ دراصل ایک خالی مکان میں تھیں جہاں کوئی مونس نہ تھا اس لیے ان کی سلامتی کی خاطر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو گھر بدل دینے کی ہدایت فرمائی تھی ۔ رابعاً ، ان خاتون کا نکاح بعد میں اسامہ بن زید سے ہوا تھا ، اور محمد بن اسامہ کہتے ہیں کہ جب کبھی فاطمہ اس حدیث کا ذکر کرتیں میرے والد ، جو چیز بھی ان کے ہاتھ لگتی اٹھا کر ان پر دے مارتے تھے ( جصاص ) ۔ ظاہر ہے کہ حضرت اسامہ کے علم میں سنت اس کے خلاف نہ ہوتی تو وہ اس حدیث کی روایت پر اتنی ناراضی کا اظہار نہیں کر سکتے تھے ۔ سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :17 یہ امر متفق علیہ ہے کہ مطلقہ ، خواہ رجعیہ ہو یا مبتوتہ ، اگر حاملہ ہو تو وضع حمل تک اس کی سکونت اور اس کے نفقہ کا ذمہ دار شوہر ہے ۔ البتہ اختلاف اس صورت میں ہے جبکہ حاملہ کا شوہر مرگیا ہو ، قطع نظر اس سے کہ وہ طلاق دینے کے بعد مرا ہو ، یا اس نے کوئی طلاق نہ دی ہو اور عورت زمانہ حمل میں بیوہ ہوگئی ہو ۔ اس معاملہ میں فقہاء کے مسالک یہ ہیں: 1 ) ۔ حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود کا قول ہے کہ شوہر کے مجموعی ترکہ میں اس کا نفقہ واجب ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر ، قاضی شریح ، ابو العالیہ ، شعبی اور ابراہیم نخعی سے بھی یہی قول منقول ہے ، اور حضرت عبد اللہ بن عباس کا بھی ایک قول اسی کی تائید میں ہے ( آلوسی ۔ جصاص ) ۔ 2 ) ۔ ابن جریر نے حضرت عبد اللہ بن عباس کا دوسرا قول یہ نقل کیا ہے کہ اس پر اس کے پیٹ کے بچہ کے حصے میں سے خرچ کیا جائے اگر میت نے کوئی میراث چھوڑی ہو ۔ اور اگر میراث نہ چھوڑی ہو تو میت کے وارثوں کو اس پر خرچ کرنا چاہیے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ ( البقرہ ، آیت 233 ) ۔ 3 ) ۔ حضرت جابر بن عبد اللہ ، حضرت عبداللہ بن الزبیر ، حضرت حسن نصری ، حضرت سعید بن المُسَیَّب اور حضرت عطاء بن ابی رَباح کہتے ہیں کہ متوفیٰ شوہر کے مال میں اس کے لیے کوئی نفقہ نہیں ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی ایک تیسرا قول یہی منقول ہوا ہے ( جصاص ) ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شوہر کے ترکہ میں سے اس کو جو میراث کا حصہ ملا ہو اس سے وہ اپنا خرچ پورا کر سکتی ہے ، لیکن شوہر کے مجموعی ترکے پر اس کا نفقہ عائد نہیں ہوتا جس کا بار تمام وارثوں پر پڑے ۔ 4 ) ۔ ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ اس کا نفقہ متوفی شوہر کے مال میں اسی طرح واجب ہے جس طرح اس کے مال میں کسی کا قرض واجب ہوتا ہے ( جصاص ) ۔ یعنی مجموعی ترکہ میں سے جس طرح قرض ادا کیا جاتا ہے اسی طرح اس کا نفقہ بھی ادا کیا جائے ۔ 5 ) ۔ امام ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف ، امام محمد اور امام زُفر کہتے ہیں کہ میت کے مال میں اس کے لیے نہ سکونت کا حق ہے نہ نفقہ کا ۔ کیونکہ موت کے بعد میت کی کوئی ملکیت ہی نہیں ہے ۔ اس کے بعد تو وہ وارثوں کا مال ہے ۔ ان کے مال میں حاملہ بیوہ کا نفقہ کیسے واجب ہو سکتا ہے ( ہدایہ ، جصاص ) ۔ یہی مسلک امام احمد بن حنبل کا ہے ( الانصاف ) ۔ 6 ) ۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ اس کے لیے کوئی نفقہ نہیں ہے ، البتہ اسے سکونت کا حق ہے ( مُغنی المحتاج ) ۔ ان کا اسدلال حضرت ابو سعید خدری کی بہن فریعہ بنت مالک کے اس واقعہ سے ہے کہ ان کے شوہر جب قتل کر دیے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو حکم دیا کہ شوہر کے گھر ہی میں عدت گزاریں ( ابو داؤد ، نسائی ، ترمذی ) ۔ مزید برآں ان کا استدلال دارقُطنی کی اس روایت سے ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: للحامل المتوفی عنھا زوجھا نفقۃ ۔ بیوہ حاملہ کے لیے کوئی نفقہ نہیں ہے ۔ یہی مسلک امام مالک کا بھی ہے ( حاشیۃ الد سوقی ) ۔ سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :18 اس ارشاد سے کئی اہم باتیں معلوم ہوئیں ۔ ایک یہ کہ عورت اپنے دودھ کی مالک ہے ، ورنہ ظاہر ہے کہ وہ اس کی اجرت لینے کی مجاز نہیں ہو سکتی تھی ۔ دوسرے یہ کہ جب وہ وضع حمل ہوتے ہی اپنے سابق شوہر کے نکاح سے باہر ہو گئی تو بچے کو دودھ پلائے گی ور اس پر اجرت لینے کی حق دار ہو گی ۔ تیسرے یہ کہ باپ بھی قانوناً مجبور نہیں ہے کہ بچے کی ماں ہی سے اس کو دودھ پلوائے ۔ چوتھے یہ کہ بچے کا نفقہ باپ پر عائد ہوتا ہے ۔ پانچویں یہ کہ بچے کو دودھ پلانے کی اولین حق دار ماں ہے اور دوسری عورت سے رضاعت کا کام اسی صورت میں لیا جاسکتا ہے جبکہ ماں خود اس پر راضی نہ ہو ، یا اس کی اجرت مانگے جس کا ادا کرنا باپ کی مقدرت میں نہ ہو ۔ اسی سے چھٹا قاعدہ یہ نکلتا ہے کہ اگر دوسری عورت کو بھی وہی اجرت دینی پڑے جو بچے کی ماں مانگتی ہو تو ماں کا حق اولیٰ ہے ۔ فقہاء کی آراء اس مسئلے میں یہ ہیں: ضحاک کہتے ہیں کہ بچے کی ماں اسے دودھ پلانے کی زیادہ حق دار ہے ۔ مگر اسے اختیار ہے کہ چاہے دودھ پلائے یا نہ پلائے ۔ البتہ اگر بچہ دوسری عورت کی چھاتی قبول نہ کرے تو ماں کو اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے گا ۔ اسی سے ملتی جلتی رائے قتادہ اور ابراہیم نخعی اور سفیان ثوری کی ہے ۔ ابراہیم نخعی یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر دوسرے عورت رضاعت کے لیے نہ مل رہی ہو تب بھی ماں کو اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے گا’‘ ( ابن جریر ) ۔ ہدایہ میں ہے ، اگر ماں باپ کی علیٰحدگی کے وقت چھوٹا بچہ دودھ پیتا ہو تو ماں پر یہ فرض نہیں ہے کہ وہی اسے دودھ پلائے ۔ البتہ اگر دوسری عورت نہ ملتی ہو تو وہ رضاعت پر مجبور کی جائے گی ۔ اور اگر باپ یہ کہے کہ میں بچے کی ماں کو اجرت دے کر اس سے دودھ پلوانے کے بجائے دوسری عورت سے اجرت پر یہ کام لوں گا ، اور ماں دوسری عورت ہی کے برابر اجرت مانگ رہی ہو ، یا بلا اجرت ہی اس خدمت کے لیے راضی ہو ، تو اس صورت میں ماں کا حق مقدم رکھا جائے گا ۔ اور اگر بچے کی ماں زیادہ اُجرت مانگ رہی ہو تو باپ کو اس پر مجبور نہیں کیا جائے گا ۔ سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :19 اس میں ماں اور باپ دونوں کے لیے عتاب کا ایک پہلو ہے ۔ انداز بیان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پچھلی تلخیوں کی بنا پر ، جن کے باعث بالآخر طلاق تک نوبت پہنچی تھی ، دونوں بھلے طریقہ سے آپس میں بچے کی رضاعت کا معاملہ طے نہ کریں تو یہ اللہ کو پسند نہیں ہے ۔ عورت کو تنبیہ کی گئی ہے کہ تو زیادہ اجرت مانگ کر مرد کو تنگ کرنے کی کوشش کرے گی تو بچے کی پرورش کچھ تیرے ہی اوپر موقوف نہیں ہے ، کوئی دوسری عورت اسے دودھ پلالے گی ۔ اور مرد کو بھی تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر تو ماں کی مامتا سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اسے تنگ کرنا چاہے گا تو یہ بھلے آدمیوں کا سا کام نہ ہو گا ۔ قریب قریب یہی مضمون سورہ بقرہ ، آیت 233 میں زیادہ تفصیل کے ساتھ ارشاد ہوا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: مرد کو یہ نہ سوچنا چاہئیے کہ اب بیوی کو رُخصت کرنا ہی ہے، اس لئے اسے ستاکر رُخصت کروں۔ اُس کے بجائے اُس کے گھر میں رہنے کے دوران اُس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہئیے، اور اسی آیت سے حنفی حضرات نے یہ بھی اِستدلال کیا ہے کہ مطلقہ چاہے رجعی ہو یا بائنہ عدّت کے دوران اُس کا نفقہ شوہر کے ذمے واجب ہے کیونکہ نفقہ نہ دینا ستانے کا ہی ایک طریقہ ہے، جس سے اس آیت میں منع فرمایا گیا ہے۔ 10: عام حالت میں تو عدّت تین مہینے کے قریب قریب پوری ہوجاتی ہے، لیکن چونکہ حمل کی مدّت اس سے لمبی بھی ہوسکتی ہے، اس لئے اس حالت کا خاص طور پر ذکر فرماکر حکم دیا گیا ہے کہ نفقہ بچے کی پیدائش تک جاری رہے گا، چاہے اُس میں کتنی دیر لگے۔ 11: مطلقہ عورت خود اپنے بچے کو دُودھ پلانے کے لئے اپنے سابق شوہر اور بچے کے باپ سے اُجرت کا مطالبہ کرسکتی ہے اور آیت میں ترغیب دی گئی ہے کہ اُجرت آپس کی رضا مندی سے طے کرلینی چاہئے۔ نہ تو شوہر اس میں بخل سے کام لے، کیونکہ اگر آپس کی رضامندی سے بات طے نہ ہوسکی تو کسی اور عورت کو رکھنا پڑے گا، اور ظاہر ہے کہ وہ رِواج کے مطابق اُجرت مانگے گی ،، لہٰذا کیوں نہ بچے کی ماں ہی کو وہ اُجرت دے دی جائے، نیز ماں کو بھی یہ نہ چاہئیے کہ وہ رواج سے زیادہ اُجرت کا مطالبہ کرے، کیونکہ اُس صورت میں بچے کا باپ کسی اور عورت سے دُودھ پلوانے پر مجبور ہوگا، اور ماں کے لئے یہ اچھی بات نہیں ہے کہ وہ محض زیادہ پیسوں کے لالچ میں اپنے بچے کو کسی اور سے دُودھ پلوائے۔