Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یعنی دودھ پلانے والی عورتوں کو اجرت اپنی طاقت کے مطابق دی جائے اگر اللہ نے مال ودولت میں فراخی عطا فرمائی ہے تو اسی فراخی کے ساتھ مرضعۃ کی خدمت ضروری ہے۔ 7۔ 2 یعنی مالی لحاظ سے کمزور ہو۔ 7۔ 3 اس لیے وہ غریب اور کمزور کو یہ حکم نہیں دیتا کہ وہ دودھ پلانے والی کو زیادہ اجرت ہی دے۔ مطلب ان ہدایات کا یہ ہے کہ بچے کی ماں اور بچے کا باپ دونوں ایسا مناسب رویہ اختیار کریں کہ ایک دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے اور بچے کو دودھ پلانے کا مسئلہ سنگین نہ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ( لَا تُضَاۗرَّ وَالِدَةٌۢ بِوَلَدِھَا وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ ) 2 ۔ البقرۃ :233) نہ ماں کو بچے کی وجہ سے تکلیف پہنچائی جائے اور نہ باپ کو۔ 7۔ 4 چناچہ جو اللہ پر اعتماد وتوکل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو آسانی و کشادگی سے بھی نواز دیتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٢] اس آیت میں دوبارہ اس سلسلہ میں فیاضی سے کام لینے کی ترغیب دی گئی ہے کہ ہر باپ اپنی مقدور کے مطابق ماں کو دودھ پلانے کی اجرت ادا کرے۔ خواہ وہ مالدار ہے یا تنگدست اور اگر تنگدست ہے تو بھی اپنی حیثیت کے مطابق خرچ دینے میں بخل سے کام نہ لے۔ اگر وہ بخل سے کام نہ لے گا تو اللہ اس کی تنگی کو دور فرما دے گا۔ اور اس کے لیے رزق کی راہیں کھول دے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَۃٍ مِّنْ سَعَتِہٖ ۔۔۔: اس سے معلوم ہوا کہ نفقہ میں بیوی کی حالت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، بلکہ خاوند کی حالت کے مطابق نفقہ واجب ہوگا ۔ اگر خاوند وسعت والا اور مال دار ہے تو اس کے مطابق خرچ کرے گا اور اگر وہ تنگدست ہے تو اللہ نے اسے جو کچھ دیا ہے اس میں سے اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرے۔- ٢۔ سَیَجْعَلُ اللہ ُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا : اس میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو خاوند حسب مقدور وہ خرچے پورے کرتے ہیں جو انکے ذمے ہیں اور ان میں بخل نہیں کرتے ، تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے تنگی کے بعد آسانی کو کوئی نہ کوئی صورت ضرور پیدا فرما دے گا ۔” سیجعل “ میں ” سین “ استقبال کے علاوہ تاکید کا مفہوم بھی رکھتا ہے۔” عسر “ اور ” یسرا “ دونوں میں تنوین تنکیر کے لیے ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس آسانی پیدا کرنے کی بیشمار صورتیں ہیں ، تنگی خواہ کسی قسم کی ہو اللہ تعالیٰ اس میں آسانی کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا فرما سکتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ تنگی میں اپنی طاقت کے مطابق دریغ نہ کرے ، اللہ تعالیٰ نے دے گا ، جیسا کہ فرمایا :(فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ) (الانشراح : ٥، ٦)” پس بیشک ہر مشکل کے ساتھ ایک آسانی ہے ، بیشک اسی مشکل کے ساتھ ایک اور آسانی ہے “۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ ۭ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهٗ فَلْيُنْفِقْ مِمَّآ اٰتٰىهُ اللّٰه یعنی خرچ کرے وسعت والا آدمی اپنی وسعت کے مطابق اور جس شخص پر رزق تنگ ہو وہ اپنی آمدنی کے مطابق خرچ کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بیوی کے نفقہ میں بیوی کی حالت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا بلکہ شوہر کی حالت کے مطباق نفقہ دینا واجب ہوگا۔ اگر شوہر مالدار ہے تو امیرانہ نفقہ دینا واجب ہے اگرچہ بیوی مالدار نہ ہو بلکہ تندگست فقیر ہو، اور اگر شوہر غریب ہے تو تو غریبانہ نفقہ اس کے مقدور کے مطابق واجب ہوگا اگرچہ بیوی مالدار ہو۔ امام اعظم ابوحنیفہ کا یہی مذہب ہے بعض دوسرے فقہاء کے اقوال اس کے خلاف بھی ہیں۔ (تفسیر مظہری) - لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَآ اٰتٰىهَا ۭ سَيَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُّسْرًا۔ یہ اسی سابقہ جملہ کی مزید تشریح ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی وسعت وقدرت سے زیادہ کی تکلیف نہیں دیتا اس لئے نادار مفلس شوہر پر اسی حیثیت کا نفقہ واجب ہوگا جو حیثیت اس کی اس وقت ہے۔ آگے بیوی کو غیربانہ نفقہ پر قناعت اور اس پر صبر کی تلقین کے لئے فرمایا سیجعل اللہ بعد عسر یسراً یعنی کسی کو یہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ موجودہ حالت میں تنگی ہے تو یہ تنگی ہمیشہ رہے گی بلکہ تنگی اور فراخی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے وہتنگی کے بعد فراخی بھی دے سکتا ہے۔- فائدہ :۔ اس آیت میں ایسے شوہروں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے فراخی ملنے کی طرف اشارہ ہے جو مقدور پھر نفقات واجبہ پورا کرنے کی کوشش میں رہیں۔ بیوی کو تنگ رکھنے کی عادت نہ ہو۔ (روح المعانی) واللہ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَۃٍ مِّنْ سَعَتِہٖ۝ ٠ ۭ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْہِ رِزْقُہٗ فَلْيُنْفِقْ مِمَّآ اٰتٰىہُ اللہُ۝ ٠ ۭ لَا يُكَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا مَآ اٰتٰىہَا۝ ٠ ۭ سَيَجْعَلُ اللہُ بَعْدَ عُسْرٍ يُّسْرًا۝ ٧ ۧ- لام - اللَّامُ التي هي للأداة علی أوجه :- الأول :- الجارّة، وذلک أضرب : ضرب لتعدية الفعل ولا يجوز حذفه . نحو : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات 103] . وضرب للتّعدية لکن قدیحذف . کقوله : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء 26] ، فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام 125] فأثبت في موضع وحذف في موضع .- الثاني : للملک والاستحقاق،- ولیس نعني بالملک ملک العین بل قد يكون ملکا لبعض المنافع، أو لضرب من التّصرّف . فملک العین نحو : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة 18] ، وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح 7] . وملک التّصرّف کقولک لمن يأخذ معک خشبا : خذ طرفک لآخذ طرفي، وقولهم : لله كذا . نحو : لله درّك، فقد قيل : إن القصد أنّ هذا الشیء لشرفه لا يستحقّ ملكه غير الله، وقیل : القصد به أن ينسب إليه إيجاده . أي : هو الذي أوجده إبداعا، لأنّ الموجودات ضربان :- ضرب أوجده بسبب طبیعيّ أو صنعة آدميّ.- وضرب أوجده إبداعا کالفلک والسماء ونحو ذلك، وهذا الضرب أشرف وأعلی فيما قيل . ولَامُ الاستحقاق نحو قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد 25] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین 1] وهذا کالأول لکن الأول لما قد حصل في الملک وثبت، وهذا لما لم يحصل بعد ولکن هو في حکم الحاصل من حيثما قد استحقّ. وقال بعض النحويين : اللَّامُ في قوله :- لَهُمُ اللَّعْنَةُ [ الرعد 25] بمعنی «علی» «1» أي : عليهم اللّعنة، وفي قوله : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور 11] ولیس ذلک بشیء، وقیل :- قد تکون اللَّامُ بمعنی «إلى»- في قوله : بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة 5] ولیس کذلک، لأنّ الوحي للنّحل جعل ذلک له بالتّسخیر والإلهام، ولیس ذلک کالوحي الموحی إلى الأنبیاء، فنبّه باللام علی جعل ذلک الشیء له بالتّسخیر . وقوله : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء 105] معناه : لا تخاصم الناس لأجل الخائنين، ومعناه کمعنی قوله : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء 107] ولیست اللام هاهنا کاللام في قولک : لا تکن لله خصیما، لأنّ اللام هاهنا داخل علی المفعول، ومعناه : لا تکن خصیم اللہ .- الثالث : لَامُ الابتداء .- نحو : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة 108] ، لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف 8] ، لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر 13] .- الرابع : الداخل في باب إنّ ، إما في اسمه إذا تأخّر . نحو : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران 13] أو في خبره . نحو : إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر 14] ، إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود 75] أو فيما يتّصل بالخبر إذا تقدّم علی الخبر . نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر 72] فإنّ تقدیره : ليعمهون في سکرتهم .- الخامس : الداخل في إن المخفّفة فرقا بينه وبین إن النافية- نحو : وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف 35] .- السادس : لَامُ القسم، وذلک يدخل علی الاسم .- نحو قوله : يَدْعُوا لَمَنْ ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِنْ نَفْعِهِ [ الحج 13] ويدخل علی الفعل الماضي . نحو : لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف 111] وفي المستقبل يلزمه إحدی النّونین نحو : لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران 81] وقوله : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود 111] فَاللَّامُ في «لمّا» جواب «إن» وفي «ليوفّينّهم» للقسم .- السابع : اللَّامُ في خبر لو - : نحو : وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة 103] ، لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح 25] ، وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء 46] «1» ، وربما حذفت هذه اللام نحو : لو جئتني أکرمتک أي : لأکرمتک .- الثامن : لَامُ المدعوّ ،- ويكون مفتوحا، نحو :- يا لزید . ولام المدعوّ إليه يكون مکسورا، نحو يا لزید .- التاسع : لَامُ الأمر،- وتکون مکسورة إذا ابتدئ به نحو : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور 58] ، لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف 77] ، ويسكّن إذا دخله واو أو فاء نحو : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت 66] ، وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف 29] ، وقوله : فَلْيَفْرَحُوا [يونس 58] ، وقرئ :- ( فلتفرحوا) وإذا دخله ثم، فقد يسكّن ويحرّك نحو : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج 29] .- ( اللام ) حرف ) یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ - اول حروف جارہ اور اس کی چند قسمیں ہیں ۔- (1) تعدیہ کے لئے اس وقت بعض اوقات تو اس کا حذف کرنا جائز نہیں ہوتا جیسے فرمایا : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات 103] اور باپ نے بیٹے کو پٹ پڑی کے بل لٹا دیا ۔ اور کبھی حذف کرنا جائز ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء 26] خدا چاہتا ہے کہ تم سے کھول کھول کر بیان فرمادے۔ میں لام مذکور ہے اور آیت : فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام 125] تو جس شخص کو خدا چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ کردیتا ہے ۔ میں اسے حذف کردیا ہے ( یعنی اصل میں لا یھدیہ ولان یضلہ ہے ۔ ( یعنی اصل میں الان یھدی ولان یضلہ ہے - (2) ملک اور استحقاق کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے - اور ملک سے ہمیشہ ملک عین ہی مراد نہیں ہوتا ۔ بلکہ ملکہ منافع اور ملک تصرف سب کو عام ہے چناچہ فرمایا : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة 18] اور آسمانوں اورز مینوں کی بادشاہت خدا ہی کی ہے ۔ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح 7] اور آسمانوں اور زمین کے لشکر خدا ہی کے ہیں ۔ اور ملک تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی اٹھاتے وقت تم اس سے یہ کہو ۔ خذ طرفک لاخذنی کہ تم ا اپنی جانپ سے پکڑ لوتا کہ میں اپنی جانب پکڑوں ۔ اور للہ درک کی طرح جب للہ کذا کہا جاتا ہے تو اس میں تو اس میں بعض نے لام تملیک مانا ہی یعنی یہ چیز بلحاظ شرف و منزلت کے اتنی بلند ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے سو اسی پر کسی کا ملک نہیں ہوناچاہیے اور بعض نے کہا ہے کہ اس میں لام ایجاد کے لے ے سے یعنی اللہ نے نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ اللہ نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ موجودات دو قسم پر ہیں ۔ ایک وہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اسباب طبعی یا صنعت انسانی کے واسطہ سے ایجاد کیا ہے ۔ اورد وم وہ جنہیں بغیر کسی واسطہ کے پیدا کیا ہے جیسے افلاک اور آسمان وغیرہ اور یہ دوسری قسم پہلی کی نسبت اشرف اور اعلیٰ ہے ۔ اور آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد 25] اور ان کے لئے لعنت اور برا گھر ہے ۔ اور وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین 1] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے کئے خرابی ہے ۔- میں لا م استحقاق کے معنی دیتا ہے یعنی یہ لوگ لعنت اور ویل کے مستحق ہیں ۔ اور یہ سلام بھی لام ملک کی طرح ہے لیکن لام پال اسی چیز پر داخل ہوتا ہے جو ملک میں حاصل ہوچکی ہو اور لام استحقاق اس پر جو تا حال حاصل تو نہ ہوگی ہو نگر اس پر ستحقاق اس پر جوتا جال حاصل تو نہ ہوئی ہونگر اس پر استحقاق ثابت ہونے کے لحاظ سے حاصل شدہ چیز کی طرح ہو بعض وعلمائے نحو کہا ہے کہ آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ میں لام بمعنی علی ہے ۔ ای علیھم اللعنۃ ( یعنی ان پر لعنت ہے ) اسی طرح آیت کریمہ : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور 11] ان میں جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اسکے لئے اتنا ہی وبال ہے ۔ میں بھی لام بمعنی علی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے ۔ بعض نے کہا ہے کبھی لام بمعنی الیٰ بھی آتا ہے جیسا کہ آیت بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة 5] کیونکہ تمہارے پروردگار نے اس کا حکم بھیجا ہوگا ۔ میں ہے یعنی اوحی الیھا مگر یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہاں تو وحی تسخیری ہونے پر متنبہ کیا گیا ہے اور یہ اس وحی کی طرح نہیں ہوتی جو انبیاء (علیہ السلام) کی طرف بھیجی جاتی ہے لہذا لام بمعنی الی ٰ نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء 105] اور ( دیکھو ) دغا بازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ لام اجل ہے اور سبب اور جانب کے معنی دیتا ہے یعنی تم ان کی حمایت میں مت بحث کرو جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء 107] اور جو لوگ اپنے ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف سے بحث نہ کرنا ۔ اور یہ لا تکن للہ خصیما کے لام کی طرح نہیں ہے کیونکہ یہاں لام مفعول پر داخل ہوا ہے اور معنی یہ ہیں ۔ لاتکن خصیم اللہ کہ تم اللہ کے خصیم یعنی فریق مخالف مت بنو ۔- (3) لا ابتداء جیسے - فرمایا : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة 108] البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے ۔ لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف 8] کہ یوسف اور اس کا بھائی ہمارے ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں ۔ لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر 13] تمہاری ہیبت ان کے دلوں میں ۔۔۔ بڑھ کر ہے ۔ - (4) چہارم وہ لام جو ان کے بعد آتا ہے ۔- یہ کبھی تو ان کے اسم پر داخل ہوتا ہے اور کبھی ان کی خبر اور کبھی متعلق خبر پر چناچہ جب اسم خبر سے متاخرہو تو اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران 13] اس میں بڑی عبرت ہے ۔ اور خبر پر داخل ہونے کی مثال جیسے فرمایا :إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر 14] بیشک تمہارا پروردگار تاک میں ہے : إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود 75] بیشک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔ اور یہ لام متعلق خبر پر اس وقت آتا ہے جب متعلق خبر ان کی خبر پر مقدم ہو جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر 72] اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری جان کی قسم وہ اپنی مستی میں مد ہوش ( ہو رہے ) تھے ۔- ( 5 ) وہ لام جوان مخففہ کے ساتھ آتا ہے ۔- جیسے فرمایا : ۔ وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف 35] اور یہ سب دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے ۔ ( 5 ) لام قسم ۔ یہ کبھی اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف 111]( بلکہ ایسے شخص کو پکارتا ہے جس کا نقصان فائدہ سے زیادہ قریب ہے ۔ اور کبھی فعل ماضی پر آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران 81] ( 12 ) ان کے قصے میں عقلمندوں کے لئے عبرت ہے ۔ اگر یہ لام فعل مستقبل پر آئے تو اس کے ساتھ نون تاکید ثقیلہ یا خفیفہ کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا : ۔ تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کر نا ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود 111] اور تمہارا پروردگار ان سب کو قیامت کے دن ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیگا ۔ میں لما کالام ان کے جواب میں واقع ہوا ہے ۔ اور لیوفینھم کا لام قسم کا ہے ۔- ( 7 ) وہ لام جو لو کی خبر پر داخل ہوتا ہے - جیسے فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة 103] اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو خدا کے ہاں سے بہت اچھا صلہ ملتا ۔ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح 25] اگر دونوں فریق الگ الگ ہوجاتے تو جو ان میں کافر تھے ان کو ہم ۔۔۔۔۔۔ عذاب دیتے ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء 46] اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور آپ کو متوجہ کرنے کے لئے ۔۔۔۔ راعنا کی جگہ انظرنا کہتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا ۔ اور کبھی لو کے جواب میں لام محزوف ہوتا ہے جیسے ہے ۔- ( 8 ) وہ لام جو مدعا یا مدعو الیہ کے لئے استعمال ہوتا ہے - مدعو کے لئے یہ مفعوح ہوتا ہے ۔ جیسے یا لذید ۔ اور مدعوالیہ آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے یالذید ۔ - ( 9 ) لام امر یہ ابتدا میں آئے تو مکسور ہوتا ہے - جیسے فرمایا :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور 58] مومنوں تمہارے غلام لونڈیاں تم سے اجازت لیا کریں ۔ لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف 77] تمہارا پروردگار ہمیں موت دے دے ۔ اور اگر اس پر داؤ یا فا آجائے تو ساکن ہوجاتا ہے جیسے فرمایا : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت 66] اور فائدہ اٹھائیں ( سو خیر ) عنقریب ان کو معلوم ہوجائیگا ۔ وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف 29] تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے ۔ فَلْيَفْرَحُوا [يونس 58] اور جب اس پر ثم داخل ہو تو اسے ساکن اور متحرک دونوں طرح پڑھنا جائز ہوتا ہے جیسے فرمایا : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج 29] پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں ۔ اور خانہ قدیم یعنی بیت اللہ کا طواف کریں ۔- (بقیہ حصہ کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (لینفق ذوسعۃ من سعتہ، خوشحال آدمی اپنی خوشحالی کے مطابق نفقہ دے) آیت کی اس بات پر دلالت ہے کہ شوہر پر نفقہ اس کی مالی حیثیت اور گنجائش کے مطابق فرض ہوگا۔ نیز یہ کہ تنگدست پر فرض ہونے والا نفقہ خوشحال پر فرض ہونے والے نفقہ سے کم ہوگا۔- قول باری ہے (ومن قدر علیہ رزقہ فلینفق مما اتاہ اللہ اور جس کو رزق کم دیا گیا ہو وہ اس مال میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے) ایک قول کے مطابق اس کے معنی ہیں کہ جس شخص کو رزق میں تنگی ملی ہو وہ اس مال میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے۔ یعنی…واللہ اعلم…وہ اس حالت میں خوشحال آدمی جیسا نفقہ دینے کا مکلف نہیں ہے بلکہ اپنی گنجائش اور وسعت کے مطابق نفقہ دے۔- قول باری ہے (لا یکلف اللہ نفسا الا ما اتا ھا ، اللہ نے جس کو جتنا کچھ دیا ہے اس سے زیادہ کا وہ اسے مکلف نہیں بناتا) آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں بناتا۔ یہ بات اگرچہ عقلی طور پر واضح ہے کیونکہ تکلیف ملا یطاق (طاقت سے بڑھ کر مکلف بنانا) ایک قبیح اور احمقانہ فعل ہے۔ پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے تاکہ عقلی طور پر اس کا جو حکم ہے اس کی مزید تاکید ہوجائے۔- حکم کی جہت سے آیت ایک اور مفہوم کو متضمن ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا ہے کہ شوہر جب نفقہ دینے کی قدرت نہیں رکھتا ہوگا تو اس حالت میں اللہ تعالیٰ اسے انفاق کا مکلف نہیں بنائے گا اور جب اللہ تعالیٰ نے اس حالت میں اسے انفاق کا مکلف نہیں بنایا تو اس صورت میں شوہر اور اس کی بیوی کے درمیان اس بنا پر علیحدگی کرادینا جائز نہیں ہوگا کہ وہ اسے نفقہ دینے سے عاجز ہے۔- اس میں اس شخص کے قول کے بطلان کی دلیل موجود ہے جو نفقہ دینے سے عجز کی بنا پر میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کرادینے کا قائل ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے شوہر کو طلاق دینے کا اختیار دیا ہے اس لئے ایسی حالت میں وہ اسے طلاق دے دے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ افلاس کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے شوہر کو نفقہ دینے کا مکلف نہیں بنایا ہے اس لئے اس حالت میں نفقہ کی بنا پر اسے اپنی بیوی کو طلاق دینے پر مجبور کرنا جائز نہیں ہوگا۔- کیونکہ اس صورت میں ایک ایسی چیز کی وجہ سے علیحدگی کا ایجاب لازم آئے گا جو خود واجب نہیں ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اس نے شوہر کو صرف اس مال میں سے انفاق کا مکلف بنایا ہے جو اس نے اسے عطا کیا ہے۔ اب طلاق انفاق نہیں ہے اس لئے وہ اس لفظ میں داخل نہیں ہے۔- نیز اللہ تعالیٰ نے تو صرف یہ چاہا ہے کہ اسے اس چیز کا مکلف نہ بنائے جس کی وہ طاقت نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں چاہا کہ اسے ہر اس چیز کا مکلف قرار دے جس کی وہ طاقت رکھتا ہو۔ یہی بات آیت کے خطاب سے سمجھ میں آتی ہے۔- قول باری ہے (سیجعل اللہ بعد عسر یسرا۔ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ تنگدستی کے بعد فراخ دستی بھی عطا فرمادے) آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ شوہر اگر نفقہ ادا کرنے سے عاجز ہو تو میاں بیوی کے درمیان علیحدگی نہیں کرائی جائے گی کیونکہ تنگ دستی کی موجودگی میں فراخ دستی کی بھی توقع ہوتی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

وسعت والے باپ کو اپنی وسعت کے مطابق بطہ پر خرچ کرنا چاہیے اور جس کی آمدنی کم ہو اس کو جتنا اللہ نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرے رضاعت وغیرہ کے نفقہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا جتنا کہ اس کو دیا ہے اللہ تعالیٰ اس نفقہ میں تنگی کے بعد فراغت بھی دے دے گا تنگ دست کو اللہ کے دینے پر نظر رکھنی چاہیے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَۃٍ مِّنْ سَعَتِہٖ ” چاہیے کہ خرچ کرے وسعت والا اپنی وسعت کے مطابق۔ “- وَمَنْ قُدِرَ عَلَیْہِ رِزْقُہٗ فَلْیُنْفِقْ مِمَّـآ اٰتٰـٹہُ اللّٰہُ ” اور جس پر اس کا رزق تنگ کردیا گیا ہے وہ خرچ کرے اس میں سے جو اللہ نے اس کو دیا ہے۔ “- لَا یُـکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا مَـآ اٰتٰٹہَاط ” اللہ کسی جان کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جو اس نے اسے دے رکھا ہے۔ “- یعنی عدت کے دوران مطلقہ کی رہائش ‘ حمل کے دوران اس کا نان نفقہ ‘ رضاعت کی اجرت وغیرہ کے معیار کا انحصار مرد کی مالی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے۔ اگر کشادگی ہے تو مطلقہ پر بھی اسے اسی انداز سے خرچ کرنا چاہیے اور اگر تنگ دستی کی کیفیت ہے تو ظاہر ہے وہ اسی حد تک مکلف ہے جس حد تک اس کی استطاعت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے حالات سے باخبر ہے۔- سَیَجْعَلُ اللّٰہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا ۔ ” عنقریب اللہ تنگی کے بعد آسانی بھی پیدا کر دے گا۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

12: شوہر پر بیوی بچوں کو جو نفقہ واجب ہوتا ہے، وہ اُس کی اپنی مالی حیثیت کے مطابق واجب ہوتا ہے، اُس سے زیادہ نہیں۔