شریعت پر چلنا ہی ۔ ۔ روشنی کا انتخاب ہے جو لوگ اللہ کے امر کا خلاف کریں اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ مانیں اس کی شریعت پر نہ چلیں انہیں ڈانٹا جا رہا ہے کہ دیکھو گزشتہ لوگوں میں سے بھی جو اس روش پر چلے وہ تباہ و برباد ہوگئے جنہوں نے سرتابی سرکشی اور تکبر کیا حکم اللہ اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بےپرواہی برتی آخرش انہیں سخت حساب دینا پڑا اور اپنی بد کرداری کا مزہ چکھنا پڑا ۔ انجام کار نقصان اٹھایا اس وقت نادم ہنے لگے لیکن اب ندامت کس کام کی؟ پھر دنیا کے اس عذاب سے ہی اگر پلا پاک ہو جاتا تو جب بھی ایک بات تھی ، نہیں تو پھر ان کے لئے آخرت میں بھی سخت تر عذاب اور بےپناہ مار ہے ، اب اے سوچ سمجھ والوں چاہئے کہ ان جیسے نہ بنو اور ان کے انجام سے عبرت حاصل کرو ، اے عقلمند ایماندارو اللو نے تمہاری طرف قرآن کریم نازل فرما دیا ہے ، ذکر سے مراد قرآن ہے جیسے اور جگہ فرمایا ( ترجمہ ) الخ ، ہم نے اس قرآن کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں اور بعض نے کہا ہے ذکر سے مراد یہاں رسول ہے چنانچہ ساتھ ہی فرمایا ہے رسولاً تو یہ بدل اشتمال ہے ، چونکہ قرآن کے پہنچانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں تو اس مناسبت سے آپ کو لفظ ذکر سے یاد کیا گیا ، حضرت امام ابن جریر بھی اسی مطلب کو درست بتاتے ہیں ، پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت بیان فرمائی کہ وہ اللہ کی واضح اور روشن آیتیں پڑھ سناتے ہیں تاکہ مسلمان اندھیرں سے نکل آئیں اور روشنیوں میں پہنچ جائیں ، جیسے اور جگہ ہے ( الۗرٰ ۣ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ ڏ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ اِلٰي صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ Ǻۙ ) 14- ابراھیم:1 ) اس کتاب کو ہم نے تجھے دیا ہے تاکہ تو لوگوں کو تاریکیوں سے روشنی میں لائے ایک اور جگہ ارشاد ہے ( اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ڛ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَوْلِيٰۗــــــُٔــھُمُ الطَّاغُوْتُ ۙ يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ٢٥٧ۧ ) 2- البقرة:257 ) ، اللہ ایمان والوں کا کار ساز ہے وہ انہیں اندھیروں سے اجالے کی طرف لاتا ہے ، یعنی کفر و جہالت سے ایمان و علم کی طرف ، چنانچہ اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نازل کردہ وحی کو نور فرمایا ہے کیونکہ اس سے ہدایت اور راہ راست حاصل ہوتی ہے اور اسی کا نام روح بھی رکھا ہے کیونکہ اس سے دلوں کی زندگی ملتی ہے ، چنانچہ ارشاد باری ہے ۔ ( ترجمہ ) یعنی ہم نے اسی طرح تیری طرف اپنے حکم سے روح کی وحی کی تو نہیں جانتا تھا کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے اور ایمان کیا ہے؟ لیکن ہم نے اسے نور کر دیا جس کے ساتھ ہم اپنے جس بندے کو چاہیں ہدایت کرتے ہیں یقینا تو صحیح اور سچی راہ کی رہبری کرتا ہے ، پھر ایمانداروں اور نیک اعمال والوں کا بدلہ بہتی نہروں والی ہمیشہ رہنے والی جنت بیان ہوا ہے جس کی تفسیر بارہا گذر چکی ہے ۔
8۔ 1 عَتَتُ ، ای تمردت وطغت و استکبرت عن اتباع امر اللہ تعالیٰ و متابعۃ رسلہ۔ 7۔ 2 نکرا، منکرا فظیعا، حساب اور عذاب، دونوں سے مراد دنیاوی مواخذہ اور سزا ہے یا پھر بقول بعض کلام میں تقدیم و تاخیر ہے۔ عذابا نکرا، وہ عذاب ہے جو دنیا میں قحط، خسف ومسخ وغیرہ کی شکل میں انہیں پہنچا، اور حسابا شدیدا وہ ہے جو آخرت میں ہوگا۔
[٢٣] عائلی زندگی سے متعلق احکام بیان کرنے اور ہر ہر مقام پر اللہ سے ڈرتے رہنے کی تاکید کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر فرمایا جنہوں نے اللہ کے احکام کے مقابلہ میں اکڑ دکھائی اور سرتابی کی راہ اختیار کی تھی۔ ان کا سب سے بڑا جرم یہی تھا کہ وہ اللہ کے احکام کی کچھ پروا نہیں کرتے تھے۔ تو ہم نے انہیں ان کی کرتوتوں کی ٹھیک ٹھیک سزا دے ڈالی۔ ان کا سختی سے مواخذہ کیا اور کسی کو بھی معاف نہیں کیا اور انہیں ایسی آفت میں پھنسایا جس سے وہ نکل نہ سکے۔
وَ کَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّھَا وَرُسُلِہٖ ۔۔۔:” عتت “ ” عتا یعتو عتوا “ (ن) سے ماضی معلوم ہے ، اصل میں ” عتوت “ ہے ۔ ” نکرا “ اجنبی ، نہ پہچانا ہوا ، جو نہ دیکھا ہو نہ سنا ۔ اب تک اللہ تعالیٰ نے طلاق وغیرہ کے متعلق اپنے احکام کا ذکر فرمایا تھا، یہاں سے بتایا جا رہا ہے کہ پچھلی جن بستیوں نے اللہ اور اس کے رسولوں کے احکام سے سرکشی اختیار کی ان کا انجام کیا ہوا ۔ مقصد مسلمانوں کو ان احکام کی اہمیت بتانا اور ان کی پابندی کی تلقین کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلی اقوام کی بربادی میں شرک و کفر کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسولوں کے ان تفصیلی احکام کی مخالفت بھی تھی جو زندگی کے ہر شعبے میں انہوں نے دیے ، جس کی وجہ سے ان کے اندر حد سے بڑھی ہوئی سرکشی اور فساد پیدا ہوا ۔ مثلاً جب انہوں نے شرک و کفر کے ساتھ نکاح و طلاق کے ضابطوں کی پابندی سے سرکشی اختیار کی تو زنا اور قوم لوط کا عمل عام ہوا ، جس کی وجہ سے قتل و غارت کا بازار گرم ہوا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انکا بہت سخت محاسبہ کیا اور انہیں ایسی سزا دی جو کسی نے نہ دیکھی تھی نہ سنی تھی ۔ آج کے دور میں کفار نے شرک و کفر پر اصرار کے ساتھ ساتھ ان ضابطوں کی بھی شدید مخالفت اختیار کر رکھی ہے ، جس کے نتیجے میں ان کا معاشرہ بےپناہ بد اخلاقی ، بد امنی اور قتل و غارت کا شکار ہوچکا ہے اور بری طرح ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔ اب ان کی کوشش یہ ہے کہ مسلمان بھی ان احکام سے آزادہو جائیں اور ان میں بھی زنا قوم لوط کا عمل اور قتل و غارت پھیل جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی امتوں کے عذاب کا حوالہ دے کر مسلمانوں کو ان کے انجام سے ڈرایا ہے۔
خلاصہ تفسیر - اور بہت سی بستیاں تھیں جنہوں نے اپنے رب کے حکم (ماننے) سے اور اس کے رسولوں سے سرتابی کی سو ہم نے ان (کے اعمال) کا سخت حساب کیا (مطلب یہ کہ ان کے اعمال کفر یہ میں سے کسی عمل کو معاف نہیں کیا بلکہ سب پر سزا تجویز کی، یہاں حساب سے پرستش کے طور پر حساب مراد نہیں) اور ہم نے ان کو بڑی بھاری سزا دی (کہ عذاب کے ذریعہ ہلاک کئے گئے) غرض انہوں نے اپنے اعمال کا وبال چکھا اور ان کا انجام کا رخسار ہی ہوا (یہ تو دنیا میں ہوا اور آخرت میں) اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ایک سخت عذاب تیار رکھا ہے (اور جب انجام نافرمانی کا یہ ہے) تو اے سمجھدار جو کہ ایمان لائے ہو تم خدا سے ڈرو (کہ ایمان بھی اس کو مقتضی ہے اور ڈرتا یہ کہ اطاعت کرو، اور اسی اطاعت کا طریقہ بتلانے کے لئے) خدا نے تمہارے پاس ایک نصیحت نامہ بھیجا ( اور وہ نصیحت نامہ دے کر) ایک ایسا رسول (بھیجا) جو تم کو اللہ کے صاف صاف احکام پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں تاکہ ایسے لوگوں کو کہ جو ایمان لا دیں اور اچھے عمل کریں (کفر و جہل کی) تاریکیوں سے (ایمان اور علم و عمل کے) نور کی طرف لے آویں (مطلب یہ کہ جو نصیحت اس رسول کے ذریعہ سے پہنچے اس پر عمل کرنا بھی اطاعت ہے) اور (آگے اطاعت یعنی ایمان و عمل صالح پر وعدہ ہے کہ) جو شخص اللہ پر ایمان لاوے گا اور اچھے عمل کرے گا خدا اس کو (جنت کے) ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں جا رہی ہیں ان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے بیشک اللہ نے (ان کو بہت) اچھی روزی دی (آگے اللہ کا واجاب الاطاعت ہونا بیان کیا جاتا ہے یعنی) اللہ ایسا ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ان ہی کی طرح زمین بھی (سات پیدا کی جیسا ترمذی وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ ایک زمین کے نیچے دوسری زمین ہے اس کے نتیچے تیسری زمین اسی طرح سات زمینیں ہیں اور) ان سب (آسمانوں اور زمینوں) میں (اللہ تعالیٰ کے) احکام (تشریع یاتکوینی یا دونوں) نازل ہوتے رہتے ہیں (اور یہ اس لئے بتلا دیا گیا) تاکہ تم کو معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ ہر شئے پر قادر ہے اور اللہ ہر چیز کو (اپنے) احاطہ علمی میں لئے ہوئے ہے (اس لئے اللہ تعالیٰ کا واجب الاطاعت ہونا ظاہر ہے۔ ) - معارف و مسائل - (آیت) فَحَاسَبْنٰهَا حِسَابًا شَدِيْدًا ۙ وَّعَذَّبْنٰهَا عَذَابًا نُّكْرًا۔ آیت میں ان قوموں کے حساب و عذاب کا جو ذکر ہے وہ آخرت میں ہونیوالا ہے مگر یہاں اس کو بلفظ ماضی حاسبنا اور عذبنا سے تعبیر کردینا یا تو اس کے یقینی ہونے کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہے کہ گویا یہ کام ہوچکا (کما فی الروح) اور یہ بھی ہوس کتا ہے کہ حساب سے مراد اس جگہ سوالات اور پرسش نہ ہو بلکہ اس کی سا کی تعیین ہو جیسا کہ خلاصہ تفسیر مذکور میں لیا گیا اور یہ بھی احتمال ہے کہ حساب شدید اگرچہ آخرت میں ہوگا مگر صحائف اعمال میں اس کی کتابت تو ہوچکی ہے اور ہو رہی ہے اس کو حساب کردینے سے تعبیر کیا گیا اور عذاب سے مراد دنیا کا عذاب ہو جو بہت سی پہلی قوموں پر نازل ہوا ہے اس صورت میں بعد میں آنیوالا جملہ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيْدًا صرف یہ آخرت کے عذاب سے متعلق رہے گا۔
وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَۃٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّہَا وَرُسُلِہٖ فَحَاسَبْنٰہَا حِسَابًا شَدِيْدًا ٠ ۙ وَّعَذَّبْنٰہَا عَذَابًا نُّكْرًا ٨- قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - عتو - العُتُوُّ : النبوّ عن الطاعة، يقال : عَتَا يَعْتُو عُتُوّاً وعِتِيّاً. قال تعالی: وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيراً- [ الفرقان 21] ، فَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ [ الذاریات 44] ، عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّها - [ الطلاق 8] ، بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک 21] ، مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا[ مریم 8] ، أي : حالة لا سبیل إلى إصلاحها ومداواتها . وقیل :إلى رياضة، وهي الحالة المشار إليها بقول الشاعر : 310 ۔ ومن العناء رياضة الهرم«2» وقوله تعالی: أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمنِ عِتِيًّا - [ مریم 69] ، قيل : العِتِيُّ هاهنا مصدرٌ ، وقیل هو جمعُ عَاتٍ «3» ، وقیل : العَاتِي : الجاسي .- ( ع ت و ) عتا - ۔ یعتوا ۔ عتوا ۔ عتیا ۔ حکم عدولی کرنا قرآن میں ہے : فَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ [ الذاریات 44] تو انہوں نے اپنے پروردگار کے حکم سے سر کشی کی ۔ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيراً [ الفرقان 21] اور اسی بنا پر بڑے سر کش ہورہے ہیں ، عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّها[ الطلاق 8] اپنے پروردگار کے امر سے سر کشی کی ۔ بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک 21] لیکن یہ سر کشی اور نفرت میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا[ مریم 8] کے معنی یہ ہیں کہ میں بڑھاپے کی ایسی حالت تک پہنچ گیا ہوں جہاں اصلاح اور مداوا کی کوئی سبیل نہیں رہتی یا عمر کے اس وجہ میں ریا ضۃ بھی بیکار ہوتی ہے اور لفظ ریا ضت سے وہی معنی مراد ہیں جن کی طرف شاعر نے اشارہ کیا ہے ( الکامل ) ( 302 ) امن العناء ریاضۃ الھرم اور انتہائی بڑھاپے میں ریاضت دینا سراسر تکلیف وہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمنِ عِتِيًّا[ مریم 69] جو خدا سے سخت سر کشی کرتے تھے میں بعض نے کہا ہے کہ عتیا مصدر بعض نے کہا ہے کہ عات کی جمع ہے اور العانی کے معنی سنگ دل اور اجڈ بھی آتے ہیں ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - حسب - الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] ، وقیل : لا يعلم حسبانه إلا الله، وقال عزّ وجل : وَيُرْسِلَ عَلَيْها حُسْباناً مِنَ السَّماءِ [ الكهف 40] ، قيل : معناه :- نارا، وعذابا وإنما هو في الحقیقة ما يحاسب عليه فيجازی بحسبه، وفي الحدیث أنه قال صلّى اللہ عليه وسلم في الریح : «اللهمّ لا تجعلها عذابا ولا حسبانا»، قال تعالی: فَحاسَبْناها حِساباً شَدِيداً [ الطلاق 8] ، إشارة إلى نحو ما روي : «من نوقش الحساب عذّب» وقال تعالی: اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] ، نحو : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، وَكَفى بِنا حاسِبِينَ [ الأنبیاء 47] ، وقوله عزّ وجلّ : وَلَمْ أَدْرِ ما حسابِيَهْ [ الحاقة 26] ، إِنِّي ظَنَنْتُ أَنِّي مُلاقٍ حِسابِيَهْ [ الحاقة 20] ، فالهاء فيها للوقف، نحو : مالِيَهْ وسُلْطانِيَهْ وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسابِ [ آل عمران 199] ، وقوله عزّ وجلّ : جَزاءً مِنْ رَبِّكَ عَطاءً حِساباً [ عم 36] ، فقد قيل : کافیا، وقیل : ذلك إشارة إلى ما قال : وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم 39] ،- ( ح س ب ) الحساب - کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ان کے حسبان ہونے کی حقیقت خدا ہی جانتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَيُرْسِلَ عَلَيْها حُسْباناً مِنَ السَّماءِ [ الكهف 40] اور وہ تمہارے باغ ) پر آسمان سے آفت بھیج دے میں بعض نے کہا ہے کہ حسبا نا کے معنی آگ اور عذاب کے ہیں اور حقیقت میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس پر محاسبہ کای جائے اور پھر اس کے مطابق بدلہ دیا جائے ۔ حدیچ میں ہے آنحضرت نے آندھی کے متعلق فرمایا : ۔ کہ الہیٰ ؟ اسے عذاب یا حسبان نہ بنا اور آیت کریمہ : ۔ فَحاسَبْناها حِساباً شَدِيداً [ الطلاق 8] تو تم نے ان کو سخت حساب میں پکڑ لیا ۔ میں حدیث کہ جس سے حساب میں سختی کی گئی اسے ضرور عذاب ہوگا کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور آیت کریمہ : ۔ اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت ) نزدیک آپہنچا ) اپنے مضمون میں وَكَفى بِنا حاسِبِينَ [ الأنبیاء 47] کی طرح ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمْ أَدْرِ ما حسابِيَهْ [ الحاقة 26] اور مجھے معلوم نہ ہوتا کہ میرا حساب کیا ہے ۔ اور آیت : ۔ إِنِّي ظَنَنْتُ أَنِّي مُلاقٍ حِسابِيَهْ [ الحاقة 20] مجھے یقین تھا کہ مجھ کو میرا حساب ( وکتاب ) ضرور ملے گا ۔ میں ہ وقف کی ہے جیسا کہ میں ہے ۔إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسابِ [ آل عمران 199] بیشک خدا جلد حساب لینے والا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ جَزاءً مِنْ رَبِّكَ عَطاءً حِساباً [ عم 36] یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے صلہ ہے انعام کثیر میں بعض نے کہا ہے کہ حسابا کے معنی کافیا کے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت : ۔ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم 39] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔- شدید - والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، وقال تعالی: عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] ، وقال : بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ، فَأَلْقِياهُ فِي الْعَذابِ الشَّدِيدِ [ ق 26] . والشَّدِيدُ والْمُتَشَدِّدُ : البخیل . قال تعالی: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات 8] . - ( ش دد ) الشد - اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] تندخواہ اور سخت مزاج ( فرشتے) بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - نكر - الإِنْكَارُ : ضِدُّ العِرْفَانِ. يقال : أَنْكَرْتُ كذا، ونَكَرْتُ ، وأصلُه أن يَرِدَ علی القَلْبِ ما لا يتصوَّره، وذلک ضَرْبٌ من الجَهْلِ. قال تعالی: فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ- [هود 70] ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58]- وقد يُستعمَلُ ذلک فيما يُنْكَرُ باللّسانِ ، وسَبَبُ الإِنْكَارِ باللّسانِ هو الإِنْكَارُ بالقلبِ لکن ربّما يُنْكِرُ اللّسانُ الشیءَ وصورتُه في القلب حاصلةٌ ، ويكون في ذلک کاذباً. وعلی ذلک قوله تعالی: يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل 83] ، فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ- ( ن ک ر )- الانکار ضد عرفان اور انکرت کذا کے معنی کسی چیز کی عدم معرفت کے ہیں اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو لہذا یہ ایک درجہ جہالت ہی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود 70] جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہین جاتے ( یعنی وہ کھانا نہین کھاتے ۔ تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا ۔ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچان سکے ۔ اور کبھی یہ دل سے انکار کرنے پر بولا جاتا ہے اور انکار لسانی کا اصل سبب گو انکار قلب ہی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات انسان ایسی چیز کا بھی انکار کردیتا ہے جسے دل میں ٹھیک سمجھتا ہے ۔ ایسے انکار کو کذب کہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ۔ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل 83] یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر ان سے انکار کرتے ہیں ۔ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [ المؤمنون 69] اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے ۔
اور بہت سی بستیوں والے ایسے تھے جنہوں نے حکم خداوندی قبول کرنے اور اس کی اطاعت سے اور اس کے رسولوں کی بات ماننے سے اور رسول جو احکام لے کر آئے تھے ان کو قبول کرنے سے انکار کیا۔
آیت ٨ وَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّہَا وَرُسُلِہٖ ” اور کتنی ہی بستیاں ایسی ہیں جنہوں نے اپنے رب کے حکم اور اس کے رسولوں (علیہ السلام) سے سرکشی کی “- فَحَاسَبْنٰـہَا حِسَابًا شَدِیْدًالا وَّعَذَّبْنٰـہَا عَذَابًا نُّکْرًا ۔ ” تو ہم نے ان کا محاسبہ کیا بہت شدید محاسبہ اور ہم نے ان کو عذاب دیا بہت ہولناک عذاب۔ “
سورة الطَّلَاق حاشیہ نمبر :20 اب مسلمانوں کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ اللہ کے رسول اور اس کی کتاب کے ذریعہ سے جو احکام ان کو دیے گئے ہیں ان کی اگر وہ نافرمانی کریں گے تو دنیا اور آخرت میں کس انجام سے دوچار ہونگے ، اور اگر اطاعت کی راہ اختیار کریں گے تو کیا جزا پائیں گے ۔