Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 خالص توبہ یہ ہے کہ، 1۔ جس گناہ سے توبہ کر رہا ہے، اسے ترک کر دے 2۔ اس پر اللہ کی بارگاہ میں ندامت کا اظہار کرے، 3۔ آئندہ اسے نہ کرنے کا عزم رکھے، 4۔ اگر اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو جس کا حق غصب کیا ہے اس کا ازالہ کرے، جس کے ساتھ زیادتی کی ہے اس سے معافی مانگے، محض زبان سے توبہ توبہ کرلینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ 8۔ 2 یہ دعا اہل ایمان اس وقت کریں جب منافقین کا نور بجھا دیا جائے گا، جیسا سورة حدید میں تفصیل گزری، اہل ایمان کہیں گے، جنت میں داخل ہونے تک ہمارے اس نور کو باقی رکھ اور اس کا اتمام فرما۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦] توبہ کی شرائط :۔ نَصُوْحًا۔ نصح بمعنی کسی کی خیر خواہی کرنا خواہ یہ قول سے ہو یا فعل سے اور نَصُوْحًاسے مراد ایسی سچی توبہ ہے جس سے اپنے نفس کی خیرخواہی مطلوب ہو۔ اور ایسی توبہ کی چند شرائط ہیں۔ ایک یہ کہ اپنے کیے پر نادم ہو۔ دوسرے یہ کہ اللہ کے حضور مغفرت طلب کرے اور آئندہ وہ کام نہ کرنے کا عہد کرے۔ تیسرے یہ کہ یہ عہد محض زبانی یا ریا کاری کی بنا پر نہ ہو بلکہ آئندہ اس عہد کو حتی الامکان نباہنے کی کوشش کرے اور چوتھے یہ کہ اگر اس نے اس گناہ کے کام میں کسی شخص کا حق تلف کیا ہے تو اسے اس کی ادائیگی کرے یا اس سے معاف کرالے۔ اگر وہ حق مال سے تعلق رکھتا ہے تو اصل مظلوم مرچکا ہے تو اس کے وارثوں کو ادا کردے یا صدقہ کر دے۔ اور اگر وہ حق تلفی قول سے تعلق رکھتی ہے جیسے غیبت یا چغلی وغیرہ تو اس کے حق میں دعائے مغفرت کرتا رہے۔ وغیرذلک۔- [١٧] رسوائی سے مراد عذاب جہنم سے بچا لینا ہے۔ کیونکہ اس دن یہی سب سے بڑی رسوائی ہوگی۔ اس کے بجائے اللہ ایسے لوگوں کو فضل و شرف کے بلند مقامات پر سرفراز فرمائے گا۔- [١٨] اس نور کی تفصیل پہلے سورة حدید کی آیت نمبر ١٣ کے تحت گزر چکی ہے۔- [١٩] قیامت کے دن منافقوں کی مومنوں سے التجا کہ ہمیں ساتھ لے چلو :۔ یہ نور اہل ایمان کو اس وقت عطا کیا جائے گا جب میدان محشر میں لوگوں کے اعمال کا فیصلہ ہوچکا ہوگا اور انہیں جنت میں داخلہ کا ٹکٹ یا پروانہ مل چکا ہوگا۔ میدان محشر سے جنت کی راہ میں سخت تاریکی ہوگی، پھر پل صراط کو بھی عبور کرنا ہوگا۔ اہل ایمان اپنے اس عطا کردہ نور کی روشنی میں آگے بڑھتے جائیں گے۔ منافق بھی اس کے ساتھ چل پڑیں گے لیکن ان کا اپنا نور تو ہوگا نہیں یا اگر تھوڑا بہت ہوگا بھی تو بہت جلد بجھ جائے گا۔ انہیں دیکھ کر اہل ایمان کو یہ اندیشہ لاحق ہوگا کہ کہیں ان کا نور بھی راہ میں ہی نہ بجھ جائے۔ لہذا وہ اللہ سے دعا کریں گے کہ اے پروردگار جنت میں پہنچنے تک ہمارا یہ نور برقرار اور بحال رکھنا۔ اور ہم سے جو گناہ یا تقصیرات سرزد ہوئی ہیں وہ معاف فرما دے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللہ ِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا :” توبۃ “ ” تاب یتوب توبۃ “ (ن) پلٹ آنا ۔ ” نصوحا “ ” نصح ینصح نصحا “ (ف) سے ” فعول “ کے وزن پر مبالغے کا صیغہ ہے ، بہت خالص ۔ یہ وزن مذکر و مؤنث کی صفت ہے۔” نصح الشئی “ اس وقت کہتے ہیں جب کوئی چیز خالص ہو ، اس میں کھوٹ نہ ہو ۔ شہد یا کوئی اور چیز جب خالص ہو تو اسے ” النصح “ کہتے ہیں ۔ ” النصح “ (خالص ہونا) ” الغش “ ( کھوٹا ہونے) کا متضاد ہے۔- اس آیت میں جہنم سے بچنے کا طریقہ بتلایا ہے ، فرمایا اے ایمان والو اللہ کی طرف پلٹ آؤ ، خالص اور سچاپلٹنا ۔ یعنی اگر نافرمانی کرکے اللہ تعالیٰ سے دور ہوگئے تو اسے ترک کر کے واپس اس کی طرف پلٹ آؤ ۔ توبہ ٔ نصوح کی پہلی شرط یہ ہے کہ محض اللہ کے خوف کی وجہ سے آدمی گناہ پر نادم ہو ، کسی دنیاوی نقصان کی وجہ سے ندامت توبہ نہیں ۔ عبد اللہ بن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( الندم توبۃ) ( ابن ماجہ ، الزھد ، باب ذکر التوبۃ : ٤٢٥٢، وقال الالبانی صحیح) ” ندامت توبہ ہے “۔ دوسری شرط یہ ہے کہ گناہ چھوڑ دے اور فوراط چھوڑ دے۔ ( دیکھئے نسا : ١٧ ، اعراف : ٢٠١) تیسری شرط یہ کہ آئندہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرے ، گناہ پر قائم نہ رہے۔ ( دیکھئے آل عمران : ١٣٥) اور چوتھی شرط یہ ہے کہ اگر اس کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہے تو جہاں تک ممکن ہو انہیں ادا کرے یا معافی مانگ لے۔- ٢۔ عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَعَنْکُمْ سَیِّاٰ تِکُمْ ۔۔۔۔: اس میں توبہ نصوح پر گناہوں کی معافی اور جنتوں میں داخلے کی خوش خبری سنائی ہے۔- ٣۔ یَوْمَ لَا یُخْزِی اللہ ُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ :” یوم “ کا لفظ ” یدخلکم “ کا ظرف ہے ، یعنی گناہوں کی معافی اور جنت میں داخلہ اس دن ہوگا جس دن اللہ تعالیٰ نبی کو اور اس کے ساتھ ایمان لانے والوں کو رسوا نہیں کرے گا ۔ اس کے ساتھ ایمان لانے والوں میں صحابہ کرام ، تابعین ، تبع تابعین اور ان کے بعد قیامت تک آنے والے تمام مسلمان شامل ہیں ۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ فتح کی آخرت آیت کی تفسیر۔ ان میں ازواج مطہرات بالا ولیٰ شامل ہیں ، کیونکہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں ، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجیت کا شرف بخشا اور جب انہیں اللہ ، اس کے رسول اور آخرت اور دنیا میں سے کسی ایک چیز کو قبول کرنے کا اختیار دیا گیا تو انہوں نے اللہ ، اس کے رسول اور آخرت کو قبول کیا ۔ ( دیکھئے احزاب : ٢٨ تا ٣٤) اور ان کے ایثار اور صبر کی وجہ سے ان کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مزید عورتوں کے ساتھ یا ان کو بدل کر دوسری عورتوں کے ساتھ نکاح سے منع قرار دیا۔ دیکھئے سورة ٔ احزاب (٥٢) ۔- اس دن کی رسوائی سے دنیا میں بھی انبیاء اور مومن بندے پناہ مانگتے رہے تھے۔ ( دیکھئے آل عمران : ١٩٤۔ شعرائ : ٨٧) سو اللہ تعالیٰ انہیں اس رسوائی سے بچا لے گا ۔- ٤۔ نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَبِاَیْمَانِھِمْ : اس کے لیے دیکھئے سورة ٔ حدید کی آیت (١٢) کی تفسیر۔- ٥۔ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا : حشر کے میدان میں جب ایمان والوں اور منافقین کے درمیان دیوار حائل ہونے پر منافقین اندڈھیرے میں کھڑے رہ جائیں گے تو ایمان والے اس خوف سے کہ منافقین کی طرح ہماری روشنی بھی نہ بجھ جائے اللہ تعالیٰ سے اپنے نور کو پورا کرنے اور پورا رکھنے کی دعا کریں گے ، تا کہ اس روشنی میں وہ جنت تک پہنچ جائیں ۔ مزید دیکھئے سورة ٔ حدید (١٣ تا ١٥)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (ان آیات میں دوزخ سے بچنے کا طریقہ بتلایا گیا ہے اور وہی اہل و عیال کو بتلا کر جہنم کی آگ سے بچانے کا طریقہ ہے وہ یہ ہے) اے ایمان والو اللہ کے سامنے سچی توبہ کرو ( یعنی دل میں گناہ پر کامل ندامت ہو اور آئندہ اسکے نہ کرنے کا پختہ قصد ہو اس میں تمام احکامدین فرائض واجبات بھی داخل ہوگئے کہ ان کا چھوڑنا گناہ ہے اور تمام محرمات ومکروہات بھی آگئے کہ ان کا کرنا گناہ ہے) امید (یعنی وعدہ) ہے کہ تمہارا رب (اس توبہ کی بدولت) تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور تم کو (جنت کے) ایسے باغوں میں داخل کرے گا جنکے نیچے نہریں جاری ہوں گی (اور یہ اس روز ہوگا) جس دن کہ اللہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور جو مسلمان (ایمان اور دین کی رو سے) ان کے ساتھ ہیں ان کو رسوا نہ کرے گا ان کا نور ان کے داہنے اور ان کے سامنے دوڑتا ہوگا (جیسا کہ سورة حدید میں گزرچکا ہے اور وہ) یوں دعا کرتے ہوں گے کہ اے ہمارے رب ہمارے لئے ہمارے اس نور و اخیر تک رکھئے ( یعنی راستہ میں گل نہ ہوجاوے) اور ہماری مغرفت فرما دیجئے آپ ہر شئے پر قادر ہیں (اور اس دعا کی وجہ یہ ہوگی کہ قیامت میں ہر مومن کو کچھ نہ کچھ نور عطا ہوگا جس وقت پل صراط کے پاس پہنچ کر منافقین کا نور بجھ جاوے گا جسکا ذکر سورة حدید میں آچکا ہے اس وقت مومنین یہ دعا کریں گے کہ منافقین کی طرح کہیں ہمارا نور بھی سلب نہ ہوجائے (کذافی الدر المنثور عن ابن عباس) اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار (سے بذریعہ تلوار) اور منافقین سے (بذریعہ زبان وبیان حجت) جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے (دنیا میں تو یہ اس سزا کے مستحق ہوئے) اور (آخرت میں) ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے ( آگے اس کا بیان ہے کہ آخرت میں ہر شخص کو اپنا ہی ایمان کام آئے گا۔ کافر کو کسی ان کے خویش و عزیز کا ایمان عذاب سے نہ بچائے گا، اسی طرح مومن کے خویش و عزیز کافر ہوں تو مومن کو اس کا کوئی نقصان نہیں پہنچے گا) اللہ تعالیٰ کافروں (کی عبرت) کے لئے نوح کی بی بی اور لوط کی بی بی کا حال بیان فرماتا ہے، وہ دونوں ہمارے خاص بندوں میں سے دو نیک بندوں کے نکاح میں تھیں سو ان عورتوں نے ان دونوں بندوں کا حق ضائع کیا (یعنی بوجہ ان کے نبی ہونے کے ان کا حق یہ بھی تھا کہ ان پر ایمان لاتیں اور دینی احکام میں ان کی اطاعت کرتیں جو انہوں نے نہیں کی) تو وہ دونوں نیک بندے اللہ کے مقابلے میں ان کے ذرا کام نہ آسکے اور ان دونوں عورتوں کو (بوجہ کافر ہوجانے کے) حکم ہوگیا کہ تم دونوں بھی دوسرے جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ جہنم میں داخل ہوجاؤ (یہاں تک کافروں کی عبرت کے لئے واقعہ بیان کیا گیا تھا، آگے مسلمانوں کے اطمینان کے لئے فرمایا) اللہ تعالیٰ مسلمانوں (کی تسلی) کے لئے فرعون کی بی بی (حضرت آسیہ) کا حال بیان کرتا ہے جبکہ ان بی بی نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار میرے واسطے جنت میں اپنے قرب میں مکان بنائے اور مجھ کو فرعون (کے شر) سے اور اسکے عمل (کفر کے ضرر اور اثر) سے محفوظ رکھئے اور مجھ کو تمام ظالم (یعنی کافر) لوگوں (کے ظاہری اور باطنی ضرر) سے محفوظ رکھئے اور (نیز مسلمانوں کی تسلی کے لئے اللہ تعالیٰ ) عمران کی بیٹی حضرت مریم کا حال بیان کرتا ہے جنہوں نے اپنے ناموس کو ( حرام اور حلال دونوں سے) محفوظ رکھا، سو ہم نے ان کے چاک گریبان میں (بواسطہ جبرئیل علیہ السلام) اپنی روح پھونک دی اور انہوں نے اپنے پروردگار کے پیغاموں کی (جو ملائکہ کے ذریعے پہنچے تھے) اور اس کی کتابوں کی (جن میں تورات و انجیل بھی ہیں) تصدیق کی ( یہ بیان ہے ان کے عقائد کا) اور وہ اطاعت والوں میں سے تھیں ( یہ بیان ہے ان کے اعمال کا) - معارف ومسائل - تُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا . توبہ کے لفظی معنے لوٹنے اور رجوع ہونے کے ہیں، مراد گناہوں سے لوٹنا ہے۔ اور اصطلاح قرآن وسنت میں توبہ اس کا نام ہے کہ آدمی اپنے پچھلے گناہ پر نادم ہو اور آئندہ اس کے پاس نہ جانے کا پختہ عزم کرے۔ اور نصوح کو اگر مصدر نصح اور نصیحت سے لیا جائے تو اس کے معنے خالص کرنے کے ہیں، اور مصدر نصاحت سے مشتق قرار دیں تو اس کے معنے کپڑے کو سینے اور جوڑ لگانے کے ہیں۔ پہلے معنے کے اعتبار سے نصوح کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ ریا اور نمود سے خالص ہو۔ محض اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی اور خوف عذاب سے گناہ پر نادم ہو کر اس کو چھوڑ دے اور دوسرے معنی کے اعتبار سے نصوح اس مطلب کے لئے ہوگا کہ اعمال صالحہ کا لباس جو گناہ کی وجہ سے پھٹ گیا ہے تو یہ اسکے خرق یعنی پھٹن کو جوڑنے والی ہے۔ حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ توبہ نصوح یہ ہے کہ آدمی اپنے گزشتہ عمل پر نادم ہو اور پھر اس کی طرف نہ لوٹنے کا پختہ ارادہ اور عزم رکھتا ہو۔ اور کلبی نے فرمایا کہ توبہ نصوح یہ ہے کہ زبان سے استغفار کرے اور دل میں نادم ہو اور اپنے بدن اور اعضاء کو آئندہ اس گناہ سے روکے۔- اور حضرت علی کرم اللہ وجہ سے سوال کیا گیا کہ توبہ کیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا جس میں چھ چیزیں جمع ہوں۔ (١) اپنے گزشتہ برے عمل پر ندامت (٢) جو فرائض وواجبات اللہ تعالیٰ کے چھوٹے ہیں ان کی قضا (٣) کسی کا مال وغیرہ ظلماً لیا تھا تو اسی کی واپسی (٤) کسی کو ہاتھ یا زبان سے ستایا اور تکلیف پہنچائی تھی تو اس سے معافی (٥) آئندہ اس گناہ کے پاس نہ جانے کا پختہ عزم و ارادہ (٦) اور یہ کہ جس طرح اس نے اپنے نفس کو اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے دیکھا ہے اب وہ اطاعت کرتے ہوئے دیکھ لے (مظہری) - حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جو شرائط توبہ بیان فرمائی ہیں وہ سبھی کے نزدیک مسلم ہیں۔ بعض نے مختصر بعض نے مفصل بیان کردیا ہے۔- عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ يُّكَفِّرَ عَنْكُم، آلایة لفظ عسیٰ کا ترجمہ امید ہے اور یہاں مراد اس سے وعدہ ہے مگر اس وعدہ کو بلفظ امید تعبیر کرکے اس طرف اشارہ کردیا کہ توبہ ہو یا انسان کے دوسرے اعمال صالحہ ان میں سے کوئی بھی جنت و مغفرت کی قیمت نہیں اور نہ اللہ کے ذمہ ازروئے انصاف یہ لازم آتا ہے جو عمل صاحل کرے اس کو ضرور جنت ہی میں داخل کرے کیونکہ اعمال صالحہ کا ایک بدلہ تو ہر انسان کو دنیوی زندگی میں عطا ہونے والی نعمتوں سے مل چکا ہے۔ اس کے بدلے میں ازروئے قانون وقاعدہ جنت ملنا ضروری نہیں وہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل و انعام ہی پر موقوف ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم میں کسی کو صرف اس کا عمل نجات نہیں دلا سکتا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ، کیا آپکو بھی، آپ نے فرمایا ہاں مجھے بھی جب تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحمت کا معاملہ نہ فرماویں (بخاری ومسلم) ازمظہری

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَى اللہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا۝ ٠ ۭ عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ يُّكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ۝ ٠ ۙ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللہُ النَّبِيَّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ۝ ٠ ۚ نُوْرُہُمْ يَسْعٰى بَيْنَ اَيْدِيْہِمْ وَبِاَيْمَانِہِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا۝ ٠ ۚ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝ ٨- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت .- الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ : وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- نصح - النُّصْحُ : تَحَرِّي فِعْلٍ أو قَوْلٍ فيه صلاحُ صاحبِهِ. قال تعالی: لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 79] وَلا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِي إِنْ أَرَدْتُ أَنْ أَنْصَحَ لَكُمْ [هود 34] وهو من قولهم : نَصَحْتُ له الوُدَّ. أي : أَخْلَصْتُهُ ، ونَاصِحُ العَسَلِ : خَالِصُهُ ، أو من قولهم : نَصَحْتُ الجِلْدَ : خِطْتُه، والنَّاصِحُ : الخَيَّاطُ ، والنِّصَاحُ : الخَيْطُ ، وقوله : تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً [ التحریم 8] فمِنْ أَحَدِ هذين، إِمَّا الإخلاصُ ، وإِمَّا الإِحكامُ ، ويقال : نَصُوحٌ ونَصَاحٌ نحو ذَهُوب وذَهَاب،- ( ن ص ح ) النصح - کسی ایسے قول یا فعل کا قصد کرنے کو کہتے ہیں جس میں دوسرے کی خیر خواہی ہو قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 79] میں نے تم کو خدا کا پیغام سنادیا ۔ اور تمہاری خیر خواہی کی مگر تم ایسے ہو کہ خیر خواہوں کو دوست ہی نہیں رکھتے ۔ یہ یا تو نصحت لہ الود کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کسی سے خالص محبت کرنے کے ہیں اور ناصح العسل خالص شہد کو کہتے ہیں اور یا یہ نصحت الجلد سے ماخوذ ہے جس کے معنی چمڑے کو سینے کے ہیں ۔ اور ناصح کے معنی درزی اور نصاح کے معنی سلائی کا دھاگہ کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً [ التحریم 8] خدا کے آگے صاف دل سے توبہ کرو ۔ میں نصوحا کا لفظ بھی مذکورہ دونوں محاوروں میں سے ایک سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی خالص یا محکم توبہ کے ہیں اس میں نصوح ور نصاح دو لغت ہیں جیسے ذھوب وذھاب - عسی - عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] ، أي : کونوا راجین - ( ع س ی ) عسیٰ- کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے - كَفَّارَة ( گناهوں کا چهپانا)- والْكَفَّارَةُ : ما يغطّي الإثم، ومنه : كَفَّارَةُ الیمین نحو قوله : ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة 89] وکذلك كفّارة غيره من الآثام ککفارة القتل والظّهار . قال : فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة 89] - والتَّكْفِيرُ- : ستره وتغطیته حتی يصير بمنزلة ما لم يعمل، ويصحّ أن يكون أصله إزالة الکفر والکفران، نحو : التّمریض في كونه إزالة للمرض، وتقذية العین في إزالة القذی عنه، قال : وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة 65] ، نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء 31] وإلى هذا المعنی أشار بقوله : إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود 114] وقیل : صغار الحسنات لا تكفّر کبار السّيّئات، وقال : لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران 195] ، لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر 35] ويقال : كَفَرَتِ الشمس النّجومَ : سترتها، ويقال الْكَافِرُ للسّحاب الذي يغطّي الشمس واللیل، قال الشاعر : ألقت ذکاء يمينها في کافر - «1» وتَكَفَّرَ في السّلاح . أي : تغطّى فيه، والْكَافُورُ : أکمام الثمرة . أي : التي تكفُرُ الثّمرةَ ، قال الشاعر : كالکرم إذ نادی من الکافوروالْكَافُورُ الذي هو من الطّيب . قال تعالی:- كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان 5] .- الکفا رۃ جو چیز گناہ دور کردے اور اسے ڈھانپ لے اسے کفارہ کہا جاتا ہے اسی سے کفارۃ الیمین ہے چناچہ اس کا ذکر کرتی ہوئے فرمایا : ۔ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة 89] یہ تمہاری قسموں کا کفارۃ ہے جب تم قسمیں کھالو ۔ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة 89] تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا کھلانا ہے ۔ اسی طرح دوسرے گناہ جیسے قتل اظہار وغیرہ کے تادان پر بھی کفارہ کا لفظ استعمال ہوا ہے : - التکفیرۃ - اس کے معنی بھی گناہ کو چھپانے اور اسے اس طرح مٹا دینے کے ہیں جسے اس کا ارتکاب ہی نہیں کیا اور ہوسکتا ہے کہ یہ اصل میں ازالۃ کفر یا کفران سے ہو جیسے تم یض اصل میں ازالہ مرض کے آتے ہیں اور تقد یۃ کے معنی ازالہ قذی تنکا دور کرنے کے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة 65] اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو ہم ان سے ان کے گناہ محو کردیتے ۔ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء 31] تو ہم تمہارے ( چھوٹے چھوٹے ) گناہ معاف کر دینگے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود 114] کچھ شک نہیں نیکیاں گناہوں کو دور کردیتی ہیں میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے مگر بعض نے کہا ہے کہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں بڑے گناہوں کا کفارہ نہیں بن سکتیں ۔ لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران 195] میں ان کے گناہ دور کردوں گا ۔ لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر 35] تاکہ خدا ان سے برایئوں کو جو انہوں نے کیں دور کر دے ۔ محاورہ ہے : ۔ کفرت الشمس النجوم سورج نے ستاروں کو چھپادیا اور اس بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے جو سورج کو چھپا لیتا ہے : ۔ تکفر فی السلاح اس نے ہتھیار پہن لئے ۔ الکافو ر اصل میں پھلوں کے خلاف کو کہتے ہیں جو ان کو اپنے اندر چھپائے رکھتا ہے شاعر نے کہا ہے ( 375 ) کا لکریم اذ نادی من لکافور جیسے انگور شگوفے کے غلاف سے ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن کافور ایک مشہور خوشبو کلمہ بھی نام ہے چناچہ فرمایا : ۔ كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان 5] جس میں کافور کی آمیزش ہوگی ۔- سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- جری - الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية 12] ، وقال : إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة 11] ، أي : السفینة التي تجري في البحر، وجمعها : جَوَارٍ ، قال عزّ وجلّ : وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن 24] ، وقال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری 32] ، ويقال للحوصلة : جِرِّيَّة «2» ، إمّا لانتهاء الطعام إليها في جريه، أو لأنها مجری الطعام . والإِجْرِيَّا : العادة التي يجري عليها الإنسان، والجَرِيُّ : الوکيل والرسول الجاري في الأمر، وهو أخصّ من لفظ الرسول والوکيل، وقد جَرَيْتُ جَرْياً. وقوله عليه السلام : «لا يستجرینّكم الشّيطان» يصح أن يدّعى فيه معنی الأصل . أي : لا يحملنّكم أن تجروا في ائتماره وطاعته، ويصح أن تجعله من الجري، أي : الرسول والوکيل ومعناه : لا تتولوا وکالة الشیطان ورسالته، وذلک إشارة إلى نحو قوله عزّ وجل : فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء 76] ، وقال عزّ وجل : إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران 175] .- ( ج ر ی ) جریٰ ( ض)- جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے اور آیت کریمہ ؛ إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة 11] جب پانی طغیانی پر آیا تو ہم نے تم لو گوں کو کشتی میں سوار کرلیا ۔ - میں جاریۃ سے مراد کشتی ہے اس کی جمع جوار آتی ہے جیسے فرمایا ؛۔ وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن 24] اور جہاز جو اونچے کھڑے ہوتے ہیں ۔ وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری 32] اور اسی کی نشانیوں میں سے سمندر کے جہاز ہیں ( جو ) گویا یا پہاڑ ہیں ۔ اور پرند کے سنکدانہ کو جریۃ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ کھانا چل کر وہاں پہنچتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ طعام کا مجریٰ بنتا ہے ۔ الاجریات عاوت جس پر انسان چلتا ہے ۔ الجری وکیل ۔ یہ لفظ رسول اور وکیل سے اخص ہی ۔ اور جرمت جریا کے معنی وکیل بنا کر بھینے کے ہیں اور حدیث میں ہے :۔ یہاں یہ لفظ اپنے اصل معنی پر بھی محمول ہوسکتا ہے یعنی شیطان اپنے حکم کی بجا آوری اور اطاعت میں بہ جانے پر تمہیں بر انگیختہ نہ کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ جری بمعنی رسول یا وکیل سے مشتق ہو اور معنی یہ ہونگے کہ شیطان کی وکالت اور رسالت کے سرپر ست مت بنو گویا یہ آیت کریمہ ؛ فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء 76] شیطان کے مددگاروں سے لڑو ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور فرمایا :إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران 175] یہ ( خوف دلانے والا ) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈرتا ہے ۔- (بقیہ حصہ کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اے ایمان والو تم اپنے گناہوں سے اللہ کے سامنے سچی توبہ کرو یعنی دل میں ندامت زبان پر استغفار اور بدن پر تواضع و انکسار ہو امید ہے توبہ کی وجہ سے تمہارا رب تمہارے گناہوں کو معاف کردے گا اور تمہیں جنت کے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی۔- اور قیامت کا دن ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ نبی کریم کو اور ان ایمان والوں کو جو کہ آپ کے ساتھ ہیں جیسا کہ حضرت ابوبکر کفار کی طرح رسوا نہیں کرے گا۔- یا یہ کہ ان کو عذاب نہیں دے گا ان کا نور پل صراط پر ان کے سامنے اور دائیں طرف روشن ہوگا اور منافقین کے نور بجھ جانے کے بعد یوں دعا کرتے ہوں گے اے ہمارے رب ہمارے نور کو پل صراط پر ہمارے لیے اخیر تک رکھیے اور ہمارے گناہوں کو معاف کردیجیے آپ نور کو اخیر تک رکھنے اور گناہوں کے معاف کرنے پر قادر ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًاط ” اے اہل ایمان توبہ کرو اللہ کی جناب میں خالص توبہ۔ “- یہ آیت اپنے مضمون اور اسلوب کے اعتبار سے زیر مطالعہ سورتوں کے گروپ میں منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ اس میں پل صراط کے اس ماحول کی جھلک بھی دکھائی گئی ہے جس کی تفصیل سورة الحدید میں آئی ہے۔ اس آیت کے ابتدائی حصے میں اہل ایمان کو توبہ سے متعلق جو حکم دیا گیا ہے اس حکم میں بہت جامعیت ہے۔ اس سے مراد صرف کسی ایک برے عمل کی توبہ نہیں کہ کوئی شخص شراب نوشی سے توبہ کرلے یا کوئی رشوت خوری سے باز آجائے ‘ بلکہ اس سے مراد غفلت کی زندگی اور معصیت کی روش سے توبہ ہے ۔ بلکہ یوں سمجھئے کہ یہ زندگی کا رخ بدلنے کا حکم ہے ‘ کہ اے ایمان کے دعوے دارو ذرا اپنی زندگی کے شب و روز پر غور تو کرو کہ تمہارا رخ کس طرف ہے ؟ تمہاری زندگی کے سفر کی منزل کیا ہے ؟ تم محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نقش قدم پر چل رہے ہو یا کسی اور کی پیروی کر رہے ہو ؟ فَاَیْنَ تَذْھَبُوْنَ ۔ (التکویر) ۔۔۔۔ - تو اے اللہ کے بندو اپنی زندگی کے شب و روز اور معمولات کا جائزہ لو ‘ اپنی دوڑ دھوپ اور اپنی ترجیحات پر غور کرو۔ پھر اگر تم محسوس کرو کہ تم غلط رخ پر جا رہے ہو تو اپنے بڑھتے ہوئے قدم فوراً روک لو فَفِرُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ (الذاریات : ٥٠) اور کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر اپنے رب کی طرف پلٹ آئو تمہارے پلٹنے کے لیے اللہ کی رحمت کا دروازہ اس وقت تک کھلا ہے جب تک تمہاری موت کے آثار ظاہر نہیں ہوتے۔ چناچہ ابھی موقع ہے کہ اس کے حضور سجدہ ریز ہو کر اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرو ‘ زندگی کے جو ماہ و سال غفلت کی نذر ہوگئے ہیں ان پر اشک ندامت بہائو ‘ صدقِ دل اور اخلاصِ نیت سے معافی مانگو اور غلط روش کو ترک کرنے کے بعد زندگی کا سفر از سرنو شروع کرو۔ - یہاں پر یہ نکتہ بھی سمجھ لیجیے کہ سفر زندگی کی سمت درست کرنے کے لیے فرائض دینی کا درست فہم اور ادراک بھی ضروری ہے۔ ظاہر ہے دین صرف نمازیں پڑھنے اور رمضان کے روزے رکھنے ہی کا نام نہیں ‘ بلکہ ایک بندئہ مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی معاشرت اور معیشت کو بھی ” مسلمان “ کرے۔ پھر یہ کہ جو ہدایت اسے نصیب ہوئی ہے اسے دوسروں تک پہنچانے کا اہتمام کرے اور کسی جماعت میں شامل ہو کر دین کے سب سے اہم فرض کی ادائیگی یعنی باطل نظام کے خاتمے اور اللہ تعالیٰ کی حکومت کے قیام کی جدوجہد میں سرگرمِ عمل ہوجائے۔ اس کے لیے انقلابِ نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہج کو سمجھنا اور اس منہج کی پیروی کرنا بہت ضروری ہے۔ آج ہماری جدوجہد میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کی محنت اور کوشش کی سی کیفیت تو پیدا نہیں ہوسکتی کہ ع ” وہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا “ لیکن ہمیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہج پر چلنے کی کوشش تو کرنی چاہیے۔ ادنیٰ سے ادنیٰ درجے میں سہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تحریک کے ساتھ اپنی جدوجہد کی کچھ نہ کچھ مماثلت اور مشابہت تو پیدا کرنی چاہیے۔ چناچہ ایک ایک گھر اور ایک ایک فرد تک دعوت پہنچانے کا اہتمام ‘ دعوت پر لبیک کہنے والوں کی تنظیم و تربیت کا انتظام ‘ صبر و مصابرت کی حکمت عملی ‘ جیسے ضروری مراحل ہمیں اسی طریقے سے طے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جس طریقے سے خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ مراحل طے فرمائے تھے۔ اس موضوع پر مزید معلومات کے لیے میری کتاب ” منہجِ انقلابِ نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ اور اسی عنوان سے تقاریر کی ریکارڈنگ سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔- عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ ” امید ہے تمہارا رب تم سے تمہاری برائیوں کو دور کردے گا “- تمہارے توبہ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہارے نامہ اعمال سے تمام دھبے دھو ڈالے گا اور تمہارے دامن ِکردار کے تمام داغ صاف کر دے گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لاَ ذَنْبَ لَـہٗ ) (١) کہ گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے ہوجاتا ہے جیسے اس نے وہ گناہ کبھی کیا ہی نہ ہو۔ - وَیُدْخِلَـکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُلا ” اور تمہیں داخل کرے گا ایسے باغات میں جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی “- یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ ” جس دن اللہ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کو رسوا نہیں کرے گا۔ “- نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَبِاَیْمَانِھِمْ ” (اُس دن) ان کا نور دوڑتا ہوگا ان کے سامنے اور ان کے داہنی طرف “- یہ مضمون اس سے پہلے انہی الفاظ میں سورة الحدید کی آیت ١٢ میں بھی آچکا ہے۔ نورِ ایمان ان کے سامنے ہوگا جبکہ اعمالِ صالحہ کا نور داہنی طرف ہوگا۔- یَـقُوْلُوْنَ رَبَّـنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا ” وہ کہتے ہوں گے : اے ہمارے رب ہمارے لیے ہمارے نور کو کامل کر دے “- وَاغْفِرْلَنَاج اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ ۔ ” اور تو ہمیں بخش دے ‘ یقینا تو ہر شے پر قادر ہے۔ “- ہر بندئہ مومن کا نور اس کے ایمان اور اعمالِ صالحہ کی مناسبت سے ہوگا۔ حضرت قتادہ (رح) سے مرسلاً روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کسی کا نور اتنا تیز ہوگا کہ مدینہ سے عدن تک کی مسافت کے برابر فاصلے تک پہنچ رہا ہوگا اور کسی کا نور مدینہ سے صنعاء تک ‘ اور کسی کا اس سے کم ‘ یہاں تک کہ کوئی مومن ایسا بھی ہوگا جس کا نور اس کے قدموں سے آگے نہ بڑھے گا۔ “ (ابن جریر) (١)- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان کے مطابق تصور کریں حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور دوسرے صحابہ کرام (رض) کے نور کا کیا عالم ہوگا۔ بہرحال ہم جیسے مسلمانوں کو اس دن اگر ٹارچ کی روشنی جیسا نور بھی مل جائے تو غنیمت ہے۔ لیکن ہمارے لیے یہاں توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ اس دن کچھ لوگوں کا نور کم کیوں ہوگا۔ یقینا وہ ایسے لوگ ہوں گے جن کے ایمان میں کسی پہلو سے کوئی کمزوری رہ گئی ہوگی اور اعمال میں کوتاہیاں سرزدہوئی ہوں گی۔ یقینا انہوں نے اپنی استعداد کو ‘ اپنے مال کو اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو بچا بچا کر رکھا ہوگا اور اللہ کے راستے میں انہیں اس حد تک خرچ نہیں کیا ہوگا جس حد تک خرچ کرنے کے وہ مکلف تھے۔ اس حوالے سے علامہ اقبال کی یہ نصیحت ہمیں حرزجاں بنا لینی چاہیے : ؎- تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ‘ ترا آئینہ ہے وہ آئینہ - کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں - بہرحال پل صراط کے کٹھن اور نازک راستے پر جن اہل ایمان کا نور کم ہوگا وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ اے اللہ تو اپنے فضل اور اپنی شان غفاری سے ہماری کوتاہیوں کو ڈھانپ لے اور ہمارے نور کو بھی مکمل فرمادے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :19 اصل میں توبۃً نصوحاً کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ نصح کے معنی عربی زبان میں خلوص اور خیر خواہی کے ہیں ۔ خالص شہد کو عسل ناصح کہتے ہیں جس کو موم اور دوسری آلائشوں سے پاک کر دیا گیا ہو ۔ پھٹے ہوئے کپڑے کو سی دینے اور ادھڑے ہوئے کپڑے کی مرمت کر دینے کے لیے نصاحۃ الثوب کا لفاظ استعمال کیا جاتا ہے ۔ پس توجہ کو نصوح کہنے کا مطلب لغت کے اعتبار سے یا تو یہ ہو گا کہ آدمی ایسی خالص توجہ کرے جس میں ریاء اور نفاق کا شائبہ تک نہ ہو ۔ یا یہ کہ آدمی خود اپنے نفس کے ساتھ خیر خواہی کرے اور گناہ سے توبہ کر کے اپنے آپ کو بد انجامی سے بچا لے ۔ یا یہ کہ گناہ سے اس کے دین میں جو شگاف پڑ گیا ہے ، توبہ کے ذریعہ سے اس کی اصلاح کر دے ۔ یا یہ کہ توبہ کر کے وہ اپنی زندگی کو اتنا سوار لے کہ دوسروں کے لیے وہ نصیحت کا موجب ہو اور اسکی مثال کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اسی کی طرح اپنی اصلاح کرلیں ۔ یہ تو ہیں توبہ نصوح کے وہ مفہومات جو اس کے لغوی معنوں سے مترشح ہوتے ہیں ۔ رہا اسی کا شرعی مفہوم تو اس کی تشریح ہمیں اس حدیث میں ملتی ہے جو ابن ابی حاتم نے زر بن حبیش کے واسطے سے نقل کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب سے توجہ نصوح کا مطلب پوچھا تو انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ سے یہی سوال کیا تھا آپ نے فرمایا اس سے مراد یہ ہے کہ جب تم سے کوئی قصور ہو جائے تو اپنے گناہ پر نادم ہو ، پھر شرمندگی کے ساتھ اس پر اللہ سے استغفار کرو اور آئندہ کبھی اس فعل کا ارتکاب نہ کرو ۔ یہی مطلب حضرت عمر ، حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی منقول ہے ، اور ایک روایت میں حضرت عمر نے توبہ نصوح کی تعریف یہ بیان کی ہے کہ توبہ کے بعد آدمی کا اعادہ تو درکنار ، اس کے ارتکاب کا ارادہ تک نہ کرے ۔ ( ابن جریر ) ۔ حضرت علی نے ایک مرتبہ ایک بدو کو جلدی جلدی توبہ و استغفار کے الفاظ زبان سے ادا کرتے سنا تو فرمایا یہ توبۃ الکذابین ہے ۔ اس نے پوچھا پھر صحیح توبہ کیا ہے؟ فرمایا اس کے ساتھ چھ چیزیں ہونی چاہیں ( 1 ) جو کچھ ہو چکا ہے اس پر نادم ہو ۔ ( 2 ) اپنے جن فرائض سے غفلت برتی ہو ان کو ادا کر ۔ ( 3 ) جس کا حق مارا ہو اس کو واپس کر ۔ ( 4 ) جس کو تکلیف پہنچائی ہو اس سے معافی مانگ ۔ ( 5 ) آئندہ کے لیے عزم کر لے کہ اس گناہ کا اعادہ نہ کرے گا ۔ اور ( 6 ) اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت میں گھلا دے جس طرح تو نے اب تک اسے معصیت کا خوگر بنائے رکھا ہے اور اس کو طاعت کی تلخی کا مزا چکھا جس طرح اب تک تو اسے معصیتوں کی حلاوت کا مزا چکھاتا رہا ہے ۔ ( کشاف ) توبہ کے سلسلہ میں چند امور اور بھی ہیں جنہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ اول یہ کہ توبہ درحقیقت کسی معصیت پر اس لیے نادم ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی نافرمانی ہے ۔ ورنہ کسی گناہ سے اس لیے پرہیز کا عہد کر لینا کہ وہ مثلاً صحت کے لیے نقصان دہ ہے ، یاکسی بدنامی کا ، یا مالی نقصان کا موجب ہے ، توبہ کی تعریف میں نہیں آتا ۔ دوسرے یہ کہ جس وقت آدمی کو احساس ہو جائے کہ اس سے اللہ کی نافرمانی ہوئی ہے ، اسی وقت اسے توبہ کرنی چاہیے اور جس شکل میں بھی ممکن ہو بلا تاخیر اس کی تلافی کر دینی چاہیے ، اسے ٹالنا مناسب نہیں ہے ۔ تیسرے یہ کہ توبہ کر کے بار بار اسے توڑتے چلے جانا اور توبہ کو کھیل بنا لینا اور اسی گناہ کا بار بار اعادہ کرنا جس سے توبہ کی گئی ہو ، توبہ کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے ، کیونکہ توبہ کی اصل روح گناہ پر شرمساری ہے ، اور بار بار کی توبہ شکنی اس بات کی علامت ہے کہ اس کے پیچھے کوئی شرمساری موجود نہیں ہے ۔ چوتھے یہ کہ جو شخص سچے دل سے توبہ کر کے یہ عزم کر چکا ہو کہ پھر اس گناہ کا اعادہ نہ کرے گا ، اس سے اگر بشری کمزوری کی بنا پر اسی گناہ کا اعادہ ہو جائے تو پچھلا گناہ تازہ نہ ہو گا البتہ اسے بعد والے گناہ پر پھر توبہ کرنی چاہیے اور زیادہ سختی کے ساتھ عزم کرنا چاہیے کہ آئندہ وہ توبہ شکنی کا مرتکب نہ ہو ۔ پانچویں یہ کہ ہر مرتبہ جب معصیت یاد آئے ، توبہ کی تجدید کرنا لازم نہیں ہے ، لیکن اگر اس کا نفس اپنی سابق گناہ گارانہ زندگی کی یاد سے لطف لے رہا ہو تو بار بار توبہ کرنی چاہیے یہاں تک کہ گناہوں کی یاد اس کے لیے لذت کے بجائے شرمساری کی موجب بن جائے ۔ اس لیے جس شخص نے فی الواقع خدا کے خوف کی بنا پر معصیت سے توجہ کی ہو وہ اس خیال سے لذت نہیں لے سکتا کہ وہ خدا کی نافرمانی کرتا رہا ہے ۔ اس سے لذت لینا اس بات کی علامت ہے کہ خدا کے خوف نے اس کے دل میں جڑ نہیں پکڑی ہے ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :20 آیت کے الفاظ قابل غور ہیں ۔ یہ نہیں فرمایا گیا کہ توبہ کر لو تو تمہیں ضرور معاف کر دیا جائے گا اور لازماً تم جنت میں داخل کر دیے جاؤ گے ، بلکہ یہ امید دلائی گئی ہے کہ اگر تم سچے دل سے توبہ کرو گے تو بعید نہیں کہ اللہ تمہارے ساتھ یہ معاملہ کرے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ گناہ گار کی توبہ قبول کر لینا اور اسے سزا دینے کے بجائے جنت عطا فرما دینا اللہ پر واجب نہیں ہے ، بلکہ یہ سراسر اس کی عنایت و مہربانی ہو گی کہ وہ معاف بھی کرے اور انعام بھی دے ۔ بندے کو اس سے معافی کی ا مید تو ضرور رکھنی چاہیے مگر اس بھروسے پر گناہ نہیں کرنا چاہیے کہ توبہ سے معافی مل جائے گی ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :21 یعنی ان کے اعمال حسنہ کا اجر ضائع نہ کر ےگا کفار و منافقین کو یہ کہنے کا موقع ہرگز نہ دے گا کہ ان لوگوں نے خدا پرستی بھی کی تو اس کا کیا صلہ پایا ۔ رسوائی باغیوں اور نافرمانوں کے حصے میں آئے گی نہ کہ وفاداروں اور فرماں برداروں کے حصے میں ۔ سورة التَّحْرِيْم حاشیہ نمبر :22 اس آیت کو سورہ حدید کی آیات 12 ۔ 13 کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اہل ایمان کے آگے آگے نور کے دوڑنے کی یہ کیفیت اس وقت پیش آئے گی جب وہ میدان حشر سے جنت کی طرف جا رہے ہوں گے ۔ وہاں ہر طرف گھپ اندھیرا ہو گا جس میں وہ سب لوگ ٹھوکریں کھا رہے ہوں گے جن کے حق میں دوزح کا فیصلہ ہو گا ، اور روشنی صرف اہل ایمان کے ساتھ ہو گی جس کے سہارے وہ اپنا راستہ طے کر رہے ہوں گے ۔ اس نازک موقع پر تاریکیوں میں بھٹکنے والے لوگوں کی آہ و فغاں سن سن کر اہل ایمان پر خشیت کی کیفیت طاری ہو رہی ہو گی ، اپنے قصوروں اور اپنی کوتاہیوں کا احساس کر کے انہیں اندیشہ لاحق ہو گا کہ کہیں ہمارا نور بھی نہ چھن جائے اور ہم ان بدبختوں کی طرح ٹھوکریں کھاتے نہ رہ جائیں ۔ اس لیے وہ دعا کریں گے کہ اے ہمارے رب ہمارے قصور معاف فرما دے اور ہمارے نور کو جنت میں پہنچنے تک ہمارے لیے باقی رکھ ۔ ابن جریر نے حضرت عبداللہ بن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ : ربنا اتمم لنا نورنا کے معنی یہ ہیں کہ: وہ اللہ تعالی سے دعا کریں گے کہ ان کا نور اس وقت تک باقی رکھا جائے اور اسے بجھنے نہ دیا جائے جب تک وہ پل صراط سے بخریت نہ گزر جائیں ۔ حضرت حسن بصری اور مجاہد اور ضحاک کی تفسیر بھی قریب قریب یہی ہے ۔ ابن کثیر نے ان کا یہ قول نقل کیا ہے اہل ایمان جب دیکھیں گے کہ منافقین نور سے محروم رہ گئے ہیں تو وہ اپنے حق میں اللہ سے تکمیل نور کی دعا کریں گے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، الحدید ، حاشیہ 17 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

8: اس سے مراد غالبا وہ وقت ہے جب تمام لوگ پل صراط سے گذر رہے ہوں گے، وہاں ہر اِنسان کا اِیمان اُس کے سامنے نور بن کر اُسے راستہ دکھائے گا، جیسا کہ سور حدید :12 میں گذر چکا ہے۔ 9: یعنی آخر تک اُسے برقرار رکھیے، کیونکہ سور حدید میں گزر چکا ہے کہ منافق بھی شروع میں اس نور سے فائدہ اٹھائیں گے، لیکن بعد میں اُن سے نور سلب کرلیا جائے گا۔