11۔ 1 جس کی بنا پر مستحق عذاب قرار پائے اور وہ ہے کفر اور انبیاء (علیہم السلام) کی تکذیب۔ 11۔ 2 یعنی اب ان کے لئے اللہ اور اس کی رحمت سے دوری ہی دوری ہے۔
[١٤] یہاں گناہ کا لفظ واحد استعمال ہوا ہے۔ حالانکہ ان کی ساری کی ساری زندگی گناہوں سے لبریز تھی۔ اس لیے کہ اللہ کی آیات سے انکار اور جھٹلانا یہ ایک گناہ باقی سارے گناہوں کی جڑ ہے۔ باقی سب گناہ اسی ایک بڑے گناہ کی شاخیں ہیں۔
فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْبِہِمْ ۔۔۔۔: وہ اپنے گناہ کا اقرارکریں گے ، یہ نہیں فرمایا کہ وہ اپنے گناہوں کا اقرار کریں گے کیونکہ ان کو جہنم میں لے جانے والا اصل گناہ ایک ہی تھا ، یعنی رسولوں کو جان بوجھ کر جھٹلا دینا ، مگر ایسے اقرار کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ، بلکہ جانتے بوجھتے جہنمی بننے والوں کو یہی کہا جائے گا کہ جہنمی اللہ کی رحمت سے دورہو جائیں ۔ ” سحقا “ ” سحبن “ (س، ک) کا مصدر ہے ، دور ہونا اور ” سحیق “ بعید۔
فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْۢبِہِمْ ٠ ۚ فَسُحْقًا لِّاَصْحٰبِ السَّعِيْرِ ١١- اعْتِرَافُ- والاعْتِرَافُ : الإقرارُ ، وأصله :إظهار مَعْرِفَةِ الذّنبِ ، وذلک ضدّ الجحود . قال تعالی: فَاعْتَرَفُوا بِذَنْبِهِمْ [ الملک 11] ، فَاعْتَرَفْنا بِذُنُوبِنا[ غافر 11] .- الاعتراف ( افتعال ) کے معنی اقرار کے میں اصل میں اس کے معنی گناہ کا اعتراف کرنے کے ہیں ۔ اس کی ضد جحود یعنی انکار کرنا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ؛ فَاعْتَرَفُوا بِذَنْبِهِمْ [ الملک 11] پس وہ اپنے گناہ کا اقرار کریں گے ۔ فَاعْتَرَفْنا بِذُنُوبِنا[ غافر 11] ہم کو اپنے گناہوں کا اقرار ہے - ذنب - والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] ،- الذنب ( ض )- کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔- سحق - السَّحْقُ : تفتیت الشیء، ويستعمل في الدّواء إذا فتّت، يقال : سَحَقْتُهُ فَانْسَحَقَ ، وفي الثوب إذا أخلق، يقال : أَسْحَقَ ، والسُّحْقُ : الثوب البالي، ومنه قيل : أَسْحَقَ الضّرعُ ، أي : صار سَحْقاً لذهاب لبنه، ويصحّ أن يُجعل إِسْحَاقُ منه، فيكون حينئذ منصرفا «3» ، وقیل : أبعده اللہ وأَسْحَقَهُ ، أي : جعله سَحِيقاً ، وقیل : سَحَقَهُ ، أي جعله بالیا، قال تعالی: فَسُحْقاً لِأَصْحابِ السَّعِيرِ [ الملک 11] ، وقال تعالی: أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكانٍ سَحِيقٍ- [ الحج 31] ، ودم مُنْسَحِقٌ ، وسَحُوقٌ مستعار، کقولهم : مدرور .- ( س ح ق ) السق ( ض ک ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو ریزہ ریزہ کرنے کے ہیں ۔ زیادہ تر دوا کے پیسنے پر اس کا استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے : ۔ سحقتہ فانسحق میں نے دوا کو پیسا چناچہ وہ پس گئی اسحق الثوب کے معنی کپڑے کا پرانا ہوجانا کے ہیں اور پرانے کپڑے کو سحق کہا جاتا ہے اسی سے اسحق الضوع کا محاورہ جس کے معنی ہیں دودھ خشک ہوجانے کی وجہ سے تھن مرجھا گئے : ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہوسکتا ہے کہ اسحق ( علم ) بھی اسی س مشتق ہو اس صورت میں یہ اسم منصرف ہوگا ۔ اور کپڑے کے بوسیدہ کردینے پر سحقہ ( مجرد ) بھی استعمال ہوتا ہے اور محاورہ میں اسحقہ اللہ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کرے اسی سے فرمایا : ۔ فَسُحْقاً لِأَصْحابِ السَّعِيرِ [ الملک 11] کہ دوزخیوں کے لئے دوری ہے ۔ اور فرمایا : ۔ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكانٍ سَحِيقٍ [ الحج 31] یا اس کو ہوا کسی دور جگہ لے کر ڈال دے گی ۔ اور استعارہ کے طور پر جاری خون کو منسحق و سحوق کہا جاتا ہے جیسے مزرور ۔
غرض اپنے شرک کا اقرار کریں گے سو آج کے دن دوزخیوں پر لعنت اور رحمت خداوندی سے دوری ہے۔
آیت ١ ١ فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْبِہِمْ ” پس وہ اپنے اصل گناہ کا اعتراف کرلیں گے۔ “ - فَسُحْقًا لاَصْحٰبِ السَّعِیْرِ ۔ ” پس پھٹکار ہے جہنمی لوگوں کے لیے۔ “- اب تقابل کے طور پر آگے اہل جنت کا تذکرہ آ رہا ہے ۔
سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :17 قصور کالفظ واحد استعمال ہوا ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اصل قصور جس کی بنا پر وہ جہنم کے مستحق ہوئے رسولوں کا جھٹلانا اور ان کی پیروی سے ا نکار کرنا ہے ۔ باقی سارے گناہ اسی کی فرع ہیں ۔