وہ لا انتہا عفو و مغفرت کا مالک بھی اور گرفت پر قادر بھی ہے ۔ ان آیتوں میں بھی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے لطف و رحمت کا بیان فرما رہا ہے کہ لوگوں کے کفر و شرک کی بناء پر وہ طرح طرح کے دنیوی عذاب پر بھی قادر ہے لیکن اس کا علم اور عفو ہے کہ وہ عذاب نہیں کرتا ۔ جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰي ظَهْرِهَا مِنْ دَاۗبَّةٍ وَّلٰكِنْ يُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِعِبَادِهٖ بَصِيْرًا 45ۧ ) 35- فاطر:45 ) ، یعنی اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کی برائیوں پر پکڑ لیتا تو روئے زمین پر کسی کو باقی نہ چھوڑتا لیکن وہ ایک مقررہ وقت تک انہیں مہلت دیئے ہوئے ہے ۔ جب ان کا وہ وقت آ جائے گا تو اللہ ان مجرم بندوں سے آپ سمجھ لے گا ۔ یہاں بھی فرمایا کہ زمین ادھر ادھر ہو جاتی ، ہلنے اور کانپنے لگ جاتی اور یہ سارے کے سارے اس میں دھنسا دیئے جاتے ، یا ان پر ایسی آندھی بھیج دی جاتی جس میں پتھر ہوتے اور ان کے دماغ توڑ دیئے جاتے ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ اَوْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ وَكِيْلًا 68ۙ ) 17- الإسراء:68 ) یعنی کیا تم نڈر ہوگئے ہو کہ زمین کے کسی کنارے میں تم دھنس جاؤ یا تم پر وہ پتھر برسائے اور کوئی نہ ہو جو تمہاری وکالت کر سکے ، یہاں بھی فرمان ہے کہ اس وقت تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میری دھمکیوں کو اور ڈراوے کو نہ ماننے کا انجام کیا ہوتا ہے؟ تم خود دیکھ لو کہ پہلے لوگوں نے بھی نہ مانا اور انکار کر کے میری باتوں کی تکذیب کی تو ان کا کس قدر برا اور عبرتناک انجام ہوا ۔ کیا تم میری قدرتوں کا روزمرہ کا یہ مشاہدہ نہیں کر رہے کہ پرند تمہارے سروں پر اڑتے پھرتے ہیں کبھی دونوں پروں سے کبھی کسی کو روک کر ، پھر کیا میرے سوا کوئی اور انہیں تھامے ہوئے ہے؟ میں نے ہواؤں کو مسخر کر دیا ہے اور یہ معلق اڑتے پھرتے یہیں یہ بھی میرا لطف و کرم اور رحمت و نعمت ہے ۔ مخلوقات کی حاجتیں ضرورتیں ان کی اصلاح اور بہتری کا نگراں اور کفیل میں ہی ہوں ، جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( اَلَمْ يَرَوْا اِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِيْ جَوِّ السَّمَاۗءِ 79 ) 16- النحل:79 ) کیا انہوں نے ان پرندوں کو نہیں دیکھا جو آسمان و زمین کے درمیان مسخر ہیں جن کا تھامنے والا سوائے ذات باری کے اور کوئی نہیں یقیناً اس میں ایمانداروں کے لئے بڑی بڑی نشانیاں ہیں ۔
16۔ 1 یہ کافروں کو ڈرایا جا رہا ہے کہ آسمانوں والی ذات جب چاہے تمہیں زمین میں دھنسا دے۔ یعنی وہی زمین جو تمہاری قرار گاہ ہے اور تمہاری روزی کا مخزن و منبع ہے، اللہ تعالیٰ اسی زمین کو، جو نہایت پر سکون ہے، حرکت، جنبش میں لا کر تمہاری ہلاکت کا باعث بنا سکتا ہے۔
١۔ ئَ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآئِ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمُ الْاَرْضَ ۔۔۔۔:” تمور “ حرکت کرنے لگے ، یعنی زبردست زلزلے سے لرزنے لگے۔ ( دیکھئے طور : ٩) پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات کا ذکر فرمایا تھا اور اس آیت میں اپنی شان قہاریت کا اظہار کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ زمین اگرچہ تمہارے تابع کردی گئی ہے کہ تم جیسے چاہو اس میں تصرف کرسکو، لیکن یاد رکھو کہ یہ اسی آسمان والے کی ملکیت ہے ، وہ چاہے تو تمہیں اس کے اندر دھنسا دے ( جس طرح قارون کو دھنا دیا ، دیکھئے قصص : ٨١) اور چاہے تو بھونچا سے لرزنے لگے ، لہٰذا اس پر سرکش و خود مختار ہو کر نہیں بلکہ فرما برداروں کی طرح ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرو۔ ( اشرف الحواشی) اس آیت کا اور اس کے بعد والی آیت کا مفہوم سورة ٔ انعام ( ٦٥) اور سورة ٔ کہف ( ٦٨، ٦٩) میں بیان ہوا ہے۔- ٢۔ ئَ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآئِ :” السمائ “ ” سمو “ سے مشتق ہے ، جس کا معنی بلندی ہے۔ ہر وہ چیز جو اوپر ہوا سے ” سماء “ کہہ لیتے ہیں ۔ ان دونوں آیات سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اوپر کی طرف ہے۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر رحمان کا عرش پر ہونا بیان فرمایا ہے۔ معاویہ بن حکم سلمی (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی لونڈی کے متعلق پوچھا کہ کیا میں اسے آزاد کر دوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( ائتنی بھا)” اسے میرے پاس لاؤ “ ۔ میں اسے آپ کے پاس لے کر آیا تو آپ نے اس سے پوچھا :( این اللہ ؟ ) ” اللہ کہاں ہے ؟ “ اس نے کہا :( فی السمائ)” آسمان میں “۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( من آنا ؟ ) میں کون ہوں ؟ “ اس نے کہا : ( انت رسول اللہ)” آپ اللہ کے رسول ہیں “۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( اعتقھا فانھا مومنۃ ) ( مسلم ، المساجد ، باب تحریم الکلام فی الصلاۃ۔۔۔۔ ٥٣٧)” اسے آزاد کر دو ، یہ مومنہ ہے۔ “ تمام سلف صالحین کا یہی عقیدہ ہے ، بعد کے لوگ جو یونانی فلسفے سے متاثر ہوگئے انہوں نے اللہ تعالیٰ کی صفت علو ( اوپر ہونے کی صفت) کا انکار کردیا ، کسی نے کہاوہ لا مکان ہے ، کسی نے کہا وہ ہر جگہ ہے اور قرآن و حدیث کی صاف نصوص کی تاویل کی ۔ بعض لوگ تو یہاں تک پہنتچ گئے کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ سوال ہی کفر ہے کہ اللہ تعالیٰ کہاں ہے ؟ انہوں نے یہ خیال نہ کیا کہ یہ سوال تو خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا ہے اور اس کے جواب میں بھی اللہ تعالیٰ کے آسمانوں پر ہونے کے عقیدے کو آپ نے ایمان قرار دیا ہے۔ ( دیکھئے مسلم : ٥٣٧) تو کیا نعوذ باللہ یہ فتویٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی لگایا جائے گا ؟- قرآن مجید ” ئَ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآئِ “ میں اللہ تعالیٰ کا آسمان پر ہونا فرما رہا ہے اور یہ بات انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے کہ وہ دذعا کرتا ہے تو آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتا ہے ، مگر فلسفے کے مارے ہوئے یہ حضرات کبھی کہتے ہیں کہ اس کا مطلب تو پھر یہ ہوا کہ وہ آسمانوں پر بیٹھا ہوا ہے ، کبھی کہتے ہیں کہ پھر کیا وہ آسمان میں رہتا ہے ؟ اس طرح تو وہ آسمان کا محتاج ہوا جبکہ آسمان و زمین خود اس نے پیدا کیے ہیں ۔ حالانکہ سلف صالحین کے عقیدہ کے مطابق وہ لفظ اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال کرنا جائز نہیں جو اس نے خود اپنے متعلق استعمال نہ کیا ہو ۔ اب یہ کس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کھڑا ہے یا بیٹھا ہے ؟ قرآن و حدیث سے اللہ تعالیٰ کی بلندی کی جانب ہونا اور عرش پر ہونا ثابت ہے ، اس کی کیفیت کسی کو معلوم نہیں اور وہ عرش کا یا بلندی کا محتاج نہیں بلکہ اس کے عرش پر ہونے کے باوجود عرش خود اس کا محتاج ہے اور اس نے عرش اور آسمان و زمین کو تھام رکھا ہے۔ مخلوق میں کئی چیزیں ہیں جو اوپر ہیں ، مگر ان کے نیچے کی چیزیں اپنے قیام میں ان کی محتاج ہیں ، اللہ تعالیٰ کی مثال تو اس سے بہت بلند ہے ۔ مومن جب بھی اللہ تعالیٰ کا تصور کرتا ہے اس سے دعا کرتا ہے ، تو اسے یقین ہوتا ہے کہ اس کا پروردگار آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے اور اسے اپنے رب سے تعلق جوڑنے میں کوئی الجھن نہیں ہوتی ۔ تاویلوں کی مصیبت میں پھنسے ہوئے لوگ یہ فیصلہ ہی نہیں کر پاتے کہ ان کا رب کہاں ہے جس کی طرف وہ توجہ کریں ۔ وہ لا مکان کے چکر ہی سے نہیں نکل سکتے ۔ اسلام کے فطری اور سادہ عقائد کو چھوڑ کر فلسفی بھول بھلیاں اختیار کرنے کا یہی انجام ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ فجر (٢٢) کی تفسیر۔
ارشاد فرمایا،- (آیت) ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا هِيَ تَمُوْرُ ، کیا تم اس سے بےخوف ہو کہ آسمان والات م ہیں زمین کے اندر خسف کر کے دھنسا دے اور زمین تمہیں نگل جائے یعنی اگرچہ اللہ نے زمین کو ایسا معتدل قوام دیا ہے کہ آدمی بغیر کھودے ہوئے اس کے اندر نہیں اتر سکتا، لیکن وہ اس پر بھی قادر ہے کہ اس کو ایسا بنا دے کہ یہی زمین اپنے اوپر رہنے اولوں کو نگلج ائے، اس کے بعد نیا میں بسنے والوں کو ایک اور طرح کے عذاب سے ڈرایا کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تمہارے اوپر یعنی آسمان سے پتھر بھی برسا کر تمہیں ہلاک کیا جاسکتا ہے۔ اللہ کے منکر اور نافرمان دنیا میں اس سے بےفکر ہو کر نہ بیٹھیں۔
ءَ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا ہِيَ تَمُوْرُ ١٦ ۙ- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- خسف - الخُسُوف للقمر، والکسوف للشمس «1» ، وقال بعضهم : الکسوف فيهما إذا زال بعض ضوئهما، والخسوف : إذا ذهب كلّه . ويقال خَسَفَهُ اللہ وخسف هو، قال تعالی: فَخَسَفْنا بِهِ وَبِدارِهِ الْأَرْضَ [ القصص 81] ، وقال : لَوْلا أَنْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا لَخَسَفَ بِنا [ القصص 82] ، وفي الحدیث : «إنّ الشّمس والقمر آيتان من آيات اللہ لا يُخْسَفَانِ لموت أحد ولا لحیاته» «2» ، وعین خَاسِفَة : إذا غابت حدقتها، فمنقول من خسف القمر، وبئر مَخْسُوفَة : إذا غاب ماؤها ونزف، منقول من خسف اللہ القمر . وتصوّر من خسف القمر مهانة تلحقه، فاستعیر الخسف للذّلّ ، فقیل : تحمّل فلان خسفا .- ( خ س ف ) الخسوف - کا لفظ چاند کے بےنور ہونے اور کسوف کا لفظ سورج کے بےنور ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ خسوف قدر ہے بےنور ہونے کو کہاجاتا ہے اور کسوف پوری طرح بےنور ہوجانے کو کہتے ہیں ، عام اس سے کہ وہ سورج ہو یا چاند کہاجاتا ہے خسفہ اللہ اللہ نے اسے زمین میں دھنسادیا ( متعدی ) خسف ھو ( لازمی ) زمین میں دھنس جانا ۔ قرآن میں ہے :۔ فَخَسَفْنا بِهِ وَبِدارِهِ الْأَرْضَ [ القصص 81] پس ہم نے قارون کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا ۔ لَوْلا أَنْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا لَخَسَفَ بِنا [ القصص 82] اگر خدا ہم پر احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا ۔ حدیث میں ہے ( ا اا) ان الشمس والقمر ایتان من ایات اللہ لایخسفان لموت احد ولا لحیاتہ کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جو کسی کی موت پاپیدائش کی وجہ سے بےنور نہیں ہوتے ۔ اور عین خاسفہ ( اندر دھنسی ہوئی آنکھ ) کا محاورہ خسف القمر سے منقول ہے بئر مخسوفۃ وہ کنواں جس کا پانی غائب ہوگیا ہو اور چاند گہن لگنے سے چونکہ ماند پڑجاتا ہے اس لیے بطور استعارہ خسیف بمعنی ذلت ورسوائی بھی آجاتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے ۔ تحمل فلان خسفا ۔ فلاں شخص ذلیل ہوگیا ۔- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- مور - المَوْر : الجَرَيان السَّريع . يقال : مَارَ يَمُورُ مَوْراً. قال تعالی: يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً [ الطور 9] ومَارَ الدم علی وجهه، والمَوْرُ : التُّراب المتردِّد به الرّيح، وناقة تَمُورُ في سيرها، فهي مَوَّارَةٌ.- ( م و ر ) المور ۔ کے معنی تیز رفتاری کے ہیں ۔ اور یہ مار یمور مورا سے ہے چناچہ قرآن میں ہے يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً [ الطور 9] جس دن آسمان لرز نے لگے کپکپاکر ۔ مار الرم علیٰ وجھہ کے معنی چہرہ پر تیزی سے خون جاری ہونے کے ہیں اور مور غبار کو بھی کہتے ہیں جو ہوا میں ادہر ادھر اڑتا ہے اور ناقۃ تمور فی میرھا کے معنی ہیں اونٹنی کا تیز رفتاری کی وجہ سے غبار اڑاتے ہوئے چلے جانا ۔ اور تیز رو اونٹنی کو موارۃ کہا جاتا ہے ۔
اے مکہ والو جب تم اللہ کی نافرمانیاں کر رہے ہو کیا تم اس بات سے مطمئن ہوگئے کہ جو آسمان میں عرش پر قائم ہے جس طرح اس نے قارون پر عذاب نازل کیا تمہیں بھی ساتویں زمین تک دھنسا دے۔
آیت ١٦ ئَ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآئِ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا ہِیَ تَمُوْرُ ۔ ” کیا تم بےخوف ہوگئے ہو اس سے جو آسمان میں ہے کہ وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے اور وہ یکایک لرزنے لگے۔ “- کیا تم اس بات سے خائف نہیں ہو کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے زمین پر زلزلہ آجائے ‘ زمین شق ہوجائے اور تم اس کے اندر دھنس جائو ؟
سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :25 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالی آسمان میں رہتا ہے ، بلکہ یہ بات اس لحاظ سے فرمائی گئی ہے کہ انسان فطری طور پر جب خدا سے رجوع کرنا چاہتا ہے تو آسمان کی طرف دیکھتا ہے ۔ دعا مانگتا ہے تو آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتا ہے ۔ کسی آفت کے موقع پر سہاروں سے مایوس ہوتا ہے تو آسمان کا رخ کر کے خدا سے فریاد کرتا ہے ۔ کوئی ناگہانی بلا آ پڑتی ہے تو کہتا ہے یہ اوپر سے نازل ہوئی ہے ۔ غیر معمولی طور پر حاصل ہونے والی چیز کے متعلق کہتا ہے یہ عالم بالا سے آئی ہے ۔ اللہ تعالی کی بھیجی ہوئی کتابوں کو کتب سماوی یا کتب آسمانی کہا جاتا ہے ۔ ( ابو داؤد میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ ایک شخص ایک کالی لونڈی کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھ پر ایک مومن غلام آزاد کرنا واجب ہو گیا ہے ، کیا میں اس لونڈی کو آزاد کر سکتاہوں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لونڈی سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے؟ اس نے انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کردیا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اور میں کون ہوں؟ اس نے پہلے آپ کی طرف اور پھر آسمان کی طرف اشارہ کیا ، جس سے اس کا یہ مطلب واضح ہو رہا تھا کہ آپ اللہ کی طرف سے آئے ہیں ۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اسے آزاد کر دو ، یہ مومنہ ہے ( اسی سے ملتا جلتا قصہ موطا ، مسلم اور نسائی میں بھی روایت ہوا ہے ) ۔ حضرت خولہ بنت ثعلبہ کے متعلق حضرت عمر نے ایک مرتبہ لوگوں سے فرمایا ، یہ وہ خاتون ہیں جن کی شکایت سات آسمانوں پر سنی گئی ( تفسیر سورہ مجادلہ حاشیہ 2 میں ہم اس کی تفصیل نقل کر چکے ہیں ) ۔ ان ساری باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بات کچھ انسان کی فطرت ہی میں ہے کہ وہ جب خدا کا تصور کرتا ہے تو اس کا ذہن نیچے زمین کی طرف نہیں بلکہ اوپر آسمان کی طرف جاتا ہے ۔ اسی کو ملحوظ رکھ کر یہاں اللہ تعالی کے متعلق من فی السماء ( وہ جو آسمان میں ہے ) کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں ۔ اس میں اس شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ قرآن اللہ تعالی کو آسمان میں مقیم قرار دیتا ہے ۔ یہ شبہ آخر کیسے پیدا ہو سکتا ہے جبکہ اسی سورہ ملک کے آغاز میں فرمایا جا چکا ہے کہ الذی خلق سبع سموات طباقا ( جس نے تہ بر تہ سات آسمان پیدا کیے ) اور سورہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے ، فاینما تولوا فثم وجہ اللہ ۔ ( پس تم جدھر بھی رخ کرو اس طرف اللہ کا رخ ہے ) ۔
4: آخرت کا عذاب تو اپنی جگہ ہے، لیکن بد اعمالیوں کے نتیجے میں اس دُنیا میں بھی عذاب آسکتا ہے مثلا یہ کہ اِنسان کو قارون کی طرح زمین میں دھنسا دیا جائے، اور زمین تھرتھرانے لگے جس کے نتیجے میں اِنسان زمین کے اندر اور زیادہ دھنستا چلا جائے۔