Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 لطیف کے معنی ہے باریک بین یعنی جس کا علم اتنا ہے کہ دلوں میں پرورش پانے والی باتوں کو بھی جانتا ہے۔ ذلول کے معنی مطیع۔ یعنی زمین کو تمہارے لیے نرم اور آسان کردیا اس کو اسی طرح سخت نہیں بنایا کہ تمہارا اس پر آباد ہونا اور چلنا پھرنا مشکل ہو۔ یعنی زمین کی پیداوار سے کھاؤ پیو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٨] ذَلُوْلٌ۔ ذل بمعنی کمزور اور زبردست ہونا اور ذلول بمعنی کسی چیز کا طوعاً اپنی سرکشی کو چھوڑ کر مطیع ومنقاد ہوجانا ہے اور یہ لفظ انسان کا اپنی محنت سے کسی چیز کو اپنا تابع فرمان بنانے اور اس چیز کے تابع فرمان بن جانے کے پہلو کو ظاہر کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم زمین میں محنت کرکے جیسے فائدے اس سے حاصل کرنا چاہتے ہو کرسکتے ہو۔ اس میں کھیتی باڑی کرسکتے ہو۔ اس سے معدنیات اور دوسرے زمین میں مدفون خزانے نکال سکتے ہو اس میں سفر کرکے تجارتی فوائد حاصل کرسکتے ہو۔ - [١٩] اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل :۔ یعنی زمین سے تم جتنے فائدے اٹھا سکتے ہو اٹھاؤ۔ لیکن یہ بات تمہیں ہر وقت ملحوظ رکھنی چاہئے کہ تم مرنے کے بعد اللہ کے حضور پیش ہونے والے ہو لہذا زمین سے فائدے اٹھاتے ہوئے تمہیں دوسروں کی حق تلفی نہ کرنا چاہیے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا ۔۔۔۔:” دلولا “ جو تمہارے تابع ہوجائے ، سرکشی نہ کرے۔ یہاں لے ۔ یعنی تم اس پر چل پھر سکتے ہو اور اسے کام میں لاسکتے ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں پہاڑ گاڑ کر اسے ہر وقت زلرلے کی حالت میں رہنے سے محفوظ کردیا ، تا کہ تم سکون سے رہ سکو ۔ اسے لوہے کی طرح سخت نہیں بنایا ، ورنہ نہ اس سے کچھ اگتا ، نہ عمارتیں بنتیں ، نہر نہریں یا کنویں کھودے جاسکتے اور نہ انسان اور جانوروں کے رزق کا انتظام ہوتا اور اسے ضرورت سے زیادہ نرم بھی نہیں بنایا ، ورنہ سب کچھ اس کے اندر دھنس جاتا ۔ مشرک اقوام کی کم عقلی دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو انسان کے تابع کیا ، انہوں نے اسے دھرتی ماتا کے نام سے اپنا معبود بنا لیا ۔ ” مناکب “ کا لفظ معنی کندھے ہے ۔ جس طرح بالکل مطیع جانور بیٹھ کر علاوہ کندھوں پر بھی سواری کرلینے دیتا ہے ، زمین بھی تمہارے لیے ایسے ہی مسخر ہے ، اس پر جہاں چاہو چلو پھرو۔- ٢۔ وَکُلُوْا مِنْ رِّزْقِہٖ ۔۔۔: اس کے دیے ہوئے میں سے کھاؤ، مگر آزادی سے نہیں بلکہ یہ سمجھتے ہوئے کہ اس کا دیا ہوا کھا رہے ہو اور آخر کار تمہیں اپنے رب کے سامنے حاضر ہونا ہے جو تم سے ایک ایک چیز کا حساب لے گا کہ اسے کن ذرائع سے حاصل کیا اور کہاں خرچ کیا ؟ (اشرف الحواشی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا۔ ذلول کے لفظی معنی منقاد و مطیع کے ہیں اس جانور کو ذلول کہا جاتا ہے جو سواری دینے میں شوخی نہ کرے۔ مناکب، منکب کی جمع ہے مونڈھے کو کہتے ہیں۔ کسی بھیج انور کا مونڈھا سواری کی جگہ نہیں ہوتی بلکہ اسکی کمر یا گردن ہوتی جو جانور سوار ہونے والوں کے لئے اپنے مونڈھے بھی پیش کردے وہ بہت ہی مطیع و منقاد اور مسخر ہو سکتا ہے اس لئے فرمایا کہ زمین کو تمہارے لئے ہم نے ایسا مخسرو مطیع بنادیا ہے کہ تم اس کے مونڈھیوں پر چڑھتے پھرو۔ زمین کو حق تعالیٰ نے ایک ایسا قوام بخشا ہے کہ نہ تو پانی کیر طح سیال اور بہنے والا ہے نہ روئی اور کیچڑ کی طرح دبنے والا، کیونکہ زمین ایسی ہوتی تو اس پر کسی انسان کا رہنا ٹھہرنا ناممکن نہ ہوتا اسی طرح زمین کو لہوے پتھر کی طرح سخت بھی نہیں بنایا اگر ایسا ہوتا تو اس میں درخت اور کھیتی نہ بوئی جاسکتی اس میں کنوئیں اور نہریں نہ کھودی جا سکتیں اس کو کھود کر اونچی عمارتوں کی بنیاد نہ رکھی جاسکتی، اس قوام کے ساتھ اس کو ایسا سکون بخشا کہ اس پر عمارتیں ٹھہر سکیں چلنے پھرنے والوں کو لغزش نہ ہو۔ - وَكُلُوْا مِنْ رِّزْقِهٖ ۭ وَاِلَيْهِ النُّشُوْرُ پہلے زمین کے اطراف میں چلنے پھرنے کی ہدایت فرمائی اس کے بعد فرمایا کہ اللہ کا رزق کھاؤ اس میں اشارہ ہو سکتا ہے کہ تجارت کے لئے سفر اور مال کی درآمد برآمد اللہ کے رزق کا دروازہ ہے الیہ النشور میں مبتلا دیا کہ کھانے پینے رہنے سہنے کے فوائد زمین سے حاصل کرنے کی اجازت ہے مگر موت اور آخرت سے بےفکر نہ رہو کہ انجام کار اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ زمین پر رہتے ہوئے آخرت کی تیاری میں لگے رہو۔ اس میں تو اس بات سے ڈرایا گیا تھا کہ آخر کار قیامت میں اللہ کی طرف لوٹنا ہے، آگے اس پر تنبیہ کی گئی ہے کہ زمین پر رہنے بسنے کے وقت بھی اللہ کا عذاب آسکتا ہے

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ہُوَالَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِيْ مَنَاكِبِہَا وَكُلُوْا مِنْ رِّزْقِہٖ۝ ٠ ۭ وَاِلَيْہِ النُّشُوْرُ۝ ١٥- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - ذُّلُّ ( محمود)- متی کان من جهة الإنسان نفسه لنفسه فمحمود، نحو قوله تعالی: أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ المائدة 54] ، وقال : وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ [ آل عمران 123] ، وقال : فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا [ النحل 69] ، أي : منقادة غير متصعّبة، قال تعالی: وَذُلِّلَتْ قُطُوفُها تَذْلِيلًا[ الإنسان 14] ، أي : سهّلت، وقیل : الأمور تجري علی أذلالها أي : مسالکها وطرقها .- پھر اگر انسان کی ذلت خود اس کے اپنے اختیار وار اور سے ہو تو وہ محمود سمجھی جاتی ہے جیسا کہ قرآن نے مومنین کی مدح کرتے ہوئے فرمایا : : أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ المائدة 54] جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں ۔ وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ [ آل عمران 123] اور خدا نے جنگ بدر میں بھی تمہاری مدد کی تھی اور اس وقت بھی تو تم بےسرو سامان تھے ۔ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل 69] يعنی بغیر کسی قسم سر کشی کے نہایت مطیع اور منقاد ہوکر اپنے پر وردگاڑ کے صرف راستوں پر چلی جا اور آیت کریمہ : وَذُلِّلَتْ قُطُوفُها تَذْلِيلًا[ الإنسان 14] کے معنی یہ ہیں کہ وہ گچھے اس طرح جھکے ہوئے ہوں گے کہ ان کو نہایت آسانی سے توڑ سکیں گے محاورہ ہے ۔ ( مثل ) کہ تمام امور اپنے راستوں پر اور حسب مواقع جاری ہیں ۔- مشی - المشي : الانتقال من مکان إلى مکان بإرادة . قال اللہ تعالی: كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ- [ البقرة 20] ، وقال : فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور 45] ، إلى آخر الآية . يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] ، ويكنّى بالمشي عن النّميمة . قال تعالی: هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] ، ويكنّى به عن شرب المسهل، فقیل : شربت مِشْياً ومَشْواً ، والماشية : الأغنام، وقیل : امرأة ماشية : كثر أولادها .- ( م ش ی ) المشی - ( ج ) کے معنی ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف قصد اور ارادہ کے ساتھ منتقل ہونے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور 45] ان میں سے بعض ایسے ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں ۔ فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] تو اس کی راہوں میں چلو پھرو ۔ اور کنایۃ مشی کا لفظ چغلی کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] طعن آمیز اشارتیں کرنے والا چغلیاں لئے پھرنے والا ۔ اور کنایۃ کے طور پر مشئی کے معنی مسہل پینا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ شربت مشیا ومشو ا میں نے مسہل دواپی الما شیۃ مویشی یعنی بھیڑ بکری کے ریوڑ کو کہتے ہیں اور امراۃ ماشیۃ اس عورت کو کہتے ہیں جس کے بچے بہت ہوں ۔- نكب - نَكَبَ عن کذا . أي : مَالَ. قال تعالی: عَنِ الصِّراطِ لَناكِبُونَ [ المؤمنون 74] والمَنْكِبُ : مُجْتَمَعُ ما بين العَضُدِ والکَتِفِ ، وجمْعُه : مَنَاكِبُ ، ومنه استُعِيرَ للأَرْضِ. قال تعالی: فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] واسْتِعَارَةُ المَنْكِبِ لها كاسْتِعَارَةُ الظَّهْرِ لها في قوله : ما تَرَكَ عَلى ظَهْرِها مِنْ دَابَّةٍ [ فاطر 45] . ومَنْكِبُ القومِ : رَأْسُ العُرَفَاءِ «3» . مُسْتَعَارٌ مِنَ الجَارِحَةِ اسْتِعَارَةَ الرَّأْسِ للرَّئِيسِ ، والْيَدِ لِلنَّاصِرِ ، ولِفُلَانٍ النِّكَابَةُ في قَوْمِهِ ، کقولهم : النِّقَابَةُ. والأَنْكَبُ : المَائِلُ المَنْكِبِ ، ومن الإبل الذي يَمْشِي في شِقٍّ. والنَّكَبُ : داءٌ يأْخُذُ في المَنْكِبِ. والنَّكْبَاءُ : رِيحٌ نَاكِبَةٌ عَنِ المَهَبِّ ، ونَكَبَتْهُ حَوَادِثُ الدَّهْرِ. أي : هَبَّتْ عليه هُبُوبَ النَّكْبَاءِ.- ( ن ک ب ) نکب عن کذا کسی چیز سے پھرجانا قرآن پاک میں ہے : ۔ عَنِ الصِّراطِ لَناكِبُونَ [ المؤمنون 74] وہ رستے سے الگ ہو رہے ہیں ۔ المنکب کندھا ج ۔ مناکب ۔ اور اسی سے بطور استعارہ زمین کے راستوں پر بولا جاتا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] تو اس کی راہوں میں چلو پھرو ۔ اور زمین کے لئے بطور استعارہ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ ما تَرَكَ عَلى ظَهْرِها مِنْ دَابَّةٍ [ فاطر 45] تور وٹے زمین پر ایک چلنے پھرنے والیکو نہ چھوڑ تا میں ظھر کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ منکب القوم قوم کا کندھا یعنی رئیس جیسا کہ راس بمعنی رئیس اور ید بمعنی ناصر آجاتا ہے : ۔ لفلان النکابۃ فی قومہ فلاں کے پاس قوم کی ریاست ہے ۔ الانکب ( 1 ) ٹیڑھے شانے والا ( 2 ) اونٹ جو ایک جانب جھک کر چلے ۔ النکب ایک قسم کی بیماری جو شانے میں ہوتی ہے ترکی میں اسے قولا غو کہا جاتا ہے ) النکباء اپنی سمت سے پھر کر چلنے والی ہوا ۔ تکبتہ ھو ادث الدھر مصیبت پہنچانا ۔- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - نشر - النَّشْرُ ، نَشَرَ الثوبَ ، والصَّحِيفَةَ ، والسَّحَابَ ، والنِّعْمَةَ ، والحَدِيثَ : بَسَطَهَا . قال تعالی: وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير 10] ، وقال : وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف 57] «2» ، وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ [ الشوری 28] ، وقوله : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً- [ المرسلات 3] أي : الملائكة التي تَنْشُرُ الریاح، أو الریاح التي تنشر السَّحابَ ، ويقال في جمع النَّاشِرِ : نُشُرٌ ، وقرئ : نَشْراً فيكون کقوله :«والناشرات» ومنه : سمعت نَشْراً حَسَناً. أي :- حَدِيثاً يُنْشَرُ مِنْ مَدْحٍ وغیره، ونَشِرَ المَيِّتُ نُشُوراً. قال تعالی: وَإِلَيْهِ النُّشُورُ- [ الملک 15] ، بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان 40] ، وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلانُشُوراً [ الفرقان 3] ، وأَنْشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ فَنُشِرَ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ- [ عبس 22] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] وقیل : نَشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ وأَنْشَرَهُ بمعنًى، والحقیقة أنّ نَشَرَ اللَّهُ الميِّت مستعارٌ من نَشْرِ الثَّوْبِ. كما قال الشاعر :- 440-- طَوَتْكَ خُطُوبُ دَهْرِكَ بَعْدَ نَشْرٍ ... كَذَاكَ خُطُوبُهُ طَيّاً وَنَشْراً- «4» وقوله تعالی: وَجَعَلَ النَّهارَ نُشُوراً [ الفرقان 47] ، أي : جعل فيه الانتشارَ وابتغاء الرزقِ كما قال : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص 73] ، وانْتِشَارُ الناس : تصرُّفهم في الحاجاتِ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم 20] ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب 53] ، فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة 10] وقیل : نَشَرُوا في معنی انْتَشَرُوا، وقرئ : ( وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة 11] «1» أي : تفرّقوا . والانْتِشَارُ : انتفاخُ عَصَبِ الدَّابَّةِ ، والنَّوَاشِرُ : عُرُوقُ باطِنِ الذِّرَاعِ ، وذلک لانتشارها، والنَّشَرُ : الغَنَم المُنْتَشِر، وهو للمَنْشُورِ کالنِّقْضِ للمَنْقوض، ومنه قيل : اکتسی البازي ريشا نَشْراً. أي : مُنْتَشِراً واسعاً طویلًا، والنَّشْرُ : الكَلَأ الیابسُ ، إذا أصابه مطرٌ فَيُنْشَرُ. أي : يَحْيَا، فيخرج منه شيء كهيئة الحَلَمَةِ ، وذلک داءٌ للغَنَم، يقال منه :- نَشَرَتِ الأرضُ فهي نَاشِرَةٌ. ونَشَرْتُ الخَشَبَ بالمِنْشَارِ نَشْراً اعتبارا بما يُنْشَرُ منه عند النَّحْتِ ، والنُّشْرَةُ : رُقْيَةٌ يُعَالَجُ المریضُ بها .- ( ن ش ر )- النشر کے معنی کسی چیز کو پھیلانے کے ہیں یہ کپڑے اور صحیفے کے پھیلانے ۔ بارش اور نعمت کے عام کرنے اور کسی بات کے مشہور کردیتے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير 10] اور جب دفتر کھولے جائیں گے ۔ وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف 57] اور وہی تو ہے جو لوگوں کے ناامیدہو جانیکے بعد مینہ برساتا اور اپنی رحمت ( یعنی بارش کے برکت ) کو پھیلا دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً [ المرسلات 3] اور بادلوں کو ( بھاڑ ) ( پہلا دیتی ہے ۔ میں ناشرات سے مراد وہ فرشتے ہن جو ہواؤں کے پھیلاتے ہیں یا اس سے وہ ہوائیں مراد ہیں جو بادلون کو بکھیرتی ہیں ۔ چناچہ ایک قرات میں نشرابین یدی رحمتہ بھی ہے جو کہ وہ الناشرات کے ہم معنی ہے اور اسی سے سمعت نشرا حسنا کا محاورہ ہے جس کے معنی میں نے اچھی شہرت سنی ۔ نشرالمیت نشودا کے معنی ہیت کے ( ازسرنو زندہ ہونے کے ہیں ) چناچہ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ النُّشُورُ [ الملک 15] اسی کے پاس قبروں سے نکل کر جانا ہے بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان 40] بلکہ ان کو مرنے کے بعد جی اٹھنے کی امیدہی نہیں تھی ۔ وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان 3] اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے ۔ اور نہ جینا اور نہ مرکراٹھ کھڑے ہونا ۔ انشر اللہ المیت ک معنی میت کو زندہ کرنے کے ہیں۔ اور نشر اس کا مطاوع آتا ہے ۔ جس کہ معنی زندہ ہوجانے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ [ عبس 22] پھر جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ بعض نے کہا ہے ک نشر اللہ المیت وانشرہ کے ایک ہی معنی میں ۔ لیکن درحقیقت نشر اللہ المیت نشرالثوب کے محاورہ سے ماخوذ ہے شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (425) طوتک خطوب دھرک بعد نشر کذاک خطوبہ طیا ونشرا تجھے پھیلانے کے بعد حوادث زمانہ نے لپیٹ لیا اس طرح حوادث زمانہ لپیٹنے اور نشر کرتے رہتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] اور دن کو اٹھ کھڑا ہونے کا وقت ٹھہرایا ۔ میں دن کے نشوربنانے سے مراد یہ ہے کہ اس کا روبار کے پھیلانے اور روزی کمانے کے لئے بنایا ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص 73] اور اس نے رحمت سے تمہارے لئے رات کو اور دن کو بنایا ۔ تاکہ تم اس میں آرام کرو اور اس میں اس کا فضل تلاش کرو ۔ اور انتشارالناس کے معنی لوگوں کے اپنے کاروبار میں لگ جانے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم 20] پھر اب تم انسان ہوکر جابجا پھیل رہے ہو ۔ فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب 53] تو جب کھانا کھا چکو تو چل دو ۔ فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة 10] پھر جب نماز ہوچکے تو اپنی اپنی راہ لو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ نشروا بمعنی انتشروا کے آتا ہے۔ چناچہ آیت کریمہ : وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة 11] اور جب کہاجائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑا ہوا کرو ۔ میں ایک قراءت فاذا قیل انشروافانشروا بھی ہے ۔ یعنی جب کہاجائے کہ منتشر ہوجاؤ تو منتشر ہوجایا کرو ۔ الانتشار کے معنی چوپایہ کی رگوں کا پھول جانا ۔۔ بھی آتے ہیں ۔ اور نواشر باطن ذراع کی رگوں کو کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ وہ بدن میں منتشر ہیں ۔ النشر ( ایضا) پھیلنے والے بادل کو کہتے ہیں ۔ اور یہ بمعنی منشور بھی آتا ہے جیسا کہ نقض بمعنی منقوض آجاتا ہے اسی سے محاورہ ہے ؛اکتسی البازی ریشا نشرا ۔ یعنی باز نے لمبے چوڑے پھیلنے والے پروں کا لباس پہن لیا ۔ النشر ( ایضا) خشک گھاس کو کہتے ہیں ۔ جو بارش کے بعد سرسبز ہوکر پھیل جائے اور اس سے سر پستان کی سی کونپلیں پھوٹ نکلیں یہ گھاس بکریوں کے لئے سخت مضر ہوتی ہے ۔ اسی سے نشرت الارض فھی ناشرۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی زمین میں نشر گھاس پھوٹنے کے ہیں ۔ شرت الخشب بالمنشار کے معنی آرے سے لکڑی چیرنے کے ہیں ۔ اور لکڑی چیر نے کو نشر اس لئے کہتے ہیں کہ اسے چیرتے وقت نشارہ یعنی پر ادہ پھیلتا ہے ۔ اور نشرہ کے معنی افسوں کے ہیں جس سے مریض کا علاج کیا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

وہ ایسا ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے پہاڑوں کے ساتھ مسخر کردیا، سو تم اس کے رستوں، گوشوں، پہاڑوں اور کونوں میں چلو پھرو اور اللہ کی روزی میں سے کھاؤ اور اسی کے پاس آخرت میں جانا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَـکُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا ” وہی ہے جس نے تمہارے لیے بنا دیا ہے زمین کو پست “- اس نے زمین کو تمہارے ماتحت اور تابع حکم کر رکھا ہے۔- فَامْشُوْا فِیْ مَنَاکِبِہَا ” تو تم چلو پھرو اس کے کندھوں کے مابین “- زمین کے کندھوں سے مراد اس کے وہ میدان ہیں جو انسان کو بہت وسیع اور کشادہ نظر آتے ہیں۔ جیسے ایک چیونٹی اگر ہاتھی کے کندھوں کے درمیان چل پھر رہی ہوگی تو ظاہر ہے اس جگہ کو وہ بہت وسیع میدان سمجھے گی۔- وَکُلُوْا مِنْ رِّزْقِہٖط وَاِلَـیْہِ النُّشُوْرُ ۔ ” اور اس کے (دیے ہوئے) رزق سے کھائو پیو ‘ اور (یاد رکھو کہ تم نے) اسی کی طرف زندہ ہو کر جانا ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :23 یعنی زمین تمہارے لیے آپ سے آپ تابع نہیں بن گئی اور وہ رزق بھی جو تم کھا رہے ہو خود بخود یہاں پیدا نہیں ہو گیا ، بلکہ اللہ نے اپنی حکمت اور قدرت سے اس کو ایسا بنایا ہے کہ یہاں تمہاری زندگی ممکن ہوئی اور یہ عظیم الشان کرہ ایسا پرسکون بن گیا کہ تم اطمینان سے اس پر چل پھر رہے ہو اور ایسا خوان نعمت بن گیا کہ اس میں تمہارے لیے زندگی بسر کرنے کا بے حدو حساب سرو سامان موجود ہے ۔ اگر تم غفلت میں مبتلا نہ ہو اور کچھ ہوش سے کام لے کر دیکھو تو تمہیں معلوم ہو کہ اس زمین کو تمہاری زندگی کے قابل بنانے اور اس کے اندر رزق کے اتھاہ خزانے جمع کر دینے میں کتنی حکمتیں کار فرما ہیں ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، النمل ، حواشی 73 ۔ 74 ۔ 81 ۔ جلد چہارم ، یٰسین ، حواشی 29 ۔ 32 ۔ المومن ، حواشی 90 ۔ 91 ۔ الزخرف ، حاشیہ 7 ۔ الجاثیہ ، حاشیہ 7 ۔ جلد پنجم قٓ ، حاشیہ 18 ۔ سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :24 یعنی اس زمین پر چلتے پھرتے اور خدا کا بخشا ہوا رزق کھاتے ہوئے اس بات کو نہ بھولو کہ آخر کار تمہیں ایک دن خدا کے حضور حاضر ہونا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: یعنی زمین کی تمام چیزیں اﷲ تعالیٰ نے تمہارے تصرف میں دے دی ہیں، لیکن ان کو استعمال کرتے وقت یہ مت بھولو کہ تمہیں ہمیشہ یہاں نہیں رہنا، بلکہ ایک دن یہاں سے اﷲ تعالیٰ ہی کے پاس جانا ہے جہاں تمہیں ان نعمتوں کا حساب دینا ہوگا، لہٰذا یہاں کی ہر چیز کو اﷲ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہی استعمال کرو۔