Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 جیسے اس نے قوم لوط اور اصحاب فیل پر برسائے اور پتھروں کی بارش سے ان کو ہلاک کردیا۔ 17۔ 2 لیکن اس وقت یہ علم، بےفائدہ ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٠] آسمان میں کون ہے ؟ اللہ تعالیٰ کی ذات۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کو تمہارے تابع فرمان بنادیا ہے اس میں محنت کرو اور جو جو فائدے اس سے اٹھا سکتے ہو اٹھاؤ مگر اس ذات سے بےخوف نہ ہوجانا جو تمہاری اور ان سب اشیاء کی خالق ومالک ہے۔ اسے ہر دم یاد رکھنا۔ یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی جگہ زمین کھود رہے ہو یا کان کنی میں مصروف ہو تو اس میں دھنستے ہی چلے جاؤ۔ یا زمین میں زلزلہ آجائے۔ زمین پھٹ جائے اور تم اس میں غرق ہوجاؤ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم پر ایسی سخت آندھی بھیج دے جس میں پتھر کنکر ہوں۔ اور وہ تمہارا ستیاناس کردیں۔ لہذا زمین سے اللہ کی نعمتیں حاصل کرو تو اس کا شکر بھی بجا لایا کرو اور اگر تم ناشکری کرو گے اور اکڑ دکھاؤ گے تو تمہارا بھی وہ انجام ہوسکتا ہے جس سے سابقہ قومیں دوچار ہوئی تھیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

١۔ اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآئِ اَنْ یُّرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا : جیسا کہ قوم لوط کے ساتھ ہوا ، فرمایا :(اِنَّـآ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ حَاصِبًا اِلَّآ اٰلَ لُوْطٍط نَجَّیْنٰـہُمْ بِسَحَرٍ ) (القمر : ٣٤)” بیشک ہم نے ان پر پتھر برسانے والی ایک ہوا بھیجی ، سوائے لوط کے گھر والوں کے ، انہیں صبح سے کچھ پہلے بچا کر نکال لیا “۔- ٢۔” نذیر “ مصد رہے ، اصل میں ” نذیری “ تھا، میراڈرانا ۔ یاء حذف کردی اور راء پر کسرہ باقی رہنے دیا ، ورنہ اس پر رفع ہونا تھا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يُّرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ۭ فَسَتَعْلَمُوْنَ كَيْفَ نَذِيْرِ ۔ یعنی کیا تم اس سے بےخوف ہو کہ آسمان والا تم پر آسمان سے پتھر برسا دے، اس وقت تمہیں اس ڈرانے کا انجام معلوم ہوگا کہ اس وقت معلوم ہونا بےسود ہوگا آج جبکہ تم صحیح سالم محفوظ ومامون ہو اس کی فکر کرو اس کے بعد پچھلی ان قوموں کے واقعات کی طرف اشارہ کیا جن پر دنیا میں عذاب الٰہی نازل ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے حال سے عبرت حاصل کرو ولقد کذب الذین من قبلھم فکیف کان تکبر کا یہی مطلب ہے اس کے بعد پھر اصل مضمون سورت کی طرف رجوع ہے کہ ممکنات و مخلوقات کے حالات سے حق تعالیٰ کی توحید اور علم وقدرت پر استدلال ہے خود انسان کے نفوس، آسمان، ستارے، زمین وغیرہ کے حالات کا بیان پہلے آ چکا ہے آگے ان پرندوں کا ذکر ہے جو فضاء آسمانی میں اڑتے پھرتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يُّرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا۝ ٠ ۭ فَسَتَعْلَمُوْنَ كَيْفَ نَذِيْرِ۝ ١٧- أَمْ»حرف - إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه :- أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔- رسل ( ارسال)- والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] - ( ر س ل ) الرسل - الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔- ( حاصبا)- اسم بمعنی الریح أو السحاب، جاء علی صيغة اسم الفاعل لفعل حصبه من باب ضرب أي رماه بالحصباء، وهي الحجارة الصغیرة- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - كيف - كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] .- ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔- النذیر - والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذیر - النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٧۔ ١٨) یا تم اس بات سے مطمئن ہوگئے کہ جو آسمان میں عرش پر قائم ہے کہ وہ قوم لوط کی طرح تم پر پتھر برسا دے عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ میرا عذاب سے ڈرانا کیسا صحیح تھا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :26 مراد یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ اس زمین پر تمہارا بقا اور تمہاری سلامتی ہر وقت اللہ تعالی کے فضل پر منحصر ہے ۔ اپنے بل بوتے پر تم یہاں مزے سے نہیں دندنا رہے ہو ۔ تمہاری زندگی کا ایک ایک لمحہ جو یہاں گزر رہا ہے ، اللہ کی حفاظت اور نگہبانی کار ہین منت ہے ۔ ورنہ کسی وقت بھی اس کے ایک اشارے سے ایک زلزلہ ایسا آ سکتا ہے کہ یہی زمین تمہارے لیے آغوش مادر کے بجائے قبر کا گڑھا بن جائے ، یا ہوا کا ایسا طوفان آ سکتا ہے جو تمہاری بستیوں کو غارت کر کے رکھ دے ۔ سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :27 تبیہ سے مراد وہ تنبیہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پاک کے ذریعہ سے کفار مکہ کو کی جا رہی تھی کہ اگر کفر و شرک سے باز نہ آؤ گے اور اس دعوت توحید کو نہ مانو گے جو تمہیں دی جا رہی ہے تو خدا کے عذاب میں گرفتار ہو جاؤ گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani