21۔ 1 یعنی اللہ بارش نہ برسائے، یا زمین ہی کو پیداوار سے روک دے یا تیار شدہ فصلوں کو تباہ کر دے، جیسا کہ بعض بعض دفعہ وہ ایسا کرتا ہے، جس کی وجہ سے تمہاری خوراک کا سلسلہ موقوف ہوجائے، اگر اللہ تعالیٰ ایسا کر دے تو کیا کوئی اور ہے جو اللہ کی مشیت کے برعکس تمہیں روزی مہیا کر دے ؟ یعنی وعظ و نصیحت کی ان باتوں کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ وہ حق سے سرکشی اور اعراض ونفور میں ہی بڑھتے چلے جا رہے ہیں عبرت پکڑتے ہیں اور نہ ہی غور و فکر کرتے ہیں۔
[٢٣] رزق حاصل ہونے کا سب سے بڑا ذریعہ آسمان سے نازل ہونے والی بارش ہے۔ بارش پڑنے سے ہی زمین سے نباتات اگتی ہے جو تمام جاندار مخلوق کے رزق کا ذریعہ بنتی ہے۔ اب دیکھئے کہ اس بارش کے جملہ اسباب اللہ تعالیٰ کے قبضہ ئقدرت میں ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ طویل مدت تک بارش نہ برسائے تو اللہ کے علاوہ اور کون ہستی ہے جو بارش برسا سکے۔ اللہ کی قدرتوں کو سمجھنے کے لیے نشانیاں تو بہت ہیں مگر ان کافروں نے اگر نہ ماننے پر اور سرکشی کی راہ اختیار کرنے پر ہی کمر باندھ رکھی ہو تو یہ ان باتوں سے کیسے عبرت حاصل کرسکتے ہیں ؟- [٢٤] لجَّ بمعنی ضد سے جھگڑنا۔ دشمنی میں مداو مت کرنا اور لُجّۃ بمعنی پانی کی گہرائی۔ پانی کا گہرا حصہ جہاں پانی سب سے زیادہ گہرا ہو۔ گویا اس لفظ کا معنی ضد کی وجہ سے کسی بات پر اڑ جانا بھی ہے اور کسی برے کام میں دور دراز تک چلے جانا بھی ہے۔
اَمَّنْ ہٰذَا الَّذِيْ یَرْزُقُکُمْ اِنْ اَمْسَکَ رِزْقَہٗ ۔۔۔۔: یعنی اگر اللہ تعالیٰ بارش ہی روک لے تو وہ کون ہے جو بارش برسا دے ؟ یا زمین کو پیداوار سے روک دے یا کسی بھی طریقے سے تمہاری روزی روک دے تو وہ کون ہے جو تمہیں روزی مہیا کر دے ؟ صحیح بخاری میں عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ جب قریش مکہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں نافرمانی کی حد کردی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر یوسف (علیہ السلام) جیسی قحط سالی کی بد دعا فرمائی تو ان پر ایسا قحط آیا کہ وہ ہڈیاں تک کھا گئے۔ خلاصہ یہ ہے کہ وہ قحط اس وقت دور ہوا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی۔ ( دیکھئے بخاری ، التفسیر ، باب :( یغشی الناس ھذ ا عذاب الیم) : ٤٨٢١) لات و منات کے بت بلکہ ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) کے جو بت انہوں نے بنائے ہوتے تھے ، ان کے کسی کام نہ آسکے۔
(آیت) اَمَّنْ هٰذَا الَّذِيْ يَرْزُقُكُمْ اِنْ اَمْسَكَ رِزْقَهٗ کا یہی مطلب ہے۔ آگے کفار کے حال پر افسوس ہے جو نہ آیات قدرت میں خود غور کرتے ہیں نہ دوسرے بتانے والوں کی بات سنتے ہیں ۚ بَلْ لَّجُّوْا فِيْ عُتُوٍّ وَّنُفُوْر یعنی یہ لوگ برابر اپنی سرکشی اور حق سے دوری میں بڑھتے ہی جاتے ہیں۔ آگے میدان قیامت میں کافرو مومن کا جو حال ہونا ہے اس کا ذکر ہے کہ قیامت کے میدان میں کفار اس طرح حاضر کئے جاویں گے کہ پاؤں پر چلنے کے بجائے سر کے بل چلیں گے۔ صحیح بخایر و مسلم میں حضرت انس کی روایت ہے کہ صحابہ کرام نے سوال کیا کہ کفار چہرے کے بل کیسے چلیں گے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سج ذات نے ان کو پیروں پر چلایا ہے کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ ان کو چہروں اور سروں کے بل چلا دے اسی کو اگلی آیت میں بیان فرمایا ہے۔
اَمَّنْ ہٰذَا الَّذِيْ يَرْزُقُكُمْ اِنْ اَمْسَكَ رِزْقَہٗ ٠ ۚ بَلْ لَّجُّوْا فِيْ عُتُوٍّ وَّنُفُوْرٍ ٢١- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - مسك - إمساک الشیء : التعلّق به وحفظه . قال تعالی: فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] ، وقال : وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج 65] ، أي : يحفظها، واستمسَكْتُ بالشیء : إذا تحرّيت الإمساک . قال تعالی: فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ- [ الزخرف 43] ، وقال : أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف 21] ، ويقال : تمَسَّكْتُ به ومسکت به، قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ- [ الممتحنة 10] . يقال : أَمْسَكْتُ عنه كذا، أي : منعته . قال :- هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر 38] ، وكنّي عن البخل بالإمساک . والمُسْكَةُ من الطعام والشراب : ما يُمْسِكُ الرّمقَ ، والمَسَكُ : الذَّبْلُ المشدود علی المعصم، والمَسْكُ : الجِلْدُ الممسکُ للبدن .- ( م س ک )- امسک الشئی کے منعی کسی چیز سے چمٹ جانا اور اس کی حفاطت کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] پھر ( عورت کو ) یا تو بطریق شاہستہ نکاح میں رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھور دینا ہے ۔ وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج 65] اور وہ آسمان کو تھا مے رہتا ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے ۔ استمسکت اشئی کے معنی کسی چیز کو پکڑنے اور تھامنے کا ارداہ کرنا کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ [ الزخرف 43] پس تمہاری طرف جو وحی کی گئی ہے اسے مضبوط پکرے رہو ۔ أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف 21] یا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی تھی تو یہ اس سے ( سند ) پکڑتے ہیں ۔ محاورہ ہے : ۔ کیس چیز کو پکڑنا اور تھام لینا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ [ الممتحنة 10] اور کافر عورتوں کی ناموس قبضے میں نہ رکھو ( یعنی کفار کو واپس دے دو ۔ امسکت عنہ کذا کسی سے کوئی چیز روک لینا قرآن میں ہے : ۔ هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر 38] تو وہ اس کی مہر بانی کو روک سکتے ہیں ۔ اور کنایہ کے طور پر امساک بمعنی بخل بھی آتا ہے اور مسلۃ من الطعام واشراب اس قدر کھانے یا پینے کو کہتے ہیں جس سے سد رہق ہوسکے ۔ المسک ( چوڑا ) ہاتھی دانت کا بنا ہوا زبور جو عورتیں کلائی میں پہنتی ہیں المسک کھال جو بدن کے دھا نچہ کو تھا مے رہتی ہے ۔ - لج - اللَّجَاجُ : التّمادي والعناد في تعاطي الفعل المزجور عنه، وقد لَجَّ في الأمر يَلجُّ لَجَاجاً ، قال تعالی: وَلَوْ رَحِمْناهُمْ وَكَشَفْنا ما بِهِمْ مِنْ ضُرٍّ لَلَجُّوا فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ المؤمنون 75] ، بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک 21] ومنه : لَجَّةُ الصّوت بفتح اللام . أي : تردّده، ولُجَّةُ البحر بالضّم : تردّد أمواجه، ولُجَّةُ اللیل : تردّد ظلامه، ويقال في كلّ واحد لَجَّ والْتَجَّ.- قال : فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور 40] منسوب إلى لجّة البحر، وما روي : ( وضع اللّجّ علی قفيّ ) ، أصله : قفاي، فقلب الألف ياء، وهو لغة فعبارة عن السّيف المتموّج ماؤه، واللَّجْلَجَةُ : التّردّد في الکلام وفي ابتلاع الطّعام، قال الشاعر : يُلَجْلِجَ مضغة فيها أنيض - «5» أي : غير منضج، ورجل لَجْلَجٌ ولَجْلَاجٌ: في کلامه تردّد، وقیل : الحقّ أبلج والباطل لَجْلَجٌ. أي : لا يستقیم في قول قائله، وفي فعل فاعله بل يتردّد فيه .- ( ل ج ج ) اللجاج ( مصدر ض س ) کے معنی کسی ممنوع کام کے کرنے میں بڑھتے چلے جاتے اور اس پر ضد کرنے کے ہیں اس سے فعل لج فی الامر استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ رَحِمْناهُمْ وَكَشَفْنا ما بِهِمْ مِنْ ضُرٍّ لَلَجُّوا فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ المؤمنون 75] اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور جو تکلیفیں انہیں پہنچ رہی ہیں وہ دور کردیں تو اپنی سر کشی پر اڑے رہیں اور بھٹکے ( پھریں ) بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک 21] لیکن یہ سرکشی اور نفرت میں بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ اسی سے لجۃ الصوف مشہور ہے جس کے معنی اواز کے بار بار آنے جانے اور پلٹنے کے ہیں ۔ لجۃ البحر ( بضم اللام ) سمندر کی موجوں کا تلاطم ( ان کا بار بار آنا اور پلٹنا ) لجۃ اللیل ۔ رات کی تاریکی کا آنا جان اور سخت ہونا ۔ اور لجۃ و لجۃ میں ایک لغت لج ولج بھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور 40] دریائے عمیق میں میں لجی بھی لجۃ البحر کی طرف منسوب ہے اور روایت اس نے میری گر دن پر تلوار رکھ دی ) میں لج کے معنی آبد ار تلوار کے ہیں اور قفی اصل میں قفای ہے الف یاء سے مبدل ہو کر یاء میں ادغام ہوگیا ہے ۔ اللجلجۃ کے معنی ہکلاپن کے ہیں اور نیز لقمہ کو بغیر چبائے منہ میں پھر انے کو بھی لجلجۃ کہتے ہیں کسی شاعر نے کہا ہے ۔ ( 392 ) یلجلج مضغۃ فیھا انیض یعنی منہ میں گوشت کا نیم پختہ ٹکڑا پھر ا رہا ہے ۔ رجل لجلج ہکلا رک رک کر بات کرنے والا ۔ الحق ایلج والباطل لجلج حق واضح ہے اور باطل مشتبہ یعنی کوئی شخص باطل کو نہ تو صاف طور پر بیان کرسکتا ہے اور نہ انشراح صدر کے ساتھ اسے انجام دے سکتا ہے ۔ بلکہ اس میں ہمیشہ متردور رہتا ہے ۔- عتو - العُتُوُّ : النبوّ عن الطاعة، يقال : عَتَا يَعْتُو عُتُوّاً وعِتِيّاً. قال تعالی: وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيراً [ الفرقان 21] ، فَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ [ الذاریات 44] ، عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّها[ الطلاق 8] ، بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک 21] ، مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا[ مریم 8] ، أي : حالة لا سبیل إلى إصلاحها ومداواتها . وقیل :إلى رياضة، وهي الحالة المشار إليها بقول الشاعر : 310 ۔ ومن العناء رياضة الهرم وقوله تعالی: أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمنِ عِتِيًّا[ مریم 69] ، قيل : العِتِيُّ هاهنا مصدرٌ ، وقیل هو جمعُ عَاتٍ وقیل : العَاتِي : الجاسي .- ( ع ت و ) عتا - ۔ یعتوا ۔ عتوا ۔ عتیا ۔ حکم عدولی کرنا قرآن میں ہے : فَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ [ الذاریات 44] تو انہوں نے اپنے پروردگار کے حکم سے سر کشی کی ۔ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيراً [ الفرقان 21] اور اسی بنا پر بڑے سر کش ہورہے ہیں ، عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّها[ الطلاق 8] اپنے پروردگار کے امر سے سر کشی کی ۔ بَلْ لَجُّوا فِي عُتُوٍّ وَنُفُورٍ [ الملک 21] لیکن یہ سر کشی اور نفرت میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا[ مریم 8] کے معنی یہ ہیں کہ میں بڑھاپے کی ایسی حالت تک پہنچ گیا ہوں جہاں اصلاح اور مداوا کی کوئی سبیل نہیں رہتی یا عمر کے اس وجہ میں ریا ضۃ بھی بیکار ہوتی ہے اور لفظ ریا ضت سے وہی معنی مراد ہیں جن کی طرف شاعر نے اشارہ کیا ہے ( الکامل ) ( 302 ) امن العناء ریاضۃ الھرم اور انتہائی بڑھاپے میں ریاضت دینا سراسر تکلیف وہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَيُّهُمْ أَشَدُّ عَلَى الرَّحْمنِ عِتِيًّا[ مریم 69] جو خدا سے سخت سر کشی کرتے تھے میں بعض نے کہا ہے کہ عتیا مصدر بعض نے کہا ہے کہ عات کی جمع ہے اور العانی کے معنی سنگ دل اور اجڈ بھی آتے ہیں ۔- نفر - النَّفْرُ : الانْزِعَاجُ عن الشیءِ وإلى الشیء، کالفَزَعِ إلى الشیء وعن الشیء . يقال : نَفَرَ عن الشیء نُفُوراً. قال تعالی: ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر 42] ، وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء 41] ونَفَرَ إلى الحربِ يَنْفُرُ ويَنْفِرُ نَفْراً ، ومنه : يَوْمُ النَّفْرِ. قال تعالی: انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا - [ التوبة 41] ، إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة 39] ، ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 38] ، وَما کانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ- [ التوبة 122] . - ( ن ف ر ) النفر - ( عن کے معنی کسی چیز سے رو گردانی کرنے اور ( الی کے ساتھ ) کسی کی طرف دوڑنے کے ہیں جیسا کہ نزع کا لفظ الیٰ اور عن دونوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے محاورہ ہے نفر عن الشئی نفورا کسی چیز سے دور بھاگنا ۔ قرآن میں ہے ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر 42] تو اس سے ان کی نفرت ہی بڑھی ۔ وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء 41] مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں ۔ نفر الی الحرب ( ض ن ) نفر لڑائی کیلئے نکلنا اور اسی سی ذی الحجہ کی بار ھویں تاریخ کو یوم النفر کہا جاتا ہے کیوں کہ اس روز حجاج منیٰ سے مکہ معظمہ کو واپس ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا[ التوبة 41] تم سبکسار ہو یا گراں بار ( یعنی مال واسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت گھروں سے نکل آؤ ۔ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة 39] اگر نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا ۔ ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 38] تمہیں کیا ہوا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو وما کان الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة 122] اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے
یہ بھی بتاؤ کہ وہ کون ہے جو آسمان سے پانی برسا کر اور زمین سے پیداوار کر کے تمہیں روزی پہنچا دے اگر اللہ تعالیٰ اپنی روزی بند کرے، بلکہ یہ لوگ انکار حق پر جم رہے ہیں۔
آیت ٢١ اَمَّنْ ہٰذَا الَّذِیْ یَرْزُقُـکُمْ اِنْ اَمْسَکَ رِزْقَہٗ ” پھر بھلا کون ہے وہ جو تمہیں رزق دے سکے اگر اللہ اپنے رزق کو روک لے ؟ “- بَلْ لَّجُّوْا فِیْ عُتُوٍّوَّنُفُوْرٍ ۔ ” بلکہ یہ لوگ اپنی سرکشی اور حق سے گریز میں بہت آگے بڑھ گئے ہیں۔ “- اگلی آیت فلسفہ و حکمت ِقرآن کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔