Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

رزاق صرف رب قدیر ہے اللہ تعالیٰ مشرکوں کے اس عقیدے کی تردید کر رہا ہے جو وہ خیال رکھتے تھے کہ جن بزرگوں کی وہ عبادت کرتے ہیں وہ ان کی امداد کر سکتے ہیں اور انہیں روزیاں پہنچا سکتے ہیں فرماتا ہے کہ سوائے اللہ کے نہ تو کوئی مدد دے سکتا ہے نہ روزی پہنچا سکتا ہے نہ بچا سکتا ہے ، کافروں کا یہ عقیدہ محض ایک دھوکہ ہے ۔ اگر اب اللہ تبارک و تعالیٰ تمہاری روزیاں روک لے تو پھر کوئی بھی انہیں جاری نہیں کر سکتا ، دینے لینے پر ، پیدا کرنے اور فنا کرنے پر ، رزق دینے اور مدد کرنے پر صرف اللہ عزوجل وحدہ لا شریک لہ کو ہی قدرت ہے ۔ یہ لوگ خود اسے دل سے جانتے ہیں ، تاہم اعمال میں اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کفار اپنی گمراہی کج روی گناہ اور سرکشی میں بہے چلے جاتے ہیں ان کی طبیعتوں میں ضد تکبر اور حق سے انکار بلکہ حق کی عداوت بیٹھ چکی ہے ، یہاں تک کہ بھلی باتوں کا سننا بھی انہیں گوارا نہیں عمل کرنا تو کہاں؟ پھر مومن و کافر کی مثال بیان فرماتا ہے کہ کافر کی مثال تو ایسی ہے جیسے کوئی شخص کمر کبڑی کر کے سر جھکائے نظریں نیچی کئے چلا جا رہا ہے نہ راہ دیکھتا ہے نہ اسے معلوم ہے کہ کہاں جا رہا ہے بلکہ حیران ، پریشان ، راہ بھولا اور ہکا بکا ہے ۔ اور مومن کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص سیدھی راہ پر سیدھا کھڑا ہوا چل رہا ہے راستہ خود صاف اور بالکل سیدھا ہے یہ شخص خود اسے بخوبی جانتا ہے اور برابر صحیح طور پر اچھی چال سے چل رہا ہے ، یہی حال ان کا قیامت کے دن ہو گا کہ کافر تو اوندھے منہ جہنم کی طرف جمع کئے جائیں گے اور مسلمان عزت کے ساتھ جنت میں پہنچائے جائیں گے جیسے اور جگہ ہے آیت ( اُحْشُرُوا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ 22؀ۙ ) 37- الصافات:22 ) ترجمہ ظالموں کو اور ان جیسوں کو اور ان کے ان معبودوں کو جو اللہ کے سوا تھے جمع کر کے جہنم کا راستہ دکھا دو ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگ منہ کے بل چلا کر کس طرح حشر کئے جائیں گے ، آپ نے فرمایا جس نے پیروں کے بل چلایا ہے وہ منہ کے بل چلانے پر بھی قادر ہے ، بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت ہے ۔ اللہ وہ ہے جس نے تمہیں پہلی مرتبہ جب کہ تم کچھ نہ تھے پیدا کیا تمہیں کان آنکھ اور دل دیئے یعنی عقل و ادراک تم میں پیدا کیا لیکن تم بہت ہی کم شکر گذاری کرتے ہو یعنی اپنی ان قوتوں کو اللہ تعالیٰ کی حکم برداری میں اور اس کی نافرمانیوں سے بچنے میں بہت ہی کم خرچ کرتے ہو ۔ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلا دیا ، تمہاری زبانیں جدا ، تمہارے رنگ روپ جدا ، تمہاری شکلوں صورتوں میں اختلاف ۔ اور تم زمین کے چپہ چپہ پر بسا دیئے گئے ، پھر اس پرا گندگی اور بکھرنے کے بعد وہ وقت بھی آئے گا کہ تم سب اس کے سامنے کھڑے کر دیئے جاؤ گے اس نے جس طرح تمہیں ادھر ادھر پھیلا دیا ہے ، اسی طرح ایک طرف سمیٹ لے گا اور جس طرح اولاً اس نے تمہیں پیدا کیا دوبارہ تمہیں لوٹائے گا ۔ پھر بیان ہوتا ہے کہ کافر جو مر کر دوبارہ جینے کے قائل نہیں وہ اس دوسری زندگی کو محال اور ناممکن سمجھتے ہیں اس کا بیان سن کر اعتراض کرتے ہیں کہ اچھا پھر وہ وقت کب آئے گا جس کی ہمیں خبر دے رہے ہو اگر سچے ہو تو بتا دو کہ اس پراگندگی کے بعد اجتماع کب ہو گا ؟ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ان کو جواب دو کہ اس کا علم مجھے نہیں کہ قیامت کب قائم ہو گی اسے تو صرف وہی علام الغیوب جانتا ہے ہاں اتنا مجھے کہا گیا ہے کہ وہ وقت آئے گا ضرور ، میری حیثیت صرف یہ ہے کہ میں تمہیں خبردار کر دوں اور اس دن کی ہولناکیوں سے مطلع کر دوں ، میرا فرض تمہیں پہنچا دینا تھا جسے بحمد للہ میں ادا کر چکا ، پھر ارشاد باری ہوتا ہے کہ جب قیامت قائم ہونے لگی اور کفار اسے اپنی آنکھوں دیکھ لیں گے اور معلوم کرلیں گے کہ اب وہ قریب آگئی کیونکہ ہر آنے والی چیز آ کر ہی رہتی ہے ، گو دیر سویر سے آئے ، جب اسے آیا ہوا پالیں گے ، جسے اب تک جھٹلاتے رہے تو انہیں بہت برا لگے گا کیونکہ اپنی غفلت کا نتیجہ سامنے دیکھ لیں گے اور قیامت کی ہولناکیاں بدحواس کئے ہوئے ہوں گی ، آثار سب سامنے ہوں گے اس وقت ان سے بطور ڈانٹ کے اور بطور تذلیل کرنے کے کہا جائے گا یہی ہے جس کی تم جلدی کر رہے تھے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 جس میں انہیں شیطان نے مبتلا کر رکھا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٢] کافر جو بڑھ بڑھ کر باتیں بناتے ہیں کہ اگر ہمیں جہنم کے عذاب سے دوچار ہونا بھی پڑا تو ہم دوزخ کے فرشتوں سے نمٹ لیں گے۔ یہ باتیں وہ محض اس لیے کرتے ہیں کہ نہ انہیں مر کر جی اٹھنے کا یقین ہے اور نہ جہنم کے عذاب کا۔ وہ بڑے سخت دھوکے میں مبتلا ہوچکے ہیں اور موت سے پہلے ان کو لگا ہوا یہ دھوکا ان کے ذہن سے نکل نہیں سکتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَمَّنْ ہٰذَا الَّذِيْ ہُوَ جُنْدٌ لَّکُمْ ۔۔۔۔: بھلا یہ تو بتاؤ کہ اگر اتنی قدرتوں والا رحمان تمہیں پکڑنے پر آجائے تو وہ کون ہے جو تمہارا لشکر بن کر اس کے مقابلے میں تمہاری مدد کرسکے ؟ کوئی نہیں ، بالکل نہیں ۔ کافر لوگ جن کے دلوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ فلاں ہستی اور فلاں مشکل کشا اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ان کی مدد کریں گے اور زبردستی سفارش کر کے چھڑا لیں گے ، محض دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں ، جس میں انہیں شیطان نے مبتلا کر رکھا ہے۔ ” من دون الرحمن “ کا ایک معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رحمان کے علاوہ وہ کون ہے جو کسی مصیبت میں لشکر بن کر تمہاری مدد کرسکے ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

چناچہ ارشاد فرمایا۔- (آیت) اَمَّنْ هٰذَا الَّذِيْ هُوَ جُنْدٌ لَّكُمْ يَنْصُرُكُمْ مِّنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ ۭ اِنِ الْكٰفِرُوْنَ اِلَّا فِيْ غُرُوْرٍ ۔ اس کے بعد اس کے ڈرایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کا جو رزق تم کو آسمان سے پانی برسنے و اور زمین سے نباتا اگانے کے ذریعہ مل رہا ہے یہ کوئی تمہاری ذاتی جاگیر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا و بخشش ہے وہ اس کو روک بھی سکتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَمَّنْ ہٰذَا الَّذِيْ ہُوَجُنْدٌ لَّكُمْ يَنْصُرُكُمْ مِّنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ۝ ٠ ۭ اِنِ الْكٰفِرُوْنَ اِلَّا فِيْ غُرُوْرٍ۝ ٢٠ ۚ- هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- جند - يقال للعسکر الجُنْد اعتبارا بالغلظة، من الجند، أي : الأرض الغلیظة التي فيها حجارة ثم يقال لكلّ مجتمع جند، نحو : «الأرواح جُنُودٌ مُجَنَّدَة» «2» . قال تعالی: إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] - ( ج ن د ) الجند - کے اصل معنی سنگستان کے ہیں معنی غفلت اور شدت کے اعتبار سے لشکر کو جند کہا جانے لگا ہے ۔ اور مجازا ہر گروہ اور جماعت پر جند پر لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ( حدیث میں ہے ) کہ ارواح کئ بھی گروہ اور جماعتیں ہیں قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] اور ہمارا لشکر غالب رہے گا ۔- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ- [ التوبة 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً- [ النساء 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة 116]- ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- غرر - يقال : غَررْتُ فلانا : أصبت غِرَّتَهُ ونلت منه ما أريده، والغِرَّةُ : غفلة في الیقظة، والْغِرَارُ : غفلة مع غفوة، وأصل ذلک من الْغُرِّ ، وهو الأثر الظاهر من الشیء، ومنه : غُرَّةُ الفرس . وغِرَارُ السّيف أي : حدّه، وغَرُّ الثّوب : أثر کسره، وقیل : اطوه علی غَرِّهِ وغَرَّهُ كذا غُرُوراً كأنما طواه علی غَرِّهِ. قال تعالی: ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار 6] ، لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران 196] ، وقال : وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً- [ النساء 120] ، وقال : بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر 40] ، وقال : يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام 112] ، وقال : وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران 185] ، وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام 70] ، ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب 12] ، وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان 33] ، فَالْغَرُورُ : كلّ ما يَغُرُّ الإنسان من مال وجاه وشهوة وشیطان، وقد فسّر بالشیطان إذ هو أخبث الْغَارِّينَ ، وبالدّنيا لما قيل : الدّنيا تَغُرُّ وتضرّ وتمرّ والْغَرَرُ : الخطر، وهو من الْغَرِّ ، «ونهي عن بيع الْغَرَرِ». والْغَرِيرُ : الخلق الحسن اعتبارا بأنّه يَغُرُّ ، وقیل : فلان أدبر غَرِيرُهُ وأقبل هريرة فباعتبار غُرَّةِ الفرس وشهرته بها قيل : فلان أَغَرُّ إذا کان مشهورا کريما، وقیل : الْغُرَرُ لثلاث ليال من أوّل الشّهر لکون ذلک منه كالْغُرَّةِ من الفرس، وغِرَارُ السّيفِ : حدّه، والْغِرَارُ : لَبَنٌ قلیل، وغَارَتِ النّاقةُ : قلّ لبنها بعد أن ظنّ أن لا يقلّ ، فكأنّها غَرَّتْ صاحبها .- ( غ ر ر )- غررت ( ن ) فلانا ( فریب دینا ) کسی کو غافل پاکر اس سے اپنا مقصد حاصل کرنا غرۃ بیداری کی حالت میں غفلت غرار اونکھ کے ساتھ غفلت اصل میں یہ غر سے ہے جس کے معنی کسی شے پر ظاہری نشان کے ہیں ۔ اسی سے غرۃ الفرس ( کگوڑے کی پیشانی کی سفیدی ہے اور غر ار السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں غر الثواب کپڑے کی تہ اسی سے محاورہ ہے : ۔ اطوہ علی غرہ کپڑے کو اس کی تہ پر لپیٹ دو یعنی اس معاملہ کو جوں توں رہنے دو غرہ کذا غرورا سے فریب دیا گویا اسے اس کی نہ پر لپیٹ دیا ۔ قرآن میں ہے ؛ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار 6] ای انسان تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کا دیا ۔ لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران 196]( اے پیغمبر ) کافروں کا شہروں میں چلنا پھر تمہیں دھوکا نہ دے ۔ وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء 120] اور شیطان جو وعدہ ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے ۔ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر 40] بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے ۔ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام 112] وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالنتے رہتے ہیں ۔ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران 185] اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام 70] اور دنیا کی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب 12] کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے دھوکے کا وعدہ کیا تھا ۔ وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان 33] اور نہ فریب دینے والا شیطان ) تمہیں خدا کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے ۔ پس غرور سے مال وجاہ خواہش نفسانی ، شیطان اور ہر وہ چیز مراد ہے جو انسان کو فریب میں مبتلا کرے بعض نے غرور سے مراد صرف شیطان لیا ہے کیونکہ چو چیزیں انسان کو فریب میں مبتلا کرتی ہیں شیطان ان سب سے زیادہ خبیث اور بعض نے اس کی تفسیر دنیا کی ہے کیونکہ دنیا بھی انسان سے فریب کھیلتی ہے دھوکا دیتی ہے نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے ۔ الغرور دھوکا ۔ یہ غر سے ہے اور ( حدیث میں ) بیع الغرر سے منع کیا گیا ہے (57) الغریر اچھا خلق ۔ کیونکہ وہ بھی دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ چناچہ ( بوڑھے شخص کے متعلق محاورہ ہے ۔ فلان ادبر غریرہ واقبل ہریرہ ( اس سے حسن خلق جاتارہا اور چڑ چڑاپن آگیا ۔ اور غرہ الفرس سے تشبیہ کے طور پر مشہور معروف آدمی کو اغر کہاجاتا ہے اور مہینے کی ابتدائی تین راتوں کو غرر کہتے ہیں کیونکہ مہینہ میں ان کی حیثیت غرۃ الفرس کی وہوتی ہے غرار السیف تلوار کی دھار اور غرار کے معنی تھوڑا سا دودھ کے بھی آتے ہیں اور غارت الناقۃ کے معنی ہیں اونٹنی کا دودھ کم ہوگیا حالانکہ اس کے متعلق یہ گہان نہ تھا کہ اسکا دودھ کم ہوجائیگا گویا کہ اس اونٹنی نے مالک کو دھوکا دیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اللہ کے سوا وہ کون ہے جو عذاب خداوندی سے تمہاری حفاظت کرے، کافر تو دنیاوی جھوٹ اور بڑے دھوکا میں ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ اَمَّنْ ہٰذَا الَّذِیْ ہُوَ جُنْدٌ لَّــکُمْ یَنْصُرُکُمْ مِّنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ ” بھلا وہ کون ہے جو تمہارا لشکر بن کر تمہاری مدد کرے رحمن کے مقابلہ میں ؟ “- اِنِ الْکٰفِرُوْنَ اِلَّا فِیْ غُرُوْرٍ ۔ ” نہیں ہیں یہ کافر مگر دھوکے میں مبتلا ہیں۔ “- حقیقت یہ ہے کہ یہ منکرین صرف دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :31 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ رحمان کے سوا وہ کون ہے جو تمہارا لشکر بنا ہوا تمہاری دستگیری کرتا ہو ۔ ہم نے متن میں جو ترجمہ کیا ہے وہ آگے کے فقرے سے مناسبت رکھتا ہے ، اور اس دوسرے ترجمہ کی مناسبت پچھلے سلسلہ کلام سے ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

5: یعنی یہ کافر لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے من گھڑت معبود ہماری مدد کریں گے، وہ خالص دھوکے میں ہیں۔