Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 شَھِیْق، اس آواز کو کہتے ہیں جو گدھا پہلی مرتبہ نکالتا ہے، یہ قبیح ترین آواز ہوتی ہے۔ جہنم بھی گدھے کی طرح چیخ اور چلا رہی اور آگ پر رکھی ہوئی ہانڈی کی طرح جوش مار رہی ہوگی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١] شَھِیْقًا۔ زفیر اور شھیق گدھے کے ہینگنے کے وقت اس آواز کی ابتدائی اور آخری حالت کا نام ہے۔ زفر بمعنی لمبا سانس باہر نکالنا اور زفیر گدھے کے ہینگنے کی ابتدائی آواز جو آہستہ سے اونچی ہونا شروع ہوجاتی ہے اور جب گدھا ہینگنے کے عمل کو ختم کرنے لگے تو وہ آواز جو اونچی آواز سے پست ہونا شروع ہوتی ہے اسے شَھِیِْقٌ کہتے ہیں۔ پھر یہ گدھے کی آواز قرآن کی تصریح کے مطابق سب سے زیادہ مکروہ اور کانوں کو ناگوار محسوس ہونے والی ہوتی ہے۔ ایسی ہی مکروہ آواز دوزخ کی پیدا ہو رہی ہوگی۔ پھر اس کی بھی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ایسی آواز جہنم کے جوش مارنے سے پیدا ہوگی۔ دوسرے یہ کہ دوزخ میں جو لوگ پہلے پڑے ہوں گے۔ وہ اس قسم کی مکروہ آوازیں نکالیں گے۔- [١٢] تفور کا لغوی مفہوم :۔ تَفُوْرُ ۔ فار الماء بمعنی پانی کا جوش مارنا اور ابلنا۔ اور اس جوش مارنے یا ابلنے کی وجہ حرارت کی شدت نہیں ہوتی بلکہ پانی کا دباؤ ہوتا ہے۔ نیچے سے پانی کا دباؤ زیادہ ہو اور سوراخ تنگ ہو تو پانی بڑے جوش سے اوپر کو اچھلتا ہے۔ لفظ فوارہ اسی سے مشتق ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِذَآ اُلْقُوْا فِیْہَا سَمِعُوْا لَہَا شَہِیْقًا وَّہِیَ تَفُوْرُ :” شھیق “ گدھے کے ہینگنے کے آخر کی آواز اور ” زقیر “ شروع کی آواز۔ (قاموس) سورة ٔ فرقان (١٢) میں فرمایا کہ جہنم جب انہیں دور سے دیکھے گی تو وہ جہنم کے سخت غصے کی اور گدھے کی طرح چلانے کی آواز سنیں گے۔ ساتھ ہی جہنمیوں کے چیخنے چلانے کی جو آوازیں آرہی ہوں گی وہ بھی گدھے کی آوازوں جیسی ہوں گی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(فَاَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا فَفِی النَّارِ لَہُمْ فِیْہَا زَفِیْرٌ وَّشَہِیْقٌ ) ( ھود : ١٠٦)” تو وہ لوگ جو بدبخت ہوئے سو وہ آگ میں ہوں گے ، ان کے لیے گدھے کی طرح آواز کھینچنا اور نکالنا ہے “۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِذَآ اُلْقُوْا فِيْہَا سَمِعُوْا لَہَا شَہِيْقًا وَّہِىَ تَفُوْرُ۝ ٧ ۙ- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - شهق - الشَّهِيقُ : طول الزّفير، وهو ردّ النّفس، والزّفير : مدّه . قال تعالی: لَهُمْ فِيها زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ [هود 106] ، سَمِعُوا لَها تَغَيُّظاً وَزَفِيراً [ الفرقان 12] ، وقال تعالی: سَمِعُوا لَها شَهِيقاً [ الملک 7] ، وأصله من جبل شَاهِقٍ. أي : متناهي الطّول .- ( ش ھ ق ) الشھیق - ۔ کے معنی لمبی سانس کھینچناکے ہیں لیکن شھیق سانس لینے اور زفیر سانس چھوڑنے پر بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے لَهُمْ فِيها زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ [هود 106] اس میں ان چلانا اور دھاڑنا ہوگا ۔ سَمِعُوا لَها تَغَيُّظاً وَزَفِيراً [ الفرقان 12] اور چیخنے چلانے کو سنیں گے ۔ اصل میں یہ لفظ جبل شاھق سے ماخوذ ہے جس کے معنی انتہائ بلند پہاڑ کے ہیں ۔- فور - الفَوْرُ : شِدَّةُ الغَلَيَانِ ، ويقال ذلک في النار نفسها إذا هاجت، وفي القدر، وفي الغضب نحو : وَهِيَ تَفُورُ [ الملک 7] ، وَفارَ التَّنُّورُ [هود 40]- ( ف و ر ) الفور - ( کے معنی سخت جوش مارنے کے ہیں یہ لفظ آگ کے بھڑک اٹھنے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور ہانڈی اور غصہ کے جوش کھانے پر بھی ۔ قرآن میں ہے ۔ وَهِيَ تَفُورُ [ الملک 7] اور وہ جوش مار رہی ہوگی وفارَ التَّنُّورُ [هود 40] اور تنور جوش مارنے لگا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ اِذَآ اُلْقُوْا فِیْہَا سَمِعُوْا لَہَا شَہِیْقًا وَّہِیَ تَفُوْرُ ۔ ” جب وہ اس میں جھونکے جائیں گے تو اسے سنیں گے دھاڑتے ہوئے اور وہ بہت جوش کھا رہی ہوگی۔ “- جہنم انہیں دیکھ کر غصے سے دھاڑرہی ہوگی جیسے کوئی بھوکا بھیڑیا اپنے شکار پر جھپٹتے ہوئے غراتا ہے۔ سورة قٓ میں جہنم کے غیظ و غضب کی ایک کیفیت یوں بیان ہوئی ہے : یَوْمَ نَـقُوْلُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُوْلُ ہَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ ۔ ” جس دن کہ ہم پوچھیں گے جہنم سے کہ کیا تو بھر گئی ؟ اور وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے ؟ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :13 اصل میں لفظ شھیق استعمال ہوا ہے ۔ جو گدھے کی سی آواز کے لیے بولا جاتا ہے ۔ اس فقرے کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ خود جہنم کی آواز ہو گی ، اور یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ آواز جہنم سے آ رہی ہو گی جہاں ان لوگوں سے پہلے گرے ہوئے لوگ چیخیں مار رہے ہوں گے ۔ اس دوسرے مفہوم کی تائید سورہ ہود کی آیت 106 سے ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ دوزخ میں یہ دوزخی لوگ ہانپیں گے اور پھنکارے ماریں گے ۔ اور پہلے مفہوم کی تائید سورۃ فرقان آیت 12 سے ہوتی ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ دوزخ میں جاتے ہوئے یہ لوگ دور ہی سے اس کے غضب اور جوش کی آوازیں سنیں گے ۔ اس بنا پر صحیح یہ ہے کہ یہ شور خود جہنم کا بھی ہو گا اور جہنمیوں کا بھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani