Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩] آیت نمبر ١٠ سے ١٣ تک چار آیات میں کافروں کے ایک رئیس کی اخلاقی حالت کو رسول اللہ کے مقابلہ میں پیش کیا گیا ہے اور اس کا نام لینے کی ضرورت اس لئے پیش نہیں آئی کہ ان صفات والا کردار صرف ایک ہی تھا۔ اور اس کی یہ صفات پڑھ کر ہر ایک کو معلوم ہوجاتا تھا کہ ان آیات کا روئے سخن کس طرف ہے اور یہ قرآن کی انتہائی حکمت کی دلیل ہے کہ کسی برے شخص کا نام لیے بغیر محض صفات سے ہی اس کی نشاندہی کردی جائے اور ہر ایک کو معلوم ہوجائے کہ جس شخص میں یہ اور یہ صفات پائی جاتی ہوں وہ ایسے اخلاق کا مالک ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ہَمَّازٍ مَّشَّآئٍم بِنَمِیْمٍ :” ھماز مشاء بنیم :” ھماز “ ” ھمز یھمزھمزا “ (ن) سے مبالغے کا صیغہ ہے ، بہت طعنہ دینے والا ، عیب لگانے والا ۔ ” مشاء “ ” مشی یمشی مشیا “ (ض) (چلنا) سے مبالغے کا صیغہ ہے ، بہت چلنے والا ، بہت دوڑدھوپ کرنے والا ۔ ” نمیم “ چغلی ، خرابی ڈالنے کی نیت سے کسی کی بات دوسرے شخص تک پہنچانا۔ ان دونوں صفتوں کا خلاصہ دوسروں پر عیب لگانا ہے۔ ” ھماز “ وہ جو دوسرے کے منہ پر عیب لگاتا اور طعنہ دیتا ہے۔ ” مشاء بنیم “ وہ جو پیٹھ پیچھے چغلی کرتا ہے۔ یعنی بس چلے تو جرأت سے منہ پر طعنہ زنی اور عیب جوئی کرتا ہے اور بس نہ چلے تو پیٹھ پیچھے دوڑ دھوپ جاری رکھتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ہَمَّازٍ مَّشَّاۗءٍؚبِنَمِيْمٍ۝ ١١ ۙ- همز - الْهَمْزُ کالعصر . يقال : هَمَزْتُ الشیء في كفّي، ومنه : الْهَمْزُ في الحرف، وهَمْزُ الإنسان : اغتیابه . قال تعالی: هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] يقال : رجل هَامِزٌ ، وهَمَّازٌ ، وهُمَزَةٌ. قال تعالی: وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ [ الهمزة 1] وقال الشّاعر : وإن اغتیب فأنت الْهَامِزُ اللُّمَزَهْ وقال تعالی: وَقُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزاتِ الشَّياطِينِ [ المؤمنون 97] .- ( ھ م ز ) الھمز کے آصل معنی کسی چیز کو دبا کر نچوڑ نے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ ھمزت الشئی فی کفی میں نے فلاں چیز کو اپنی ہتھیلی میں دبا کر نچوڑ اور اس سے حرف ہمزہ ہے جو کہ زبان جو جھٹکا د ے کر پڑھا جاتا ہے اور ھمز کے معنی غیبت کرنا بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] طعن آمیز شارتیں کر نیوالا چغلیاں لئے پھر نیوا لا اور ھامز وھمزۃ وھما ز کے معنی عیب چینی کرنے والا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ ؎ وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ [ الهمزة 1] ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغلخور کی خرابی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 456 ) وان غتبت فانت الھا مز اللمزۃ اگر غیبت کی جائے تو تو طعن آمیز اشارتیں کرنے والا بد گو ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزاتِ الشَّياطِينِ [ المؤمنون 97] کہو اے پروردگار میں شیاطین کے وسا س پناہ مانگتا ہوں ۔- مشی - المشي : الانتقال من مکان إلى مکان بإرادة . قال اللہ تعالی: كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ- [ البقرة 20] ، وقال : فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور 45] ، إلى آخر الآية . يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] ، ويكنّى بالمشي عن النّميمة . قال تعالی: هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] ، ويكنّى به عن شرب المسهل، فقیل : شربت مِشْياً ومَشْواً ، والماشية : الأغنام، وقیل : امرأة ماشية : كثر أولادها .- ( م ش ی ) المشی - ( ج ) کے معنی ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف قصد اور ارادہ کے ساتھ منتقل ہونے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور 45] ان میں سے بعض ایسے ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں ۔ فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک 15] تو اس کی راہوں میں چلو پھرو ۔ اور کنایۃ مشی کا لفظ چغلی کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] طعن آمیز اشارتیں کرنے والا چغلیاں لئے پھرنے والا ۔ اور کنایۃ کے طور پر مشئی کے معنی مسہل پینا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ شربت مشیا ومشو ا میں نے مسہل دواپی الما شیۃ مویشی یعنی بھیڑ بکری کے ریوڑ کو کہتے ہیں اور امراۃ ماشیۃ اس عورت کو کہتے ہیں جس کے بچے بہت ہوں ۔- نم - النَّمُّ : إِظْهَارُ الحَدِيثِ بِالوِشَايَةِ ، والنَّمِيمَةُ الوِشَايَةُ ، ورَجُلٌ نَمَّامٌ. قال تعالی: هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ- [ القلم 11] وأصل النَّمِيمَةِ : الهَمْسُ والحَرَكَةُ الخَفِيفَةُ ، ومنه : أَسْكَتَ اللَّهُ نَامَّتَهُ - أي : ما يَنِمُّ عليه مِنْ حَرَكَتِهِ ، والنَّمَّامُ : نَبْتٌ يَنِمُّ عليه رَائِحَتُهُ ، والنَّمْنَمَةُ : خُطُوطٌ مُتَقَارِبَةٌ ، وذلک لقِلَّةِ الحَرَكَةِ من کاتِبِهَا في كِتَابَتِهِ.- ( ن م م ) النم ( ن ) کے معنی چغلی کھانے کے ہیں ۔ اور چغلخوری کو نمیۃ کہاجاتا ہے ۔ نمام چغل خور ۔ قرآن پاک میں ہے : هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم 11] طعن آمیز اشارتیں کرنیوالا چغلیاں لئے پھرنے والا اصل میں نمیمۃ کے معنی ھمس ( پاؤں کی آہٹ ) اور حرکت خفیفہ کے ہیں ۔ اسی سے محاورہ ہے : اسکت اللہ نامتہ ۔ خدا اس کی حرکت کو بند کردے یعنی وہ مرجائے ۔ النمام گھاس جس کی خوشبو اس کے وجود پر دلالت کرے ۔ النمنمۃ ۔ قریب قریب خطوط گویا کتابت میں قلت حرکت پر دالی ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (ھماز مشاء بنمیم، طعنے دیتا ہے، چغلیاں کھاتا پھرتا ہے) یعنی لوگوں کی عزت وآبرو کے بارے میں سخت زبان درازی کرنے والا اور ان پر ایسی باتوں کا عیب دھرنے والا جوان کے اندر موجود نہ ہوں۔ قول باری (مشاء بنمیم) سے وہ شخص مراد ہے، جو ایک کی بات دوسرے تک پہنچاتا ہو مقصد اس کا یہ ہو کہ اس طرح لگائی بجھائی کرکے لوگوں کو آپس میں لڑا دے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (لا یدخل الجنۃ قتات) چغلخور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani