[٨] زیادہ قسمیں کھانے والا انسان ذلیل ہوتا ہے :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمہ اصول بیان فرمایا کہ جو شخص بات بات پر قسمیں کھاتا ہے۔ یا اسے قسمیں اٹھانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اسے اپنی کسی بات پر نہ خود اعتماد ہوتا ہے اور نہ دوسروں کو اعتماد ہوتا ہے۔ وہ اپنی نظروں میں بھی ذلیل اور دوسروں کی نظروں میں بھی ذلیل ہوتا ہے۔ لہذا ایسے شخص کی بات ماننے کا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔
وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّہِیْنٍ :” حلاف “” حلف یحلف “ (ض) سے مبالغہ ہے ، بہت قسمیں کھانے والا ۔” مھین “” مھن یمھن مھانۃ “ (ک) (حقیر ، ذلیل ہونا) سے ” فعیل “ کے وزن پر ہے ، حقیر ، ذلیل ۔ دونوں صفتیں ایک دوسرے کو لازم ہیں ، زیادہ قسمیں کھانے سے آدمی لوگوں کی نظر میں ذلیل ہوجاتا ہے اور لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل اور بےاعتبار ہونے ہی کی وجہ سے وہ زیادہ قسمیں کھاتا ہے ، تا کہ اپنی بات کا یقین دلائے ، کیونکہ وہ خود سمجھتا ہے کہ لوگوں کے دل میں نہ اس کی عزت ہے نہ اعتبار۔- ٢۔ ان چھ آیات ( ١٠ تا ١٥) میں مذکور بری خصلتوں والے شخص سے بعض مفسرین نے ایک خاص شخص مراد لیا ہے ، مگر آیت کے الفاظ عام ہیں :( ولا تطع کل حلاف مھین) کہ ’ ’ ایسی خصلتوں والے کسی شخص کا کہنا مت مان “ اس لینے ان خصلتوں والا ہر شخص آیت کا مصداق ہے ۔ اس سے پہلے آیات میں مکذبین کی اطاعت سے منع فرمایا تھا ، اب انہی جھٹلانے والوں کا ذکر ان خصلتوں کے ساتھ ذکر کیا ہے جو دین کو جھٹلانے کی وجہ سے عام طور پر آدمی میں پیداہو جاتی ہیں ۔ یہ سب کفر کی صفات ہیں ، آدمی کی کوشش کرنی چاہیے کہ ان میں کوئی بھی خصلت اس کے اندر پیدا نہ ہونے پائے۔
وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِيْنٍ 10 ۙهَمَّازٍ مَّشَّاۗءٍۢ بِنَمِيْمٍ 11 ۙمَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ اَثِيْمٍ 12 ۙعُتُلٍّۢ بَعْدَ ذٰلِكَ زَنِيْم (آپ بات نہ مانیں ہر ایسے شخص کی جو بہت قسمیں کھانے والا ہو ذلیل ہو اور لوگوں پر عیب لگانے والا ہو غیبت کرنے والا ہو چغلخوری کرنے والا ہو، نیک کاموں سے لوگوں کو روکنے والا ظلم وجور میں حد سے بڑھنے والا ہو بکثرت گناہ کرنے والا اور بہت قسمیں کھانے والا کج خلق بخیل ہو اور ان سب صفات رذیلہ کے ساتھ وہ زنیم بھی ہو۔ زنیم کے معنے وہ شخص جس کا نسب کسی باپ سے ثابت نہ ہو۔ جس شخص کے یہ اوصاف بیان کئے گئے ہیں وہ ایسا ہی غیر ثابت النسب تھا۔- پہلی آیت میں عام کفار کی بات نہ ماننے اور دین کے معاملے میں ان کی وجہ سے کوئی مداہنت نہ کرنے کا حکم تھا اس آیت میں ایک خاص شریر کافر ولید بن مغیرہ کی صفات رذیلہ بیان کر کے اس سے اعراض کرنے اور اس کی بات نہ ماننے کا خصوصی حکم دیا گیا ہے (کما رواہ ابن جریر عن ابن عباس) آگے بھی کئی آیتوں میں اس شخص کی بد اخلاقی اور سرکشی کا ذکر فرمانے کے بعد فرمایا سَنَسِمُهٗ عَلَي الْخُرْطُوْم یعنی ہم قیامت کے روز اس کی ناک پر داغ لگا دیں گے جس سے اولین و آخرین میں اس کی رسوائی ظاہر ہو جائیگی اس کی ناک کو بغرض تقبیح خرطوم سے تعبیر کیا گیا ہے جو ہاتھی یا خنزیر کی ناک کے لئے مخصوص ہے۔
وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّہِيْنٍ ١٠ ۙ- حلف - الحِلْف : العهد بين القوم، والمُحَالَفَة : المعاهدة، وجعلت للملازمة التي تکون بمعاهدة، وفلان حَلِفُ کرم، وحَلِيف کرم، والأحلاف جمع حلیف، قال الشاعر وهو زهير : تدارکتما الأحلاف قد ثلّ عرشها أي : كاد يزول استقامة أمورها، وعرش الرجل : قوام أمره . والحَلِفُ أصله الیمین الذي يأخذ بعضهم من بعض بها العهد، ثمّ عبّر به عن کلّ يمين، قال اللہ تعالی: وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ [ القلم 10] ، أي : مکثار للحلف، وقال تعالی: يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ ما قالوا[ التوبة 74] ، يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَما هُمْ مِنْكُمْ [ التوبة 56] ، يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ [ التوبة 62] ، وشیء مُحْلِف : يحمل الإنسان علی الحلف، وكميت محلف :إذا کان يشكّ في كميتته وشقرته، فيحلف واحد أنه كميت، وآخر أنه أشقر .- والمُحَالَفَة : أن يحلف کلّ للآخر، ثم جعلت عبارة عن الملازمة مجرّدا، فقیل : حِلْفُ فلان وحَلِيفُه، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «لا حِلْفَ في الإسلام» . وفلان حَلِيف اللسان، أي : حدیده، كأنه يحالف الکلام فلا يتباطأ عنه، وحلیف الفصاحة .- ( ح ل ف ) الحلف عہدو پیمانہ جو لوگوں کے درمیان ہو المحالفۃ ( مفاعلہ ) معاہدہ یعنی باہم عہدو پیمان کرنے کو کہتے ہیں پھر محالفت سے لزوم کے معنی لے کر کہا جاتا ہے یعنی وہ کرم سے جدا نہین ہوتا ۔ حلیف جس کے ساتھ عہد و پیمان کیا گیا ہو اس کی جمع احلاف ( حلفاء آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) تم نے ان حلیفوں کردیا جن کے پائے ثبات مترلزل ہوچکے تھے ۔ الحلف اصل میں اس قسم کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ ایک دوسرے سے عہد و پیمان کای جائے اس کے بعد عام قسم کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے قرآن میں ہے ۔ وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ [ القلم 10] اور کسی ایسے شخس کے کہے میں نہ آجانا جو بہت قسمیں کھانے والا ذلیل اوقات ہے ۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ ما قالوا[ التوبة 74] خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے ( تو کچھ ) انہیں کہا يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَما هُمْ مِنْكُمْ [ التوبة 56] اور خدا کی قسمیں کھاتے میں کہ وہ تم میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں ۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ [ التوبة 62] یہ لوگ تمہارے سامنے خدا کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم کو خوش کردیں ۔ ( مشکوک چیز ) جس کے ثابت کرنے کے لئے قسم کی ضرورت ہو ۔ کمیت محلف گھوڑا جس کے کمیت اور اشقر ہونے میں شک ہو ایک قسم کھائے کہ یہ کمیت ہے اور دوسرا حلف اٹھائے کہ یہ اشقر یعنی سرخ ہے المحالفۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سامنے قسم کھانا کے ہیں اس سے یہ لفظ محض لزوم کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے اور جو کسی سے الگ نہ ہوتا ہو اسے اس کا حلف یا حلیف کہا جاتا ہے حدیث میں ہے اسلام میں زمانہ جاہلیت ایسے معاہدے نہیں ہیں ۔ فلان حلیف اللسان فلاں چرب زبان ہے کو یا اس نے بولنے سے عہد کر رکھا ہے اور اس سے ایک لمحہ نہیں رکتا حلیف الفصا حۃ وہ صحیح ہے ۔- هان - الْهَوَانُ علی وجهين :- أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن»- الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ به - فيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل .- ( ھ و ن ) الھوان - اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت سے مروی ہے کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے - دوم ھان بمعنی ذلت - اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کت اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] تو کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے والا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] کہ بی مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] اور تم اسے ایک ہل کہ بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ فاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔
زیادہ قسمیں کھانے والے سے دبنے کی ضرورت نہیں - قول باری ہے (ولا تطع کل حلاف مھین، ہرگز نہ دبو کسی ایسے شخص سے جو بہت قسمیں کھانے والا بےوقعت آدمی ہے) ایک قول کے مطابق حلاف وہ شخص ہے جو اللہ کا نام لے کر جھوٹی قسمیں کھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مہین کا نام دیا کیونکہ جھوٹ کو جائز سمجھتا اور جھوٹی قسموں کو روا رکھتا تھا۔- حلاف اس شخص کو کہتے ہیں جو کثرت سے جھوٹی سچی قسمیں کھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے چناچہ ارشاد باری ہے (ولا تجعلوا اللہ عرضۃ لا یمانکم، اور تم اللہ کی ذات کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بنائو)
آیت ١٠ وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّہِیْنٍ ۔ ” اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مت مانیے کسی ایسے شخص کی بات جو بہت قسمیں کھانے والا انتہائی گھٹیا ہے۔ “- ان دونوں خصوصیات کا آپس میں فطری تعلق ہے۔ اپنی شخصیت کے ہلکے پن کی تلافی کرنے کے لیے بات بات پر قسمیں کھانا ہر گھٹیا آدمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لفظ ” مَہِیْن “ ذلیل و حقیر اور گھٹیا آدمی کے لیے بولا جاتا ہے۔
سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :6 اصل میں لفظ مھین استعمال ہوا ہے جو حقیر و ذلیل اور گھٹیا آدمی کے لیے بولا جاتا ہے ۔ درحقیقت یہ بہت قسمیں کھانے والے آدمی کی لازمی صفت ہے ۔ وہ بات بات پر اس لیے قسم کھاتا ہے اسے خود یہ احساس ہوتا ہے کہ لوگ اسے جھوٹا سمجھتے ہیں اور اس کی بات پر اس وقت تک یقین نہیں کریں گے جب تک وہ قسم نہ کھائے ۔ اس بنا پر وہ اپنی نگاہ میں خود بھی ذلیل ہوتا ہے اور معاشرے میں بھی اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی ۔
4: جو کافر لوگ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مخالفت میں پیش پیش تھے، اور آپ کو اپنے دِین کی تبلیغ سے ہٹانا چاہتے تھے، اُن میں سے کئی لوگ ایسے تھے جن میں وہ اخلاقی خرابیاں پائی جاتی تھیں جن کا تذکرہ آیات 10 تا 12 میں فرمایا گیا ہے۔ بعض مفسرین نے ایسے اَفراد کا نام بھی لیا ہے کہ وہ اخنس بن شریق، اسود بن عبد یغوث یا ولید بن مغیرہ تھے۔