9۔ 1 وہ چاہتے ہیں کہ تو ان کے معبودوں کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرے تو وہ بھی تیرے بارے میں نرم رویہ اختیار کریں باطل پرست اپنی باطل پرستی کو چھوڑنے میں ڈھیلے ہوجائیں گے۔ اس لئے حق میں خوشامد، حکمت، تبلیغ اور کار نبوت کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔
[٧] کافروں کی حق وباطل میں سمجھوتہ کی کوشش :۔ کافروں کا مطالبہ یہ تھا کہ آپ ہمارے بتوں کو برا کہنا چھوڑ دیں۔ آپ معاذ اللہ ان کے بتوں کو کوئی گالیاں تو نہیں دیتے تھے بلکہ صرف یہ کہتے تھے کہ یہ بت نہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ سنوار سکتے ہیں۔ ان کے تصرف و اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ پھر چونکہ مدتوں سے ان کافروں میں اعتقاد چلا آرہا تھا۔ کہ ہمارے یہ معبود ہمارا بگاڑ بھی سکتے ہیں اور سنوار بھی سکتے ہیں۔ لہذا وہ آپ کی اس تعلیم کو اپنی بھی توہین سمجھتے تھے اپنے آباؤ اجداد کی بھی اور اپنے ان بتوں کی بھی۔ ان کا مطالبہ صرف یہ تھا کہ آپ ہمارے معبودوں کو کچھ نہ کہیں۔ ان کی شان میں کوئی توہین یا گستاخی کی بات نہ کریں۔ ہم آپ کے معبود کے حق میں کوئی ایسی بات نہ کریں گے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حق و باطل میں کبھی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ پھر اگر آپ بفرض محال ان کی کوئی بات تسلیم کر بھی لیں تو بھی ایسے سمجھوتہ اور ایسی مصالحت کا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ کیونکہ یہ جھوٹے لوگ ہیں۔ اپنی کسی بات پر قائم رہنے والے نہیں۔ ان کا اصل مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانا ہے۔
وَدُّوْا لَوْتُدْھِنُ فَیُدْھِنُوْنَ :” تدھن “” دھن “ ( تیل) سے مشتق ہے۔ جس طرح چمڑے وغیرہ کو تیل لگا کر نرم کیا جاتا ہے اس طرح بات کو نرم کردینا ۔ یعنی ان کی خواہش ہے کہ آپ اسلام کی تبلیغ میں اپنی سرگرمیاں کم کردیں تو وہ بھی آپ کو ستانے میں کمی کردیں ، آپ اپنے دین میں کچھ ترمیم کر کے اس میں ان کے شرک اور دوسری گمراہیوں کی کچھ گنجائش نکال لیں تو وہ بھی آپ کے ساتھ صلح کرلیں گے ۔ آپ خود جو چاہیں کریں ، مگر تمام لوگوں کی زندگی کے ہر شعبہ مثلاً ان کے عقائد ، معیشت اور معاشرت و حکومت وغیرہ میں اللہ کے حکم کی تنقید پر اصرار چھوڑ دیں تو وہ بھی آپ کے نماز روزے کو برداشت کرلیں ، جیسا کہ ہمیشہ کی طرح آج بھی سیکولر لوگوں کا کہنا ہے کہ دین ذاتی مسئلہ ہے، حکومت میں اس کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے۔ یاد رہے جس چیز سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے وہ بات کو نرم کردینا ہے ، لہجے میں نرمی نہیں ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ خلق عظیم پر ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کفار کو نرم کرنے کے لیے آپ اپنے موقف اور عقیدے میں نرمی کردیں ۔ رہی انداز اور لہجے میں نرمی تو وہ آپ کے خلق عظیم کا بھی تقاضا ہے اور اللہ کا حکم بھی ۔ گویا آپ کو مداہنت سے منع کیا جا رہا ہے ، مدارت سے نہیں ۔
وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَيُدْہِنُوْنَ ٩- ودد - الودّ : محبّة الشیء، وتمنّي كونه، ويستعمل في كلّ واحد من المعنيين علی أن التّمنّي يتضمّن معنی الودّ ، لأنّ التّمنّي هو تشهّي حصول ما تَوَدُّهُ ، وقوله تعالی: وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم 21]- ( و د د ) الود ۔- کے معنی کسی چیز سے محبت اور اس کے ہونے کی تمنا کرنا کے ہیں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں الگ الگ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ کسی چیز کی تمنا اس کی محبت کے معنی کو متضمعن ہوتی ہے ۔ کیونکہ تمنا کے معنی کسی محبوب چیز کی آرزو کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور آیت : ۔ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم 21] اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی ۔- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - دهن - قال تعالی: تَنْبُتُ بِالدُّهْنِ [ المؤمنون 20] ، وجمع الدّهن أدهان . وقوله تعالی:- فَكانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهانِ [ الرحمن 37] ، قيل : هو درديّ الزّيت، والمُدْهُن : ما يجعل فيه الدّهن، وهو أحد ما جاء علی مفعل من الآلة وقیل للمکان الذي يستقرّ فيه ماء قلیل : مُدْهُن، تشبيها بذلک، ومن لفظ الدّهن استعیر الدَّهِين للناقة القلیلة اللّبن، وهي فعیل في معنی فاعل، أي : تعطي بقدر ما تدهن به . وقیل : بمعنی مفعول، كأنه مَدْهُون باللبن . أي : كأنها دُهِنَتْ باللبن لقلّته، والثاني أقرب من حيث لم يدخل فيه الهاء، ودَهَنَ المطر الأرض : بلّها بللا يسيرا، کالدّهن الذي يدهن به الرّأس، ودَهَنَهُ بالعصا : كناية عن الضّرب علی سبیل التّهكّم، کقولهم : مسحته بالسّيف، وحيّيته بالرّمح . والإِدْهَانُ في الأصل مثل التّدهين، لکن جعل عبارة عن المداراة والملاینة، وترک الجدّ ، كما جعل التّقرید وهو نزع القراد عن البعیر عبارة عن ذلك، قال : أَفَبِهذَا الْحَدِيثِ أَنْتُمْ مُدْهِنُونَ [ الواقعة 81] ، قال الشاعر : الحزم والقوّة خير من ال إدهان والفکّة والهاع وداهنت فلانا مداهنة، قال : وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ [ القلم 9] .- ( د ھ ن ) الدھن ۔ تیل ۔ چکنا ہٹ ج ادھان قرآن میں ہے : ۔ تَنْبُتُ بِالدُّهْنِ [ المؤمنون 20] جو روغن لئے ہوئے اگتا ہے : ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَكانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهانِ [ الرحمن 37] پھر ۔۔۔۔ تیل کی تلچھٹ کیطرح گلابی ہوجائیگا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہپ دھان کے معنی تلچھٹ کے ہیں المدھن ۔ ہر وہ برتن جس میں تیل ڈالا جائے ۔ یہ اسم آلہ کے منجملہ ان اوزان کے ہے جو ( بطور شواز ) مفعل کے وزن پر آتے ہیں اور بطور تشبیہ ( پہاڑ میں ) اس مقام ( چھوٹے سے گڑھے ) کو بھی مدھن کہا جاتا ہے جہاں تھوڑا سا پانی ٹھہر جاتا ہو اور دھن سے بطور استعارہ کم دودھ والی اونٹنی کو دھین کہا جاتا ہے اور یہ فعیل بمنعی فاعل کے وزن پر ہے یعنی وہ بقدر دہن کے دودھ دیتی ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ فعیل بمعنی مفعول ہے ۔ گویا اسے دودھ کا دھن لگایا گیا ہے ۔ یہ بھی دودھ کے کم ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ یہ دوسرا قول الی الصحت معلوم ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس کے آخر میں ہ تانیث نہیں آتی ۔ ( جو فعیل بمنعی مفعول ہونیکی دلیل ہی دھن المطر الارض ۔ بارش نے زمین کو ہلکا سنم کردیا جیسا کہ سر پر تیل ملا جاتا ہے ۔ دھنۃ بالعصا ر ( کنایۃ ) لاٹھی سے اس کی تواضع کی ۔ یہ بطور تہکم کے بولا جاتا ہے جیسا کہ مسحۃ ہ بالسیف وحیتہ بالروح کا محاورہ ہے ۔ الادھان ۔ یہ اصل میں تذھین کی طرح ہے ۔ لیکن یہ تصنع ، نرمی برتنے اور حقیقت کا دامن ترک کردینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ تقدیر کا لفظ جس کے اصل معنی اونٹ سے چیچڑ دور کر نا کے ہیں پھر تصنع اور نرمی برتنا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَبِهذَا الْحَدِيثِ أَنْتُمْ مُدْهِنُونَ [ الواقعة 81] کیا تم اسی کتاب سے انکار کرتے ہو ؟ شاعر نے کہا ہے : ۔ کہ حزم و احتیاط اور قوت چاپلوسی اور جزع فزع سے بہتر ہیں ۔ میں نے فلاں کے سامنے چاپلوسی کی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ [ القلم 9] کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ تم مداہنت سے کام لو یہ بھی نرم ہوجائیں ۔
آیت ٩ وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَیُدْہِنُوْنَ ۔ ” وہ تو چاہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذرا ڈھیلے پڑیں تو وہ بھی ڈھیلے پڑجائیں۔ “- باطل کا تو وطیرہ ہے کہ پہلے وہ حق کو جھٹلاتا ہے ‘ پھر جب اس کے مقابلے میں کھڑے ہونا مشکل نظر آتا ہے تو مداہنت ( ) پر اتر آتا ہے ۔ لیکن حق کسی قسم کی مداہنت یا کسی درمیانی راستے کو نہیں جانتا۔ بقول اقبال ؎- باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے - شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول - اگلی آیات میں نام لیے بغیر انتہائی سخت الفاظ میں ایک کردار کا ذکر ہوا ہے۔ کسی معتبر روایت سے تو ثابت نہیں لیکن زیادہ تر مفسرین کا خیال ہے کہ ان آیات کا مصداق ولید بن مغیرہ تھا :
سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :5 یعنی تم اسلام کی تبلیغ میں کچھ ڈھیلے پڑ جاؤ تو یہ بھی تمہاری مخالفت میں کچھ نرمی اختیار کر لیں ، یا تم ان کی گمراہیوں کی رعایت کر کے اپنے دین میں کچھ ترمیم کرنے پر آمادہ ہو جاؤ تو یہ تمہارے ساتھ مصالحت کرلیں ۔
3: کافروں کی طرف سے کئی بار اس قسم کی تجویزیں پیش کی گئی تھیں کہ اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے فرائض تبلیغ کی ادائیگی میں کچھ نرمی کا مظاہرہ فرمائیں، اور ہمارے بتوں کو باطل نہ کہیں تو ہم بھی آپ کو ستانا چھوڑ دیں گے۔ یہ ان کی اس تجویز کی طرف اشارہ ہے۔