فَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ ۔۔۔: یتلاومون “ ” لام یلوم “ سے با تفاعل ہے جس کے معنی میں تشارک ہوتا ہے ، ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے ۔” طغین “ ” طعی یطعی “ ( ف) سے اسم فاعل کی جمع ہے۔ اب ان میں سے ہر ایک نے دوسرے کو ملامت شروع کردی ، کوئی کسی کو قصور وار ٹھہراتا تو کوئی کسی کو ، پھر خود ہی کہنے لگے کہ ہائے ہماری بربادی ہم ہی حد سے بڑھ گئے تھے کہ اللہ کے مال کو اپنا سمجھ بیٹھے اور حق دار کو محروم کرنے کے منصوبے بنانے لگے۔ اب ہم ہم توبہ کرتے ہیں ، اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اپنے رب سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں اس کے بدلے میں اس سے بہتر عطاء فرمائے گا ۔
فَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَلَاوَمُوْنَ :۔ یعنی ان لوگوں نے اپنے جرم کا تو اعتراف کرلیا، لیکن اب الزام ایک دوسرے پر ڈالنے لگے کہ تو نے ہی اول ایسی غلط رائے دی تھی جس کے نتیجہ میں یہ عذاب آیا۔ حالانکہ یہ جرم انمیں سے کسی کا تنہا نہیں تھا بلکہ سب یا اکثر اس میں شریک تھے۔- تنبیہ :۔ آج کل اس معاملے میں ابتلاء عام ہے کہ بہت سی جماعتوں کے مجموعی عمل کی وجہ سے کوئی ناکامی یا مصیبت پیش آجائے تو اس وقت ایک دوسرا عذاب ان پر یہ ہوتا ہے کہ اس کا الزام ایک دوسرے پر ڈالنے میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔
فَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَلَاوَمُوْنَ ٣٠- إِقْبَالُ- التّوجّه نحو الْقُبُلِ ، كَالاسْتِقْبَالِ. قال تعالی: فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ [ الصافات 50] ، وَأَقْبَلُوا عَلَيْهِمْ [يوسف 71] ، فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ [ الذاریات 29]- اقبال - اور استقبال کی طرح اقبال کے معنی بھی کسی کے رو برو اور اس کی طرف متوجہ ہو نیکے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ [ الصافات 50] پھر لگے ایک دوسرے کو رو ور ود ملا مت کرنے ۔ - وَأَقْبَلُوا عَلَيْهِمْ [يوسف 71] ، اور وہ ان کی طرف متوجہ ہوکر - بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - لوم - اللَّوْمُ : عذل الإنسان بنسبته إلى ما فيه لوم . يقال : لُمْتُهُ فهو مَلُومٌ. قال تعالی: فَلا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ [إبراهيم 22] ، فَذلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ [يوسف 32] ، وَلا يَخافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ [ المائدة 54] ، فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ [ المؤمنون 6] ، فإنه ذکر اللّوم تنبيها علی أنه إذا لم يُلَامُوا لم يفعل بهم ما فوق اللّوم . - ( ل و م )- لمتہ ( ن ) لوما کے معنی کسی کو برے فعل کے ارتکاب پر برا بھلا کہنے اور ملامت کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَلا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ [إبراهيم 22] تو آج مجھے ملامت نہ کرو ا پنے آپ ہی کو ملامت کرو ۔ فَذلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ [يوسف 32] یہ وہی ہے جس گے بارے میں تم ۔ مجھے طعنے دیتی تھیں ۔ وَلا يَخافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ [ المائدة 54] اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں ۔ اور ملوم ( ملامت کیا ہوا ) صفت مفعولی ۔ ہے اور آیت کریمہ : فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ [ المؤمنون 6] ان سے مباشرت کرنے میں انہیں ملامت نہیں ہے ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ جب ان پر ملامت ہی نہیں ہے ۔ تو اس سے زیادہ سرزنش کے وہ بالاولےٰ مستحق نہیں ہیں ۔
آیت ٣٠ فَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَلَاوَمُوْنَ ۔ ” پھر وہ آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے۔ “- اب وہ اپنی گمراہی اور شومئی قسمت کی ذمہ داری آپس میں ایک دوسرے کے سر تھوپنے لگے۔
سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :18 یعنی ہر ایک نے دوسرے کو الزام دینا شروع کیا کہ اس کے بہکانے سے ہم اس خدا فراموشی اور بد نیتی میں مبتلا ہوئے ۔