Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 خلق عظیم سے مراد اسلام، دین یا قرآن ہے مطلب ہے کہ تو اس خلق پر ہے جس کا حکم اللہ نے تجھے قرآن میں یا دین میں دیا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥] آپ کا خلق عظیم :۔ آپ کے اخلاق کی بلندی یہ تھی کہ آپ طعن وتشنیع کرنے والوں، تمسخر اڑانے والوں، ایذا پہنچانے والوں حتیٰ کہ پتھر مارنے والوں کے حق میں دعائے خیر ہی کرتے رہے۔ پھر ایسے ہی لوگوں کی ہدایت پر آپ اتنے حریص واقع ہوئے تھے کہ اپنی جان تک اس کام میں ہلکان کر رہے تھے۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں۔ کہ آپ نے کبھی کسی سے اپنی ذات کی خاطر انتقام نہیں لیا۔ پھر جب مکہ فتح ہوا، تو آپ کے سب جانی دشمن آپ کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں وہ بھی جنہوں نے آپ کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا اور آپ کی جان کی قیمت لگا دی تھی، پھر کئی بار چڑھ کر مدینہ آتے رہے تاکہ اسلام اور پیغمبر اسلام کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردیں۔ اور اس وقت آپ ان سے بدلہ لینے کی قدرت و قوت بھی رکھتے تھے۔ لیکن جب آپ کے یہ دشمن آپ کو ملتجیانہ نظروں سے دیکھنے لگے تو آپ نے ایک ہی جملہ لاَ تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ۔ اذْھَبُوْا أنْتُمُ الطُّلَقَاء کہہ کر سب کو معاف فرما دیا۔ یعنی آج تم پر کوئی مؤاخذہ نہیں۔ جاؤ تم سب کے سب آزاد ہو یہ بلند اخلاقی تو آپ کی دشمنوں کے ساتھ تھی۔ آپ کا عام اخلاق یہ تھا کہ ایک بڑھیا آپ کی راہ روک کر آپ کو اپنی بات سنا لیتی تھی اور آپ برا نہ مانتے تھے۔ اس طرح آپ کے اخلاق کے بیشمار پہلو ہیں۔ جن سے کتب احادیث بھری پڑی ہیں۔ یہاں ان کا ذکر ناممکن ہے۔ چناچہ ایک دفعہ کسی نے سیدہ عائشہ (رض) سے پوچھا کہ آپ کا اخلاق کیا تھا ؟ تو آپ نے نہایت مختصر اور جامع جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ سارا قرآن ہی آپ کا اخلاق تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ ، اس میں رسول اللہ میں جو انسان کو عزت و شرف بخشتی ہیں مدی الدھر ان اللہ اقسم بالقلم کے اخلاق فاضلہ کاملہ میں غور کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے کہ دیوانو ذرا تو دیکھو کہیں مجنونوں دیوانوں کے ایسے اخلاق و اعمال ہوا کرتے ہیں۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خلق عظیم :۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ خلق عظیم سے مراد دین عظیم ہے کہ اللہ کے نزدیک اس دین اسلام سے زیادہ کوئی محبوب دین نہیں۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ آپ کا خلق خود قرآن ہی یعنی قرآن کریم جن اعلیٰ اعمال و اخلاق کی تعلیم دیتا ہے آپ ان سب کا عملی نمونہ ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ خلق عظیم سے مراد آداب القرآن ہیں یعنی وہ آداب جو قرآن نے سکھائے ہیں۔ حاصل سب کا تقریباً ایک ہی ہے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وجود باجود میں حق تعالیٰ نے تمام ہی اخلاق فاضلہ بدرجہ کمال جمع فرما دیئے تھے خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بعثت لاتمم مکارم الاخلاق یعنی مجھے اس کام کے لئے بھیجا گیا ہے کہ میں اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کروں (ابو حیان) - حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں نے دس سال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کی اس پوری مدت میں جو کام میں نے کیا آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ ایسا کیوں کیا اور جو کام نہیں کیا اس پر کبھی یہ نہیں فرمایا کہ یہ کام کیوں نہیں کیا (حالانکہ یہ ظاہر ہے کہ دس سال کی مدت میں خدمت کرنے والے کے بہت سے کام خلاف طبع ہوئے ہوں گے) (بخاری و مسلم) - اور حضرت انس فرماتے ہیں کہ آپ کے مکارم اخلاق کا یہ حالت ھا کہ مدینہ کی کوئی لونڈی باندی بھی آپ کا ہاتھ پکڑ کر جہاں لیجانا چاہے لیجا سکتی تھی (رواہ البخاری) - حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی اپنے ہاتھ سے کسیک و نہیں مارا بجز جہاد فی سبیل اللہ کے کہ اس میں کفار کو مارنا اور قتل کرنا ثابت ہے ورنہ آپ نے نہ کسی خادم کو نہ کسی عورت کو کبھی مارا، ان میں سے کسی سے خطا و لغزش بھی ہوئی تو اس کا انتقام نہیں لیا بجز اس کے کہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی ہوت و اس پر شرعی سزا جاری فرمائی (رواہ مسلم) - حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کبھی کسی چیز کا سوال نہیں کیا گیا جس کے جواب میں آپ نے نہیں فرمایا ہوصبخاری و مسلم) - اور حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فحش گو تھے نہ فحش کے پاس جاتے تھے نہ بازاروں میں شور و شغب کرتے تھے برائی کا بدلہ کبھی برائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ معافی اور درگزر کا معاملہ فرماتے تھے اور حضرت ابوالدردا فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میزان عمل میں خلق حسن کی برابر کسی عمل کا وزن نہیں ہوگا، اور اللہ تعالیٰ گالی گلوچ کرنے والے بدزبان سے بغض رکھتے ہیں (رواہ الترمذی وقال حیدث حسن صحیح) - اور ضحرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مسلمان اپنے حس خلق کی بدولت اس شخص کا درجہ حاصل کرلیتا ہے جو ہمیشہ رات کو عبادت میں جاگتا اور دن بھر روزہ رکھتا ہو (رواہ ابوداؤد) - اور حضرت معاذ نے فرمایا کہ مجھے یمن کا عامل مقرر کر کے بھیجنے کے وقت) آخری وصیت جو آپ نے مجھے اس وقت فرمائی جبکہ میں اپنا ایک پاؤں رکاب میں رکھ چکا تھا وہ یہ تھی یامعاذ احسن خلقک للناس۔ اے معاذ لوگوں سے حسن خلق کا برتاؤ کرو :۔ رواہ مالک) یہ سب روایات حدیث تفسیر مظہری سے نقل کی گئی ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ۝ ٤- خُلُق - [ والخلق يقال في معنی المخلوق، والخَلْقُ والخُلْقُ في الأصل واحد، کا لشّرب والشّرب، والصّرم والصّرم، لکن خصّ الخلق بالهيئات والأشكال والصّور المدرکة بالبصر، وخصّ الخلق بالقوی والسّجایا المدرکة بالبصیرة ] قال تعالی: وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ [ القلم 4] ، وقرئ : إِنْ هذا إِلَّا خُلُقُ الْأَوَّلِينَ- خلق اور خلق اصل میں دونوں ایک ہی ہیں جیسے شرب وشرب وصوم وصوم یعنی اس شکل و صورت پر بولا جاتا ہے جس کا تعلق ادراک بصر سے ہوتا ہے اور خلق کا لفظ قویٰ باطنہ عادات خصائل کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جن کا تعلق بصیرت سے ہے قرآن میں ہے :۔ وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ [ القلم 4] اور اخلاق تمہارے بہت ( عالی ) ہیں - عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤۔ ٦) اور آپ اللہ کے پاکیزہ مکرم دین پر ہیں یا یہ کہ آپ اخلاق حسنہ کے اعلی پیمانہ پر ہیں۔ نزول عذاب کے وقت عنقریب آپ دیکھ لیں اور یہ بھی دیکھ لیں گے کہ تم میں کون مجنون تھا۔- شان نزول : وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ (الخ)- ابو نعیم نے دلائل میں اور واحدی نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم سے بڑھ کر کوئی بلند اخلاق نہیں تھا آپ اپنے ساتھیوں اور گھر والوں میں سے جس کو پکارتے تھے تو وہ آپ کی پکار پر لبیک کہتا تھا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ۔ ” اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقینا اخلاق کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہیں۔ “- آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اخلاق اور کردار کے بلند ترین معیار کے باعث پہلے سے ہی معراجِ انسانیت کے مقام پر فائز تھے ‘ جبکہ اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معراجِ نبوت و رسالت کے سفر کا آغاز کر رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :4 اس مقام پر یہ فقرہ دو معنی دے رہا ہے ۔ ایک یہ کہ آپ اخلاق کے بہت بلند مرتبے پر فائز ہیں اسی وجہ سے آپ ہدایت خلق کے کام میں یہ اذیتیں برداشت کر رہے ہیں ورنہ ایک کمزور اخلاق کا انسان یہ کام نہیں کر سکتا تھا ۔ دوسرے یہ کہ قرآن کے علاوہ آپ کے بلند اخلاق بھی اس بات کا صریح ثبوت ہیں کہ کفار آپ پر دیوانگی کی جو تہمت رکھ رہے ہیں وہ سراسر جھوٹی ہے ، کیونکہ اخلاق کی بلندی اور دیوانگی ، دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں ۔ دیوانہ وہ شخص ہوتا ہے جس کا ذہنی توازن بگڑا ہوا ہو اور جس کے مزاج میں اعتدال باقی نہ رہا ہو ۔ اس کے برعکس آدمی کے بلند اخلاق اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ وہ نہایت صحیح الدماغ اور سلیم الفطرت ہے اور اس کا ذہن اور مزاج غایت درجہ متوازن ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق جیسے کچھ تھے ۔ اہل مکہ ان سے ناواقف نہ تھے ۔ اس لیے ان کی طرف محض اشارہ کر دینا ہی اس بات کے لیے کافی تھا کہ مکہ کا ہر معقول آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ وہ لوگ کس قدر بے شرم ہیں جو ایسے بلند اخلاق آدمی کو مجنون کہہ رہے ہیں ۔ ان کی یہ بیہودگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےلیے نہیں بلکہ خود ان کے لیے نقصان دہ تھی کہ مخالفت کے جوش میں پاگل ہو کر وہ آپ کے متعلق ایسی بات کہہ رہے تھے جسے کوئی ذی فہم آدمی قابل تصور نہ مان سکتا تھا ۔ یہی معاملہ ان مدعیان علم و تحقیق کا بھی ہے جو اس زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مرگی اور جنون کی تہمت رکھ رہے ہیں ۔ قرآن پاک دنیا میں ہر جگہ مل سکتا ہے ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بھی اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ لکھی ہوئی موجود ہے ۔ ہر شخص خود دیکھ سکتا ہے کہ جو لوگ اس بے مثل کتاب کے پیش کرنے والے اور ایسے بلند اخلاق رکھنے والے انسان کو ذہنی مریض قرار دیتے ہیں وہ عداوت کے اندھے جذبے سے مغلوب ہو کر کیسی لغو بات کہہ رہے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی بہترین تعریف حضرت عائشہ نے اپنے اس قول میں فرمائی ہے کہ کان خلقہ القران ۔ قرآن آپ کا اخلاق تھا ۔ امام احمد ، مسلم ، ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی اور ابن جریر نے تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ ان کا یہ قول متعدد سندوں سے نقل کیا ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے محض قرآن کی تعلیم ہی پیش نہیں کی تھی بلکہ خود اس کا مجسم نمونہ بن کر دکھا دیا تھا ۔ جس چیز کا قرآن میں حکم دیا گیا آپ نے خود سب سے بڑھ کر اس پر عمل کیا ، جس چیز سے اس میں روکا گیا آپ نے خود سب سے زیادہ اس سے اجتناب فرمایا ، جن اخلاقی صفات کو اس میں فضلیت قرار دیا گیا سب سے بڑھ کر آپ کی ذات ان سے متصف تھی ، اور جن صفات کو اس میں ناپسند ٹھیرایا گیا سب سے زیادہ آپ ان سے پاک تھے ۔ ایک اور وایت میں حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی خادم کو نہیں مارا کبھی کسی عورت پر ہاتھ نہ اٹھایا ، جہاد فی سبیل اللہ کے سوا کبھی آپ نے اپنے ہاتھ سے کسی کو نہیں مارا ، اپنی ذات کے لیے کبھی کسی ایسی تکلیف کا انتقام نہیں لیا جو آپ کو پہنچائی گئی ہو الا یہ کہ اللہ کی حرمتوں کو توڑا گیا ہو اور آپ نے اللہ کی خاطر اس کا بدلہ لیا ہو ، اور آپ کا طریقہ یہ تھا کہ جب دو کاموں میں سے ایک کا آپ کو انتخاب کرنا ہوتا تو آپ آسان تر کام کو پسند فرماتے تھے ، الا کہ وہ گناہ ہو ، اور اگر کوئی کام گناہ ہوتا تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے تھے ( مسند احمد ) ۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ میں نے دس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ہے ۔ آپ نے کبھی میری کسی بات پر اف تک نہ کی ، کبھی میرے کسی کام پر یہ نہ فرمایا کہ تو نے یہ کیوں کیا اور کبھی کسی کام کے نہ کرنے پر یہ نہیں فرمایا کہ تو نے یہ کیوں نہ کیا ۔ ( بخاری و مسلم ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani