5۔ 1 یعنی جب حق واضح ہوجائے گا اور سارے پردے اٹھ جائیں گے اور یہ قیامت کے دن ہوگا بعض نے اسے جنگ بدر سے متعلق فرمایا ہے۔
فَسَتُبْصِرُ وَیُبْصِرُوْنَ ۔۔۔۔: آپ کے خلق عظیم کا تقاضا یہی ہے کہ ان کے مجنون کہنے اور دوسری تکلیف دہ باتوں پر صبر کریں۔” چند ہی “ سے مراد وہ موقع ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مختلف طریقوں سے مدد کی ، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ آخر کار آپکے جانی دشمن فوج در فوج آپ پر ایمان لا کر آپ کے جاں نثار دوست بن گئے اور جو مخالف رہے وہ بدر واحد اور خندق و فتح مکہ وغیرہ میں مردار ہوئے یا ذلیل و خوار ہوئے اور تمام جزیرۂ عرب پر اسلام کی حکومت قائم ہوگئی ۔ پھر قیامت تک آپ کی امت کے ہاتھوں ہونے والے فتوحات اور اسلام کی سر بلندی سے بھی واضح ہوگیا کہ پاگل کون تھا ؟ اس کے علاوہ ” جلد ہی “ سے مراد قیامت کا دن بھی ہے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام محمود پر تشریف فرما ہوں گے ، آپ کے ہاتھ میں ” لو اء الحمد “ ( حمد کا جھنڈا) ہوگا اور جب آپ حو ض پر اپنے امتیوں کو پانی پلا رہے ہوں گے اور آپ کو جھٹلانے والے مجرم جہنم کی طرف دھکیلے جائیں گے ، تب آپ بھی دیکھ لیں گے اور وہ بھی کہ دیوانہ کون ہے ؟
فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُوْنَ (عنقریب آپ بھی دیکھ لیں گے اور یہ کفار بھی دیکھ لیں گے تم میں کون مجنون ہے) مفتون اس جگہ بمعنے مجنون ہے۔ پچھلی آیات میں آپ کو مجنون کہنے والوں کے طعنہ کو دلائل سے رد کیا گیا تھا اس آیت نے پیش گوئی کے طور پر یہ بتلایا کہ یہ بات یوں ہی ڈھکی چھپی رہنے والی نہیں ہے قریب آنے والے وقت میں سب آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ معاذ اللہ آپ مجنون تھے یا آپ کو مجنون کہنے والے پاگل دیوانے تھے چناچہ تھوڑے ہی عرصہ میں یہ بات کھل کر دنیا کے سامنے آگئی اور انہیں مجنون کہنے والوں میں سے ہزاروں حلقہ بگوش اسلام ہو کر آپ کے اتباع و محبت کو سرمایہ سعادت سمجھنے لگے اور بہت سے اشقیاء جن کو توفیق نہیں ہوئی وہ دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہوئے۔
فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُوْنَ ٥ ۙ- بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔
آیت ٥ فَسَتُبْصِرُ وَیُبْصِرُوْنَ ۔ ” تو عنقریب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی دیکھ لیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے۔ “- یہ بڑا پیارا اور ناصحانہ انداز ہے۔ جیسے کوئی بڑا کسی چھوٹے کو سمجھاتا ہے کہ آپ مخالفانہ باتوں پر آزردہ نہ ہوں ‘ کچھ ہی دنوں کی بات ہے ‘ اصل حقیقت بہت جلد کھل کر سامنے آجائے گی ۔ پھر کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں رہے گا :