Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

50۔ 1 اس کا مطلب ہے کہ انہیں توانا اور تندرست کرنے کے بعد دوبارہ رسالت سے نواز کر انہیں اپنی قوم کی طرف بھیجا گیا، جیسا کہ (وَاَنْۢبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِّنْ يَّقْطِيْنٍ 146؀ۚ ) 37 ۔ الصافات :146) سے بھی واضح ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٧] یعنی ان کی نبوت کو بھی بحال کردیا گیا اور انہیں اسی قوم کی طرف دوبارہ بھیجا گیا جہاں سے وہ بھاگ کر چلے گئے تھے۔ آپ کا قصہ پہلے سورة یونس کی آیت نمبر ٩٨، سورة انبیاء کی آیت نمبر ٨٧، ٨٨ اور سورة صافات کی آیت نمبر ١٤٣ کے تحت گزر چکا ہے۔ وہ حواشی ملاحظہ کرلیے جائیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فاجتبہ ربہ فجعلہ من الصلحین : چنے ہوئے تو پہلے بھی تھے، اب ان کا مرتبہ اور بڑھا دیا اور انہیں اعلیٰ درجے کے نیک اور صالح بندوں میں داخل کردیا۔ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ماینبغی لعبد ان یقول انی خیر من یونس بن متی) (بخاری، الانبیاء ، باب قول اللہ تعالیٰ :(وان یونس …): ٣٣١٣)” کسی بندے کو لائق نہیں کہ وہ کہے میں یونس بن متی سے بہتر ہوں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاجْتَبٰىہُ رَبُّہٗ فَجَــعَلَہٗ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ۝ ٥٠- اجتباء - : الجمع علی طریق الاصطفاء . قال عزّ وجل : فَاجْتَباهُ رَبُّهُ [ القلم 50] ، وقال تعالی: وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف 203] ، أي : يقولون : هلّا جمعتها، تعریضا منهم بأنک تخترع هذه الآیات ولیست من اللہ . واجتباء اللہ العبد : تخصیصه إياه بفیض إلهيّ يتحصل له منه أنواع من النعم بلا سعي من العبد، وذلک للأنبیاء وبعض من يقاربهم من الصدیقین والشهداء، كما قال تعالی: وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف 6] ، فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم 50] ، وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام 87] ، وقوله تعالی: ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه 122] ، وقال عزّ وجل : يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری 13] ، وذلک نحو قوله تعالی: إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص 46] .- الاجتباء ( افتعال )- کے معنی انتخاب کے طور پر کسی چیز کو جمع کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف 203] اور جب تم ان کے پاس ( کچھ دنوں تک ) کوئی آیت نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ تم نے ( اپنی طرف سے ) کیوں نہیں بنائی ہیں کے معنی یہ ہوں گے کہ تم خد ہی ان کو تالیف کیوں نہیں کرلیتے دراصل کفار یہ جملہ طنزا کہتے تھے کہ یہ آیات اللہ کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ تم کود ہی اپنے طور بنالیتے ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ کا کسی بندہ کو جن لینا کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اسے اپنے فیض کے لئے برگزیدہ کرلیتا ہے جسے گونا گون نعمتیں جدو جہد کے بغیر حاصل ہوجاتی ہیں یہ انبیاء کے ساتھ خاص ہے اور صدیقوں اور شہدوں کے لئے جوان کئ قریب درجہ حاصل کرلیتے ہیں ۔ جیسا کہ یوسف کے متعلق فرمایا : ۔ وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف 6] اور اسی طرح خدا تمہیں برگزیدہ ( ممتاز ) کرے گا ۔ فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم 50] پھر پروردگار نے ان کو برگزیدہ کر کے نیکو کاروں میں کرلیا ۔ وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام 87] ان کو برگزیدہ بھی کیا تھا اور سیدھا رستہ بھی دکھا یا تھا ۔ ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه 122] پھر ان کے پروردگار نے ان کو نواز اتو ان پر مہر بانی سے توجہ فرمائی اور سیدھی راہ بتائی ۔ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری 13] جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کا برگزیدہ کرلیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے اسے اپنی طرف رستہ دکھا دیتا ہے اس احتیاء کو دوسرے مقام پر اخلاص سے تعبیر فرمایا ہے ۔ إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص 46] ہم نے ان کو ایک ( صفت ) خاص ( اخرت ) کے گھر کی یا سے ممتاز کیا تھا ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠ فَاجْتَبٰـٹـہُ رَبُّہٗ فَجَعَلَہٗ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ ۔ ” تو اس کے ربّ نے اس کو ُ چن لیا اور اسے پھر صالحین میں سے کردیا۔ “- حضرت یونس (علیہ السلام) کے ذکر کے حوالے سے یہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک فرمان بھی سن لیجیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (لَا تُفَضِّلُوْنِیْ عَلٰی یُوْنُسَ بْنِ مَتّٰی) (١) ” کہ مجھے یونس (علیہ السلام) ابن متیٰ پر بھی فضیلت نہ دو “۔ اس میں ان لوگوں کے لیے تنبیہہ ہے جو اپنا جوشِ خطابت اور زور قلم دوسرے انبیاء کرام پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فضیلت ثابت کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلاشبہ پوری نوع انسانی سے افضل اور سید الانبیاء والمرسلن ہیں۔ لیکن ع ” حاجت ِ مشاطہ ّنیست صورت دل آرام را “۔ آج پوری دنیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت کی قائل ہے۔ اس حقیقت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ آج ایک عیسائی دانشور مائیکل ہارٹ اپنی کتاب ” 100 “ میں یہ لکھنے پر مجبور ہے :- " . "- ” حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دنیا کی بااثر ترین شخصیات میں سرفہرست رکھنے کے میرے اس فیصلے پر کچھ قارئین کو حیرت ہوگی اور بعض اس پر سوال بھی اٹھائیں گے ‘ لیکن پوری انسانی تاریخ میں صرف اور صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی واحد شخص ہیں جو مذہبی اور سیکولر دونوں محاذوں پر پوری طرح کامیاب رہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani