51۔ 1 یعنی اگر تجھے اللہ کی حمائت و حفاظت نہ ہوتی تو کفار کی حاسدانہ نظروں سے نظر بد کا شکار ہوجانا یعنی ان کی نظر تمہیں لگ جاتی۔ چناچہ امام ابن کثیر نے یہ مفہوم بیان کیا، مذید لکھتے ہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نظر کا لگ جانا اور اس کا دوسروں پر، اللہ کے حکم سے، اثر انداز ہونا، حق ہے۔ جیسا کہ متعدد احادیث سے بھی ثابت ہے۔ چناچہ حدیث میں اس سے بچنے کے لیے دعائیں بھی بیان کی گئی ہیں اور یہ بھی تاکید کی گئی ہے کہ جب تمہیں کوئی چیز اچھی لگے تو ماشاء اللہ یا بارک اللہ کہا کرو تاکہ اسے نظر نہ لگے۔ یعنی حسد کے طور پر بھی اور اس غرض سے بھی کہ لوگ اس قرآن سے متاثر نہ ہوں بلکہ اس سے دور ہی رہیں آنکھوں کے ذریعے سے بھی یہ کفار نبی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے اور زبانوں سے بھی آپ کو دیوانہ کہہ کر ایذاء پہنچاتے اور آپ کے دل کو مجروح کرتے۔
[٢٨] یعنی جب آپ لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے ہیں تو وہ آپ کو یوں گھورنے لگتے ہیں اور آپ پر اپنی نظریں گاڑ کر ایسا مقناطیسی اثر ڈالنا چاہتے ہیں۔ جس سے آپ مرعوب ہو کر یہ کام چھوڑ دیں۔ پھر بڑی حقارت کے ساتھ دوسروں کو بتاتے ہیں کہ یہ تو دیوانہ آدمی ہے۔ وہ آپ کو دیوانہ اس لیے کہتے تھے کہ آپ ان کی عقل اور ان کے عقیدہ کے خلاف باتیں کرتے تھے۔ پھر صرف آپ کی قوم نے ہی آپ کو مجنون نہیں کہا بلکہ ہر رسول کو دیوانہ کہا جاتا رہا ہے۔ اور یہ دراصل قوم کے اپنے رسولوں کے خلاف معاندانہ رویہ کے اظہار کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک نبی اور ایک مجنون میں بنیادی فرق یہ ہے کہ نبی کی دعوت گو معاشرہ کی عقل اور دستور کے خلاف ہوتی ہے۔ تاہم وہ ہمیشہ اپنی ذات پر قائم رہتا، اس پر عمل کرکے دکھاتا اور اپنی پاکیزہ سیرت و کردار سے اپنی بات پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ جبکہ مجنون ان تینوں باتوں سے عاری ہوتا ہے۔
وان یکاد الذین کفروا لیزلقونک …: اس آیت میں ” ان “ اصل میں ” ان “ (نون مشدد کے ساتھ) تھا، کیونکہ بعد میں ” لیزلقونک “ پر لام آرہا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کفار کو اللہ تعالیٰ کی آیات سناتے اور بت پرستی کی مذمت کرتے تو وہ سخت غصے میں آکر آپ کو قہر کی نظر سے گھور گھور کر دیکھتے اور آپ کو دیوانہ قرار دیتے۔ سورة حج (٧٢) میں ہے کہ قریب ہے کہ وہ ہماری آیات پڑھنے والوں پر حملہ ہی کردیں۔” لیزلقونک “ ” ازلق یزلق “ (افعال) پھسلانا۔ اس کا معنی ” ہلاک کرنا “ بھی آتا ہے، کیونکہ پھسل کر گرنے سے آدمی ہلاک بھی ہوجاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کافر لوگ جب ذکر سنتے ہیں تو آپ کو اتنے غصے اور اتنی تیز نظروں سے گھور گھور کر دیکھتے ہیں جیسے آپ کو آپ کے موقف ہی سے پھسلا دیں گے۔ دوسرا معنی ہے جیسے آپ کو ہلاک ہی کردیں گے۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح کہا جاتا ہے، فلاں شخص نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے مجھے کھا ہی جائے گا۔- بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ بعض قبیلے ایسے تھے کہ جن کی نظر بہت جلد لگ جاتی تھی، اس لئے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بری نظروں سے دیکھتے تھے، تاکہ آپ کو نظر لگ جائے۔ اگرچہ نظر کا حق ہونا صحیح احادیث سے ثابت ہے، لیکن یہاں اس تفسیر کا موقع نہیں، کیونکہ اگر کوئی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر دیکھے تو نظر لگا کرتی ہے، غصے کی نظر سے نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آیت میں ان کے دیکھنے کو ” لما سمعوا الذکر “ سے مقید کیا ہے، یعنی جب وہ ذکر سنتے ہیں تو آپ کو ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ایسے غصے کے وقت نظر لگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور وہ روایتیں بھی مضبوط نہیں ہیں۔ (کذا قال صاحب احسن التفاسیر و ابن الجوزی فی زاد المسیر)
وَاِنْ يَّكَادُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَيُزْلِقُوْنَكَ بِاَبْصَارِهِمْ ۔ لیزلقونک ازلاق سے مشتق ہے جس کے معنی لغزش دینے اور گرا دینے کے ہیں (راغب) مطلب یہ ہے کہ کفار مکہ آپ کو غضبناک اور ترچھی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کو اپنی جگہ اور مقام سے لغزش دیدیں جبکہ وہ اللہ کا کلام سنتے ہیں اور کہنے لگتے ہیں کہ یہ تو مجنون ہے ۘوَمَا هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ حالانکہ یہ کلام تو تمام جہان والوں کے لئے ذکر و نصیحت اور ان کی صلاح و فلاح کا ضامن ہے ایسے کلام والا کہیں مجنوں کہا جاسکتا ہے۔ کفار کے جس طعنہ کا اس سورة کے شروع میں جواب دیا گیا تھا ختم سورة پر اسی کا ایک دوسرے انداز سے جواب دیدیا گیا۔- اور امام بغوی وغیرہ مفسرین نے ان آیات کا ایک خاص واقعہ نقل کیا ہے کہ انسان کی نظر بد لگ جانا اور اس سے کسی انسان کو نقصان اور بیماری بلکہ ہلاکت تک پہنچ جانا، جیسا کہ حقیقت ہے اور احادیث صحیحہ میں اس کا حق ہونا وارد ہے عرب میں بھی معروف و مشہور تھا اور مکہ میں ایک شخص نظر لگانے میں بڑا مشہور تھا اونٹوں یا جانوروں کو نظر لگا دیتا تو وہ فوراً مر جاتے تھے۔ کفار مکہ کو رسو اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عداوت تو تھی ہی اور ہر طحر کی کوشش آپ کو قتلک رنے اور ایذا پہنچانے کی کیا کرتے تھے ان کو یہ سوجھی کہ اس شخص سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نظر لگواؤ اور اس کو بلا لائے اس نے نظر بد لگانے کی اپنی پوری کوشش کرلی مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی یہ آیات اسی سلسلے میں نازل ہوئیں اور لیزلقونک بابصارھم میں اسی نگاہ بدلگانے کو بیان فرمایا گیا ہے۔- فائدہ :۔ حضرت حسن بصری سے منقول ہے کہ جس شخص کو نظر بد کسی انسان کی لگ گئی ہو اس پر یہ آیات پڑھ کر دم کردینا اس کے اثر کو زائل کردیتا ہے۔ یہ آیات وَاِنْ يَّكَادُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سے آخرت سورت تک ہیں۔ (مظہری) - تمت سورة القلم بحمد اللہ یوم الاحد لست مضین من رجب 1391 ھ
وَاِنْ يَّكَادُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَيُزْلِقُوْنَكَ بِاَبْصَارِہِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُوْلُوْنَ اِنَّہٗ لَمَجْنُوْنٌ ٥١ ۘ- كَادَ- ووُضِعَ «كَادَ» لمقاربة الفعل، يقال : كَادَ يفعل : إذا لم يكن قد فعل، وإذا کان معه حرف نفي يكون لما قد وقع، ويكون قریبا من أن لا يكون . نحو قوله تعالی: لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء 74] ، وَإِنْ كادُوا[ الإسراء 73] ، تَكادُ السَّماواتُ- [ مریم 90] ، يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة 20] ، يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج 72] ، إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات 56] ولا فرق بين أن يكون حرف النّفي متقدما عليه أو متأخّرا عنه . نحو : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة 71] ، لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء 78] . وقلّما يستعمل في كاد أن إلا في ضرورة الشّعر «1» . قال - قد كَادَ من طول البلی أن يمصحا«2» أي : يمضي ويدرس .- ( ک و د ) کاد - ( س ) فعل مقارب ہے یعنی کسی فعل کے قریب الوقوع ہون کو بیان کرنے کے لئے آتا ہے مثلا کا دیفعل قریب تھا وہ اس کا م کو گزرتا یعنی کرنے والا تھا مگر کیا نہیں قرآن میں لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء 74] تو تم کسی قدر ان کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے ۔ وَإِنْ كادُوا[ الإسراء 73] قریب تھا کہ یہ ( کافر) لگ تم اس سے بچلا دیں ۔ تَكادُ السَّماواتُ [ مریم 90] قریب ہے کہ ( اس فتنہ ) سے آسمان پھٹ پڑیں ۔ ؛ يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة 20] قریب ہے ک کہ بجلی کی چمک ان کی آنکھوں کی بصاحب کو اچک لے جائے ۔ يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج 72] قریب ہوتے ہیں کہ ان پر حملہ کردیں إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات 56] تو تو مجھے ہلا ہی کرچکا تھا ۔ اور اگر ا ن کے ساتھ حرف نفی آجائے تو اثباتی حالت کے برعکدس فعل وقوع کو بیان کرنے کیلئے آتا ہے جو قوع کے قریب نہ ہوا اور حروف نفی اس پر مقدم ہو یا متاخر دونوں صورتوں میں ایک ہی معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة 71] اور وہ ا یسا کرنے والے تھے نہیں ۔ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء 78] کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اور کاد کے بعد ا ان کا استعمال صرف ضرورت شعری کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 387 ) قد کاد من طول البلیٰ ان یمصحا قریب تھا کہ زیادہ بوسیدہ گی کے باعث وہ سٹ جائے - - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- زلق - الزَّلَقُ والزّلل متقاربان، قال : صَعِيداً زَلَقاً [ الكهف 40] ، أي : دحضا لا نبات فيه، نحو قوله : فَتَرَكَهُ صَلْداً [ البقرة 264] ، والْمَزْلَقُ : المکان الدّحض . قال : لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصارِهِمْ [ القلم 51] ، وذلک کقول الشاعر : نظرا يزيل مواضع الأقدام ويقال : زَلقَهُ وأَزْلَقَهُ فَزَلقَ ، قال يونس : لم يسمع الزَّلقُ والْإِزْلَاقُ إلّا في القرآن، وروي أنّ أبيّ بن کعب قرأ : ( وأَزْلَقْنَا ثمّ الآخرین) أي : أهلكنا .- ( ز ل ق ) زلق - اور زلل تقریبا ہم معنی ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ صَعِيداً زَلَقاً [ الكهف 40] صاف میدان یعنی چکنی زمین جس میں کوئی سبزہ نہ ہو جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ۔ فَتَرَكَهُ صَلْداً [ البقرة 264] اسے سپاٹ کر ( کے بہہ بہا ) گیا ۔ المزق پھسلنے کی جگہ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصارِهِمْ [ القلم 51] اپنی نظروں سے ( گھور کر ) تجھے تیرے مکان سے پھسلا دیں ۔ میں ابصار کے متعلق زلق کا لفظ مجازا استعمال ہوا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( الکامل ) نظرا يزيل مواضع الأقدامایسی نظر جو قدموں کو ان کی جگہ سے پھسلا دے ۔ کہا جاتا ہے زلقہ وازلقہ اسے پھسلایا فزیق چناچہ پھسل گیا ۔ یونس لغوی کا قول ہے کہ زلق اور ازلاق کا یہ محاورہ صرف قرآن پاک میں استعمال ہوا ہے اور ابی بن کعب نے وأَزْلَفنَا ثمّ الآخرین میں ازلفنا ( قاف کے ساتھ ) پڑھا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے وہاں دوسرے لوگوں کو لا کر ہلاک کر ڈالا ۔- بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ - لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] ، وقوله :- هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] ، أي :- شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] ، أي : الکتب المتقدّمة .- وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه .- وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) .- ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ- [ الكهف 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] ، وقوله :- فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته،- ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔- جُنون - : حائل بين النفس والعقل، وجُنَّ فلان قيل : أصابه الجن، وبني فعله کبناء الأدواء نحو : زکم ولقي «1» وحمّ ، وقیل : أصيب جنانه، وقیل : حيل بين نفسه وعقله، فجن عقله بذلک وقوله تعالی: مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ [ الدخان 14] ، أي : ضامّة من يعلمه من الجن، وکذلک قوله تعالی: أَإِنَّا لَتارِكُوا آلِهَتِنا لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات 36]- جنون - ( ایضا ) جنوں ۔ دیونگی ۔ قرآن میں سے : ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ 46] کہ ان کے - رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی طرح کا بھی ) جنون ۔۔ نہیں ہے ۔ اور دیوانگی کو جنون اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کے دل اور عقل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔ جن فلان ۔ اسے جن لگ گیا ۔ امراض کے معانی میں دوسرے افعال کی طرح یہ بھی فعل مجہول ہی استعمال ہوتا ہے جیسے زکم ( اسے زکام ہوگیا ) لقی ( اے لقوہ ہوگیا ) حم ( اے بخار ہوگیا ) وغیرہ ۔ بعض نے کہا ہے جن فلان کے معنی ہیں ۔ اس کے قلب کو عارضہ ہوگیا اور بعض نے کہا کہ دیوانگی نے اس کی عقل کو چھپالیا اور آیت کریمہ :۔ - مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ [ الدخان 14] کے معنی ہیں کہ اسے وہ جن چمٹا ہوا ہے جو اسے تعلیم دیتا ہے اور یہی معنی آیت :۔ أَإِنَّا لَتارِكُوا آلِهَتِنا لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات 36] کو بھلاک ایک دیوانے شاعر کے کہنے سے کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ دینے والے ہیں ۔ میں شاعر مجنون کے ہیں ۔
(٥١۔ ٥٢) اور یہ کفار مکہ جب آپ سے قرآن کریم سنتے ہیں تو ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ گویا آپ کو اپنی نگاہوں سے پھسلا کر گرادیں گے نیز معاذ اللہ دشمنی میں آپ کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ مجنون ہیں حالانکہ یہ قرآن کریم جن و انس کے لیے نصیحت ہے۔
آیت ٥١ وَاِنْ یَّـکَادُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَـیُزْلِقُوْنَکَ بِاَبْصَارِہِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکْرَ ” اور یہ کافر تو ُ تلے ہوئے ہیں اس پر کہ اپنی نگاہوں کے زور سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پھسلا دیں گے جب وہ قرآن سنتے ہیں “- مشرکین ِمکہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوت ارادی کو توڑنے کے لیے ہر ممکن طریقہ آزمایا اور اس مقصد کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف ہر حربہ استعمال کیا۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ ایک مرحلے پر انہوں نے اس مقصد کے لیے ایسے عاملوں کی خدمات بھی حاصل کیں جو اپنی نگاہوں کی خصوصی طاقت کے ذریعے کسی کو نقصان پہنچانے کی اہلیت رکھتے تھے۔ شاید طبعی طور پر ایسا ممکن ہو ۔ ہوسکتا ہے کوئی شخص خصوصی مشقوں ( ) کے ذریعے اپنی آنکھوں میں اپنی قوت ارادی کو اس انداز میں مجتمع کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہو کہ اس کے بعد جب وہ کسی دوسرے شخص کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھے تو وہ اس کی نظروں کی تاب نہ لاسکے۔ بہرحال اس آیت میں مشرکین مکہ کے ایسے ہی اوچھے ہتھکنڈوں کا ذکر ہے۔ - وَیَـقُوْلُوْنَ اِنَّـہٗ لَمَجْنُوْنٌ ۔ ” اور کہتے ہیں کہ یہ تو دیوانہ ہے۔ “- سورت کے آغاز اور اختتام کا باہمی ربط نوٹ کیجیے ۔ جس مضمون سے سورت کا آغاز ہوا تھا اسی پر اس کا اختتام ہو رہا ہے۔ کفار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجنون کہتے تھے۔ ان کے اس الزام کی تردید سورت کے ابتدا میں بھی کی گئی اور آخر میں بھی۔ پھر یہاں یہ نکتہ بھی سمجھ میں آجاتا ہے کہ اس سورت کے آغاز میں حرف نٓ کیوں آیا ہے۔ دراصل ن کے معنی ” مچھلی “ کے ہیں ‘ جیسا کہ سورة ا الانبیاء کی آیت ٨٧ میں حضرت یونس (علیہ السلام) کا ذکر ذوالنُّون (مچھلی والے) کے لقب سے کیا گیا ہے۔ چناچہ حرف ن کا معنوی ربط سورت کی ان اختتامی آیات کے ساتھ ہے جن میں صَاحِب الْحُوت (حضرت یونس (علیہ السلام) کا ذکر آیا ہے۔
سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :35 یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم اردو میں کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے اسے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے اس کو کھا جائے گا ۔ کفار مکہ کے اس جذبہ غیظ و غضب کی کیفیت سورۃ بنی اسرائیل ، آیات 73 تا 77 میں بھی بیان ہوئی ہے ۔