52۔ 1 جب واقعہ یہ ہے کہ یہ قرآن جن و انس کی ہدایت و رہنمائی کے لئے آیا ہے تو پھر اس کو لانے والا اور بیان کرنے والا مجنون (دیوانہ) کس طرح ہوسکتا ہے ؟
[٢٩] یعنی جو قرآن تم انہیں پڑھ کر سنا رہے ہو نہ اس میں کوئی دیوانگی کی بات ہے اور نہ آپ میں ہے۔ بلکہ یہ کتاب تو تمام اہل عالم کی ہدایت کے لیے نازل کی جارہی ہے۔ اس سے بنی نوع انسان کی کایا پلٹ اصلاح ہوگی۔ عنقریب یہ کتاب معاشرہ میں انقلاب بپا کردے گی۔ اس وقت سب کو معلوم ہوجائے گا کہ اصل دیوانے کون تھے ؟
وما ھو الا ذکر للعلمین : یعنی قرآن کی آیات میں تو وہ نصیحتیں ہیں جن کے اثر سے ایک دو نہیں بلکہ بیشمار جہان راہ راست پر آنے والے ہیں، ایسی نصیحت کے سنانے والے کو جو دیوانہ بتاتا ہے وہ خود دیوانہ ہے۔
وَمَا ہُوَاِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ ٥٢ ۧ- عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما وقال العالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] .- العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔
آیت ٥٢ وَمَا ہُوَ اِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ ۔ ” اور نہیں ہے وہ ‘ مگر ایک یاد دہانی تمام جہان والوں کے لیے۔ “- یہاں پر ھُوَکی ضمیر قرآن کے لیے بھی ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بھی۔ قرآن مجید کے ذکر (یاد دہانی اور نصیحت) ہونے کا تذکرہ تو قرآن میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے ‘ جبکہ اپنی ذات میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی قیامت تک کے لوگوں کے لیے یاد دہانی ہیں ‘ بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ذات میں مجسم قرآن ہیں۔ جیسا کہ حضرت عائشہ (رض) کا فرمان ہے : (کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنُ ) ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اخلاق قرآن ہی تو تھا۔ “- ] بعض مترجمین نے یہاں ” ذِکْر “ کا ترجمہ ” شرف “ بھی کیا ہے۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سارے جہانوں کے لیے وجہ عزو شرف ہیں۔ (مرتب) [