Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 یعنی یہ فعل کہ کافروں کو پانی میں غرق کردیا اور مومنوں کو کشتی میں سوار کرا کے بچا لیا تمہارے لیے اس کو عبرت و نصیحت بنادیں تاکہ تم اس سے نصیحت حاصل کرو اور اللہ کی نافرمانی سے بچو۔ یعنی سننے والے اسے سن کر یاد رکھیں اور وہ بھی اس سے عبرت پکڑیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩] طوفان نوح اور کشتی :۔ یعنی طوفان کا یہ حال تھا کہ پانی کی اتنی کثیر مقدار جمع ہوگئی تھی کہ پہاڑ تک اس طوفان میں ڈوب گئے تھے۔ اتنے مہیب طوفان کے مقابلہ میں ایک کشتی کی بھلا حقیقت ہی کیا تھی جو اس طوفان کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرسکتی۔ خصوصاً جب کہ اس میں سوار لوگوں کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ان کی منزل مقصود کس سمت کو ہے ؟ ظاہری اسباب پر انحصار کیا جائے تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ نہ اس کشتی کے بچنے کی کوئی صورت تھی اور نہ اس میں سوار انسانوں کی۔ یہ ہماری قدرت اور ہمارا احسان ہی تھا کہ اس کشتی کے ذریعہ ہم نے اپنے فرمانبرداروں کو بچا لیا اور لوگوں کو اپنی قدرت و حکمت کا ایسا کرشمہ دکھا دیا کہ رہتی دنیا تک لوگ اس واقعہ کو یاد رکھیں۔- [١٠] یعنی وہ لوگ جو کوئی بات سن کر سنی ان سنی نہیں کردیتے۔ بلکہ اس میں غور کرتے، اس سے عبرت حاصل کرتے، پھر اسے یاد بھی رکھتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لنجعلھا لکم تذکرۃ :” لنجعلھا “ میں ” ھا “ ضمیر اس واقعہ کی طرف جا رہی ہے، یعنی ” تاکہ ہم اس واقعہ کو تمہارے لئے ایک نصیحت اور یادگار بنادیں۔ “ نوح (علیہ السلام) کی قوم کا یہ واقعہ پشت در پشت نقل ہو کر آرہا تھا اور عرب کے لوگ اچھی طرح اس سے واقف تھے۔ بعض مفسرین نے اس ضمیر ” ھا “ سے مراد ” الجاریۃ “ (کشتی) بھی لیا ہے، مگر اس کے بعد آنے والے الفاظ ” وتعیھا اذن واعیۃ “ (اور اسے یاد رکھنے والا کان یاد رکھے) سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ضمیر سے مراد ” واقعہ “ ہے، کیونکہ ” وعی یعی “ کا معنی سوچ سمجھ کر سننا اور یاد رکھنا ہوتا ہے۔ ” اذن “ (کان) سے مراد کانوں والے انسان ہیں جو واقعہ کو سنیں تو اس سے عبرت پکڑیں کہ آخرت کے انکار اور اللہ کے رسولوں کو جھٹلانے کا انجام کتنا ہولناک ہوتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لِنَجْعَلَہَا لَكُمْ تَذْكِرَۃً وَّتَعِيَہَآ اُذُنٌ وَّاعِيَۃٌ۝ ١٢- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- تَّذْكِرَةُ- : ما يتذكّر به الشیء، وهو أعمّ من الدّلالة والأمارة، قال تعالی: فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر 49] ، كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس 11] ، أي : القرآن . وذَكَّرْتُهُ - التذکرۃ - جس کے ذریعہ کسی چیز کو یاد لایا جائے اور یہ دلالت اور امارت سے اعم ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر 49] ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے روگرداں ہورہے ہیں ۔ كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس 11] دیکھو یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ۔ مراد قرآن پاک ہے ۔ ذَكَّرْتُهُ كذا - وعی - الوَعْيُ : حفظ الحدیث ونحوه . يقال : وَعَيْتُهُ في نفسه . قال تعالی: لِنَجْعَلَها لَكُمْ تَذْكِرَةً وَتَعِيَها أُذُنٌ واعِيَةٌ [ الحاقة 12] .- والإِيعَاءُ :- حفظ الأمتعة في الوِعَاءِ. قال تعالی: وَجَمَعَ فَأَوْعى[ المعارج 18] قال الشاعر :- وقال تعالی: فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَها مِنْ وِعاءِ أَخِيهِ [يوسف 76]- ( و ع ی ) الوعی - ( ض ) کے معنی ( عموما ) بات وغیر کو یاد کرلینا کے ہوتے ہیں جیسے وعیتہ فی نفسی میں نے اسے یاد کرلیا قرآن میں ہے : ۔ لِنَجْعَلَها لَكُمْ تَذْكِرَةً وَتَعِيَها أُذُنٌ واعِيَةٌ [ الحاقة 12] تاکہ اس کو تمہارے لئے یاد گار بنائیں اور یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں ۔ - الایعاء ( افعال )- کے معنی سازو و سامان کو وعاء ظرف میں محفوظ کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ - وَجَمَعَ فَأَوْعى[ المعارج 18] مال جمع کیا اور بند رکھا - الوعاء - کے معنی بوری یا تھیلا کے ہیں جس میں دوسری چیزیں اکٹھی کرکے رکھی جائیں جمع اوعیۃ آتی ہے قرآن میں ہے : فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَها مِنْ وِعاءِ أَخِيهِ [يوسف 76] پھر یوسف نے ا پنے بھائی کے شلیتے سے پہلے ان کے شلیتوں کو دیکھنا شرو ع کیا پھر اپنے بھائی کے شلیتے میں سے اس کو نکال لیا ۔ - أذن (کان)- الأذن : الجارحة، وشبّه به من حيث الحلقة أذن القدر وغیرها، ويستعار لمن کثر استماعه وقوله لما يسمع، قال تعالی: وَيَقُولُونَ : هُوَ أُذُنٌ قُلْ : أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ [ التوبة 61] أي :- استماعه لما يعود بخیرٍ لكم، وقوله تعالی: وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام 25] إشارة إلى جهلهم لا إلى عدم سمعهم .- ( اذ ن) الاذن کے معنی کان کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر ہنڈیا کی کو روں کو اذن القدر کہا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر ہر اس شخص پر اذن کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ جو ہر ایک کی بات سن کر اسے مان لیتا ہو ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ ( سورة التوبة 61) اور کہتے ہیں یہ شخص زا کان ہے ان سے ) کہدو کہ وہ کان ہے تو تمہاری بھلائی کے لئے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا ( سورة الأَنعام 25) اور انکے کانوں میں گرانی پیدا کردی ہے ۔ کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ بہرے ہوگئے ہیں بلکہ اس سے انکی جہالت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ لِنَجْعَلَہَا لَکُمْ تَذْکِرَۃً وَّتَعِیَہَآ اُذُنٌ وَّاعِیَۃٌ ۔ ” تاکہ ہم اس کو تمہارے لیے ایک یاددہانی بنا دیں اور وہ کان جو حفاظت کرنے والے ہیں اس کو پوری حفاظت سے یاد رکھیں۔ “- ان آیات میں ” التَّذْکِیر بایَّامِ اللّٰہ “ کا بیان تھا۔ اس کے بعد اب آخرت کا ذکر آ رہا ہے۔ ایک لحاظ سے تو یہ بھی اَیَّام اللّٰہ ہی کے تذکرے کا حصہ ہے ‘ کیونکہ وقت کی ڈور میں ایک طرف اگر گزشتہ اقوام کے عبرت ناک واقعات پروئے ہوئے ہیں تو اسی ڈور کا دوسرا سرا آخرت ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :9 یعنی وہ کان نہیں جو سنی ان سنی کر دیں اور جن کے پردے پر سے آواز چٹ کر گزر جائے ، بلکہ وہ لوگ جو اس واقعہ کو سن کر اسے یاد رکھیں ، اس سے عبرت حاصل کریں اور اس بات کو کبھی نہ بھولیں کہ آخرت کے انکار اور خدا کے رسول کی تکذیب کا انجام کیسا ہولناک ہوتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani