آواز کا بم صور اسرافیل قیامت کی ہولناکیوں کا بیان ہو رہا ہے جس میں سب سے پہلے گھبراہٹ پیدا کرنے والی چیز صور کا پھونکا جانا ہو گا جس سے سب کے دل ہل جائیں گے پھر نفخہ پھونکا جائے گا جس سے تمام زمین و آسمان کی مخلوق بیہوش ہو جائے گی مگر جسے اللہ چاہے پھر صور پھونکا جائے گا جس کی آواز سے تمام مخلوق اپنے رب کے سامنے کھڑی ہو جائے گی یہاں اسی پہلے نفخہ کا بیان ہے ۔ یہاں بطور تاکید کے یہ بھی فرمایا کہ یہ اٹھ کھڑے ہونے کا نفخہ ایک ہی ہے اس لئے کہ جب اللہ کا حکم ہو گیا پھر نہ تو اس کا خلاف ہو سکتا ہے نہ وہ ٹل سکتا ہے نہ دوبارہ فرمان کی ضرورت ہے اور نہ تاکید کی ، امام ربیع فرماتے ہیں اس سے مراد آخری نفخہ ہے لیکن ظاہر قول وہی ہے جو ہم نے کہا ، اسی لئے یہاں اس کے ساتھ ہی فرمایا کہ زمین و آسمان اٹھا لئے جائیں گے اور کھال کی طرح پھیلا دیئے جائیں گے اور زمین بدل دی جائے گی اور قیامت واقع ہو جائے گی ۔ حضرت علی فرماتے ہیں آسمان ہر کھلنے کی جگہ سے پھٹ جائے گا ، جیسے سورہ نبا میں ہے آیت ( وَّفُتِحَتِ السَّمَاۗءُ فَكَانَتْ اَبْوَابًا 19ۙ ) 78- النبأ:19 ) یعنی آسمان کھول دیا جائے گا اور اس میں دروازے کھول دیے جائیں گے ، ابن عباس فرماتے ہیں آسمان میں سوراخ اور غاریں پڑ جائیں گی اور شق ہو جائے گی عرش اس کے سامنے ہو گا فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے جو کنارے اب تک ٹوٹے نہ ہوں گے اور دوازوں پر ہوں گے آسمان کی لمبائی میں پھیلے ہوئے ہوں گے اور زمین والوں کو دیکھ رہے ہوں گے ۔ پھر فرمایا قیامت والے دن آٹھ فرشتے اللہ تعالیٰ کا عرش اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے ، پس یا تو مراد عرش عظیم کا اٹھانا ہے یا اس عرش کا اٹھانا مراد ہے جس پر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کے فیصلوں کے لئے ہو گا واللہ اعلم بالصواب ۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ فرشتے پہاڑی بکروں کی صورت میں ہوں گے ، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کی آنکھ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا ایک سو سال کا راستہ ہے ، ابن ابی حاتم کی مرفوع حدیث میں ہے کہ مجھے اجازت دی گئی ہے کہ میں تمہیں عرش کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک کی نسبت خبر دوں کہ اس کی گردن اور کان کے نیچے کے لَو کے درمیان اتنا فاصلہ ہے کہ اڑنے والا پرندہ سات سو سال تک اڑتا چلا جائے ، اس کی اسناد بہت عمدہ ہے اور اس کے سب راوی ثقہ ہیں ، اسے امام ابو داؤد نے بھی اپنی سنن میں روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح فرمایا ، حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں اس سے مراد فرشتوں کی آٹھ صفیں ہیں اور بھی بہت سے بزرگوں سے یہ مروی ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اعلیٰ فرشتوں کے آٹھ حصے ہیں جن میں سے ہر ایک حصہ کی گنتی تمام انسانوں جنوں اور سب فرشتوں کے برابر ہے ۔ پھر فرمایا قیامت کے روز تم اس اللہ کے سامنے کئے جاؤ گے جو پوشیدہ کو اور ظاہر کو بخوبی جانتا ہے جس طرح کھلی سے کھلی چیز کا وہ عالم ہے اس طرح چھپی سے چھپی چیز کو بھی وہ جانتا ہے ، اسی لئے فرمایا تمہارا کوئی بھید اس روز چھپ نہ سکے گا ، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے لوگو اپنی جانوں کا حساب کر لو اس سے پہلے کہ تم سے حساب لیا جائے اور اپنے اعمال کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندازہ کر لو اس سے پہلے کہ ان اعمال کا وزن کیا جائے تاکہ کل قیامت والے دن تم پر آسانی ہو جس دن کو تمہارا پورا پورا حساب لیا جائے گا اور بڑی پیشی میں خود اللہ تعالیٰ جل شانہ کے سامنے تم پیش کر دیئے جاؤ گے ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت کے دن لوگ تین مرتبہ اللہ کے سامنے پیش کئے جائیں گے پہلی اور دوسری بار تو عذر معذرت اور جھگڑا بحث کرتے رہیں گے لیکن تیسری پیشی جو آخری ہو گی اس وقت نامہ اعمال اڑائے جائیں گے ، کسی کے دائیں ہاتھ میں آئے گا اور کسی کے بائیں ہاتھ میں ، یہ حدیث ابن ماجہ میں بھی ہے حضرت عبداللہ کے قول سے بھی یہی روایت ابن جریر میں مروی ہے اور حضرت قتادہ سے بھی اس جیسی روایت مرسل مروی ہے ۔
13۔ 1 مکذبین کا انجام بیان کرنے کے بعد اب بتلایا جارہا ہے کہ یہ الحاقہ کس طرح واقع ہوگی اسرافیل کی ایک ہی پھونک سے یہ برپا ہوجائے گی۔
فاذا نفخ فی الصور نفخۃ واحدۃ…: قرآن مجید میں بعض مقامات پر پہلے نفخہ کے وقت پیش آنے والے واقعات ذکر کئے گئے ہیں، بعض پر دوسرے نفخہ کے وقتا ور بعض مقامات پر انہیں اکٹھا ہی ذکر کردیا گیا ہے۔ ان آیات میں بھی پہلے نفخہ سے لے کر دوسرے نفخہ کے بعد تک کے حالات بیان ہوئے ہیں، زمین اور پہاڑوں کے ٹوٹنے کا سلسلہ تو پہلے نفخہ کے وقت کا ہے اور آسمان کا پھٹنا، فرشتوں کا اس کے کناروں پر ہونا، عرش الٰہی کو آٹھ فرشتوں کا اٹھائے ہوئے ہونا، اللہ تعالیٰ کا میدان محشر میں نزول فرمانا اور سب بندوں کا حساب کتاب کے لئے پیش کیا جانا، یہ سب کچھ دوسرے نفخہ کے بعد کا ہے۔
(آیت) فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ نَفْخَةٌ وَّاحِدَةٌ ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عمر کی مرفوع حدیث ہے کہ صور کوئی سینگ (کی شکل کی کوئی چیز) ہے جس میں قیامت کے روز پھونکا جائے گا۔- نفختہ واحدة سے مراد یہ ہے کہ یکبارگی اچانک یہ صورت کی آواز ہوگی اور ایک آواز مسلسل رہے گی یہاں تک کہ اس آواز سے سب مر جائیں گے۔ قرآن و سنت کی نصوص سے قیامت میں صور کے دو نفخے ہونا ثابت ہیں پہلے نفخہ کو نفخہ صعق کہا جاتا ہے جس کے متعلق قرآن کریم میں (آیت) فصعق من فی السموت ومن فی الارض ہے یعنی اس نفخہ سے تمام آسمان والے فرشتے اور زمین پر بسنے والے جن وانس اور تمام جانور بیہوش ہوجائیں گے (پھر اسی بیہوشی میں سب کو موت آجائے گی) دوسرے نفخہ کو نفخہ بعث کہا جاتا ہے بعث کے معنے اٹھنے کے ہیں اس نفخہ کے ذریعہ سب مردے پھر زندہ ہو کر کھڑے ہوجائیں گے جس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں ہے (آیت) ثم نفخ فیہ اخری فاذاھم قیام ینظرون، یعنی پھر صور دوبارہ پھونکا جائے گا جس سے اچانک سب کے سب مردے زندہ ہو کر کھڑے ہوجاویں گے اور دیکھنے لگیں گے۔- بعض روایات میں جو ان دونوں نفخوں سے پہلے ایک تیسرے نفخہ کا ذکر ہے جس کا نام نفخہ فزع بتلایا گیا ہے۔ مجموعہ روایات و نصوص میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلا نفخہ ہی ہے اسی کو ابتدا میں نفخہ فزع کہا گیا ہے اور انتہا میں وہی نفخہ صعق ہوجائے گا۔ (مظہری)
فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَۃٌ ١٣ ۙ- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- نفخ - النَّفْخُ : نَفْخُ الرِّيحِ في الشیءِّ. قال تعالی: يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه 102] ، وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف 99] ، ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر 68] ، وذلک نحو قوله : فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر 8] ومنه نَفْخُ الرُّوح في النَّشْأَة الأُولی، قال : وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي - [ الحجر 29]- ( ن ف خ ) النفخ - کے معنی کسی چیز میں پھونکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه 102] ، اور جس دن صور پھونکا جائیگا ۔ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف 99] اور جس وقت ) صؤر پھونکا جائے گا ۔ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر 68] پھر دوسری دفعہ پھونکا جائے گا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ اور اسی سے نفخ الروح ہے جس کے معنی اس دنیا میں کسی کے اندر روح پھونکنے کے ہیں چناچہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي[ الحجر 29] اور اس میں اپنی بےبہا چیز یعنی روح پھونک دوں ۔- صور - الصُّورَةُ : ما ينتقش به الأعيان، ويتميّز بها غيرها، وذلک ضربان : أحدهما محسوس يدركه الخاصّة والعامّة، بل يدركه الإنسان وكثير من الحیوان، كَصُورَةِ الإنسانِ والفرس، والحمار بالمعاینة، والثاني : معقول يدركه الخاصّة دون العامّة، کالصُّورَةِ التي اختصّ الإنسان بها من العقل، والرّويّة، والمعاني التي خصّ بها شيء بشیء، وإلى الصُّورَتَيْنِ أشار بقوله تعالی: ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف 11] ، وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر 64] ، وقال : فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار 8] ، يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحامِ [ آل عمران 6] ، وقال عليه السلام : «إنّ اللہ خلق آدم علی صُورَتِهِ» فَالصُّورَةُ أراد بها ما خصّ الإنسان بها من الهيئة المدرکة بالبصر والبصیرة، وبها فضّله علی كثير من خلقه، وإضافته إلى اللہ سبحانه علی سبیل الملک، لا علی سبیل البعضيّة والتّشبيه، تعالیٰ عن ذلك، وذلک علی سبیل التشریف له کقوله : بيت الله، وناقة الله، ونحو ذلك . قال تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل 87] ، فقد قيل : هو مثل قرن ينفخ فيه، فيجعل اللہ سبحانه ذلک سببا لعود الصُّوَرِ والأرواح إلى أجسامها، وروي في الخبر «أنّ الصُّوَرَ فيه صُورَةُ الناس کلّهم» وقوله تعالی:- فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«أي : أَمِلْهُنَّ من الصَّوْرِ ، أي : المیل، وقیل : قَطِّعْهُنَّ صُورَةً صورة، وقرئ : صرهن وقیل : ذلک لغتان، يقال : صِرْتُهُ وصُرْتُهُ وقال بعضهم : صُرْهُنَّ ، أي : صِحْ بِهِنَّ ، وذکر الخلیل أنه يقال : عصفور صَوَّارٌ وهو المجیب إذا دعي، وذکر أبو بکر النّقاش أنه قرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) بضمّ الصّاد وتشدید الرّاء وفتحها من الصَّرِّ ، أي : الشّدّ ، وقرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) من الصَّرِيرِ ، أي : الصّوت، ومعناه : صِحْ بهنّ. والصَّوَارُ : القطیع من الغنم اعتبارا بالقطع، نحو : الصّرمة والقطیع، والفرقة، وسائر الجماعة المعتبر فيها معنی القطع .- ( ص و ر ) الصورۃ - : کسی عین یعنی مادی چیز کے ظاہر ی نشان اور خدوخال جس سے اسے پہچانا جاسکے اور دوسری چیزوں سے اس کا امتیاز ہوسکے یہ دو قسم پر ہیں ( 1) محسوس جن کا ہر خاص وعام ادراک کرسکتا ہو ۔ بلکہ انسان کے علاوہ بہت سے حیوانات بھی اس کا ادراک کرلیتے ہیں جیسے انسان فرس حمار وغیرہ کی صورتیں دیکھنے سے پہچانی جاسکتی ہیں ( 2 ) صؤرۃ عقلیہ جس کا ادارک خاص خاص لوگ ہی کرسکتے ہوں اور عوام کے فہم سے وہ بالا تر ہوں جیسے انسانی عقل وفکر کی شکل و صورت یا وہ معانی یعنی خاصے جو ایک چیز میں دوسری سے الگ پائے جاتے ہیں چناچہ صورت کے ان پر ہر دو معانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف 11] پھر تمہاری شکل و صورت بنائی : وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر 64] اور اس نے تمہاری صورتیں بنائیں اور صؤرتیں بھی نہایت حسین بنائیں ۔ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار 8] اور جس صورت میں چاہا تجھے جو ڑدیا ۔ جو ماں کے پیٹ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری صورتیں بناتا ہے ۔ اور حدیث ان اللہ خلق ادم علیٰ صؤرتہ کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اس کی خصوصی صورت پر تخلیق کیا ۔ میں صورت سے انسان کی وہ شکل اور ہیت مراد ہے جس کا بصرہ اور بصیرت دونوں سے ادارک ہوسکتا ہے اور جس کے ذریعہ انسان کو بہت سی مخلوق پر فضیلت حاصل ہے اور صورتہ میں اگر ہ ضمیر کا مرجع ذات باری تعالیٰ ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف لفظ صورت کی اضافت تشبیہ یا تبعیض کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ اضافت ملک یعنی ملحاض شرف کے ہے یعنی اس سے انسان کے شرف کو ظاہر کرنا مقصود ہے جیسا کہ بیت اللہ یا ناقۃ اللہ میں اضافت ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] میں روح کی اضافت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے اور آیت کریمہ وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل 87] جس روز صور پھونکا جائیگا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ صؤر سے قرآن یعنی نر سنگھے کی طرح کی کوئی چیز مراد ہے جس میں پھونکا جائیگا ۔ تو اس سے انسانی صورتیں اور روحیں ان کے اجسام کی طرف لوٹ آئیں گی ۔ ایک روایت میں ہے ۔ ان الصورفیہ صورۃ الناس کلھم) کہ صور کے اندر تمام لوگوں کی صورتیں موجود ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» میں صرھن کے معنی یہ ہیں کہ ان کو اپنی طرف مائل کرلو اور ہلالو اور یہ صور سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونے کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی پارہ پارہ کرنے کے ہیں ایک قرات میں صرھن ہے بعض کے نزدیک صرتہ وصرتہ دونوں ہم معنی ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ صرھن کے معنی ہیں انہیں چلا کر بلاؤ چناچہ خلیل نے کہا ہے کہ عصفور صؤار اس چڑیا کو کہتے ہیں جو بلانے والے کی آواز پر آجائے ابوبکر نقاش نے کہا ہے کہ اس میں ایک قرات فصرھن ضاد کے ضمہ اور مفتوحہ کے ساتھ بھی ہے یہ صر سے مشتق ہے اور معنی باندھنے کے ہیں اور ایک قرات میں فصرھن ہے جو صریربمعنی آواز سے مشتق ہے اور معنی یہ ہیں کہ انہیں بلند آواز دے کر بلاؤ اور قطع کرنے کی مناسبت سے بھیڑبکریوں کے گلہ کو صوار کہاجاتا ہے جیسا کہ صرمۃ قطیع اور فرقۃ وغیرہ الفاظ ہیں کہ قطع یعنی کاٹنے کے معنی کے اعتبار سے ان کا اطلاق جماعت پر ہوتا ہے ۔
(١٣۔ ١٤) اور پھر جب صور میں ایک ہی بار پھونک مار دی جائے گی یعنی نفخہ اولی ہوگا تو اس وقت زمین پر جو عمارتیں اور پہاڑ ہیں وہ اپنی جگہ سے اٹھائے جائیں گے پھر دونوں ایک ہی دفعہ میں ریزہ ریزہ کردیے جائیں گے۔
آیت ١٣ فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَۃٌ ۔ ” تو جب صور میں پھونکا جائے گا یکبارگی۔ “- یعنی اس وقت کو یاد رکھو جب ایک ہی بار صور میں پھونک مار دی جائے گی۔
سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :10 آگے آنے والی بات کو پڑھتے ہوئے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ قرآن مجید میں کہیں تو قیامت کے تین مراحل الگ الگ بیان کیے گئے ہیں جو یکے بعد دیگرے مختلف اوقات میں پیش آئیں گے ، اور کہیں سب کو سمیٹ کر پہلے مرحلے سے آخری مرحلے تک کے واقعات کو یکجا بیان کر دیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر سورہ نمل آیت 87 میں پہلے نفخ صور کا ذکر کیا گیا ہے جب تمام دنیا کے انسان یک لخت ایک ہولناک آواز سے گھبرا اٹھیں گے ۔ اس وقت نظام عالم کے درہم برہم ہونے کی وہ کیفیات ان کی آنکھوں کے سامنے پیش آئیں گی جو سورہ حج آیات 1 ۔ 2 ، سورہ یٰسین آیات 49 ۔ 50 اور سورہ تکویر آیات 1 ۔ 6 میں بیان ہوئی ہیں ۔ سورہ زمر آیات 67 تا 70 میں دوسرے اور تیسرے نفخ صور کے متعلق بتایا گیا ہے کہ ایک نفخ پر سب لوگ مر کر گر جائیں گے اور اس کے بعد جب پھر صور پھونکا جائے گا تو سب جی اٹھیں گے اور خدا کی عدالت میں پیش ہو جائیں گے ۔ سورہ طٰہٰ آیات 102 تا 112 ، سورہ انبیاء آیات 101 تا 103 ، سورہ یٰسین آیات 51 تا 53 ، اور سورہ ق آیات 20 تا 22 میں صرف تیسرے نفخ صور کا ذکر ہے ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ، طٰہٰ ، حاشیہ 78 ۔ الحج ، حاشیہ 1 ۔ جلد چہارم ، یٰسین ، حواشی 46 ۔ 47 ) ۔ لیکن یہاں اور بہت سے دوسرے مقامات پر قرآن میں پہلے نفخ صور سے لے کر جنت اور جہنم میں لوگوں کے داخل ہونے تک قیامت کے تمام واقعات کو ایک ہی سلسلے میں بیان کر دیا گیا ہے ۔