Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

دائیں ہاتھ اور نامہ اعمال یہاں بیان ہو رہا ہے کہ جو خوش نصیب لوگ قیامت کے دن اپنا نامہ اعمال اپنے دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے وہ سعادت مند حضرات بیحد خوش ہوں گے اور جوش مسرت میں بےساختہ ہر ایک سے کہتے پھریں گے کہ میرا نامہ اعمال تو پڑھو اور یہ اس لئے کہ جو گناہ بتقاضائے بشریت ان سے ہوگئے وہ بھی ان کی توبہ سے نامہ اعمال میں سے مٹا دیئے گئے ہیں اور نہ صرف مٹا دیئے گئے ہیں بلکہ ان کے بجائے نیکیاں لکھ دی گئی ہیں ، پس یہ سراسر نیکیوں کا نامہ اعمال ایک ایک کو پورے سرور اور سچی خوشی سے دکھاتے پھرتے ہیں ، عبدالرحمٰن بن زید فرماتے ہیں ( ھا ) کے بعد لفظ ( ؤم ) زیادہ ہے لیکن ظاہر بات یہ ہے کہ ( ھاؤم ) معنی میں ( ھاکم ) کے ہے ، حضرت ابو عثمان فرماتے ہیں کہ چپکے سے حجاب میں مومن کو اس کا نامہ اعمال دیا جاتا ہے جس میں اس کے گناہ لکھے ہوئے ہوتے ہیں یہ اسے پڑھتا ہے اور ہر ایک گناہ پر اس کے ہوش اڑ اڑ جاتے ہیں چہرے کی رنگت پھیکی پڑ جاتی ہے اتنے میں اب اس کی نگاہ اپنی نیکیوں پر پڑتی ہے جب انہیں پڑھنے لگتا ہے تب ذرا چین پڑتا ہے ہوش و حواس درست ہوتے ہیں اور چہرہ کھل جاتا ہے پھر نظریں جما کر پڑھتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کی برائیاں بھی بھلائیوں سے بدل دی گئی ہیں ہر برائی کی جگہ بھلائی لکھی ہوئی ہے ، اب تو اس کی باچھیں کھل جاتی ہیں اور خوشی خوشی نکل کھڑا ہوتا ہے اور جو ملتا ہے اس سے کہتا ہے ذرا میرا نامہ اعمال تو پڑھنا ، حضرت عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنہی فرشتوں نے ان کی شہادت کے بعد غسل دیا تھا ان کے لڑکے حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو قیامت والے دن اپنے سامنے کھڑا کرے گا اور اس کی برائیاں اس کے نامہ اعمال کی پشت پر لکھی ہوئی ہوں گی جو اس پر ظاہر کی جائیں گی اور اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ بتا کیا تو نے یہ اعمال کئے ہیں؟ وہ اقرار کرے گا کہ ہاں بیشک اللہ یہ برائیاں مجھ سے ہوئی ہیں اللہ تعالیٰ فرمائے گا دیکھ میں نے دنیا میں بھی تجھے رسوا نہیں کیا نہ فضیحت کیا اب یہاں بھی میں تجھ سے درگزر کرتا ہوں اور تیرے تمام گناہوں کو معاف کرتا ہوں ، جب یہ اس سے فارغ ہو گا تب اپنا نامہ اعمال لے کر خوشی سے ایک ایک کو دکھاتا پھرے گا ، حضرت ابن عمر والی صحیح حدیث پہلے بیان ہو چکی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندے کو اپنے پاس بلائے گا اور اس سے اس کے گناہوں کی بابت پوچھے گا کہ فلاں گناہ کیا ہے؟ فلاں گناہ کیا ؟ یہ اقرار کرے گا یہاں تک کہ سمجھ لے گا کہ اب ہلاک ہوا اس وقت جناب باری عز اسمہ فرمائے گا اے میرے بندے دنیا میں میں نے تیری ان برائیوں پر پردہ ڈال رکھا تھا اب آج تجھے کیا رسوا کروں جا میں نے تھے بخشا پھر اس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جاتا ہے جس میں صرف نیکیاں ہی نیکیاں ہوتی ہیں لکین کافروں اور منافقوں کے بارے میں تو گواہ پکار اٹھتے ہیں کہ یہ لوگ ہیں جنہوں نے اس کے بارے میں جھوٹ کہا لوگو سنو ان ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ داہنے ہاتھ کے نامہ اعمال والا کہتا ہے کہ مجھے تو دنیا میں ہی یقین کامل تھا کہ یہ حساب کا دن قطعاً آنے والا ہے ، جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوااللّٰهِ ۙ كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ ٢٤٩؁ ) 2- البقرة:249 ) یعنی انہیں یقین تھا کہ یہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں ۔ فرمایا ان کی جزا یہ ہے کہ یہ پسندیدہ اور دل خوش کن زندگی پائیں گے اور بلند و بالا بہشت میں رہیں گے ، جس کے محلات اونچے اونچے ہوں گے جن میں حوریں قبول صورت اور نیک سیرت ہونگی جو گھر نعمتوں کے بھرپور خزانے ہوں گے اور یہ تمام نعمتیں نہ ٹلنے والی نہ ختم ہونے والی بلکہ کمی سے بھی محفوظ ہوں گی ، ایک شیخ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اونچے نیچے مرتبے والے جنتی آپس میں ایک دوسرے سے ملاقاتیں بھی کریں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں بلند مرتبہ لوگ کم مرتبہ لوگوں کے پاس ملاقات کے لئے اتر آئیں گے اور خوب محبت و اخلاص سے سلام مصافحے اور آؤ بھگت ہو گی ہاں البتہ نیچے والے بہ سبب اپنے اعمال کی کمی کے اوپر نہ چڑھیں گے ، ایک اور صحیح حدیث میں ہے جنت میں ایک سو درجے ہیں ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان میں ۔ پھر فرماتا ہے اس کے پھل نیچے نیچے ہوں گے ، حضرت براء بن عازب وغیرہ فرماتے ہیں اس قدر جھکے ہوئے ہوں گے کہ جنتی اپنے چھپر کھٹ پر لیٹے ہی لیٹے ان میوؤں کو توڑ لیا کریں گے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر جنتی کو اللہ کی طرف سے ایک لکھا ہوا پروانہ ملے گا جس میں لکھا ہوا ہو گا ۔ حدیث ( بسم اللہ الرحمن الرحمیم ھذا کتاب من اللہ لفلان ابن فلان ادخلوہ جنتہ عالیتہ قطوفھا دانیتہ ) یعنی اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے شروع یہ پروانہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے فلاں شخص کے لئے جو فلاں کا بیٹا ہے اسے بلند و بالا جھکی ہوئی شاخوں اور لدے پھندے ہوئے خوشوں والی خوشگوار جنت میں جانے دو ( طبرانی ) بعض روایتوں میں ہے یہ پروانہ پل صراط پر حوالے کر دیا جائے گا ۔ پھر فرمایا نہیں بطور احسان اور مزید لطف و کرم کے زبانی بھی کھانے پینے کی رخصت مرحمت ہو گی اور کہا جائے گا کہ یہ تمہارے نیک اعمال کا بدلہ ہے ۔ اعمال کا بدلہ کہنا صرف بطور لطف کے ہے ورنہ صحیح حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں عمل کرتے جاؤ سیدھے اور قریب قریب رہو اور جان رکھو کہ صرف اعمال جنت میں لے جانے کے لئے کافی نہیں ۔ لوگ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال بھی نہیں؟ فرمایا میرے بھی ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت شامل حال ہو ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 یعنی جو اس کی سعادت، نجات اور کامیابی کی دلیل ہوگا۔ یعنی وہ مارے خوشی کے ہر ایک کو کہے گا کہ لو، میرا اعمال نامہ پڑھ لو میرا اعمال نامہ تو مجھے مل گیا، اس لئے کہ اسے پتہ ہوگا کہ اس میں اس کی نیکیاں ہی نیکیاں ہوں گی، کچھ برائیاں ہونگی تو اللہ نے معاف فرما دی ہونگی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٥] دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ ملنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی عدالت میں اس کا شمار اللہ کے فرمانبرداروں اور صالحین میں سے ہوگا۔ اور اس بات کی طرف واضح اشارات موت سے ہی ملنا شروع ہوجاتے ہیں۔ پھر جب اسے اس کے حساب کتاب کا رجسٹر دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا یا خود وہ دائیں ہاتھ سے وصول کرے گا تو اسے اس بات سے اتنی خوشی ہوگی کہ وہ پھولا نہ سمائے گا اور وہ دوسروں کو دعوت دے گا کہ ذرا میرا یہ اعمال نامہ تو دیکھو۔ مجھے اس امتحان میں کتنے اچھے نمبر ملے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فاما من اوتی کتبہ بیمینہ…:” ھآوم “ اس فعل ہے، ابن عطیہ نے فرمایا :” اس کا معنی ہے، آؤ “ زمخشری نے فرمایا :” ھآوم “ ایک آواز ہے جس سے ” خذ “ یعنی ” لو پکڑو “ کا مفہوم سمجھا جاتا ہے۔ “ (التسہیل)” کتبیہ “ اصتل میں ” کتابی “ ہے، اس میں ” ہ “ وقف کے لئے ہے، ضمیر نہیں ہے، جیسے ” ماھیہ “ میں ہے۔ (دیکھیے قارعہ : ١٠) ” حسابیۃ “ ، ” مالیہ “ اور ” سلطنیہ “ میں بھی ایسے ہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ ملے گا وہ اتنا خوش ہوگا کہ دوسروں کو بلا بلا کر دکھاتا پھرے گا، جیسے دنیا میں بھی انسان کو بڑی خوشی ملنے پر پکار پکار کر دوسروں کو اس میں شریک کرتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) هَاۗؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِيَهْ ۔ لفظ ھاؤم، خذو کے معنے میں ہے جمع کے لئے بولا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں آئے گا وہ خوشی کے مارے آس پاس کے لوگوں سے کہنے لگا گا کہ لو یہ میرا جس کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں آئے گا وہ خوشی کے مارے آس پاس کے لوگوں سے کہنے لگے گا کہ لو یہ میرا اعمال نامہ پڑھو۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَہٗ بِيَمِيْنِہٖ۝ ٠ ۙ فَيَقُوْلُ ہَاۗؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِيَہْ۝ ١٩ ۚ- «أمَّا»- و «أمَّا» حرف يقتضي معنی أحد الشيئين، ويكرّر نحو : أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ [يوسف 41] ، ويبتدأ بها الکلام نحو : أمّا بعد فإنه كذا . ( ا ما حرف ) اما ۔ یہ کبھی حرف تفصیل ہوتا ہے ) اور احد اشیئین کے معنی دیتا ہے اور کلام میں مکرر استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ ( سورة يوسف 41) تم میں سے ایک ( جو پہلا خواب بیان کرنے ولا ہے وہ ) تو اپنے آقا کو شراب پلایا کریگا اور جو دوسرا ہے وہ سونی دیا جائے گا ۔ اور کبھی ابتداء کلام کے لئے آتا ہے جیسے امابعد فانہ کذا ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247] .- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - يمین ( دائیں طرف)- اليَمِينُ : أصله الجارحة، واستعماله في وصف اللہ تعالیٰ في قوله : وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ- [ الزمر 67] علی حدّ استعمال الید فيه، و تخصیص اليَمِينِ في هذا المکان، والأرض بالقبضة حيث قال جلّ ذكره : وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] يختصّ بما بعد هذا الکتاب . وقوله :إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ- [ الصافات 28] أي : عن الناحية التي کان منها الحقّ ، فتصرفوننا عنها، وقوله : لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة 45] أي : منعناه ودفعناه . فعبّر عن ذلک الأخذ باليَمِينِ کقولک : خذ بِيَمِينِ فلانٍ عن تعاطي الهجاء، وقیل : معناه بأشرف جو ارحه وأشرف أحواله، وقوله جلّ ذكره : وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة 27] أي : أصحاب السّعادات والمَيَامِنِ ، وذلک علی حسب تعارف الناس في العبارة عن المَيَامِنِ باليَمِينِ ، وعن المشائم بالشّمال . واستعیر اليَمِينُ للتَّيَمُّنِ والسعادة، وعلی ذلک وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة 90- 91] ، وعلی هذا حمل :- 477-- إذا ما راية رفعت لمجد ... تلقّاها عرابة باليَمِين - ( ی م ن ) الیمین - کے اصل معنی دایاں ہاتھ یا دائیں جانب کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر 67] اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لیپٹے ہوں گے ۔ میں حق تعالیٰ کی طرف یمن نسبت مجازی ہے ۔ جیسا کہ ید وغیر ہا کے الفاظ باری تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوتے ہیں یہاں آسمان کے لئے یمین اور بعد میں آیت : ۔ وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی ۔ میں ارض کے متعلق قبضۃ کا لفظ لائے میں ایک باریک نکتہ کی طرف اشارہ ہے جو اس کتاب کے بعد بیان ہوگا اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات 28] تم ہی ہمارے پاس دائیں اور بائیں ) اسے آتے تھے ۔ میں یمین سے مراد جانب حق ہے یعنی تم جانب حق سے ہمیں پھیرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة 45] تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے ۔ میں دایاں ہاتھ پکڑ لینے سے مراد روک دینا ہے جیسے محاورہ ہے : ۔ یعنی فلاں کو ہجو سے روک دو ۔ بعض نے کہا ہے کہ انسان کا دینا ہاتھ چونکہ افضل ہے سمجھاجاتا ہے اسلئے یہ معنی ہو نگے کہ ہم بہتر سے بہتر حال میں بھی اسے با شرف اعضاء سے پکڑ کر منع کردیتے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة 27] اور دہنے ہاتھ والے ۔ میں دہنی سمت والوں سے مراد اہل سعادت ہیں کو ین کہ عرف میں میامن ( با برکت ) ) کو یمین اور مشاے م ( منحوس ) کو شمالی کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر یمین کا لفظ بر کت وسعادت کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة 90- 91] اگر وہ دائیں ہاتھ والوں یعنی اصحاب خیر وبر کت سے ہے تو کہا جائیگا تجھ پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام اور ایس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( 426 ) اذا ما رایۃ رفعت ملجد تلقا ھا عرا بۃ بالیمین جب کبھی فضل ومجد کے کاموں کے لئے جھنڈا بلند کیا جاتا ہے تو عرابۃ اسے خیر و برکت کے ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے - قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- ها - هَا للتنبيه في قولهم : هذا وهذه، وقد ركّب مع ذا وذه وأولاء حتی صار معها بمنزلة حرف منها، و (ها) في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ [ آل عمران 66] استفهام، قال تعالی: ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ [ آل عمران 66] ، ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران 119] ، هؤُلاءِ جادَلْتُمْ- [ النساء 109] ، ثُمَّ أَنْتُمْ هؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ [ البقرة 85] ، لا إِلى هؤُلاءِ وَلا إِلى هؤُلاءِ [ النساء 143] . و «هَا» كلمة في معنی الأخذ، وهو نقیض : هات . أي : أعط، يقال : هَاؤُمُ ، وهَاؤُمَا، وهَاؤُمُوا، وفيه لغة أخری: هَاءِ ، وهَاءَا، وهَاءُوا، وهَائِي، وهَأْنَ ، نحو : خَفْنَ وقیل : هَاكَ ، ثمّ يثنّى الکاف ويجمع ويؤنّث قال تعالی: هاؤُمُ اقْرَؤُا كِتابِيَهْ [ الحاقة 19] وقیل : هذه أسماء الأفعال، يقال : هَاءَ يَهَاءُ نحو : خاف يخاف، وقیل : هَاءَى يُهَائِي، مثل : نادی ينادي، وقیل : إِهَاءُ نحو : إخالُ. هُوَ : كناية عن اسم مذكّر، والأصل : الهاء، والواو زائدة صلة للضمیر، وتقوية له، لأنها الهاء التي في : ضربته، ومنهم من يقول : هُوَّ مثقّل، ومن العرب من يخفّف ويسكّن، فيقال : هُو .- ( ھا ) ھا ۔ یہ حرف تنبیہ ہے اور ذا ذہ اولاٰ اسم اشارہ کے شروع میں آتا ہے اور اس کے لئے بمنزلہ جز سمجھنا جاتا ہے مگر ھا انتم میں حرف ھا استہفام کے لئے ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ [ آل عمران 66] دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا ۔ ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران 119] دیکھو تم ایسے صاف دل لوگ ہو کہ ان لوگوں سے ودستی رکھتے ہو ۔ هؤُلاءِ جادَلْتُمْ [ النساء 109] بھلا تم لوگ ان کی طرف سے بحث کرلیتے ہو ۔ ثُمَّ أَنْتُمْ هؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ [ البقرة 85] پھر تم وہی ہو کہ اپنوں کو قتل بھی کردیتے ہو ۔ لا إِلى هؤُلاءِ وَلا إِلى هؤُلاءِ [ النساء 143] نہ ان کی طرف ( ہوتے ہو ) نہ ان کی طرف ۔ ھاءم ـ اسم فعل بمعنی خذ بھی آتا ہے اور ھات ( لام ) کی ضد ہے اور اس کی گردان یون ہے ۔ ھاؤم ھاؤم ۔ ھاؤموا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ هاؤُمُ اقْرَؤُا كِتابِيَهْ [ الحاقة 19] لیجئے اعمالنامہ پڑھئے اور اس میں ایک لغت بغیر میم کے بھی ہے ۔ جیسے : ۔ ھا ، ھا ، ھاؤا ھائی ھان کے بروزن خفن اور بعض اس کے آخر میں ک ضمیر کا اضافہ کر کے تنبیہ جمع اور تذکرو تانیث کے لئے ضمیر میں تبدیل کرتے ہیں جیسے ھاک ھاکما الخ اور بعض اسم فعل بنا کر اسے کھاؤ یھاء بروزن خاف یخاف کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک ھائی یھائی مثل نادٰی ینادی ہے اور بقول بعض متکلم مضارع کا صیغہ اھاء بروزن اخال آتا ہے ۔- قرأ - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] - ( ق ر ء) قرءت المرءۃ وقرءت الدم - ۔ القراءۃ کے معنی حروف وکلمات کو ترتیل میں جمع کرنے کے ہیں کیونکہ ایک حروت کے بولنے کو قراءت نہیں کہا جاتا ہے اور نہ یہ عام ہر چیز کے جمع کے کرنے پر بولاجاتا ہے ۔ لہذ ا اجمعت القوم کی بجاے قررءت القوم کہنا صحیح نہیں ہے ۔ القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔- کتابیہ - : کتبی مضاف مضاف الیہ۔ میری کتاب۔ میرا اعمال نامہ۔ ۃ، ھاء سکتہ ساکنہ جو عموما حالت وقف میں ماقبل کی حرکت کے اظہار کے لئے آتی ہے۔ کتبیہ اسم مفعول ہے اقرء وا کا۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :12 سیدھے ہاتھ میں نامہ اعمال کا دیا جانا ہی ظاہر کر دے گا کہ اس کا حساب بے باق ہے اور وہ اللہ تعالی کی عدالت میں مجرم کی حیثیت سے نہیں بلکہ صالح انسان کی حیثیت سے پیش ہو رہا ہے ۔ اغلب یہ ہے کہ اعمال ناموں کی تقسیم کے وقت صالح انسان خود سیدھا ہاتھ بڑھا کر اپنا نامہ اعمال لے گا ، کیونکہ موت کے وقت سے میدان حشر میں حاضری تک اس کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا ہو گا اس کی وجہ سے اس کو پہلے ہی یہ اطمینان حاصل ہو چکا ہو گا کہ میں یہاں انعام پانے کے لیے پیش ہو رہا ہوں نہ کہ سزا پانے کے لیے ۔ قرآن مجید میں یہ بات جگہ جگہ بڑی صراحت کے ساتھ بتائی گئی ہے کہ موت کے وقت ہی سے یہ بات انسان پر واضح ہو جاتی ہے کہ وہ نیک بخت آدمی کی حیثیت سے دوسرے عالم میں جا رہا ہے یا بد بخت آدمی کی حیثیت سے ۔ پھر موت سے قیامت تک نیک انسان کے ساتھ مہمان کا سا معاملہ ہوتا ہے اور بد انسان کے ساتھ حوالاتی مجرم کا سا ۔ اس کے بعد جب قیامت کے روز دوسری زندگی کا آغاز ہوتا ہے اسی وقت سے صالحین کی حالت و کیفیت کچھ اور ہوتی ہے اور کفار و منافقین اور مجرمین کی حالت و کیفیت کچھ اور ( تفصیلات کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، الانفال ، آیت 50 ۔ النحل ، آیات 28 و 32 ، مع حاشیہ 26 ۔ بنی اسرائیل ، آیت 97 ۔ جلد سوم ، طٰہٰ آیات 102 ، 103 ، 124 تا 126 ، مع حواشی 79 ، 80 ، 107 ۔ الانبیاء ، آیت 103 ، مع حاشیہ 98 ۔ الفرقان ، آیت 24 ، مع حاشیہ 38 ۔ النمل ، آیت 89 ، مع حاشیہ 109 ۔ جلد چہارم ، سبا ، آیت 51 ، مع حاشیہ 72 ۔ یٰسین ، آیات 26 ، 27 ، مع حواشی 22 ۔ 23 ۔ المومن ، آیات 45 ، 46 ، مع حاشیہ 63 ، جلد پنجم ، محمد ، آیت 27 مع حاشیہ 37 ۔ ق ، آیات 19 تا 23 ۔ مع حواشی 22 ، 23 ، 25 ۔ ) سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :13 یعنی نامہ اعمال ملتے ہی وہ خوش ہو جائے گا اور اپنے ساتھیوں کو دکھائے گا ۔ سورہ انشقاق ، آیت 9 میں بیان ہوا ہے کہ وہ خوش خوش اپنے لوگوں کی طرف پلٹے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

6: نیک لوگوں کو ان کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، اور بُرے لوگوں کو بائیں ہاتھ میں۔