Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 یعنی آخرت کے حساب و کتاب پر میرا کامل یقین تھا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦] داہنے ہاتھ میں اعمال نامہ ملنے والے کی خوشی کا منظر :۔ چونکہ مجھے یہ یقین تھا کہ مجھ سے میرے اعمال کی بازپرس ہونے والی ہے۔ لہذا میں نے دنیا میں محتاط زندگی گزاری تھی۔ اور ہر ممکن کوشش کی تھی کہ مجھ سے اللہ کی کوئی نافرمانی نہ ہونے پائے۔ ایسے شخص کو فیصلہ کے بعد بلند وبالا باغات میں رہائش کے لیے جگہ ملے گی، کھانے کو لذیذ، مزیدار اور وافر اشیاء اور باغوں کے درختوں کے پھل ان کے سامنے جھک رہے ہونگے۔ تاکہ انہیں اپنے حسب پسند پھل توڑنے کے لیے معمولی سی زحمت بھی گوارا نہ کرنی پڑے۔ یہ سب کچھ پیش کرنے کے بعد انہیں کہا جائے گا کہ خوب مزے اڑاؤ۔ جہاں سے جی چاہے کھاؤ اور جتنا جی چاہے بلاتکلف کھاؤ۔ دنیا میں تم نے اللہ کے احکام کی وجہ سے اپنے آپ پر کئی قسم کی پابندیاں لگا رکھی تھیں۔ آج اتنی ہی تمہیں آزادی دی جاتی ہے۔ یہ نعمتیں اور یہ آزادی تمہارے ان اعمال کی وجہ سے ہے کہ تم دنیا میں پابندیاں برداشت کرتے رہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

انی ظننت انی ملق حسابیہ :” انی ظننت “ یقینا میں نے سمجھ لیا تھا۔” ظن “ کا لفظ وہم، گمان اور قین تینوں چیزوں کے لئے آتا ہے، کیونکہ یہ اصل میں علامات اور نشانیوں کے ذریعے سے حاصل ہونے والی چیز کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ نشانیاں کمزور ہوں تو وہم یا گمان تک معاملہ رہتا ہے، اگر مضبوط ہوں تو غالب گمان اور علم و یقین کا معنی دیتا ہے۔ خصوصاً جب اس کے ساتھ ” ان “ بھی ہو۔ (مفردات) یہاں ” ظننت “ کا لفظ غالب گمان کے معنی میں ہے، جو دن بدن دلائل کے ساتھ یقین میں بدلتا جاتا ہے، اسی غالب گمان ہی کی وجہ سے انسان قیامت کے دن کے حساب سے ڈر کر اللہ کی نافرمانی سے بچتا ہے۔ اگر مکمل یقین کے بغیر وہ اللہ کی نافرمانی چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو مکمل یقین تو قیامت سامنے آنے ہی پر ہوگا اور اس وقت اس یقین کا کوئی فائدہ نہیں۔ صاحب احسن التفاسیر فرماتے ہیں :” قرآن شریف میں یقین کی جگہ ظن کا لفظ عقبی کیب اتوں میں اس لئے بولا گیا ہے کہا ن باتوں کا پورا یقین مرنے کے بعد ہوگا۔ “ خلاصہ آیت کا یہ ہے کہ وہ اپنی خوش قسمتی کی وجہ یہ بتائے گا کہ اس نے دنیا میں یہ سمجھ کر زندگی بسر کی کہ آخر ایک دن اس کا حساب ہونا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنِّىْ ظَنَنْتُ اَنِّىْ مُلٰقٍ حِسَابِيَہْ۝ ٢٠ ۚ- ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - حسب - الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] ، وقیل : لا يعلم حسبانه إلا الله، وقال عزّ وجل : وَيُرْسِلَ عَلَيْها حُسْباناً مِنَ السَّماءِ [ الكهف 40] ، قيل : معناه :- نارا، وعذابا وإنما هو في الحقیقة ما يحاسب عليه فيجازی بحسبه، وفي الحدیث أنه قال صلّى اللہ عليه وسلم في الریح : «اللهمّ لا تجعلها عذابا ولا حسبانا»، قال تعالی: فَحاسَبْناها حِساباً شَدِيداً [ الطلاق 8] ، إشارة إلى نحو ما روي : «من نوقش الحساب عذّب» وقال تعالی: اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] ، نحو : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، وَكَفى بِنا حاسِبِينَ [ الأنبیاء 47] ، وقوله عزّ وجلّ : وَلَمْ أَدْرِ ما حسابِيَهْ [ الحاقة 26] ، إِنِّي ظَنَنْتُ أَنِّي مُلاقٍ حِسابِيَهْ [ الحاقة 20] ، فالهاء فيها للوقف، نحو : مالِيَهْ وسُلْطانِيَهْ وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسابِ [ آل عمران 199] ، وقوله عزّ وجلّ : جَزاءً مِنْ رَبِّكَ عَطاءً حِساباً [ عم 36] ، فقد قيل : کافیا، وقیل : ذلك إشارة إلى ما قال : وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم 39] ،- ( ح س ب ) الحساب - کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ان کے حسبان ہونے کی حقیقت خدا ہی جانتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَيُرْسِلَ عَلَيْها حُسْباناً مِنَ السَّماءِ [ الكهف 40] اور وہ تمہارے باغ ) پر آسمان سے آفت بھیج دے میں بعض نے کہا ہے کہ حسبا نا کے معنی آگ اور عذاب کے ہیں اور حقیقت میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس پر محاسبہ کای جائے اور پھر اس کے مطابق بدلہ دیا جائے ۔ حدیچ میں ہے آنحضرت نے آندھی کے متعلق فرمایا : ۔ کہ الہیٰ ؟ اسے عذاب یا حسبان نہ بنا اور آیت کریمہ : ۔ فَحاسَبْناها حِساباً شَدِيداً [ الطلاق 8] تو تم نے ان کو سخت حساب میں پکڑ لیا ۔ میں حدیث کہ جس سے حساب میں سختی کی گئی اسے ضرور عذاب ہوگا کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور آیت کریمہ : ۔ اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت ) نزدیک آپہنچا ) اپنے مضمون میں وَكَفى بِنا حاسِبِينَ [ الأنبیاء 47] کی طرح ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمْ أَدْرِ ما حسابِيَهْ [ الحاقة 26] اور مجھے معلوم نہ ہوتا کہ میرا حساب کیا ہے ۔ اور آیت : ۔ إِنِّي ظَنَنْتُ أَنِّي مُلاقٍ حِسابِيَهْ [ الحاقة 20] مجھے یقین تھا کہ مجھ کو میرا حساب ( وکتاب ) ضرور ملے گا ۔ میں ہ وقف کی ہے جیسا کہ میں ہے ۔إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسابِ [ آل عمران 199] بیشک خدا جلد حساب لینے والا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ جَزاءً مِنْ رَبِّكَ عَطاءً حِساباً [ عم 36] یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے صلہ ہے انعام کثیر میں بعض نے کہا ہے کہ حسابا کے معنی کافیا کے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت : ۔ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم 39] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ اِنِّیْ ظَنَنْتُ اَنِّیْ مُلٰقٍ حِسَابِیَہْ ۔ ” (وہ کہے گا : ) مجھے یقین تھا کہ مجھے اپنے حساب سے دوچار ہونا ہے۔ “- مجھے یقین تھا کہ مجھے میرے اعمال کا بدلہ ضرور ملے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :14 یعنی وہ اپنی خوش قسمتی کی وجہ یہ بتائے گا کہ وہ دنیا میں آخرت سے غافل نہ تھا بلکہ یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرتا رہا کہ ایک روز اسے خدا کے حضور حاضر ہونا اور اپنا حساب دینا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani