29۔ 1 یعنی جس طرح مال میرے کام نہ آیا، جاہ و مرتبہ اور سلطنت و حکومت بھی میرے کام نہ آئی۔ آج میں اکیلا ہی سزا بھگت رہا ہوں۔
[١٨] سلطانیۃ سلطان کا لفظ بادشاہی اور اقتدار کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اس صورت میں اس سے مراد وہ علاقہ ہے جو کسی شخص یا ادارہ یا سلطان کے زیرنگین ہو اور اس پر اس کا تسلط ہو۔ سلطان کا دوسرا معنی حجت، دلیل اور برہان ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جتنی دلیلیں آخرت کے انکار پر دیا کرتا تھا۔ آج ان میں سے کوئی دلیل بھی مجھے یاد نہیں آرہی۔
(آیت) هَلَكَ عَنِّيْ سُلْطٰنِيَهْ ، سلطان کے لفظی معنے غلبہ و تسلط کے ہیں، اسی لئے حکومت کو سلطنت اور حاکم کو سلطان کہا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جو مجھے دوسرے لوگوں پر بڑائی اور غلبہ حاصل تھا میں سب میں بڑا مانا جاتا تھا آج وہ بڑائی اور غلبہ بھی کچھ کام نہ آیا اور سلطان بمعنے حجت بھی لیا جاسکتا ہے تو معنے یہ ہوں گے کہ افسوس آج میرے ہاتھ میں کوئی حجت و سند نہیں جس کے ذریعہ عذاب سے نجات حاصل ہو سکے۔
ہَلَكَ عَنِّيْ سُلْطٰنِيَہْ ٢٩ ۚ- هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار :- وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- سلط - السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] ،- ( س ل ط ) السلاطۃ - اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔
(٢٩۔ ٣٢) اور میرا عذر بھی مجھ سے گیا گزرا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا کہ اس کو پکڑ کر جہنم میں پھینک دو پھر ایک ایسی زنجیر میں جس کی پیمائش فرشتوں کے گزوں کے حساب سے ستر گز ہے جکڑ دو ۔ یعنی اس کی شرم گاہ میں اسے داخل کر کے اس کے منہ سے نکال دو اور بقیہ زنجیر کو اس کی گردن پر لپیٹ دو ۔
آیت ٢٩ ہَلَکَ عَنِّیْ سُلْطٰنِیَہْ ۔ ” میرا اقتدار بھی مجھ سے چھن گیا۔ “- میرے دنیوی اختیار و اقتدار اور میری شان و شوکت میں سے کچھ بھی باقی نہ بچا ‘ سب کچھ نیست و نابود ہوگیا۔ ایسے ہر شخص کے لیے فرشتوں کو حکم دیا جائے گا :
سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :19 اصل الفاظ ہیں ھلک عنی سلطٰنیہ سلطان کا لفظ دلیل و حجت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور اقتدار کے لیے بھی ۔ اگر اسے دلیل و حجت کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ جو دلیل بازیاں میں کیا کرتا تھا وہ یہاں نہیں چل سکتیں ، میرے پاس اپنی صفائی میں پیش کرنے کے لیے اب کوئی حجت نہیں رہی ۔ اور اقتدار کے معنی میں لیا جائے تو مراد یہ ہو گی کہ دنیا میں جس طاقت کے بل بوتے پر میں اکڑتا تھا وہ یہاں ختم ہو چکی ہے ۔ اب یہاں کوئی میرا لشکر نہیں ، کوئی میرا حکم ماننے والا نہیں ، میں ایک بے بس اور لاچار بندے کی حیثیت سے کھڑا ہوں جو اپنے دفاع کے لیے کچھ نہیں کر سکتا ۔