(خذوہ فغلوہ…: حکم ہوگا اسے پکڑو اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو ، پھر اسے بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک دو ، پھر اسے ایک زنجیر میں جکڑ دو جو ستر (٧٠) ہاتھ لمبی ہے۔ جہنیموں کو جہنم میں طوقوں اور زنجیروں سے جکڑ کر لمبے لمبے ستونوں سے باندھ دیا جائے گا تاکہ وہ حرکت نہ کرسکیں، کیونکہ حرکت سے بھی عذاب میں کچھ تخفیف ہوتی ہے، فرمایا :(انھا علیھم موصدۃ، فی عمد ممددۃ) (الھمزۃ : ٨، ٩)” یقیناً وہ ان پر (ہر طرف سے) بند کی ہوئی ہے۔ لمبے لمبے ستونوں میں “ ستر ہاتھ سے مراد یہ پیمئاش بھی ہوسکتی ہے اور بہت زیادہ لمبائی بھی، کیونکہ عربوں کے ہاں ستر کا عدد کثرت کے لئے بھی آتا ہے۔ پھر ہوسکتا ہے کہ یہ زنجیر ہر مجرم کے لئے الگ الگ ہو اور یہ بیھ کہ ایک ہی زنجیر میں سب کو پروتے چلے جائیں۔ (التسہل)
خُذُوْهُ فَغُلُّوْهُ ، یہ حکم فرشتوں کو ہوگا کہ اس مجرم کو پکڑو اور اس کے گلے میں طوق ڈالو لیکن الفاظ آیت میں اس کا ذکر نہیں کہ کون پکڑے اور طوق ڈالے، اسی لئے بعض روایات میں ہے کہ یہ حکم صادر ہوگا تو ہر در و دیوار اور ہر چیز مطیع و فرمانبرار نوکروں کی طرح ہے اس کے پکڑنے کو دوڑے گی۔
خُذُوْہُ فَغُلُّوْہُ ٣٠ ۙ- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- غل - الغَلَلُ أصله : تدرّع الشیء وتوسّطه، ومنه : الغَلَلُ للماء الجاري بين الشّجر، وقد يقال له : الغیل، وانْغَلَّ فيما بين الشّجر : دخل فيه، فَالْغُلُّ مختصّ بما يقيّد به فيجعل الأعضاء وسطه، وجمعه أَغْلَالٌ ، وغُلَّ فلان : قيّد به . قال تعالی: خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة 30] ، وقال : إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر 71] - ( غ ل ل ) الغلل - کے اصل معنی کسی چیز کو اوپر اوڑھنے یا اس کے درمیان میں چلے جانے کے ہیں اسی سے غلل اس پانی کو کہا جاتا ہے جو درختوں کے درمیان سے بہہ رہا ہو اور کبھی ایسے پانی کو غیل بھی کہہ دیتے ہیں اور الغل کے معنی درختوں کے درمیان میں داخل ہونے کے ہیں لہذا غل ( طوق ) خاص کر اس چیز کو کہا جاتا ہے ۔ جس سے کسی کے اعضار کو جکڑ کر اس کے دسط میں باندھ دیا جاتا ہے اس کی جمع اغلال اتی ہے اور غل فلان کے معنی ہیں اے طوق سے باندھ دیا گیا قرآن میں ہے : خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة 30] اسے پکڑ لو اور طوق پہنادو ۔ إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر 71] جب کہ ان لی گردنوں میں طوق ہوں گے ۔