ہدایت اور شفا قرآن حکیم یہاں فرمان باری ہے کہ جس طرح تم کہتے ہو اگر فی الواقع ہمارے یہ رسول ایسے ہی ہوتے کہ ہماری رسالت میں کچھ کمی بیشی کر ڈالتے یا ہماری نہ کہی ہوئی بات ہمارے نام سے بیان کر دیتے تو یقیناً اسی وقت ہم انہیں بدترین سزا دیتے یعنی اپنے دائیں ہاتھ سے اس کا دائیاں ہاتھ تھام کر اس کی وہ رگ کاٹ ڈالتے جس پر دل معلق ہے اور کوئی ہمارے اس کے درمیان بھی نہ آ سکتا کہ اسے بچانے کی کوشش کرے ، پس مطلب یہ ہوا کہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سچے پاک باز رشد و ہدایت والے ہیں اسی لئے اللہ نے زبردست تبلیغی خدمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سونپ رکھی ہے اور اپنی طرف سے بہت سے زبردست معجزے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدق کی بہترین بڑی بڑی نشانیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عنایت فرما رکھی ہیں ۔ پھر فرمایا یہ قرآن متقیوں کے لئے تذکرہ ہے ، جیسے اور جگہ ہے کہدو یہ قرآن ایمانداروں کے لئے ہدایت اور شفا ہے اور بے ایمان تو اندھے بہرے ہیں ہی ، پھر فرمایا باوجود اس صفائی اور کھلے حق کے ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ تم میں سے بعض اسے جھوٹا بتلاتے ہیں ، یہ تکذیب ان لوگوں کے لئے قیامت کے دن باعث حسرت و افسوس ہو گی ، یا یہ مطلب کہ یہ قرآن اور اس پر ایمان حقیقتاً کفار پر حسرت کا باعث ہو گا ، جیسے اور جگہ ہے ، اسی طرح ہم اسے گنہگاروں کے دلوں میں اتارتے ہیں پھر وہ اس پر ایمان نہیں لاتے ۔ اور جگہ ہے ( وَحِيْلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُوْنَ كَمَا فُعِلَ بِاَشْيَاعِهِمْ مِّنْ قَبْلُ ۭ اِنَّهُمْ كَانُوْا فِيْ شَكٍّ مُّرِيْبٍ 54ۧ ) 34- سبأ:54 ) ان میں اور ان کی خواہش میں حجاب ڈال دیا گیا ہے ، پھر فرمایا یہ خبر بالکل سچ حق اور بیشک و شبہ ہے ، پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ اس قرآن کے نازل کرنے والے رب عظیم کے نام کی بزرگی اور پاکیزگی بیان کرتے رہو ۔ اللہ کے فضل سے سورہ الحاقہ کی تفسیر ختم ہوئی ۔
44۔ 1 یعنی اپنی طرف سے گھڑ کر ہماری طرف منسوب کردیتا، یا اس میں کمی بیشی کردیتا، تو ہم فوراً اس کا مؤاخذہ کرتے اور اسے ڈھیل نہ دیتے جیسا کہ اگلی آیات میں فرمایا۔
ولو تقول علینا بعض الاقاویل…: ان آیات میں کفار کی اس بات کا رد ہے کہ یہ باتیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دل سے بنا کر اللہ کے ذمے لگا دی ہیں۔ فرمایا جب یہ ثابت ہوگیا کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اور آپ کی کہی ہوئی ہر بات اللہ کی بات ہے تو اب اگر اللہ تعالیٰ انہیں اپنے ذمے باتیں لگانے دے اور اس پر انہیں کچھ نہ کہے تو وہ سب باتیں اللہ یک باتیں سمجھی جائیں گی، اللہ تعالیٰ اس کی اجازت کس طرح دے سکتا ہے ؟ فرمایا ، اگر ہمارا ی ہ سچا رسول کوئی بات گھڑ کر ہمارے ذمے لگا دیتا تو اس جعل سازی کے جرم میں ہم اس کا دائیاں ہاتھ پکڑ کر اس کی جان ک رگ کاٹ دیتے اور کوی شخص رستے میں رکاوٹ نہ بن سکتا۔- بعض لوگوں نے اس آیت سے غلط استدلال کیا ہے کہ اگر کسی مدعی نبوت کی جان کی رگ دعوائے نبوت کرتے ہی نہ کاٹ دی جائے تو یہ اس کے نبی ہونے کی دلیل ہے، حالانکہ اس آیت میں جو بات فرمائی گئی ہے وہ سچے نبی کے بارے میں ہے، نبوت کے جھوٹیم دعیوں کے بارے میں نہیں ہے۔ جھوٹے مدعی تو نبوت ہی نہیں خدائی تک کے دعوے کرتے ہیں اور مدتوں زمین پر دندناتے رہتے ہیں، یہ ان کے سچے ہونے کا ثبوت نہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ جس طرح بادشاہ کسیش خص کو کسی منصب پر مقرر کر کے سند وغیرہ دے کر کسی طرف روانہ کرتے ہیں، اب اگر وہ کوئی بات جھوٹ گھڑ کر بادشاہ کے ذمے لگا دے تو فوراً بادشاہ کی طرف سے اس کی تردید کی جاتی ہے اور ایسا کرنے والے کو سخت سزا دی جاتی ہے، لیکن اگر کوئی سڑک کوٹنے والا مزدور یا صفائی کرنے والا بھنگی اعلان کرتا پھرے کہ بادشاہ نے یہ حکم جاری کیا ہے تو نہ سننے والے اس کی پروا کرتے ہیں اور نہ حکومت فوراً اس سے تعرض کرتی ہے۔ ہمارے زمانے کے دجال قادیانی کا اس ایٓ سے استدلال اور خود اس کے کلام میں سے اس کا رد دیکھنے کیلئے تفسیر ثنائی ملاحظہ فرمائیں۔ (فانہ کفی و شقی رحمۃ اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ)- (تقول “ کا معنی ہے، کسی کے ذمے وہ بات لگانا جو اس نے نہیں کہی۔” الاقاویل “” افولہ “ کی جمع ہے، جس طرح ” اغجوبۃ “ اور ” ضحوکۃ “ کی جمع ” اعاجیب “ اور ” اضاحیک “ ہے۔ ” لاخدنا منہ بالیمین “ سے مراد یا تو یہ ہے کہ ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ کر اس کی گردن کی رگ کاٹ دیتے۔ یہ سزا کی ہولناک کی دکھانے کے لئے قتل کی تصویر کشی ہے، کیونکہ جب قتل کرنے والا کسی مجرم کو تلوار مارنے لگتا ہے تو اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتا ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑ کر اس کی رگ جاں کاٹ دیتے۔ بعض مفسرین نے ” الیمین “ کا معنی قوت کیا ہے، یعنی ہم اسے پوری قوت سے پکڑ کر اس کی رگ جاں کاٹ دیتے۔ عرب کے محاورہ میں یہ معنی بھی استعمال ہوتا ہے، مگر یہم عنی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کا انکار کردینا درست نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(بل یدہ مبسوطین) (المائدۃ : ٦٣)” ابل کہ اللہ کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ “ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(کلتا یدی ربی یمین مبارکۃ) (ترمذی، تفسیر لا قرآن، باب : ٣٣٦٨۔ مسلم ١٨٢٨)” میرے رب کے دونوں ہاتھ دائیں اور برکت والے ہیں۔ “ البتہ اس بات میں شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہمارے ہاتھوں جیسے نہیں، جیسا کہ فرمایا :(لیس کمثلہ شیء ) (الشوری : ١١)” اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔ “ بلکہ اس طرح ہیں جس طرح اس کی شان کے لائق ہیں۔” الوتین “ گردن کی وہ رگ جو دل سے ملتی ہے، جس کے کٹنے سے آدمی فوراً مرجاتا ہے۔ (اشرف الحواشی)
(آیت) وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا الخ، تقول کے معنی بات گھڑنے کے ہی اور وہ تین قلب سے نکلنے والی وہ رگ ہے۔ جس سے روح جسم انسانی میں پھیلتی ہے اس کے قطع کردینے سے موت فوراً واقع ہوجاتی ہے۔- سابقہ آیات میں کفار مکہ کے اس بےہودہ خیال کا رد کیا گیا تھا، کوئی آپ کو شاعر اور آپ کے کلام کو شعر کہتا تھا، کوئی آپ کو کاہن اور کلام کو کہانت کہتا تھا۔ کاہن وہ شخص ہوتا ہے جو کچھ شیاطین سے خبریں پا کر کچھ نجوم کے اثرات سے معلوم کرنے کے آنے والے واقعات میں اٹکل بچو باتیں کیا کرتا تھا۔ غرض آپ کو اشعر یا کاہن کہنے والوں کے الزام کا حاصل یہ تھا کہ آپ جو کلام سناتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے نہیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اپنے خیالات سے یا کاہنوں کی طرح شیاطین سے کچھ کلمات جمع کر لئے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ مذکورہ آیات میں حق تعالیٰ نے ان کے اس خیال باطل کو ایک دوسری صورت سے بڑی شدت کے ساتھ اس طرح رد کیا ہے کہ دیوانو، اگر یہ رسول معاذ اللہ ہماری طرف جھوٹی باتیں منسوب کرتے اور ہم پر افتراء پردازی کرتے تو کیا ہم یوں ہی دیکھتے رہتے اور ان کو ڈھیل دیدیتے کہ خلق خدا کو گمراہ کریں۔ یہ بات کوئی عقل والا باور نہیں کرسکتا اس لئے اس آیت میں بطور فرض محال کے ارشاد فرمایا کہ اگر یہ رسول کوئی قول بھی اپنی طرف سے گھڑ کر ہماری طرف منسوب کرتے تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ کر ان کی رگ جان کاٹ ڈالتے اور پھر ہماری سزا سے ان کو کوئی بھی نہ بچ اسکتا۔ یہاں یہ شدت کے الفاظ ان جاہلوں کو سنانے کے لئے قرض محال کے طور پر استعمال فرمائے ہیں۔ داہنا ہاتھ پکڑنے کی تخصیص غالباً اس لئے ہے کہ جب کسی مجرم کو قتل کیا جاتا ہے تو قتل کرنے والا اس کے بالمقابل کھڑا ہوتا ہے قتل کرنے والے کے بائیں ہاتھ کے مقابل مقتول کا داہعنا ہاتھ ہوتا ہے اس کو یہ قتل کرنے والا اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑ کر داہنے ہاتھ سے اس پر حملہ کرتا ہے۔- تنبیہ :۔ اس آیت میں ایک خاص واقعہ کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ اگر خدانخواستہ معاذ اللہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طرف سے کوئی بات گھڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیتے تو آپ کے ساتھ یہ معاملہ کیا جاتا، اس میں کوئی عام ضابطہ بیان نہیں کیا گیا کہ جو شخص بھی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرے ہمیشہ اس کو ہلاک ہی کردیا جائے گا یہی وجہ ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگوں نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ان پر کوئی سا عذاب نہیں آیا۔
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ ٤٤ ۙ- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - تقول - ( تفعل) مصدر سے۔ اس نے بنا لیا۔ اس نے گھڑ لیا۔ اس نے باندھ لیا۔ تقول کے معنی اپنے دل سے گھڑ کر دوسرے کی طرف سے کہہ دینا۔- اقاویل - جمع اقوال کی جمع ہے قول کی بمعنی بات جیسے ابابیت جمع ہے ابیات کی جو جمع ہے بیت کی۔ تقول کی مناسبت سے یہاں اقوال سے مراد بھی اقوال المفتراۃ ( من گھڑت اقوال) لیا جائے گا۔
آیت ٤٤ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ ۔ ” اور اگر یہ (نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود گھڑ کر بعض باتیں ہماری طرف منسوب کرتا۔ “- تَقَوَّلَ باب تفعل ہے ‘ اس باب میں تکلف کے معنی پائے جاتے ہیں ‘ یعنی ارادے ‘ محنت اور کوشش سے کوئی بات کہنا۔