Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

43۔ 1 یعنی رسول کی زبان سے ادا ہونے والا یہ قول رب العالمین کا اتارا ہوا کلام ہے اسے تم کبھی شاعری اور کبھی کہانت کہہ کر اس کی تکذیب کرتے ہو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٤] رسول اور شاعر کا فرق اور آپ کے شاعر نہ ہونے کی وجوہ :۔ یعنی جو باتیں تم دیکھتے ہو اور جو تم نہیں دیکھتے۔ میں ان سب کو اس بات پر شاہد بنا کر کہتا ہوں کہ یہ قرآن اللہ رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ رسول اللہ کا یا کسی دوسرے کا تصنیف کردہ نہیں ہے۔ جیسا کہ تم الزام دیتے رہتے ہو۔ اور جو چیزیں تم دیکھتے ہو کم از کم انہی کی بنا پر اگر تم تھوڑا سا غور کرلو تو تمہیں از خود معلوم ہوجائے کہ یہ قرآن نہ کسی شاعر کا قول ہوسکتا ہے اور نہ کسی کاہن کا، شاعر کے تخیل کی پرواز میں میدان زندگی کا ہر اچھا یا برا پہلو ہوسکتا ہے۔ ماحول کا تاثر اس کی طبیعت پر غالب رہتا ہے اور معاشرہ کی اکثریت چونکہ گمراہ ہوتی ہے۔ لہذا اس کا تخیل بھی انہی راستوں پر پرواز کرتا ہے۔ جبکہ قرآن صرف بھلائی ہی بھلائی کا راستہ دکھاتا ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ شاعر کے افکار و نظریات میں اور بندش کلام میں عمرو عقل کی پختگی، تجربہ اور ممارست کی وجہ سے تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ لیکن کلام اللہ ایسی تبدیلی اور قباحت سے یکسر پاک ہے اس نے جو بات پہلے دن پیش کی۔ پھر اس کے بعد جو کچھ پیش کیا۔ پہلے نظریہ کی تائید میں ہی پیش کیا۔ اور اس کی فصاحت و بلاغت، الفاظ کی بندش، طرز بیان میں کبھی فرق نہیں آیا۔ علاوہ ازیں شاعر جو کچھ ڈینگیں مارتا ہے اور لاف زنی کرکے لوگوں کے جذبات میں وقتی طور پر ایک ہیجان سا پیدا کردیتا ہے۔ مگر وہ اپنی اس لاف زنی پر نہ کبھی عمل پیرا ہوتا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ جبکہ قرآن کو پیش کرنے والا رسول جو کچھ پیش کرتا ہے اس پر عمل بھی کرتا ہے۔ پھر تم کیسے کہتے ہو کہ یہ قرآن شاعری اور اس کی طرف دعوت دینے والا رسول شاعر ہے۔- خ آپ کے کاہن نہ ہونے کی وجوہ :۔ یہ قرآن کسی کاہن کا کلام اس لئے بھی نہیں کہ کہانت کا ماخذ جنات اور خبیث روحیں ہیں جو ملاء اعلیٰ سے کوئی نہ کوئی بات سن لیتیں اور جھوٹ سچ ملا کر کاہنوں تک پہنچاتی ہیں۔ لہذا ان کی بتائی ہوئی غیب کی خبریں اکثر غلط ہوتی ہیں اور کبھی کبھار کوئی خبر صحیح بھی نکل آتی ہے۔ جبکہ قرآن کی خبروں کا ماخذ وحی الٰہی ہے جن کا جھوٹ ثابت ہونا ناممکنات سے ہے۔ ایسی بہت سی پیشگوئیاں قرآن میں مذکور ہیں۔ اور بہت سی احادیث میں بھی ہیں جن میں سے کئی باتیں اپنے وقت پر تمہاری آنکھوں کے سامنے پوری ہو رہی ہیں۔ کاہن اور نبی میں دوسرا فرق یہ ہے کہ کاہن صرف غیب کی خبریں دیتا ہے خواہ وہ سچی ہوں یا غلط، جبکہ قرآن اور رسول کی بعثت کا مقصد زندگی کے جملہ پہلوؤں میں انسان کی رہنمائی ہے۔ پھر تم کیسے کہتے ہو کہ یہ کاہن کا کلام ہے۔ اگر تم خود ہی تھوڑا سا غور کرلو تو تمہیں از خود معلوم ہوجائے کہ قرآن نہ کسی شاعر کا کلام ہوسکتا ہے اور نہ کاہن کا۔ مگر افسوس تو یہ ہے کہ تم غور کرتے ہی نہیں۔ بس تمہیں صرف کچھ نہ کچھ الزام لگانے کی ہی پڑی رہتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

تَنْزِيْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝ ٤٣- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] .- العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣ تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ ” اس کا اتارا جانا ہے تمام جہانوں کے رب کی طرف سے۔ “- یہ آیت جوں کی توں سورة الواقعہ (آیت ٨٠) میں بھی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :24 حاصل کلام یہ ہے کہ جو کچھ تمہیں نظر آتا ہے اور جو کچھ تم کو نظر نہیں آتا ، اس سب کی قسم میں اس بات پر کھاتا ہوں کہ یہ قرآن کسی شاعر یا کاہن کا کلام نہیں ہے بلکہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے جو ایک ایسے رسول کی زبان سے ادا ہو رہا ہے جو کریم ( نہایت معزز اور شریف ) ہے ۔ اب دیکھیے کہ یہ قسم کس معنی میں کھائی گئی ہے ۔ جو کچھ لوگوں کو نظر آ رہا تھا وہ یہ تھا کہ: ( 1 ) اس کلام کو ایک ایسا شخص پیش کر رہا تھا جس کا شریف النفس ہونا مکہ کے معاشرے میں کسی سے چھپا ہوا نہ تھا سب جانتے تھے کہ اخلاقی حیثیت سے یہ ان کی قوم کا بہترین آدمی ہے ۔ ایسے شخص سے تو یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ اتنا بڑا جھوٹ لے کر اٹھ کھڑا ہو گا کہ خدا پر بہتان باندھے اور اپنے دل سے ایک بات گھڑ کر اسے خداوند عالم کی طرف منسوب کر دے ۔ ( 2 ) وہ یہ بھی علانیہ دیکھ رہے تھے کہ اس کلام کو پیش کرنے میں اپنا کوئی ذاتی مفاد اس شخص کے پیش نظر نہیں ہے ، بلکہ یہ کام کر کے تو اس نے اپنے مفاد کو قربان کر دیا ہے ۔ اپنی تجارت کو برباد کیا ۔ اپنے عیش و آرام کو تج دیا ۔ جس معاشرے میں اسے سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا تھا ، اسی میں گالیاں کھانے لگا ۔ اور نہ صرف خود بلکہ اپنے بال بچوں تک کو ہر قسم کے مصائب میں مبتلا کر لیا ۔ ذاتی مفاد کا خواہشمند ان کانٹوں میں اپنے آپ کو کیوں گھسیٹتا ؟ ( 3 ) ان کی آنکھیں یہ بھی دیکھ رہی تھیں کہ انہی کے معاشرے میں سے جو لوگ اس شخص پر ایمان لا رہے تھے ان کی زندگی میں یک لخت انقلاب برپا ہو جاتا تھا ۔ کسی شاعر یا کاہن کے کلام میں یہ تاثیر آخر کب دیکھی گئی ہے کہ وہ لوگوں میں ایسی زبردست اخلاقی تبدیلی پیدا کر دے اور اس کے ماننے والے اس کی خاطر ہر طرح کے مصائب و آلام برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جائیں؟ ( 4 ) ان سے یہ بات بھی چھپی ہوئی نہ تھی کہ شعر کی زبان کیا ہوتی ہے اور کاہنوں کا کلام کیسا ہوتا ہے ۔ ایک ہٹ دھرم آدمی کے سوا کون یہ کہہ سکتا تھا کہ قرآن کی زبان شاعری یا کہانت کی زبان ہے ( اس پر مفصل بحث ہم تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الانبیاء ، حاشیہ 7 ۔ جلد چہام ، الشعراء حواشی 142 تا 145 ۔ اور جلد پنجم ، الطور حاشیہ 22 میں کر چکے ہیں ) ۔ ( 5 ) یہ بات بھی ان کی نگاہوں کے سامنے تھی کہ پورے عرب میں کوئی شخص ایسا فصیح و بلیغ نہ تھا جس کا کلام قرآن کے مقابلے میں لایا جا سکتا ہو ۔ اس کے برابر تو درکنا ، اس کے قریب تک کسی کی فصاحت و بلاغت نہیں پہنچتی تھی ۔ ( 6 ) ان سے یہ بات بھی پوشیدہ نہ تھی کہ خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان بھی اپنی ادبی شان کے لحاظ سے قرآن کی ادبی شان سے بہت مختلف تھی ۔ کوئی اہل زبان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تقریر ، اور قرآن کو سن کر یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ دونوں ایک ہی شخص کے کلام ہیں ۔ ( 7 ) قرآن جن مضامین اور علوم پر مشتمل تھا ، دعوائے نبوت سے ایک دن پہلے تک بھی مکہ کے لوگوں نے کبھی وہ باتیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نہ سنی تھیں ، اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ان معلومات کے حصول کا کوئی ذریعہ آپ کے پاس نہیں ہے ۔ اسی وجہ سے آپ کے مخالفین اگر یہ الزامات لگاتے بھی تھے کہ آپ کہیں سے خفیہ طریقے پر یہ معلومات حاصل کرتے ہیں تو مکہ میں کوئی شخص ان کو باور کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا تھا ( اس کی تشریح ہم تفہیم القرآن جلد دوم ، النحل حاشیہ 107 ۔ اور جلد سوم الفرقان ، حاشیہ 12 میں کر چکے ہیں ) ۔ ( 8 ) زمین سے لے کر آسمان تک اس عظیم الشان کارخانہ ہستی کو بھی اپنی آنکھوں سے چلتا ہوا دیکھ رہے تھے جس میں ایک زبردست حکیمانہ قانون اور ہمہ گیر نظم و ضبط کار فرما نظر آ رہا تھا ۔ اس کے اندر کہیں اس شرک اور انکار آخرت کے لیے کوئی شہادت نہیں پائی جاتی تھی جس کے اہل عرب معتقد تھے ، بلکہ ہر طرف توحید اور آخرت ہی کی صداقت کے شواہد ملتے تھے جسے قرآن پیش کر رہا تھا ۔ یہ سب کچھ تو وہ دیکھ رہے تھے ۔ اور جو کچھ وہ نہیں دیکھ رہے تھے وہ یہ تھا کہ فی الواقع اللہ تعالی ہی اس کائنات کا خالق و مالک اور فرمانروا ہے ، کائنات میں سب بندے ہی بندے ہیں ، خدا اس کے سوا کوئی نہیں ہے ، قیامت ضرور برپا ہونے والی ہے ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو واقعی اللہ تعالی ہی نے اپنا رسول مقرر کیا ہے ، اور ان پر اللہ ہی کی طرف سے یہ قرآن نازل ہو رہا ہے ۔ ان دونوں قسم کے حقائق کی قسم کھا کر وہ بات کہی گئی ہے جو اوپر کی آیات میں ارشاد ہوئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani