102۔ 1 اس سے بعض نے عہد الست جو عالم ارواح میں لیا گیا تھا، بعض نے عذاب ٹالنے کے لئے پیغمبروں سے جو عہد کرتے تھے، وہ عہد اور بعض نے عام عہد مراد لیا ہے جو آپس میں ایک دوسرے سے کرتے تھے۔ اور یہ عہد شکنی، چاہے وہ کسی بھی قسم کی ہو، فسق ہی ہے۔
[١٠٧] عہد کو پورا نہ کرنا فسق ہے :۔ عہد سے مراد وہ فطری عہد بھی ہوسکتا ہے جو انسان کی سرشت میں موجود ہے اور یہ عہد آیت (اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ١٧٢ۙ ) 7 ۔ الاعراف :172) کے نام سے مشہور ہے جس کی رو سے ہر انسان نے عہد کیا تھا کہ وہ اپنے پروردگار کے سوا کسی دوسرے کو معبود نہیں بنائے گا اور وہ عہد بھی جو انسان دوسرے انسانوں سے کرتا ہے خواہ یہ لین دین کے معاملات سے تعلق رکھتا ہو یا نکاح و طلاق کے معاملات سے، اور وہ عہد بھی جو کوئی انسان ذاتی طور پر اپنے پروردگار سے کرتا ہے یعنی عہد خواہ کسی طرح کا ہو اسے توڑنے والا فاسق ہوتا ہے۔
وَمَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِهِمْ مِّنْ عَهْدٍ ۚ: ” مِّنْ عَهْدٍ ۚ“ (کوئی بھی عہد) کا لفظ نکرہ استعمال ہوا ہے، جس کا عموم ” مِن “ سے مزید بڑھ گیا ہے۔ مراد کسی بھی قسم کا عہد ہے، نہ فطری جو ” اَلست بربکم “ کے وقت کیا تھا، نہ شرعی جو پیغمبروں سے عذاب ٹالنے کی درخواست کے وقت کرتے تھے اور نہ عرفی جو وہ آپس میں ایک دوسرے سے کرتے تھے۔ - لَفٰسِقِيْنَ : ” نافرمان “ یعنی کسی عہد کا پاس نہ کرنے والے پکے بےایمان۔
تیسری آیت میں ارشاد فریا وَمَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِهِمْ مِّنْ عَهْدٍ یعنی ان میں سے اکثر لوگوں کو ہم نے ایفائے عہد کرنے والا نہ پایا۔- حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ عہد سے مراد عہد الست ہے جو ازل میں تمام مخلوقات کے پیدا کرنے سے پہلے ان سب کی روحوں کو پیدا فرما کرلیا گیا تھا، جس میں حق تعالیٰ نے فرمایا الست بربکم یعنی کیا میں تمہارا پروردگار نہیں، اس وقت تمام ارواح انسانی نے اقرار اور عہد کے طور پر جواب دیا بلی یعنی ضرور آپ ہمارے رب ہیں، دنیا میں آکر اکثر لوگ اس عہد ازل کو بھول گئے خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر مخلوق پرستی کی لعنت میں گرفتار ہوگئے، اس لئے اس آیت میں فرمایا کہ ہم نے ان میں سے اکثر لوگوں میں عہد نہ پایا، یعنی عہد کی پاسداری اور ایفاء نہ پایا۔ (کبیر) اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ عہد سے مراد عہد ایمان ہے جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًا، اس میں عہد سے عہد ایمان وطاعت مراد ہے، تو آیت کا حاصل مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے اکثر نے ایمان وطاعت کا عہد ہم سے باندھا تھا پھر اس کی خلاف ورزی کی، عہد باندھنے سے مراد یہ ہے کہ عموما انسان جب کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو اس وقت کتنا ہی فاسق فاجر ہو اس کو بھی خدا ہی یاد آتا ہے اور اکثر دل یا زبان سے عہد کرتا ہے کہ اس مصیبت سے نجات مل گئی تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت میں لگ جاؤں گا نافرمانی سے بچوں گا جیسا کہ قرآن کریم میں بہت سے لوگوں کا یہ حال ذکر کیا گیا ہے، لیکن جب ان کو نجات ہوجاتی ہے اور آرام و راحت ملتی ہے تو پھر ہویٰ و ہوس میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اس عہد کو بھول جاتے ہیں۔- آیت مذکورہ میں لفظ اکثَرَ سے اس کی طرف اشارہ بھی پایا جاتا ہے، کیونکہ بہت سے لوگ تو ایسے شقی ہوتے ہیں کہ مصیبت کے وقت بھی انہیں خدا یاد نہیں آتا اور اس وقت بھی وہ ایمان وطاعت کا عہد نہیں کرتے تو ان سے بد عہدی کی شکایت کے کوئی معنی نہیں، اور بہت سے لوگ وہ بھی ہیں جو عہد کو پورا کرتے ہیں، ایمان و اطاعت کے حقوق ادا کرتے ہیں اس لئے فرمایا وَمَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِهِمْ مِّنْ عَهْدٍ یعنی ہم نے ان میں سے اکثر لوگوں میں ایفائے عہد نہ پایا اس کے بعد فرمایا وَاِنْ وَّجَدْنَآ اَكْثَرَهُمْ لَفٰسِقِيْنَ یعنی ہم نے ان میں سے اکثر لوگوں کو اطاعت و فرماں برداری سے خارج پایا۔- یہاں تک پچھلے انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی قوموں کے پانچ واقعات کا بیان کرکے موجودہ لوگوں کو ان سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کے لئے تنبیہات فرمائی گئی ہیں۔ اس کے بعد چھٹا قصہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تفصیل کے ساتھ بیان ہوگا، جس میں واقعات کے ضمن میں سینکڑوں احکام و مسائل اور عبرت و نصیحت کے بیشمار مواقع ہیں، اور اسی لئے قرآن کریم میں اس واقع کے اجزاء بار بار دھرائے گئے ہیں۔
وَمَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِہِمْ مِّنْ عَہْدٍ ٠ ۚ وَاِنْ وَّجَدْنَآ اَكْثَرَہُمْ لَفٰسِقِيْنَ ١٠٢- وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- عهد - العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً.- قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] - ( ع ھ د ) العھد - ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔- فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔
(١٠٢) اکثر لوگوں میں ابتداء ہی سے وفائے عہد نہیں دیکھا بلکہ سب کو ہم نے عہد شکن ہی پایا۔
آیت ١٠٢ (وَمَا وَجَدْنَا لِاَکْثَرِہِمْ مِّنْ عَہْدٍ ج) ۔ - دُنیا میں جب بھی کوئی قوم ابھری ‘ اپنے رسول کے سہارے ابھری۔ ہر قوم کے علمی و اخلاقی ورثے میں اپنے رسول کی تعلیمات اور وصیتیں بھی موجود رہی ہوں گی۔ ان کے رسول نے ان لوگوں سے کچھ عہد اور میثاق بھی لیے ہوں گے ‘ لیکن ان میں سے اکثر نے کبھی کسی عہد کی پاسداری نہیں کی۔ - (وَاِنْ وَّجَدْنَآ اَکْثَرَہُمْ لَفٰسِقِیْنَ )- اب انباء الرسل کے سلسلے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر آ رہا ہے۔ اس سے پہلے ایک رسول کا ذکر اوسطاً ایک رکوع میں آیا ہے لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر سات آٹھ رکوعوں پر مشتمل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سورتیں ہجرت سے متصلاً قبل نازل ہوئی تھیں اور ہجرت کے فوراً بعد قرآن کی یہ دعوت براہ راست اہل کتاب (یہود مدینہ) تک پہنچنے والی تھی۔ لہٰذا ضروری تھا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) مدینہ پہنچنے سے پہلے یہود سے مکالمہ کرنے کے لیے ذہنی اور علمی طور پر پوری طرح تیار ہوجائیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے واقعات ان سورتوں میں بہت تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :82 ”کوئی پاس عہد نہ پایا“ یعنی کسی قسم کے عہد کا پاس بھی نہ پایا ، نہ اس فطری عہد کا پاس جس میں پیدائشی طور پر ہر انسان خدا کا بندہ اور پروردہ ہونے کی حیثیّت سے بندھا ہوا ہے ، نہ اس اجتماعی عہد کا پاس جس میں ہر فرد بشر انسانی برادری کا ایک رکن ہونے کی حیثیّت سے بندھا ہوا ہے ، اور نہ اس ذاتی عہد کا پاس جو آدمی اپنی مصیبت اور پریشانی کے لمحوں میں یا کسی جذبہ خیر کے موقع پر خدا سے بطور خود باندھا کرتا ہے ۔ انہی تینوں عہدوں کے توڑنے کو یہاں فسق قرار دیا گیا ہے ۔