Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

نابکار لوگوں کا تذکرہ ۔ انبیاء اور مومنین پر نظر کرم جن رسولون کا ذکر گذر چکا ہے یعنی نوح ، ہود ، صالح ، لوط ، شعیب صلوات اللہ و سلامہ علیھم وعلی سائر الانبیاء اجمعین کے بعد ہم نے حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام کو اپنی دلیلیں عطا فرما کر بادشاہ مصر ( فرعون ) اور اس کی قوم کی طرف بھیجا ۔ لیکن انہوں نے بھی جھٹلایا اور ظلم و زیادتی کی اور صاف انکار کر دیا حالانکہ ان کے دلوں میں یقین گھر کر چکا تھا ۔ اب آپ دیکھ لو کہ اللہ کی راہ سے رکنے والوں اور اس کے رسولوں کا انکار کرنے والوں کا کیا انجام ہوا ؟ وہ مع اپنی قوم کے ڈبو دیئے گئے اور پھر لطف یہ ہے کہ مومنوں کے سامنے بےکسی کی پکڑ میں پکڑ لئے گئے تاکہ ان کے دل ٹھنڈے ہوں اور عبرت ہو ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

103۔ 1 یہاں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر شروع ہو رہا ہے جو مذکورہ انبیاء کے بعد آئے جو جلیل القدر پیغمبر تھے، جنہیں فرعون مصر اور اس کی قوم کی طرف دلائل و معجزات دے کر بھیجا تھا۔ 103۔ 2 یعنی انہیں غرق کردیا گیا، جیسا کہ آگے آئے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٨] یعنی مذکورہ پانچ معروف پیغمبروں کے حالات بیان کرنے کے بعد پھر وہی سلسلہ شروع ہو رہا ہے اور اس کا آغاز سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے تفصیلی حالات سے ہو رہا ہے۔ درمیان میں انبیاء (علیہم السلام) کی دعوت اور منکرین دعوت کے انجام کے درمیانی مراحل اور ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ کا ذکر کیا گیا جو ان سب انبیاء (علیہم السلام) کے حالات میں قدر مشترک کے طور پر پائی جاتی ہے۔- [١٠٩] اللہ کی آیات سے فرعون کی ناانصافی :۔ ناانصافی کی بات یہ تھی کہ انہوں نے ان معجزات کو جادو کے کرشمے کہہ دیا۔ اور یہ ناانصافی ویسی ہی تھی جیسے قریش مکہ نے قرآن سن کر یہ کہہ دیا تھا کہ یہ تو کسی دوسرے آدمی کی تصنیف ہے اور اس جیسا کلام ہم بھی پیش کرسکتے ہیں پھر جب انہیں قرآن نے اس بات کا باقاعدہ طور پر چیلنج کردیا تو اپنی سر توڑ کوششوں کے باوجود ان کے فصیح وبلیغ ادیبوں سے کچھ بھی بن سر نہ آیا بالکل اسی طرح فرعون اور اس کے درباریوں نے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کو جادو کے کرشمے سمجھ کر اپنے ملک کے بلند پایہ جادوگروں کو آپ سے مقابلے کے لیے لاکھڑا کیا۔ پھر جب ان جادوگروں نے عصائے موسیٰ کی کیفیت دیکھی تو برملا اعتراف کرلیا کہ یہ جادو سے بالاتر کوئی چیز ہے اگر یہ جادو ہوتا تو ناممکن تھا کہ وہ ہماری دسترس سے باہر ہوتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ : وہ سب کے سب غرق کردیے گئے اور ان کی ساری شان و شوکت خاک میں ملا دی گئی۔ یہ چھٹا قصہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں بیان فرمایا ہے اور اسے جس تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے دوسرے کسی قصے کو اس طرح بیان نہیں فرمایا۔ وجہ یہ ہے کہ جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات ان تمام انبیاء سے بڑھ کر تھے اسی طرح ان کی امت بھی جہالت اور سرکشی میں سب سے بڑھی ہوئی تھی۔ البتہ یہاں ان کی زندگی کے ابتدائی حالات کے بجائے دوسرے انبیاء کی طرح دعوت کے آغاز سے بات شروع فرمائی۔ بعض علماء نے فرمایا، اس آیت میں موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجنے کا ذکر فرمایا ہے، فرعون اور اس کی قوم کا ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ سارا اختیار فرعون کے ہاتھ میں تھا، اگر وہ ایمان لے آتا تو اس کی قوم بھی ایمان لے آتی اور اس جبر و قہر میں اس کے سردار اس کے معاون تھے۔ اس ظالم نے بنی اسرائیل کے علاوہ اپنی قوم کو بھی اتنا بےوقعت بنادیا تھا کہ ان کے پاس فرعون کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں رہا تھا۔ دیکھیے سورة زخرف (٥٨) گویا اس کی اپنی قوم بھی اس کے ہاتھوں مظلوم تھی مگر بنی اسرائیل پر ظلم تو انھیں غلام بنا کر رکھنے، ملک سے نکلنے کی ممانعت اور ان کی اولاد کے قتل کی حد تک پہنچ چکا تھا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - پھر ان (مذکور پیغمبروں) کے بعد ہم نے (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے دلائل (یعنی معجزات) دے کر فرعون کے اور اس کے امراء کے پاس (ان کی ہدایت و تبلیع کے لئے) بھیجا سو (جب موسیٰ (علیہ السلام) نے وہ دلائل ظاہر کئے تو) ان لوگوں نے ان (معجزات) کا بالکل حق ادا نہ کیا (کیونکہ ان کا حق اور مقتضا یہ تھا کہ ایمان لے آتے) سو دیکھئے ان مفسدوں کا کیا (برا) انجام ہوا (جیسا اور جگہ ان کا غرق اور ہلاک ہونا مذکور ہے۔ یہ تو تمام قصہ کا اجمال تھا آگے تفصیل ہے یعنی) اور ( موسیٰ (علیہ السلام) نے (فرعون کے پاس بحکم الہی جاکر) فرمایا کہ میں رب العالمین کی طرف سے (تم لوگوں کی ہدایت کے واسطے) پیغمبر (مقرر ہوا) ہوں (جو مجھ کو کاذب بتلائے اس کی غلطی ہے کیونکہ) میرے لئے یہی شایان ہے کہ بجز سچ کے خدا کی طرف کوئی بات منسوب نہ کروں (اور میں رسالت کا خالی دعوی ہی نہیں کرتا بلکہ) میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک بڑی دلیل (یعنی معجزہ) بھی لایا ہوں (جو طلب کے وقت دکھلا سکتا ہوں) سو (جب میں رسول مع الدلیل ہوں تو میں جو کہوں اس کی اطاعت کر۔ چناچہ منجملہ ان امور کے ایک یہ کہتا ہوں کہ) تو بنی اسرائیل کو (اپنی بیگار سے خلاصی دے کر) میرے ساتھ (ملک شام کو جو ان کا اصلی وطن ہے) بھیج دے فرعون نے کہا کہ اگر آپ (من جانب اللہ) کوئی معجزہ لے کر آئے ہیں تو اس کو اب پیش کیجئے اگر آپ (اس دعوی میں) سچے ہیں، بس آپ نے (فورا) اپنا عصا (زمین پر) ڈال دیا سو دفعة وہ صاف ایک اژدھا بن گیا (جس کے اژدھا ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہوسکتا تھا) اور ( دوسرا معجزہ یہ ظاہر کیا کہ) اپنا ہاتھ (گریبان کے اندر بغل میں دباکر) باہر نکال لیا سو وہ یکایک سب دیکھنے والوں کے روبرو بہت ہی چمکتا ہوا ہوگیا (کہ اس کو بھی سب نے دیکھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے جو یہ معجزات عظیمہ ظاہر ہوئے تو فرعون نے اہل دربار سے کہا کہ یہ شخص بڑا جادوگر ہے اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ اپنے جادو سے تم لوگوں پر غالب آکر یہاں کا رئیس ہوجائے اور تم کو یہاں آباد نہ رہنے دے سو اس بارے میں تمہارا کیا مشورہ ہے۔ چناچہ سورة شعراء میں یہ قول فرعون کا منقول ہے اس کو سن کر جیسا کہ مصاحبین سلاطین کی عادت ان کی ہاں میں ہاں ملانے کی ہوتی ہے فرعون کے قول کی تصدیق و موافقت کے لئے) قوم فرعون میں جو سردار (اور اہل دربار) لوگ تھے انہوں نے (ایک دوسرے سے) کہا کہ واقعی (جیسا ہمارے بادشاہ کہتے ہیں کہ) یہ شخص بڑا جادوگر ہے (ضرور) یہ (ہی) چاہتا ہے کہ (اپنے جادو کے زور سے خود مع بنی اسرائیل کے رئیس ہوجائے اور) تم کو (بوجہ اس کے کہ بنی اسرائیل کی نظر میں خار ہو) تمہاری (اس) سر زمین سے باہر کر دے سو تم لوگ (جیسا کہ بادشاہ دریافت کررہے ہیں) کیا مشورہ دیتے ہو۔ - معارف و مسائل - اس سورت میں جتنے قصص اور واقعات انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی امتوں کے ذکر کئے گئے ہیں یہ ان میں سے چھٹا قصہ ہے، اس کو زیادہ تشریح و تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کا سبب یہ بھی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات بہ نسبت دوسرے انبیاء سابقین کی تعداد میں بھی زیادہ ہیں اور قوت ظہور میں بھی۔ اسی طرح اس کے بالمقابل ان کی قوم بنی اسرائیل کی جہالت اور ہٹ دھرمی بھی پچھلی امتوں کے مقابلہ میں زیادہ اشد ہے اور یہ بھی ہے کہ اس قصہ کے ضمن میں بہت سے معارف و مسائل اور احکام بھی آئے ہیں۔- پہلی آیت میں ارشاد فرمایا کہ ان کے بعد یعنی نوح اور ہود اور لوط اور شعیب (علیہم السلام) کے یا ان کی قوموں کے بعد ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی آیات دے کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا۔ آیت سے مراد تورات کی آیات بھی ہوسکتی ہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات بھی۔ اور فرعون اس زمانہ میں ہر باشاہ مصر کا لقب ہوتا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کے فرعون کا نام قابوس بیان کیا جاتا ہے (قرطبی)- فَظَلَمُوا بِھَا کی ضمیر مجرور آیات کی طرف راجع ہے، یعنی یہ ہیں کہ ان لوگوں نے ہماری آیات پر ظلم کیا، اور آیات الہی پر ظلم کرنے سے مراد یہ ہے کہ ان لوگوں نے آیات الہی کی قدر نہ پہچانی، ان پر شکر کے بجائے ناشکری، اقرار کے بجائے انکار، ایمان کے بجائے کفر اختیار کیا۔ کیونکہ ظلم کے اصلی معنی ہی یہ ہیں کہ کسی چیز کو اس کے محل اور موقع کے خلاف استعمال کرنا۔- پھر فرمایا فانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ ، یعنی دیکھو تو سہی کہ پھر ان فساد کرنے والوں کا کیا انجام ہوا۔ مراد یہ ہے کہ ان کے حالات اور انجام بد پر غور کرو اور عبرت حاصل کرو۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِہِمْ مُّوْسٰي بِاٰيٰتِنَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕہٖ فَظَلَمُوْا بِہَا۝ ٠ ۚ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِيْنَ۝ ١٠٣- بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، - فالبعث ضربان :- بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة .- وإلهي، وذلک ضربان :- أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد .- والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] ، يعني : يوم الحشر - ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا - پس بعث دو قمخ پر ہے - بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا ) - دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ - دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے - موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- ملأ - المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] - ( م ل ء ) الملاء - ( م ل ء ) الملاء ۔ جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہوتونظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔ - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - كيف - كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] .- ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔- عاقب - والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] ،- ( ع ق ب ) العاقب - اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔- فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٣۔ ١٠٤۔ ١٠٥) ان رسولوں کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نو معجزات دے کر بھیجا گیا، انہوں نے (یعنی بنی اسرائیل نے) معجزات کا انکار کیا تو ان مفسدوں کا انجام ہلاکت وتباہی ہوا فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا، میرے لیے یہی شایان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف بغیر سچ کے اور کچھ منسوب نہ کروں، بنی اسرائیل کو بمع تمام مال کے میرے ساتھ بھیج دے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٣ (ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْم بَعْدِہِمْ مُّوْسٰی بِاٰیٰتِنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَاءِہٖ ) - اب تک جن پانچ قوموں کا ذکر ہوا ہے وہ جزیرہ نمائے عرب ہی کے مختلف علاقوں میں بستی تھیں ‘ لیکن اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حوالے سے بنی اسرائیل کا ذکر ہوگا جو مصر کے باسی تھے۔ مصر بر اعظم افریقہ کے شمال مشرقی کونے میں واقع ہے۔ اس قصے میں صحرائے سینا کا بھی ذکر آئے گا ‘ جو مثلث شکل میں ایک جزیرہ نما ( ) ہے ‘ جو مصر اور فلسطین کے درمیان واقع ہے۔ مصر میں اس وقت فراعنہ ( فرعون کی جمع) کی حکومت تھی۔ جس طرح عراق کے قدیم بادشاہ نمرود کہلاتے تھے اسی طرح مصر میں اس دور کے بادشاہ کو فرعون کہا جاتا تھا۔ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو براہ راست اپنے وقت کے بادشاہ (فرعون) کے پاس بھیجا گیا تھا۔- (فَظَلَمُوْا بِہَاج فانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ ) - یعنی ہماری نشانیوں کا انکار کر کے ان کی حق تلفی کی اور انہیں جادوگری قرار دے کر ٹالنے کی کوشش کی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :83 اوپر جو قصے بیان ہوئے ان سے مقصود یہ ذہن نشین کرانا تھا کہ جو قوم خدا کا پیغام پانے کے بعد اسے رد کر دیتی ہے اسے پھر ہلاک کیے بغیر نہیں چھوڑا جاتا ۔ اس کے بعد اب موسی و فرعون اور بنی اسرائیل کا قصہ کئی رکوعوں تک مسلسل چلتا ہے جس میں اس مضمون کے علاوہ چند اور اہم سبق بھی کفار قریش ، یہود اور ایمان لانے والے گروہ کر دیے گئے ہیں ۔ کفار قریش کو اس قصے کے پیرائے میں یہ سمجھا نے کی کوشش کی گئی ہے کہ دعوت حق کے ابتدائی مرحلوں میں حق اور باطل کی قوتوں کا جو تناسب بظاہر نظر آتا ہے ، اس سے دھوکا نہ کھاناچاہیے ۔ حق کی تو پوری تاریخ ہی اس بات پر گواہ ہے کہ وہ ایک فی قوم بلکہ ایک فی دنیا کی اقلیت سے شروع ہوتا ہے اور بغیر کسی سروسامان کے اس باطل کےخلاف لڑائی چھیڑ دیتا ہے جس کی پشت پر بڑی بڑی قوموں اور سلطنتوں کی طاقت ہوتی ہے ، پھر بھی آخر کار وہی غالب آکر رہتا ہے ۔ نیز اس قصے میں ان کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ داعی حق کے مقابلہ میں جو چالیں چلی جاتی ہیں اور جن تدبیروں سے اس کی دعوت کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ کس طرح اُلٹی پڑتی ہیں ۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ منکریں حق کی ہلاکت کا آخری فیصلہ کرنے سے پہلے ان کو کتنی کتنی طویل مدّت تک سنبھلنے اور درست ہونے کے مواقع دیتا چلا جاتا ہے اور جب کسی تنبیہ کسی سبق آموز واقعے اور کسی روشن نشانی سے بھی وہ اثر نہیں لیتے تو پھر وہ انہیں کیسی عبرتناک سزا دیتا ہے ۔ جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے ان کو اس قصے میں دوہرا سبق دیا گیا ہے ۔ پہلا سبق اس بات کا کہ اپنی قلت و کمزوری کو اور مخالفین حق کی کثرت و شوکت کو دیکھ کر ان کی ہمت نہ ٹوٹے اور اللہ کی مدد آنے میں دیر ہوتے دیکھ کر وہ دل شکستہ نہ ہوں ۔ دوسرا سبق اس بات کا کہ ایمان لانے کے بعد جو گروہ یہودیوں کی سی روش اختیار کرتا ہے وہ پھر یہودیوں ہی کی طرح خدا کی لعنت میں گرفتار بھی ہوتا ہے ۔ بنی اسرائیل کے سامنے ان کی عبرتناک تاریخ پیش کرکے انہیں باطل پرستی کے برے نتائج پر متنبہ کیا گیا ہے اور اس پیغمبر پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے جو پچھلے پیغمبروں کے لائے ہوئے دین کو تمام آمیزشوں سے پاک کر کے پھر اس کی اصلی صورت میں پیش کر رہا ہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :84 نشانیوں کے ساتھ ظلم کیا ، یعنی ان کو نہ مانا اور انہیں جادو گری قرار دے کر ٹالنے کی کوشش کی ۔ جس طرح کسی ایسے شعر کو جو شعریت کا مکمل نمونہ ہو : تک بندی سے تعبیر کرنا اور اس کا مذاق اڑانا نہ صرف اس شعر کے ساتھ بلکہ نفس شاعری اور ذوق شعری کے ساتھ بھی ظلم ہے ، اسی طرح وہ نشانیاں جو خود اپنے من جانب اللہ ہونے پر صریح گواہی دے رہی ہوں اور جن کے متعلق کوئی صاحب عقل آدمی یہ گمان تک نہ کر سکتا ہو کہ سحر کے زور سے بھی ایسی نشانیاں ظاہر ہو سکتی ہیں ، بلکہ جن کے متعلق خود فن سحر کے ماہرین نے شہادت دے دی ہو کہ وہ ان کے فن کی دسترس سے بالا تر ہیں ، ان کو سحر قرار دینا نہ صرف ان نشانیوں کے ساتھ بلکہ عقل سلیم اور صداقت کے ساتھ بھی ظلم عظیم ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

52:: یہاں سے آیت نمبر : ١٦٢ تک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعے کے کچھ اہم حصے تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں، اس سورت میں فرعون کے ساتھ آپ کی گفتگو اور مقابلے اور اس کے غرق ہونے کی تفصیل، نیز حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عطا ہونے کے واقعات آرہے ہیں، آپ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی چوتھی پشت میں آتے ہیں، سورۂ یوسف میں قرآن کریم نے بتایا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) جب مصر کے وزیر خزانہ بن گئے توانہوں نے اپنے والدین اور بھائیوں کو فلسطین سے مصر بلالیا تھا، اسرائیلی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی ساری اولاد جو بنو اسرائیل کہلاتی ہے پھر وہیں آباد ہوگئی تھی، اور مصر کے بادشاہ نے ان کو شہری آبادی سے الگ ایک علاقہ دے دیا تھا، مصر کے ہر بادشاہ کو فرعون کہا جاتا تھا، حضرت یوسف (علیہ السلام) کی وفات کے بعد رفتہ رفتہ مصر کے بادشاہوں نے بنی اسرائیل کو اپنا غلام سمجھنا شروع کردیا اور دوسری طرف تکبر میں آکر انہی میں کا ایک فرعون (جس کا نام جدید تحقیق کے مطابق منفتاح تھا) خدائی کا دعوے دار بن بیٹھا، ان حالات میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پیغمبر بناکر اس کے پاس بھیجا گیا، ان کے پیدائش، مدین کی طرف ہجرت، اور پھر نبوت عطا ہونے کے واقعات توانشاء اللہ سورۃ طہ (سورہ نمبر : ٢٠) اور سورۃ قصص (سورہ نمبر : ٢٨) میں آئیں گے، اس کے علاوہ مزید ٣٥ سورتوں میں آپ کے واقعات کے مختلف حصے بیان فرمائے ہیں ؛ لیکن فرعون کے ساتھ ان کے جو واقعات پیش آئے ان کا تدکرہ یہاں ہورہا ہے۔